Tag: خرم سہیل کا بلاگ

  • آدو جیویتھم۔ دی گوٹ لائف (فلم ریویو)

    آدو جیویتھم۔ دی گوٹ لائف (فلم ریویو)

    ان دنوں سوشل میڈیا پر، ملیالم زبان میں بننے والی ایک ہندوستانی فلم ”آدو جیویتھم۔دی گوٹ لائف“ کا بہت چرچا ہے۔ اس فلم کا مرکزی کردار نجیب محمد ہے، جو روزگار کی تلاش میں سعودی عرب جاتا ہے۔ وہاں اسے حادثاتی طور پر کن مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فلم میں یہ دکھایا گیا ہے۔ لیکن اصل واقعہ پر مبنی اس کہانی کا حقیقی انجام نہیں دکھایا گیا ہے۔ اس لحاظ سے فلم کی کہانی کو تو ادھورا ہی کہا جائے گا، مگر پوری بات سمجھنے اور حقائق جاننے کے لیے اس فلم کا یہ مفصل تجزیہ اور تبصرہ پڑھ سکتے ہیں۔

    مرکزی خیال/ کہانی/اسکرپٹ

    فلم سازوں نے یہ اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ کہانی مضبوط ہوگی تبھی فلم یا ویب سیریز کام یاب ہوسکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں جتنا سینما تخلیق ہو رہا ہے، اس میں سے تقریباً پچاس فیصد کہانیوں کا ماخذ کتابیں ہیں۔ مقبول ناولوں اور سوانح عمریوں پر بہت شان دار فلمیں اور ویب سیریز بنائی جا رہی ہیں۔ انڈیا میں بھی مذکورہ فلم ملیالم زبان میں لکھے گئے ناول ”آدو جیویتھم“ سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے، جس کے انگریزی میں لغوی معنی ”گوٹ لائف“ (بکری کی زندگی) ہیں۔

    اس ناول کے خالق بن یامین ہیں، جو ملیالم زبان کے معروف ادیب ہیں۔ اس فلم کے ہدایت کار بلیسی نے جب یہ ناول پڑھا، تو اسی وقت اس پر فلم بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس فلم میں خلیجی ممالک کے باشندوں کی نفسیات اور غیر عرب لوگوں کے ساتھ ان کے رویّے اور ناروا سلوک کو ناول میں مصنف نے بہت خوبی سے بیان کیا ہے۔ اس باریک بینی اور تفصیل کے پیچھے ناول نگار کا ذاتی مشاہدہ بھی موجود ہے، کیونکہ انہوں نے بحرین میں اپنی زندگی کے کئی سال گزارے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اس کہانی میں تکلیف دہ رویوں اور امتیازی سلوک کی واضح جھلک دیکھنے کو ملی ہیں۔ مذکورہ فلم میں ایک مجبور شخص کی زندگی کو بہت مؤثر طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔

    خلیجی ممالک میں کفیل کا نظام رائج ہے، جس کے تحت وہاں روزگار کے لیے جانے والے غیر ملکیوں کو عرب لوگوں کے زیرِ سرپرستی کام کرنا پڑتا ہے۔ فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک ہندوستانی کس طرح ایک کفیل کے دھوکے میں آ جاتا ہے، جو لوگوں کو غیر قانونی طور پر صحرا میں قید کر کے ان سے جبری مشقت کرواتا ہے۔ یہ ہندوستانی اور دوسرے دو قیدی وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، ان تین میں سے دو افراد صحرا میں سخت گرمی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اور ایک کسی مقامی عرب شخص کی مدد سے زندہ بچ جاتا ہے۔ یہی وہ مرکزی کردار نجیب محمد ہے، جس کی کہانی کو فلم میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک حقیقی واقعہ پر مبنی کہانی ہے، جس کے مطابق متاثرہ فرد کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کیا جاتا ہے اور بعد میں اسے باعزّت طریقے سے ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے، جب کہ اس فلم میں کہانی وہیں ختم ہوجاتی ہے، جہاں وہ صحرا سے زندہ نکلنے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔ اس کہانی کے اسکرپٹ رائٹر، مکالمہ نویس اور فلم ساز بلیسی نے بڑی بد دیانتی سے کام لیا اور فلم میں پوری کہانی بیان نہیں کی، جو اس فلم کا سب سے بڑا منفی پہلو ہے۔

    فلم سازی/ ہدایت کاری/ اداکاری

    اس فلم کو سعودی عرب اور دبئی میں فلمانے کی اجازت نہ ملنے کے بعد اسے عراق اور الجزائر کے صحراؤں میں فلمایا گیا ہے۔ اس کی عکس بندی کے لیے انڈیا میں راجستھان کا انتخاب بھی کیا جاسکتا تھا، لیکن فلم ساز نے حقیقت سے قریب تر رہنے کے لیے اسے انڈیا سے باہر عکس بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ فلم کے ہدایت کار 2008 سے اس کہانی پر کام کر رہے تھے۔ جیٹ میڈیا پروڈکشن کے جمی جین لوئس اور اَلٹا گلوبل میڈیا کے اسٹیون ایڈمز نے بھی بلیسی کے اس ویژول رومانس امیج میکرز کی پروڈکشن میں بطور پروڈیوسر شمولیت اختیار کی۔ ان کے ساتھ ساتھ فلم کے مرکزی اداکار پرتھوی راج سوکومران بحیثیت پروڈیوسر بھی اس کا حصہ رہے۔

    اس طرح ایک دہائی سے زیادہ عرصہ انتظار کرنے کے بعد اس فلم پر کام شروع ہوا، جب اس فلم کی شوٹنگ جاری تھی تو دنیا کورونا کی وبا کی لپیٹ میں آگئی جس کی وجہ سے یہ فلم کئی ہفتوں تک عراق میں لوکیشن پر پھنسی رہی اور فلم کی ٹیم کو ہندوستانی حکومت نے خصوصی مشن کے تحت وہاں سے نکالا، اس وجہ سے بھی فلم کی پروڈکشن تاخیر کا شکار ہوئی۔ ریلیز کے بعد باکس آفس پر فلم کو بہت کامیابی ملی ہے۔ یہ ملیالم زبان میں بننے والی معاشی اعتبار سے تین کام یاب ترین فلموں کی فہرست میں شامل ہوگئی ہے۔

    فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس کی ریٹنگ دس میں سے سات اعشاریہ ایک ہے، جب کہ روٹین ٹماٹوز کی ویب سائٹ پر اس کی پسندیدگی کی شرح 100 میں سے 80 فیصد ہے، جو بہت مناسب ہے۔

    فلم کے ہدایت کار بلیسی ایک عمدہ اور باصلاحیت فلم ساز ہیں۔ بطور ہدایت کار ان کا کام متاثر کن ہے۔ فلم کے معیار پر انہوں نے کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ جس انداز میں اس فلم کو بنایا جانا چاہیے تھا، اسی طرح بنائی گئی ہے۔ فلم کی سینماٹوگرافی کے ساتھ ساتھ دیگر تمام تکنیکی شعبوں میں بے حد مہارت سے کام کیا گیا، جو ساؤتھ انڈیا کی فلموں کا خاصا بھی ہے۔ مثلاً فلم کا ایک سین جس میں مرکزی اداکار اپنا چہرہ بکری کی آنکھ میں ایسے دیکھتا ہے، جیسے وہ آئینہ دیکھ رہا ہو، اس منظر کو عکس بند کرنے میں کئی دن لگ گئے، مگر فلم ساز نے ہار نہیں مانی۔

    فلم کی موسیقی شہرۂ آفاق موسیقار اے آر رحمان نے ترتیب دی ہے۔ چار نغمات کے ساتھ پس منظر کی موسیقی میں انہوں نے ایک بار پھر میدان مار لیا۔ شان دار موسیقی سے سماعتوں میں رس گھولتے ہوئے، اس کہانی کے درد کو موسیقار نے بہت اچھے انداز میں اجاگر کیا ہے۔ ٹائٹل سونگ ”مہربان و رحمان“ نے بلاشبہ دل کو چُھو لیا۔اس کے بول پراسون جوشی نے لکھے جب کہ جتھن راج نے اسے گایا ہے۔ اسی گیت کے ملیالم ورژن کو رفیق احمد نے لکھا اور اے آر رحمان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں جتھن راج نے اس ورژن میں بھی اپنی گائیکی سے دل موہ لیے۔ فلم کے دیگر گیت بھی دل کے تاروں کو چھیڑتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
    فلم کے اداکاروں میں مرکزی کردار نبھانے والے پرتھوی راج سوکومران نے تو اس فلم کے لیے پہلے اپنا وزن بڑھایا اور پھر کم کیا، جس کی وجہ سے ان کی صحت بھی گری۔ شوٹنگ کے دنوں میں سیٹ پر ہر وقت ایک ڈاکٹر موجود رہتا تھا تاکہ ایمرجنسی میں فوری طبّی امداد دے سکے۔ پرتھوی راج نے اپنے کردار سے مکمل انصاف کیا۔ ان کے معاون کرداروں نے بھی ناظرین کو اپنی اداکاری سے متوجہ کیا، جن میں بالخصوص امریکی اداکار جمی جین لوائس (ابراہیم قدیری) عمانی اداکار طالب البلوشی (نجیب کا کفیل) ہندوستانی اداکارہ امالا پاؤل (نجیب کی بیوی) شامل ہیں۔

    یہ بھی کہا گیا کہ کفیل کا کردار ادا کرنے والے عمانی اداکار طالب البلوشی پر سعودی عرب نے پابندی عائد کر دی ہے۔ اس بات میں اگرچہ صداقت نہیں ہے، لیکن کسی بھی ملک کی حکومت کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آخر کار وہ ایک فن کار ہیں، البتہ اس فلم سے متعلق کسی بھی تنازع میں اگر قصور وار کوئی ہے تو وہ فلم ساز بلیسی ہیں، جو تصویر کے دونوں رخ سے واقف تھے۔ ان کی سرزنش ہونی چاہیے جنہوں نے ادھوری کہانی پیش کی، اور عمانی اداکار کو کسی بھی طرح اور کسی بھی سطح پر قصور وار ٹھہرانا سراسر ناانصافی ہو گی۔

