Tag: حیدرآباد دکن

  • الو ارجن کو بھگدڑ کیس میں ضمانت مل گئی

    الو ارجن کو بھگدڑ کیس میں ضمانت مل گئی

    بھارت فلم انڈسٹری تامل اور تیلگو کے سپر اسٹار اداکار الو ارجن کو ’پشپا 2‘ کے پریمیئر کے دوران بھگدڑ کیس میں مشروط ضمانت مل گئی۔

     بھارتی میڈیا کے مطابق حیدرآباد دکن کی مقامی عدالت میں سندھیا تھیٹر بھگدڑ کیس کی سماعت ہوئی، جہاں عدالت نے الو ارجن کی چند شرائط کے ساتھ ضمانت قبول کرلی۔

    اداکار کے وکیل کے مطابق ان کے موکل کو دو مقدمات میں 50،50 ہزار کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے اور ہر اتوار پولیس اسٹیشن میں حاضری دینے کی ہدایت دی گئی ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Allu Arjun (@alluarjunonline)

    الو ارجن کے وکیل نے بتایا کہا کہ عدالت نے بڑی غور و فکر کے بعد یہ ضمانت دی ہے کیونکہ معاملہ قتل کا نہیں ہے، اور عدالت کی جانب سے عائد کردہ شرائط عام نوعیت کی ہیں، جو ہر ملزم کے لیے ہوتی ہیں۔

    اس کے علاوہ وکیل نے بتایا کہ یہ معاملہ تلنگانہ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے اور اگلی سماعت 21 جنوری کو ہوگی، جس کے لیے قانونی کارروائی جاری رہے گی۔

    یاد رہے کہ الو ارجن کے خلاف 4 دسمبر کو پشپا 2 کے پریمیئر کے دوران بھگدڑ میں ایک خاتون کی موت واقع ہونے پر مقدمہ درج کیا گیا اور انہیں پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔

    https://urdu.arynews.tv/allu-arjun-arrest/

  • ویڈیو: بھارتی شہری ایئرپورٹ پر بابراعظم کی جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب

    ویڈیو: بھارتی شہری ایئرپورٹ پر بابراعظم کی جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب

    قومی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے کے لئے بھارت کے شہر حیدرآباد دکن پہنچ گئی، ایئر پورٹ پر موجود بھارتی شہری قومی کپتان بابر اعظم کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب دکھائی دیئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان کرکٹ ٹیم کا طیارہ حیدرآباد دکن کے راجیو گاندھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈ کر گیا ہے۔

    اس موقع پر سیکورٹی کے سخت اقدامات دیکھنے میں آئے، سیکورٹی اداروں کی 20زائد گاڑیاں ایئرپورٹ پر موجود تھیں، اس موقع پر قومی ٹیم کو بھرپور پروٹوکول دیا گیا۔

    قومی کرکٹ ٹیم کے ایئرپورٹ پہنچتے ہی وہاں پر موجود شائقین کرکٹ اور حکام کی جانب سے بھرپور استقبال کیا گیا۔

    قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کو دیکھ کر ائیرپورٹ پر موجود بھارتی شہری اور پاپارازی(فوٹوگرافر ز) بابر بھائی، بابر بھائی کے نعرے لگانا شروع ہوگئے۔

    قومی کپتان نے انہیں نظر انداز نہیں بلکہ انہیں دیکھ کر مسکرا دیئے اور ہاتھ ہلا دیا۔

    یاد رہے کہ قومی ٹیم ایک روز آرام کے بعد کے بعد اگلے دن ٹریننگ سیشن میں حصہ لے گی، جبکہ 29ستمبر کو پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان وارم اپ میچ کھیلا جائے گا۔

  • ”وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں…“

    حیدر آباد کے سقوط کے بعد حکومتِ پاکستان نے مجھے یقین دلایا تھا کہ حیدرآباد پر بھارت کے قبضے سے میرا سفارتی رتبہ اور حیثیت متاثر نہیں ہوگی اور تمام مراعات برقرار رہیں گی۔

    نواب زادہ لیاقت علی خاں کو حکومت کی اس یقین دہانی کا شدت سے احساس تھا اور جن دشوار حالات میں، میں اپنے مؤقف کو نباہ رہا تھا، وہ اس کی دل سے قدر کرتے تھے۔

    حیدر آباد کے سقوط کے بعد اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ریلوے نے مجھے ایک بڑے عہدے کی پیش کش کی۔ جب نواب زادہ صاحب کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا ”مشتاق! کیا تم اپنی ذمے داری سے دست بردار ہونا چاہتے ہو…؟“ میں نے جواب دیا ”میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے، جب تک حکومتِ پاکستان میرے اسنادِ تقرر کو تسلیم کرتی ہے، میرے لیے اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“

    میرے اس جواب پر لیاقت علی خاں نے خود ریلوے والوں سے کہہ کر ملازمت کی پیش کش واپس کرا دی۔ اس کے بعد وہ معمول سے بھی زیادہ میرا خیال کرنے لگے۔ اس کے برخلاف غلام محمد صاحب جن سے حیدر آباد کے معاملات میں مجھ سے براہِ راست تعلق تھا، کے روّیے سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ میں کسی نہ کسی طرح اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو جاؤں۔ چناں چہ انھوں نے خود ہی مجھے مرکزی سیکریٹریٹ میں عہدے کی پیش کش کرا دی، جسے میں نے نواب زادہ علی لیاقت علی خان سے پوچھے کے بغیر ہی مسترد کر دیا۔

