Tag: حکیم محمد سعید

  • حکیم محمد سعید: ایک جوہرِ قابل جسے ہم نے گنوا دیا

    حکیم محمد سعید: ایک جوہرِ قابل جسے ہم نے گنوا دیا

    حکیم محمد سعید نے وطنِ عزیز میں مستقبل کے معماروں کی تربیت، راہ نمائی اور کردار سازی کو اپنا فرض جانا اور اس کے لیے دن رات محنت کی اور ’’ہمدرد نونہال‘‘ کے اجراء کے علاوہ مختلف ادارے قائم کیے۔ بدقسمتی سے 1998ء میں کراچی میں‌ دہشت گردی کے عفریت نے اس شجرِ سایہ دار کو نگل لیا۔ 17 اکتوبر کو حکیم محمد سعید کو قتل کر دیا گیا۔

    پاکستان کے نام وَر طبیب اور ادویّہ سازی کے مستند اور مشہور ادارے ’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ اور نونہال جیسے بچّوں‌ کے مقبول رسالے کے بانی حکیم محمد سعید گورنر سندھ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

    انھوں نے 9 جنوری 1920ء کو دلّی میں آنکھ کھولی، حکیم سعید طبِ مشرق سے وابستہ گھرانے کے فرد تھے۔ ان کے والد نے 1906ء میں دلّی میں طب و حکمت کا ادارہ ’ہمدرد دواخانہ‘ قائم کیا تھا۔ حکیم سعید نے ابتدائی تعلیم کے دوران عربی، فارسی، اور انگریزی زبانیں سیکھیں اور 18 برس کی عمر میں دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ انھوں نے فارمیسی میں گریجویشن اور علم الادویّہ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942ء میں اپنا خاندانی کام سنبھالا اور ہمدرد وقف لیبارٹریز سے منسلک ہوگئے۔

    1945ء میں انھوں نے فارمیسی میں ماسٹرز بھی کرلیا۔ اسی برس ان کی شادی نعمت بیگم سے ہوگئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد حکیم محمد سعید اپنے کنبے کے ساتھ کراچی چلے آئے اور یہاں ’ہمدرد پاکستان‘ کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے 1952ء میں انقرہ یونیورسٹی، ترکی سے فارمیسی میں ڈاکٹریٹ کی اور وطن واپس آکر سندھ یونیورسٹی میں پروفیسر آف فارمیسی کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے۔ بعد ازاں وہ مستعفی ہو گئے۔

    ان کے قائم کردہ ادارے کے زیرِ اہتمام 1985ء میں یونیورسٹی قائم کی گئی جس کے وہ پہلے چانسلر مقرر ہوئے۔ بعد میں انھوں نے مدینۃُ الحکمت کی بنیاد رکھی۔ طبّ و حکمت کے ساتھ وہ ان تعلیمی اداروں کے معاملات دیکھتے ہوئے علم و ادب سے بھی وابستہ رہے۔ انھوں نے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں طب و حکمت سے متعلق تعلیمی سرگرمیوں میں‌ حصّہ لیا اور پروگراموں میں‌ شرکت کرتے رہے۔ حکیم سعید اردو اور انگریزی کی دو سو کے قریب کتابوں کے مصنّف تھے جب کہ نونہال بچّوں کا وہ مقبول رسالہ تھا جس کے بانی حکیم سعید نے بلاشبہ دو نسلوں کو نہ صرف لکھنا پڑھنا سکھایا، بلکہ ان کو غور و فکر کی عادت ڈالی، دین و دنیا کی تعلیم کا ذوق و شوق پروان چڑھایا، اخلاق و آدابِ معاشرت سکھائے اور اس رسالے نے ادبِ‌ اطفال کے ساتھ اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

    ان کی بیٹی سعدیہ راشد کے ایک انٹرویو سے ماخوذ یہ پارہ ہمیں حکیم سعید کے معمولات اور ان کی شخصیت کو سمجھنے میں‌ مدد دیتا ہے، وہ لکھتی ہیں:

    "شروع میں ابّا جان (حکیم محمد سعید) کا غصہ بہت تیز تھا۔ سب ان سے ڈرتے تھے کہ وہ ناراض نہ ہوں، لیکن برہمی میں وہ ڈانٹتے ڈپٹتے نہیں تھے۔

    میں نے دفتر میں انھیں کبھی چلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ غصے میں ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور وہ خاموش ہو جاتے۔ جب وہ خاموش ہو جاتے، تو سب خاموش ہو جاتے، لیکن یہ صحیح نہ تھا۔ میڈم ڈی سلوا ان کے مزاج کو سمجھ گئی تھیں وہ بولتی رہتی تھیں۔ بولتے رہنے سے ابّا جان کا غصہ جلدی اتر جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ ابّا جان کا غصہ کم ہوتا گیا، وہ آخر میں تو بہت نرم ہوگئے تھے۔ میڈم کہتی تھیں ”وہ ایک چیتے کی طرح تھے، لیکن اب ایک معصوم بلّی کی طرح ہو گئے ہیں۔“

    ابّا جان کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رفقائے کار سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ وہ شوریٰ کے قائل تھے۔ جو لوگ ان کے اعتماد کے تھے، وہ ان سب کی رائے سنتے، غور کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ فیصلہ کر لیتے، تو بس اس پر قائم رہتے۔ اپنے مشن کی کام یابی کے لیے انھیں بڑی محنت کرنا پڑی۔ ایک طرف ادارہ ’ہمدرد‘ کی تعمیر و ترقی، دوسری طرف طبِ یونانی جسے ابّا جان کہتے تھے کہ یہ طبِّ اسلامی ہے۔ اس کا دنیا میں نام روشن کرنا اور اسے تسلیم کرانا اور علم کے میدان میں ان کی پیش قدمیاں۔ یہ سب بڑے کام تھے۔ ان میں بڑی جاں فشانیاں تھیں۔ ان معاملوں میں جب انھیں کوئی فکر لاحق ہوتی، وہ عموماً خاموش ہو جاتے۔ زیادہ تر اپنے اوپر ہی جھیل لیتے۔ ابتدا میں کسی سے ذکر تک نہ کرتے، لیکن اب بعد میں وہ کہنے لگے تھے۔