    تنازع۔ پس منظر و پیش منظر

    اس فلم کو گزشتہ مہینے ہی نیٹ فلیکس پر ریلیز کیا گیا ہے۔ اپنے حساس موضوع کی وجہ سے یہ سوشل میڈیا پر بہت زیرِ بحث رہی ہے۔ فلم دیکھنے کے بعد سعودی عرب کے شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی سوشل میڈیا پر تنقید کا جواب دیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ سعودی کفیل اپنے ملازمین کے ساتھ تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے لگے جس کا مقصد اپنے ذاتی نوکروں یا اپنے اداروں کے ملازمین کے ساتھ اپنے حسنِ سلوک کو دنیا کے سامنے لانا تھا۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور ایسے دیگر ممالک کے عوام کا بھی اس فلم پر بھرپور ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔

    راقم نے اس سلسلے میں سعودی عرب کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ”سعودی ریسرچ اینڈ مارکیٹنگ گروپ“ کے شعبۂ مارکیٹنگ کے سابق برانڈ منیجر معز مقري سے بات کی، جنہوں نے بتایا کہ 2015 کے بعد کا سعودی عرب ایک مختلف اور مثبت تبدیلیوں والا ملک ہے۔ یہاں کسی بھی غیر ملکی کے ساتھ اس طرح ناانصافی نہیں کی جاسکتی۔ مذکورہ فلم کی کہانی نوے کی دہائی کی ہے، جو تلخ ماضی ہے۔ آج سعودی عرب کی حکومت کے پاس کفالت کے نظام سمیت تمام شعبوں میں ہر چیز کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔ شکایات کا بھی ایک باقاعدہ نظام موجود ہے، جو بہت فعال ہے۔ یہ فلم سعودی عرب کی اکثریت کی عکاسی نہیں کرتی۔

    آخری بات

    دورِ حاضر میں سینما ایک اہم میڈیم ہے، جس کے ذریعے اپنی بات پوری دنیا میں پہنچائی جا سکتی ہے، البتہ پروپیگنڈہ اور حقیقی سینما کا فرق سمجھنا ہوگا، ہر چند کہ اس فلم آدو جیویتھم۔ دی گوٹ لائف میں مکمل حقائق پیش نہیں کیے گئے یا ادھوری حقیقت دکھائی ہے، لیکن جتنی کہانی بیان کی گئی وہ سچّی ہے اور بقول معیز مکھری سعودی عرب کا تلخ ماضی ہے۔

    قارئین! آپ اگر اس پہلو کو ذہن میں رکھ کر یہ فلم دیکھیں گے تو آپ دُکھی نہیں‌ ہوں گے۔ یہ ایک اچھے موضوع پر معیاری فلم ہے، جس کی طوالت تقریباً تین گھنٹے ہے۔ اپنی اوّلین فرصت میں یہ فلم دیکھیں، آپ کا وقت ضائع نہیں ہوگا، کیونکہ یہ فلم بتاتی ہے کہ انسان کیسے مشکل حالات اور مصائب کا سامنا کرنے کے بعد فاتح بنتا ہے۔ اگر اس کے حوصلے بلند ہوں تو پھر اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔

    (یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کی ذاتی رائے اور اس کے خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے تعلق نہیں ہے)
  • صدام حسین کے بعد کا عراق- “بغداد سینٹرل”

    صدام حسین کے بعد کا عراق- “بغداد سینٹرل”

    ویب سیریز بغداد سینٹرل 2003 کے پس منظر میں اس عراق کو دکھاتی ہے، جب وہاں صدام حسین کا اقتدار ختم ہوا۔ اس کے نتیجے میں عراقی معاشرہ کن مسائل کا شکار ہوا، عام آدمی اس سیاسی انتشار سے کیسے متاثر ہوا، نام نہاد جنگ عراقیوں پر لادنے کے بعد مغربی طاقتوں نے کس طرح وہاں اپنے لیے مادّی ثمرات تلاش کیے، اس کی قیمت کس نے چکائی اور عام آدمی نے قربانی کیسے دی؟ یہ کہانی ان تمام سوالوں کے جوابات دیتی ہے۔

    حقیقت سے قریب تر رہتے ہوئے تخلیق کی گئی اس ویب سیریز کے آفیشل ٹریلر کو، ریلیز کے بعد سے اب تک تقریباً 300 ملین مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ اسے تاحال مقبولیت حاصل ہے۔ ماضی قریب (2020) سے منتخب کی گئی اس برطانوی ویب سیریز کا تفصیلی تجزیہ و تبصرہ پیش خدمت ہے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    اس کی کہانی معروف امریکی ناول نگار اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ایلیٹ کولا کے ناول سے ماخوذ ہے۔ ناول کے عنوان کو اختیار کرتے ہوئے، ویب سیریز کا نام بھی "بغداد سینٹرل” رکھا گیا ہے۔ یہ ناول 2014 میں شایع ہوا تھا، جو کہانی کے پس منظر کی ضرورت کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ناول نگار عربی ادب و ثقافت پر گہری نظر رکھتے ہیں اور متعدد عربی نالوں کے انگریزی تراجم بھی کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے، انہوں نے اِس کہانی کو اُس وقت کے عراق کے زمینی حقائق کے مطابق قلم بند کیا ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کو کوئی عراقی مصنّف ہی بیان کررہا ہے۔ اس پہلو سے ناول نگار کی اپنے موضوع پر دسترس قابلِ تعریف ہے، جس نے ویب سیریز میں جان ڈال دی۔

    اس شان دار ناول پر مبنی کہانی کو اسکرپٹ کی صورت دینے والے اسٹیفن بوچرڈ ہیں، جن کا تعلق برطانیہ سے ہے اور وہ کئی مقبول ڈراموں کے اسکرپٹ نویس رہے ہیں۔ مذکورہ ویب سیریز کو بھی انہوں نے انتہائی مہارت سے لکھا ہے، جس میں کہانی برق رفتار، کرداروں کا ایک دوسرے سے تعلق، مختلف بدلتی ہوئی صورتِ حال اور اس کے مطابق سچویشنز سمیت دیگر تخلیقی پہلوؤں سے وہ فلم بینوں کو متاثر کرتے ہیں، البتہ ایک نقص کہانی میں محسوس ہوا کہ زیادہ تر مقامی کرداروں کا لہجہ عراق میں رائج عربی لہجے سے مطابقت نہیں رکھتا، اس پر ہدایت کارہ کو کام کرنے کی ضرورت تھی۔ دیگر پہلوؤں سے کہانی بہرحال متاثر کن ہے۔

    ایک ایسے سابق پولیس افسر کی کہانی، جو صدام حسین کے دور میں اپنی سرکاری ذمے داریاں احسن طریقے سے نبھا رہا تھا، ساتھ ساتھ عراق کی بدلتی ہوئی صورتحال پر بھی اس کی نظر تھی۔ اس تناظر میں وہ اپنے اہلِ خانہ سے بات چیت بھی کرتا تھا، خاص طور پر اپنی دونوں بالغ بیٹیوں سے، جن میں سے ایک سنگین بیماری کا شکار تھی، جب کہ دوسری سرکاری یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھی۔ اچانک عراق کے حالات بدلتے ہیں، سماج ایک انتشار کا شکار ہوتا ہے اور ایسے میں اس کی بڑی بیٹی لاپتا ہوجاتی ہے۔ اسے چھوٹی بیٹی کے علاج کا سلسلہ جاری رکھنا ہے اور ایسے میں امریکی اسے دہشت گردوں کا سہولت کار سمجھ کر دھر لیتے ہیں۔ وہ ان حالات میں کیسے اپنی بقا کی جنگ لڑتا ہے اور اپنے اہل خانہ کی زندگی محفوظ بناتا ہے، یہ کہانی اسی جدوجہد پر مبنی ہے۔

    مغربی طاقتوں کے ہتھکنڈے، ان کے اہل کاروں کی سفاکیت، پیسہ بنانے کی ہوس اور کئی ایسے دیگر خوفناک اور تلخ حقائق بھی اس کہانی کے منظر نامے میں ناظرین کے لیے حیرت کے نئے زاویے کھولتے ہیں۔

    ویب سازی/ ہدایت کاری

    اس ویب سیریز کو برطانوی فلم پروڈکشن ایوسٹن فلمز کے تحت پروڈیوس کیا گیا ہے، جب کہ ریلیز برطانیہ کے سرکاری چینل فور پر کی گئی۔ مراکش کے مختلف شہروں میں بڑی چابک دستی سے عکس بند کی گئی اس ویب سیریز کی سینماٹوگرافی کمال ہے، لوکیشنز حقیقی معلوم ہوتی ہیں، جس کا کریڈٹ ہدایت کارہ کو جاتا ہے۔ بغداد سینٹرل کی ہدایت کارہ ایلس ٹروگھوٹن ہیں، جن کو زیادہ تجربہ برطانوی ٹیلی ویژن کے لیے تخلیقی کام کا ہے، مگر اب ان کا رجحان فلم سازی کی طرف بھی ہوا ہے۔

    اس ویب سیریز کی چھ اقساط کو انہوں نے تن تنہا بنایا ہے، اسی لیے کہانی کا ردھم ایک ترتیب میں بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مقامی کرداروں کے عربی لہجے، پس منظر کی موسیقی اور کاسٹیوم پر مزید توجہ دیتیں، تو یہ ویب سیریز اور نکھر سکتی تھی، لیکن پھر بھی یہ اتنی عمدہ ہے کہ اس پر پروپیگنڈا سینما کا گمان نہیں ہوتا۔ اس کا کریڈٹ ہدایت کارہ سے زیادہ ناول نگار اور اسکرپٹ نویس کو جاتا ہے، جنہوں نے کرداروں کے ذریعے کہانی کو عمدہ اور دل چسپ بنا دیا۔

