Tag: حیدرآباد دکن

  • بھارت: سالگرہ تقریب کے بعد تاجر کی کرونا سے موت، پارٹی شرکا میں خوف

    بھارت: سالگرہ تقریب کے بعد تاجر کی کرونا سے موت، پارٹی شرکا میں خوف

    حیدرآباد: بھارتی شہر حیدرآباد میں ایک سالگرہ تقریب کے بعد تاجر کی کرونا وائرس انفیکشن سے موت نے اس پارٹی میں شریک لوگوں میں خوف پھیلا دیا ہے۔

    بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ سالگرہ تقریب کے بعد حیدر آبادی تاجر کی کرونا وائرس سے موت نے پارٹی میں شریک لوگوں میں خوف پیدا کر دیا، پارٹی میں شریک 20 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق بھی ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق حیدر آباد کے ایک بڑے جیولر پرسان چند بھنڈاری نے 22 جون کو 63 ویں سالگرہ منائی تھی، کرونا وائرس کی وبا کے باوجود تاجر نے بڑی پارٹی منعقد کی اور لوگوں کو دعوت دے دی۔

    سالگرہ تقریب میں شہر کے بڑے تاجروں نے شرکت کی، شرکا کی تعداد 100 کے قریب تھی، پارٹی کے دو دن بعد پرسان چند بھنڈاری کو کھانسی اور سانس میں تکلیف پر کارپوریٹ اسپتال لے جایا گیا تو ان کا کرونا ٹیسٹ مثبت آ گیا۔

    یہ خبر پارٹی کے شرکا کے لیے دہشت انگیز ثابت ہوئی، اور انھوں نے بھی اپنے کو وِڈ 19 ٹیسٹ کروا لیے جن میں 20 افراد کے کرونا ٹیسٹ مثبت آ گئے۔

    بعد ازاں یکم جولائی کو چند دن قبل ہی اپنی 63 واں جنم دن منانے والا تاجر پرسان چند بھنڈاری کرونا وائرس کے آگے ہار مان کر ہلاک ہو گیا۔ اطلاعات کے مطابق اس پارٹی میں شرکت کرنے والا ایک اور جیولر بھی کرونا وائرس کی وجہ سے موت کا شکار ہو چکا ہے۔

    دو اموات نے دیگر شرکا کے خوف میں اضافہ کر دیا ہے، پارٹی میں تلنگانہ کی قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر ٹی پدما راؤ بھی شریک تھے، ان کا کو وِڈ 19 ٹیسٹ بھی مثبت آ چکا ہے، جو اب اپنے گھر پر زیر علاج ہیں۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ حال ہی میں حیدرآباد دکن میں دکنی زبان میں ایک محاورہ مشہور ہو گیا ہے، ‘کرونا کو لائٹ نککو لیو، نائی تو بیگن میں مل جاتے’، جس کا مطلب ہے کہ اگر کرونا کو سنجیدگی سے نہ لو گے تو مشکل میں پڑ جاؤ گے۔

  • میر عثمان علی خان کی فیاضی اور علم پروری

    میر عثمان علی خان کی فیاضی اور علم پروری

    سَرزمینِ دکن پر جامعہ عثمانیہ کا قیام اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان کی فیاضی کا اظہار ہے۔ انھوں نے ایک مقامی زبان کی ترقی و ترویج میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ ان ہی کے لیے مخصوص ہے اور آج وہی زبان ذریعہ تعلیم بنی ہوئی ہے۔

    انھوں نے ترجمے کا شعبہ قائم کیا جہاں اس قدر وسیع کام ہوا کہ دنیا کی ہر زبان کی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا جو غیر معمولی کام ہے۔

    اعلیٰ حضرت سے متعلق بعض لوگوں نے منفی خیالات پیش کیے ہیں جن پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ اس کی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آصف سابع کی شخصیت کا ایک خوب صورت پہلو یہ بھی رہا کہ انھوں نے فضول خرچی سے ہر دم اجتناب کیا اور کفایت شعاری کو اپنا شعار بنا لیا۔