    اس پر غلام محمد صاحب مجھ سے کئی دنوں تک بہت ناراض رہے۔ علاوہ ازیں بعض اعلیٰ عہدے داروں کے روّیے سے یہ تاثر ہونے لگا کہ وہ میری سفارتی پوزیشن کو کچھ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اب تک جہاں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ اب وہاں بے اعتنائی اور بے رخی برتی جانے لگی۔ بعض حضرات موقع محل دیکھے بغیر ایسی بات کہہ دیتے تھے، جس سے ان کے دل کی بات ظاہر ہو جاتی تھی۔ مثال کے طور پر ایک حیدر آبادی مہاجر کی شادی ایک وزیرِ مملکت کے گھرانے میں طے پائی۔ حیدر آباد کا نمائندہ ہونے کی بنا پر میں برات کا سربراہ تھا۔ جیسے ہی برات دلہن کے گھر داخل ہوئی، ایک بڑے افسر نے خواجہ ناظم الدّین صاحب کو، جو مہمان خصوصی تھے، مخاطب کر کے کہا ”لیجیے جناب اب حیدر آبادی ہماری لڑکیوں کو بھی لے جانے لگے۔“ مجھے یہ مذاق بھونڈا اور بے موقع معلوم ہوا اور میں نے جواباً عرض کیا ”مگر جنابِ عالی، وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں۔ کوئی باہر نہیں جائے گا۔“ مطلب یہ کہ آپ حیدر آبادیوں کے پاکستانی معاشرے میں ضم ہونے کو برا کیوں مناتے ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ شرمندہ ہوگیا اور خواجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اس جواب کو بہت سراہا۔

    ان حالات میں نواب زادہ صاحب کی شفقت اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی حمایت کے باوجود میں روز بروز یہ محسوس کرنے لگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ میرے مشن میں دل چسپی میں نمایاں کمی ہو رہی ہے اور جو مراعات مجھے شروع سے حاصل تھیں یا قاعدے کے مطابق یا انصاف کی رُو سے مجھے ملنی چاہیے تھیں، ان کے بارے میں ’احتیاط‘ برتی جانے لگی اور جو غلط استدلال میری اسناد کی پیش کشی کے وقت بروئے کار لایا گیا، وہ آہستہ آہستہ میری حاصل شدہ مراعات کو بھی متاثر کرنے لگا۔ مثلاً موٹر پر لگائی جانے والی پلیٹ کا ہی معاملہ تھا۔ میرا کہنا یہ تھا کہ جو سفارتی مراعات میرے ہم رتبہ سفیر کو نئی دہلی میں حاصل تھیں، جس میں پلیٹ کا امتیازی نشان بھی شامل تھا، مجھے بھی ملنی چاہییں، لیکن اس پر ٹال مٹول ہوتا رہا۔

    (نواب مشتاق احمد خان حیدر آباد دکن کے پاکستان میں پہلے اور آخری نمائندے تھے جن کی خود نوشت ’کاروانِ حیات‘ کے عنوان سے شایع ہوئی، یہ پارے اسی کتاب سے لیے گئے ہیں)

  • جذباتیت کے ہاتھوں ’تحریک‘ کا انجام

    جذباتیت کے ہاتھوں ’تحریک‘ کا انجام

    تقسیم کے فوراً بعد جذباتیت کا جیسا مظاہرہ حیدر آباد (دکن) کے سلسلے میں ہوا تھا، ویسا شاید ہی اور کسی مسئلے کے بارے میں ہوا ہو۔

    حیدر آباد برصغیر میں سب سے بڑی مسلمان ریاست تھی۔ ذہنی طور پر یہاں لوگ اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کہ اس ریاست کا الحاق ہندوستان سے ہو جائے۔

    اتفاق سے ان دنوں ہم ایک ہفتہ وار رسالہ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور تبادلے میں حیدر آباد کے سارے اردو اخبارات‘ روزنامے بھی اور ہفت روزے بھی ہمیں موصول ہوتے تھے اور کس انہماک سے ہم یہ ساری خبریں اور تبصرے پڑھتے تھے۔

    حیدر آباد میں ایک تنظیم تھی جس کا نام ہمیں اگر غلط یاد نہیں تو وہ تھا ’مجلس اتحاد المسلمین‘، اس کے سربراہ تھے سید قاسم رضوی۔ کیسے شعلہ فشاں خطیب تھے۔

    اپنی تقریروں میں اخباری بیانات میں انگارے اُگلتے تھے۔ اعلان کرتے تھے کہ ہم موسی ندی کو جمنا ندی سے ملا دیں گے اور لال قلعے پر ریاست عثمانیہ کا پرچم لہرائیں گے۔ ان تقریروں نے ادھر حیدر آباد میں سخت جذباتی فضا پیدا کر دی تھی۔