    اداکاری

    بغداد سینٹرل کے لیے زیادہ تر عربی پس منظر رکھنے والے امریکی اداکاروں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں، مرکزی کردار نبھانے والے عراقی پولیس افسر محسن قادر الخفاجی (ولید زوایتار) ہیں۔ یہ فلسطینی نژاد امریکی اداکار ہیں، جن کی زندگی کا ایک بڑا حصہ کویت میں بھی گزرا، لیکن زیادہ عرصہ امریکا میں ہی رہے۔ اسی لیے اپنے فلسطینی اور امریکی دونوں مزاج مدنظر رکھتے ہوئے ہالی ووڈ اور برطانوی سینما میں کام کررہے ہیں، صرف اداکاری ہی نہیں کرتے بلکہ مقبول پروڈیوسر بھی ہیں اور اداکار تو وہ بہت ہی اچھے ہیں، جس کا اندازہ اس ویب سیریز میں ان کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ساتھ دیگر عرب اور انگریز اداکاروں نے بھی اپنے کرداروں سے انصاف کیا ہے، خاص طور پر جولی نمیر(مروج الخفاجی) لیم لبنیٰ (سواسن الخفاجی) برٹی کارول (فرینک ٹیمپل) کورے اسٹول (کیپٹن جون پیروڈی) اور کلارا کورے (زبیدہ رشید) شامل ہیں۔

    مغرب کا پسندیدہ موضوع اور مقبولیت کا تناسب

    نیٹو کی افواج کا حملہ اور پھر اس خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے پس منظر میں عراق کو مغرب میں بہت اہمیت دی گئی۔ اس سے جڑی کہانیوں اور حقائق کو بہت توجہ ملی۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ، وہاں مغربی طاقتوں کی یلغار کے حوالے سے میڈیا میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔ عراق اور اس جنگ کے پس منظر میں ناول تخلیق کیے گئے اور فلمیں بنائی گئیں، جنہیں بہت مقبولیت ملی۔ یہ موضوع اب تک پرانا نہیں ہوا اور اس پر ناول یا فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ویب سیریز بغداد سینٹرل کی خوبی یہ ہے کہ اس کو غیر جانب دار انداز میں، ایک متوازن طریقے سے عام آدمی کی کہانی کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور سیاسی پروپیگنڈے کو کہانی کا حصہ بنانے سے اجتناب برتا کیا گیا ہے۔ اسی لیے ناظرین نے اس کو بے حد پسند کیا۔

    اس ویب سیریز کو فلموں اور ویب سیریز کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے 7 اعشاریہ تین ریٹنگ ملی، جب کہ روٹین ٹماٹوز پر 100 میں سے اس کی پسندیدگی کا تناسب 83 فیصد رہا۔ گوگل کے 5 ستاروں میں اسے 4 اعشاریہ پانچ فیصد ستارے ملے۔ دیگر کئی اور ویب سائٹس پر اچھا ردعمل سامنے آیا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ عربی اور انگریزی میں تخلیق کی جانے والی ویب سیریز بغداد سینٹرل کے پہلے سیزن کے بعد دوسرا سیزن بھی ضرور تیار کیا جائے گا۔ اس کی مقبولیت سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔

    حرفِ آخر

    ویسے تو یہ سیریز چند سال پرانی ہے، مگر اسے دیکھ کر یہ سمجھا آسان ہوجاتا ہے کہ کس طرح عراق نے اس مخصوص سیاسی و سماجی دور میں انتشار کا سامنا کیا اور وہاں کے عوام نے کیسے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی بقا کی لڑائی لڑی ہوگی۔ ایسی متوازن کہانیوں کو دیکھ کر اس طرح کے جنگ اور آفت زدہ ممالک کے لوگوں کے مسائل کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اور اس تکلیف کی شدت کو بھی ہم محسوس کرسکتے ہیں جس سے وہ لوگ گزرے۔ وقت ملے تو ویب سیریز بغداد سینٹرل ضرور دیکھیے۔

  • ہاتھ سے بنائی گئی پہلی پاکستانی ٹو ڈی اینیمیٹڈ فلم۔ دی گلاس ورکر

    ہاتھ سے بنائی گئی پہلی پاکستانی ٹو ڈی اینیمیٹڈ فلم۔ دی گلاس ورکر

    ان دنوں پاکستان میں زیرِ نمائش فلم "دی گلاس ورکر” کا بہت چرچا ہو رہا ہے۔ اس فلم کو انگریزی اور اردو میں فلم بینوں کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان، جاپان، امریکا سمیت 50 سے زائد ممالک میں نمائش پذیر ہوئی ہے، جسے فلم بین دیکھ رہے ہیں اور پسند کررہے ہیں۔

    یہ پاکستانی فلمی صنعت میں اس لیے اہم فلم ہے، کیونکہ یہ ہاتھ سے بنائی گئی تصویروں پر مشتمل اینیمیٹیڈ فلم ہے جسے ہدایت کار عثمان ریاض نے تقریباً ایک دہائی کے عرصہ میں مکمل کیا ہے۔ اس فلم کی تکمیل کے لیے کتنی محنت اور جدوجہد کرنا پڑی، یہ آپ اس مفصل تبصرے اور تجزیے میں جان سکتے ہیں۔
    گلاس ورکر فلم

    ہینڈ میڈ اینیمیشن کیا ہوتی ہے

    اینیمیشن سے مراد ڈرائنگ کر کے بنائی جانے والی وہ تصویریں ہوتی ہیں، جن کو متحرک کرکے فلم میں ڈھالا جاتا ہے۔ وہ تصویریں جو کمپیوٹر سے بنائی جاتی ہیں، ان کو "کمپیوٹر جنریٹیڈ امیجری” (Computer-generated imagery) کہا جاتا ہے، جب کہ وہ تصویریں جنہیں ہاتھ سے بنایا جائے، ان کو "ہینڈ میڈ امیجز” کہا جاتا ہے، یعنی انسانی ہاتھ کی بنائی ہوئی وہ تصویر جسے کمپیوٹر کی اسکرین پر لا کر حتمی شکل دی جاتی ہے اور تصویروں کے خاکے بنا کران میں رنگ بھرتے ہیں جس سے فلم تیار کرلی جاتی ہے۔

    یہ پہلی پاکستانی ہینڈ میڈ اینیمیشن فلم کیسے ہے؟

    پاکستانی فلمی صنعت میں اینیمیشن فلموں کی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے، ہم اگر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو جن پاکستانی اینیمیٹڈ فلموں کو باکس آفس پر مقبولیت ملی اور وہ "سی جی ای” کی مدد سے بنائی گئیں، ان چند نمایاں فلموں میں دی کرونیکل آف عمرو عیار (2024) اللہ یار اینڈ دی ہنڈرڈ فلاورز آف گاڈ (2023) ڈونکی کنگ (2018) اور تین بہادر سیریز کی تینوں فلمیں اور دیگر شامل ہیں۔ فلم "دی گلاس ورکر” اس لحاظ سے منفرد اور پاکستان کی پہلی فلم ہے، جس کی اینمیشن ہاتھوں سے کی گئی۔
    یہ طریقہ امریکا اور جاپان سے آیا ہے، وہاں اس طرز کی فلمیں اب تک بنائی جاتی ہیں بلکہ "دی گلاس ورکر” کے ہدایت کار عثمان ریاض نے تو برملا جاپانی اینیمیشن سے متاثر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ وہ جاپان کے "اسٹوڈیو گیبلی” اور اس کے بانیان اور ہینڈ میڈ اینیمیٹیڈ فلموں کے فلم ساز "ہیا اومیازاکی” اور "ایساؤ تاکاہاتا” سے بے پناہ متاثر ہیں۔ یہی وجہ ہے، عثمان ریاض کی اس پہلی فیچر فلم پر اس اسٹوڈیو اور فلم سازوں کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ انہیں امریکی فلم ساز "والٹ ڈزنی” کا کام بھی پسند ہے۔

    فلم سازی

    ہاتھ سے تخلیق کردہ اینیمیشن فلموں کا بجٹ کافی زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے "دی گلاس ورکر” کی ٹیم نے سب سے پہلے امریکا اور جاپان میں متعلقہ فلم سازوں سے رابطے کیے اور ان سے ملنے والی تجاویز کی روشنی میں فیصلہ کیا کہ پاکستان میں ہینڈ میڈ اینیمیشن اسٹوڈیو قائم کیا جائے اور اس کے تحت کام کو آگے بڑھایا جائے۔ عثمان ریاض جو ایک اچھے فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقار بھی ہیں، انہوں نے اپنی اہلیہ مریم ریاض پراچہ اور کزن خضر ریاض کے ساتھ مل کر "مانو اینیمیشن اسٹوڈیوز” قائم کیا۔ اس اسٹوڈیو میں جدید ٹیکنالوجی اور فنی مہارتوں کے حامل تعلیم یافتہ اور نوجوان نسل کے ہنر مندوں کو جمع کیا گیا اور یوں درجنوں اینیمیٹرز نے مل کر اس فلم کے خواب کی تعبیر پانے کی جدوجہد شروع کی۔ اس فلم کے مرکزی پروڈیوسرز میں خضر ریاض (پاکستان) اورمینول کرسٹوبیل (اسپین) شامل ہیں، جب کہ ایگزیکٹیو پروڈیوسرز میں عامر بیگ (پاکستان) اپوروا بخشی (انڈیا)، اظہر حمید (پاکستان)، اطہر ملک (پاکستان)، احمد ریاض (پاکستان) اور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر مریم ریاض پراچہ ہیں۔

