Tag: حیدر آباد دکن

  • جود و سخا میں‌ مشہور چندو لال ‘مہاراجا’ کیسے بنے؟

    جود و سخا میں‌ مشہور چندو لال ‘مہاراجا’ کیسے بنے؟

    راجا چندو لال 1762ء میں پیدا ہوئے۔ راجا ٹوڈر مل ان کے مورثِ اعلیٰ تھے۔ یہ کہتری قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے جدِ امجد رائے مول چند آصف جاہ اوّل کی ہمرکابی میں دکن آئے تھے۔

    راجا چندو لال کم سنی میں یتیم ہوگئے تھے۔ سنِ شعور کو پہنچنے کے بعد شمشیر جنگ اور بدیع اللہ خاں کمشنر کروڈ گری کی ماتحتی میں کام کرتے رہے۔ پھر ترقی کرکے سبزی منڈی کی محرری پر مامور ہوئے اور صبح سے شام تک منڈی میں بیٹھے رہتے تھے۔ اس کے بعد بیلی کے عہدے پر ترقی کی۔

    1797ء میں شمشیر جنگ نے انہیں اپنے تعلقہ موروثی کی کار پردازی پر مقرر کردیا اور اسی سال مشیر الملک بہادر کی تحریک پر دربارِ آصفیہ سے یہ قلعہ سدوٹ، موضع کریہ اور کانجی کوٹہ وغیرہ کے انتظام کے لیے چار ہزار سوار اور چار ہزار پیدل کے ساتھ مامور کیے گئے اور راجا بہادر کا خطاب پایا۔

    اس مہم سے واپسی کے بعد شمس الامرا کی جمعیت پائیگاہ ان کو تفویض کی گئی۔ ان خدمات کو انہوں نے کمال حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا۔ جس کی وجہ سے میر عالم بہادر وزیر مملکت آصفیہ کی نگاہوں میں ان کا مقام بڑھ گیا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد سکندر جاہ بہادر نے ان کی قابلیت سے آگاہ ہوکر افواجِ آصفیہ کا پیش کار مقرر فرمایا۔

    1235ھ (1820۔1819ء) میں نواب سکندر جاہ بہادر نے ان کو مہاراجا کا خطاب دے کر نوبت اور جھالر دار پالکی سے سرفراز فرمایا۔ اور اس کے علاوہ ایک کروڑ روپیہ نقد عطا فرمایا۔ 1822ء میں ہفت ہزاری منصب سے سرفراز کیا۔ نواب منیر الملک کے انتقال کے بعد مہاراجہ چندو لال وزارتِ عظمیٰ پر سرفراز کیے گئے۔ 1844ء میں ملازمت سے مستعفی ہوئے اور 1854ء میں 86 برس کی عمر میں انتقال کیا۔

    مہاراجا چندو لال کو انگریزوں کی تائید کی وجہ سے ایسا مقام حاصل ہوگیا تھا کہ وزیر اعظم امورِ نظم و نسق سے تقریباً بے دخل تھا اور سوائے دستخط کے عملاً اسے کوئی اختیار نہ تھا۔ نواب سکندر جاہ بھی بالکل بے اختیار ہوگئے تھے۔ اور انہوں نے ان حالات سے متاثر ہو کر محل سے نکلنا چھوڑ دیا تھا، بعض اوقات چار چار سال تک انہوں نے قدم باہر نہیں نکالا۔

    1829ء میں نواب سکندر جاہ کا انتقال ہو گیا اور نواب میر فرخندہ علی خاں ناصرُ الدّولہ آصف جاہ رابع تخت نشین ہوئے۔ 1832ء میں نواب منیر الملک وزیرِ اعظم کا انتقال ہوگیا اور راجا چندو لال وزیرِ اعظم مقرر ہوگئے۔

    راجا چندو لال کے اوصاف میں جس چیز نے نظم اور نسق اور تہذیب دونوں کو متاثر کیا وہ ان کا جود و سخا تھا۔ ان کی فراخ دستی اس حد کو پہنچی ہوئی تھی کہ نہ صرف مختلف تیوہاروں اور تقاریب پر وہ بے دریغ روپیہ صرف کردیتے بلکہ ہر روز ان کے داد و دہش کا یہ عالم رہتا کہ بقول نجم الغنی، مثنوی سحرُالبیان کے واقعات اس کے آگے پھیکے پڑ جاتے تھے۔