    رکھ رکھاؤ، نفاست، تہذیب اور شائستگی کا وہ عملی نمونہ تھے۔ تعلیمی اداروں کی سرپرستی کرنے کو وہ فرض عین سمجھتے تھے۔

    نظام آرتھوپیڈک اسپتال، جامعہ نظامیہ، حکمت اور طب کو فروغ دینے کے لیے عثمانیہ دوا خانہ، عثمانیہ یونیورسٹی، میڈیسن کی تعلیم کے انتظامات اور دوسرے شعبوں کا قیام ان کی زندگی کے اہم کارنامے ہیں اور آج حیدر آباد دکن میں تعلیم کی جو روشنی نظر آ رہی ہے وہ اعلٰی حضرت ہی کی مرہون منت ہے۔

    قدیم حیدر آباد میں اکثر لوگ فارغ اوقات میں کتب خانے چلے جاتے تھے۔ آصفیہ لائبریری، سالار جنگ لائبریری میں نادر و نایاب کتابوں کا ذخیرہ آج بھی ہے۔

    عثمانیہ یونیورسٹی کے کیمپس میں بھی ایک لائبریری اب بھی ہے جہاں بے شمار اہم کتابیں دست یاب ہیں۔

    (حیدر آباد (دکن) کے آخری نظام میر عثمان علی خان کی سخاوت، فیاضی اور علم پروری کے حوالے سے ایک مضمون سے چند پارے)

  • حیدر آباد دکن: گئے دنوں کی بات ہے….

    حیدر آباد دکن: گئے دنوں کی بات ہے….

    قدیم حیدر آباد (دکن) کی رسومات جن میں شادی بیاہ کی رسومات اہم ہیں، اس موقع پر کئی روز قبل تیاریوں کا آغاز ہوا کرتا تھا، عروس کو ایک ہفتہ قبل ہی سے الگ تھلگ رکھا جاتا تھا۔

    پیلا لباس اس کے لیے مخصوص ہوتا تھا بلکہ آج بھی ہے۔ وہ کام کاج سے دست بردار ہو جایا کرتی تھی۔ خاندان کی ایک سن رسیدہ خاتون اس کے ہمراہ ہوا کرتی تھی جو نئے ماحول کے لیے اسے ذہنی طور پر تیار کرتی تھی۔ ہر گھر میں صحن ہوتا تھا اور مکان وسیع اور کشادہ ہوا کرتے تھے جس میں بے حساب مہمان سما جاتے تھے۔

    میدانوں میں شامیانے ڈالے جاتے اور خاندان کے بزرگ، نوجوان نسل سے کام لیا کرتے تھے۔

    آج بزرگوں کی آواز صدا بہ صحرا بن گئی ہے اور فلیٹ کی زندگی نے جذبات اور احساسات کا خون کر دیا ہے۔

    پولیس ایکشن کے دوران بعض اضلاع میں پولیس یا فوج کی زیادتیاں رہیں۔ خوف و ہراس کا ماحول تھا اور لوگ تیز رفتاری سے نقل مکانی کرنے پر مجبور تھے۔ ایسی کوئی شخصیت بھی نہیں تھی جو مسلمانوں کی صحیح راہ نمائی کرسکے۔

    پرانے حیدر آباد (دکن) کو یاد کریں تو فضاؤں میں گھوڑوں کی ٹاپ ابھرتی ہے، اس زمانے کی سواریوں میں تانگے، بنڈیاں اور سائیکل رکشے ہی تھے۔ شکرام بھی ہوا کرتا تھا جس میں بیٹھنے کا انتظام فرشی ہوا کرتا تھا۔ اکثر طلبا شکرام ہی کے ذریعہ مدرسہ جایا کرتے تھے، کیوں کہ اس میں اپنے بستے رکھنے کی انھیں کافی سہولت حاصل ہوتی تھی۔

    ہاتھ سے چلنے والے رکشے، پھر پیڈل والے رکشے بھی اہم سواریوں میں شامل تھے۔ گرد و غبار اور دھول سے پاک حیدر آباد من کو بہت بھاتا تھا۔

    (’حیدر آباد جو کل تھا‘ کے موضوع پر پروفیسر یوسف سرمست کی تحریر سے خوشہ چینی)