    اس فلم کے ابتدائی فنڈز جمع کرنے کے لیے "کک اسٹارٹر” کے فورم سے مدد لی گئی اور اس تناظر میں ایک لاکھ سولہ ہزار ڈالرز کی رقم حاصل ہوئی، جس سے اسٹوڈیو قائم ہوا اور فلم بنانے کی ابتدا ہوئی۔ اس کے بعد کئی پروڈیوسرز بھی اس فلم کا حصہ بنے اور بالآخر فلم پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ اس فلم کو فرانس کے عالمی شہرت یافتہ اینیمیٹیڈ فلموں کے فیسٹیول "اینسی انٹرنیشنل ” کا حصہ بنایا گیا، جہاں یہ آفیشل مقابلے میں تو شامل نہ ہوسکی، لیکن بغیر مقابلہ منتخب کردہ فیچر فلموں کی فہرست میں اسے شامل کر لیا گیا۔ اسی طرح پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ فلم فرانس کے مشہور فلم فیسٹیول "کانز” کا بھی حصہ بنی۔ پروڈکشن کے لحاظ سے عثمان ریاض کی یہ حکمتِ عملی مؤثر رہی کہ انہوں نے عالمی سطح کے نامور لوگوں کو ٹیم کا حصّہ بنایا، جس کی وجہ سے ان کو بین الاقوامی فلمی حلقوں کی توجہ حاصل ہوئی اور وہ اپنی فلم کی شہرت پوری دنیا تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے معروف امریکی فلم ساز اسٹیون اسپیل برگ سے بھی ایک مختصر ملاقات میں اپنی اس فلم کا تذکرہ کیا۔

    یہ سارا منظر نامہ متاثر کن ہے، جو اس فلم کو ایک برانڈ میں تبدیل کرتا نظر آتا ہے۔پاکستان میں البتہ فلم کا پریمئیر، پروموشن ہونی چاہیے تھی، وہ بہت زیادہ مؤثر طریقے سے نہیں ہوئی اور پاکستانی فلم بینوں کو اس فلم کے قریب لانے کی کوششیں کچھ زیادہ نہ ہوسکیں۔ شاید ہدایت کار کی نظر صرف عالمی فلمی حلقوں اور شخصیات پر ہی مرکوز ہو گی۔ بقول عثمان ریاض اس فلمی منصوبے پر لگ بھگ چار سو سے پانچ سو افراد نے کام کیا ہے، جو ایک قابلِ ذکر بات ہے۔

    کہانی/ اسکرین پلے

    اس فلم کی کہانی کے بارے میں عثمان ریاض کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کہانی کو سوچا، کیونکہ یہ کہانی اور اس کے کلیدی ماخذ انہیں اپنے خاندان سے ورثے میں ملے۔ یوں مرکزی خیال تو عثمان ریا ض کا ہے، البتہ اسے فلم کی کہانی میں تبدیل کر کے اسکرپٹ لکھنے کا کام برطانوی اسکرپٹ رائٹر "مویا اوشیا” نے کیا۔ وہ عالمی شہرت یافتہ لکھاری ہیں اور انہوں نے اس کہانی کو بھی چابک دستی سے لکھا ہے۔ جنگ اور محبت کے تناظر میں لکھی گئی یہ کہانی متاثر کن ہے البتہ کچھ چیزوں کا فیصلہ ہدایت کار کو کرنا تھا، جن کی وضاحت اس کہانی میں نہ ہوسکی۔

    عثمان ریاض کے مطابق کہانی کا پس منظر پاکستان ہے، جب کہ فلم دیکھ کر ایسا کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ چند مناظر کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ پاکستانی پس منظر ہے، مگر فلم میں اس کا تناسب بہت کم اور تاثر بہت مدھم ہے۔ اس کہانی کا مرکزی خیال لکھنے والے اگر اسے پاکستانی پس منظر میں قید کرنے کی کوشش نہ کرتے، تو اچھا تھا اور اگر پاکستانی ثقافت ناگزیر تھی تو پھر اس کو اچھی طرح کہانی، کرداروں اور مکالمات کے ذریعے پیش کرتے۔ اس پہلو سے کہانی ناکام رہی اور فلم دیکھ کر پاکستانی کہانی ہونے کا قطعی احساس نہیں ہوتا، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ فلم "گیبلی اسٹوڈیو” کے فلم ساز "ہیااُو میازاکی” کی فلم "ہاؤلز موونگ کیسل” سے کافی متاثر ہے۔

    اس فلم کی کہانی میں دو مزید خامیاں ہیں۔ پہلی خامی یہ کہ کہانی میں مرکزی کرداروں "ونسنٹ اولیور” اور "ایلیزا امانو” کی تشکیل ادھوری ہے۔ ذیلی کرداروں میں ونسنٹ اولیور کے والد تھامس اولیور (شیشہ گر) اور ایلیزا امانو کے والد (فوجی افسر) کہانی پر زیادہ چھائے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے سائے میں مرکزی کردار دب گئے۔ یہ کہانی کی ناکامی ہے اور دوسری خامی کہانی کا برق رفتاری سے آگے بڑھنا ہے۔ کئی مقامات اور کرداروں کے حالات کی وضاحت ہی نہیں ہوسکی، نہ ہی ان کرداروں کو اچھی طرح سے کہانی میں بیان کیا گیا۔ کمزور کرداروں اور ادھورے اور کنفیوز کلائمکس کے ساتھ بہرحال اپنے آرٹ ورک کی وجہ سے یہ کہانی فلم بینوں کو اپنی طرف ضرور متوجہ کرے گی۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس فلم میں کہانی کا شعبہ کمزور ہے۔

    ہدایت کاری

    اس فلم کو کیسے بہت محنت کے ساتھ مختلف مراحل سے گزار کر حتمی شکل میں پیش کیا گیا، یہ آپ یہاں پڑھ چکے ہیں۔ ایک اچھے آرٹ ورک اور پروڈکشن ڈیزائن کی بنیاد پر عثمان ریاض بطور ہدایت کار کامیاب رہے ہیں۔ اتنی بڑی ٹیم، فن کاروں اور اینیمیٹرز کے ساتھ کام کیا لیکن شاید یہ پہلی فلم ہے، اس لیے ان پر جاپانی اینیمیشن کے گہرے اثرات ہیں۔ بطور ہدایت کار ان کو اپنا مختلف انداز اور طرز اپنانا ہو گی، تب ہی وہ تخلیقی طور پر کامیاب سمجھے جائیں گے۔ ورنہ انہیں جاپانی اینیمیشن فلم سازی کی پرچھائیں کے طور پر ہی شناخت ملے گی، جو بالکل مناسب نہیں ہے۔ ہر فلم ساز کی اپنی جداگانہ شناخت ہونی چاہیے۔

    صدا کاری

    انگریزی اور اردو ورژن کے لیے الگ الگ فن کاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ دونوں ورژن میں کام متاثر کن ہے۔ انگریزی میں آرٹ ملک (اطہر ملک) نے بہترین کام کیا ہے۔ پاکستانی نژاد امریکی فن کار نے ہالی ووڈ میں نام پیدا کیا اور دنیا کے مقبول ترین فن کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اس فلم میں بھی انہوں نے عمدہ کام کیا ہے۔ دیگر فن کاروں نے بھی اچھی کارکردگی دکھائی۔ اسی طرح اردو ورژن میں بھی تمام فن کاروں نے اپنے حصے کا کام اچھی طرح انجام دیا، لیکن خالد انعم نے تو دل چھو لیا۔ انہوں نے کمال صدا کاری کی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس فلم کا میدان اطہر ملک اور خالد انعم نے مار لیا۔

    موسیقی و دیگر پہلو

    اس فلم کی تین خاص باتیں‌ ہیں جن میں سے ایک اس کی مسحور کن موسیقی بھی ہے۔ پہلی خاص بات تو فلم کا آرٹ ورک ہے اور دوسری بہت ساری محنت جو اس فلم کو بنانے میں ہوئی، جس کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے اسے مانو اینیمیشن اسٹوڈیو کے یوٹیوب چینل پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اور تیسری خاص بات یعنی اس کی انتہائی سریلی، مدھر اور دلوں کے تار چھیڑنے والی موسیقی ہے، جس سے آپ فلم دیکھتے ہوئے بے حد لطف اندوز ہوں گے۔ عثمان ریاض چونکہ خود اچھے موسیقار ہیں اور امریکا کے "برکلے کالج آف میوزک” سے تعلیم یافتہ ہیں، تو اس پر انہوں نے خوب توجہ دی ہے۔ اپنے فن سے اور دنیا بھر کے چند اچھے اور منتخب فن کاروں کے کام کو شامل کرکے، ایک یادگار موسیقی تخلیق کی ہے۔ عثمان ریاض کے ساتھ ساتھ اٹلی سے تعلق رکھنے والے موسیقار "کارمین ڈی فلوریو” کی کاوشوں نے فلم کو سُروں سے بھر دیا ہے۔

    پذیرائی و مقبولیت

    اس فلم کو پاکستان میں سمیت دنیا بھر میں پسند کیا جا رہا ہے، جو بہت خوش گوار بات ہے۔ اب تک یہ فلم باکس آفس پر بھی تیس ملین سے زائد کا بزنس کر چکی ہے۔فلموں کی سب سے بڑی ویب سائٹ "آئی ایم ڈی بی” پر اس فلم کی ریٹنگ 10 میں سے 8 اعشاریہ چھ فیصد ہے۔ گوگل کے صارفین کی طرف سے اب تک پسندیدگی کا تناسب سو میں سے اٹھانوے فیصد ہے اور پانچ میں سے چار اعشاریہ آٹھ فیصد ریٹنگ ہے۔ پاکستان میں بھی فلم دی گلاس ورکر کی پسندیدگی کا تناسب کافی بہتر ہے۔
    یہ الگ بات ہے، برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی پاکستان میں اردو سروس پر عثمان ریاض کے ایک انٹرویو کی سرخی میں فلم کا اردو نام میں "شیشہ گر” کے بجائے "شیشہ گھر” لکھا گیا اور شاید اسی غلطی کو دیکھتے ہوئے فلم ساز نے فیصلہ کیا کہ اس کے اردو ورژن کو بھی "دی گلاس ورکر” ہی لکھا جائے تو بہتر ہے۔

