Tag: خاشقجی

  • امریکا سے سعودی صحافی خاشقجی کے قتل سے متعلق رپورٹ پر عمل کرنے کا مطالبہ

    امریکا سے سعودی صحافی خاشقجی کے قتل سے متعلق رپورٹ پر عمل کرنے کا مطالبہ

    نیویاک: اقوام متحدہ کی جانب سے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پرمتعین نمائندہ تفتیش کار ایگنیس کیلمارڈ نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خاشقجی کے قتل پر مرتب کی گئی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرے۔

    تفصیلات کے مطابق انسانی حقوق کی ماہر ایگنیس کیلمارڈ نے لندن میں جمال خاشقجی کی منگیتر کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ خاموش رہنا کوئی آپشن نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس قتل پر بات کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی کافی نہیں ہے، ہمیں عمل کرنا ہوگا۔ اپنی تفتیشی رپورٹ میں ایگنیس کیلمارڈ نے گذشتہ برس اکتوبر میں ترکی کے شہر استنبول میں سعودی سفارت خانے میں جمال خاشقجی کے قتل کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا تھا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کو اس معاملے میں ایف بی آئی یا عدالتی تحقیقات کروانی چاہیں۔ ایگنیس کیلمارڈ نے امریکا پر زور دیا کہ وہ اس قتل پر ہونے والی تحقیقات کو عام کرے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ واشنگٹن قتل کی تفتیش میں تعاون کرنے والوں کی لسٹ میں سرِفہرست نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جون میں شائع ہونے والی ایگنیس کیلمارڈ کی 101 صفحات کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر اعلی عہدیدار اپنی انفرادی حیثیت میں جمال خاشقجی کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔

    سعودی انٹیلیجینس اہلکاروں نے صحافی خاشقجی کو استنبول میں سعودی سفارت خانے کے اندر قتل کیا تھا تاہم حکام کا اصرار ہے کہ اہلکاروں نے یہ سب محمد بن سلمان کے احکامات پر نہیں کیا۔ ایگنیس کیلمارڈ اقوام متحدہ کی نمائندہ نہیں ہیں تاہم وہ اپنی تحقیقات کے نتائج اقوام متحدہ کو رپورٹ کرتی ہیں۔

  • خاشقجی قتل کیس میں برطرف سعودی مشیر کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا انکشاف

    خاشقجی قتل کیس میں برطرف سعودی مشیر کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا انکشاف

    ریاض/استنبول : ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کیس میں جن 11 افراد کے خلاف ٹرائل چل رہا ہے ان میں سعودی ولی عہد کے شاہی مشیر سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ذرائع نے 2 شاہی مشیروں کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے جن میں سے ایک کو رِنگ لیڈر قرار دیا گیا ہے جبکہ 11 مشتبہ ملزمان کے بند کمرہ ٹرائل میں دوسرے کی غیر موجودگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

    سعودی پراسیکیوٹرز نے کہا کہ ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد العصیری نے استنبول کے قونصل خانے میں سعودی صحافی کے قتل کی نگرانی کی جس کی ہدایات سعود القحطانی نے دی تھیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ چار مغربی حکام کے مطابق دونوں افراد سعودی ولی عہد کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں اور انہیں باقاعدہ طور پر برطرف کیا جاچکا ہے، احمد العصیری ہی جنوری سے لے کر اب تک ہونے والی 5 سماعتوں میں پیش ہوئے۔

    ایک عہدیدار نے بتایا کہ جن 11 افراد کا ٹرائل ہورہا ہے، ان میں سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس غیر موجودگی کا کیا مطلب ہے؟ کیا سعودی ان کی حفاظت کرنا چاہتے یا ان کے خلاف علیحدہ کاررروائی کریں گے؟ کوئی نہیں جانتا۔

    سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر نے گزشتہ برس نومبر میں 11 نامعلوم مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں 5 کو سزائے موت کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، روس سمیت ترکی کے سفارت کاروں کو جمال خاشقجی کے قتل کے خلاف جاری سماعتوں میں آنے کی اجازت ہے جو کہ صرف عربی زبان میں منعقد ہوتی ہیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ انہیں مترجم ساتھ لانے کی اجازت نہیں اور انہیں شارٹ نوٹس پر مدعو کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمال خاشقجی کے خاندان کے ایک فرد نے، جنہوں نے سعودی حکومت سے تصفیہ کی تردید کی تھی،صرف ایک عدالتی سیشن میں شرکت کی ہے۔

