Tag: خاشقجی

  • جمال خاشقجی قتل پر کسی کو پردہ ڈالنے نہیں دیں گے، ترک صدر

    جمال خاشقجی قتل پر کسی کو پردہ ڈالنے نہیں دیں گے، ترک صدر

    استنبول : ترک صدر رجب طیب اردوگان نے صحافی و کالم نگار جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل سے متعلق تحقیقاتی تفصیل منظر عام لانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے کی پردہ پوشی نہیں ہونے دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق صدر طیب اردوگان نے ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں امریکی اخبار سے منسلک صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی اور قتل سے متعلق تفتیش کی تفصیلات منگل کے روز جاری کرنے کا اعلان کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ترکی کے صدر اردوگان نے اتوار کے روز ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق تفصیلات سے حکمران جماعت کی پارلیمانی پارٹی کی میٹینگ کے دوران اعلان کروں گا۔

    ترک صدر رجب طیب اردوگان دی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک صحافی اور کالم نگار کے درد ناک قتل کی تفتیش منظر عام پر لانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو اس معاملے پر پردہ نہیں ڈالنے دیا جائے گا۔


    مزید پڑھیں : سعودی عرب نے صحافی جمال خاشقجی کی قونصلیٹ میں موت کی تصدیق کردی


    یاد رہے کہ جمعے کے روز سعودی عرب نے صحافی جمال خاشقجی کی قونصلیٹ میں موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ استنبول کے قونصل خانے میں جمال خاشقجی اور وہاں موجود افراد میں جھگڑا ہوا جس کے باعث ان کی موت واقع ہوئی تھی۔

    سعودی سرکاری ٹی وی کا کہنا تھا کہ قونصل خانے میں جھگڑے کے دوران جمال خاشقجی کی موت واقع ہوئی، سعودی انٹیلی جنس کے نائب صدر جنرل احمد العسیری کو اس واقعے کے بعد برطرف کردیا گیا تھا۔

    سعودی ٹی وی کا کہنا ہے کہ شاہی عدالت کے مشیر سعودالقحطانی کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے، واقعے میں ملوث 18 سعودی شہریوں کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے۔


    مزید پڑھیں : خاشقجی کیس سنگین غلطی تھا، قاتلوں کا احتساب ہوگا، سعودی وزیر خارجہ


    خیال رہے کہ گذشتہ روز سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا تھا کہ سعودی ولی عہد شاہ سلمان بن عبدالعزیز جمال خاشقجی کے قاتلوں کے احتساب کے لیے پُرعزم ہیں جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے انہوں نے اپنے اختیارات اور اتھارٹی سے تجاوز کیا۔

    سعودی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی قونصل خانے سے باہر نکلنے سے متعلق متضاد رپورٹس منظر عام پر آنے کے بعد ہی تحقیقات شروع کردی گئی تھی، سعودی عرب ان کی موت سے متعلق دستیاب ہونے والی تمام معلومات کو منظر عام پر لائے گا۔


    مزید پڑھیں : سعودی ولی عہد کے قریبی افسر کی نگرانی میں جمال خاشقجی کا مبینہ قتل ہوا، مغربی میڈیا


    واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کرکے لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے، قتل میں سعودی خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ افسران ملوث ہیں۔

    خیال رہے جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو سعودی عرب کے قونصل خانے کی عمارت کے اندر جاتے دیکھا گیا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں، وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر شدید تنقید کرتے رہے تھے اور یمن میں جنگ کے بعد ان کی تنقید مزید شدید ہوگئی تھی۔

  • جمال خاشقجی کیس، جرمنی نے سعودیہ کو اسلحے کی فروخت روک دی

    جمال خاشقجی کیس، جرمنی نے سعودیہ کو اسلحے کی فروخت روک دی

    برلن : جرمنی نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں ملوث ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے ہوئے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند کردی۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی ملک جرمنی نے استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں امریکی اخبار سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی اور ہلاکت پر شدید مذمت کرتے ہوئے سعودی حکام کی وضاحتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ سعودی سفارت خانے میں ہونے شاہی خاندان اور حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والے صحافی کے درد ناک قتل نے سعودی عرب کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔

    جرمن حکومت نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ذمہ داروں کے فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند کرنے کا اعلان کردیا۔

    دوسری جانب ترک حکومت نے جمال خاشقجی کی استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے کے اندر جانے والی تصاویر میڈیا پر جاری کردی ہیں جبکہ صحافی کی ترک منگیتر سفارت خانے کے باہر ان کا انتظار کرتی رہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے مؤقف پیش کیا تھا کہ دی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک صحافی اور کالم نویس جمال خاشقجی کہاں قتل ہوئے اور لاش کہا گئی انہیں معلوم نہیں۔


    مزید پڑھیں : صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت پر سعودی وضاحت ناکافی ہیں، جرمن چانسلر مرکل


    خیال رہے کہ ایک روز قبل جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور وزیر خارجہ ہائیکو ماس کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم سخت ترین الفاظ میں اس عمل کی مذمت کرتے ہیں، جمال خاشقجی کی ہلاکت کی وجوہات کے بارے میں ہم سعودی عرب سے شفافیت کی توقع رکھتے ہیں، استنبول میں پیش آئے واقعے کے بارے میں دستیاب معلومات ناکافی ہیں۔