    حرفِ آخر

    مانو اینیمیشن اسٹوڈیوز، عثمان ریاض ان کی ٹیم اور وہ سیکڑوں لوگ جنہوں نے اس فلم کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کیا، مبارک باد کے مستحق ہیں مگر اس دنیا میں اپنی الگ اور منفرد شناخت بنانی ہے، تو اسی طرح پاکستانی انداز اپنائیے، جس طرح آپ نے "ای ایم آئی پاکستان” کے لیے، پاکستان کی موسیقی کے سنہرے دور کو اینیمیشن کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اسی طرح اپنی مقامی کہانیاں، اپنے اس شان دار آرٹ کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کر کے مزید مقبولیت اور کام یابیاں سمیٹی جاسکتی ہیں۔
    ایک افسوس ناک بات یہ بھی ہوئی کہ پاکستان میں اس فلم کے تقسیم کار نے عین اس فلم کی نمائش کے موقع پر کراچی شہر کے مرکز میں واقع اپنا سینما اچانک بند کر دیا۔
    پاکستان میں فلمی صنعت اور سینما کے موجودہ حالات کے اس پس منظر میں "دی گلاس ورکر” ایک تازہ ہوا کا جھونکا ضرور ہے۔ فلم بینوں سے کہوں گا کہ آپ ہاتھ سے بنائی گئی پہلی پاکستانی ٹو ڈی اینیمیٹڈ فلم دیکھنے سینما ضرور جائیے تاکہ انتھک محنت کے ساتھ ایسی زبردست کاوش پر فلم ساز اور پوری ٹیم کی حوصلہ افزائی ہو اور پاکستانی فلمی صنعت کا یہ نیا شعبہ پھولے پَھلے اور ترقی کرے۔

  • مرزا پور ، سیزن 3 :‌ پانچ خاندان اور سونے کی گدی

    مرزا پور ، سیزن 3 :‌ پانچ خاندان اور سونے کی گدی

    مرزاپور کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’سیکرڈ گیمز‘‘ کے بعد، آن لائن اسٹریمنگ پورٹلز پر یہ دوسری ایسی انڈین ویب سیریز ہے، جس کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ دیکھا گیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک ریکارڈ ہے۔ 

    ’’مرزا پور‘‘ کے اب تک تین سیزن آچکے ہیں۔ یہ تیسرا سیزن 5 جولائی 2024 کو ایمازون پرائم ویڈیو پر 10 اقساط کی صورت میں اسٹریم لائن کیا گیا ہے۔ اس تیسرے سیزن کا تفصیلی تجزیہ اور تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    کیا مرزا پور حقیقتاً انڈیا کا کوئی شہر ہے؟

    جی ہاں، بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ایک شہر کا نام ’’مرزا پور‘‘ ہے، جو قالین اور پیتل کی صنعتوں کے لیے مشہور ہے، جب کہ یہاں کی لوک موسیقی "کجاری” اور "برہا” بھی اس علاقہ کی ایک شناخت ہے۔ اس ویب سیریز میں قالین بنانے کی صنعت کا ذکر تو ملتا ہے، مگر اس کے علاوہ جو کچھ دکھایا گیا ہے، ان سب کا اس علاقے سے کوئی تعلق نہیں۔

    مرزا پور

    جن چیزوں سے تعلق بنتا تھا، خاص طور پر موسیقی، اس کا ذکر ویب سیریز میں دور دور تک نہیں ملتا۔ ہندی، اردو اور بھوجپوری زبانیں بولنے والے اس شہر کی اصل پہچان اور حوالہ ہیں جب کہ ناہید عابدی، امر گوسوامی اور لکشمی راج شرما جیسے ادیب اسی شہر سے ہیں، اور ہندوستانی ادب میں انہوں نے بہت نام کمایا ہے۔ فرضی واقعات پر مبنی ویب سیریز کے ذریعے ایسے شہر پر غنڈہ گردی کی چھاپ لگا دینا بہرحال غلط ہے، جس پر مرزا پور کے باشعور اور پڑھے لکھے لوگ ضرور رنجیدہ ہوں گے۔

    گزشتہ دو سیزنز کا خلاصہ اور تیسرا سیزن

    مار دھاڑ سے بھرپور اس کہانی میں ہندوستان کے شہر مرزا پور کو لاقانونیت کا گڑھ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ طاقت، جرم اور انتقام کے پس منظر میں ایک گدی کا ذکر یوں ملتا ہے کہ جو اس پر بیٹھتا ہے، وہ راج کرتا ہے۔ کالا دھن کماتا ہے اور طاقت کے مرکز پر بھی اسی کا حکم چلتا ہے۔ سیریز کی ابتدا ہی سے علی فضل، دیویندو، پنکج ترپاٹھی، وکرانت میسی، رسیکا دوگل، شریا پیلگونکر، اور شویتا ترپاٹھی جیسے مشہور اداکاروں نے اپنی شان دار پرفارمنس پر خوب ستائش سمیٹی اور یہ سلسلہ دوسرے سیزن میں بھی جاری رہا۔ ان دنوں اس ویب سیریز کا تیسرا سیزن دیکھا جا رہا ہے، لیکن گزشتہ دو سیزنز میں کیا ہوا، ہم اس کا خلاصہ یہاں پیش کر رہے ہیں۔

    پہلا سیزن (خلاصہ)

    مرزا پور کا پہلا سیزن 2018 میں ریلیز ہوا تھا۔ اس میں ناظرین کو جرم کے باشاہ قالین بھیا (پنکج ترپاٹھی) کی سفاک دنیا دکھائی گئی ہے، جو بندوق کی بڑھتی ہوئی غیر قانونی تجارت کی نگرانی کرتا ہے۔ وہ گڈو پنڈت اور ببلو پنڈت (بالترتیب علی فضل اور وکرانت میسی) کو اپنے گروہ میں شامل کرتا ہے، اور وہ قالین بھیا کے آپریشنز میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ قالین بھیا کا پرجوش بیٹا منا بھیا (دیوینندو) ان کو اپنی امنگوں اور مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ یہ بیانیہ طاقت کی بڑھتی ہوئی کشمکش اور بے رحم دشمنیوں کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ گڈو اور ببلو زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرتے چلے جاتے ہیں اور منا جیسے دشمنوں کا غصہ دوسروں پر نکالتے ہیں۔ اس سیزن میں ایک کردار سویٹی گپتا (شریا پِلگاونکر) کا ہے جو گڈو کے لیے آتی ہے، اور دشمنی کو مزید ہوا دیتی ہے، خاص طور پر منّا سے، جو اس کے لیے نرم جذبات رکھتا ہے۔ سیزن کا اختتام ایک شادی کے موقع پر چونکا دینے والے انداز سے ہوتا ہے، جہاں غصے اور انتقام کی آگے میں جلتا ہوا منّا ایک پرتشدد حملے کا ارتکاب کرتا ہے۔ ایک دل دہلا دینے والے موڑ وہ آتا ہے، جب منّا سویٹی اور ببلو کو مار ڈالتا ہے اور گڈو شدید زخمی ہو جاتا ہے۔ گڈو، گولو (شویتا ترپاٹھی) سویٹی کی بہن کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے، جو الم ناک واقعات کی گواہ بھی ہے۔ سیزن کا اختتام قالین بھیا کے ایک پولیس اہلکار کو ختم کر کے اپنے دشمنوں پر غلبہ پانے کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ہوتا ہے۔

    دوسرا سیزن (خلاصہ)

    مرزا پور کا دوسرا سیزن 2020 میں ریلیز ہوا تھا۔ کہانی وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں اسے چھوڑا گیا تھا۔ دوسرے سیزن میں دکھایا ہے کہ شادی میں وحشیانہ قتل کے بعد علاقہ میں مزید خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور قتل و غارت بڑھ گئی ہے۔ مختلف کرداروں کو انتقام اور طاقت کی تلاش میں سرگرداں دکھایا گیا ہے، جو دوسروں کی قسمت کے فیصلے کررہے ہیں۔ منا، اپنے زخم مندمل ہونے کے بعد نئی سیاسی دوستیاں اور بااثر شخصیات سے تعلقات بنا رہا ہے، جن میں وزیر اعلیٰ کی بیٹی مادھوری (ایشا تلوار) کے ساتھ پیچیدہ تعلقات بھی شامل ہیں۔ منا کے اپنے والد، قالین بھیا کو ختم کرنے کے لیے جوڑ توڑ اور مختلف حربے، ترپاٹھی خاندان کے اندر پہلے سے ہی موجود پیچیدہ معاملات اور طاقت کے حصول کے راستے میں مشکلات بڑھا دیتے ہیں۔

    دریں اثنا گڈو، جو اپنے بھائی ببلو کی موت کا بدلہ لینے کا عزم کیے ہوئے ہے، اسی بنیاد پر گولو کے ساتھ اتحاد کرلیتا ہے، جو خود بھی اپنوں کو کھو چکا ہے اور انصاف اور بدلہ لینے کے لیے پرجوش ہے۔ وہ دونوں اپنے بہن بھائیوں کو کھو چکے ہیں۔ اس کی اذیت اور دکھ ان کو انتقام کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اس سیزن کا اختتام آپس میں ایک جھڑپ پر ہوتا ہے، جب گڈو اور گولو اپنے دشمن منّا اور قالین بھیا کو زیر کرنے اور ان پر غلبہ پانے کے لیے ان سے زبردست لڑائی کرتے ہیں۔ گڈو، منّا کو قتل کر کے اپنا بدلہ لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے جب کہ قالین بھیا کو شدید زخمی حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ شرد شکلا (انجم شرما) زخمی قالین بھیا کو بچاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور اس سیزن کا اختتام ایک ایسے نوٹ پر ہوتا ہے، جس سے سیریز میں ایک بے تابی سے متوقع تسلسل کا مرحلہ طے ہوتا ہے۔ تیسرا سیزن یہیں سے شروع ہوتا ہے اور اب ہم تیسرے سیزن کی طرف چلتے ہیں۔

