Tag: خالد علیگ کی برسی

  • خالد علیگ: جس نے جبر کے آگے سَر نہیں جھکایا، اور جو بِکا نہیں!

    خالد علیگ: جس نے جبر کے آگے سَر نہیں جھکایا، اور جو بِکا نہیں!

    خالد علیگ کا شمار پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ ترقّی پسند شاعر اور سینئر صحافی خالد علیگ 2007ء میں‌ آج ہی کے روز کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ انھیں راست گوئی، اصول پرستی اور ان کے اجلے کردار کی وجہ سے صحافت کی دنیا میں بہت عزّت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    خالد علیگ کا اصل نام سید خالد احمد شاہ تھا۔ وہ 1925ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء میں اپنے اہلِ خانہ سمیت پاکستان آگئے۔ پاکستان میں پہلے صوبہ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور لاہور میں قیام کیا، بعد سندھ کے شہروں میرپور خاص، خیرپور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور 1960ء میں کراچی آگئے جہاں تمام زندگی گزاری۔

    خالد علیگ نے صحافت کا آغاز کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے منشور سے کیا اور اس کے بعد روزنامہ حرّیت سے وابستہ ہوگئے۔ 1972ء میں جب روزنامہ مساوات شائع ہوا تو اس کے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس وقت ابراہیم جلیس اس کے ایڈیٹر تھے جن کے انتقال کے بعد انھیں ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور 1978ء میں اس اخبار کی بندش تک اسی عہدے پر فائز رہے۔

    خالد علیگ نے ترقّی پسند مصنّفین کی تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا۔ ایوب خان اور جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں آمریت اور فردِ‌ واحد کے فیصلوں کے خلاف انھوں نے صحافیوں کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ خالد علیگ کی شاعری میں ظلم و جبر سے نفرت، آمریت کی مخالفت اور انسان دوستی کے موضوعات ملتے ہیں۔ ان کی شاعری جراتِ اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔ وہ ایک خود دار انسان تھے جس نے کسی بھی موقع پر سرکاری امداد قبول نہیں کی اور اپنے قلم کو اپنے ضمیر کی آواز پر متحرک رکھا۔ خالد علیگ نے وہی لکھا جو حق اور سچ تھا۔ خالد علیگ نے محنت کش طبقے اور عوام کے لیے شاعری کی اور ساری عمر جدوجہد کرتے ہوئے گزاری۔ وہ کراچی شہر کی ایک بستی لانڈھی میں چھوٹے سے گھر میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے تھے۔ خالد علیگ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اپنی عوامی جدوجہد کے دوران انھوں نے بہت سی تکالیف اور پریشانیاں بھی اٹھائیں مگر اپنی خود داری پر آنچ نہ آنے دی۔ 1988ء میں انھیں حکومت کی جانب سے مالی امداد کے لیے رقم کا چیک بھجوایا گیا تھا، لیکن خالد علیگ نے اسے قبول نہ کیا۔ ایک مرتبہ وہ شدید علالت کے سبب بغرضِ علاج مقامی اسپتال میں داخل تھے اور حکومت نے سرکاری خرچ پر ان کے علاج کا اعلان کیا تو خالد علیگ فوراً اسپتال سے اپنے گھر منتقل ہو گئے۔

    خالد علیگ کو پی ڈبلیو ڈی میں بحیثیت سول انجینئر اپنی ملازمت کے دوران سندھ کے مختلف علاقوں میں رہنے کا موقع ملا لیکن 1960ء میں انھوں نے ملازمت ترک کردی اور کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ ملازمت ترک کرنے کا سبب طبقۂ اقتدار کے خلاف اُن کا مزاحمتی اور باغیانہ اظہار اور محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد تھا۔ مارشل لا کے دور میں خالد علیگ کو قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ لیکن اُن کے لہجے اور آہنگ میں بدترین آمریت کے ادوار میں بھی کبھی دھیما پن نہیں آیا۔ اُن کی شاعری میں بھی یہی عنصر ہمیشہ غالب رہا۔ خالد علیگ کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجیے۔

    میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
    مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں
    مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
    وہ چراغِ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

