Tag: خاکہ نگاری

  • تھینکس ٹو نیاز بابا…

    تھینکس ٹو نیاز بابا…

    بھارتی فلموں کے مکالمہ نویس اور کہانی کار جاوید صدیقی نے اپنے فنی سفر کا آغاز ستیہ جیت رے کی شہرۂ آفاق فلم شطرنج کے کھلاڑی سے بطور مکالمہ نویس کیا تھا۔ یہ بات ہے 1977 کی۔

    فلم ‘دل والے دلہنیا لے جائیں گے’ کو شاید ہم سرحد پار کی فلم انڈسٹری کی، پڑوسی وڑوسی ملک کی کہانی کہہ کر ہم آسانی سے آگے نہیں‌ بڑھ سکیں‌ گے۔ محبّت کے جنون اور جذبے پر یہ فلم جاوید صدیقی کے قلم ہی سے نکلی تھی۔ اس کے علاوہ امراؤ جان، بازی گر، ڈر، غدار، ہم دونوں، چاہت، بازو، دِل کیا کرے، تال، زبیدہ، ہم کسی سے کم نہیں، کوئی مِل گیا جیسی معروف فلمیں بھی جاوید صدیقی کے کریڈٹ پر آئیں۔

    جاوید صدیقی محض 17 سال کی عمر میں‌ ممبئی چلے گئے تھے جہاں فلم نگری میں اپنی قسمت آزمائی۔ جاوید صدیقی زندگی کی اسّی سے زائد بہاریں‌ دیکھ چکے ہیں۔ جاوید صدیقی فلمی دنیا سے قبل اردو صحافت سے وابستہ رہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری کے اس سینئر قلم کار اور مصنّف نے کئی شخصیات کے خاکے بھی تحریر کیے جن پر مشتمل کتاب "روشن دان” کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں انھوں نے اعتراف کیا کہ نوّے فلمیں لکھنے کے باوجود ان کے اندر کہیں نہ ادب کے تئیں تشنگی باقی تھی اور ایک تخلیقی کسک موجود تھی جس نے یہ کتاب لکھنے کے لیے انہیں مہمیز کیا۔

    جاوید صدیقی کی اس کتاب سے ہم ایک دل چسپ قصّہ یہاں نقل کررہے ہیں۔ یہ قصّہ جاوید صدیقی نے اک بنجارہ کے نام سے نیاز حیدر کا خاکہ قلم بند کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔ انہی کی زبانی سنیے:

    بابا کا ایک مزے دار قصہ ہری بھائی (سنجیو کمار) نے مجھے سنایا تھا۔ جب تک وشوا متر عادل بمبئی میں رہے ہر سال اپٹا کی ’’دعوت شیراز‘‘ ان کے گھر پر ہوتی رہی۔ ہر نیا اور پرانا اپٹا والا اپنا کھانا اور اپنی شراب لے کر آتا تھا اور اس محفل میں شریک ہوتا تھا۔ ساری شراب اور سارے کھانے ایک بڑی سی میز پر چن دیے جاتے، جس کا جو جی چاہتا کھا لیتا اور جو پسند آتا وہ پی لیتا۔ یہ ایک عجیب و غریب محفل ہوتی تھی جس میں گانا بجانا ناچنا، لطیفے، ڈرامے سبھی کچھ ہوتا تھا۔ اور بہت کم ایسے اپٹا والے تھے جو اس میں شریک نہ ہوتے ہوں۔ ایسی ہی ایک ’’دعوتِ شیراز‘‘ میں ہری بھائی نیاز بابا سے ٹکرا گئے۔ اور جب پارٹی ختم ہوئی تو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے۔ ہری بھائی دیر سے سوتے تھے اور دیر سے جاگتے تھے، اس لیے وہاں بھی صبح تک محفل جمی رہی۔ پتہ نہیں کس وقت ہری بھائی اٹھ کے سونے کے لیے چلے گئے اور بابا وہیں قالین پہ دراز ہو گئے۔

    دوسرے دن دوپہر میں ہری بھائی سو کر اٹھے اور حسبِ معمول تیّار ہونے کے لیے اپنے باتھ روم میں گئے۔ مگر جب انھوں نے پہننے کے لیے اپنے کپڑے اٹھانے چاہے تو حیران ہو گئے، کیوں کہ وہاں بابا کا میلا کرتا پاجامہ رکھا ہوا تھا اور ہری بھائی کا سلک کا کرتا اور لنگی غائب تھے۔

    ہری بھائی نے نوکر سے پوچھا تو تصدیق ہو گئی کہ وہ مہمان جو رات کو آئے تھے صبح سویرے نہا دھوکر سلک کا لنگی کرتا پہن کے رخصت ہو چکے ہیں۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔

    اس کہانی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کچھ دو مہینے بعد ایک دن اچانک نیاز بابا ہری بھائی کے گھر جا دھمکے اور چھوٹتے ہی پوچھا: ’’ارے یار ہری! پچھلی دفعہ جب ہم آئے تھے تو اپنا ایک جوڑ کپڑا چھوڑ گئے تھے وہ کہاں ہے؟‘‘

    ہری بھائی نے کہا: ’’آپ کے کپڑے تو میں نے دھلوا کے رکھ لیے ہیں مگر آپ جو میرا لنگی کرتا پہن کے چلے گئے تھے وہ کہاں ہے؟‘‘ بابا نے بڑی معصومیت سے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا، سر کھجایا اور بولے: ’’ہمیں کیا معلوم تمھارا لنگی کرتا کہاں ہے؟ ہم کوئی ایک جگہ کپڑے تھوڑی بدلتے ہیں؟‘‘

    ہری بھائی جب بھی یہ قصہ سناتے تھے بابا کا جملہ یاد کر کے بے تحاشہ ہنسنے لگتے تھے۔‘‘

    نیاز حیدر کی پہلو دار شخصیت کو عیاں کرتے ہوئے جاوید صدیقی ایک جگہ یہ واقعہ بیان کرتے ہیں: جوہو کولی واڑہ اور اس کے آس پاس بہت سی چھوٹی موٹی گلیاں ہیں، بابا ایسی ایک گلی میں گھس گئے۔ دور دور تک اندھیرا تھا، دو چار بلب جل رہے تھے مگر وہ روشنی دینے کے بجائے تنہائی اور سناٹے کے احساس کو بڑھا رہے تھے۔ بابا تھوڑی دور چلتے پھر رک جاتے، گھروں کو غور سے دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے۔ اچانک وہ رک گئے، سامنے ایک کمپاؤنڈ تھا جس کے اندر دس بارہ گھر دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی گھر ایک منزل سے زیادہ نہیں تھا اور بیچ میں چھوٹا سا میدان پڑا ہوا تھا جس میں ایک کنواں بھی دکھائی دے رہا تھا۔ بابا نے کہا یہی ہے اور گیٹ کے اندر گھس گئے۔ میں بھی پیچھے پیچھے تھا مگر ڈر رہا تھا کہ آج یہ حضرت ضرور پٹوائیں گے۔ بابا کمپاؤنڈ کے بیچ میں کھڑے ہو گئے۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ کسی گھر میں روشنی نہیں تھی۔ بابا نے زور سے آواز لگائی: ’’لارنس…‘‘

    کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ میرا خوف اور بڑھنے لگا۔ کولیوں کی بستی ہے وہ لوگ ویسے ہی سرپھرے ہوتے ہیں آج تو پٹائی یقینی ہے۔

    بابا زور زور سے پکار رہے تھے: ’’لارنس… لارنس!…‘‘ اچانک ایک جھوپڑے نما گھر میں روشنی جلی، دروازہ کھلا اور ایک لمبا چوڑا بڑی سی توند والا آدمی باہر آیا، جس نے ایک گندا سا نیکر اور ایک دھاری دار بنیان پہن رکھا تھا۔

    جیسے ہی اس نے بابا کو دیکھا ایک عجیب سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی: ’’ارے بابا! کدھر ہے تم؟ کتنا ٹائم کے بعد آیا ہے؟‘‘ یہ کہتے کہتے اس نے بابا کو دبوچ لیا اور پھر زور زور سے گوانی زبان میں چیخنے لگا۔ اس نے بابا کا ہاتھ پکڑا اور اندر کی طرف کھینچنے لگا: ’’آؤ آؤ اندر بیٹھو… چلو چلو‘‘ پھر وہ میری طرف مڑا: ’’آپ بھی آؤ ساب! آجاؤ آ جاؤ اپنا ہی گھر ہے۔ ‘‘ ہم تینوں ایک کمرے میں داخل ہوئے جہاں دو تین میزیں تھیں، کچھ کرسیاں اور ایک صوفہ، اندر ایک دروازہ تھا جس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ بابا پوچھ رہے تھے: ’’کیسا ہے تُو لارنس؟… ماں کیسی ہے؟… بچہ لوگ کیسا ہے؟‘‘

    اتنی دیر میں اندر کا پردہ کھلا اور بہت سے چہرے دکھائی دینے لگے۔ ایک بوڑھی عورت ایک میلی سی میکسی پہنے باہر آئی اور بابا کے پیروں پر جھک گئی۔ بابا نے اس کی خیر خیریت پوچھی، بچوں کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور جب یہ ہنگامہ ختم ہوا تو لارنس نے پوچھا: ’’کیا پیئیں گے بابا؟‘‘

    ’’وہسکی…‘‘ بابا نے کہا۔ لارنس اندر گیا اور وہسکی کی ایک بوتل ٹیبل پہ لا کے رکھ دی۔ اس کے ساتھ دو گلاس تھے، کچھ چینی کچھ نمک سوڈے اور پانی کی بوتلیں۔ بابا نے پیگ بنایا، لارنس الٰہ دین کے جن کی طرح ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑا ہو گیا: ’’اور کیا کھانے کاہے بابا؟… ماں مچھّی بناتی، اور کچھ چہیئے تو بولو… کومڑی (مرغی) کھانے کا موڈ ہے؟‘‘ بابا نے مجھ سے پوچھا: ’’بولو بولو بھئی کیا کھاؤ گے؟‘‘

    میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بابا کی اتنی آؤ بھگت کیوں ہو رہی ہے۔ اگر ایسا بھی ہوتا کہ وہ لارنس کے مستقل گراہکوں میں سے ایک ہوتے تو بھی رات کے دو بجے ایسی خاطر تو کہیں نہیں ہوتی۔ یہاں تو ایسا لگ رہا تھا جیسے بابا اپنی سسرال میں آ گئے ہوں۔

    تھوڑی دیر میں تلی ہوئی مچھلی بھی آ گئی، ابلے ہوئے انڈے بھی اور پاؤ بھی۔ بہر حال مجھ سے برداشت نہیں ہوا، کھانا کھاتے ہوئے میں نے بابا سے پوچھا: ’’بابا اب اس راز پر سے پردہ اٹھا ہی دیجیے کہ اس لارنس اور اس کی ماں سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟‘‘

    کہانی یہ سامنے آئی کہ برسوں پہلے جب بابا اپنی ہر شام لارنس کے اڈے پر گزارا کرتے تھے تو ایک دن جب لارنس کہیں باہر گیا ہوا تھا اس کی ماں کے پیٹ میں درد اٹھا تھا، درد اتنا شدید تھا کہ وہ بیہوش ہو گئی تھی۔ اس وقت بابا اسے اپنے ساتھ لے کر اسپتال پہنچے، پتہ لگا کہ اپینڈکس پھٹ گیا ہے، کیس بہت Serious تھا آپریشن اسی وقت ہونا تھا ورنہ موت یقینی تھی۔ بابا نے ڈاکٹر سے کہا آپ آپریشن کی تیاری کیجیے اور نہ جانے کہاں سے اور کن دوستوں سے پیسے جمع کر کے لائے، بڑھیا کا آپریشن کرایا اور جب لارنس اسپتال پہنچا تو اسے خوش خبری ملی کہ اس کی ماں موت کے دروازے پہ دستک دے کے واپس آ چکی ہے۔ تھینکس ٹو نیاز بابا….

    اس کہانی میں ایک خاص بات یہ ہے کہ لارنس اور اس کی ماں کے بار بار خوشامد کرنے کے باوجود بابا نے وہ پیسے کبھی واپس نہیں لیے جو انھوں نے اسپتال میں بھرے تھے۔

    صبح تین بجے کے قریب جب میں بابا کو لے کر باہر نکل رہا تھا تو میں نے پلٹ کر دیکھا تھا، لارنس کی ماں اپنی آنکھیں پونچھ رہی تھی اور لارنس اپنے ہاتھ جوڑے سَر جھکائے اس طرح کھڑا تھا جیسے کسی چرچ میں کھڑا ہو۔‘‘

  • محمد طفیل کا تذکرہ جن کی مساعی سے’’نقوش‘‘ ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوا

    محمد طفیل کا تذکرہ جن کی مساعی سے’’نقوش‘‘ ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوا

    ’’نقوش‘‘ وہ ادبی جریدہ تھا جس کا اجرا محمد طفیل نے مارچ 1948ء میں کیا اور کئی برس بعد اس کی ادارت بھی سنبھالی اور اس جریدے کے متعدد شاہکار نمبر نکالے۔‌ محمد طفیل ایک کام یاب رسالے کے مالک اور مدیر ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے مصنّف اور خاکہ نگار کی حیثیت سے بھی جہانِ ادب میں‌ پہچان بنائی۔ حکومتِ پاکستان نے محمد طفیل کو ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

    ممتاز فکشن نگار انتظار حسین لکھتے ہیں: "مدیر کی حثییت سے طفیل مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ادبی رسالہ کو ادبی قارئین کے دائرے سے نکال کر ہر خاص و عام کی پسند کی چیز بنا دیا اور یہ یقیناً ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔”

