Tag: خرم سہیل

  • پاکستان اور سالانہ جاپانی فلمی میلہ

    پاکستان اور سالانہ جاپانی فلمی میلہ

    پاکستان میں غیر ملکی سفارت خانوں، قونصل خانوں اور ثقافتی مراکز میں خاص طور پر اُن فلموں کی نمائش کی جاتی ہے جو کسی ملک کی ثقافت کا مظہر ہوتی ہیں۔ بالخصوص کراچی میں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ (جرمنی) آلائنس فرانسز(فرانس) اور جاپان معلوماتی و ثقافتی مرکز (جاپان) اور دیگر کئی ممالک اس کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ جاپانی قونصل خانے کی طرف سے کراچی میں بالخصوص کئی برسوں سے جاپانی فلموں کی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

    رواں برس بھی ستمبر سے لے کر اکتوبر تک جاپانی فلمی میلے کا انعقاد کیا گیا اور اس کے تحت متعدد جاپانی فلمیں دکھائی گئیں۔ اس ثقافتی سرگرمی کا مفصل احوال پیشِ خدمت ہے جس میں وہ قارئین ضرور دل چسپی لیں گے جو فنونِ لطیفہ سے متعلق سرگرمیوں اور دنیا کی ثقافتوں کو سمجھنے اور جاننے کی خواہش رکھتے ہیں۔

    پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن اور پاکستان جاپان لٹریچر فورم سے اشتراک

    پاکستان میں، بالخصوص کراچی میں تین تنظیمیں جن کا تعلق جاپان سے ہے بہت فعال ہیں، جن میں پاکستان جاپان بزنس فورم، پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن، سندھ اور پاکستان جاپان لٹریچر فورم شامل ہیں۔ مذکورہ فلمی میلے میں مؤخرالذّکر دو ثقافتی تنظیموں کا تعاون قونصل خانہ جاپان، کراچی کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ رواں برس کے اس فلمی میلے میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا تعاون بھی شامل رہا، جب کہ پاکستان میں اس فلمی میلے میں جاپانی فلمیں دکھانے کے حقوق جاپان فاؤنڈیشن نے خریدے اور پاکستانی فلم بینوں نے کوئی ٹکٹ یا کسی قسم کی فیس کی ادائیگی کے بغیر یہ فلمیں دیکھیں۔ فلم بینوں میں بڑی تعداد نوجوان نسل کی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ جاپانی تنظیموں کے اراکین بھی بڑی تعداد میں اس میلے میں شریک ہوئے۔ اس فلمی میلے میں پیش کی جانے والی فلموں کو ناظرین نے بہت پسند کیا اور جاپانی سینما میں پاکستانیوں کی یہ دل چسپی ان دونوں ممالک کے درمیان ایک خاص سماجی اور گہرے ثقافتی تعلق کی غمازی کرتی ہے۔

    تین فلمیں اور تین کہانیاں

    اس فلمی میلے میں تین جاپانی فلمیں پیش کی گئیں جن کے نام بالترتیب انگریزی میں کچھ یوں ہیں۔

    1۔ بریو فادر۔ آن لائن چودہویں اوور اسٹوری آف فائنل فینٹیسی (2019)
    2۔ راؤنڈ ٹرپ ہارٹ (2015)
    3۔ پرنسز اریتی (2001)

    ان فلموں میں سے اوّل الذّکر فلم ” بریو فادر۔ آن لائن چودہویں اوور اسٹوری آف فائنل فینٹیسی "جاپان فاؤنڈیشن، پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن، سندھ اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے اشتراک سے قونصل خانہ جاپان، کراچی کے فلم بینوں اور تنظیموں کے ممبران کے لیے پیش کی گئی۔ اس فلم کو شائقین نے بے حد پسند کیا۔ اس موقع پر جاپانی قونصل جنرل جناب ہتوری ماسارو اور پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن کی صدر محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ کے ساتھ ساتھ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر جناب احمد شاہ نے حاضرین سے خطاب بھی کیا، جس میں دونوں ممالک کے مابین برادرانہ اور ثقافتی روابط برقرار رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔

    اس فلم کی کہانی کا مرکزی خیال ایک باپ بیٹے کے تعلق کے گرد گھومتا ہے۔ یہ دونوں آپس میں کم بات کرتے ہیں جب کہ باپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد بیٹے کو خیال سوجھتا ہے کہ باپ کو تنہائی اور فراغت سے بچانے کے لیے ویڈیو گیم کھیلنا سکھائے جو جاپان میں بے حد مقبول ہے۔ اس ویڈیو گیم کو کھیلتے کھیلتے باپ بیٹے میں جذباتی فاصلہ کم ہونے لگتا ہے، روزمرہ کی زندگی کے معاملات اور الجھنوں کو اس گیم کے ذریعے دونوں باپ بیٹے سلجھانا شروع کر دیتے ہیں، جس سے ان کی زندگی پر بھی خوشگوار اثرات پڑتے ہیں۔ اسی فلم کو کراچی میں این ای ڈی یونیورسٹی میں بھی دکھایا گیا، جہاں طلبا نے اسے بے حد پسند کیا۔ اس فلم اسکریننگ کے موقع پر جاپان کے ڈپٹی قونصل جنرل جناب ناکاگاوایا سوشی نے اساتذہ و طلبا سے خطاب بھی کیا۔

    دوسری فلم ” راؤنڈ ٹرپ ہارٹ” جاپان کی ایک لڑکی کو ٹرین میں اشیائے خور و نوش فروخت کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس کام کے دوران اس کا واسطہ اکثر ایسے گاہکوں سے بھی پڑتا ہے، جو دل پھینک یا رومانوی مزاج کے حامل ہوتے ہیں جب کہ یہ لڑکی، جس کا نام ہاچیکو ہے، رومان پرور جذبات پوری طرح آشنا نہیں ہوتی اور اس کی زندگی میں یہ کھڑکی کبھی نہیں کھلی ہوتی۔ پھر اچانک یہ در اس کے لیے وا ہوتا ہے، جس میں یہ اپنی زندگی کی محرومیوں اور خوشیوں کا عکس دیکھتی ہے۔ اس ہلکی پھلکی کہانی پر مبنی فلم کو حاضرین نے بے حد پسند کیا۔ یہ فلم قونصل خانہ جاپان، کراچی کی طرف سے پاکستان جاپان لٹریچر فورم اور جاپانی زبان کے طلبا کے لیے دکھائی گئی جس کو سب نے بہت سراہا۔ اس موقع پر جاپانی قونصل جنرل ہتوری ماسارو اور پاکستان جاپان لٹریچر فورم کے بانی خرم سہیل نے حاضرین سے خطاب کیا۔ جاپانی ڈپٹی قونصل جنرل ناکاگاواسا یوشی سمیت متعدد جاپانی سفارت کاروں، اس ادبی فورم کے ممبران اور جاپانی زبان سیکھنے والے طلبا کی بڑی تعداد اس موقع پر موجود تھی جنہوں نے اس فلم کو سراہا۔ اس موقع پر میڈیا سے بھی گفتگو کی گئی۔ اس فلم اسکریننگ کے موقع پر خصوصی مہمان کے طور پر پاکستان سینسر بورڈ، سندھ کے چیئرمین اور معروف اداکار خالد بن شاہین مدعو تھے، لیکن ایونٹ میں ان کی آمد میں تاخیر پر رابطہ کیا گیا تو انہوں نے عین موقع پر شرکت سے معذوری ظاہر کر دی جب کہ وہاں غیر ملکی سفارت کار اور کئی مہمان بھی موجود تھے اور یہ ایک افسوس ناک بات تھی۔ ایسے مواقع پر ہمیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیوں کہ ملکی وقار اور عزّت کی بات ہوتی ہے۔

