Tag: خان جہاں بہادر کوکلتاش

  • اورنگزیب کے معتوب کوکلتاش کا تذکرہ

    اورنگزیب کے معتوب کوکلتاش کا تذکرہ

    خانِ جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل ہوسکی ہیں، لیکن محققین کے مطابق وہ مغلیہ دور میں شہر لاہور کا صوبے دار اور سالار رہا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں لکھا ہے کہ کوکلتاش بادشاہ عالمگیر کے عہد میں‌ زیرِعتاب آیا اور بدترین حالات میں اس کی موت ہوگئی۔

    مؤرخین کا خیال ہے کہ منصب سے معزولی کے بعد اور قید کے دوران خانِ لاہور میں 23 نومبر 1697ء کو کوکلتاش کا انتقال ہوگیا تھا۔ شاہی عہد میں اس کا مقام و رتبہ کیا تھا اور مغل دربار کے لیے اس نے کیا خدمات انجام دیں، اس بارے میں بھی کچھ خاص معلوم نہیں‌ ہوسکا۔ البتہ مشہور مؤرخ خافی خان نظامُ الملک کی ایک تصنیف منتخبُ اللباب میں خانِ جہاں کا مختصر خاکہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں‌ کہ عہدِ عالمگیر کے اس بڑے منصب دار کا اصل نام میر ملک حسین تھا۔ اسے بہادر خان، خانِ جہاں اور کوکلتاش کے ناموں سے بھی پکارا گیا۔ 1673ء میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے میر ملک حسین کو ’’خانِ جہاں بہادر کوکلتاش‘‘ اور 1675ء میں ظفر جنگ کا خطاب دیا تھا۔

    یہ 1680ء کی بات ہے جب لاہور میں انتظامی سطح کے اختلافات زور پکڑ گئے تو بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے اس سے نمٹنے کے لیے شہزادہ محمد اعظم کو صوبہ دار مقرر کردیا۔ بعد ازاں اِس منصب پر مکرم خان اور سپہ دار خان بھی فائز ہوئے۔ لیکن 1691ء میں یہ عہدہ خانِ جہاں کو سونپ دیا گیا۔ وہ لگ بھگ ڈھائی سال تک لاہور کی نظامت کرتا رہا۔ لیکن 1693ء میں کسی بات پر بادشاہ اس سے ناراض ہوگیا۔ عالمگیر نے نہ صرف کوکلتاش کی معزولی کا فرمان جاری کیا بلکہ اسے زیرِ عتاب بھی رکھا۔ مؤرخین کے مطابق یہ سلسلہ چار سال بعد اُس وقت ختم ہوا جب کوکلتاش اپنی جان سے گیا۔

    تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ خانِ جہاں بہادر باوقار شخصیت کا مالک اور صاحبِ تدبیر امیر تھا۔ اس نے مغلیہ دور میں بڑی جنگوں میں حصّہ لیا اور سپہ سالار کی حیثیت سے محاذ پر پیش پیش رہا اور ہر بار شاہی دربار سے اپنی وفاداری کو ثابت کیا۔

    مشہور ہے کہ کوکلتاش کی تدفین مغل پورہ کے نزدیک ایک مقام پر کی گئی اور بعد میں اس پر ایک مقبرہ تعمیر کیا گیا۔ آج کوکلتاش کا یہ مقبرہ نہایت خستہ حالت میں ہے، لیکن اسے دیکھ کر مغل طرزِ تعمیر کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مقبرہ سترہویں صدی عیسوی میں اورنگزیب عالمگیر کے عہدِ حکومت کے آخری چند برسوں میں تعمیر کروایا گیا تھا۔ محققین کے مطابق یہ مغل دور کے لاہور میں تعمیر کردہ آخری مقابر میں سے ایک ہے۔

    تاہم آج محققین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ اس مقبرے میں کون شخصیت ابدی نیند سورہی ہے۔ جب کہ سترہویں صدی اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں مؤرخین یہی لکھتے آئے کہ اس جگہ خانِ جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش مدفون ہے۔

  • کوکلتاش: مغل دور کا ایک معتوب منصب دار

    کوکلتاش: مغل دور کا ایک معتوب منصب دار

    مغل دور کی تاریخ اور شخصیات پر مبنی تذکروں میں‌ ایک نام خان جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کا بھی پڑھنے کو ملتا ہے جس کے حالاتِ زندگی بہت کم معلوم ہوسکے ہیں، لیکن محققین نے اسے شہر لاہور کا صوبے دار اور سالار لکھا ہے جو عالمگیر کے عہد میں‌ زیرِعتاب آیا اور اسی حال میں‌ دنیا سے چلا گیا۔

    شاہی عہد میں اس کے مقام و رتبہ اور مغل حکومت یا دربار کے لیے اس کی خدمات کے بارے میں بھی کچھ خاص معلومات نہیں‌ ہیں۔ اپنے وقت کے مشہور مؤرخ خافی خان نظامُ الملک کی تصنیف منتخبُ اللباب میں خانِ جہاں کا جو مختصر تعارف پڑھنے کو ملتا ہے اس کے مطابق عہدِ عالمگیر کے اس بڑے منصب دار کا اصل نام میر ملک حسین تھا۔ اسے بہادر خان، خانِ جہاں اور کوکلتاش کے ناموں سے بھی پکارا گیا۔ 1673ء میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے میر ملک حسین کو ’’خانِ جہاں بہادر کوکلتاش‘‘ اور 1675ء میں ظفر جنگ کا خطاب دیا۔