    ادھر پاکستان میں بھی یار لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حیدر آباد کے محاذ پر بڑا معرکہ پڑنے والا ہے۔ ساتھ میں ہتھیاروں کے ایک ایجنٹ کا نام خبروں میں بہت آرہا تھا، خبریں یہ تھیں کہ حیدرآباد میں ہتھیار بہت بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں۔ بس جب معرکہ پڑے گا تو دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ نو نیزے پانی چڑھے گا۔

    نظام حیدر آباد ایسی جذباتی مخلوق کے نرغے میں تھے۔ اس کے باوصف درون پردہ افہام و تفہیم کی بہت کوششیں ہو رہی تھیں جس کے نتیجہ میں اسٹینڈ اِسٹل اگریمنٹ کے نام سے ایک سمجھوتا ہوا، جس کی رو سے یہ طے ہوا کہ اگلے پانچ سال تک ریاست حیدر آباد جوں کی توں رہے گی۔ پانچ سال کے بعد ٹھنڈے دل سے ریاست کے مسئلے پر سوچ بچار کیا جائے گا۔

    سنا گیا کہ اس سمجھوتے کے کرانے میں ہندوستان کے بعض مسلمان زعما نے یعنی نیشنلسٹ مسلمان زعما نے بہت کردار ادا کیا تھا۔ خاص طور پر دو نام لیے جا رہے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور سر مرزا اسماعیل۔ بس ادھر پاکستان میں شور مچ گیا کہ نظام نے حیدر آباد کو بیچ ڈالا۔۔۔!

    ادھر حیدر اباد میں سید قاسم رضوی کی تنظیم نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ مجاہد اعظم موسی ندی کو جمنا ندی سے ملانے کے لیے پر تول رہا تھا۔ حیدر آباد سے لے کر پاکستان تک ’نظام‘ پر تُھو تُھو ہونے لگی اور اب اس تنظیم کا احوال سن لیجیے۔ ہم نے ’بی بی سی‘ کے ایک نمایندے کی ایک رپورٹ ایک کتاب میں پڑھی تھی۔ اس نے اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور سید قاسم رضوی سے ملاقات کی۔

    اس کا بیان ہے کہ یہ سب رضا کار مرنے مارنے کے لیے تیار تھے، مگر تیاری ان کی یہ تھی کہ ان کے پاس ہتھیار کے نام بلم تھے۔ رائفل اس گروہ کے پاس صرف ایک تھی۔ تو جو ہونا تھا وہی ہوا۔ یعنی ؎

    بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
    جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا

    جب ہندوستان کی طرف سے فوجی کارروائی ہوئی، جسے ’پولیس ایکشن‘ کا نام دیا گیا تھا، تو چند جوشیلے رضاکار ٹینکوں کی زد میں آکر کچلے گئے، کارروائی چند گھنٹوں میں مکمل ہو گئی۔

    ہندی مسلمانوں کی سیاست ہمیشہ اس طرح رنگ لائی کہ سیاسی سوجھ بوجھ کم‘ جذبات کی ندی چڑھی ہوئی، جیسے دشمنوں کو بہا کر لے جائے گی، مگر آخر میں ٹائیں ٹائیں فش۔ جذباتیت کے ہاتھوں تحریک کا انجام ہوتا ہے۔ مگر الزام دیا جاتا ہے اِکا دُکا ان افراد کو جو جذبات سے ہٹ کر زمینی حقائق کو جانچتے پرکھتے ہیں اور مفاہمت کی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جذباتی مخلوق یہ سو لگائے بیٹھی تھی کہ حیدر آباد، پاکستان سے الحاق کا یا آزاد ریاست ہونے کا اعلان کرے گا۔

    ادھر اور ہی گُل کھلا۔ ہندوستان سے مفاہمت اور مولانا ابوالکلام آزاد کے واسطے سے۔ بھلا یہ واقعہ کیسے ہضم ہو جاتا۔ یاروں کو اس واقعے سے سازش کی بو آنے لگی۔

    حیدر آباد کے لوگوں کو جو پانچ سال کی مہلت ملی تھی وہ ہم میں سے کسی کو گوارا نہ ہوئی۔ جو شور پڑا اس میں سید قاسم رضوی خوب چمکے دمکے۔ نظام حیدر آباد سمجھوتا کر کے چور بن گئے۔ اس کے بعد وہی ہوا کہ کتنی خلقت حیدر آباد سے اُکھڑ کر پاکستان کے لیے نکل کھڑی ہوئی اور کراچی کی مہاجر کالونیوں میں ایک کالونی کا اور اضافہ ہو گیا۔ حیدر آباد کالونی۔

    (انتظار حسین کے کالم ’زوالِ حیدرآباد کی کہانی‘ سے پارہ)

  • یومِ وفات: نظامِ دکن میر محبوب علی خان نے فارسی کی جگہ اردو کو ریاستی زبان کا درجہ دیا تھا

    یومِ وفات: نظامِ دکن میر محبوب علی خان نے فارسی کی جگہ اردو کو ریاستی زبان کا درجہ دیا تھا

    آج ہندوستان کی عظیم اور خوش حال ترین ریاست حیدر آباد دکن کے فرماں روا میر محبوب علی خان کا یومِ وفات ہے جنھوں نے اردو کو ریاست کی زبان کا درجہ دیا اور اس کی سرپرستی اور علم و ادب کے فروغ کے لیے اپنے وسائل اور دولت خرچ کی۔