    پانچ خاندان اور سونے کی گدی

    اب ویب سیریز کی کہانی جہاں پہنچ چکی ہے، وہاں بڑے چھوٹے بہت سارے کردار بھی اکٹھا ہوگئے ہیں۔ کچھ کردار اس کہانی سے باہر ہو گئے تھے اور کچھ نئے کردار سامنے آئے ہیں۔ مجموعی طور پر کرداروں کو کہانی کی تشکیل کو آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ مرزا پور کی گدی پر اپنا قبضہ جمانے کے لیے پانچ خاندانوں کے درمیان کشمکش جاری ہے، جو اس مقصد کے حصول میں مختلف دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کا ساتھ اس بنیاد پر دے رہے ہیں کہ کسی طرح مرزا پور کی گدی پر ان کا قبضہ ہو جائے، جو ناجائز اسلحے سے کمائی کے لیے سونے کی کان جیسی ہے۔ یہ بظاہر قالین بیچنے کا کاروبار دکھائی دیتا ہے جس کے کئی دروازے ملکی سیاست اور اقتدار کی راہدریوں میں بھی کھلتے ہیں۔

    مرزا پور

    یہ پانچ خاندان ترپاٹھی، پنڈت، گپتا، تیاگی، شکلا اور یادیو ہیں۔ بالترتیب پہلا خاندان گدی نشین ہے اور پہلے سیزن پر یہی چھایا ہوا ہے۔ دوسرا خاندان دوسرے سیزن کے اختتام تک اس گدی کو حاصل کر لیتا ہے اور تیسرے سیزن تک اس خاندان کا گدی پر قبضہ برقرار دکھایا گیا ہے، لیکن تیسرے سیزن کے اختتام پر یہ طاقت اور راج پھر تھرپاٹی خاندان کو منتقل ہوجاتا ہے۔ چوتھے سیزن میں کون اس گدی پر بیٹھے گا، یہ دیکھنا ہوگا۔ ان دونوں خاندانوں سے کئی کردار جڑے ہوئے ہیں، جو اس کی گدی کے لیے جنگ میں ان کی معاونت کرتے ہیں۔

    مرزا پور

    پروڈکشن/ ہدایت کاری

    یہ ویب سیریز امریکی اسٹریمنگ پورٹل ایمازون پرائم ویڈیو کی ہے، اور اسے انڈیا میں ایکسل انٹرٹینمنٹ نے پروڈیوس کیا ہے۔ اس کے پروڈیوسرز معروف اداکار فرحان اختر اور رتیش سدھوانی ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی میڈیا انڈسٹری کے لیے زبردست کام کرچکے ہیں، جن میں سرفہرست ان کی فلم ’’دل چاہتا ہے‘‘ بھی شامل ہے۔ ویب سیریز کی مرکزی اسکرپٹ نویس کرن انشومن اور پونیت کرشنا ہیں۔

    ہدایت کاری کی بات کی جائے تو چار نام سامنے آتے ہیں اور یہ کرن انشومن، گورمیت سنگھ، میہار ڈیسائی اور آنند لیر ہیں۔ اس ویب سیریز کو فلمانے کے لیے بھارتی ریاست اتر پردیش کے کئی شہروں کا انتخاب کیا گیا، جن میں مرزا پور کے علاوہ جون پور، اعظم گڑھ، غازی پور، لکھنؤ، گورکھ پور اور دیگر شامل ہیں۔ اس سیزن میں تشدد پر مبنی مناظر کم دکھائے گئے اور یہ اس تیسرے سیزن کی سب سے اہم بات تھی جب کہ کہانی میں کلائمکس کمزور رہے، جس کا اس ویب سیریز کی شہرت پر منفی اثر پڑا اور اب اس پر خاصی تنقید ہو رہی ہے۔ یقینا اسے ہدایت کاری کا نقص شمار کیا جائے گا۔

    کہانی/ اداکاری

    اس ویب سیریز کی کہانی کا تذکرہ تو کافی ہوچکا ہے کہ یہ ایسا شہر ہے جو جرائم پیشہ افراد کے لیے گویا جنت ہے اور ہر کوئی بے پناہ طاقت، دولت اور اقتدار کے لیے ایک گدی پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اس کے لیے کھینچا تانی کو ان تینوں سیزنز میں دکھایا گیا ہے۔ پہلے اور دوسرے سیزن میں کہانی کی رفتار تیز تھی، جو تیسرے سیزن تک آتے آتے مدھم پڑھ گئی۔ کلائمکس بھی کم ہوتے چلے گئے، نتیجتا کہانی سست روی کا شکار ہوئی اور غیر دل چسپ ہوتی چلی گئی۔ ہر چند کہ اختتامی دو اقساط میں کہانی نے پھر رفتار پکڑی اور اختتام تک آتے آتے پھر تجسس قائم کر دیا۔ مگر مجموعی طور پر تیسرے سیزن کی کہانی کمزور رہی بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ سست روی کی نذر ہوگئی۔

    اداکاری میں علی فضل تیسرے سیزن میں بھی چھائے رہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تیسرا سیزن علی فضل اور انجم شرما کا تھا۔ پنکج ترپاٹھی کا کردار مختصر رہا، البتہ سویٹا ترپاٹھی نے اپنی اداکاری سے خوب متاثر کیا۔ وجے ورما جیسے اداکار کو اس ویب سیریز میں ضائع کیا گیا۔ میگھنا ملک، راجیش تلنگ، شیر نواز جیجینا نے ذیلی کرداروں میں اپنے کام سے بخوبی انصاف کیا۔ طائرانہ جائزہ لیا جائے تو اداکاری کا تناسب درست رہا۔ البتہ کہانی کمزور ہونے کی وجہ سے ناظرین کو کہیں کہیں اکتاہٹ محسوس ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر گڈو بھیا کی یک دم گرفتاری کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا، انہوں نے ہنستے کھیلتے گرفتاری دے دی۔ پھر اچانک جیل سے باہر بھی نکل آئے۔ ایسے بے ربط مناظر ویب سیریز میں کئی جگہ دیکھنے کو ملیں گے، جن کا کہانی اور اداکاری دونوں پر منفی اثر نظر آتا ہے۔

    سوشل میڈیا پر تبصرے

    فلموں اور ویب سیریز کے حوالے سے متعلقہ ویب سائٹوں پر ’’مرزا پور۔ سیزن تھری‘‘ کی پسندیدگی کا تناسب بڑھ رہا ہے، مگر یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ تیسرے سیزن سے جو توقع تھی، وہ اس پر پورا نہیں اترا۔ سوشل میڈیا پر کافی بحث ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو سیزن کی مقبولیت کی ایک وجہ فحش زبان اور تھوک کے حساب سے گالیوں کا استعمال بھی تھا، جو اس سے پہلے کبھی ویب سیریز میں نہیں ہوا تھا۔ اس پر مزید ستم قتل و غارت کے مناظر کی بھرمار تھی۔ تیسرے سیزن میں ان دونوں کا تناسب کم کیا گیا، جو کہ اچھی بات ہے، مگر کیا یہی اچھی بات ناظرین کو پسند نہیں آئی اور وہ اس تیسرے سیزن کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ دو سیزنز میں تیز مسالے والی بریانی کھلانے کے بعد اگر تیسرے سیزن کے نام پر سادہ پلاؤ کھلایا جائے تو شاید یہی ردعمل سامنے آئے گا۔

    آخری بات

    اس ویب سیریز کے تیسرے سیزن کے اختتام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب چوتھا سیزن بھی آئے گا۔ کہانی اور اداکاری کے لحاظ سے یہ ویب سیریز اب تک پھر بھی ٹھیک ہے۔ اگر آپ کو ایکشن، تھرلر سینما دیکھنا ہے تو یہ آپ کے لیے ہی ہے۔ مرزا پور ویب سیریز کے پروڈیوسرز کو چاہیے کہ وہ زبردستی اس کہانی کو نہ گھسیٹیں بلکہ چوتھے سیزن پر اس کا زبردست اور یادگار انجام دکھائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو انڈین اسٹریمنگ پورٹل کی تاریخ کی یہ کامیاب ترین ویب سیریز ناکامی کا منہ دیکھے گی، جس کی جھلک تیسرے سیزن میں کسی حد تک نظر آگئی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مار دھاڑ سے بھرپور، دنگا فساد پر مبنی کہانی کو جس طرح اصل لوکیشنز پر فلمایا گیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔

  • ڈارک میٹر: وہ ویب سیریز جسے دیکھ کر انسانی عقل ورطۂ حیرت میں‌ ڈوب جاتی ہے

    ڈارک میٹر: وہ ویب سیریز جسے دیکھ کر انسانی عقل ورطۂ حیرت میں‌ ڈوب جاتی ہے

    کسی انسان کی ملاقات اگر اپنے ہم زاد سے ہو جائے تو کیا ہوگا؟ یہ ویب سیریز ڈارک میٹر اسی سوال کا جواب دیتی ہے۔

    کس طرح انسانی باطن پر، کوانٹم فزکس کے اصول لاگو ہوتے ہیں، بے شک تخیل سہی، مگر سوچا جائے تو یہ بہت پُراسرار، حیرت انگیز، عجیب و غریب اور پُرلطف بھی ہے۔ اس وقت دنیا میں دیکھی جانے والی دس اہم ویب سیریز میں، اپنی ریٹنگ کی بنیاد پر، آئی ایم ڈی بی کے پیمانے کے مطابق، یہ تیسرے درجے پر فائز ویب سیریز ہے۔ ایپل پلس ٹیلی وژن کی نو اقساط پر مبنی یہ ویب سیریز آپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے گی اور میرا دعویٰ ہے کہ آپ اس کی تمام اقساط دیکھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ یہی اس کا تخلیقی کمال ہے۔