    عہدیداران نے کہا کہ انٹیلی جنس رکن ماہر مطرب جو غیرملکی دوروں پر سعودی ولی عہد کے ہمراہ سفر کرتے تھے، فارنسک ایکسپرٹ صلاح الطبیغی اور سعودی شاہی گارڈ کا رکن فہد البلاوی ان 11 افراد میں شامل ہیں جنہیں سزاے موت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    ان تمام 11 افراد کو اپنے دفاع کے لیے لیگل کونسل کی اجازت حاصل ہے۔عہدیداران کا مطابق ان میں سے اکثر نے عدالت میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے احمد العصیری کے احکامات پر عمل کیا اور انہیں آپریشن کا رِنگ لیڈر قرار دیا۔

    سعودی عرب کی میڈیا منسٹری نے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست پر کوئی رد عمل نہیں دیا، اور ملزمان کے وکلا سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

    مغربی عہدیداران نے کہا کہ احمد العسیری کو سعودی فوج میں جنگی ہیرو کا درج حاصل ہے، انہیں سزائے موت کا سامنا نہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ماضی میں امریکی انٹیلی جنس کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث سعودیوں پر پابندی سےمتعلق جاری کی گئی امریکا کی دو فہرستوں میں بھی ان کا نام شامل نہیں۔

    دوسری جانب سعود القحطانی جنہوں نے سعودی عرب پر تنقید کرنے والوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی تھی اور جنہیں سعودی ولی عہد کا اہم ساتھی سمجھا جاتا ہے ان کا نام دونوں فہرستوں میں موجود ہے۔

    جمال خاشقجی قتل، اقوام متحدہ کا سعودی حکومت سے اوپن ٹرائل کا مطالبہ

    سعودی پراسیکیوٹر آفس کے مطابق سعودی اسکواڈ کی ترکی روانگی سےقبل انہوں نے میڈیا اسپیشلائزیشن پر مبنی مشن سے متعلق اہم معلومات بتانے کے لیے ملاقات کی تھی۔ تاہم جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے وہ اب تک سامنے نہیں آئے اور اس وقت وہ کہاں ہیں کیسے ہیں یہ ایک معمہ بن گیا ہے۔

    بعض سعودی افراد کا دعوی ہے کہ وہ پسِ منظر میں ان تمام حالات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں لیکن دیگر افراد کا کہنا ہے کہ وہ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد عالمی برادری کے ردعمل ختم ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔

  • خاشقجی کے بچوں کو خون بہا میں گھر، لاکھوں ڈالر دئیے گئے، امریکی اخبار کا دعویٰ

    خاشقجی کے بچوں کو خون بہا میں گھر، لاکھوں ڈالر دئیے گئے، امریکی اخبار کا دعویٰ

    واشنگٹن : امریکی اخبار نے دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب نے مقتول صحافی جمال خاشقجی کے چاربچوں کو خون بہامیں لاکھوں ڈالر مالیت کے گھر اور ماہانہ بنیادوں پر لاکھوں ڈالر رقم دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی حکام اور دیگر افراد نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جمال خاشقجی کے دو بیٹوں اور دوبیٹیوں کو آئندہ چند ماہ میں سعودی صحافی کے قاتلوں کا ٹرائل مکمل ہونے پر خون بہا سے متعلق مذاکرات کے تحت مزید لاکھوں ڈالر دیئے جاسکتے ہیں۔

    حکام کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت، جمال خاشقجی کے اہلخانہ سے طویل المدتی مفاہمت کی کوشش کر رہی ہے تاکہ انہیں سعودی صحافی کے قتل پر تنقید سے باز رہنے پر آمادہ کیا جاسکے۔

    سابق عہدیدار کے مطابق گزشتہ برس کے آخر میں شاہ سلمان کی جانب سے ان گھروں اور 10 ہزار ڈالر یا اس سے زائد ماہانہ آمدن کی منظوری دی گئی تھی اور اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ ایک بڑی ناانصافی ہوچکی ہے اور یہ غلط کو صحیح کرنے کی کوشش ہے۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ شاہی خاندان محمد بن سلمان اور کی پالیسیوں کے سخت ناقد صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دولت کا سہارا لے رہا ہے۔