    اس سلسلے کی تیسری اور آخری فلم ایک جاپانی اینیمیٹیڈ فلم تھی، جس کا نام پرنسز اریتی تھا۔اس فلم کی کہانی بہت رومانوی اور داستان کے طرز پر ہے، جس کے مطابق یہ شہزادی اپنے والد کی طرف سے قلعے کے مینار میں قید ہے، جہاں سے وہ شہزادی سارا دن کھڑکی سے باہر کی دنیا کو دیکھتے ہوئے گزارتی ہے۔ کبھی کبھی وہ چپکے سے باہر بھی نکل جاتی ہے۔ اس سے شادی کے خواہش مندوں کو اس کا دل جیتنے کے لیے جادو کے خزانے کی تلاش میں ایک مشکل اور انوکھی مہم پر بھیجا جاتا ہے۔ ساری کہانی اسی تلاش کے اردگرد گھومتی ہے۔ یہ فلم مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، جامشورو کے طلبا نے دیکھی اور سب نے اسے بہت پسند کیا۔ اس موقع پر کراچی میں جاپانی قونصل خانے کی طرف سے سیاسی و ثقافتی اتاشی جناب کینگوہوری نے خطاب کیا۔

    حرفِ آخر

    یہ جاپانی فلمی میلہ پچھلے کئی برس سے جاری ہے جس میں پاکستانی فلم بین شرکت کرتے ہیں۔ کراچی میں منعقدہ فلمی میلوں میں کئی نامور شخصیات بھی شریک ہوتی ہیں۔ کراچی میں فلم اسکرنینگ کی ایک ویڈیو رپورٹ ان قارئین کے شوق کو بڑھا سکتی ہے جو کبھی اس فلمی میلے میں نہیں گئے اور امید کی جاسکتی ہے کہ اگلے سال وہ بھی پاکستان میں جاپانی فلمیں دیکھنے والوں میں شامل ہوں گے۔ یہ فلمیں انگریزی سب ٹائٹلز کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔

  • پاکستانی سینما کی بحالی کی عملی تصویر- فلم باجی

    پاکستانی سینما کی بحالی کی عملی تصویر- فلم باجی

    پاکستانی سینما کی بحالی کی بات تو بہت عرصے سے ہو رہی ہے،  مگر اب نئے دور میں بننے والی فلموں کی اکثریت میں نہ تو پاکستان دکھائی دیتا ہے، نہ ہی پاکستانی سینما، لیکن فلمی صنعت کی نام نہاد بحالی کا نعرہ لگایا جاتا رہا ہے، پھر بھی پاکستانی سینما کی بحالی کی عملی تصویر میں اگر کسی نے رنگ بھرے ہیں تو وہ فلم ساز ثاقب ملک ہیں، انہوں نے اپنی پہلی ہی فلم کی بدولت فلمی صنعت کو شاندار خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کی اس فلمی کاوش کا نام ’باجی‘ ہے۔ یہ ایک سچی اور اصل پاکستانی فلم ہے، جس کے انتظار میں پاکستانی سینما کے فلم بین نہ جانے کب سے منتظر تھے۔ مبارک ہو، اس فلم کو دیکھنے کے بعد، ایسا محسوس ہو رہا ہے، ہمارے سینماکی بحالی کا کام اب حقیقی معنوں میں شروع ہوا چاہتا ہے۔

    کہانی

    ڈھلتی ہوئی عمر کی ایک اداکارہ، جس کا ماضی فلم بینوں کی تالیوں سے گونجتا رہا، پھر اُسے تنہائی نے آن گھیرا۔ زوال کی دھول میں ایک منظر اُبھرا، جس میں اُسے دکھائی دینے والا چہرہ، اس کی روشن منزل تک لے جانے والا وسیلہ بن سکتا تھا۔ ایک نوجوان مڈل کلاس لڑکی، خواب دیکھنے اور زندگی میں خواہشوں کی تتلیوں کے پیچھے بھاگنے والی، اس نے زندگی کے مدو جزر کو انتہائی قریب سے دیکھا۔ ایک عاشق، جس کے حصے میں تشنگی اور وحشت آئی، ایک لٹیرا، جس کے طلسم نے کئی دلوں کو چاک کیا۔ ان چاروں مرکزی کرداروں کے ساتھ ساتھ ذیلی کردار، ایک ایک کرکے کہانی میں آتے اور جاتے رہے، جن میں نیر اعجاز، نشو، عرفان کھوسٹ، علی سلیم اور ثانیہ سعید تک کا ہر کردار دل میں اترتا ہوا محسوس ہوا۔

    [bs-quote quote=” یہ ایک ایسی فلم ہے، جو حقیقی معنوں میں پاکستانی سینما کی بحالی میں ایک یادگار موڑ ثابت ہوگی” style=”style-11″ align=”right”][/bs-quote]