    محمد طفیل کے بارے میں‌ پروفیسر مرزا محمد منور لکھتے ہیں: "محمد طفیل صاحب نے تن تنہا جتنی اردو کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی فردِ واحد کے زیرِ انتظام کسی ادارے نے کی ہو۔”

    ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل 5 جولائی 1986ء کو وفات پاگئے تھے۔ اداریہ نویسی کرتے ہوئے محمد طفیل ادبی تذکرے، مضامین اور خاکہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے اور علمی و ادبی شخصیات سے ان کی خط کتابت کا سلسلہ بھی شروع ہوا جو بہت اہمیت کے حامل ہیں، یہ نامے اور جوابی مکتوب اردو ادب میں ایک تاریخ اور سند کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے اپنے وقت کے بلند قامت اور نام وَر مصنّفین اور ادیبوں‌ کے خیالات اور حالات جاننے کا موقع ملتا ہے۔

    محمد طفیل 14 اگست 1923ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے استاد اور نام وَر خطّاط تاج الدین زرّیں رقم سے خوش نویسی کی تربیت حاصل کی۔ 1944ء میں محمد طفیل نے ادارۂ فروغِ اردو کے نام سے ایک طباعتی ادارہ قائم کیا اور 1948ء میں ماہ نامہ نقوش کا اجرا کیا۔ یہ جریدہ لاہور سے شایع ہوتا تھا جس کے اوّلین مدیر احمد ندیم قاسمی تھے جب کہ بعد میں یہ ذمہ داری خود محمد طفیل نے سنبھال لی۔

    ان کی ادارت میں نقوش کا کام یابی سے اشاعت کا سلسلہ جاری رہا اور یہ ہر لحاظ سے معیاری اور معاصر جرائد میں مقبول جریدہ ثابت ہوا۔ اس میں اپنے وقت کے بلند پایہ اور نام وَر شعرا اور نثّار کی تخلیقات شایع ہوتی تھیں اور ملک بھر میں‌ نقوش کے قارئین بڑی تعداد میں‌ موجود تھے۔

    نقوش کے تحت غزل و افسانہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ شخصیات نمبر، خطوط نمبر، آپ بیتی، طنز و مزاح نمبر شایع ہوئے جب کہ منٹو، میر، غالب، اقبال، انیس جیسی نابغہ روزگار شخصیات کی تخلیقات اور تذکروں پر مبنی شمارے اور مختلف ادبی موضوعات پر خصوصی اجرا شامل ہیں۔ یہ سلسلہ پاک و ہند میں پسند کیا گیا اور اس کی نظیر اس سے پہلے نہیں‌ ملتی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ محمد طفیل نے جب غالب نمبر کے لیے مرزا غالب ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ اپنے جریدے نقوش کی زینت بنایا تو اردو دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور بھارت میں‌ بھی یہ کہا گیا کہ اگر یہ مسودہ بھارت میں دریافت ہوا ہے تو پاکستان کیسے پہنچا اور کیسے پاکستان کے ایک مدیر نے اسے شائع بھی کر دیا۔

    محمد طفیل نے خاکہ نگاری کے متعدد مجموعے صاحب، جناب، آپ، محترم، مکرّم، معظّم، محبّی اور مخدومی کے نام سے شائع کروائے۔ ان کی خود نوشت بعد از مرگ ناچیز کے عنوان سے شایع ہوئی اور رسالہ نقوش نے محمد طفیل نمبر جاری کیا۔ محمد طفیل میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ‘‘چراغ حسن حسرت’’  سے ‘‘منٹو’’ کی ٹکر

    ‘‘چراغ حسن حسرت’’ سے ‘‘منٹو’’ کی ٹکر

    اردو زبان میں سوانح اور آپ بیتیاں، شخصی خاکے اور ادبی تذکرے مشاہیر اور علم و ادب کی معروف ہستیوں کے درمیان نوک جھونک، چھیڑ چھاڑ، طعن و تشنیع، رنجش و مخالفت پر مبنی دل چسپ، بذلہ سنج، کچھ تکلیف دہ اور بعض ناخوش گوار واقعات سے بھرے ہوئے ہیں۔ سعادت حسن منٹو سے کون واقف نہیں‌…. وہ نہایت حساس شخصیت کے مالک اور تند خُو ہی نہیں‌ انا پرست بھی تھے۔ جس سے یارانہ ہوگیا، ہوگیا، اور جس سے نہ بَنی، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا مشکل۔ اگر منٹو کی کسی وجہ سے کسی کو ناپسند کرتے تو پھر خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

    اس پس منظر کے ساتھ یہ اقتباس پڑھیے جو آپ کو اپنے وقت کے چند بڑے ادیبوں‌ کے مابین نوک جھونک سے لطف اندوز ہونے کا موقع دے گا۔ اسے اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور مشہور خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی نے منٹو پر اپنے مضمون میں‌ رقم کیا ہے۔

    ایک دفعہ احمد شاہ بخاری نے بڑے سرپرستانہ انداز میں کہا۔ ‘‘دیکھو منٹو میں تمہیں اپنے بیٹے کے برابر سمجھتا ہوں۔’’

    منٹو نے جھلّا کر کہا: ‘‘میں آپ کو اپنا باپ نہیں سمجھتا!’’

    مزہ تو اس وقت آیا جب چراغ حسن حسرت سے منٹو کی ٹکر ہوئی۔ واقعہ دلّی ریڈیو کا ہے جہاں اتفاق سے سبھی موجود تھے اور چائے کا دَور چل رہا تھا۔ حسرت اپنی علمیت کا رعب سب پر گانٹھتے تھے۔ ذکر تھا سومرسٹ ماہم کا جو منٹو کا محبوب افسانہ نگار تھا اور مولانا جھٹ بات کاٹ کر اپنی عربی فارسی کو بیچ میں لے آئے اور لگے اپنے چڑاؤنے انداز میں کہنے، ‘‘مقاماتِ حریری میں لکھا ۔۔۔ آپ نے تو کیا پڑھی ہوگی، عربی میں ہے یہ کتاب۔’’ دیوانِ حماسہ اگر آپ نے پڑھا ہوتا۔۔۔ مگر عربی آپ کو کہاں آتی ہے اور حسرت نے تابڑ توڑ کئی عربی فارسی کتابوں کے نام گنوا دیے۔

    منٹو خاموش بیٹھا بیچ و تاب کھاتا رہا۔ بولا تو صرف اتنا بولا۔ ‘‘مولانا ہم نے عربی فارسی اتنی نہیں پڑھی تو کیا ہے؟ ہم نے اور بہت کچھ پڑھا ہے۔’’

