Tag: خاکہ نگار

  • معروف فکاہیہ کالم نگار نصراللہ خان کا تذکرہ

    معروف فکاہیہ کالم نگار نصراللہ خان کا تذکرہ

    نصر اللہ خان کی صحافت پر خامہ بگوش (مشفق خواجہ) نے کہا تھا: وہ اس زمانے کے آدمی ہیں جب صحافی سیاسی جماعتوں یا سرکاری ایجنسیوں کے زر خرید نہیں ہوتے تھے۔ ان کے پاس ضمیر نام کی ایک چیز بھی ہوتی تھی۔

    نصر اللہ خان اردو صحافت کا ایک بڑا نام ہے جنھیں ان کے فکاہیہ کالموں کی بدولت ہر طبقۂ سماج میں‌ یکساں‌ پسند کیا جاتا تھا۔ وہ ڈرامہ اور خاکہ نگار بھی تھے۔ نصر اللہ خان کا اسلوب اور طرزِ تحریر انھیں اپنے ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز کرتا ہے۔ وہ اردو کے اہم فکاہیہ نگاروں میں سے ایک تھے۔ اس زمانے کے اخبار و رسائل کے مدیر نصر اللہ خان کے کالم اور مضامین کی اشاعت کے خواہش مند رہتے تھے۔

    نصر اللہ خان 11 نومبر 1920ء کو جاورہ، مالوہ کے ایک خاندان میں پیدا ہوئے۔ 1949ء سے 1953ء کے دوران وہ ریڈیو پاکستان کراچی میں پروڈیوسر رہے، بعدازاں روزنامہ انقلاب لاہور، روزنامہ حرّیت کراچی اور روزنامہ جنگ کراچی سے وابستہ ہوگئے اور آداب عرض کے نام سے ان کا کالم قارئین تک پہنچنے لگا جو بہت مقبول ہوا۔ 25 فروری 2002 کو نصراللہ خان وفات پاگئے تھے۔

    ان کی صحافت کا آغاز مولانا ظفر علی خان کے زمیندار اخبار سے ہوا تھا اور انہی کے زیر سایہ صحافت کی تربیت پائی تھی۔ پاکستان میں اپنی صحافتی زندگی کے دوران خان صاحب نے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی بہت سی اہم شخصیات کو قریب سے دیکھا اور ان سے بات چیت کا بھی موقع انھیں ملا۔ ان میں جید عالم دین، سیاست داں، فن کار، شاعر، ادیب، موسیقار الغرض‌ متنوع شخصیات شامل ہیں۔ ان شخصیات سے تعلق اور ملاقاتوں کو نصر اللہ خان نے اپنی تحریروں میں‌ سمویا اور ان کے شخصی خاکوں کی کتاب سامنے آئی جو بہت دل چسپ اور اہم واقعات پر مبنی ہے۔ نصر اللہ خان کی یہ تصنیف "کیا قافلہ جاتا ہے” کے نام سے پہلی بار 1984 میں شائع ہوئی۔ نصر اللہ خان کی دوسری تصانیف میں کالموں کا مجموعہ بات سے بات، ڈرامہ لائٹ ہاؤس کے محافظ، اور ان کی سوانح عمری اک شخص مجھی سا تھا شامل ہیں۔

  • اشرف صبوحی: اردو ادب کا ایک نگینہ

    اشرف صبوحی: اردو ادب کا ایک نگینہ

    بیسویں صدی کے نصف اوّل میں دبستانِ دلّی کے نثر نگار اشرف صبوحی ان ادیبوں میں سے ہیں جن کے بغیر تاریخِ دلّی مکمل نہیں ہو سکتی۔ اردو ادب کی نادرِ‌ روزگار اور صاحبِ اسلوب شخصیات میں اشرف صبوحی کا نام سرفہرست اور ان کی تخلیقات معتبر اور مستند ہیں۔