    کہانی نویس نے جس مہارت اور سہولت سے کرداروں کو کہانی میں گوندھا، کہانی کو آگے بڑھایا، ایک سے زائد مرتبہ کہانی کو کلائمکس کے دروازے سے داخل کر کے فلم بین کو حیران کیا، یہ اپنی مثال آپ ہے۔ پاکستانی سینما کو ایسی کہانیوں اور ندرت بھرے انداز کی ضرورت ہے، جس کو عرفان احمد عرفی نے ثاقب ملک کے ساتھ مل کر قلم سے نہیں بلکہ جذبے کی روشنائی سے ایسے لکھاکہ پاکستان کا روایتی اور جدید سینما ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے کھڑا دکھائی دیا،  اگر آپ کو مبالغہ آرائی کاگمان ہو رہا ہے اور یقین نہیں آرہا، تو سینما اسکرین پر جاکر اس فلم کو دیکھنے کا تجربہ کیجیے۔

    فلم سازی

    پاکستان میں صدی کا ہندسہ بدلا، مگر سینما کے حالات نہ بدلے لیکن میں اس بات کا عینی شاہد ہوں، اُس وقت بھی ثاقب ملک کے دفتر کی دیواروں پر فریم ہوئے پرانی پاکستانی فلموں کے پوسٹرز آویزاں تھے۔


    اُس وقت جب پاکستانی سینما کی بحالی کے نعرے کا شور مدھم تھا، تب ثاقب ملک پاکستانی فلم کے ماضی کو سینے سے لگائے”کھماج“ جیسی میوزک ویڈیو بنا کر روایتی سینما سے اپنے لگاؤ کا اظہار کر رہے تھے۔ ”نہ رے نہ“ جیسی میوزک ویڈیو بناکر سینما اور اسکرین کی جدیدیت سے شناسائی کا ثبوت بھی دے رہے تھے۔ اسی عرصے کے درمیان کہیں سے ان کے اندر فلم”باجی“ کا موضوع بیدار ہوا، جس کو بنانے کے لیے ان کے اندر کا ہدایت کار تو مچل رہا تھا، مگر فلم ساز کی بھی ضرورت تھی، آخرکار یہ فریضہ بھی خود انہوں نے انجام دیا۔

    ہدایت کاری

    فلم سازی اور ہدایت کاری کے پہلو سے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ فلم کی ابتدا ایک ایسے سین سے ہوتی ہے، جس میں ایک نوخیز لڑکی ”باجی “ کو پکار رہی ہوتی ہے، فلم کی کہانی اپنا دائرہ مکمل کرکے واپس اسی سین پر آکر ٹھہرتی ہے، تو اس دوارنیے میں بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ کہانی کہاں تک آن پہنچی ہے۔ ایک ایک فریم پینٹنگ کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ شہر کے پوش علاقوں سے لے کر پرانے لاہور کی گلیوں تک، فلمی صنعت کے ویران نگار خانوں سے لے کر شباب کی محفلوں تک، جتنے فریم ثاقب ملک نے سجائے اور کرداروں نے گفت و شنید کی، وہ اپنے فن کی معراج پر رہے۔

    اس فلم کی کہانی اور تکنیک کی تفصیل میں جائے بغیر صرف اتنا کہوں گا، یہ پڑھنے کی نہیں دیکھنے کی شے ہے، وہ بھی سینما اسکرین پر، جہاں ایک حقیقی اداکارہ کی سوانحی زندگی کو بہت خوبصورتی فلمایا گیا ہے، وہیں اس کے مد مقابل ایک نئے چہرے کو دکھانے کے لیے، دلکش اور تروتازہ چہرے سے ہی کام لیا گیا ہے، جس کی یہ پہلی فلم ہے، ورنہ اس نے اب تک فیشن کی دنیا میں شہرت کی بلندی تو طے کی تھی، لیکن اس فلم کے دروازے سے داخل ہوکر ، اداکاری کے منچ پر، وہ جس مکمل اعتماد سے آن کھڑی ہوئی ہے، یہ دیکھنے لائق ہے۔ ان دونوں کرداروں سے بندھا ہوا تیسرا کردار، جو بطور فلم ساز اس فلم میں متعارف ہوتا ہے، اس نے بھی اپنی زندگی کا بہترین کردار نبھایا ہے۔ اب یہ میرا ہو یا آمنہ الیاس اور چاہے عثمان خالد بٹ ہو، تینوں کو اسکرین پر اداکاری کے کامیاب کرتب دکھاتے ہوئے اندازہ ہوا کہ ہدایت کار چاہے تو کیا کچھ نہیں کرسکتا، واقعی فلم ہدایت کار کا میڈیم ہوتی ہے، اس فلم کو دیکھ کر محسوس ہوا۔