    دوسری جانب سعودی عہدیدار نے جمال خاشقجی کے اہلخانہ کو دی گئی رقم کو ملک میں طویل عرصے سے انتہا پسند جرائم یا قدرتی آفات کے متاثرین کو فراہم کی جانے والے مالی تعاون کی روایت قرار دیا۔

    انہوں نے اس بات کو مسترد کردیا کہ ان ادائیگیوں کے بدلے جمال خاشقجی کے خاندان کو خاموشی اختیار کرنی ہوگی۔

    عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ تعاون ہماری روایت اور ثقافت کا حصہ ہے یہ کسی اور چیز سے نہیں جڑا ہوا۔

    ابتدائی طور پر جمال خاشقجی کے تمام بچوں کو جدہ میں گھر دیئے گئے ہیں اور ہر گھر کی مالیت 40 لاکھ ڈالر ہے، یہ جائیدادیں ایک ہی کمپانڈ میں موجود ہیں جن میں ان کے بڑے بیٹے صلاح خاشقجی کو مرکزی حصہ دیا گیا ہے۔

    جمال خاشقجی کے اہل خانہ کے قریبی ذرائع کے مطابق صلاح خاشقجی جدہ میں بینکر کے طور پر کام کررہے ہیں اور مستقبل میں سعودی عرب میں ہی رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی صحافی کے باقی بچے امریکا میں مقیم ہیں اور ان کی جانب سے یہ نئی جائیدادیں بیچنے کی توقع ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے بڑے بیٹے صلاح سمیت دیگر بچوں سے اس معاملے پر رابطے کی کوشش کی گئی تھی تاہم انہوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا تھا یہاں تک کہ ان کے وکیل ولیم ٹیلر نے بھی اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔

    امریکی میڈیا کے مطابق سعودی ولی عہد کے بھائی اور امریکا میں سعودی عرب کے سابق سفیر خالد بن سلمان نے صحافی کے اہلخانہ سے مذاکرات کیے تھے۔

    یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی قتل کیس، تحقیقاتی رپورٹ جون میں جاری ہوگی، تحقیقاتی ٹیم اقوام متحدہ

    یاد رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ سال ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے جس کے بعد وہ گمشدہ ہوگئے تھے، بعد ازاں اُن کے قتل کی خبر آئی۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی سعودی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے صحافی کے قتل کی ترکی میں شفاف تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

  • محمد بن سلمان خاشقجی قتل میں ملوث ہیں انہیں سزا ہونی چاہیے، لنڈسے گراہم

    محمد بن سلمان خاشقجی قتل میں ملوث ہیں انہیں سزا ہونی چاہیے، لنڈسے گراہم

    واشنگٹن : امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تزشتہ برس ترکی کے دارالحکومت استنبول میں قتل ہونے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی سے متعلق امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم کا کہنا ہے کہ خاشقجی کے قتل کی ذمہ داری محمد بن سلمان پر عائد ہوتی ہے۔

    سینیٹر لنڈسے گراہم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر سعودی عرب اور امریکا کے درمیان تعلقات میں بہتری لانی ہے تو اس کےلیے محمد بن سلمان سے نمٹنا ضروری ہے‘۔

    امریکی سینیٹر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے صحافی کے قتل میں ملوث مشتبہ افراد پر پابندیاں لگانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ امریکی اخبار کےلیے کالم تحریر کرنے والے صحافی کے قتل میں ملوث 11 افراد کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوئی ہے جبکہ اٹارنی جنرل نے پانچ ملزمان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ جمال خاشقجی کو گزشتہ برس اکتوبر میں ترک دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے گمشدگی کے بعد قتل کیا گیا تھا، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کے قتل میں 15 افراد ملوث تھے۔

    مزید پڑھیں : جمال خاشقجی سے متعلق سعودی ٹرائل اقوام متحدہ نے ناکافی قرار دے دیا

    مزید پڑھیں : جمال خاشقجی کے قتل پر مزید شواہد درکار ہیں، امریکی وزیر دفاع

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کی لاش ابھی برآمد نہیں ہوئی ہے، ترک حکام نے دعویٰ کی تھا کہ جمال خاشقجی کو قتل کرنے کے بعد لاش کے ٹکرے کرکے تیزاب میں ڈال دئیے گئے تھے۔