    آج اشرف صبوحی کا یومِ وفات ہے۔ وہ اردو کے مشہور ادیب اور اوّلین ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اشرف صبوحی نے ڈرامے، ریڈیو فیچر، بچوں کی کہانیاں، تنقیدی مضامین، دلّی کی سماجی اور تہذیبی زندگی پر مقالے، افسانے، شخصی خاکے لکھے اور تراجم کیے جو کتابی شکل میں محفوظ ہیں۔

    22 اپریل 1990ء ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ انھیں گلشنِ اقبال کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ اشرف صبوحی کو صاحبِ اسلوب مانا جاتا ہے۔ وقائع نگاری اور تذکرہ نویسی میں انھیں کمال حاصل تھا۔ دلّی سے متعلق مضامین میں انھوں نے گویا ایک تہذیب، معاشرت اور ثقافت کو تصویر کردیا ہے۔ ان مضامین میں مختلف مشہور شخصیات اور عام لوگوں کے تذکرے ہی نہیں، تہواروں، میلوں ٹھیلوں، پکوان، لباس اور استعمال کی مختلف اشیا تک کے بارے میں پڑھنے کو ملتا ہے۔

    اشرف صبوحی کا اصل نام سیّد ولی اشرف تھا۔ وہ 11 مئی 1905ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے تھے۔

    اشرف صبوحی کی نثر میں ایسا جادو ہے کہ وہ پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ کتاب ختم کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتا۔ رواں اور نہایت خوب صورت اسلوب نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا اور قارئین میں ان کی تحریریں مقبول ہوئیں۔

    ان کی مشہور تصانیف میں دلّی کی چند عجیب ہستیاں، غبارِ کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے تراجم شامل ہیں۔ ان کے کیے ہوئے تراجم دھوپ چھاؤں، ننگی دھرتی اور موصل کے سوداگر بہت مشہور ہیں۔ اشرف صبوحی نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ ان کے ایک مضمون گنجے نہاری والے کی دکان سے یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    "جب تک ہماری یہ ٹولی زندہ سلامت رہی اور میاں گنجے صاحب نیچی باڑ کی مسلی مسلائی لیس دار ٹوپی سے اپنا گنج ڈھانکے چھینٹ کی روئی دار کمری کی آستینوں کے چاک الٹے، رفیدہ سے چہرے پر لہسنیا ڈاڑھی لگائے، آلتی پالتی مارے، چمچ لیے دیگ کےسامنے گدّی پر دکھائی دیتے رہے، نہ ہمارا یہ معمول ٹوٹا اور نہ نہاری کی چاٹ چھوٹی۔ دو چار مرتبہ کی تو کہتا نہیں ورنہ عموماً ہم اتنے سویرے پہنچ جاتے تھے کہ گاہک تو گاہک دکان بھی پوری طرح نہیں جمنے پاتی تھی۔ کئی دفعہ تو تنور ہمارے پہنچے پر گرم ہونا شروع ہوا اور دیگ میں پہلا چمچ ہمارے لیے پڑا۔ دکان کے سارے آدمی ہمیں جان گئے تھے اور میاں گنجے کو بھی ہم سے ایک خاص دل چسپی ہوگئی تھی۔

    تین چار مواقع پر اس نے خصوصیت کے ساتھ ہمارے باہر والے احباب کی دعوت بھی کی اور یہ تو اکثر ہوتا تھا کہ جب علی گڑھ یا حیدرآباد کے کوئی صاحب ہمارے ساتھ ہوتے وہ معمول سے زیادہ خاطر کرتا۔ فرمایش کے علاوہ نلی کا گودا، بھیجا اور اچھی اچھی بوٹیاں بھیجتا رہتا اور باوجود اصرار کے کبھی ان چیزوں کی قیمت نہ لیتا۔

    اب یہ اپنے شہر والوں کی پاس داری کہاں؟ ہماری وضع میں کیا سلوٹیں آئیں کہ زندگی کی شرافت ہی میں جھول پڑگئے۔”

  • صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    اردو ادب کے صاحبِ طرز ادیب، مدیر، محقّق اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی 27 مئی 1966 کو وفات پاگئے تھے۔ وہ معروف ناول نگار، شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور شاعر و ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔

    شاہد احمد دہلوی نے اردو ایک باوقار جریدہ ‘ساقی’ دیا اور اس کے ذریعے علم و ادب، فنون و ثقافت کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا، وہ ترقّی پسند تحریک سے بھی وابستہ رہے۔ دہلی ان کا وطن تھا اور یہی نسبت ان کے نام سے منسلک رہی، قیامِ پاکستان کے بعد شاہد احمد دہلوی کراچی آگئے تھے۔

    شاہد احمد دہلوی انشا پرداز اور باکمال نثار تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں جو اپنے موضوع کے اعتبار سے اہم اور مصنّف کے منفرد اسلوب اور طرزِ‌ نگارش کا نمونہ ہیں۔ انھوں نے مختلف شخصیات کے خاکے تحریر کرنے کے علاوہ واقعات اور تذکروں کو کتابی شکل دی۔ دلّی کی بپتا اور اجڑا دیار ایسی ہی کتابیں ہیں۔ ان کا ایک کارنامہ انگریزی کی متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی بھی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے زمانے میں موسیقی کے متعدد پروگرام پیش کیے۔

    ان کے خاکوں کے مجموعے گنجینۂ گوہر، بزمِ خوش نفساں، بزمِ شاہد اور طاقِ نسیاں کے نام سے شائع ہوئے تھے جب کہ موسیقی کے موضوع پر ان کے لاتعداد مضامین کو بھی کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ شاہد احمد دہلوی کراچی میں گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یہ میر ناصر علی کون ہیں؟

    یہ میر ناصر علی کون ہیں؟

    اللہ بخشے میر ناصر علی دلّی کے ان وضع دار شرفا میں سے تھے جن پر دلّی کو فخر تھا۔ عجب شان کے بزرگ تھے۔

    ‘‘بزرگ’’ میں نے انہیں اس لیے کہا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں بزرگ ہی دیکھا۔ سوکھ کر چمرغ ہوگئے تھے۔ خش خشی ڈاڑھی پہلے تل چاولی تھی، پھر سفید ہوگئی تھی۔ کتری ہوئی لبیں، پوپلا منہ، دہانہ پھیلا ہوا، بے قرار آنکھیں، ماتھا کھلا ہوا، بلکہ گدّی تک ماتھا ہی چلا گیا تھا۔

    جوانی میں سرو قد ہوں گے، بڑھاپے میں کمان کی طرح جھک گئے تھے۔ چلتے تھے تو پیچھے دونوں ہاتھ باندھ لیتے تھے۔ مستانہ وار جھوم کے چلتے تھے۔ مزاج شاہانہ، وضع قلندرانہ۔ ٹخنوں تک لمبا کرتا۔ گرمیوں میں موٹی ململ یا گاڑھے کا، اور جاڑوں میں فلالین یا وائلہ کا۔ اس میں چار جیبیں لگی ہوتی تھیں جنہیں میر صاحب کہتے تھے۔ ‘‘یہ میرے چار نوکر ہیں۔’’ گلے میں ٹپکا یا گلو بند، سر پر کبھی کپڑے کی پچخ گول ٹوپی اور کبھی صافہ۔

    گھر میں رَدی کا کنٹوپ بھی پہنتے تھے اور اس کے پاکھے الٹ کر کھڑے کر لیتے، جب چُغہ پہنتے تو عمامہ سر پر ہوتا۔ اک بَرا پاجامہ، ازار بند میں کنجیوں کا گچھا۔ پاؤں میں نری کی سلیم شاہی، کسی صاحب بہادر سے ملنے جاتے تو انگریزی جوتا پاؤں میں اڑا لیتے۔