    سائنس کی دنیا میں "ڈارک میٹر” کیا ہے ؟

    ماہرینِ فلکیات نے ایسے مادّہ کی موجودگی کا پتہ لگایا جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اس کا نام ڈارک میٹر ہے، جسے ہم سیاہ مادّہ بھی کہتے ہیں۔ کسی بھی مادّہ یا کسی شے کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جسم روشنی کا اخراج کرتا ہو یا پھر اس روشنی کو جذب کرے۔ سائنس بتاتی ہے کہ جو چیز روشنی کا اخراج کرے گی، وہ ہمیں رنگین نظر آئے گی یا روشنی کو جذب کرے گی تو وہ چیز ہمیں سیاہ نظر آئے گی، لیکن ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ ایسا کچھ نہیں کرتا، البتہ وہ کششِ ثقل کی ایک بڑی مقدار ضرور فراہم کرتا ہے۔

    کششِ ثقل فراہم کرنے کی بنیاد پر ہی ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ مختلف کہکشاؤں کو مربوط رکھے ہوئے ہے۔ اس دنیا اور کائنات میں جو چیز بھی ہم دیکھتے ہیں خواہ وہ ایٹم کے ذرّات ہوں یا اس کائنات میں موجود کہکشائیں، سورج، چاند اور ستارے یہ سب اس کا کائنات کا محض چار سے پانچ فیصد ہیں، باقی 71 فیصد ڈارک انرجی اور بیس سے زائد فیصد ڈارک میٹر پر پھیلا ہوا ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ انہی تصورات کو انسان کی ذات، اس کی نفسیات اور تصورات پر لاگو کریں تو آپ پوری بات سمجھ لیں گے، اور اسی کو مذکورہ ویب سیریز میں بیان کیا گیا ہے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کا مرکزی خیال ایک ناول "ڈارک میٹر” سے مستعار لیا گیا ہے، جس کے مصنّف امریکا سے تعلق رکھنے والے ولیم بلیک کروچ ہیں۔ ناول نگار تجسس سے بھرپور اور سائنسی تصورات پر مبنی کہانیاں لکھنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ مذکورہ ویب سیریز دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی انسان اپنی مادّی دنیا سے نکل کر اس نظر سے کیسے کائنات کو دیکھ سکتا ہے اور اس طرح کیسے سوچ سکتا ہے جیسا مصنّف اپنے ناول میں دکھایا۔ اسی ناول سے متاثر ہوکر یہ ویب سیریز تخلیق کی گئی ہے۔

    ڈارک میٹراب کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔ شکاگو سے تعلق رکھنے والا ایک طبیعیات داں اور استاد جیسن ڈیسن ہے، جو سادہ دل، نرم مزاج اور حساس طبیعت کا مالک ہے اور اپنی بیوی ڈینیلیا ڈیسن اور بیٹے چارلی ڈیسن کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے۔ کائنات کے اسرار و رموز پر غور کرنے والا یہ ذہین شخص، انسانی طبیعیات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور ایک دن اس کا واسطہ اپنے ہم زاد سے پڑتا ہے، جو مادّی روپ دھار کر اس کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ جیسن ڈیسن کو اس دنیا میں بھیج دیتا ہے، جہاں سے وہ ہم زاد آیا تھا۔ اس دنیا میں وہ ایک خاتون سے محبت کرتا ہے، جس کا نام امانڈا لوکس ہے۔

    ویب سیریز کے اس مرکزی کردار کے ساتھ معاون کرداروں میں اس کے دوست ریان ہولڈر اور لیٹن وینس ہیں، جن سے اس کی دونوں زندگیوں کا تعلق بنا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ ذیلی کرداروں سے کہانی مزید گہرائی میں جاتی ہے۔

    ہم اس بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی شخصیت میں بعض اوقات دو زندگیاں ایک ساتھ بسر کررہے ہوتے ہیں، لیکن دنیا کو صرف ایک زندگی یا وہ روپ دکھائی دے رہا ہوتا ہے، جو ہم اسے دکھانا چاہتے ہیں۔ اس کہانی میں مرکزی کردار کی دونوں زندگیاں یعنی ظاہر و باطن آمنے سامنے ہوجاتے ہیں۔ یہاں کہانی میں پہلا شخص تو بہت ملن سار ہے، جب کہ ہم زاد سخت مزاج، تیکھا اور کسی حد تک سفاک بھی ہے۔

    اب اصل شخصیت کا مالک اپنی مادّی یا ظاہری دنیا سے نکل کر اس دوسری دنیا میں کیسے پہنچتا ہے، وہاں کیا دیکھتا ہے اور پھر واپس اپنی اصل دنیا میں آنے کے لیے کیا جتن کرتا ہے، کس طرح اپنے ہم زاد سے پیچھا چھڑواتا ہے اور اپنی ہنستی بستی زندگی کو اتنی مصیبتیں جھیلنے کے بعد کیسے واپس حاصل کرتا ہے۔ یہ کہانی اسی جدوجہد اور ظاہری و باطنی لڑائی کا عکس پیش کرتی ہے۔ اس جدوجہد کو کہانی اور کرداروں کے ساتھ پیوست کر کے بہت اچھے انداز میں پہلے ناول کی شکل میں پیش کیا گیا تھا اور اب اسے ویب سیریز میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔

    پروڈکشن ڈیزائن اور ہدایت کاری

    اس ویب سیریزکا آرٹ ورک، تھیم اور اس کے مطابق سارے گرافکس اور وی ایف ایکس کا کام انتہائی متاثر کن ہے، جنہوں نے مبہم اور غیر مادی احساسات کو تصویری اور متحرک شکل میں پیش کیا۔ دیگر تمام شعبہ جات سمیت پروڈکشن ڈیزائن پُرکشش ہے، جو ایک بھاری بھرکم موضوع کی بدولت بھی ناظرین کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتا، یہ ایک بہت اہم اور عمدہ بات ہے۔

    اس ویب سیریز کی نو اقساط ہیں اور پانچ مختلف ڈائریکٹرز نے ان کی ہدایات دی ہیں۔ ان کے نام جیکب وربرگین، روکسن ڈوسن، علیک سخاروف، سلین ہیلڈ اور لوجن جارج ہیں، ان ہدایت کاروں کا تعلق بیلجیئم، امریکا، برطانیہ اور روس سے ہے۔ یہ نو اقساط متعدد ہدایت کاروں کے ہاتھوں تکمیل کے مراحل سے گزری ہیں، لیکن خوبی یہ ہے کہ کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہدایت کار تبدیل ہوا ہے۔ تمام اقساط میں تخلیقی سطح یکساں ہے، البتہ مجموعی طورپر کہانی تھوڑی طویل محسوس ہوتی ہے، اور میرا خیال ہے کہ اسے سمیٹا جاسکتا تھا تاکہ وہ ناظرین، جو کوانٹم فزکس اور متبادل کائنات کے تصوّر میں دل چسپی نہیں رکھتے وہ بھی اسے آسانی سے سمجھ سکتے۔ پھر بھی اگر توجہ سے یہ ویب سیریز دیکھی جائے، تو باآسانی تفہیم ہوسکتی ہے۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں بیک وقت ہیرو اور ولن کے کردار میں آسڑیلوی اداکار جوئل ایڈجرٹن نے انتہائی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک مثبت اور دوسرا منفی کردار بخوبی نبھایا ہے۔ متضاد کرداروں کی نفسیات پر خوب گرفت رکھنے والے اس اداکار نے پوری ویب سیریز کا بوجھ گویا اپنے کندھوں پر اٹھایا اور مجموعی طور پر کام یاب بھی رہے۔ ان کے مدمقابل دو حسین اداکارائیں جینیفر کونلی اور ایلس براگا تھیں، جنہوں نے جم کر اداکاری کی اور اسکرین پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ان میں سے اوّل الذکر اداکار کا تعلق امریکا اور دوسری کا تعلق برازیل سے ہے۔ دیگر معاون اداکاروں میں جمی سمپسن (امریکا)، ڈائیو اوکنی (نائیجیریا)، اوکس فیگلی (امریکا) اور امانڈا بروگل (کینیڈا) نے بھی اپنے کرداروں سے انصاف کرتے ہوئے، اس پیچیدہ کہانی کو سمجھنے میں معاونت کی ہے اور ایک اچھا فریم ورک تشکیل پایا۔

    حرفِ آخر

    یہ ویب سیریز گزشتہ چند ہفتوں سے پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے مقبولیت مل رہی ہے۔ ایک پیچیدہ اور مشکل موضوع پر بنائی گئی اس ویب سیریز کو صرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر آپ جم کر کوئی ویب سیریز دیکھ سکتے ہیں، بغیر توجہ ہٹائے، تو یہ کہانی آپ کو تخیلاتی اعتبار سے کسی دوسری اَن دیکھی دنیا میں لے جائے گی۔ اس پوری کیفیت اور کہانی کو اگر میں ایک شعر میں بیان کروں تو بقول رضی اختر شوق:

    اپنی طرف سے اپنی طرف آرہا تھا میں
    اور اس سفر میں کتنے زمانے لگے مجھے!