  • دکن کے شوقیہ گلوکار

    دکن کے شوقیہ گلوکار

    دکن کے شوقیہ موسیقاروں میں، جن کا ہر مجلس میں چرچا تھا سب سے پہلا نمبر عبدالرّؤف کا تھا۔

    عبدالرّؤف غالباً محکمہ رجسٹریشن بلدہ میں سب رجسٹرار تھے، لیکن شوقیہ گاتے تھے۔ گلے میں نور تھا۔ میں نے ان کو مختلف مجلسوں میں گاتے دیکھا ہے، جب وہ سُر کو تال سے ہم آہنگ کرتے تو ہر طرف سے داد و تحسین کی صدائیں بلند ہوتیں۔

    جب وہ آواز کا جادو جگاتے تو پوری محفل پر سناٹا چھا جاتا۔ ان کی آواز پپیہے کی آواز کی طرح تھی۔ حیرتؔ (شاعر) صاحب کی بدولت میری ان سے رسمی ملاقات تھی۔

    آج سے 40 سال پہلے میں نے رفیقانِ حیدرآباد کے عنوان سے نظم کہی تھی جس میں اپنے دوستوں سے شکوہ کیا تھا کہ وہ عہدِ ماضی کو یاد نہیں کرتے۔ ان میں رؤف، میر ابن علی، ماہر، حیرت، جوش، حکیم آزاد انصاری کا خاص طور پر ذکر کیا تھا۔

    میر ابن علی، میر محفوظ علی کے صاحبزادے تھے۔ محلہ ملہ پلی میں رہتے تھے۔ علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔ علم، مجلس اور حاضر جوابی کے ساتھ موسیقی میں بھی دسترس رکھتے۔ موسیقی کی محفلیں ان کے دم سے رونق پاتی تھیں۔ پولیس ایکشن کے بعد وہ مددگار کوتوالی بلدہ ہوگئے تھے۔ ایک گیت جس کے بول تھے، ”کایہ کا پنجرہ ڈولے“ بہت ہی عمدہ گاتے تھے۔

    طبلے کی تھاپ اور ہارمونیم پر جب یہ گیت گاتے تو اہل محفل وارفتہ ہوجاتے۔ میں نے اکثر ان کی محفلوں میں شرکت کی ہے۔

    معزالدین صدر محاسبی میں ملازم تھے۔ موسیقی کے رسیا تھے۔ حیرت صاحب سے گہرے مراسم تھے۔ ان کی بدولت میں بھی ایک دو مرتبہ ان کی بزم موسیقی میں شریک ہوا تھا۔ گاتے اچھا تھے۔ ان کے گانے میں بڑا کیف تھا۔


    (معروف نثر نگار، شاعر اور تاریخ نویس اعجاز الحق قدوسی کی کتاب ”میری زندگی کے 75سال“ سے ایک ورق)

  • ٹرین کا سفر اور جالندھر کی مٹی کا کوزہ!

    ٹرین کا سفر اور جالندھر کی مٹی کا کوزہ!

    غلام رسول مہرؔ نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں۔ اردو ادب میں انھیں ایک انشا پرداز، جید صحافی، ادیب، شاعر، نقاد، مترجم، مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    غلام رسول مہر کو بسلسلۂ روزگار چند برس حیدر آباد دکن میں گزارنے کا موقع بھی ملا۔ وہ وہاں محکمۂ تعلیم میں ملازم ہوگئے تھے۔ دورانِ ملازمت مہرؔ چھٹیاں لے کر اپنے گھر والوں سے ملنے آبائی علاقے پھول پور (جالندھر) آتے جاتے رہتے تھے۔

    انھوں نے اپنی کتابوں میں حیدر آباد دکن میں اپنے قیام اور وہاں کی چند علمی اور ادبی شخصیات سے اپنی ملاقاتوں کا احوال تحریر کیا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے ٹرین کے سفر کی یادیں بھی رقم کی ہیں۔ ان کے قلم سے رقم ہوا یہ واقعہ گھر سے دوری کا کرب اور اپنے وطن کی مٹی سے محبت اور اس حوالے سے حساسیت کا اظہار ہے۔ وہ لکھتے ہیں