    دکن کو گنگا جمنی تہذیب کا عملی نمونہ کہا جاتا تھا جس کا خزانہ معمور تھا اور جو تہذیب و ثقافت کا گہوارہ تھی۔ یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں جن میں بڑا طبقہ تیلگو دوسرا کنڑ بولتا تھا اور ایک علاقہ مراٹھی زبان بولنے والوں پر مشتمل تھا۔ نظامِ دکن نے اردو کو سرکاری زبان قرار دے کر ان سب کو آپس میں جوڑ دیا تھا۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔

    اردو زبان اور ہندوستان بھر کی عالم فاضل شخصیات، شعرا و ادیب، محقق، ماہرِ لسانیات، لغت نویس، مترجم، معلم الغرض ہر نادرِ روزگار، یکتا و یگانہ نے دربارِ دکن سے عزؑت و توقیر، انعام و اکرام اور وظائف پائے اور یہ سب میر محبوب علی خان کی اردو کی سرپرستی اور اسے سرکاری زبان بنانے کے فیصلے کی بدولت ممکن ہوا تھا۔

    حیدر آباد دکن میں مختلف حکومتیں قائم رہیں۔ اس خطے نے قطب شاہی، بہمنی دور کے سلاطین کے بعد مغل حکم راں اورنگ زیب عالم گیر کا زمانہ دیکھا اور 1724ء میں یہاں آصفیہ سلطنت کی بنیاد رکھی گئی اور بعد میں اس خاندان کے فرماں روا نظام دکن کے نام سے مشہور ہوئے۔

    میر محبوب علی خان اسی خاندان کے چھٹے حکم راں تھے۔ وہ 17 اگست 1866ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے عہد میں فارسی کی جگہ اردو کو قبول کیا اور اس کی سرپرستی کی۔ ان کا دور 50 سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے جس میں نظامِ دکن نے تعلیمی ادارے، مدرسے اور دارُالعلوم مع اقامت گاہ قائم کیے اور جدید و اسلامی علوم کی تعلیم کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

    بدقسمتی کہیے یا کم علمی کہ آج ہندوستان کی ایک نہایت خوش حال اور مرفہ الحال ریاست کے اس فرماں روا کا ذکر کم ہی ہوتا ہے جس نے اردو کو اپنے دربارِ خاص میں جاودانی اور پائندگی دی تھی۔

    میر محبوب علی خان کے بعد ان کے بیٹے میر عثمان علی خان حیدرآباد کے آخری بادشاہ تھے اور ان کی تخت نشینی کے بعد دکن ہی نہیں برصغیر میں اردو نے عدیمُ النظیر ترقی کی اور فروغ پایا۔ علوم و فنون، دین و مذہب، تہذیب و ثقافت کا وہ کون سا آفتاب، کیسا گوہرِ آب دار تھا جسے حضور نظام کے دربار سے نوازا نہ گیا۔ میر عثمان علی خان نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کی منظوری دی اور اس کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے جس کا ذریعہ تعلیم صرف اور صرف اردو زبان تھا۔

    میر محبوب علی خان 29 اگست 1911ء کو اس عالمِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

  • نام وَر ترقّی پسند اور انقلابی شاعر مخدوم محی الدّین کی برسی

    نام وَر ترقّی پسند اور انقلابی شاعر مخدوم محی الدّین کی برسی

    مخدوم ایک نئی دنیا اور نئے آدم کے متمنّی رہے ہیں۔ ان کی انقلابی اور اشتراکی رنگ کی نظمیں انہی مرکزی خیال کے گرد گھومتی ہیں۔ آج اس عظیم شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 25 اگست 1969ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    1908ء میں ابو سعید محمد مخدوم محی الدّین حذری نے ہندوستان کی ایک متموّل ریاست حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی۔ مخدوم نے اس دور کے رواج کے مطابق قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم گھر پر مکمل کی۔ وہ ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ بعد میں جامعہ عثمانیہ سے بی اے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1936ء میں سٹی کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے اور چند سال بعد مستعفی ہوگئے۔

    ان کا ادبی اور تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور اس زمانے میں ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں اور سیاسی ہنگامہ آرائیاں جاری تھیں، اسی ماحول میں‌ ادب میں ترقی پسند رجحانات کو فروغ ملا اور مخدوم 1940ء میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری منتخب ہوگئے۔ جولائی 1943ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی باقاعدہ تشکیل مخدوم کی راہ نمائی میں ہوئی۔

    ان کی سیاسی مصروفیات بڑھ گئی تھیں اور وہ ہندوستان میں برطانوی راج کے عام انتخابات میں آندھراپردیش اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ اس عرصے میں انھوں نے اپنی رومانوی اور انقلابی شاعری سے ہندوستان بھر میں شہرت پائی اور اصنافِ سخن میں پابند و آزاد نظموں کے علاوہ اپنے قطعات، رباعیوں اور غزلوں کے لیے مشہور ہوئے۔ ان کی مشہور تصانیف ’سرخ سویرا‘، ’گلِ تر‘ اور ’بساطِ رقص‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