    آخر دنوں میں تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے اب اپنی نیند ایک گھنٹے اور کم کرنی پڑے گی۔ میں نے کہا یہ آپ کیسے کریں گے۔ چار گھنٹے تو آپ سوتے ہیں۔ تین گھنٹے سو کر آپ کام کس طرح کریں گے۔ وہ کہنے لگے ’نہیں مجھے کام بہت ہے۔ مجھے اپنی نیند ایک گھنٹے کم کرنی ہی پڑے گی۔ میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ابا جان کو جلدی کیوں تھی۔ وہ مشن کو پورا کرنا چاہتے تھے۔ جو پودے انھوں نے لگائے تھے، انھیں بار آور دیکھنے کے لیے بے چین تھے، وہ اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اپنی سوچ کو انھوں نے اپنے تک محدود نہیں رکھا۔ برملا اظہار کر دیا۔

    وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو اپنے خیالات اپنے احساسات سب ریکارڈ کر گئے ہیں۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے، جو چھپا رہ گیا۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے۔ جسے انھوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا کہ لو پڑھ لو، جان لو اور پرکھ لو۔”

    حکومتِ پاکستان نے حکیم سعید کو 1966ء میں ’ستارۂ امتیاز‘ اور بعد از مرگ ’نشانِ امتیاز‘ سے نوازا۔

  • بچّوں کی دنیا کے ”بھائی جان“ آصف الیاس کا بچپن

    بچّوں کی دنیا کے ”بھائی جان“ آصف الیاس کا بچپن

    آصف الیاس کے اندر ذہین، شرارتی اور ہر میدان میں کام یابی کے جھنڈے گاڑنے کا آرزو مند بچّہ آج بھی کچھ کر دکھانے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔

    فرق ہے تو بس اتنا کہ آصف کی توقعات، خواہشات اور آرزوؤں کا رُخ اب بچّوں کی جانب ہوگیا ہے۔ جب ہی تو انھوں‌ نے بچّوں کے حقوق سے متعلق کئی تھیٹر کیے۔ بطور آرٹسٹ بھی بچّوں کے رسائل کلیاں، گلوبل سائنس، نونہال اور ماہنامہ ہمدرد صحت کے لیے دس سال سے زائد عرصہ کام کیا۔ آرمی پبلک اسکول اور سندھ مدرسۃُ الاسلام میں بحیثیت آرٹ اینڈ ڈرامہ ٹیچر نہایت خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ معلم اور خطاط بھی ہیں۔ بچّوں کے لیے ان گنت کارٹون ڈب کیے۔ ریڈیو پاکستان کے تاریخی شو ”بچّوں کی دنیا“ سے بطور بھائی جان تیرہ برس سے وابستہ ہیں۔ پی ٹی وی کے لیے بچّوں کے متعدد شوز اور ڈرامے لکھے۔ ان دنوں پی ٹی وی پر آصف الیاس کا تحریر کردہ شو ”کریٹو کڈز“ نشر ہورہا ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر بچّوں کے لیے گیت لکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کی موسیقی بھی مرتب کی۔
    انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس عہد میں جب بچّے اور نوجوان کتابوں سے دور ہوتے جارہے ہیں، آصف الیاس صلہ نامی تنظیم کے تحت انھیں کتب بینی کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ نونہالانِ وطن کے معاملے میں آصف الیاس بے حد حسّاس اور ذمہ دار ہی نہیں، جوہری بھی ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو پرکھنے اور انھیں نکھارنے میں ان کو کمال حاصل ہے۔ آصف الیاس ریڈیو اور ٹی وی کے توسط سے کئی باصلاحیت بچّوں کو متعارف کروا چکے ہیں۔ وہ کیڈٹ کالج میں بطور اسسٹنٹ لائبریرین خدمات انجام دے رہے ہیں۔
    ہم نے سوچا کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت، کردار سازی اور انھیں مفید اور کارآمد سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے لیے نہایت ذمہ داری سے اپنا کام کرنے والے آصف الیاس سے پوچھا جائے کہ خود ان کا بچپن کیسے گزرا؟ آصف الیاس کا انٹرویو پیشِ‌ خدمت ہے۔
    آپ کا بچپن کیسا گُزرا؟
    آصف الیاس: میرا بچپن الحمدُللہ بہت شان دار گزرا کیونکہ میں تین بہنوں سے چھوٹا اور دو بہنوں سے بڑا بھائی تھا تو بہنوں کا بھرپور پیار اور شفقت نے محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ میرا کوئی بھائی نہیں ہے۔ ہم دوستوں کی طرح رہتے۔ ہر ایک کی زندگی میں کچھ نہ کچھ کمی تو ہوتی ہے۔ غربت تھی لیکن سادگی تھی۔ امی کی بہت زیادہ سختی تھی، لیکن پیار بھی بہت زیادہ تھا۔ بہت اچھی تعلیم حاصل کی۔
    بچپن میں شرارتی تھے یا صرف پڑھاکو تھے؟
    آصف الیاس: میرا شمار انتہائی شرارتی بچّوں میں ہوتا تھا۔ جب مجھے محسوس ہوا کہ میرے پاس آواز کا ایک جادو ہے، تب میں نے نسوانی آواز بنا کر اپنے ایک رشتہ دار سے بات کی۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ کوئی آنٹی ہیں، بعد میں ان کو پتہ چلا کہ یہ تو الیاس صاحب کے صاحبزادے ہیں تو اس پر پہلے تو ذرا برہم ہوئے اور پھر چونکے بھی اور خوش بھی ہوئے تھے میری فن کاری پر۔
    اسکول کے زمانے کا یادگار واقعہ؟
    آصف الیاس: جماعت چہارم میں اپنی اوّلین سندھی تقریر میں پہلا انعام حاصل کرنا۔جس کی دھوم پورے اسکول میں مچی تھی، مجھے اعزازی کپ کے ساتھ پورے اسکول کا دورہ کروایا گیا تھا۔
    تعلیمی میدان میں بچپن کی شان دار اور یادگار کام یابی کون سی تھی؟
    آصف الیاس: تعلیمی میدان میں اوّل آتا رہا ہوں‌ اور تقریری مقابلوں میں انعام بھی حاصل کرتا رہا ہوں، یہ سب یادگار ہیں۔
    کبھی کسی غیر یقینی ناکامی یا کام یابی کی صورت میں آپ کے کیا تأثرات تھے؟
    آصف الیاس: دونوں صورتوں میں مزید محنت کرنے کا خیال آتا ہے۔
    بچپن میں غیر نصابی سرگرمیوں میں حصّہ لیا؟
    آصف الیاس: بچپن میں غیر نصابی سرگرمیاں، تقریر،اداکاری اور نقالی تھیں جو بچپن سے پچپن میں بھی جاری ہیں۔
    اس سلسلے کا پہلا انعام کب اور کس عمر میں حاصل کیا؟ یاد ہے انعام کیا تھا؟
    آصف الیاس: سب سے پہلا انعام محلّے کے مدرسہ سے سات سال کی عمر میں نعت خوانی میں حاصل کیا اور نعتیہ کتاب کا ہدیہ ملا تھا۔
    گرمیوں کی چُھٹیاں کیسے گزارتے تھے؟
    آصف الیاس: اکثر حیدر آباد سے کزنز اور خالہ آجاتی تھیں۔ یوں اُن کی وجہ سے دعوتوں اور سیر سپاٹوں سے گرمیوں کی چھٹیاں مزے سے گزر جاتی تھیں۔
    بچپن میں مشاغل کیا تھے؟
    آصف الیاس: مصوری اور اداکاری۔ خیر سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
    بچّوں کی کیسی کتابیں، رسائل اور کہانیاں پڑھنے میں لُطف آتا تھا؟
    آصف الیاس: ہمدرد نونہال پڑھنے اور اس کے زمرۂ مصوری کو سب سے پہلے دیکھنے کا شوق تھا۔
    بچپن میں آپ کی کون سی خوبی کو سب سے زیادہ سراہا جاتا تھا؟
    آصف الیاس: گلوگاری کو بہت سراہا جاتا تھا۔
    کوئی ایسی ڈانٹ یا مار جس کا اثر آج بھی آپ کی زندگی پر ہے؟
    آصف الیاس: نماز کی پابندی۔ امی نماز کا پابند بنانے کے لیے اپنے اس اکلوتے بیٹے پر بہت سختی کرتی تھیں۔
    بچپن میں احتجاج کا کون سا طریقہ اختیار کرتے تھے؟
    آصف الیاس: مجال ہے کہ کوئی احتجاج کر لیں۔ امی کی آنکھیں، باتیں، آواز، ہاتھ سارے احتجاج ایک طرف کر دیتی تھیں۔
    بچپن میں عیدی کتنی ملتی تھی؟ کیسے خرچ کرتے تھے؟
    آصف الیاس:‌ عیدی جتنی بھی ملتی امی کے ذاتی اکاؤنٹ یعنی پرس میں منتقل ہو جاتی تھی۔ اس لیے خرچ کا نہ خیال آتا تھا، نہ ہی سوال پیدا ہوتا تھا
    بچپن میں کس سے متأثر تھے، کیوں؟
    آصف الیاس:‌ بچپن میں اساتذہ اور فوج کے سپاہیوں سے متأثر تھا۔ میں فوجی بننا چاہتا تھا یا اُستاد۔
    بچپن میں کسی لائبریری کے ممبر تھے؟ یومیہ کتنا کرایہ تھا؟ کیا سہولتیں تھیں؟
    آصف الیاس:‌ بچپن میں کیا کسی بھی عمر میں، میں لائبریری کا ممبر نہیں رہا۔ ہاں لائبریری سائنس کا طالب علم ضرور رہا ہوں۔ گو کہ میں نے مختلف لائبریریوں میں خدمات انجام دی ہیں۔ اور اب بھی بطور اسسٹنٹ لائبریرین کام کر رہا ہوں۔
    حکیم سعید صاحب سے بچپن کی یادگار ملاقات کے بارے میں‌ بتائیں۔
    آصف الیاس:‌ جب میں نے ریڈیو پاکستان کراچی سینٹر کے پروگرام بچّوں کی دنیا سے اپنی صداکاری کا آغاز کیا تو مجھے پتہ چلا حکیم سعید صاحب بچّوں کی دنیا میں آتے ہیں۔ مجھے بڑی بے چینی سے ان کا انتظار تھا۔ جب وہ پروگرام میں آئے تو اُن کے احترام میں منی باجی کھڑی ہو گئیں۔ ہم بچّے کھڑے ہو گئے تھے۔ میں نونہال باقاعدگی سے خریدتا تھا۔ نونہال کے خاص نمبر کے ساتھ ایک آٹو گراف بک بھی ملی تھی جو میں بچّوں کی دنیا میں لے کر جاتا تھا۔ میں نے حکیم صاحب سے اس پر آٹو گراف لیا۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا بچپن کی سرسری سی ملاقات کے بعد حکیم صاحب کی ہمدرد نونہال اسمبلی میں شرکت کروں گا۔ حکیم صاحب سے اپنے لیے تعریفی کلمات سنوں گا اور اُن کے صحبت سے فیض یاب ہوں گا۔ میں نے ہمدرد نونہال اسمبلی میں لگاتار تین سال تھیٹر کیا بلکہ میرے تھیٹر کا آغاز ہی ہمدرد کے پلیٹ فارم سے ہوا تھا۔ میں نے اُن کے میگزین کے لیے بطور مصوّر خدمات انجام دیں۔
    بچپن میں مستقبل کے جو خواب دیکھے تھے وہ پُورے ہوئے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اور اس کا اثر آپ کی زندگی پر کیا پڑا؟
    آصف الیاس:‌ میں نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا لیکن اللہ نے میرے ہر خیال کو تعبیر بخشی ہے۔ جس کا اثر میری زندگی پر یہ ہے کہ میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں۔
    عہدِ حاضر کے بچّوں کا بچپن ملتا تو اسے اپنے مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے کیسے گزارتے؟
    آصف الیاس:‌ شکر ہے میرا بچپن اس دور کا نہیں ورنہ میں بھی واٹس ایپ اور وڈیو گیم والا بچّہ ہوتا، تاہم اگر طبیعت اور مزاج کی بات ہو تو میں ریڈیو اور ٹی وی سے پہلے یوٹیوب اسٹار ہوتا۔
    بچّوں کو کیا کہنا چاہیں‌ گے؟
    آصف الیاس:‌ مجھے اس دور کے بچّوں پر فخر ہے اور بچّوں کی دنیا سے پیار ہے۔
  • بڑے کام کرنے والے ایک بڑے آدمی کا تذکرہ