    آپ سمجھے بھی یہ میر ناصر علی کون ہیں؟ یہ وہی میر ناصر علی ہیں جو اپنی جوانی میں بوڑھے سرسیّد سے الجھتے سُلجھتے رہتے تھے۔ جنہیں سرسید ازراہِ شفقت ‘‘ناصحِ مُشفق’’ لکھتے تھے۔ ‘‘تہذیبُ الاخلاق’’ کے تجدد پسند رُجحانات پر انتقاد اور سر سیّد سے سخن گسترانہ شوخیاں کرنے کے لیےآگرہ سے انہوں نے ‘‘تیرہویں صدی’’ نکالا، اور نیچریوں کے خلاف اِس دھڑلّے سے مضامین لکھے کہ ان کی دھوم مچ گئی۔

    صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ان کے اندازِ تحریر پر بہت سوں کو رشک آیا۔ بعض نے کوشش کرکے نقل اتارنی چاہی تو وہ فقرے بھی نہ لکھے گئے اور خون تھوکنے لگے۔ اردو میں انشائیہ لطیف کے موجد میر صاحب ہی تھے۔ ان کا اندازِ بیان انہی کے ساتھ ختم ہوگیا۔

    غضب کی علمیت تھی ان میں۔ انگریزی، فارسی اور اردو کی شاید ہی کوئی معروف کتاب ایسی ہو جس کا مطالعہ میر صاحب نے نہ کیا ہو۔ کتاب اس طرح پڑھتے تھے کہ اس کے خاص خاص فقروں اور پاروں پر سُرخ پنسل سے نشان لگاتے جاتے تھے اور کبھی کبھی حاشیے پر کچھ لکھ بھی دیا کرتے تھے۔ ہزاروں لاکھوں شعر فارسی اور اردو کے یاد تھے، حافظہ آخر تک اچھا رہا۔ انگریزی اچھی بولتے تھے اور اس سے اچھی لکھتے تھے۔ ساٹھ پینسٹھ سال انہوں نے انشا پردازی کی داد دی۔

    نمک کے محکمے میں ادنٰی ملازم بھرتی ہوئے تھے، اعلیٰ عہدے سے پنشن لی۔ حکومت کی نظروں میں بھی معزز ٹھہرے ‘‘خان بہادر’’ کا خطاب ملا، دلّی میں آنریری مجسٹریٹ رہے، اور پاٹودی میں نو سال چیف منسٹر۔

    (صاحبِ طرز ادیب شاہد احمد دہلوی نے علم و ادب میں‌ ممتاز میر ناصر علی دہلوی کا یہ خاکہ کاغذ پر اتارا تھا جس سے ہم نے چند پارے یہاں‌ نقل کیے ہیں)

  • کاش ہم میں بہت سے نور خاں ہوتے!

    کاش ہم میں بہت سے نور خاں ہوتے!

    اردو ادب میں خاکہ نگاری باقاعدہ صنف کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ دراصل کسی شخصیت کی لفظی تصویر ہوتی ہے جس میں خاکہ نویس اس کی زندگی سے متعلق اہم اور مخصوص حالات و واقعات بیان کرتا ہے۔ اس کا حلیہ، حرکات و سکنات، عادات و اطوار، اس کے ظاہری و باطنی اوصاف اور طرزِ گفتگو کو اپنے مشاہدات کی گرہ لگا کر اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

    اس فن میں باکمال نثر نگار یوں قلم اٹھاتا ہے کہ کسی کی جیتی جاگتی، چلتی پھرتی تصویر قاری کے سامنے آجاتی ہے۔ اردو ادب کے سنجیدہ قارئین نے مختلف نثر نگاروں کے تحریر کردہ مشہور اور اہم شخصیات کے خاکے پڑھے ہوں گے، لیکن یہاں ایک بات قابلِ غور ہے کہ کیا نام ور اور مشہور شخصیات ہی کا خاکہ لکھا جاسکتا ہے؟

    ہمارے ہاں زیادہ تر خاکہ نویسوں نے فنونِ لطیفہ سے وابستہ معروف شخصیات اور دیگر شعبوں کے اہم ناموں کو ہی اس فن میں سمیٹا ہے، مگر بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ‘‘نور خان’’ جیسے ایک عام انسان کو جو حیدرآباد دکن کے ایک باغ کا مالی تھا، اپنے خاکوں کی مشہور کتاب ‘‘چند ہم عصر’’ نہایت خوب صورتی سے ہمارے لیے مثال بنا کر پیش کیا ہے۔