  • عہدِ سیاہ میں حق و صداقت کا پرچار کرنے والے خالد علیگ کا تذکرہ

    عہدِ سیاہ میں حق و صداقت کا پرچار کرنے والے خالد علیگ کا تذکرہ

    حق گوئی اور جرأتِ اظہار کے ساتھ جہدِ مسلسل خالد علیگ کی پہچان رہی۔ سماج کے پسے ہوئے طبقات کے لیے انھوں‌ نے اپنی آواز بلند کی اور ہر دور میں ناانصافی اور جبر کے خلاف اپنے قلم کو متحرک رکھا۔ آج خالد علیگ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    وہ پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک کے فعال رکن تھے۔ سینئر صحافی اور مزاحمتی شاعری کے لیے ملک بھر کے روشن خیال اور دانش ور طبقے میں عزّت اور احترام سے یاد کیے جانے والے خالد علیگ 2007ء میں‌ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ وہ طویل عرصے سے پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا تھے۔

    خالد علیگ 1925ء میں متحدہ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن کی سند حاصل کی تھی۔ تقسیمِ ہند کے وقت ہی ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا، جہاں وہ صوبۂ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور بعد میں‌ لاہور میں‌ ٹھہرے۔ اس کے بعد صوبۂ سندھ میں میرپورخاص، خیر پور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور 1960ء میں کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔

    خالد علیگ نے ہندوستان میں‌ سیاسی اور سماجی تحریکوں کے علاوہ اس زمانے میں مختلف فلسفہ ہائے حیات اور نظریات کو پروان چڑھتے دیکھا اور نوجوانی میں کمیونسٹ نظریات سے متاثر ہوگئے۔ انھوں نے صحافت کا آغاز بھی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے ‘منشور’ سے کیا۔ اس کے بعد روزنامہ حریت سے وابستہ ہوگئے اور بعد میں روزنامہ مساوات کے نیوز ایڈیٹر بنے اور 1978ء میں اخبار کی بندش تک اسی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

    ملک میں سیاسی آمریت کے دور میں روزنامہ مساوات سے وابستہ صحافیوں اور اخباری کارکنوں‌ کی آزمائش شروع ہوگئی۔ خالد علیگ ایوب خان کے دور میں‌ بھی اپنی آواز جمہوریت اور عوام کے حق میں بلند کرنے والوں‌ میں‌ شامل رہے تھے اور ضیا کے دور میں جب صحافیوں، انسانی حقوق کے علم برداروں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور ان کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا تو خالد علیگ صحافیوں کی تحریک کے سرکردہ راہ نما تھے۔ مساوات کو پیپلز پارٹی کا ترجمان اخبار کہا جاتا تھا جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عوام بالخصوص محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرتا تھا، لیکن خالد علیگ نے کبھی پیپلز پارٹی یا سرکاری امداد بھی قبول کرنا گوارہ نہیں‌ کیا۔ وہ ترقی پسند مصنفین کی صف میں‌ رہتے ہوئے اپنے نظریات اور اپنے قلم سے ملک میں جمہوریت اور عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے کام کرتے رہے۔

    بے نظیر بھٹو نے 1988ء میں اپنے دورِ حکومت میں مالی امداد کے لیے چیک بھجوایا، مگر خالد علیگ نے قبول نہیں کیا۔ شدید علالت کے باعث مقامی اسپتال میں داخل ہوئے تو صوبائی حکومت نے سرکاری خرچ پر علاج کرانے کا اعلان کیا جس پر وہ اسپتال سے گھر منتقل ہوگئے تھے۔

    خالد علیگ نے اپنی شاعری کو جبر اور استحصال کے خلاف مزاحمتی آواز بنا کر پیش کیا اور ایک مجموعہ ’غزالِ دشت سگاں‘ یادگار چھوڑا۔ وہ مالی مسائل کا شکار بھی رہے اور کراچی کے علاقے لانڈھی میں‌ 80 گز کے مکان میں ساری عمر گزار دی۔ ان کا مجموعۂ کلام ان کے دوستوں اور شاگردوں نے شائع کروایا تھا۔

    ان کے معاصرین اور جونیئرز انھیں خالد بھائی کہتے تھے جس نے تمام عمر انھیں اپنے قول و فعل سے خود داری، راست گوئی اور حق و صداقت کا پرچم بلند رکھنے کا درس دیا ان کی شاعری کا غالب حصّہ انقلابی اور عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے، لیکن خالد علیگ کا وصف یہ ہے کہ انھوں نے غزل اور نظم کی جمالیات کا خیال رکھا ہے۔ یہاں ہم ان کی ایک خوب صورت غزل نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
    مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں

    مرے جسم و جاں پہ اسی کے سارے عذاب سارے ثواب ہیں
    وہی ایک حرفِ خود آگہی کہ ابھی جو میں نے کہا نہیں