    دیگرجہتیں

    فلم میں موسیقی، عکاسی، تصویرکشی، گلوکاری، شاعری، رقص، تدوین، رنگ و روغن، ایکشن اور دیگر تمام پہلوؤں پر باریک بینی سے کام کیا گیا ہے، کہیں غلطی کی گنجائش نہیں چھوڑی گئی، حتیٰ کہ فلم میں میرا کی شاندار اداکاری کے علاوہ، ان کی درست انگریزی مکالمات نے بھی مذاق بنانے والوں کایہ راستہ بھی بند کر دیا۔ دو پرانے پاکستانی فلمی گیتوں کا فیوژن بھی لائق ستائش ہے اور بیک گراؤنڈ میوزک نے بھی کرداروں کے تاثرات میں جان ڈال دی، اس پر بالائے ستم ، ملبوسات، لوکیشنز، اور مکالموں کی ذومعنویت نے فلم بین کو کہانی سے باہر جھانکنے کا موقع تک نہیں دیا۔ فلمی صنعت کی چمکیلی دنیا کے ہمراہ اس کا بدصورت چہرہ بھی نمایاں کیا ہے۔

    نتیجہ

    میرے فلمی تنقید کے کیرئیر میں یہ پہلی فلم ہے، جس کو میں نے سینما پر جا کر دو مرتبہ دیکھا۔ پہلی بار میں کہانی کی کشش اور اسکرین پر فنی جمالیات کا حسن اتنا زیادہ تھا کہ میری آنکھیں اس چکاچوند میں کھوگئیں، دوسری بار میں نے جذبات سے عاری ہوکر صرف عقل کے زور پر یہ فلم دیکھی اور دونوں مرتبہ نتیجہ یکساں رہا۔ یہ ایک ایسی فلم ہے، جو حقیقی معنوں میں پاکستانی سینما کی بحالی میں ایک یادگار موڑ ثابت ہوگی۔

    اب تک بحالی کے نعرے سے جڑے ہوئے پاکستانی سینما میں فلم سازی کی جتنی ضربیں لگائی گئیں، محاورة کہا جائے تو وہ سب سنار کی تھیں، اس فلم کو دیکھ کر محسوس ہوا، یہ چوٹ لوہار کی ہے، جس کا اثر دیرپا اور بازگشت بہت دنوں تک رہے گی۔ ثاقب ملک اور پاکستانی فلم بینوں کو مبارک ہو، پاکستانی سینما کی اصل بحالی کا دور شروع ہوا چاہتا ہے، جس میں سارے رنگ اپنی مٹی کے ہیں، محسوس ہونے والی تمام پرچھائیاں اپنے ہی سینماکی ہیں اور خوشبو بھی وہ، جس سے ماضی میں پاکستانی سینماکے چاہنے والے مانوس تھے۔


    خرم سہیل

    معروف بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں، انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں تنقید کے میدان کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

  • شاہد احمد دہلوی کا 81 سال قدیم "ساقی” کا جاپان نمبر، سن 2019 میں

    شاہد احمد دہلوی کا 81 سال قدیم "ساقی” کا جاپان نمبر، سن 2019 میں

    ایک ایسی نایاب کتاب، جو 81 برس قبل بڑے اہتمام سے، تحقیق کے بعد شایع کی گئی، اور پھر وقت کے طوفانوں میں‌ گم ہوئی، اگر اچانک آپ کے سامنے آ جائے، سن 2019 میں، تو مسرت اور حیرت کے احساسات بیک وقت آپ کو اپنے حصار میں لے لیں گے۔

    کچھ یہی معاملہ 1936 میں‌ شایع ہونے والے ممتاز ادبی جریدے ساقی کے جاپان نمبر کا ہے، جسے ایک دیوانے کی کھوج نے فیس بک اور ٹویٹر کے اس دور میں‌ ہمارے سامنے پھر پیش کر دیا.