    مخدوم انسان دوست اور اشتراکیت کے حامی تھے۔ انھوں نے مشرق کی زبوں حالی، معاشی ابتذال، غریبوں اور محنت کشوں کا استحصال، بھوک، افلاس، غربت کے خلاف اپنے اشعار میں‌ آواز بلند کی۔ مخدوم روس کے سرخ انقلاب سے بے حد متاثر ہوئے تھے اور اسی سے ذہنی وابستگی تادمِ آخر برقرار رکھی۔

    مخدوم کی قومی نظموں میں آزادئ وطن، جنگ آزادی، مسافر، بنگال، اور چاند تاروں کا بن قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی نظموں میں علامات، اشاروں، استعاروں اور کنایوں میں ملک اور ہندوستان بھر کے سیاسی حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ فطرت اور مناظرِ قدرت کے بڑے دلدادہ رہے ہیں۔ ان کی مناظرِ قدرت پر لکھی ہوئی نظمیں بلیغ اشارے رکھتی ہیں جن میں وہ فلسفہ اور انقلاب کی رنگ آمیزی بھی کرتے ہیں اور بے لطف نہیں ہونے دیتے۔ مخدوم کی مشہور نظموں میں شاعر، سناٹا، قلندر، لختِ جگر، نہرو، رات کے بارہ بجے، گھر، اقبال، اور ‘اقبال کی رحلت’ شامل ہیں۔

    اس انقلابی شاعر نے دہلی میں وفات پائی۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
    چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

    اس اہم ترقّی پسند شاعر کی چند غزلیں اور نظمیں بھارت کی مشہور اور مقبول فلموں ’بازار‘ اور ’ گمن‘ کے لیے نام ور گائیکوں کی آواز میں ریکارڈ کروا کے شامل کی گئی تھیں۔

  • بہادر یار جنگ: اقبال اور قائدِ اعظم کے شیدائی، مسلم لیگ کے عظیم مجاہد کا تذکرہ

    بہادر یار جنگ: اقبال اور قائدِ اعظم کے شیدائی، مسلم لیگ کے عظیم مجاہد کا تذکرہ

    جب قائدِ اعظم نے انگلستان سے لوٹ آنے اور مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کی ذمے داری سنبھالنے کا فیصلہ کیا تو چند سر بَر آوردہ کارکن ان کی قیادت میں کام کرنے کے لیے ان کے ساتھ ہوگئے۔ ان کارکنوں میں نواب بہادر یار جنگ ایک نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔

    یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگاکہ نواب صاحب کی اندوہ ناک اور ناوقت موت تک وہ قائدِاعظم کے معتمد اور دستِ راست رہے۔ بہادر یار جنگ نے اپنے قائد کا اعتماد حاصل کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تھا۔ مسلم عوام کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کرنے کی خاطر انھوں نے سارے ہندوستان کے دورے کیے اور اپنی بے مثال خطابت سے مسلم لیگ کو مسلمانانِ ہند کی واحد نمایندہ جماعت بنانے کے سلسلے میں غیر معمولی خدمات انجام دیں۔

    بہادر یار جنگ بجا طورپر ان عظیم مجاہدین میں شمار کیے جا سکتے ہیں جنھوں نے قائدِاعظم کی قیادت میں حصولِ پاکستان کی جنگ لڑی۔

    محمد بہادر خان فروری 1905ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کے چند دن بعد ہی ان کی والدہ وفات پاگئیں۔ بہادر خان کی نانی نے جو ایک نہایت سمجھ دار اور مذہبی خاتون تھیں ان کی پرورش کی۔ اٹھارہ سال کے ہوئے تو والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے وقت جاگیر قرضوں کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی۔ نواب صاحب نے غیر معمولی تدبّر اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور تھوڑی سی مدّت میں قرضوں سے نجات حاصل کرلی۔

    جاگیر کے حالات سنبھل گئے تو نواب صاحب نے حج بیتُ اﷲ کا عزم کیا۔ حج سے فارغ ہوکر مسلم ممالک کی سیاحت کی، سیّاحت سے واپسی کے بعد خاکسار تحریک سے وابستگی اختیار کرلی اور ساتھ ہی ریاست کی ایک سیاسی و مذہبی تنظیم مجلسِ اتحادُ المسلمین میں بھی شامل ہوگئے۔

    1944ء میں وہ خاکسار تحریک سے علیحدہ ہوگئے اور اپنی ساری توجہ مجلسِ اتحادُ المسلمین کی طرف مرکوز کردی۔ انھوں نے مجلس میں ایک رضاکار تنظیم قائم کی۔ بہادر یار جنگ کی قائدانہ صلاحیتوں نے مسلمانانِ حیدر آباد(دکن) میں ایک نیا قومی جذبہ پیدا کردیا۔