    خیال رہے کہ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا کی جانب خاشقجی کے قتل میں ملوث 20 افراد پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

  • خاشقجی قتل، امریکا نے 17 سعودی حکام پر پابندی لگا دی، اثاثے بھی منجمد

    خاشقجی قتل، امریکا نے 17 سعودی حکام پر پابندی لگا دی، اثاثے بھی منجمد

    واشنگٹن: امریکا نے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 17 سعودی حکام پر پابندی عائد کرتے ہوئے اُن کے اثاثے منجمد کردیے۔

    فرانسیسی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت نے ترکی کی جانب سے فراہم کی جانے والی خاشقجی قتل سے قبل ٹیپ کی جانے والی آڈیو ریکارڈنگ کو سننے کے بعد سعودی حکام کے امریکا داخلے پر پابندی عائد کی۔

    رپورٹ کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی پر بھی پابندی عائد کی گئی جبکہ تمام افراد کے اثاثے بھی منجمد کردیے گئے۔

    قبل ازیں سعودی عرب کے پراسیکیوٹر جنرل نے ترک حکومت کی جانب سے قتل کی عالمی تحقیقات کے مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ سعودی صحافی کے قتل میں ملوث پانچ افراد کو سزائے موت کی استدعا کی جائے گی۔

    مزید پڑھیں: سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی مبینہ ریکارڈنگ سے متعلق نیویارک ٹائمز کا انکشاف

    سعودی پبلک پراسیکیوٹر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ترک حکام کی جانب سے آڈیو ریکارڈنگ یا کوئی شواہد فراہم نہیں کیے گئے، جیسے ہی ثبوت ملیں گے تو اُس کی روشنی میں ملوث افراد کے خلاف سزائے موت کی سفارش کریں گے‘۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’جمال خاشقجی کو واردات سے قبل منشیات دی گئی اور یہی اُن کی موت کی وجہ بنی، اندوہناک قتل میں ملوث افراد پر فرم جرم عائد کردی گئی اور ٹرائل کے بعد انہیں سزا دی جائے گی جبکہ اس میں ولی عہد محمد بن سلمان کا کوئی کردار نہیں ہے‘۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز ترک صدر رجیب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی عرب کی اعلیٰ ترین سطح سے آیا تھا، سعودی ولی عہد کے اقدامات کا تحمل سے انتظار کررہے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: امریکا جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث تمام افراد کا احتساب چاہتا ہے، مائیک پومپیو

    یاد رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

  • سعودی صحافی خاشقجی مذہبی انتہا پسند تھا، محمد بن سلمان

    سعودی صحافی خاشقجی مذہبی انتہا پسند تھا، محمد بن سلمان

    ریاض : سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی صدر کے داماد اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سے ٹیلی فونک رابطے میں کہا کہ جمال خاشقجی مذہبی شدت پسند تھا۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ ماہ ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل ہونے والے سعودی صحافی و کالم نویس جمال خاشقجی کے قتل کا اعتراف کرنے سے قبل محمد بن سلمان نے وائٹ ہاوس سےٹیلی فونک رابطہ کیا تھا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد بن سلمان نے امریکی حکام سے ٹیلی فونک رابطے کے دوران کہا کہ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک صحافی خاشقجی ایک خطرناک اسلامی شدت پسند تھا۔

    امریکی آخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق صدر دونلڈ ٹڑمپ کے داماد اور مشیر برائے نیشنل سیکیورٹی جان بولٹن سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ جمال خاشقجی مذہبی شدت پسند اور اسلامی انتہا پسند تنظیم اخوان المسلمین کا ممبر تھا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ محمد بن سلمان کی جانب سے وائٹ ہاوس حکام کو کیا گیا فون صحافی کی گمشدگی کے ایک ہفتے بعد کیا تھا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد نے جیرڈ کشنر اور جان بولٹن پر زور دیا کہ سعودیہ اور امریکا کے درمیان اتحاد قائم رہنا چاہیے۔

