Tag: حکیم احمد شجاع

  • حکیم احمد شجاع: اردو ادب اور فلم کی دنیا کا معروف نام

    حکیم احمد شجاع: اردو ادب اور فلم کی دنیا کا معروف نام

    اردو کے معروف انشا پرداز، افسانہ نگار، فلمی مصنّف اور شاعر حکیم احمد شجاع 4 جنوری 1969ء میں انتقال کرگئے تھے۔ تقسیمِ ہند سے قبل حکیم احمد شجاع نے چند فلمیں‌ لکھی تھیں اور مکالمے تحریر کیے تھے، لیکن پاکستان میں‌ بطور مصنّف ان کی پہلی فلم شاہدہ تھی جو 1949ء میں‌ ریلیز ہوئی۔

    حکیم احمد شجاع نے لاہور میں سنہ 1896ء میں‌ آنکھ کھولی۔ اسی شہر سے میٹرک کیا اور پھر ایم اے او کالج علی گڑھ سے ایف اے کی سند لی۔ میرٹھ کالج سے بی اے کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ وہ ایک بیورو کریٹ کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے اور 1920ء میں پنجاب اسمبلی سے منسلک ہونے کے بعد سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے تھے۔ حکیم احمد شجاع مجلسِ زبان دفتری کے سیکریٹری بھی رہے۔ ان کے زیرِ نگرانی ہزاروں انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا۔ انھوں نے علّامہ اقبالؒ کے ساتھ مل کر اس دور کی اردو کی درسی کتب بھی مرتب کی تھیں۔

    1948ء سے 1969ء تک مجلسِ زبان دفتری کے سیکرٹری کے طور پر حکیم احمد شجاع نے خوب کام کیا، لیکن رسالہ "ہزار داستان” اور بچوں کے لیے "نونہال” کا اجرا کر کے بھی انھوں نے علمی و ادبی سرگرمیوں میں‌ خود کو مشغول رکھا۔ حکیم احمد شجاع کی خود نوشت "خوں بہا” کے نام سے شایع ہوئی جب کہ ایک مشہور تصنیف لاہور کے اندرون بھاٹی دروازے کی ادبی تاریخ پر "لاہور کا چیلسی” کے نام سے تھی۔

    حکیم احمد شجاع افسانہ اور ناول نگاری میں بھی معروف ہوئے اور ان کا ناول "باپ کا گناہ” بہت مشہور ہوا جسے انھوں نے ڈرامہ کے طرز پر لکھا تھا۔ یہ ناول 1922ء میں لکھا گیا تھا۔ اس ناول کی کہانی پر قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں متعدد کام یاب فلمیں بنائی گئیں۔

    بطور مصنّف حکیم احمد شجاع کی پہلی پاکستانی فلم شاہدہ کے تمام گیت بھی انہی کے قلم سے نکلے تھے اور ان کی موسیقی بابا جی اے چشتی اور ماسٹر غلام حیدر جیسے عظیم موسیقاروں نے ترتیب دی تھی، لیکن اس فلم کا کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ حکیم احمد شجاع کو بطور فلمی شاعر کام یابی نہیں ملی۔

    حکیم احمد شجاع کو اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانے اور ناول کےعلاوہ اپنے منفرد طرزِ تحریر اور شان دار اسلوب میں اپنی خود نوشت اور دیگر کتب یادگار چھوڑیں۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • حکیم احمد شجاع: انشاء پرداز، شاعر اور ادیب

    حکیم احمد شجاع: انشاء پرداز، شاعر اور ادیب

    اردو زبان و ادب کی کئی نابغۂ روزگار شخصیات اور اہلِ قلم کو آج ہم فراموش کرچکے ہیں‌۔ نئی نسل نے ان کے نام، ادب میں ان کے مقام و مرتبے سے واقف نہیں۔ حکیم احمد شجاع بھی ایک انشا پرداز، افسانہ نگار، فلمی مصنّف اور شاعر تھے لیکن ان کا تذکرہ آج بہت کم ہوتا ہے۔ آج حکیم احمد شجاع کی برسی ہے۔