    بات شاید کچھ بڑھ جاتی مگر کرشن چندر وغیرہ نے بیچ میں پڑ کر موضوع ہی بدل دیا۔ اگلے دن جب پھر سب جمع ہوئے تو حسرت کے آتے ہی بھونچال سا آ گیا۔ منٹو کا جوابی حملہ شروع ہو گیا، ‘‘کیوں مولانا’’ آپ نے فلاں کتاب پڑھی ہے؟ مگر آپ نے کیا پڑھی ہو گی، وہ تو انگریزی میں ہے اور فلاں کتاب؟ شاید آپ نے اس جدید ترین مصنّف کا نام بھی نہیں سنا ہوگا اور منٹو نے جتنے نام کتابوں کے لیے ان میں شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جس کا نام مشہور ہو۔ منٹو نے کوئی پچاس نام ایک ہی سانس میں گنوا دیے اور مولانا سے کہلوا لیا کہ ان میں سے ایک بھی کتاب نہیں پڑھی۔ ہم چشموں اور ہم نشینوں میں یوں سبکی ہوتے دیکھ کر مولانا کو پسینے آگئے۔

    منٹو نے کہا ‘‘مولانا اگر آپ نے عربی فارسی پڑھی ہے تو ہم نے انگریزی پڑھی ہے۔ آپ میں کوئی سُرخاب کا پَر لگا ہوا نہیں ہے۔ آئندہ ہم پر رعب جمانے کی کوشش نہ کیجیے۔’’

    مولانا کے جانے کے بعد کسی نے پوچھا ‘‘یار تُو نے یہ اتنے سارے نام کہاں سے یاد کر لیے؟’’

    منٹو نے مسکراکر کہا: ‘‘کل شام یہاں سے اٹھ کر سیدھا انگریزی کتب فروش جینا کے ہاں گیا تھا۔ جدید ترین مطبوعات کی فہرست اس سے لے کر میں نے رٹ ڈالی۔’’

  • مرزا فرحت اللہ بیگ: ممتاز انشاء پرداز اور مقبول مزاح نگار

    مرزا فرحت اللہ بیگ: ممتاز انشاء پرداز اور مقبول مزاح نگار

    مرزا فرحت اللہ بیگ کو اصلاً مزاح نگار کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ ان کی تحریروں میں طنز کم ہے اور جہاں بھی طنزیہ انداز اپنایا ہے، وہاں موقع کی مناسبت سے اور حسبِ ضرورت چوٹ کر کے بڑھ گئے ہیں اور شدّت نہیں کی۔ مرزا فرحت اللہ بیگ اردو کے مقبول نگاروں میں سے ایک ہیں جن کی وفات 1947ء میں آج ہی کے روز ہوئی تھی۔ وہ ایک انشاء پرداز اور ایسے ادیب تھے جس نے مضامینِ شگفتہ کے ساتھ شخصی خاکے بھی لکھے اور واقعات نگاری بھی کی۔ ان کا تخلیقی سفر متعدد اصنافِ ادب پر محیط ہے۔

    بیسویں صدی کے اس ممتاز انشا پرداز کو اردو داں طبقے میں خاصی مقبولیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ انہوں نے ادب کے علاوہ مختلف موضوعات مثلاً تاریخ، تحقیق، سوانح وغیرہ میں بھی خامہ فرسائی کی مگر سب میں مزاح کا رنگ غالب رہا۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کے ان تین مضامین کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی جو بعنوان نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی، دہلی کی آخری شمع (ایک مشاعرہ) اور پھول والوں کی سیر شایع ہوئے۔

    مرزا صاحب کے بارے میں تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ وہ خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں اور ان خاکوں کو ہر دل عزیز بنانے میں مرزا کی فطری ظرافت کو بہت دخل ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔ تنقید، افسانہ، سوانح، سیرت، معاشرت و اخلاق کی طرف انہوں نے توجہ کی لیکن ان کی اصل شہرت کا مدار ظرافت نگاری پر ہے۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ کا عہد ہندوستان کی تاریخ کا عبوری دور ہے۔ تہذیبی تصادم کا یہ دور جس میں 1857ء نقطۂ عروج کی حیثیت رکھتا ہے، زوال، انحطاط، مایوسی، محرومی اور احساسِ شکست کا آئینہ دار بھی ہے اور غیرملکی اقتدار کا مرقع بھی۔ اسی عہد میں سیاسی، سماجی، ملی اور ادبی تحریکات کی نشو و نما بھی ہوئی اور اسی دور میں دماغوں سے قدامت کا رنگ بھی چھوٹنا شروع ہوا۔ اسی عہد میں قدیم و جدید کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچی اور آخرکار قدیم تہذیب، قدیم علوم اور قدیم اندازِ فکر کو شکست تسلیم کرنا پڑی۔ معاشرے نے کروٹ بدلی اور تمدن کے ایک شاندار دور کا خاتمہ ہو گیا۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ انقلابِ 1857ء کے 26 سال بعد ستمبر 1883ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور 1905 میں بی۔ اے کا امتحان پاس کر کے 1907 تک دہلی میں رہے۔ 1908 میں حیدرآباد (دکن) میں وارد ہوئے جہاں گورنمنٹ اسکول چادر گھاٹ کی مددگاری پر پہلا تقرر ہوا، پھر ہائیکورٹ کے مترجم کی خدمات پر مامور ہوئے، اس کے بعد اسپیشل مجسٹریٹ، سیشن جج اور آخر میں ہائیکورٹ کے انسپکٹنگ آفیسر بنے جو ہائیکورٹ کے جج کے مساوی عہدہ تھا۔

    دورانِ تعلیم مرزا فرحت اللہ بیگ کے روابط ڈپٹی نذیر احمد سے قائم ہوئے۔ اسی قرابت اور نذیر احمد کی دل چسپ شخصیت نے "نذیر احمد کی کہانی” لکھوائی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کہانی نے نہ صرف موصوف کے فن کو اجاگر کیا، حقِ شاگردی ادا کیا بلکہ انوکھی طرز کی کردار نگاری کا سنگ بنیاد رکھ کر اپنے فن کو بے نظیر اور نذیر احمد کو زندہ جاوید بنا دیا ہے۔

    تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ وہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ ان کے اجداد شاہ عالم ثانی کے عہد میں ترکستان سے آئے اور دہلی کو اپنا وطن بنایا۔ یہاں کالج کی تعلیم کے دوران مولوی نذیر احمد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے نہ صرف عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی بلکہ ان کی شخصیت کا گہرا اثر بھی قبول کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حیدرآباد دکن گئے تھے اور وہاں سے معاش کا خوب انتظام ہوا۔ وہیں‌ وفات پائی اور دفن بھی دکن کی مٹی میں‌ ہوئے۔

    ان کی تصنیف ’’دلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ مرقع نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ مولوی نذیر احمد کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا اور بہت برسوں دیکھا تھا۔ ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں ان کی ہوبہو تصویر اتاری ہے۔ اس خاکے نے ان کو لازوال شہرت عطا کی۔ یہ خاکہ مولوی وحید الدین سلیم کو ایسا پسند آیا کہ انہوں نے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کی۔ ان کی وفات کے بعد مرزا نے اس فرمائش کو پورا کر دیا اور اس خاکے کو ’’ایک وصیت کی تعمیل میں‘‘ نام دیا۔ انہوں نے بڑی تعداد میں مضامین لکھے جو مضامینِ فرحت کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری بھی کی لیکن یہ ان کا اصل میدان نہیں۔