    دوسری جانب سے جمال خاشقجی کے اہل خانہ کی جانب سے سعودی صحافی کی اخوان المسلمون کی رکنیت کی تردید کی تھی جبکہ جمال خاشقجی خود کئی مرتبہ اخوان المسلمون کی رکنیت کے حوالے سے تردید کرچکے تھے۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل ترک پراسیکیوٹر جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں گلا دبا کر قتل کردیا گیا تھا اور پھر ان کی لاش کو ٹھکانے لگادیا گیا۔

    خیال رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں۔

  • امریکا خاشقجی کے قتل کی تحقیقات میں سنجیدہ نہیں، منگیتر کا الزام

    امریکا خاشقجی کے قتل کی تحقیقات میں سنجیدہ نہیں، منگیتر کا الزام

    واشنگٹن : جمال خاشقجی کی منگیتر نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکا سعودی سعودی صحافی کے سفاکانہ قتل کی تفتیش میں سنجیدہ نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی اخبار سے منسلک مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر ہیٹس کین غز نے کہا ہے کہ میں نے امریکا جانے کی صدر دونلڈ ٹرمپ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔

    جمال خاشقجی کی منگیتر ترک میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وائٹ ہاوس کی جانب سے مجھے امریکا مدعو کرنے کا مقصد عوامی رائے پر اثر انداز ہونا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ خاشقجی کو تین ہفتے قبل استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں بیہمانہ طریقے سے قتل کردیا تھا جبکہ ریاض حکومت مسلسل سعودی شاہی خاندان کے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے الزامات سعودی جاسوسوں پر عائد کررہی ہے۔

    دی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے مطالبہ کیا ہے کہ خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں اوپر سے نیچے تک ملوث افراد کو سخت سزائیں دے کر انصاف کیا جائے۔

    خیال رہے کہ جمال خاشقجی کے قتل پر جرمن حکومت کی جانب سے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند کردی گئی ہے، جبکہ فرانسیسی صدر نے کہا تھا کہ ہم عرب ریاستوں کو اسلحے کی فروخت روک دیں ’یہ ایک جذباتی فیصلہ ہوگا نہ کہ سیاسی‘۔

    ایمینئول مکرون کا کہنا تھا کہ اسلحے کی فروخت کا جمال خاشقجی کے معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ہم دو معاملوں مشترک نہیں کرسکتے۔

    بحرین میں سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر برائے دفاع کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کی سفارت خانے میں موت پر ہم سب کو تحفظات ہیں۔

    امریکی وزیر دفاع جم میٹس کا کہنا تھا کہ امریکا ہر گز ایسے سفاکانہ اقدامات کو برداشت نہیں کرے گا جسے صحافی خاشقجی کی آواز کو دبایا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب کو 60 فیصد سے زیادہ اسلحہ امریکا، 20 سے 25 فیصد برطانیہ، 5 سے 8 فیصد فرانس جبکہ 3 سے 5 فیصد اسپین، سوئٹززلینڈ، جرمنی اٹلی اور 2، 2 فیصد کینیڈا، ترکی اور سوئیڈن فروخت کرتے ہیں۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ ’میں مطمئن نہیں ہوں جب تک ہم جواب نہیں تلاش کرتے‘ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب پابندیاں عائد کرنے کا آپشن موجود ہے تاہم ہتھیاروں کا معاہدہ ختم کرکے امریکا کو زیادہ نقصان ہوگا۔

     

    خیال رہے جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو سعودی عرب کے قونصل خانے کی عمارت کے اندر جاتے دیکھا گیا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں، وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر شدید تنقید کرتے رہے تھے اور یمن میں جنگ کے بعد ان کی تنقید مزید شدید ہوگئی تھی۔

  • امریکا کا جمال خاشقجی کے مبینہ قاتلوں کے ویزے منسوخ کرنے کا اعلان

    امریکا کا جمال خاشقجی کے مبینہ قاتلوں کے ویزے منسوخ کرنے کا اعلان

    واشنگٹن: سعودی صحافی جمال خاشقجی کا ترکی میں سعودی کونصل میں قتل کیے جانے کے بعد امریکا نے قاتلوں کے ویزے منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ ہفتے ترک شہر استنبول میں قائم سعودی قونصلیٹ میں سعودی شہری اور صحافی جمال خاشقجی کو بےدردی سے قتل کردیا گیا تھا۔

    امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ خاشقجی کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث کچھ افراد کے ویزےمنسوخ کریں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ قتل میں مبینہ طور پر ملوث افراد پر پابندیاں بھی لگائی جائیں گی، جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق حقائق کا پتا چلا رہے ہیں۔

    امریکا میں سب سے بڑی سرمایہ کاری سعودی عرب کی ہے: صدر ٹرمپ

    پومپیو کا کہنا تھا کہ ایک صحافی کی آواز کا سفاکانہ طریقے سے دبایا جانا ناقابل برداشت ہے، اس قتل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

    خیال رہے کہ گذشتہ دنوں سعودی صحافی جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی کونصل خانے میں قتل کردیا گیا تھا، بعد ازاں امریکی صدر نے اس واقعے کی شدید مذمت کی تھی۔

    ٹرمپ نے جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سعودی وضاحت اور تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک ہمیں جواب نہیں ملتا میں مطمئن نہیں ہوں۔

    علاوہ ازیں امریکا نے سعودی سفارت خانے میں جمال خاشقجی کے مبینہ قتل پر ریاض میں منعقد ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

  • سعودی افسران نےجمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی کی ، ترک صدر طیب اردوان

    سعودی افسران نےجمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی کی ، ترک صدر طیب اردوان

    انقرہ : ترک صدر طیب اردوگان نے مطالبہ کیا سعودی عرب جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ملزمان کا ٹرائل ترکی میں چلائے، صحافی کو سعودی قونصلیٹ میں ہی مارا گیا اورسعودی افسران نےقتل کی منصوبہ بندی کی۔

    تفصیلات کے مطابق ترک صدر طیب اردگان نے پارلیمنٹ سے خطاب میں سعودی صحافی کے قتل سےمتعلق حالات اورواقعات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا صحافی جمال خاشقجی کو ایک طے شدہ وقت کے مطابق قتل کیا گیا ۔

    ترک صدر کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق تمام جائزہ پیش کریں گے ، جمال خاشقجی کچھ کاغذات کیلئےسعودی سفارتخانے گئے اور یقین ہے خاشقجی سعودی سفارتخانے جانے کے بعد واپس نہیں آئے۔

    طیب اردگان نے کہا صحافی جمال خاشقجی کو سعودی قونصلیٹ میں ہی مارا گیا، وہ کاغذات کی تیاری کےلئے سعودی قونصلیٹ گیا تھا، سعودی قونصل خانے سے کیمرے ہٹا دیے گئے۔

    جمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی 29ستمبر کوکی گئی

    ان کا کہنا تھا کہ جمال خخاشقجی کا قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا، قتل کی منصوبہ بندی 29ستمبر کوکی گئی، جمال خاشقجی 2اکتوبر کو سعودی قونصلیٹ گئے، ویانا کنونشن کی وجہ سے سفارتخانوں کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، سفارتی استثنیٰ کے باعث ہم سعودی قونصلیٹ نہیں جاسکے۔

    ترک صدر نے کہا سعودی عرب سے15رکنی ٹیم وقوعہ ٹیم وقوعہ کے دن قونصل خانے آئی اور خاشقجی سے مشابہت والے شخص کو قونصل خانے سے ریاض بھیجا گیا۔

    طیب اردگان کا کہنا تھا کہ  6اکتوبرکو غیرملکی صحافی کوقونصلیٹ کا دورہ کرایا گیا، واقعے کی تحقیقات ہمارا حق ہے کیونکہ واقعہ استنبول میں پیش آیا، واقعے کی تحقیقات وسیع کردی گئی ہیں، جس سے مزید انکشافات ہوئے۔

    انھوں  نے کہا  خاشقجی کے قتل کے تمام محرکات سامنے لائیں گے کچھ خفیہ نہیں رکھیں گے، خاشقجی کے قتل میں ملوث18افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

    ترک صدر  کا کہنا تھا کہ میں نے قتل کی تحقیقات کےلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کی خواہش کا اظہار کیا، ہم حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہیں گے،صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی ہرپہلوسے تحقیقات کریں گے ،کوئی نہیں روک سکتا۔