    شروع میں ابّا جان (حکیم محمد سعید) کا غصہ بہت تیز تھا۔ سب ان سے ڈرتے تھے کہ وہ ناراض نہ ہوں، لیکن برہمی میں وہ ڈانٹتے ڈپٹتے نہیں تھے۔

    میں نے دفتر میں انھیں کبھی چلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ غصے میں ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور وہ خاموش ہو جاتے۔ جب وہ خاموش ہو جاتے، تو سب خاموش ہو جاتے، لیکن یہ صحیح نہ تھا۔ میڈم ڈی سلوا ان کے مزاج کو سمجھ گئی تھیں وہ بولتی رہتی تھیں۔ بولتے رہنے سے ابّا جان کا غصہ جلدی اتر جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ ابّا جان کا غصہ کم ہوتا گیا، وہ آخر میں تو بہت نرم ہوگئے تھے۔ میڈم کہتی تھیں ”وہ ایک چیتے کی طرح تھے، لیکن اب ایک معصوم بلّی کی طرح ہو گئے ہیں۔“

    ابّا جان کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رفقائے کار سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ وہ شوریٰ کے قائل تھے۔ جو لوگ ان کے اعتماد کے تھے، وہ ان سب کی رائے سنتے، غور کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ فیصلہ کر لیتے، تو بس اس پر قائم رہتے۔ اپنے مشن کی کام یابی کے لیے انھیں بڑی محنت کرنا پڑی۔ ایک طرف ادارہ ’ہمدرد‘ کی تعمیر و ترقی، دوسری طرف طبِ یونانی جسے ابّا جان کہتے تھے کہ یہ طبِّ اسلامی ہے۔ اس کا دنیا میں نام روشن کرنا اور اسے تسلیم کرانا اور علم کے میدان میں ان کی پیش قدمیاں۔ یہ سب بڑے کام تھے۔ ان میں بڑی جاں فشانیاں تھیں۔ ان معاملوں میں جب انھیں کوئی فکر لاحق ہوتی، وہ عموماً خاموش ہو جاتے۔ زیادہ تر اپنے اوپر ہی جھیل لیتے۔ ابتدا میں کسی سے ذکر تک نہ کرتے، لیکن اب بعد میں وہ کہنے لگے تھے۔

    آخر دنوں میں تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے اب اپنی نیند ایک گھنٹے اور کم کرنی پڑے گی۔ میں نے کہا یہ آپ کیسے کریں گے۔ چار گھنٹے تو آپ سوتے ہیں۔ تین گھنٹے سو کر آپ کام کس طرح کریں گے۔ وہ کہنے لگے ’نہیں مجھے کام بہت ہے۔ مجھے اپنی نیند ایک گھنٹے کم کرنی ہی پڑے گی۔ میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ابا جان کو جلدی کیوں تھی۔ وہ مشن کو پورا کرنا چاہتے تھے۔ جو پودے انھوں نے لگائے تھے، انھیں بار آور دیکھنے کے لیے بے چین تھے، وہ اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اپنی سوچ کو انھوں نے اپنے تک محدود نہیں رکھا۔ برملا اظہار کر دیا۔

    وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو اپنے خیالات اپنے احساسات سب ریکارڈ کر گئے ہیں۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے، جو چھپا رہ گیا۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے۔ جسے انھوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا کہ لو پڑھ لو، جان لو اور پرکھ لو۔

    (سعدیہ راشد کی گفتگو، انٹرویو سے ماخوذ)

  • ایئر ہوسٹس نے گورنر صاحب کو جوس پیش کیا!

    ایئر ہوسٹس نے گورنر صاحب کو جوس پیش کیا!

    ہمیں پورا آئیڈیل کسی شخصیت میں مل جائے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے ٹکڑے ضرور لوگوں کی شخصیت میں بکھرے مل جاتے ہیں۔ کبھی ایسی کوئی شخصیت بھی مل جاتی ہے جس کے وجود میں ہمارے آئیڈیل کے بیش تر رنگ، بیش تر ستارے زیادہ سے زیادہ نقوش چمک رہے ہوتے ہیں اور ہم غیر شعوری طور پر اس کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔

    میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایک شخصیت ایسی مل گئی جس میں میرے آئیڈیل کے سارے رنگ نقوش موجود تھے۔ یہ ابا جان تھے۔ میرے آئیڈیل، وہ مکمل ایک شخصیت تھے۔

    بیٹیاں یوں بھی باپ سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ میں اپنی امی کے مقابلے میں ابا جان سے زیادہ قریب تھی، حالاں کہ میں شروع سے ان سے بہت ڈرتی تھی، لیکن سب سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھی۔ میں وہی ہونا چاہتی تھی، جو وہ مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھ سے یہ کسی نے نہیں کہا۔ میری امی نے بھی نہیں، لیکن مجھے یہ احساس شدت سے رہتا تھا کہ میں کوئی بات ایسی نہ کروں، جو ابا جان کے معیار عمل سے گری ہوئی ہو۔ میرے قول و عمل میں کوئی پہلو ایسا نہ ہو کہ کوئی کہے یہ حکیم محمد سعید کی بیٹی ہیں!

    مجھے ہر وقت یہ احساس رہتا تھا کہ ابا جان نے بڑی محنت، بڑی قربانیوں سے اپنا ایک مقام بنایا ہے، ایک نام پیدا کیا ہے۔ ان کی نیک نامی پر کوئی حرف نہ آئے۔ یہ احساس بچپن کے بالکل ابتدائی زمانے سے میرے لاشعور میں جاگزیں تھا اور جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی یہ احساس شعوری طور پر بڑھتا گیا۔

    ابا جان نے میری تربیت اس طرح کی کہ کبھی مجھے بٹھا کر یہ نہیں کہا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا ہے۔ تربیت کا ان کا اپنا طریقہ تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میں عمل کر کے دکھایا کرتا ہوں مجھے کہنے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے خاموشی سے میری تربیت کی اور تمام قدریں جو انہیں عزیز تھیں اپنے عمل سے بتا دیں۔ سچائی، دیانت داری، تواضع، شائستگی، رواداری، اخلاق، دین داری۔ انہوں نے مجھے سب سکھا دیا۔

    ان کا انداز یہ تھا کہ بس اب ساتھ ہیں تو انسان سیکھتا جائے۔ ہم ساتھ رہتے تھے۔ میرا خیال ہے سونے کے لیے بس چند گھنٹے ہی تھے، جس میں ہم الگ ہوتے تھے، ورنہ مستقل ساتھ ساتھ رہتے، حتیٰ کہ جب کسی پروگرام میں جاتے، تو ساتھ ہوتے کوئی استقبالیہ ہوتا، دفتر جا رہے ہیں، دفتری معاملات ہیں، ہمیشہ ساتھ ہوتے۔ وقت تو وہ اپنا بالکل بھی ضایع نہیں کرتے تھے۔ راستے میں بھی ضروری کاغذات دیکھتے جاتے۔ ہم ان کاغذات کے حوالے سے بھی بات کر لیتے۔

    گورنری کے زمانے میں بھی وہ ہماری تربیت کرتے رہتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمیں کوئی غلط احساس ہو۔ ہم کسی ’کمپلیکس‘ میں مبتلا ہوں۔ ہم نے گورنر ہاؤس تو پوری طرح دیکھا بھی نہیں۔ گورنر ہاؤس کی گاڑی تو وہ خود بہت کم استعمال کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب وہ سندھ کے گورنر تھے، ہم ہوائی جہاز میں سفر کر رہے تھے۔ جہاز کے عملے نے اکانومی کلاس میں آگے کی دو سیٹیں جو فرسٹ کلاس کیبن کے فوراً بعد تھیں، ہمیں دی تھیں۔ ایئرہوسٹس نے جو فرسٹ کلاس میں میزبانی کر رہی تھی، دیکھا کہ گورنر صاحب بیٹھے ہیں، تو اورنج جوس لے کر ہماری طرف آئی اور ابا جان کو پیش کیا، انھوں نے نہیں لیا۔ جب انھوں نے ہاتھ نہیں بڑھایا، تو میں نے بھی ہاتھ نہیں بڑھایا۔

    مجھے معلوم تھا کہ ابا جان نے جوس کیوں نہیں لیا ہے اور یہ وہ سمجھ رہے تھے، لیکن اس کے باوجود جب ایئرہوسٹس چلی گئی، تو انھوں نے مجھ سے کہا، تمہیں پتا ہے، میں نے جوس کیوں نہیں لیا؟ میں نے کہا جی ہاں۔ یہ فرسٹ کلاس کے مسافروں کے لیے تھا، کہنے لگے ہاں، ہم اس کے مسافر نہیں ہیں، اس لیے اس پر تو ہمارا حق نہیں تھا۔ اس وقت بھی وہ چاہتے تھے کہ ہماری تربیت ہو اور ہمیں یہ معلوم ہو کہ یہ ہمارا حق نہیں ہے۔ ورنہ کیا تھا جوس وہ بھی پی لیتے اور میں بھی پی لیتی۔

    (از قلم سعدیہ راشد)

  • زندگی محنت و عمل سے سنورتی ہے!

    زندگی محنت و عمل سے سنورتی ہے!

    اپنی زندگی آدمی خود بناتا ہے اور یہ محنت و عمل کے ذریعے سے سنورتی ہے۔

    محنت سے عزت حاصل ہوتی ہے۔ محنت کے بغیر خود اپنی نظر میں بھی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ بچپن ہی سے محنت کی عادت ڈالنی چاہیے، تاکہ بڑے ہو کر انسان محنت سے نہ گھبرائے، ایک بار محنت کی عادت پختہ ہو جائے، تو وہ عمر بھر کام آتی ہے اور انسان کی دولت و عزّت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ محنت باعثِ ذلّت نہیں، ذریعۂ عزت ہے۔ محنت کرنے سے عزّت حاصل ہوتی ہے، محنت کسی بھی قسم کی ہو، فائدہ پہنچاتی ہے۔ محنتی آدمی بہت جلد کام یاب ہو کر عزت کا مستحق بن جاتا ہے۔

    ایک مزدور جو دن بھر محنت کر کے اپنی روزی کماتا ہے، اس پیسے والے آدمی سے کہیں بہتر ہے، جو دن بھر بے کار رہتا ہو اور کاہلی میں اپنا وقت گزارتا ہو۔

    جو طالب علم اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے محنت مزدوری کر کے اپنی تعلیمی مصارف پورے کرتا ہو، وہ ان طالب علموں سے بھی زیادہ قابل قدر ہے، جن کے والدین ان کی تعلیم کا خرچ برداشت کرتے ہیں۔ دولت نہ ہو تو آدمی غریب نہیں ہوتا، وہ محنت سے دولت حاصل کر سکتا ہے، لیکن محنت کی عادت نہ ہو تو امیر آدمی بھی اپنی دولت کھو کر غریب ہو جائے گا اور دوبارہ اس کو دولت میسر نہیں آئے گی۔

    جو لوگ محنت نہیں کرے، وہ محنتی آدمی کی عزّت بھی نہیں کرتے۔ محنت کی عادت ڈالو، محنتی آدمی کی عزت کرو۔

    (بچّوں اور نوجوانوں کی تربیت اور راہ نمائی کے لیے حکیم محمد سعید کی مختصر مگر پُر اثر تحریر)

  • نبَّاضِ دوراں حکیم محمد سعید کا تذکرہ

    نبَّاضِ دوراں حکیم محمد سعید کا تذکرہ

    یہ اُس مسیحا کا تذکرہ ہے جس نے وطنِ عزیز میں مستقبل کے معماروں کی کردار سازی کو اپنا فرض جانا، جس نے محسوس کیا کہ قوم کے نونہالوں کی ذہنی تربیت اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی راہ نمائی ضروری ہے اور اس مقصد کی تکیمل کے لیے ’’ہمدرد نونہال‘‘ کا آغاز کیا۔ یہ مسیحا اور قوم کا درد رکھنے والے حکیم محمد سعید تھے۔