    1917 میں حیدرآباد دکن جا رہا تھا جہاں کچھ عرصہ پائیگاہ وقارُ الامرا میں انسپکٹر آف اسکولز کی حیثیت سے کام کیا۔ لمبا سفر تھا۔

    جالندھر سے دہلی، دہلی سے منماڑ اور وہاں سے چھوٹی لائن پر حیدرآباد جاتے تھے۔ چاندنی رات تھی اور میری ٹرین پورنا ندی سے گزر رہی تھی۔ میرے پاس مٹی کا ایک کوزہ تھا جس میں گھر والوں نے گاجر کا حلوا بناکر رکھ دیا تھا کہ کسی وقت کھانا حسبِ خواہش نہ ملے تو کھا لوں یا ناشتے میں کام دے سکے۔

    کوزہ حلوے سے خالی ہوچکا تھا، میں نے اسے کھڑکی سے نیچے پھینکنے کا ارادہ کیا اور کوزے والا ہاتھ کھڑکی سے باہر نکال کر پھینکنا چاہتا تھا، مگر پھینکا نہ گیا۔

    خیال آیا کہ یہ کوزہ جالندھر کی مٹی سے بنا اور میری وجہ سے بارہ، تیرہ سو میل دور پھینکا جائے گا اور اس کا کوئی ذرہ پھر اپنے وطن نہ پہنچ سکے گا۔ چناں چہ میں نے کوزہ رکھ لیا اور ایک نظم شروع ہو گئی۔ نظم کا عنوان کوزۂ سفال تھا۔

  • حیدرآبادی کڑھی کھانا چاہیں گے؟

    حیدرآبادی کڑھی کھانا چاہیں گے؟

    حیدرآباد دکن کے کھانے دنیا بھر میں نہایت مقبول ہیں۔ ان کھانوں کو عام روایتی کھانوں سے ذرا سا مختلف انداز میں تیار کیا جاتا ہے اور اس انفرادیت کے باعث یہ بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔

    اسی لیے آج ہم آپ کو لذیذ حیدرآبادی کڑھی بنانے کی ترکیب بتا رہے ہیں۔

    اجزا

    دہی: 500 گرام

    بیسن: آدھا کپ

    دھنیہ پاوڈر: 1 چائے کا چمچ

    لال مرچ پاؤڈر: حسب ذائقہ

    نمک: حسب ذائقہ

    ہلدی پاؤڈر: آدھا چائے کا چمچ

    ادرک لہسن کا پیسٹ: 1 چائے کا چمچ

    پیاز: 1 عدد ۔ باریک کھڑی کاٹ لیں

    لہسن کے جوئے: 4 سے 5 عدد

    ہری مرچ: 2 عدد

    کڑی پتہ: حسب ذائقہ

    ہرا دھنیہ، باریک کاٹ لیں

    ترکیب

    دہی، بیسن، نمک، لال مرچ پاؤڈر، ہلدی پاؤڈر اور ادرک لہسن پیسٹ کو 3 سے 4 کپ پانی ڈال کر مکسر ميں اچھی طرح مکس کر ليں۔

    اب برتن میں اس مکس کیے ہوئے اجزا کو ڈال دیں اور اس میں کٹی ہوئی پیاز، لہسن کے جوئے، کڑی پتہ، ہری مرچ ڈال یيں اور خوب اچھی طرح پکائیں۔

    تقریباً 30 منٹ دھیمی آنچ پر پکائیں۔

    اس کے بعد دھنیہ پاؤڈر ڈال دیں اور مزید 5 منٹ تک پکاتے رہیں۔ دھیان رہے کہ پکاتے ہوئے چمچ سے ہلاتے رہیں ورنہ داغ لگنے کا اندیشہ ہے۔