    دہلی کی ٹکسالی زبان پر انہیں بڑی قدرت حاصل ہے اور شوخی ان کی تحریر کا خاصہ ہے۔ ان کے مضامین پڑھ کر ہم ہنستے نہیں، قہقہہ نہیں لگاتے بس ایک ذہنی فرحت حاصل کرتے ہیں۔ جب وہ کسی موضوع یا کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے اس جزئیات نگاری سے قاری کو بہت لطف و لذّت حاصل ہوتی ہے۔

    ان کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ فلسفیانہ گہرائی اور سنجیدگی سے حتی الامکان اپنا دامن بچاتے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قاری زیادہ سے زیادہ محظوظ ہو۔

    مرزا صاحب کے مضامین کا مجموعہ اردو کے قارئین میں بہت مقبول رہا ہے اور ان کی ایک خودنوشت بھی بہت پسند کی گئی جس پر ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں، اُردو کے نامور نثر نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی یہ خودنوشت ’’میری داستان‘‘ دراصل ایک ’’دفتر بیتی‘‘ ہے جو آپ بیتی کے تمام پہلوؤں کی بجائے صرف ایک پہلو یعنی ان کی دفتری زندگی اور کارناموں پر محیط ہے۔ مرزا صاحب نے انسانی زندگی کو ایک قید سے تعبیر کیا ہے اور اس قید کے پانچ حصے کیے ہیں۔ حصہ اوّل ماں کا پیٹ۔ دوسرا حصہ بڑے بوڑھوں کی قید۔ سوم حصہ مدرسے کی قید۔ چوتھا حصہ نوکری کی قید اور آخری حصہ قبر کی قید۔ یہ تقسیم ان کی بڑی خوش طبعی پر مبنی ہے۔

    ’’میری داستان‘‘ اپنے تمام کرداروں کے صحیح تشخص کے باوجود ایک زبردست عوامی میلہ ہے جس میں قہقہے ہیں، چہچہے ہیں، بھیڑ بھاڑ ہے، آدمی پر آدمی گر رہا ہے، ہنڈولے جھول رہے ہیں، چرخ جھوم رہے ہیں، حلوائیوں کی دکانوں پر مٹھائی کے تھال سجے ہیں، کڑھاؤ چڑھے ہیں، پوریاں تلی جا رہی ہیں، کہیں ناچ گانا ہو رہا ہے، کہیں بھنڈی کی دھوم دھام ہے۔ یہ حسنِ بیان، ذہانت، انشاء پردازی اور ادبِ عالیہ کا شاہ کار ہیں۔

  • مجروح کی پٹائی

    مجروح کی پٹائی

    اردو کے ممتاز غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری نے کئی فلمی گیت بھی لکھے جو آج بھی مقبول ہیں۔ ان کی غزل کا یہ شعر زباں زدِ عام ہے۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    جگن ناتھ آزاد کے الفاظ میں مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔ اس میں پیکر تراشی کے نقوش جا بجا اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔

    اسی طرح مشفق خواجہ کا کہنا ہے کہ جدید اردو غزل کی تاریخ میں مجروح سلطان پوری کی حیثیت اک رجحان ساز غزل گو کی ہے۔ انھوں نے غزل کے کلاسیکی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جس طرح اپنے عہد کے مسائل کا آئینہ دار بنایا وہ کچھ انہی کا حصہ ہے۔ پرانی اور نئی غزل کے درمیان امتیاز کرنے کے لیے اگر کسی ایک مجموعۂ غزل کی نشان دہی کی جائے تو وہ مجروح سلطان پوری کا مجموعۂ کلام "غزل” ہو گا۔

    خلیق انجم نے اردو کے اس ممتاز غزل گو شاعر کا جو شخصی خاکہ لکھا تھا، یہاں ہم اس سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    مجروح کا پورا نام اسرار حسن خاں تھا۔ چوں کہ مجروح انجمن ترقّی اردو مہاراشٹر کے صدر تھے اس لیے میں جب بھی جاتا تو اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔

    ایک دفعہ کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میری رگوں میں راجپوتی خون ہے، اسی لیے بہت جلد غصہ آ جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مجروح نسلاً راجپوت تھے۔

    مجروح کے والد محمد حسن خاں صاحب پولیس میں ملازم تھے۔ مجروح اپنے والدین کی اکیلی اولاد تھے، اس لیے خاصے لاڈ پیار سے پالے گئے۔ ان کے والد کی مالی حالت بہت اچھی نہیں تو بری بھی نہیں تھی۔ ان کے والد نے انگریز دشمنی میں طے کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو انگریزی نہیں پڑھائیں گے چنانچہ ان کو ایک مقامی مکتب میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں انہوں نے عربی، فارسی اور اردو پڑھی۔ درس نظامی کے مکمل ہونے میں صرف دو سال رہ گئے تھے کہ ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے مجروح نے تعلیم ترک کر دی۔

    ہوا یہ کہ مجروح نے کسی لڑکے سے مذاق کیا۔ اس لڑکے نے مولوی صاحب سے شکایت کر دی۔ بات بہت معمولی تھی لیکن مولوی صاحب نے کچھ پوچھے گچھے بغیر بید اٹھا کر مجروح کی پٹائی شروع کر دی۔ پہلے تو مجروح برداشت کرتے رہے، جب پٹائی حد سے بڑھ گئی تو انہوں نے ایک ہاتھ سے بید پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے مولوی صاحب کی گردن۔

    ظاہر ہے کہ اس حرکت کے بعد وہ اسکول میں کیسے رہ سکتے تھے۔ انہیں نکال دیا گیا یا شاید وہ خود مدرسہ چھوڑ کر آ گئے۔ کچھ عرصے بیکار رہے اور پھر 1933ء میں لکھنؤ کے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔

    مجروح بہت ذہین طالب علم تھے اور طالبِ علمی ہی کے زمانے میں طبّ پر انہوں نے ایسی قدرت حاصل کر لی تھی کہ جھوائی ٹولے کے بڑے طبیب حکیم عبدالمعید جب کسی علاج کے سلسلے میں باہر تشریف لے جاتے تو مجروح کو اپنی کرسی پر بٹھا کر جاتے۔ 1938ء میں کالج سے سند حاصل کرنے کے بعد مجروح فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنا مطب قائم کر لیا۔ مجروح نے خود مجھے مسکراتے ہوئے بتایا تھا کہ ٹانڈہ میں ایک بہت خوب صورت لڑکی سے ان کو عشق ہو گیا تھا۔ جس کا بعض لوگوں کو علم ہو گیا۔ اس لیے لڑکی کی رسوائی کے ڈر سے وہ مانڈہ چھوڑ کر سلطان پور آ گئے۔

    ایک گفتگو کے دوران مجروح نے دماغ پر زور دے کر بتایا تھا کہ انہوں نے 1935ء یا 1936ء میں شاعری شروع کی تھی۔ مجروح کی شاعری کے آغاز کے بارے میں مجروح کے لڑکپن کے دوست نے رسالہ "چراغ” (بمبئی) میں لکھا ہے:

    "مجروح کی طبیعت کو شاعری سے لگاؤ اور کافی مناسبت تھی۔ سلطان پور میں ہی پہلی غزل کہی اور وہیں کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں سنائی۔ اس مشاعرے میں مولانا آسی الدنی شریک تھے۔ مجروح نے اپنی ایک غزل مولانا کی خدمت بغرضِ اصلاح روانہ کی۔ مولانا نے مجروح کے خیالات کو باقی رکھنے اور کسی صحیح مشورے کے بجائے ان کے اشعار ہی سرے سے کاٹ دیے اور اپنے اشعار لکھ دیے۔ مجروح نے مولانا کو لکھا کہ مقصدِ اصلاح یہ ہے کہ اگر قواعد با زبان یا بحر کی کوئی لغزش ہو تو مجھے آپ اس طرف متوجہ کریں، یہ نہیں کہ اپنے اشعار کا اضافہ کر دیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ اس قسم کی اصلاح کے لیے میرے پاس وقت نہیں، چناںچہ یہ سلسلہ بند ہو گیا۔”

    اس کے بعد مجروح نے اپنا کلام کسی استاد کو نہیں دکھایا اور خود محنت کر کے فنِ شاعری اور زبان و بیان پر وہ قدرت حاصل کی جو ان کے معاصرین میں بہت کم لوگوں کو نصیب تھی۔

  • نریندر لوتھر صاحب

    نریندر لوتھر صاحب

    قدیم زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ کوئی شخص ایک مرتبہ جو پیشہ اختیار کرلیتا، مرتے دم تک اسی کو سنبھالے رکھتا تھا۔

    مثلاً یہ کہ اگر کوئی سپاہی ہوتا تو وہ کسی اور پیشہ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا۔ اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اور قوتیں اس میں صرف کر دیتا۔ شاعر ہوتا تو بس ساری زندگی شاعری کرتے گزار دیتا۔ خواہ بھوکوں مرنا پڑے، فاقے کرنا پڑیں۔ مگر کیا مجال جو دوسرے پیشے سے روزی روٹی کا بندوبست کر کے اپنا اور اپنے بال بچّوں کا پیٹ بھرے۔ دور کیوں جائیے، آپ کے ہمارے جانے پہچانے مرزا غالب ہی کی مثال لیجیے۔ سو پشت سے پیشۂ آباء، سپاہ گری ہوتے ہوئے بھی جب ایک بار اپنے موروثی پیشہ کو ترک کر کے، پیشۂ شاعری اختیار کیا تو پھر پیچھے پلٹ کر انہوں نے اس کی طرف نگاہ نہ ڈالی۔ حالانکہ قرض کی شراب پیتے رہے اور جب لوگوں نے قرض دینا بند کر دیا تو دعوتِ آب و ہوا کے لیے خرقہ و سجادہ کو بھی رہن رکھوانا گوارا کرلیا! جسمانی ساخت کے اعتبار سے وہ اس قابل تھے کہ اگر قلم رکھ کر تلوار اٹھا لیتے۔ تو موروثی پیشہ میں ضرور کوئی اعلٰی عہدہ حاصل کر لیتے، مگر وضع داری بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ مرتے مرگئے۔ ساری زندگی قرض خواہوں کی کڑوی کسیلی سنتے رہے مگر کیا مجال جو کسی اور پیشہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا بھی ہو!

    مگر آج ہم یہ دیکھتے ہیں یہ احساس، یہ وضع داری بالکل جاتی رہی۔ ادب تو Noman’s Land کی طرح ہوگیا ہے جس کا جی چاہا، منہ اٹھائے گھسا چلا آتا ہے، سب سے پہلے تو ڈاکٹروں نے چوری چھپے دائم المریض ادیبوں اور شاعروں کا علاج کرتے کرتے ان کا سہارا لے کر ادب میں دخل در معقولات شروع کی۔ یہاں تک کہ بعض ہٹ دھرم ڈاکٹروں نے باقاعدہ طور پر مریضوں کو ڈرا دھمکا کر اور کبھی مفت علاج کا لالچ دے کر ادیب اور شاعر کا لیبل لگا ہی لیا۔

    اور اب ایک اور گروہ آئی۔ اے۔ ایس آفیسروں کا پیدا ہوگیا ہے جو دفتر میں اپنے حصے کی فائلوں کے انبار بھی اپنے اسسٹنٹس کے حوالے کر کے ادیبوں اور شاعروں کو مسکرا مسکرا کر اپنے اجلاس پر بڑھاوا دے کر آہستہ آہستہ ادب میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ پہلے بھارت چند کھنہ، پھر خواجہ عبدالغفور اور اب نریندر لوتھر ادب کے میدان میں زور آزمائی کرنے کے لیے اتر آئے ہیں۔ ان کو دیکھ کر دوسرے آئی۔ اے۔ ایس آفیسروں نے بھی نبرد آزما ہونے کی کوشش کی۔ لیکن بہت جلد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ بھارت چند کھنہ خواجہ عبدالغفور اور نریندر لوتھر صرف آئی۔ اے۔ ایس ہونے کی وجہ سے ادیب نہیں کہلائے بلکہ ادب ان کی شخصیتوں میں رچ بس چکا ہے۔

    لوتھر صاحب سے میری جملہ چار ملاقاتیں ہوئیں۔ ان چاروں ملاقاتوں کا مجموعی دورانیہ 95 منٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پہلی ملاقات صرف پانچ منٹ کی، دوسری، تیسری اور چوتھی بار زیادہ سے زیادہ تیس منٹ فی ملاقات کا حساب پڑتا ہے، لیکن اس کے باوجود میں نے ان پر قلم اٹھانے کی ہمت کی ہے۔

    کئی سال قبل ہمارے ایک پڑوسی کی وساطت سے لوتھر صاحب سے تعارف حاصل ہوا۔ یہ اس صبح کی بات ہے جس کی شام لوتھر صاحب کے مضامین کے مجموعہ "بند کواڑ” کی رسمِ اجرا اردو ہال میں انجام دی جانے والی تھی۔ صبح صبح لوتھر صاحب کا مجھ سے یہ کہہ کر تعارف کروایا گیا۔ یہ "بند کواڑ” کے مصنّف نریندر لوتھر ہیں۔ باوجود اس کے کہ تعارف کروانے والے صاحب کی آواز گونجیلی، الفاظ نہایت واضح اور صاف تھے، مگر پھر بھی ذہن ان الفاظ کی پذیرائی کے لیے تیار ہی نہ تھا۔ بھلا یہ مصنّف کیسے ہوسکتے ہیں؟ کیوں کر ہو سکتے ہیں۔۔۔۔!!

    ان میں مصنّفوں والی ایک بھی تو بات نہ تھی۔ نہ ان کے چہرے پر پھٹکار، نہ ان کا لباس بوسیدہ، نہ ان کی کمر خمیدہ، نہ ان کا حلیہ فاقہ زدہ، نہ ان کے دانت میلے، نہ ہی ان کے میل سے بھرے ہوئے ناخن۔ پھر یہ بھلا مصنّف کیوں کر ہوسکتے ہیں۔ میرے سامنے صاف ستھرے، تازہ دم، آسودہ حال، خوش پوش، نفیس اور قیمتی لباس میں ملبوس۔ جھینپے جھینپے سے لوتھر صاحب تشریف فرما تھے۔ دل نے گواہی دی یہ انگریزی زبان کے ادیب ہوسکتے ہیں۔ اردو کے تو قطعی نہیں۔ کیوں کہ جو محرومی، کس مپرسی اور نکبت و زبوں حالی اردو والوں کے حصّے میں آئی ہے، ان سے وہ قطعی بیگانہ تھے۔ بہرحال میرے سلام کے جواب میں، میں نے دیکھا کہ ان کے نرم ونازک نقوش والے چہرے پر ہنسی کی لہر دوڑ گئی، "بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر”۔

    رسمی سا جملہ ادا کرکے گویا انہوں نے مجھ سے جان چھڑوانی چاہی۔ اور شام کی محفل میں شرکت کا وعدہ کرکے میں اپنے گھر چلی آئی۔ یہ تھی پہلی اور اس دور کی آخری ملاقات۔ آخری ان معنوں میں کہ اس کے کچھ عرصہ بعد لوتھر صاحب کا تبادلہ ہوگیا تھا۔ اور وہ شہر سے باہر چلے گئے تھے۔ اور جب وہ دوبارہ یہاں آئے تو ہمارے پڑوسی دیس چھوڑ کر پردیس کے ہورہے تھے۔

    ایک دن اچانک زندہ دلانِ حیدرآباد(دکن) کی ایک میٹنگ میں لوتھر صاحب نظر آگئے۔ یقین ہی نہ آتا تھاکہ لوتھر صاحب یوں کمرہ نمبر 28 میں مسکراتے لجاتے، سگار کے کش لگاتے مل جائیں گے۔ میٹنگ کے اختتام پر معتمد عمومی نے تعارف کروایا تو میں نے محسوس کیا کہ انہوں نے مجھے پہچانا نہیں۔ مگر پھر بھی اپنی مخصوص مسکراہٹ سے خواہ مخواہ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ میں ان کے لیے اجنبی نہیں ہوں۔ میں نے اپنے پڑوسی کے حوالے سے یاد دہانی کروائی تو بے چین سے ہوکر یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ دبیز مسکراہٹ کے پردے میں ماضی میں کھو سے گئے۔ اور پھر چند لمحوں بعد چہرے پر بچّوں کی سی معصوم خوشی پھیل گئی اور کہنے لگے:

    "ہاں جی ہاں! خوب یاد آیا۔ پہچان لیا میں نے!” اور اس مرتبہ چہرے سے صداقت بھی عیاں تھی۔

    تیسری ملاقات بھی زندہ دلان کی میٹنگ میں ہوئی۔ اس میٹنگ میں بعض ارکان میں آپس میں تلخ الفاظ کا تبادلہ شروع ہوگیا۔ فضا مکدر سی ہونے لگی تھی۔ لوتھر صاحب سگار منہ میں دبائے، آنکھیں موندے، زیرِ لب لطیفے سناکر دونوں پارٹیوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ اور دس منٹ کے اندر انہوں نے ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔

    چوتھی ملاقات حال ہی میں زندہ دلان کی کل ہند کانفرنس کے اس اجلاس میں ہوئی جس میں زندہ دلان کی مطبوعات کی رسمِ اجرا ہورہی تھی، میٹنگ ختم ہونے کے بعد کچھ دیر باتیں ہوئیں۔ یہ نسبتاً خوش گوار ملاقات تھی۔ اس لیے کہ اس دوران مجھے ان کی چند خصوصیات کا اندازہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ لوتھر صاحب انتہائی سادہ مزاج اور کھلے دل و دماغ کے مالک ہیں۔ اپنے کسی غیر مطبوعہ مضمون کے بارے میں جس فراخ دلی سے گفتگو کی اور مجھ سے مشورہ لیا، اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنے سے کم عمر والوں کی بھی عزت کرنا جانتے ہیں۔ لوتھر صاحب اپنے ہم عصر ہم میدان ادیبوں کی نہ صرف قدر کرتے ہیں بلکہ جی کھول کر ان کو سراہتے بھی ہیں۔

    لوتھر صاحب کی شخصیت بڑی پہلو دار اور تہ دار ہے۔ وہ مختلف النّوع مصروفیات کے آدمی ہیں، بحیثیت آئی اے ایس آفیسر وہ خواہ مخواہ کسی پر دھونس نہیں جماتے بلکہ ہر وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ہر ایک کی مدد کریں، رہنمائی کریں، اور دلوں میں جگہ پیدا کریں۔

    بھارت چند کھنہ اور رشید قریشی کی طرح یہ بھی اپنی بیوی کے مارے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اکثر مضامین کی تخلیق کا سہرا انہوں نے بھی اپنی بیوی ہی کے سر باندھا ہے۔ اور اس بات کا فراخ دلی سے اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا ہے کہ وہ بیوی زدہ شوہر ہیں۔

    نائب صدر کی حیثیت سے زندہ دلانِ حیدرآباد کی میٹنگوں میں مستقل مسکراتے رہنا، صدر صاحب کی ہاں میں ہاں ملاتے رہنا اور گرم ہونے والوں پر خاص طور پر اپنی مسکراہٹ نچھاور کرنا لوتھر صاحب کی اہم خصوصیات ہیں۔

    (کاغذی ہے پیراہن (طنز و مزاح) سے انتخاب جس کی مصنّف ڈاکٹر ہندوستان سے تعلق رکھنے والی ادیب اور محقق رشید موسوی ہیں)

  • ‘بارش کے قطروں کو کون گِن سکتا ہے’

    ‘بارش کے قطروں کو کون گِن سکتا ہے’

    میری عمر چودہ برس۔ صوفی صاحب نئے نئے ریٹائر ہو کر اس علاقے میں بسے تھے۔ ہم کرائے کے مکان میں نئے نئے منتقل ہوئے تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے والے مکان کی ڈیوڑھی پر پان والا بیٹھتا تھا۔ ہر دو گھنٹے بعد ایک خوش لباس شخص آتا، پان بنواتا، کھاتا، ٹہلتا ٹہلتا چلا جاتا۔ کبھی کُرتا شلوار اور کبھی کرتا اور چوڑی کنی کی خوب صورت دھوتی پہنے۔ کبھی پینٹ بشرٹ اور کبھی قمیص اور پینٹ پہنے۔

    ہماری امّاں کہ جن کا پان دان ہمیشہ شاداب رہتا، اس شخص سے بہت نالاں تھیں۔ اگر پان کھانے کا اتنا ہی شوق ہے تو یہ شخص گھر میں پان دان کیوں نہیں رکھتا! امّاں کی بھی ہر دفعہ نظر صوفی صاحب پر ہی پڑتی اور وہ بھی پان وہیں کھڑے ہو کر کھاتے۔

    غائبانہ لڑائی کا یہ سلسلہ امّاں کی طرف سے باقاعدہ شروع ہو چکا تھا۔ اس پر سونے پر سہاگا ہو گیا۔

    ایک دِن صوفی صاحب سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ گئے۔ ہاتھ میں کٹورا تھا۔ پوچھا کیا کیا پکا ہے؟ امّاں نے کہا، ”ثابت مسور۔“

    بولے، ”اس پیالے میں ڈال دو۔“ امّاں نے ڈال دی۔ وہ راستے میں چاٹتے ہوئے کھاتے چلے۔ امّاں کو سڑک پر یُوں چاٹنے والی بات اور بھی بُری لگی۔

    مگر صوفی صاحب کو سیڑھیوں تک کون لایا؟ یہ میں تھی…. میری صوفی صاحب سے ملاقات اسلامیہ کالج کے شمعِ تاثیر کے مشاعرے میں ہوئی (یادش بخیر، کہ اب تو اس نام کا مشاعرہ ہوتا ہی نہیں، بلکہ اسلامیہ کالج میں سرے سے کوئی مشاعرہ ہی نہیں ہوتا)۔ میں نے جب ان کے بے تکلّف پان کھانے کی شکایت امّاں کی طرف سے کی تو انہوں نے فوراً کہا کہ تمہارے گھر کھا لیا کروں گا، اور یوں میرے اور اپنے خاندان کے درمیان راہ و رسم کی پہلی سیڑھی خود صوفی صاحب نے چڑھی۔

    پہل کرنا صوفی صاحب کی عادت تھی۔ صلح میں، دعوت میں، بے تکلّفی میں، ادا دِکھانے میں، ناراضگی میں، شعر سنانے، سمجھانے اور بتانے میں۔ آپ ہی روٹھ کر آپ ہی مان جانا، ان کی ادا تھی۔

    نازک بدنی ان پر ختم تھی۔ صبح کی سیر ان کی جان تھی۔ دہی کھانا ان کی ضرورت تھی۔ صاف دسترخوان ان کی بھوک تھی، مگر جسم و جان کی تازگی صرف اور صرف شعر میں تلاش کرتے تھے۔

    حقّے کی گُڑگڑاہٹ، کلچے کی مہک، کشمیری چائے کی چُسکی، ٹوپی اُتار کر سر کھجانا اور پھر قلم پکڑ کر کاغذ پر اتنا خوب صورت لکھنا کہ کتابت کرانے کو جی نہ چاہے۔ سید بابر علی نے ان کی خوش تحریری کو دیکھ کر ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ایک ہزار ایک اشعار شائع کیے تھے۔

    امرتسر ان کے حافظے میں زندہ تھا، ذیلدار روڈ تہذیبی لاہور کا آئینہ۔ گورنمنٹ کالج ان کے فخر کا سرنوشت اور سمن آباد اپنے گھر میں ملنے والے سکون سے لے کر اس بے سکونی کا آئینہ تھا کہ جہاں گھروں کی دیواروں پر یہ لکھنا عام ہو گیا تھا ”فحاشی بند کرو۔“

    جب عمل مفقود اور نعرے حاوی ہو جائیں، وہ کھوکھلا پن صوفی صاحب کی زندگی کا حصّہ نہ تھا۔ وہ ایسے ظاہری پن سے نالاں ہو گئے تھے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ شعری سفر میں بھی بہت سے پڑاؤ ان کے دھیان میں تھے، مگر جسمانی سفر میں وہ احساس کے دوغلے پن سے نالاں تھے۔

    ہم جھوٹے ہیں۔ ہم مسلسل دوغلے پن کے عمل کو مسکراہٹوں کی کریز میں لپٹائے ہوئے رکھتے ہیں۔ وہ سچّے تھے، رہائی پا گئے۔

    ایک مجموعہ بعنوان ”انجمن“ اور دوسری وہ انجمن کہ جس کے دھوئیں کی شکل میں ہم لوگ ہیں، چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ مجموعہ ”انجمن“ 1954ء ہی سے مرتب کرنا شروع کیا تھا۔ اور میری شادی کے بعد شائع ہوا۔ اس لیے میں 1954ء سے لے کر اب تک صوفی صاحب کی رفاقت کی داستان کے صرف چند لمحوں میں آپ کو شریک بنا سکی ہوں۔

    بھلا انسان بارش کے قطروں کو کبھی گِن سکا ہے؟ صوفی صاحب بھی بارش تھے: علم کی، محبّت کی اور شفقت کی بارش۔ میں کیسے حساب دوں اُن لمحوں کا جو مجھ پر ساون کی جھڑی کی طرح مسلسل 25 برس کرم فرما رہے۔

    (نام وَر شاعر، مدیر اور مترجم صوفی تبسّم کے بارے میں شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کی ایک تحریر)

  • میں سمجھا یہ کوئی پہلوان ہیں…!

    میں سمجھا یہ کوئی پہلوان ہیں…!

    نصر ﷲ خاں کا حلقۂ احباب وسیع اور ان کے شناسا بہت تھے۔ پاک و ہند کے مختلف شہروں میں ان کے دوست احباب اور ملنے والے موجود تھے جن میں ادیب، شاعر، صحافی اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات شامل تھیں۔

    نصر اللہ خاں نے کئی معروف شخصیات کو بہت قریب سے دیکھا، جن کے خاکے 1948 میں شایع ہونے والی ان کی کتاب ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ میں شامل ہیں۔

    نصر ﷲ خاں ایک ادیب، صحافی اور کالم نویس کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، ان کے لکھے ہوئے خاکوں میں مولانا عبد السلام نیازی کی جھلک کچھ یوں ملتی ہے۔

    "مولانا عبدالسلام نیازی کو میں نے پہلی مرتبہ حکیم نصیر میاں کے دیوان خانے میں دیکھا تو سمجھا، یہ کوئی پہلوان ہیں۔ سَر گھٹا ہوا، چار ابرو کا صفایا، سَر پر چوٹی ہوتی اور دھوتی باندھے ہوتے تو متھرا کے چوبے معلوم ہوتے، شاہ نظام الدین حسن بریلویؒ کے مرید تھے۔”

    "جن لوگوں نے مولانا کا ناریل چٹختے دیکھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مولانا کا جلال دیکھنے کا ہوتا تھا۔ اپنے حریفوں پر ایسا گرجتے برستے تھے کہ اللہ کی پناہ، گالیاں دینے پر آتے تو ان گالیوں میں بھی علمی و ادبی رنگ جھلکتا۔ وہ عالموں میں عالم تھے، رندوں میں رند، پابند شرع اور عابد شب زندہ دار تھے۔

    مولانا بڑے طباع اور حاضر جواب تھے۔ جملہ ایسا چست کرتے کہ سبحان اللہ!”

    (کتاب ”کیا قافلہ جاتا ہے“ سے ایک ورق)