    1998ء میں آج ہی کے دن احسان فراموشی اور بدنصیبی کا آسیب اس شجرِ سایہ دار کو نگل گیا تھا۔ حکیم محمد سعید کے قتل کی خبر آن کی آن میں ہر طرف پھیل گئی۔ وہ صوبہ سندھ کے گورنر بھی رہے۔

    پاکستان کے نام وَر طبیب اور ادویّہ سازی کے مستند اور مشہور ادارے ’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ کے بانی سربراہ کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    9 جنوری 1920ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر دلّی میں آنکھ کھولنے والے حکیم سعید طبِ مشرق سے وابستہ گھرانے کے فرد تھے۔ ان کے والد نے 1906ء میں دلّی میں طب و حکمت کا ادارہ ’ہمدرد دواخانہ‘ قائم کیا تھا۔

    حکیم سعید نے ابتدائی تعلیم کے دوران عربی، فارسی، اور انگریزی زبانیں سیکھیں اور 18 برس کی عمر میں دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ انھوں نے فارمیسی میں گریجویشن اور علم الادویّہ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942ء میں اپنا خاندانی کام سنبھالا اور ہمدرد وقف لیبارٹریز سے منسلک ہوگئے۔

    1945ء میں انھوں نے فارمیسی میں ماسٹرز بھی کرلیا۔ اسی برس ان کی شادی نعمت بیگم سے ہوگئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد حکیم محمد سعید اپنے کنبے کے ساتھ کراچی چلے آئے اور یہاں ’ہمدرد پاکستان‘ کی بنیاد رکھی۔

    انھوں نے 1952ء میں انقرہ یونیورسٹی، ترکی سے فارمیسی میں ڈاکٹریٹ کی اور وطن واپس آکر سندھ یونیورسٹی میں پروفیسر آف فارمیسی کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے۔ بعد ازاں وہ مستعفی ہو گئے۔

    ان کے قائم کردہ ادارے کے زیرِ اہتمام 1985ء میں یونیورسٹی قائم کی گئی جس کے وہ پہلے چانسلر مقرر ہوئے۔ بعد میں انھوں نے مدینۃُ الحکمت کی بنیاد رکھی۔ طبّ و حکمت کے ساتھ وہ ان تعلیمی اداروں کے معاملات دیکھتے ہوئے علم و ادب سے بھی وابستہ رہے۔ انھوں نے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں طب و حکمت سے متعلق تعلیمی سرگرمیوں میں‌ حصّہ لیا اور پروگراموں میں‌ شرکت کرتے رہے۔

    حکیم سعید اردو اور انگریزی کی دو سو کے قریب کتابوں کے مصنّف تھے جب کہ نونہال بچّوں کا وہ مقبول رسالہ تھا جس کے بانی حکیم سعید نے بلاشبہ دو نسلوں کو نہ صرف لکھنا پڑھنا سکھایا، بلکہ ان کو غور و فکر کی عادت ڈالی، دین و دنیا کی تعلیم کا ذوق و شوق پروان چڑھایا، اخلاق و آدابِ معاشرت سکھائے اور اس رسالے نے ادبِ‌ اطفال کے ساتھ اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں 1966ء میں ’ستارۂ امتیاز‘ اور بعد از مرگ ’نشانِ امتیاز‘ سے نوازا۔

  • حکیم محمد سعید کی شہادت کو 21 برس بیت گئے

    حکیم محمد سعید کی شہادت کو 21 برس بیت گئے

    کراچی : سابق گورنر  سندھ، مایہ ناز طبیب اور سماجی رہنما حکیم محمد سعید کی شہادت کو 21 برس بیت گئے۔

    شہید پاکستان مریضوں کے مسیحا حکیم محمد سعید کوہم سے بچھڑے 21 برس ضرور بیت گئے مگران کی طبی،علمی اور ادبی خدمات سے آج بھی ہزاروں لوگ فیض یاب ہورہے ہیں۔

    بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج، سماجی کارکن اور مصنف حکیم محمد سعید 9 جنوری 1920 کو بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے، دو سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، وہ بچپن سے ہی غیر معمولی ذہانت اور حیران کن یادداشت کے مالک تھے یہی وجہ ہے کہ وہ 9 برس کی عمر میں حافظ قرآن بھی بن گئے تھے۔

    تقسیمِ برصغیر کے بعد حکیم سعید نے بھارت میں موجود تمام کاروبار ، عیش و عشرت چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور وہ اپنے خاندان کے ہمراہ 9 جنوری 1948 کر کراچی پہنچے، یہاں انہوں نے زندگی کے آخری روز تک قیام کیا۔

    مزید پڑھیں: حکیم سعید جیسے لوگ ہمارے ہیرو ہیں: صدرِ مملکت عارف علوی

    حکیم سعید نے مذہب اور طب و حکمت پر 200 سے زائد کتابیں تحریر کیں جبکہ حکمت کے حوالے سے انہوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔

    بچوں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ حکیم سعید نے نونہال کے نام سے باقاعدہ رسالہ جاری کیا، وہ اپنی آخری لمحات تک ہمدرد نونہال سے وابستہ رہے، حکیم سعید نے 1993 سے 1994 تک بطور گورنر سندھ امور انجام دیے، حکومت پاکستان نے خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔

    وہ 17 اکتوبر1998 کو جب گھر سے مطب جانے کے لیے نکلے تو دہشت گردوں نےانہیں فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا۔جس وقت انہیں آرام باغ میں ان کے دواخانہ کے باہر فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا وہ روزے کی حالت میں تھے، یوں انہوں نے روزہ کی حالت میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔

    ان کا معمول تھا کہ وہ جس روز مریضوں کو دیکھنے جاتے روزہ رکھتے تھے چونکہ ان کا ایمان تھا کہ صرف دوا وجہ شفا نہیں ہوتی۔حکیم محمد سعید پاکستان کے بڑے شہروں میں ہفتہ وار مریضوں کو دیکھتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔

    ان کا ادارہ ہمدرد بھی ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کی تمام تر آمدنی طبی تحقیق اور دیگر فلاحی خدمات پر صرف ہوتی ہے ۔

  • حکیم سعید جیسے لوگ ہمارے ہیرو ہیں: صدرِ مملکت عارف علوی

    حکیم سعید جیسے لوگ ہمارے ہیرو ہیں: صدرِ مملکت عارف علوی

    کراچی: صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے حکیم محمد سعید کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان جیسے لوگ ہمارے ہیرو ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں صدرِ پاکستان عارف علوی نے ہمدرد یونی ورسٹی کے کانووکیشن سے خطاب کیا، انھوں نے کہا کہ طب کے شعبے میں حکیم محمد سعید کی خدمات قابل تحسین ہیں۔

    [bs-quote quote=”حکیم سعید نے بہ طور گورنر ہمیشہ اکانومی کلاس میں سفر کیا۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”صدر مملکت”][/bs-quote]

    عارف علوی نے کہا کہ انسانی خدمت کا جذبہ حکیم محمد سعید میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ حکیم سعید نے بہ طور گورنر ہمیشہ اکانومی کلاس میں سفر کیا، ان جیسے لوگ ہمارے ہیرو ہیں، ان کی تقلید کی ضرورت ہے۔

    صدرِ مملکت نے مزید کہا کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد طلبہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، نوجوان نسل ہمارا قیمتی اثاثہ ہے، نوجوان ملکی تقدیر بدل سکتے ہیں۔

    ڈاکٹر عارف علوی نے پی ٹی آئی حکومت کے حوالے سے کہا کہ کفایت شعاری مہم کے تحت قوم کے کروڑوں روپے کی بچت کی گئی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پاکستان میں امراض قلب کے سدباب کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، عارف علوی

    یاد رہے کہ 15 فروری کو صدرِ مملکت نے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (اے ایف آئی سی) راولپنڈی میں بھی بین الاقوامی الیکٹرو فزیولوجی کی سالانہ کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کیا تھا۔

    انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں دل کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، امراضِ قلب کے سدباب کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔

  • آج حکیم محمد سعید کا99 واں یومِ ولادت ہے

    آج حکیم محمد سعید کا99 واں یومِ ولادت ہے

    آج سابق گورنر سندھ، سماجی رہنما اور حکمت کی دنیا کے مایہ ناز نام حکیم محمد سعید کا 99 واں یومِ ولادت ہے‘ آپ کو 17 اکتوبر 1998 کو کراچی میں مطب کے سامنے روزے کی حالت میں گولیاں مار کرقتل کردیا گیا تھا۔

    [bs-quote quote=”بلاشبہ نونہال نے اپنے قیام سے آج تک علمی تربیت کرنے کافرض احسن انداز میں انجام دیا ہے” style=”style-6″ align=”left”][/bs-quote]

    آپ 9 جنوری 1920 کو متحدہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں پیدا ہوئے، دو سال کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا ، مہربان بھائی نے آپ کی پرورش کی ۔ انہی کے زیرِ سایہ تربیت پائی اور وہیں ہمدرد فاؤنڈیشن نامی ادارے کی بنیاد رکھی‘ تقسیم کے وقت سب کچھ چھوڑچھاڑ کر پاکستان تشریف لے آئے۔

    حکیم محمد سعید بچپن سے ہی غیرمعمولی ذہانت اورحیرت انگیزیاداشت کے مالک تھے، آپ نے نو سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور پھر حکمت کی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے۔مریضوں کے اس بے مثال مسیحا نے تمام کاروبار،عیش وآرام اور دولت کو چھوڑ کر تقسیم کے وقت پاکستان کا رخ کیا اور 9 جنوری 1948 کو کراچی آگئے۔

    انہوں نے حکمت میں اسلامی دنیا اور پاکستان کے لیے اہم خدمات انجام دیں، مذہب اورطب وحکمت پر200 سے زائد کتابیں لکھیں۔ ہمدرد پاکستان اور ہمدرد یونیورسٹی ان کے قائم کردہ اہم ادارے ہیں۔

    حکیم سعید بچوں اور بچوں کے ادب سے بے حد شغف رکھتے تھے۔ اپنی شہادت تک وہ اپنے ہی شروع کردہ رسالے ہمدرد نونہال سے مکمل طور پر وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نونہال ادب کے نام سے بچوں کے لیے کتب کا سلسلہ شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے۔ اس سلسلے میں کئی مختلف موضوعات پر کتب شائع کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہترین عالمی ادب کے تراجم بھی شائع کیے جاتے ہیں۔

    مایہ نازطبیب حکیم محمد سعید سنہ 1993 سے 1994 تک گورنرسندھ کے عہدے پر فائز رہے ، اس کے علاوہ بھی انہیں مختلف اہم عہدوں پر فائز کیا جاتا رہا ہے، انہیں ان کی خدمات کے اعتراف میں ستارہ ٔامتیازسے بھی نوازا گیا۔

    اکتوبر 1998،17ء کو انہیں کراچی کے علاقے صدر میں واقع ان کے ادارے ہمدرد دواخانہ کی سب سے قدیم شاخ کے سامنے گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا ۔ ان کے قتل کے الزام میں سیاسی جماعت سے وابستہ تین افراد کو گرفتار بھی کیا گیا اورعدالتوں سے انہیں سزا بھی ہوئی تاہم بعد ازاں سپریم کورٹ نے شواہد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کردیا تھا۔

    جس وقت انہیں آرام باغ میں ان کے دواخانہ کے باہر وحشیانہ فائرنگ کرکے قتل کیا گیا وہ روزہ کی حالت میں تھے ،یوں انہوں نے روزہ کی حالت میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ ان کا معمول تھا کہ وہ جس روز مریضوں کو دیکھنے جاتے روزہ رکھتے تھے چونکہ ان کا ایمان تھا کہ صرف دوا وجہ شفاء نہیں ہوتی۔

    حکیم محمد سعید پاکستان کے بڑے شہروں میں ہفتہ وار مریضوں کو دیکھتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ ان کا ادارہ ہمدرد بھی ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کی تمام تر آمدنی ریسرچ اور دیگر فلاحی خدمات پر صرف ہوتی ہے ۔