    حکیموں، شاعروں، مرثیہ خوانوں، سوز خوانوں اور اربابِ نشاط و طرب کو ہزاروں روپے انعام میں دیتے اور ان کی تنخواہیں اس کے سوا ہوتی تھیں۔ راجا چندو لال نے حیدرآباد میں بہت سی خوب صورت و بیش قیمت عمارتیں بنوائیں۔ اس فیاضی کے اثر سے اہلِ ہنر تو مستفید ہوئے لیکن اس کا بار حکومت کے خزانہ پر پڑا۔ چندو لال خود بھی شاعر و ادیب تھے اور اہلِ ہنر کے قدر داں تھے۔

    راجا چندو لال اردو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ ان کا یہ معمول تھا کہ ہر رات کئی گھنٹے اہلِ علم کی مجلس آراستہ کرتے جس میں شعر و سخن اور مسائلِ تصوف کا چرچا ہوتا۔ اس دور کے شعرا میں مولوی بو تراب، مولوی محمد حسین، مولوی غلام حسین، حفیظ دہلوی، فائز حاجی محمد علی ساغر، مرزا محمد طاہر تبریزی، حسین علی خاں ایما، تاج الدین مشتاق، ذوالفقار علی خاں صفا، میر عنایت علی ہمت، احمد علی شہید، ظہور اکرم، میر مفتون وغیرہ قابلِ ذکر شعرا گزرے ہیں۔

    (ضیا الدین احمد شکیب کے تحقیقی مضمون سے اقتباس، جس کی تیّاری میں مضمون نگار نے تاریخِ ریاستِ حیدرآباد دکن از محمد نجمُ الغنی خاں کا حوالہ بھی دیا ہے)

  • یومِ وفات: قلی قطب شاہ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر تھے

    یومِ وفات: قلی قطب شاہ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر تھے

    21 جنوری 1611ء کو اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ وفات پاگئے تھے۔ وہ جنوبی ہند کے گولکنڈہ کے قطب شاہی خاندان کے پانچویں حکم راں تھے۔ ان کا سنِ پیدائش 1565ء بتایا جاتا ہے۔ قلی قطب شاہ ہی وہ حکم راں تھے جنھوں نے حیدرآباد (دکن) شہر بسایا اور وہاں شہرہ آفاق یادگار چار مینار تعمیر کروائی۔

    تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ محمد قلی قطب شاہ کو فنِ تعمیر سے خاص دل چسپی تھی جس کا ثبوت چار مینار، مشہور مکہ مسجد اور حیدرآباد شہر کی کئی دوسری عمارتیں ہیں۔

    اس باذوق حکم راں کو شعروادب سے خاص علاقہ تھا اور وہ فارسی، دکنی ، تلنگی اور اردو زبان میں شاعری کرتے تھے۔ ادب کے مؤرخین و تذکرہ نگاروں نے انھیں اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر لکھا ہے۔ ان کا دیوان ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین سلطان محمد قطب شاہ نے مرتب کیا تھا جسے 1941ء میں ڈاکٹر محی الدین زور نے جدید ترتیب کے ساتھ شایع کیا۔

    قلی قطب شاہ نے پچاس ہزار سے زائد شعر کہے، سادگی اور شیرینی اس کے کلام کا جوہر ہے۔ تصوف اور عاشقانہ رنگ میں اشعار کہتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرقع نگاری اور مناظرِ فطرت کے بیان کی بنیاد اسی نے رکھی جسے بعد میں آنے والے شعرا نے بھی اپنایا۔

    محمد قلی قطب شاہ نے اس زمانے کی ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی، لیکن غزلیں خاص طور سے قابلِ توجہ ہیں۔

  • رائے جانکی پرشاد: ہندو مسلم تہذیب کا نمائندہ، اردو کا دیوانہ

    رائے جانکی پرشاد: ہندو مسلم تہذیب کا نمائندہ، اردو کا دیوانہ

    متحدہ ہندوستان میں اور تقسیم کے بعد سرحدی پٹی کے دونوں اطراف شہروں میں بس جانے والے عالم و فاضل، نہایت قابل اور باصلاحیت لوگوں نے اپنے اپنے شعبوں میں‌ کام جاری رکھا اور بٹوارے سے قبل بلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب علمی و ادبی میدان میں اپنے ہم عصروں کے کردار اور ان کے کارناموں کا کشادہ دلی سے اعتراف کیا۔