    1969ء میں وفات پانے والے حکیم احمد شجاع نے تقسیمِ ہند سے قبل چند فلموں‌ کے مکالمے تحریر کیے تھے، لیکن پاکستان میں‌ بطور مصنّف ان کی پہلی فلم شاہدہ تھی جو 1949ء میں‌ ریلیز ہوئی۔ حکیم صاحب نے لاہور میں سنہ 1896ء میں‌ آنکھ کھولی۔ اسی شہر سے میٹرک کیا اور پھر ایم اے او کالج علی گڑھ سے ایف اے کی سند لی۔ میرٹھ کالج سے بی اے کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ وہ ایک بیورو کریٹ کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے اور 1920ء میں پنجاب اسمبلی سے منسلک ہونے کے بعد سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے تھے۔ حکیم احمد شجاع مجلسِ زبان دفتری کے سیکریٹری بھی رہے۔ ان کے زیرِ نگرانی ہزاروں انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا۔ انھوں نے علّامہ اقبالؒ کے ساتھ مل کر اس دور کی اردو کی درسی کتب بھی مرتب کی تھیں۔

    1948ء سے 1969ء تک مجلسِ زبان دفتری کے سیکرٹری کے طور پر حکیم احمد شجاع نے خوب کام کیا، لیکن رسالہ "ہزار داستان” اور بچوں کے لیے "نونہال” کا اجرا کر کے بھی انھوں نے علمی و ادبی سرگرمیوں میں‌ خود کو مشغول رکھا۔ حکیم احمد شجاع کی خود نوشت "خوں بہا” کے نام سے شایع ہوئی جب کہ ایک مشہور تصنیف لاہور کے اندرون بھاٹی دروازے کی ادبی تاریخ پر "لاہور کا چیلسی” کے نام سے تھی۔

    حکیم احمد شجاع افسانہ اور ناول نگاری میں بھی معروف ہوئے اور ان کا ناول "باپ کا گناہ” بہت مشہور ہوا جسے انھوں نے ڈرامہ کے طرز پر لکھا تھا۔ یہ ناول 1922ء میں لکھا گیا تھا۔ اس ناول کی کہانی پر قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں متعدد کام یاب فلمیں بنائی گئیں۔

    بطور مصنّف حکیم احمد شجاع کی پہلی پاکستانی فلم شاہدہ کے تمام گیت بھی خود انھوں نے لکھے اور ان کی موسیقی بابا جی اے چشتی اور ماسٹر غلام حیدر جیسے عظیم موسیقاروں نے ترتیب دی تھی، لیکن اس فلم کا کوئی گیت مقبول نہیں ہوسکا۔ کہا جاسکتا ہے کہ حکیم احمد شجاع کو بطور فلمی شاعر کام یابی نہیں ملی۔

    حکیم احمد شجاع کو اردو زبان کے صفِ اوّل کے افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ افسانے اور ناول کےعلاوہ ان کے منفرد طرزِ تحریر اور شان دار اسلوب میں ان کی خود نوشت اور دیگر کتب بھی ان کی یاد دلاتی ہیں۔ حکیم احمد شجاع لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • حکیم احمد شجاع: اردو کے مشہور انشا پرداز اور صف اوّل کے افسانہ نگار

    حکیم احمد شجاع اردو کے مشہور انشا پرداز، افسانہ نگار، فلمی مصنّف اور شاعر تھے جنھوں نے 1969ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ تقسیمِ ہند سے قبل بھی حکیم احمد شجاع نے چند فلمیں‌ اور ان کے مکالمے تحریر کیے تھے، لیکن پاکستان میں‌ بطور مصنّف ان کی پہلی فلم شاہدہ تھی جو 1949ء میں‌ ریلیز ہوئی تھی۔

    اردو کے اس معروف ادیب اور شاعر نے لاہور میں سنہ 1896ء میں‌ آنکھ کھولی۔ اسی شہر سے میٹرک کیا اور پھر ایم اے او کالج علی گڑھ سے ایف اے کی سند لی۔ میرٹھ کالج سے بی اے کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ وہ ایک بیورو کریٹ کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے اور 1920ء میں پنجاب اسمبلی سے منسلک ہونے کے بعد سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے تھے۔ حکیم احمد شجاع مجلسِ زبان دفتری کے سیکریٹری بھی رہے۔ ان کے زیرِ نگرانی ہزاروں انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا۔ انھوں نے علّامہ اقبالؒ کے ساتھ مل کر اس دور کی اردو کی درسی کتب بھی مرتب کی تھیں۔

    1948ء سے 1969ء تک مجلسِ زبان دفتری کے سیکرٹری کے طور پر حکیم احمد شجاع نے خوب کام کیا، لیکن رسالہ "ہزار داستان” اور بچوں کے لیے "نونہال” کا اجرا کر کے بھی انھوں نے علمی و ادبی سرگرمیوں میں‌ خود کو مشغول رکھا۔ حکیم احمد شجاع کی خود نوشت "خوں بہا” کے نام سے شایع ہوئی جب کہ ایک مشہور تصنیف لاہور کے اندرون بھاٹی دروازے کی ادبی تاریخ پر "لاہور کا چیلسی” کے نام سے تھی۔

