اردو کے ممتاز ادیبوں، معروف اہلِ قلم اور مشہور روحانی شخصیات کی کتابوں میں ہمیں ماورائے عقل واقعات، ناقابلِ فہم اور حیرت انگیز قصائص پڑھنے کو ملتے ہیں۔ کئی روایات کو بھی مشاہیر نے اپنی خود نوشت سوانح عمریوں، آپ بیتی یا یادداشتوں پر مبنی کتابوں میں جگہ دی ہے، جو پڑھنے والوں میں بہت مقبول ہیں، لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان واقعات کی حقیقت کیا ہے۔
یہاں ہم ملتان سے تعلق رکھنے والے ادیب ڈاکٹر سید زاہد علی واسطی خود نوشت ‘‘بیتی یادیں’’ سے ایک واقعہ نقل کر رہے ہیں۔ اس ماورائے عقل اور حیرت انگیز واقعے کے راوی کی حیثیت سے مصنّف لکھتے ہیں:
"دورانِ ملازمت مجھے شہر شہر گھومنا پڑتا تھا۔ پاک پتن جب بھی جاتا کینال ریسٹ ہاؤس میں قیام کرتا اور مغرب و عشاء کی نمازیں ڈرائیور شمشاد شاہ کے ساتھ بابا فریدالدین شکر گنجؒ کی مسجد میں پڑھتا۔
یہ سنہ 74، 75 کی بات ہے۔ احاطہ مسجد بازار کے قریب ایک مہذب شخص کو ضرور دیکھتا۔ آپ سعید الدین صدیقی تھے جن کی عمر پچاس پچپن کے لگ بھگ تھی۔ ان کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا۔
حضرت مسکین شاہ حیدر آباد دکن کے بزرگ ہیں جو تیرہویں صدی ہجری کے وسط میں تشریف لائے۔ حضرت مسکین شاہ کا حیدر آباد میں 1896ء میں انتقال ہوا۔ محلّہ علی آباد، اندرونِ دروازہ کی جامع مسجد الماس میں ان کا مزار مرجع خلائق ہے۔ ایک روز مسکین شاہ کا ذکر چل نکلا تو سعید الدّین صدیقی نے یہ بتا کر ہمیں چونکا دیا کہ مسکین شاہ زبردست عامل تھے اور بہت سارے جنّ ان کے تابع تھے۔ حضرت موصوف بہت جلالی قسم کے بزرگ تھے۔ ہمہ وقت دس بارہ مؤکل ہاتھ باندھے حاضری میں کھڑے رہتے تھے۔
غیر حاضری ان کو بہت کھلتی تھی۔ ہمہ وقت ذرا کوئی مؤکل نظر نہ آیا، چیختے ‘‘ابے فلانا کہاں دفع ہوگیا۔’’ بس جیسے ہی وہ آتا نافرمانی، غیر حاضری کی سزا پاتا اور درخت سے الٹا لٹکا دیا جاتا۔ حیدر آباد سے ذرا فاصلے پر دریائے کرشنا بہتا ہے۔ اس میں مؤکل کو دس دس بارہ گھنٹے سزا کے طور پر پانی میں غوطے کھانے کی سزا ملتی۔ کسی نے بھی ان کے سامنے ہونہہ کی اور حضرت صاحب کے تیور بدلے۔ چشمِ ابرو کا اشارہ ہوا اور اس پر کوڑوں کی بارش شروع۔ ہائے ہائے کی صدائیں آنے لگتیں۔ معافیاں مانگی جاتیں۔ شاہ صاحب کا دل پسیج جاتا تو ہاتھ کا اشارہ ہوتا، کبھی فرماتے‘‘بس کر کیوں مرے جا رہا ہے۔ اب غلطی نہیں کرے گا۔’’ اور فوراً ہائے ہائے کی آوازیں بند ہو جاتیں۔
سب مؤکل حضرت صاحب کی خواہش کے تابع تھے۔ نہ معلوم کتنے جنوں کو تو انہوں نے جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ کتنوں کو درختوں پر لٹکا لٹکا کر مارا۔ ایک ایسے ہی جنّ کو انہوں نے جلا دیا تھا۔ اس جنّ کا ایک بیٹا تھا۔ اس کی ماں نے کہا، ‘‘اگر تو اپنے باپ کا بیٹا ہے تو مسکین شاہ سے اپنے باپ کا انتقام لے کر دکھا۔’’
اس نے بیٹے کو ملکِ فارس بھیج دیا جہاں عاملوں اور ساحروں کا بہت زور تھا۔ بیٹے نے اس فن کو بقدرِ ظرف سیکھا اور بڑے بڑے عملیات حاصل کیے۔ حضرت صاحب کو اطلاع مل گئی۔ آپ نے پیغام بھیجا، اگر تُو جان کی امان چاہتا ہے تو فوراً حیدر آباد سے نکل جا، ورنہ جلا کر راکھ کر دوں گا مگر وہ جنّ نہ مانا۔ انہوں نے فرمایا اچھا! میں خود وہاں آتا ہوں۔ آپ وہاں پہنچ گئے، عمل کیا مگر اس پر اثر نہ ہوا اور وہ عمل الٹے ان کے گلے پڑ گیا۔ آخر وہ سمجھ گئے کہ یہ نوجوان جنّ زبردست ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے ایک چلّہ کی اجازت دے۔ اس نے جواب دیا کہ ایک چلّہ کم ہے۔ میں تین چلّوں کی اجازت دیتا ہوں۔
مہلت ختم ہونے پر انہوں نے محسوس کیا کہ ان کا اس نوجوان جنّ پر بس نہیں چلے گا۔ آپ چھپتے چھپاتے بھاگ نکلے، برہان پور کے قریب ایک بستی میں پہنچے، وہاں ایک گمنام فقیر درویش کسمپرسی کی حالت میں جنگل میں نظر آیا۔ حضرت صاحب نے محسوس کیا کہ نوجوان جنّ بس دم بھر میں آیا ہی چاہتا ہے اور مجھے اپنے عمل سے مار ڈالے گا، چلو اس درویش سے ہی مدد لوں۔ شاید التفاتِ نظر سے کچھ مل جائے۔
آپ نے سلام کیا، نام بتایا اور دو زانو بیٹھ گئے۔ جواب ملا‘‘ہاں میں تجھے جانتا ہوں، یہاں کیوں مارا مارا پھر رہا ہے….؟’’ اگر تو اپنی حرکتوں سے باز آنے کا وعدہ کرے تو اللہ مالک ہے۔’’ یہ کہہ کر درویش نے ہاتھ کا اشارہ کیا تو نوجوان جن کی ماں سامنے کھڑی تھی۔ درویش بولا ‘‘اے بی بی تیری بات پوری ہوگئی اب اپنے بیٹے کو روک دے، وہ اس کو نہ مارے۔’’ جنّی نے بیٹے کو بلا لیا اور حکم دیا کہ دشمنی ختم کر دے۔ حضرت صاحب خوش خوش حیدر آباد آگئے، تمام مؤکل آزاد کر دیے اور یادِ اللہ میں ایسے مصروف ہوئے کہ مسجد الماس میں ہی آپ کا مدفن بنا۔