    حیدر آباد دکن میں جہاں علم و ادب کے میدان میں مسلمانوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں اور نسلِ نو کے لیے بیش قیمت سرمایہ چھوڑا ہے، وہیں کئی غیر مسلم شخصیات بھی تاریخِ ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ رشید الدین نے ایسی ہی چند نابغہ روزگار ہستیوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے ایک رائے جانکی پرشاد ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    اردو میں اعلٰی قابلیت کی وجہ وہ دارالترجمہ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ قیامِ جامعہ عثمانیہ کے بعد اردو کو علمی درجہ تک پہنچانے کے لیے دارالترجمہ قائم کیا گیا تھا جہاں اردو کے بلند قامت ادبا اور شعرا کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جن میں جوش ملیح آبادی، علامہ عبداللہ عمادی اور بابائے اردو جیسی عظیم المرتبت شخصیتیں شامل تھیں۔

    رائے جانکی پرشاد نے ایسی بلند قامت شخصیتوں کے ساتھ مل کر اس مقصد کو پورا کیا اور علمی اصطلاحات کی تدوین فرمائی۔

    رائے جانکی پرشاد ہندو مسلم تہذیب کی نمائندہ شخصیت تھے۔ ان کا لباس ٹوپی، شیروانی اور پاجامہ ہوا کرتا تھا۔ وہ وظیفہ حسنِ خدمت پر علیحدگی کے بعد مختلف سماجی اداروں سے وابستہ ہوئے اور ان کی راہ نمائی کی۔

    وہ بڑے صاحب الرائے شخصیت کے حامل تھے۔ حامد نواز جنگ نے جو لا ولد تھے انہی کے مشورے پر اپنے گراں قدر سرمائے سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جس سے فنی تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبا کو وظائف جاری کیے جاتے تھے۔ رائے جانکی پرشاد اس ٹرسٹ کے واحد غیر مسلم ٹرسٹی
    تھے۔

    نواب مہدی نواز جنگ جو اس وقت وزیر طبابت تھے، انہوں نے رائے جانکی پرشاد کے مشورے پر ہی کینسر اسپتال قائم کیا۔ اردو ہال کا قیام بھی موصوف کے گراں قدر مشوروں کا حاصل ہے۔

    ان ساری گوناگوں مصروفیات کے باوجود انہوں نے تصنیف و تالیف کا کام بھی جاری رکھا۔ ان کی تصانیف ’’عصر جدید‘‘ ’’ترجمہ کا فن‘‘ اور’’انگریزی اردو ڈکشنری‘‘ اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

  • مجذوب کا کہا سچ ہوا!

    مجذوب کا کہا سچ ہوا!

    میں مدرسۂ دینیات کے وظیفے کی تگ و دو میں تھا اور نواب صدر یار جنگ، صدر الصدور امورِ مذہبی کے بنگلے پر چکر لگاتا تھا۔ ان کا بنگہ خیریت آباد (حیدر آباد دکن) میں تھا۔

    ایک دن علی الصباح میں نواب صد یار جنگ سے ملنے خیریت آباد اپنی سائیکل پر جا رہا تھا کہ اسٹیشن کے قریب مجھے ایک شخص ملا جو ننگ دھڑنگ تھا۔

    اس نے میری سائیکل کے سامنے کھڑے ہو کر سائیکل روک لی۔ پھر نہایت درشت لہجے میں مجھ سے پوچھا کہاں جارہا ہے؟ میں نے جواب دیا نواب صدر یار جنگ سے ملنے۔ اس نے کہا کہ ان کا نام تو ہمارے یہاں سے کٹ گیا ہے۔ میں نے کہا۔ تمھارے یہاں سے کٹا ہو گا، مگر ہمارے یہاں سے نہیں۔ اس نے کہا تمھارے یہاں سے بھی چھے ماہ میں کٹ جائے گا۔

    یہ کہہ کر وہ سڑک کے ایک کنارے ہو گیا اور میں نے اپنا راستہ لیا۔ میں راستے میں اسے دیوانے کی بڑ سمجھتا رہا اور مجذوب کی اس بات کو بھول گیا۔ اس بات کو چھے ماہ گزرے ہوں گے کہ نواب لطفُ الدّولہ، صدر المہام امورِ مذہبی ہوئے۔ پہلے تمام کاغذات اعلیٰ حضرت کی پیشی میں صدر الصدور پیش کرتا تھا، اب یہ کاغذات بتوسط صدر المہام پیش ہونے لگے۔