    بہادر یار جنگ بڑی ہی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ بڑے ہی مذہبی اور معاملات میں انتہائی صداقت پسند اور کھرے انسان تھے۔ جس بات کو حق سمجھتے اس کو کہتے اور کر گزرنے میں کسی قسم کی پروا نہ کرتے، وہ دامے، درمے، سخنے ہر ایک کی مدد کے لیے ہر وقت مستعد رہتے۔ قدرت نے بہادر یار جنگ کو ماحول کی پیداوار نہیں بلکہ ماحول کا مصلح بنایا۔ بچپن ہی سے وہ اسلامی جذبے سے سرشار تھے۔ مسلمانوں کی خدمت ان کا نصبُ العین تھا۔ ملّت کی تنظیم ان کا مدعا تھا اور قومی اتحاد ان کا مطمحِ نظر تھا۔ اسی کے پیشِ نظر انھوں نے نوجوانی کے عالم میں میلاد کی محفلوں میں تقریریں شروع کیں۔ مساجد میں وعظ اور جلسوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دور میں علامہ اقبالؒ سے بہت متاثر ہوئے۔

    علامہ اقبال کے جذبہ اسلامی کے وہ بڑے پرستار تھے۔ ان کے کلام اور اشعار بر محل پڑھتے تھے۔ اس لگاؤ نے انھیں اس بات پر آمادہ کیا کہ درسِ اقبالؒ کی محفلیں باقاعدہ منعقد کریں۔ چنانچہ وہ اپنے مکان بیتُ الّامت میں درسِ اقبال کی محفلیں منعقد کرتے تھے جس میں اقبال شناس شخصیتیں موجود ہوتی تھیں۔

    ایک طرف بہادر یار جنگ درسِ اقبال دیا کرتے تھے تو دوسری طرف درسِ قرآن۔ وہ جس طرح اقبال سے متاثر تھے اسی طرح مولانا رومیؒ کے زیر اثر بھی تھے۔ وہ علامہ اقبال ؒ اور مولانا رومیؒ کے تو مرید تھے۔

    بہادر یار جنگ میں دو خصوصیات بہت نمایاں تھیں۔ ان ہی خصوصیات نے انھیں اس مقام پر پہنچایا جو بہت سوں کے لیے باعثِ رشک تھا۔ ایک خصوصیت ان کا بے پناہ خلوص تھا، سیاست ان کے لیے پیشہ ہرگز نہ تھی اور نہ وہ اس کو اپنا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔

    مسلمانوں کے سیاسی عروج اور ان کے اتحاد کے لیے وہ پورے خلوص کے ساتھ زندگی بھر کام کرتے رہے۔ اگر دولت جاہ و منصب ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے تو وہ بڑی خوشی کے ساتھ اور بغیر کسی تامل کے انھیں ٹھکرا دیتے اپنی ساری زندگی اور ساری توانائی انھوں نے بڑی ایمان داری اور جرأت کے ساتھ مسلم سیاست پر صرف کر دی۔ ان کا یہی نصبُ العین تھا اور یہی ان کی جد وجہد کی غرض وغایت۔ اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔

    سیاست میں ان کا ہیرو قائدِ اعظم تھے جن کی زندگی سے انھوں نے عزم و ثبات کا سبق سیکھا تھا۔ ان میں قائدِاعظم کی سی اصول پرستی تھی اور وہی بے باکی اور صاف گوئی۔ وہ نڈر اور جری تھے۔ مجاہد کی طرح ہر محاذ پر ڈٹ جاتے اور غازی کی طرح کام یاب اور کام ران رہتے۔

    دوسری خصوصیت ان کی خطابت تھی۔ قدرت نے انھیں یہ نعمت بطورِ خاص عطا کی تھی اور اس کا استعمال بھی انھوں نے ہر موقع اور ہر محل پر صحیح کیا۔ بغیر کسی تیاری کے وہ ہر موضوع پر بے تکان بولتے تھے۔ الفاظ کا انتخاب، فقروں کی بندش اظہار خیال کی ندرت اور آواز کا اتار چڑھاؤ اس قدر متوازن ہوتا کہ مجموعی طورپر ان کی ہر تقریر ایک شہ پارہ ہوتی تھی۔ ہر تقریر سننے والوں کو پچھلی تقریر سے بہتر معلوم ہوتی ۔ اور وہ اس ذوق وشوق سے سنتے جیسے کہ کوئی نغمہ ہو۔ میلاد کی محفل ہو، کالج کی انجمن ہو یا سیاسی تحریک ہر جگہ ان کا طوطی بولتا نظر آتا تھا۔

    انھوں نے تحریکِ پاکستان کو فروغ دینے میں جس خلوص و تن دِہی سے حصہ لیا تھا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اسلام کے بڑے شیدائی تھے۔ ان کی دلی تمنّا تھی کہ ایک ایسی مملکت برصغیر کے اندر بنائی جائے جہاں اسلامی آئین و قوانین نافذ ہوں۔ ایسی سلطنت کے قیام کا منصوبہ دیکھ کر انھوں نے غیر مبہم الفاظ میں یہ کہہ دیا تھا۔

    ’’میرے خیال میں پاکستان کے لیے ہر قسم کی سعی و کوشش حرام اگر پاکستان سے الٰہی اور قرآنی حکومت مراد نہیں جس میں قانون سازی کا بنیادی حق صرف خدائے قدوس کو حاصل ہو، ہمارے بنائے ہوئے قوانین اس کی توصیح و تشریح کریں۔‘‘ وہ آج ہم میں نہیں لیکن ان کی اعلیٰ شخصیت، بے مثال خطابت کی یاد آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔

    بلا شبہ ان کی زندگی میں ہمارے لیے ایک ایسا قابلِ تقلید نمونہ موجود ہے جسے بلا مبالغہ اقبالؒ کے مردِ مومن سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

    (پروفیسر خواجہ قطب الدّین نے چند سال قبل یہ مضمون بہادر یار جنگ کی برسی کے موقع پر سپردِ قلم کیا تھا)

  • نام وَر ہندوستانی مؤرخ اور ماہرِ آثار و ثقافت زبیدہ یزدانی کی برسی

    نام وَر ہندوستانی مؤرخ اور ماہرِ آثار و ثقافت زبیدہ یزدانی کی برسی

    نام وَر مؤرخ اور ماہرِ ثقافت زبیدہ یزدانی 11 جون 1996ء کو لندن میں وفات پاگئی تھیں۔ انھوں نے ہندوستان کی تاریخ پر کتب اور متعدد علمی مضامین لکھے اور پیشہ وَر مؤرخ کی حیثیت سے مشہور ہوئیں۔ زبیدہ یزدانی کا خاص موضوع حیدرآباد دکن تھا جس پر ان کے کام کو سند اور معتبر حوالہ مانا جاتا ہے۔

    27 اپریل 1916ء کو پیدا ہونے والی زبیدہ یزدانی کے والد ڈاکٹر غلام یزدانی بھی ماہرِ‌ آثارِ قدیمہ کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ہندوستان میں تاریخ اور ثقافت کے حوالے سے ان کا اہم کردار رہا جب کہ ان کی تصنیف کردہ کتب یادگار اور اہم تاریخی حوالہ ثابت ہوئیں۔ وہ حیدرآباد، دکن میں نظام کے دور میں آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر تھے اور اجنتا اور ایلورا کے غاروں‌ کے تحفظ کے لیے کام کرنے کے علاوہ مختلف مذاہب کے تاریخی معبدوں کی ازسرِ نو تعمیر و مرمت بھی اپنی نگرانی میں کروائی۔ زبیدہ یزدانی نے بھی اپنے والد کی طرح تاریخ و آثار، تہذیب و ثقافت میں دل چسپی لی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی، وہ اکسفورڈ میں داخلہ لینے والی اوّلین ایشیائی خواتین میں سے ایک تھیں۔

    زبیدہ یزدانی کی پہلی کتاب "Hyderabad during the Residency of Henry Russell 1811 – 1820” تھی جب کہ دوسری اہم کتاب "The Seventh Nizam: The Fallen Empire” کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ زبیدہ یزدانی سماجی اور تعلیمی کاموں کے لیے بھی مشہور تھیں۔

    حیدرآباد دکن کی تاریخ اور ثقافت کی ماہر زبیدہ یزدانی نے اسی مردم خیز خطّے میں علم و فنون کی آبیاری کے لیے مشہور اور عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے ویمن کالج میں استاد کی حیثیت سے وقت گزارا اور اس دوران اپنا علمی اور تحقیقی کام بھی جاری رکھا۔ انھوں نے 1976ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے شوہر میر یٰسین علی خان کے ساتھ برطانیہ میں سکونت اختیار کرلی تھی اور وہیں انتقال کیا۔

  • قلی قطب شاہ کے "چار مینار” کی انوکھی کہانی!

    قلی قطب شاہ کے "چار مینار” کی انوکھی کہانی!

    محمد قلی قطب شاہ کو عمارتیں بنوانے کا بہت شوق تھا، ایک بار جب وہ دلّی گیا تو شوق شوق میں اس نے ایک بہت اونچا مینار بنا دیا، جسے آج کل قطب مینار کہتے ہیں۔ جب یہاں کی رعایا کو یہ بات معلوم ہوئی تو ان میں غیض و غضب کی ایک لہر دوڑ گئی کہ اپنے شہر کو چھوڑ کر دلّی میں مینار بنوانے کا کیا مطلب؟

    بادشاہ نے دلّی والے آرکٹیکٹ کو بلا کر اسے یہاں بھی ویسا ہی مینار بنانے کو کہا۔ لیکن قطب مینار بناتے بناتے وہ آرکیٹکٹ بے چارہ بوڑھا ہو گیا تھا اور اب اس میں اس بلندی پر پہنچے کی سکت نہیں رہ گئی تھی۔ جب اس نے اپنی معذوری ظاہر کی تو بادشاہ نے کہا کوئی مضائقہ نہیں تم چار چھوٹے چھوٹے مینار بنا دو، ہم کسی اور نوجوان آرکٹیکٹ کو کہہ دیں گے کہ وہ ان کو ایک دوسرے کے اوپر کھڑا کر کے ایک اونچا مینار تیار کر دے۔

    جب چاروں مینار علیحدہ علیحدہ تیار ہو گئے تو ایک مدبّر نے صلاح دی کہ عالم پناہ آپ کیوں نہ چار مینار علیحدہ علیحدہ ہی رہنے دیں۔ اس طرح آپ رعایا کو کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ نے دلّی میں ایک مینار بنوایا تو یہاں کے لوگوں کے لیے چار مینار بنوائے۔ اس کے علاوہ آپ کے نام کے چار حصّوں یعنی محمد، قلی، قطب اور شاہ کے لیے ایک ایک مینار یادگار رہے گا۔