  • The Regime: نرگسیت زدہ آمر خاتون کی عبرت ناک داستان

    The Regime: نرگسیت زدہ آمر خاتون کی عبرت ناک داستان

    دنیا میں کئی ایسے ممالک موجود ہیں، جہاں اُن کے سیاسی نظام میں اعلانیہ طورپر آمریت موجود ہے اور کہیں یہ ڈھکے چھپے انداز میں اقتدار سے چمٹی ہوتی ہے۔ اب ایسے ماحول میں تصور کریں، آمریت نافذ کرنے والی ایک بد دماغ عورت ہو تو کیا منظر نامہ بنے گا۔ مذکورہ ویب سیریز "دی رجیم” میں یہی صورتِ حال پیشِ نظر ہے۔

    یورپ کے وسط میں ایک فرضی ریاست دکھائی گئی ہے، جہاں اس حکمران عورت نے سب کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اس ویب سیریز کو دیکھتے ہوئے نجانے کیوں اس فرضی کہانی پر حقیقت کا گمان گزرتا ہے اور ہمیں چند ممالک کا واضح عکس اس کہانی میں دکھائی دیتا ہے۔ آخر کار فکشن بھی ایک طرح سے سچ کی تلخی کو شیرینی میں ڈبو کر ہی پیش کرتا ہے۔ اس دل چسپ مگر مختصر امریکی ویب سیریز کا تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    کہانی /اسکرپٹ

    دی رجیم کا مرکزی خیال ایک فرضی ریاست میں نافذ نسائی آمریت ہے۔ یہ سیاسی تمثیلی کہانی ہے، جو بتاتی ہے کہ جبر کا نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ آخر کار اس کو اپنے انجام تک پہنچنا ہی ہوتا ہے۔ اس کہانی میں ریاست پر قابض خاتون آمر”چانسلر ایلینا ورنہم” اپنے عالیشان محل میں براجمان دکھائی دیتی ہے، جہاں وہ اپنی من مانی کرتی ہے۔ وہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے علاوہ، ذاتی مراسم اور رشتے داروں سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ ایک حکمران اور ایک عورت، ان دونوں کا واضح فرق مرکزی کردار میں رکھا گیا ہے۔

    دی ریجیم

    اس خاتون آمر کی حکم رانی کا آخری سال دکھایا گیا ہے، جب اس کی زندگی میں ایک عسکری شخصیت، اس کی حفاظت کے لیے شامل ہوتی ہے۔ دھیرے دھیرے ایک آمریت پر دوسری آمریت غالب آجاتی ہے۔ چانسلر اپنے سیکورٹی سیکشن کے سربراہ کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے اور اس کی منشا کے مطابق سیاسی فیصلے کرتی ہے، جس کے نتیجے میں پہلے شاہی محل میں اور بعد میں پورے ملک میں ایک انتشار پھیلتا ہے، جو آخرکار اس کی آمریت کو نگل لیتا ہے۔

    دی ریجیماس کہانی کے خالق امریکی اسکرپٹ رائٹر "ول ٹریسی” ہیں، جن کا لکھنے کا کیریئر ہی ویب سیریز پر مبنی ہے۔ وہ اس سے پہلے کئی عمدہ کہانیاں لکھ کر بے پناہ ستائش اور کئی ایوارڈز وصول کر چکے ہیں۔ ان میں دی مینیو، سکسیشن اور لاسٹ ویک ٹو نائٹ وِد جان الیور شامل ہیں۔اس مختصر امریکی ویب سیریز دی رجیم کی کل چھ اقساط ہیں، جن کو وہ چابک دستی سے قلم بند کرچکے ہیں۔ پوری کہانی مرکزی اور ذیلی کرداروں سے اچھی طرح پیوستہ ہے۔ اس لیے کہیں بھی ناظرین کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوگی۔ انہوں نے فرضی ریاست کے نام پر کہانی میں جس ملک کے ڈھانچے کو پیش کیا ہے، وہ برطانیہ کا ہے۔ کہانی میں آمریت کو بیان کرتے کرتے موجودہ دور کے کئی سیاسی مسائل، اختلافات اور دنیا کے تحفظات کو بھی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ خاص طور پر عالمی برادری میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور امریکا کی دیگر ممالک میں سیاسی مداخلت سمیت متعدد اہم معاملات کو کہانی میں مہارت سے بیان کیا ہے۔

    اداکاری

    یہ کہنا بجا ہے کہ برطانوی اداکارہ "کیٹ ونسلیٹ” نے اپنی اداکاری سے دی رجیم میں اپنے کردار کو زندۂ جاوید کر دیا۔ اداکارہ نے اپنے کردار کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے مدمقابل بیلجیم سے تعلق رکھنے والے ایک باصلاحیت یورپی اداکار "میتھیاس شوناٹس” ہیں، جنہوں نے ایک فوجی سربراہ کا کردار نبھایا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ فرانسیسی اداکار "گیلیوم گیلیان” برطانوی اداکارہ "اینڈریا رائزبورو” اور دیگر فن کاروں نے اپنے کام سے بھرپور انصاف کیا ہے۔ امریکی اداکارہ "مارتھا پلمٹن” نے اپنی مختصر لیکن بہت مضبوط اداکاری سے اسکرین پر "کیٹ ونسلیٹ ” کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ مجموعی طور پر یہ کہانی نرگسیت کا شکار ایک آمر خاتون کی عکاسی کرتی ہے، جس کو کیٹ ونسلیٹ نے اپنی فنی صلاحیتوں سے امر کر دیا۔

    ہدایت کاری اور پروڈکشن

    اس مختصر ویب سیریز کو دو ہدایت کاروں نے مل کر تخلیق کیا ہے۔ ان میں پہلے برطانوی فلم ساز "اسٹیفن فیریس” جب کہ دوسری نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والی فلم ساز "جیسیکا ہوبز” ہیں۔ دونوں نے مشترکہ طور پر تین تین اقساط کو اپنی ہدایت کاری سے مزین کیا، دونوں اپنے اپنے شعبوں میں جانے پہچانے نام ہیں۔ تکنیکی طورپر بہت کامیابی سے بنائی گئی ویب سیریز دی رجیم کا سب سے کمزور نکتہ یہ ہے کہ ناظرین اس فرضی ریاست کو بخوبی پہچان سکتے ہیں کہ اس پر کس ملک کی چھاپ نظر آرہی ہے۔ ان کو چاہیے تھا کہ یہ اس کو مزید استعارات اور تمثیلوں کے ساتھ دل چسپ بناتے، مگر ایک بہت اچھی کہانی کی وجہ سے اس واحد خامی کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔

    معروف امریکی فلم ساز ادارے "ایچ بی او” (HBO) نے اس ویب سیریز کو پروڈیوس کیا ہے۔ ان کی ٹیم میں اس ویب سیریز کے لکھاری کے علاوہ بھی ایک پوری ٹیم مستند پروڈیوسرز پر مشتمل ہے، جس میں کیٹ ونسلیٹ بھی شامل ہے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے سینماٹو گرافر "ایلون ایچ کچلر” نے کمال مہارت سے اس کو عکس بند کیا ہے۔ ویب سیریز کی تدوین، اقساط کا ردھم اور عنوانات، لائٹنگ، میوزک، کاسٹیومز اور دیگر لوازمات کا خیال رکھا گیا ہے۔

    اس میں جس عمارت کو بطور شاہی محل دکھایا گیا ہے، وہ یورپی ملک آسٹریا کے شہر ویانا کا ایک میوزیم اور اس سے ملحقہ عمارت "شون برون پیلس” ہے۔ اس کا کچھ حصہ برطانیہ میں شوٹ کیا گیا ہے، البتہ مجموعی طور پر پروڈکشن ڈیزائن اچھا ہے۔ بہت تھام جھام نہیں ہے، بس ضروری انتظامات کیے ہیں اور اس ویب سیریز کو تخلیق کیا گیا ہے۔ اس کے برطانوی پس منظر کی وجہ سے متعلقہ تکنیکی و فنی ہنر مند ہی اس کی تشکیل میں شامل ہوئے ہیں۔ اسی لیے امریکی ویب سیریز ہونے کے باوجود اس پر یورپی سینما کی گہری چھاپ محسوس کی جاسکتی ہے۔

    مقبولیت کے نئے زاویے

    مارچ میں اس ویب سیریز کی پہلی قسط اسٹریمنگ پورٹل پر جاری کر دی گئی تھی۔ پھر بالترتیب چھ اقساط ریلیز ہوئیں۔ ناظرین اور ناقدین کی طرف سے اس کو پسند کیا جا رہا ہے۔ فلموں اور ویب سیریز کے تبصروں کے لیے جانی پہچانی ویب سائٹ "روٹین ٹماٹوز” پر اس کی مقبولیت کا تناسب ستاون فیصد ہے جب کہ میٹرکٹ ویب سائٹ پر بھی یہی تناسب دیکھا گیا ہے۔ آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے 6 اعشاریہ ایک فیصد پسندیدگی کا تناسب ہے اور یہ گزرتے دنوں کے ساتھ مزید بڑھ رہا ہے۔ گوگل کے قارئین کی طرف سے پانچ میں سے تین اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ 100 میں سے اس ویب سیریز نے 50 کا ہندسہ عبور کرتے ہوئے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور ناقدین کو بھی متاثرکرنے میں کامیاب رہی ہے۔

    آخری بات

    آمریت جیسے روایتی موضوع پر ویب سیریز یا فلم بنانا ایک مشکل کام ہے، کیونکہ یہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے، مگر اس ویب سیریز میں جس طرح ایک آمریت اور عورت کو تمثیل بنا کر پیش کیا گیا ہے، اس کے تناظر میں یہ عالمی سیاست میں خواتین کے نرگسیت زدہ کرداروں کی عکاسی کی کوشش ہے۔ اس میں آپ کو اپنی مقامی سیاست کے کسی کردار کی جھلک بھی دکھائی دے سکتی ہے اور کئی عالمی شہرت یافتہ سیاسی اور نیم سیاسی نسائی کرداروں کی چاپ بھی محسوس ہوسکتی ہے۔ اگر آپ عالمی سیاست میں دل چسپی رکھتے ہیں تو یہ ویب سیریز دیکھتے ہوئے آپ کا وقت ضائع نہیں ہوگا۔ ایچ بی او کے آن لائن اسٹریمنگ پورٹل پر یہ ویب سیریز آپ کی توجہ کی منتظر ہے۔