Tag: خاتون ادیب

  • حجاب امتیاز علی، گوشت پوست سے عاری ڈھانچے اور انسانی ہڈیاں!

    حجاب امتیاز علی نے تاریخ، نفسیات، سائنس، علمِ نجوم اور مذاہبِ عالم کا مطالعہ جم کر کیا تھا، اِس لیے وہ کردار نگاری کی سطح پر دادی زبیدہ، جسوتی، سر جعفر، ڈاکٹر گار، زوناش اور چچا لوث جیسے بڑے رومانی کردار خلق کر پائیں۔

    یہ سب کردار حجاب کے تخلیق کردہ فنٹاسٹک ماحول میں جیتے ہیں۔ یہ حجاب کی خیالی ریاستوں شموگیہ اور کیباس کے باشندے ہیں جو اکثر چہل قدمی کرتے ہوئے حجاب کے خلق کردہ خیالی جنگل ناشپاس تک چلے جاتے ہیں۔

    حجاب امتیاز علی اپنی افتادِ طبع کی تشکیل سے متعلق خود بتاتی ہیں، ’’میری ادبی زندگی کا گہرا تعلق میرے بچپن کی تین چیزوں سے ہے۔ فضا، ماحول اور حالات۔ میرے بچپن کا ابتدائی زمانہ جنوب میں دریائے گوداوری کے ہوش رُبا کناروں پر گزرا۔

    ہوتا یہ تھا کہ کالی اندھیری راتوں میں گوداوری کے سنسان کناروں پر ہندوﺅں کی لاشیں جلائی جاتی تھیں۔ جلانے کے دوران ہڈیاں اور سَر اس قدر ڈراﺅنے شور کے ساتھ چیختے تھے کہ انہیں سن کر ہوش اڑ جاتے تھے۔ اس سرزمین پر گوشت پوست سے عاری انسانی ڈھانچے اور ہڈیاں جگہ جگہ پڑی رہتی تھیں اور چیخ چیخ کر انسان کے فانی ہونے کا یقین دلایا کرتی تھیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جب ان ساحلوں پر رات پڑتی تو ہڈیوں کا فاسفورس اندھیرے میں جل اٹھتا تھا اور میلوں فاصلے سے غولِ بیابانی کی طرح ان ویرانوں میں روشنیاں رقصاں نظر آتی تھیں۔ یہ دہشت خیز منظر ہیبت ناک کہانیوں کے لکھنے کی ترغیب دیتا تھا۔ غرض ان کا حسن اور رات کی خوف ناکی، یہ تھی فضا۔ ایسی فضا میں جو شخص بھی پلے اور بڑھے اس میں تھوڑی بہت ادبیت، شعریت اور وحشت نہ پیدا ہو تو اور کیا ہو۔

    تیسری بات حالات کی تھی۔ جنھوں نے مجھے کتاب و قلم کی قبر میں مدفون کر دیا۔ مدفون کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ اگر میں نے اس زمانے میں اپنے آپ کو ادبی مشاغل میں دفن نہ کردیا ہوتا تو میں کبھی کی ختم ہوگئی ہوتی۔ وہ زمانہ مرے لیے بے حد حزن و ملال کا تھا۔ مری والدہ ابھی جواں سال ہی تھیں کہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ان کی موت مرے خرمن پر بجلی بن کر گری۔ اس زمانے میں میرا ذہنی توازن درست نہ تھا۔ لڑکپن تھا، اس پر شدید ذہنی دھچکا ماں کی موت کا تھا۔ ان دونوں نے مل کر مجھے اعصابی بنا دیا تھا۔‘‘

    (ممتاز ادیب حجاب امتیاز علی کی کتاب’’میری ادبی زندگی‘‘ سے اقتباس)

  • ‘وہ کون تھی؟’ بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کا تذکرہ

    ‘وہ کون تھی؟’ بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کا تذکرہ

    نام وَر ادیب بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری 20 اپریل 2009ء کو کراچی میں وفات پاگئی تھیں۔ ان کے والد ظفر عمر اردو کے پہلے جاسوسی ناول نگار تسلیم کیے جاتے ہیں جب کہ شوہر اختر حسین رائے پوری اردو کے نام ور نقّاد، محقق اور ادیب تھے۔

    بیگم حمیدہ حسین رائے پوری نے گھر کے علمی و ادبی ماحول میں تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کیا اور پڑھنے لکھنے کے قابل ہوئیں تو اعلیٰ اور معیاری رسائل و جرائد اور مختلف موضوعات پر کتابوں کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور انھیں بھی لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ تاہم انھوں نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد باقاعدہ لکھنا شروع کیا تھا۔

    22 نومبر 1918ء کو ہردوئی میں پیدا ہونے والی بیگم حمیدہ اختر حسین نے اپنے بے ساختہ اور سادہ اسلوبِ بیان سے سبھی کو متاثر کیا۔ انھوں نے ایک خودنوشت سوانح عمری ہم سفر کے نام سے لکھی جسے بہت پسند کیا گیا۔ ان کے تحریر کردہ خاکوں کے دو مجموعے نایاب ہیں ہم اور چہرے مہرے بھی شایع ہوئے۔

    بیگم حمیدہ اختر حسین نے بچّوں کے لیے بھی کہانیاں تخلیق کیں اور ایک مجموعہ سدا بہار بھی شایع کروایا جب کہ کھانے پکانے کی تراکیب کا مجموعہ پکائو اور کھلائو بھی منظرِ عام پر آیا، ان کا ایک ناول وہ کون تھی کے نام سے شایع ہوا۔ وہ کراچی میں آسودۂ خاک ہیں۔