    بادشاہ کو یہ صلاح پسند آئی اور نہ صرف فوری طور پر اس کی شخصیت کو چار چاند بلکہ چار مینار لگ گئے اور ہمیشہ کے لیے اس کا نام امر ہو جانے کا امکان پیدا ہوگیا۔ اس مدبّر کو ایسی صلاح دینے کی پاداش میں پدم بھوشن کے خطاب سے نوازا گیا اور اس طرح حیدرآباد کا امتیازی نشان وجود میں آیا۔

    چار مینار کی دھوم جب دلّی تک پہنچی تو مغل بادشاہ اورنگ زیب کے دل میں اسے دیکھنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے جب دکن کے دورہ کا پروگرام بنایا تو اس کا سپہ سالار اور فوج کے ہزاروں سپاہی سیاحت کے شوق میں اس کے ساتھ ہوئے، یہاں ٹورسٹ لوگوں کا رش اتنا تھا کہ اورنگ زیب کو چھے مہینے انتظار کرنا پڑا۔ بے تاب ہوکر اس نے شہر پر دھاوا بول دیا۔

    یہ عمارت دیکھی تو اتنی پسند آئی کہ سات سال تک یہیں ٹکا رہا۔ آخر چار مینار کی تصویر دل میں لیے ہوئے وہ دکن میں ہی اللہ کو پیارا ہو گیا۔

    (معروف ادیب، مزاح نگار اور مؤرخ نریندر لوتھر کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا، یہ شگفتہ پارہ اسی شہر سے متعلق ان کے ایک مضمون سے لیا گیا ہے، اس مضمون میں انھوں نے دکن کی ایک مشہور اور تاریخی اہمیت کی حامل یادگار "چار مینار” کے بارے میں شگفتہ بیانی کی ہے)

  • قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی محبّت، حقیقت یا افسانہ؟

    قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی محبّت، حقیقت یا افسانہ؟

    جنوبی ہندوستان کی سلطنتِ گولکنڈہ اور قطب شاہی خاندان کے محمد قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر مانا جاتا ہے۔

    وہ 1565ء میں‌ پیدا ہوا اور اس سلطنت کا پانچواں حکم راں تھا جس نے بعد میں شہر حیدرآباد دکن بسایا اور وہاں شہرہ آفاق یادگار چار مینار تعمیر کروائی۔

    اسی قلی قطب شاہ کے عشق کی کہانی بھی مشہور ہے جس کی حقیقت میں مؤرخین کا اختلاف ایک طرف، مگر یہ لوک گیتوں اور کہانیوں کا حصّہ ہے۔

    کہتے ہیں محمد قلی قطب شاہ ایک لڑکی پر فریفتہ ہو گیا۔ وہ چھپ چھپ کر اس سے ملاقاتیں کرنے لگا تھا۔ بادشاہ نے شہزادے کو اس سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی، مگر وہ نہ رکا۔

    مشہور ہے کہ ایک بار محبوبہ سے ملاقات کے لیے شہزادے نے بپھرے ہوئے دریا میں گھوڑا ڈال دیا تھا۔ بادشاہ کو اس کی خبر ہوئی تو پدرانہ شفقت اور محبت نے جوش مارا اور حکم دیا کہ دریائے موسیٰ پر پُل تعمیر کردیا جائے۔ غالباً یہی وہ واحد راستہ تھا جس سے گزر کر شہزادہ اپنی محبوبہ سے ملنے جاتا تھا۔

    بالآخر وہ وقت آیا جب محمد قلی قطب شاہ سلطان بنا اور اس لڑکی سے شادی کرلی۔ کہتے ہیں اس کا نام ‘بھاگ متی’ تھا، جسے سلطان نے ‘قطبِ مشتری’ کے خطاب سے سرفراز کیا۔

    ادبی مؤرخین کا خیال ہے کہ قلی قطب شاہ جس لڑکی (بھاگ متی) کی محبّت میں‌ گرفتار ہوا تھا، وہ رقص و موسیقی میں کمال رکھتی تھی۔ اسی کے نام پر بادشاہ نے شہر ‘بھاگ نگر’ بسایا تھا جسے بعد میں حیدر آباد کا نام دے دیا گیا۔ اسی طرح بھاگ متی کو حیدر محل کہا جانے لگا تھا۔

    سلطان محمد قلی قطب شاہ کی محبّت کی داستان کو بعض مؤرخین نے من گھڑت داستان اور افسانہ لکھا ہے۔ اسی طرح لڑکی کے قبولِ اسلام اور سلطان سے نکاح کے بعد ملکہ بن جانے پر بھی بحث کی جاتی ہے۔

    شہر حیدرآباد کی وجہِ تسمیہ وہ خطاب بتایا جاتا ہے جو قطبِ‌ مشتری سے ‘حیدر محل’ ہوگیا تھا، تاہم اس پر اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن سلطان اور محبوبہ سے محرم بننے تک بھاگ متی داستانوی ادب میں آج بھی زندہ ہیں۔