    81 برس قبل منصہ شہود پر آنے والے ساقی کے جاپان نمبر کی اشاعت ایک معنوں میں اس کلاسیک کی بازیافت ہے، مگر بہت سے افراد کے لیے یہ دریافت ہی ہے کہ اکثریت اس سے لاعلم تھی۔

    ہاں، چند نے اس کا نام سنا تھا، چند نے اسے پڑھا تھا، یہ نمبر چند کتب خانوں میں بھی ضرور موجود ہوگا، مگر شاید اپنی اہمیت کے پیش نظر اسے ان کتب خانوں کے تاریک گوشوں ہی میں محفوظ خیال کیا گیا، اسی لیے یہ بہت محدود ہوگیا۔

    البتہ اب یہ ہمارے سامنے آگیا ہے، اور یہ ممکن ہوا، جاپان قونصل خانے، ادبی تنظیم ’’پاکستان جاپان ادبی فارم‘‘ اور خرم سہیل کے وسیلے۔

    سن 1936 میں ساقی کے جاپان نمبر میں شایع ہونے والے اشتہارات

    اپنے صحافتی سفر کا انٹرویو نگاری سے آغاز کرنے والے خرم سہیل نے خود کو کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رکھا، کالم لکھے، انتظامی امور، ریڈیو، ڈیجیٹل میڈیا کا تجربہ کیا، اپنے خیالات و نظریات کی وجہ سے کچھ متنازع بھی ٹھہرے، مگر اپنے ارادے، استقامت اور لگن کے وسیلے وہ ایک کے بعد ایک دل لبھانے والی کتابیں ہمارے سامنے لاتے رہے۔ جہاں ان کے ہم عصر اپنی تخلیقات ناشر تک لے جانے کی بابت سوچتے رہے، انھوں نے ناشر کو خود تک پہنچنے کے لیے قائل کر لیا۔ ساقی کا جاپانی نمبر بھی ایسی ہی کوشش ہے۔

    خرم سہیل

    جسے مکمل طور پر، قدیم ہجے کے ساتھ، اس زمانے میں شایع ہونے والے اشتہارات سے سجا کر پورے اہتمام سے پیش کیا گیا ہے۔

    جب ہم اس بیش قیمت نمبر کو دیکھتے ہیں، تو ہمارے دل شاہد احمد دہلوی اور ان کے ساتھیوں کے لیے احترام سے بھر جاتے ہیں۔ اس زمانے میں جب یوٹیوب نہیں تھا، وکی پیڈیا اور گوگل نہیں تھا، جاپان سے متعلق معلومات کا حصول سہل نہیں تھا، ان کی ٹیم نے انتھک محنت کی۔

    اس کتاب کو دیکھ کر ہمارے دلوں میں شاہد احمد دہلوی کو خراج تحسین پیش کرنے کی خواہش ہمکنے لگتی ہے، ساتھ ہی یہ خواہش بھی پیدا ہوتی ہے کہ آج پھر ایک جاپان نمبر نکالا جائے، جو دوسری جنگ عظیم، سرد جنگ اور 9/11 جیسے تاریخ بدل دینے والے واقعات پر جاپانی ادیبوں‌ کا نقطہ نگاہ، ردعمل اور تخلیقات ہم تک پہنچائے کہ ان ہی واقعات نے دنیا بھر کے ادب کو وہ رنگ دیا، وہ رخ دیا، جس نے ہمیں گروہدہ بنایا۔

    آج پھر ایک جاپان نمبر نکالنے کا خیال ناممکن تو نہیں، مگر مشکل ضرور ہے. یہ مشکل آسان ہوسکتی ہے ارادے، استقامت اور لگن سے، کیوں‌ کہ یہ تین جادوئی عناصر ہی خوابوں کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں.

    اور ان ہی عناصر کے طفیل شاہد احمد دہلوی کا 81 سال قدیم جاپان نمبر، سن 2019 میں ہمارے سامنے آجاتا ہے.