    اس خاکے کی ابتدائی سطور جہاں اس فن سے متعلق بابائے اردو کے خیالات سے آگاہی دیتی ہیں، وہیں خاکہ نگاروں کے لیے اس فن میں راہ نما بھی ہیں۔

    مولوی عبدالحق نے لکھا ہے کہ لوگ بادشاہوں اور امیروں کے قصیدے اور مرثیے لکھتے ہیں۔ نام ور اور مشہور لوگوں کے حالات قلم بند کرتے ہیں۔ میں ایک غریب سپاہی کا حال لکھتا ہوں، اس خیال سے کہ شاید کوئی پڑھے اور سمجھے کہ دولت مندوں، امیروں اور بڑے لوگوں کے ہی حالات لکھنے اور پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ غریبوں میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی ہمارے لیے سبق آموز ہوسکتی ہے۔

    مولوی عبدالحق کے اس خاکے کا عنوان‘‘ گدڑی کا لال، نور خان’’ ہے جس کی چند جھلکیاں آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر ہیں۔
    یوں محنت سے کام تو اور بھی کرتے لیکن خاں صاحب میں بعض ایسی خوبیاں تھیں جو بڑے بڑے لوگوں میں بھی نہیں ہوتیں۔ سچائی، بات کی اور معاملے کی، ان کی سرشت میں تھی اور خواہ جان ہی پر کیوں نہ بن جائے، وہ سچ کہنے سے کبھی نہیں چوکتے تھے۔ اسی میں انہیں نقصان بھی اٹھانے پڑے مگر وہ سچائی کی خاطر سب کچھ گوارا کرلیتے تھے۔

    مستعد ایسے تھے کہ اچھے اچھے جوان ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ دن ہو، رات ہو، ہر وقت کام کرنے کو تیار۔ اکثر دولت آباد سے پیدل آتے جاتے تھے۔ کسی کام کو کہیے تو ایسی خوشی سے کرتے تھے کہ کوئی اپنا کام بھی اس قدر خوشی سے نہ کرتا ہوگا۔

    دوستی کے بڑے پکے اور بڑے وضع دار تھے، چونکہ ادنی اعلیٰ سب ان کی عزت کرتے تھے اس لیے ان کے غریب دوستوں سے بہت سے کام نکلتے تھے۔
    خود دار ایسے کہ کسی سے ایک پیسے کے روادار نہ ہوتے تھے۔ مجھ سے انہیں خاص انس تھا، میں کوئی چیز دیتا تھا تو کبھی انکار نہ کرتے تھے، بلکہ کبھی کبھی خود فرمائش کرتے تھے، مٹھاس کے بے حد شائق تھے۔ ان کا قول تھا کہ اگر کسی کو کھانے کو میٹھا ملے تو نمکین کیوں کھائے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ نمکین کھانا مجبوری سے کھاتا ہوں، مجھ میں اگر استطاعت ہو تو ہمیشہ مٹھاس ہی کھایا کروں اور نمکین کو ہاتھ نہ لگاؤں۔

    وہ حساب کے کھرے، بات کے کھرے، اور دل کے کھرے تھے۔ مہرو وفا کے پتلے اور زندہ دلی کی تصویر تھے۔ ایسے نیک نفس، ہم درد، مرنج و مرنجان اور وضع دار لوگ کہاں ہوتے ہیں۔ ان کے بڑھاپے پر لوگوں کو رشک آتا تھا اور ان کی مستعدی دیکھ کر دل میں امنگ پیدا ہوتی تھی۔ ان کی زندگی بے لوث تھی اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ کسی نہ کسی کام میں صرف ہوتا تھا۔

    مجھے وہ اکثر یاد آتے ہیں اور یہی حال ان کے دوسرے جاننے والوں اور دوستوں کا ہے۔ اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ کیسا اچھا آدمی تھا۔ قومیں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں۔ کاش ہم میں بہت سے نور خاں ہوتے!