    خاشقجی کو دو اکتوبر کو ہی قتل کردیاگیا تھا

    طیب اردگان نے کہا خاشقجی کو دو اکتوبر کو ہی قتل کردیاگیا تھا، سعودی افسران نےقتل کی منصوبہ بندی کی، عالمی قوانین میں اس طرح کےجرائم کی کوئی اجازت نہیں، قونصل خانے سے منسلک سی سی ٹی وی کیمروں کی ہارڈڈرائیوغائب کی گئی۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ 15افرادکی ٹیم الگ الگ وقت پراستنبول میں سعودی قونصلیٹ پہنچی، خاشقجی ایک بجکر8 منٹ پر قونصل خانے میں گئے پھر واپس نہیں آئے، خاشقجی کی منگیتر نے ترک حکام کو 5بجکر50منٹ پر آگاہ کیا اور منگیتر کی درخواست پرترک حکام نے تحقیقات شروع کیں۔

    ترک صدر نے کہا سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت ہوا خاشقجی قونصل خانے سے باہرنہیں آئے، سعودی حکام نے خاشقجی سے متعلق قتل کے الزامات کو مسترد کیا، جب کہ واقعے کی شروعات سے لیکر اختتام تک سعودی عرب سے 15 افراد آئے، جس دن قتل ہوااس دن قونصلیٹ عملےکوایک کمرےتک رکھاگیا، جوورکرزقونصل خانےآنے والے تھے، انہیں چھٹی دے دی گئی۔

    اردگان کا کہنا تھا کہ قتل کے17دن بعدسعودی عرب نے خاشقجی کی ہلاکت کی تصدیق کی، بیان آیا خاشقجی قونصل خانے میں لڑائی کےدوران مارےگئے، جس دن سعودی عرب نے تصدیق کی اسی دن شاہ سلمان کافون آیا اور 21 اکتوبر کو امریکی صدر سے تحقیقات منظر عام پر لانے کی بات کی۔

    سعودی عرب خاشقجی کے قتل میں ملوث ملزمان کا ٹرائل ترکی میں چلائے، ترک صدر

    ترک صدر نے مطالبہ کیا کہ سعودی عرب خاشقجی کے قتل میں ملوث ملزمان کا ٹرائل ترکی میں چلائے، سعودی بادشاہ کی نیت پرشک نہیں،ہم آزادانہ تحقیقات چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں سعودی عرب قتل کے پیچھےافراد کو سامنے لائے،امریکی صدر سے متفق ہیں کہ سعودی عرب معاملے پر وضاحت دے

    رجب طیب اردگان نے خاشقجی کے قتل پر سوالات اٹھا دیئے، قتل سے پہلے 15 افراد استنبول میں کیوں ملے ؟ سعودی قونصل خانے کو قتل کے فوری بعد تحیقات کیلئے کیوں نہیں کھولا گیا ؟ جب قتل کے شواہد اتنے واضح تھے تو متضاد بیان کیوں دئیے گئے ؟ جب قتل کا عتراف کر لیا گیا تو لاش ابھی تک غائب کیوں ہے؟ اگر خاشقجی کی لاش کسی سہولت کار کو دی گئی ہے تو اس کے بارے میں بتایا جائے ؟ جب تک ان سوالات کے جوابات نہیں مل جاتے تب تک تحقیقات بند نہیں ہوں گی۔

  • سعودی قیادت کا صحافی جمال خاشقجی کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت

    سعودی قیادت کا صحافی جمال خاشقجی کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت

    ریاض: خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مقتول صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جمال خاشقجی کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے۔

    عرب میڈیا کے مطابق شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے جمال خاشقجی کے صاحبزادے صلاح خاشقجی سے ٹیلیفون پر ان کے والد کے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل پر تعزیت کی اور لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔

    اس موقع پر صلاح خاشقجی نے شاہ سلمان کی جانب سے تعزیت پر ان کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔

    دوسری جانب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے بھی ٹیلیفون پر مقتول جمال خاشقجی کے بیٹے صلاح جمال خاشقجی اور ان عزیز و اقارب سے تعزیت کی۔

    سعودی ولی عہد نے یقین دلایا کہ حکومت خاشقجی کے قتل میں ملوث عناصر کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتے گی بلکہ انہیں کٹہرے میں لایا جائے گاَ۔

    یاد رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر 2018 کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

    سعودی عرب کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کی موت وہاں پر موجود افراد کے ساتھ لڑائی کا نتیجہ تھی تاہم ترک حکام اسے ایک سوچا سمجھا منصوبہ قرار دے رہے ہیں۔