    نواب صدر یار جنگ کے اختیار میں زوال آنا شروع ہوا۔ کہتے ہیں کہ نواب لطفُ الدولہ اور نواب صدر یار جنگ میں چلی ہوئی تھی۔ یہ اختلافات وسیع ہوتے چلے گئے۔ اگر نواب صدر یار جنگ دن کو دن کہتے تو وہ رات۔ اس صورتِ حال نے نواب صدر یار جنگ کو دل شکستہ کر دیا۔

    یہ واقعہ اعجاز الحق قدوسی نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں رقم کیا ہے۔ مجذوب سے ملاقات کے بعد انھوں نے وہی کچھ دیکھا جو اس نے بیان کیا تھا۔ یعنی لگ بھگ چھے ماہ بعد صدر یار جنگ عہدے پر نہ رہے۔ دونوں کے مابین اختلافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر یار جنگ مستعفی ہو کر اپنے وطن حبیب گنج چلے گئے۔

  • ٹی 10 لیگ کو بڑا جھٹکا: ٹائٹل اسپانسر کمپنی ہیرا گولڈ کی چیئر پرسن گرفتار

    ٹی 10 لیگ کو بڑا جھٹکا: ٹائٹل اسپانسر کمپنی ہیرا گولڈ کی چیئر پرسن گرفتار

    حیدر آباد دکن: ٹی 10 لیگ کو اب تک کا سب سے بڑا جھٹکا لگ گیا، بھارتی پولیس نے ٹی 10 لیگ کی ٹائٹل اسپانسر کمپنی ہیرا گولڈ کی چیئر پرسن کو گرفتار کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق متنازعہ ٹی ٹین لیگ کو اب تک کا سب سے بڑا جھٹکا لگا ہے، بھارتی پولیس نے عالمہ نوہیرا شیخ کو گرفتار کر لیا ہے، پولیس نے گرفتاری کی تصدیق بھی کر دی۔

    [bs-quote quote=”ہیرا گولڈ کی چیئر پرسن کی گرفتاری پر یو اے ای میں سرمایہ کار گھبراہٹ کا شکار ہو گئے” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    بھارتی پولیس نے کہا ہے کہ عالمہ نوہیرا شیخ ہیرا گولڈ کی چیئر پرسن ہیں، ہیرا گولڈ کی چیئر پرسن کو حیدر آباد دکن میں گرفتار کیا گیا۔

    ٹی ٹین لیگ کے پیچھے گھناؤنا کھیل کون کھیل رہا ہے؟ راز کھلنے لگے، ٹی ٹین لیگ کے چئیرمین کہتے تھے کہ بھارت میں ہیرا گولڈ کے خلاف کارروائی کی تصدیق نہیں ہوئی۔

    بھارتی پولیس کے مطابق ہزاروں شہریوں نے ہیرا گولڈ کی پونزی اسکیم میں پیسے لگائے، دنیا بھر میں بھارتی شہریوں نے کمپنی میں سرمایہ کاری کی۔

    ٹی 10 لیگ کی اسپانسر کمپنی کے خلاف بھارت میں فراڈ اسکیم کی تحقیقات جاری ہیں، ہیرا گولڈ کی چیئر پرسن کی گرفتاری پر یو اے ای میں سرمایہ کار گھبراہٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔

    خیال رہے کہ گزشتہ ماہ سیکڑوں بھارتی شہریوں نے ہیرا گروپ کے دفتر کے باہر احتجاج بھی کیا تھا۔


    یہ بھی پڑھیں:  متنازعہ ٹی 10 لیگ: آئی سی سی نے کل اجلاس طلب کر لیا


    رواں ماہ کے آغاز میں متنازعہ ٹی ٹین لیگ کو اس وقت ایک بڑا جھٹکا لگا تھا جب دبنگ خان کے بھائی اور مراٹھا عربینز کے مالک سہیل خان نے ٹی ٹین لیگ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

    انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بھی متنازعہ ٹی ٹین لیگ پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے، بی بی سی کے مطابق ٹی ٹین لیگ کے ایک ٹیم اونر کو بھی لندن میں منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