    پکوڑے بنانے کے لیے

    اجزا

    بیسن: 2 کپ

    نمک: حسب ذائقہ

    لال مرچ پاؤڈر: حسب ذائقہ

    ہلدی پاؤڈر: حسب ذائقہ

    ادرک لہسن کا پیسٹ: آدھا چائے کا چمچ

    کھانے کا سوڈا: آدھا چائے کا چمچ

    ہرا دھنیہ، باریک کاٹ کر ملا لیں

    تیل: فرائی کرنے کے لیے

    ترکیب

    تمام اجزا کو یکجا کرلیں اورنیم گرم پانی میں اچھی طرح مکس کر لیں۔

    فرائنگ پان میں تیل اچھی طرح گرم ہونے دیں اور اور چمچ سے چھوٹے چھوٹے پکوڑے ڈال کر تل لیں۔

    بگھار کے لیے

    اجزا

    ثابت زیرہ: 1 چائے کا چمچ

    سوکھی لال مرچ ۔ ثابت: 3 سے 4 عدد

    کڑی پات: حسب ذائقہ

    لہسن کے جوئے: 2 عدد باریک کاٹ لیں

    تیل: حسب ضرورت

    ہلدی: حسب ضرورت

    ترکیب

    کڑھی اور پکوڑوں کو یکجا کریں۔ فرائنگ پان میں تیل گرم کریں۔

    ثابت زیرہ، سوکھی لال مرچ، کڑی پتہ اور لہسن کے جوئے ڈال دیں اور براؤن ہونے پر ہلدی ڈال کر کڑھی میں بگھار لگا دیں۔

    گرما گرم مزیدار حیدرآبادی کڑھی تیار ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مشکوک ایکشن: ویسٹ انڈیز کے بالرسنیل نارائن فائنل کھیلنے سے محروم

    مشکوک ایکشن: ویسٹ انڈیز کے بالرسنیل نارائن فائنل کھیلنے سے محروم

    حیدرآباد دکن: ویسٹ انڈیزکےسنیل نارائن کابولنگ ایکشن دوسری مرتبہ رپورٹ ہوگیا، جس کے باعث وہ چیمپئنز لیگ ٹی ٹوئنٹی کافائنل نہیں کھیل سکیں گے۔بھارت میں جاری چیمپینز لیگ ٹی ٹوینٹی میں ویسٹ انڈیزکے معروف اسپنر سنیل نارائن کابولنگ ایکشن دوسری بار رپورٹ ہوگیا ہے۔

    نارائن کا بولنگ ایکشن چیمپئنزلیگ کےپہلےسیمی فائنل میں دوسری بار رپورٹ ہوا ہے، جس کے بعد چیمپینز لیگ انتظامیہ نے انھیں فائنل میں کھیلنے سے روک دیا ہے۔

    سنیل نارائن چیمپئنزلیگ میں کولکتہ نائٹ رائیڈرز کی نمائندگی کررہےتھے۔اس معاملے کی وجہ سے نارائن کی ویسٹ انڈیزکی جانب سےبین الاقوامی میچزمیں بھی شرکت مشکوک ہوگئی ہے۔

  • لاہورلائنز کےعدنان رسول کا بولنگ ایکشن بھی مشکوک قرار

    لاہورلائنز کےعدنان رسول کا بولنگ ایکشن بھی مشکوک قرار

    حیدرآباد دکن: پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اسٹار اسپنر سعید اجمل کے بعد لاہور لائنز کےآف اسپنر عدنان رسول کا بولنگ ایکشن بھی مشکوک قرار دے دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعید اجمل کے بعد ایک اور پاکستانی اسپنر کا ایکشن رپورٹ ہوگیا۔ چیمپیئنز لیگ میں شرکت کرنے والی قومی ڈومیسٹک ٹیم لاہور لائنز کے اسپنر عدنان رسول کا بولنگ ایکشن مشکوک قرار دے دیا گیا ہے۔

    عدنان رسول کا ایکشن کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے خلاف میچ میں چیمپیئنز لیگ انتظامیہ نے رپورٹ کیا، عدنان رسول نے کولکتہ کیخلاف میچ میں چار اوورز میں اٹھائیس رنز دیکر ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا تھا،ایونٹ انتظامیہ نے عدنان رسول کو چنئی سپر کنگز کے خلاف میچ کھیلنے کی اجازت دے دی ہے۔