  • برکاتی صاحب نے کہا: بس آپ سوال نامہ بھجوا دیں

    برکاتی صاحب نے کہا: بس آپ سوال نامہ بھجوا دیں

    عام خیال ہے کہ کسی جریدے کا مدیر ہونا بے ثمر کام ہے، آدمی کتنی ہی جان مار لے، کوششیں رائیگاں جاتی ہیں، نہ تو مالی آسودگی ملتی ہے، نہ ہی شہرت۔

    البتہ اگر معاملہ "نونہال” کی ادارت کا ہو، تو صورت حال بدل جاتی ہے کہ یہ پرچہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ نسلوں کے ادبی ذوق کی آب یاری کی اس نے۔

    اب اگر کسی نے اس جریدے کی ادارت لگ بھگ نصف صدی سنبھالی ہو اور یوں سنبھالی ہو کہ لاکھوں، بلکہ کہہ لیجیے کروڑوں افراد کو گرویدہ بنایا ہو، تو وہ حق دار ہے کہ اسے اکیس توپوں کی سلامی پیش نہ بھی کی جائے، تب بھی احترام اور محبت کے ساتھ یاد رکھا جائے۔

    آج جو ہم مسعود احمد برکاتی کو یاد کر رہے ہیں، علمی اور ادبی حلقے انھیں فیس بک اور ٹوئٹر پر خراج تحسین پیش کر رہے ہیں ، ان کی بابت مضامین باندھے جارہے ہیں،تو سبب یہی ہے کہ انھوں نے دو نسلوں کی آب یاری کی۔

    مدیرمسعود احمد برکاتی کی نمازِ جنازہ ادا*

    اس نابغہ روزگار شخص کے انتقال کی خبر غیرمتوقع نہیں تھی کہ وہ عرصے سے بیمار تھے، مگر یہ خبر کتنے ہی دلوں کو سوگوار کر گئی۔ گیارہ دسمبر کو ان کی تدفین ہوئی، تو گویا ایک عہد تمام ہوا۔

    آگے بڑھنے سے پہلے کیوں ناں ان کے حالات زندگی کھنگال لیے جائیں۔

    ایک نظر حالات زندگی پر

    مسعود احمد برکاتی ٹونک کے تھے۔ 1931 میں پیدا ہوئے۔ بٹوارے کے بعد ادھر چلے آئے۔ کچھ زمانہ حیدرآباد اور جام شورو میں گزرا۔

    پھر کراچی پہنچے۔ باصلاحیت تھے، ضرورت ایک پلیٹ فورم کی تھی، جو مہیا کیا ہمدرد فاؤنڈیشن نے۔ 1953 میں ہمدرد نونہال کی ادارت سنبھالی، تو اس سفر کا آغاز ہوا، جو انھیں امر کرنے والا تھا۔

    مترجم بھی تھے۔ کئی عظیم ناولز کی تلخیص ہم تک ان کے قلم سے یا ان کے وسیلے پہنچی۔ ڈوما کا ناول ’’تین بندوقچی‘‘ تو سب کو یاد ہوگا۔ بچوں کے لیے لکھی کتابیں ایک درجن سے زاید ہیں۔

    بحیثیت ایڈیٹر مسعود احمد برکاتی ایک طویل عرصے تک ’’پہلی بات‘‘ کے نام سے نونہال کا اداریہ لکھتے رہے، جو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول تھا۔ حکیم محمد سعید کی تحریروں کی نوک پلک بھی وہی سنوارتے تھے۔

    ایک یادگار واقعہ

    اوروں کی طرح ہم بھی ان کے معتقد تھے۔ ان سے چند ملاقات بھی ہوئیں، مگر جو واقعہ یہاں موضوع، وہ ان کے انٹرویو سے جڑا ہے۔

    بڑی خواہش تھی کہ ان کا انٹرویو کیا جائے۔

    فون پر خواہش ظاہر کی، تو بولے پہلے ملاقات کرلیجیے۔  ہم سمجھ گئے، وہ انٹرویو دینے سے پہلے ہمارا انٹرویو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    ہم جب ان کے انٹرویو میں ’’پاس‘‘ ہوگئے، تو فرمانے لگے، آپ سوال نامہ بھجوا دیں، میں جواب لکھ کر بجھوا دوں گا۔

    ہم سٹپٹا گئے ۔ ہم تو کہانی سننے کا ارادہ لیے گئے تھے اور وہ ہمیں کہانی پڑھوانے پر مصر تھے۔ جواز دل چسپ تھا۔ کہنے لگے، اسی طرح لکھنے میں سہولت ہے، یوں آپ اور ہم بولنے کی اذیت سے بچ جائیں گے۔

    خیر! ہم نے جواز مان لیا اور لگ بھگ 30 سوالوں پر مشتمل سوال نامہ ارسال کر دیا۔ چند روز میں انھوں نے مطلع کیا کہ جوابات تیار ہیں۔ ہم دوڑے دوڑے پہنچے۔

    انھوں نے مسکراتے ہوئے تیس پینتیس صفحات پر مشتمل پلندہ پکڑایا، تو ہم گھبرا گئے کہ یا خدا، اسے ایڈٹ کرنے والا مدیر کہاں سے لائیں گے، مگر جب جائزہ لیا، تو اندازہ ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔

    دراصل انہوں نے ہر سوال کے لیے الگ الگ صفحات مختص کر لیے تھے۔ اب چاہے جواب ایک لفظ جیسے ہاں یا ناں پر مشتمل ہو یا تین چار پیراگراف پر، سب کے حصے میں پورا پورا صفحہ آیا۔ یہ سوالات پر برکاتی صاحب کی مہربانی تھی۔

    اچھا، ساتھ اپنی کچھ یادگار تصاویر بھی دیں، جو لگ بھگ ایک صدی جینے والے اس شخص کی بصری کہانی بیان کرتی تھیں۔

    افسوس، وہ سب زندگی کی بھاگ دوڑ میں کہیں گم ہوئیں. باقی رہ گئی فقط برکاتی صاحب کی یاد۔

    اور یہ یاد کئی برس مہکتی رہے گی۔