    واضح رہے کہ عالمی برادری کے شدید دباؤ کے بعد ترک اور سعودی مشترکہ تحقیقات کے بعد سعودی عرب نے تسلیم کرلیا کہ صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہی مارے گئے تھے۔


    مزید پڑھیں: سعودی عرب نے صحافی جمال خاشقجی کی قونصلیٹ میں موت کی تصدیق کردی


    سعودی میڈیا نے ابتدائی چھان بین کے نتائج کے بعد تصدیق کی تھی کہ خاشقجی دراصل قونصل خانے میں ہونے والی ایک ہاتھا پائی میں ہلاک ہوئے، اس واقعے کے بعد سعودی حکومت نے 18 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا اور دو اہم اہلکاروں کو برطرف بھی کردیا۔

    خیال رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں۔

  • خاشقجی کیس سنگین غلطی تھا، قاتلوں کا احتساب ہوگا، سعودی وزیر خارجہ

    خاشقجی کیس سنگین غلطی تھا، قاتلوں کا احتساب ہوگا، سعودی وزیر خارجہ

    ریاض: سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ جمال خاشقجی کی موت کا واقعہ ایک سنگین غلطی تھا اور اس کیس میں ملوث ذمے داروں کا احتساب کیا جائے گا۔

    عرب میڈیا کے مطابق سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ سعودی ولی عہد شاہ سلمان بن عبدالعزیز جمال خاشقجی کے قاتلوں کے احتساب کے لیے پرعزم ہیں جن لوگوں یہ یہ کام کیا ہے انہوں نے اپنے اختیارات اور اتھارٹی سے تجاوز کیا۔۔

    انہوں نے کہا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بند سلمان ابتدا میں خاشقجی کیس سے آگاہ ہی نہیں تھے، اس واقعے میں ملوث افراد میں سے کسی کے بھی ان سے کوئی قریبی تعلقات نہیں تھے اور نہ ہی شاہ سلمان کے قریبی کوئی لوگ شامل تھے۔

    سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی قونصل خانے سے باہر نکلنے سے متعلق متضاد رپورٹس منظر عام پر آنے کے بعد ہی تحقیقات شروع کردی گئی تھی، سعودی عرب ان کی موت سے متعلق دستیاب ہونے والی تمام معلومات کو منظر عام پر لائے گا۔

    عادل الجبیر نے جمال خاشقجی کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے اور تسلیم کیا کہ ان کی اس طرح موت ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور یہ ایک بڑی اور سنگین غلطی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ سعودی حکام خاشقجی کی لاش کی تلاش کے لیے کام کررہے ہیں اور وہ قونصل خانے میں رونما ہونے والے واقعے کی مکمل تفصیل کے تعین کی بھی کوشش کررہے ہیں۔

  • جمال خاشقجی کی گمشدگی، برطانوی سرمایہ کار نے سعودیہ میں سرمایہ کاری روک دی

    جمال خاشقجی کی گمشدگی، برطانوی سرمایہ کار نے سعودیہ میں سرمایہ کاری روک دی

    لندن : برطانوی سرمایہ کار رچرڈ برانسن نے صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر سعودی عرب میں کی گئی سرمایہ کاری روکتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی حکومت کے اپنے ہی شہریوں کی گمشدگی میں ملوث ہونے کی اطلاعات نے مایوس کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں موجود سعودی عرب کے سفیر شہزادہ محمد بن نواف السعود نے جمال خاشقجی سے متعلق کہا ہے کہ ’میں سعودی صحافی کے لیے فکر مند ہوں، اس معاملے پر رائے دینا قبل از وقت ہوگا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی وہ صحافی ہیں جو سعودی حکومت کی پالیسیوں کو بے تحاشا تنقید کا نشانہ بناتے تھے، استنبول میں موجود سعودی سفارت خانے کا دورہ کرنے کے بعد واپس نہیں آئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی صحافی کی گمشدگی کے معاملے پر برطانیہ کی کارباری شخصیت سر رچرڈ برانسن نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری روک دی ہے۔

    برطانیہ میڈیا کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کی منگیتر کو خدشہ ہے کہ صحافی کو سفارت اغواء یا قتل کردیا گیا ہے، جبکہ ترک پولیس کا خیال ہے کہ استنبول میں صحافی جمال خاشقجی کو سعودی جاسوسوں نے قتل کردیا ہے۔

    دوسری جانب سعودی حکام مسلسل صحافی جمال خاشقجی کے قتل یا اغواء میں ملوث ہونے کی تردید کررہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ صحافی کچھ دیر بعد ہی سفارت خانے سے نکل گئے تھے۔

    سعودی سفیر شہزادہ محمد بن نواف السعود کا کہنا تھا کہ صحافی کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں لہذا نتائج کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

    برطانوی وزیر خارجہ جیمری ہنٹ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب پر دباؤ ڈالتے ہوئے جمال خاشقجی کے معاملے میں وضاحت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق سر رچرڈ برانسن نے سعودی میں جاری دو سیاحتی منصوبوں کو بند کرنے اور سعودی حکومت کے ساتھ خلائی منصوبوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو بھی روکنے کا اعلان کیا ہے۔

    برطانوی سرمایہ کار رچرڈ برانسن کا کہنا تھا کہ مجھے سعودی عرب کی موجودہ حکومت سے بہت توقعات تھیں لیکن سعودی عرب کے اپنے ہی شہری کی گمشدگی میں ملوث ہونے کی اطلاعات نے بہت ناامید کیا ہے۔

    واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطنی ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