    حکیم احمد شجاع افسانہ اور ناول نگاری میں بھی معروف ہوئے اور ان کا ناول "باپ کا گناہ” بہت مشہور ہوا جسے انھوں نے ڈرامہ کے طرز پر لکھا تھا۔ یہ ناول 1922ء میں لکھا گیا تھا۔ اس ناول کی کہانی پر قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں متعدد کام یاب فلمیں بنائی گئیں۔

    بطور مصنّف حکیم احمد شجاع کی پہلی پاکستانی فلم شاہدہ کے تمام گیت بھی انہی کے قلم سے نکلے تھے اور ان کی موسیقی بابا جی اے چشتی اور ماسٹر غلام حیدر جیسے عظیم موسیقاروں نے ترتیب دی تھی، لیکن اس فلم کا کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ حکیم احمد شجاع کو بطور فلمی شاعر کام یابی نہیں ملی۔

    حکیم احمد شجاع کو اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانے اور ناول کےعلاوہ اپنے منفرد طرزِ تحریر اور شان دار اسلوب میں اپنی خود نوشت اور دیگر کتب یادگار چھوڑیں۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • لاہور کا چیلسی لکھنے والے حکیم احمد شجاع کون تھے؟

    لاہور کا چیلسی لکھنے والے حکیم احمد شجاع کون تھے؟

    آج حکیم احمد شجاع کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ انشا پرداز، افسانہ نگار، شاعر اور ڈراما نویس کی حیثیت سے اردو ادب میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔

    4 جنوری 1969ء کو لاہور میں وفات پانے والے حکیم احمد شجاع کی پیدائش کا سن 1896ء ہے۔ انھوں نے لاہور سے میٹرک اور ایم اے او کالج علی گڑھ سے ایف اے کیا۔ میرٹھ کالج سے بی اے کی سند حاصل کی اور شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔

    1920ء میں پنجاب اسمبلی سے منسلک ہوئے اور وہاں سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ وہ مجلسِ زبان دفتری کے سیکریٹری بھی رہے۔ ان کے زیرِ نگرانی ہزاروں انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا۔

    حکیم احمد شجاع کو اردو کے صفِ اوّل کے ڈرامہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانے اور ناول ہی نہیں فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔ ان کا طرزِ تحریر منفرد اور اسلوب شان دار تھا۔ خوں بہا کے نام سے ان کی ایک خود نوشت بھی شایع ہوئی۔ حکیم احمد شجاع نے لاہور کے اندرون بھاٹی دروازے کی تاریخ کو لاہور کا چیلسی کے نام سے رقم کیا۔

    وہ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نام وَر ادیب، انشا پرداز اور ڈراما نگار حکیم احمد شجاع کی برسی

    نام وَر ادیب، انشا پرداز اور ڈراما نگار حکیم احمد شجاع کی برسی

    آج اردو کے نام وَر انشا پرداز، افسانہ نگار، شاعر اور مشہور ڈراما نویس حکیم احمد شجاع کا آج یومِ وفات ہے۔ وہ 4 جنوری 1969ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔

    1896ء میں‌ پیدا ہونے والے حکیم احمد شجاع نے لاہور سے میٹرک اور ایم اے او کالج علی گڑھ سے ایف اے کے بعد میرٹھ کالج سے بی اے کی سند حاصل کی اور شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ 1920ء میں پنجاب اسمبلی سے منسلک ہوئے اور وہاں سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ وہ مجلس زبان دفتری کے سیکریٹری بھی رہے اور ان کے زیر نگرانی ہزاروں انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا۔

    حکیم احمد شجاع اردو کے صفِ اوّل کے ڈرامہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ افسانے اور ناول تحریر کرنے کے ساتھ انھوں نے فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔ ان کا طرزِ تحریر منفرد اور اسلوب شان دار تھا۔ انھیں اپنے وقت کے باکمال نثر نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    ان کی خود نوشت خوں بہا کے نام سے شایع ہوئی۔ انھوں نے لاہور کے اندرون بھاٹی دروازے کی تاریخ لاہور کا چیلسی کے نام سے رقم کی۔ حکیم شجاع قرآن پاک کی تفسیر تحریر کررہے تھے، لیکن یہ کام مکمل نہ کرسکے اور صرف پانچ پاروں کی تفسیر لکھی تھی کہ ان کا انتقال ہو گیا۔

    انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