    یہ 1680ء کی بات ہے جب لاہور میں انتظامی اختلافات کے بعد اورنگزیب عالمگیر نے اسے دور کرنے کے لیے شہزادہ محمد اعظم کو لاہور کا صوبے دار مقرر کیا۔ بعد ازاں اِس منصب پر مکرم خان اور سپہ دار خان بھی فائز کیے گئے۔ لیکن 1691ء میں یہ منصب خان جہاں بہادر کا مقدر بنا۔ اس نے لگ بھگ ڈھائی سال تک لاہور کی نظامت سنبھالے رکھی اور 1693ء میں مغل بادشاہ نے کسی بات پر کوکلتاش کو معزول کرنے کا فرمان جاری کردیا، اس کے بعد وہ چار سال تک زیرِ عتاب رہا۔

    محققین کے مطابق خان جہاں بہادر باوقار شخصیت کا مالک اور صاحبِ تدبیر امیر تھا۔ اس نے مغل دور میں بڑی جنگوں میں حصّہ لیا اور سپہ سالار کی حیثیت سے محاذ پر پیش پیش رہا۔ اس نے مغلوں کے لیے اپنی خدمات میں کوئی کمی نہ کی اور ہر بار اپنی وفاداری ثابت کی۔

    معزولی کے بعد خانِ جہاں بہادر کی زندگی مشکل ہوگئی اور 23 نومبر 1697ء کو اس نے لاہور ہی میں وفات پائی۔ مغل پورہ کے نزدیک ایک مقام پر اس کی تدفین کی گئی جہاں بعد میں مقبرہ تعمیر کیا گیا۔

    کوکلتاش کا یہ مقبرہ اب خستہ حالت میں ہے، لیکن مغل طرزِ تعمیر کا یہ نمونہ اُس زمانے کے بہادر اور مغلوں کے وفادار کی یادگار اور نشانی کے طور پر دیکھنے والوں کو متوجہ ضرور کرتا ہے۔

    یہ مقبرہ سترہویں صدی عیسوی میں اورنگزیب عالمگیر کے عہدِ حکومت کے آخری سالوں میں تعمیر کیا گیا اور اس عہد میں لاہور میں تعمیر کردہ آخری مقابر میں سے ایک ہے۔

    یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ مؤرخین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ اس مقبرے میں کون ابدی نیند سورہا ہے اور سترہویں صدی اور اٹھارہویں صدی عیسوی کے مؤرخین کا اتفاق ہے کہ یہ خانِ جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کا مدفن ہے جو لاہور کا مقتدر اور مغل دربار کا وفادار تھا۔

  • عہدِ عالمگیر میں‌ زیرِ‌عتاب آنے والے خان جہاں بہادر کا تذکرہ

    عہدِ عالمگیر میں‌ زیرِ‌عتاب آنے والے خان جہاں بہادر کا تذکرہ

    مغلیہ تاریخ کا ایک کردار خان جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کے نام سے مشہور ہے جس کے حالاتِ زندگی، شاہی عہد میں اس کے مقام و رُتبہ اور خدمات سے متعلق حقائق بہت کم دست یاب ہیں۔ تاہم مؤرخین نے اسے شہر لاہور کا ایسا مغل صوبے دار اور سالار لکھا ہے جو عہدِ عالمگیر میں‌ زیرِعتاب آیا اور اسی حال میں‌ دنیا سے چلا گیا۔

    مشہور مؤرخ خافی خان نظامُ الملک کی تصنیف منتخبُ اللباب میں خانِ جہاں کا مختصر تعارف پڑھنے کو ملتا ہے۔ ان کے مطابق عہدِ عالمگیر کے اس بڑے منصب دار کا اصل نام میر ملک حسین تھا۔ وہ بہادر خان، خانِ جہاں اور کوکلتاش کے ناموں سے بھی پہچانے گئے۔ انھوں نے 1673ء میں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر سے ’’خانِ جہاں بہادر کوکلتاش‘‘ اور 1675ء میں ظفر جنگ کا خطاب پایا۔

    1680ء میں لاہور کی نظامت کے سلسلے میں اختلافات پیدا ہونے پر مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے انھیں دور کرنے کے لیے شہزادہ محمد اعظم کو لاہور کا صوبے دار مقرر کیا تھا۔ بعد ازاں اِس منصب پر مکرم خان اور سپہ دار خان بھی مقرر کیے گئے۔ اور 1691ء میں خان جہاں بہادر کو لاہور کی یہ منصب دیا گیا۔

    وہ تقریباً ڈھائی سال تک لاہور کی نظامت پر مقّرر رہا اور 1693ء میں عالمگیر نے اسے معزول کرکے چار سال تک زیرِ عتاب رکھا۔

    خان جہاں بہادر با وقار شخصیت کا مالک اور صاحبِ تدبیر امیر تھا۔ اس نے مغل دور میں متعدد بڑی جنگوں میں حصّہ لیا اور سالار کی حیثیت سے محاذ پر آگے آگے رہا۔ وہ مغلوں کے لیے اپنی خدمات میں نیک نام اور بادشاہ کا وفادار تھا۔

    معزولی کے بعد خانِ جہاں بہادر نے بڑی مشکل زندگی بسر کی اور 23 نومبر 1697ء کو لاہور ہی میں وفات پائی۔ اسے لاہور میں مغل پورہ کے نزدیک ایک مقام پر دفن کیا گیا تھا جہاں بعد میں اس کا شان دار مقبرہ تعمیر کیا گیا۔

    کوکلتاش کا یہ مقبرہ آج خستہ حالی کا شکار ہے، لیکن مغل طرزِ تعمیر کا یہ نمونہ اُس زمانے کے بہادر سالار اور مغلوں کے ایک وفادار کی یادگار اور نشانی کے طور پر ضرور موجود ہے۔