    نہ وہ حرف و لفظ کی داوری نہ وہ ذکر و فکرِ قلندری
    جو مرے لہو سے لکھی تھی یہ وہ قراردادِ وفا نہیں

    ابھی حسن و عشق میں فاصلے عدم اعتماد کے ہیں وہی
    انہیں اعتبارِ وفا نہیں مجھے اعتبارِ جفا نہیں

    وہ جو ایک بات تھی گفتنی وہی ایک بات شنیدنی
    جسے میں نے تم سے کہا نہیں جسے تم نے مجھ سے سنا نہیں

    میں صلیبِ وقت پہ کب سے ہوں، مجھے اب تو اس سے اتار لو
    کہ سزا بھی کاٹ چکا ہوں میں، مرا فیصلہ بھی ہوا نہیں

    مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
    وہ چراغِ راہ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

  • یومِ وفات: جرأتِ اظہار کے ساتھ خود داری خالد علیگ کا امتیازی وصف تھا

    یومِ وفات: جرأتِ اظہار کے ساتھ خود داری خالد علیگ کا امتیازی وصف تھا

    آج اردو کے نام وَر ترقّی پسند شاعر اور صحافی خالد علیگ کا یومِ وفات ہے۔ زندگی کی 83 بہاریں دیکھنے والے خالد علیگ نے 2007ء میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    ان کا شمار پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ قلم کاروں میں ہوتا تھا۔

    خالد علیگ کا اصل نام سید خالد احمد شاہ تھا۔ وہ 1925ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء میں اپنے اہلِ خانہ سمیت پاکستان آگئے۔ پاکستان میں پہلے صوبہ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور لاہور میں قیام کیا، بعد سندھ کے شہروں میرپور خاص، خیرپور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور 1960ء میں کراچی آگئے جہاں تمام زندگی گزاری۔

    خالد علیگ نے صحافت کا آغاز کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے منشور سے کیا اور اس کے بعد روزنامہ حرّیت سے وابستہ ہوگئے۔ 1972ء میں جب روزنامہ مساوات شائع ہوا تو اس کے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس وقت ابراہیم جلیس اس کے ایڈیٹر تھے جن کے انتقال کے بعد انھیں ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور 1978ء میں اس اخبار کی بندش تک اسی عہدے پر فائز رہے۔

    خالد علیگ ہمیشہ ترقّی پسند مصنّفین کی تحریک میں سرگرم رہے۔ ایوب خان اور جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں آمریت اور فردِ‌ واحد کے فیصلوں کے خلاف انھوں نے صحافیوں کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ خالد علیگ کی شاعری میں ظلم و جبر سے نفرت، آمریت کی مخالفت اور انسان دوستی کے موضوعات ملتے ہیں۔ ان کی شاعری جراتِ اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔

    وہ ایک ایسے شاعر اور صحافی تھے جس نے کسی بھی موقع پر سرکاری امداد قبول نہیں کی اور اپنے قلم کو آزاد رکھتے ہوئے ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز سنی اور وہی لکھا جو حق اور سچ تھا۔ وہ خود دار تھے اور ہمیشہ خود کو اپنے ضمیر کا قیدی رکھا۔ خالد علیگ نے محنت کش طبقے اور عوام کے حق کے لیے شاعری اور صحافت کے ذریعے ہمیشہ آواز بلند کی اور بہت نام و مقام، عزّت اور احترام پایا۔ ساری زندگی کراچی شہر کی ایک بستی لانڈھی میں اپنے چھوٹے سے گھر میں گزار دی اور ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی جھیلی مگر خود داری اور اپنی آزادی کو برقرار رکھا۔

    خالد علیگ کو 1988ء میں مالی امداد کا حکومتی چیک بھجوایا گیا جسے انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ شدید علالت کے باعث مقامی اسپتال میں داخل تھے تو معلوم ہوا کہ حکومت کی جانب سے ان کا علاج سرکاری خرچ پر کروانے کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ جان کر وہ اسپتال سے فوری گھر منتقل ہو گئے۔

    ان کی شاعری کا ایک مجموعہ ’غزال دشت سگاں‘ کے عنوان سے شائع ہوا جو ان کے دوستوں اور شاگردوں نے شائع کروایا تھا۔

    ان کی ایک غزل کے یہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے

    میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
    مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں

    مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
    وہ چراغِ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں