Tag: خرم سہیل کا تبصرہ

  • جوکر: دو دیوانوں کی وحشت اور دیوانگی کا امتزاج

    جوکر: دو دیوانوں کی وحشت اور دیوانگی کا امتزاج

    یہ فلم 2019ء میں ریلیز ہونے والی کام یاب ترین فلم "جوکر” (joker) کا ایک ایسا سیکوئل ہے، جس کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایک خراب اور زبردستی بنایا جانے والا سیکوئل کیا ہوسکتا ہے۔ کہاں ایک طرف اس فلم سیریز کی پہلی فلم نے ناظرین اور ناقدین دونوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا اورکہاں اب ریلیز ہونے والی یہ فلم، جو شاید اپنی لاگت بھی پوری کر لے تو بڑی بات ہے، کیونکہ اس کا بجٹ بھی دو سو ملین ڈالرز ہے اورکئی فن کاروں کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

    ایک بڑے پروڈکشن ہاؤس اور بڑی کاسٹ کے ساتھ ساتھ، بڑے بجٹ اور گزشتہ فلم کی مثالی شہرت کے باوجود یہ فلم اگر ناکام ہوئی ہے، تو اس کی واحد وجہ ایک غیر دل چسپ کہانی ہے۔ شاید فلم جوکر (joker) کے سیکوئل کی ضرورت ہی نہیں تھی، لیکن فلم ساز ادارے اور ہدایت کار نے اس کی کام یابی کو کیش کرانے کی کوشش کی اور کمائی ہوئی عزّت اور پیسے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سب کیسے ہوا، اس کے لیے آپ کو یہ تجزیہ اور نقد پڑھنا چاہیے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    اس فلم کا مرکزی کردار جوکر کا ہے، جو بنیادی طور پر "ڈی سی کامکس” کے کرداروں میں سے ایک ہے۔ اس کردار پر بھی بہت ساری فلمیں بن چکی ہیں، لیکن 2019ء میں ریلیز ہونے والی فلم "جوکر” کو جو کام یابی ملی، وہ دیدنی تھی۔ اُس سال کے آسکر ایوارڈ میں تہلکہ مچانے والی فلم کی کہانی اور کرداروں کی تخلیق بھی باکمال تھی۔ حیرت انگیز طور پر ان دونوں فلموں کے اسکرپٹ رائٹر اسکاٹ سلور ہیں، دونوں اسکرپٹس میں انہیں، ان دونوں فلموں کے ہدایت کار "ٹوڈ فلپس کی معاونت بھی حاصل رہی۔ پہلی فلم ان دونوں کے تخلیقی ہنر کا درجۂ عروج ہے، جب کہ دوسری فلم دونوں کے ہنر کے زوال کی داستان ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے زبردستی کہانی کو طول دینے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ دوسری فلم میں بھی ان دونوں نے پہلی فلم کی کہانی ہی سنائی تو پہلی فلم کی کہانی سننے کے لیے دوسری فلم دیکھنے کی کیا ضرورت ہے ناظرین کو، بہتر ہے وہ پہلی فلم ہی دیکھ لیں، یہی وجہ ہے کہ دوسری فلم کو جو Joker: Folie à Deux کے نام سے بنائی گئی ناظرین نے مسترد کر دیا۔

    اس دوسری فلم کی کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ وہ شخص جو جوکر بن کر اپنی روزی روٹی کماتا تھا اور وہ ایک پریشان کن شخصیت کا مالک تھا، کئی محرومیاں اس کی زندگی کا حصہ تھیں، پھر سماج کا برا سلوک جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے اور وہ نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوتے ہوئے جرائم کا مرتکب ہونے لگتا ہے۔ پہلی فلم کا اختتام یوں ہوا تھا کہ اس نے پانچ قتل کیے تھے اور معاشرے میں بدامنی پھیلانے کا باعث بھی بنا تھا اور پولیس اس کو گرفتارکر لیتی ہے۔ دوسری فلم کی ابتدا وہیں سے ہوتی ہے، وہ جیل میں اپنی سزا کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ اس دوسری فلم میں اس کے مزاج کی ایک لڑکی اس کو ملتی ہے، دونوں میں محبت پروان چڑھتی ہے اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔ یہ سب کیسے آگے بڑھتا ہے، فلم دیکھ کر تو کچھ سمجھ نہیں آتا، لیکن بہرحال ایسا ہوا۔

    فلم سازی/ ہدایت کاری

    معروف امریکی فلم ساز ادارے "وارنر بروس پکچرز” نے ان دونوں فلموں کو پروڈیوس کیا۔اس فلم کے سیکوئل کو بنانے کا حتمی فیصلہ، فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار جیکوئن فینکس کی خواہش پر کیا گیا، ورنہ شاید فلم سازوں اور ہدایت کار ٹوڈ فلپس کو اس فلم کے سیکوئل میں اتنی دل چسپی نہ تھی، مگر اداکار کے اصرار نے انہیں اس پر کام کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ اور آخر کار یہ فلم اور اس کی پروڈکشن جو پہلی فلم سے دوگنی لاگت سے بھی زیادہ ہے، اس نے پہلی فلم کے دیوقامت تصور کو زمین بوس کر دیا۔ اپنے کیریئر کے اگلے برسوں میں ان تینوں کو چاہیے کہ ڈی سی کامکس کے کرداروں پر فلمیں بنانے کے ماہر اور بائیوپیک فلموں کو کام یابی سے تخلیق کرنے والے معروف فلم ساز کرسٹوفر نولان سے ٹیوشن لیں، کیونکہ وہ ان کو اس مخصوص کردار (ڈی کامکس کا کردار جوکر) کے ساتھ تجربات کرنے سے منع بھی کر چکے تھے۔ اور ان کی بات درست ثابت ہوئی کیوں کہ یہ تجربات بھیانک ثابت ہوئے۔

    اداکاری و موسیقی

    اس فلم میں سب سے نمایاں طور پر جس چیز سے سہارا لیا گیا، وہ بڑے بڑے اداکاروں کی شمولیت ہے۔ خاص طور پر لیڈی گاگا جنہوں نے اس فلم میں کام کرنے کا 12 ملین ڈالرز معاوضہ لیا جب کہ جیکوئن فینکس نے 40 ملین ڈالرز وصول کیے۔ یہ فلم چونکہ میوزیکل تھی، اس لیے شاید لیڈی گاگا کا انتخاب کیا گیا، لیکن نہ تو وہ اپنی اداکاری سے ناظرین کو لبھا سکیں اور ان کی گائیکی کے تجربے نے بھی ان کا ساتھ نہ دیا۔ گزشتہ فلم کی موسیقی اس فلم سے کئی درجے بہتر تھی، مگر اس فلم میں موسیقی کا معیار بھی پست رہا اور لیڈی گاگا اور جیکوئن فینکس نے اس میں گائیکی کا مظاہرہ کر کے اس معیار کو تقریباً دفن ہی کر دیا۔ اس فلم میں بار بار لیڈی گاگا کے گیتوں سے فلم میں شدید اکتاہٹ پیدا ہوگئی۔

    حرفِ آخر

    اس فلم میں کئی طرح کے تضادات ہیں، جیسا کہ فلم ساز ادارے، ہدایت کار کے آپس کے جھگڑے، ایک اداکار کے کہنے پر ہدایت کار کا اس کے پیچھے چل پڑنا، ایک سنجیدہ نفسیاتی تھرلر فلم کو میوزیکل میں بدلنے کی ناکام کوشش، سب سے بڑھ کر پہلی فلم میں جوکر ہیرو تھا جب کہ اس دوسری فلم میں اس کو مظلوم بنا دیا گیا، اور اسے ناظرین قبول نہیں کرسکے۔کہانی میں کوئی کلائمکس نہ تھا، فلم انتہائی ناقص پلاٹ پر مبنی تھی، جس میں جوکر ایک قابلِ رحم آدمی کی موت مارا جاتا ہے۔ اس کے تناظر میں رومانوی تڑکا لگانے کی کوشش مزید گلے پڑی اور فلم بالکل ہی فارغ ہو گئی۔ قارئین، آپ اگر دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایک اچھی فلم کا برا سیکوئل کیا ہوتا ہے، تو یہ فلم ضرور دیکھیے۔

  • زخم کاری-انتقام (سیزن3)

    زخم کاری-انتقام (سیزن3)

    ایرانی سینما بہت مضبوط رہا ہے اور عالمی سطح پر خاصی شہرت رکھتا ہے، لیکن ڈرامے کی صنعت اور اب ویب سیریز کے تناظر میں ابھرتی ہوئی نئی صنعت میں ایران دھیرے دھیرے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ ویب سیریز زخم کاری- انتقام (سیزن تھری) ایران سمیت دنیا بھر کے کئی اسٹریمنگ پورٹلز پر دیکھی جارہی ہے۔ اس کی یہ مقبولیت ایران کی ڈرامہ اور ویب سیریز کی پسندیدگی کی ایک مثال ہے، لیکن ابھی ایران کو اس میڈیم کی مختلف اور نئی اصناف میں آگے آنے کے لیے مزید محنت کرنا ہو گی، جس کی ابتدا ہو چکی ہے اور ویب سیریز زخم کاری اسی کی ایک عملی تصویر ہے۔

    مرکزی خیال/ کہانی

    بنیادی طور پر اس کہانی کا مرکزی خیال، برطانوی کلاسیکی ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کے مشہور زمانہ ناٹک میک بیتھ سے لیا گیا ہے۔ اس ناٹک کو ناولٹ کی شکل دینے والے معروف ایرانی ادیب محمود حسینی زاد ہیں، جنہوں نے انتہائی مہارت سے اس کہانی کو ایران کے پس منظر میں عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالا۔ وہ پیشہ ور مترجم بھی ہیں۔ انہوں نے عہدِ حاضر میں جرمن ادب کو فارسی زبان میں منتقل کیا ہے، اور ان ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں جرمنی کا معتبر اعزاز گوئٹے میڈل دیا جا چکا ہے۔

    اس ڈرامے کی کہانی محبت، کاروبار، دولت اور جرائم جیسے موضوعات کے اردگرد گھومتی ہے۔ اس میں ایک ایسے خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو تجارت اور کاروبار سے وابستہ ہے اور کس طرح رشتے داریوں میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ ایک طرف محبت اور دولت کے حصول کی کوشش تو دوسری طرف قربانیوں اور محرومیوں کی المناک داستان ہے۔

    اس کہانی میں ایران کا موجودہ ثقافتی منظر نامہ بھی دکھائی دیتا ہے، وہاں کا سماج اور معاشرتی رویے بھی، جن کی مدد سے آج کے ایران کو براہ راست سمجھا جا سکتا ہے۔

    ویب سازی و دیگر لوازمات

    ایرانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے ابھرتے ہوئے فلم ساز محمد حسین مہدونی نے اپنے کیریئر کا پہلا ڈرامہ و ویب سریز تخلیق کی ہے۔ اس سے پہلے وہ فیچر فلمیں بناتے رہے ہیں۔ نئی فلمی صنعت میں ان کی بہت مانگ ہے۔ وہ باصلاحیت بھی ہیں، جس کا اندازہ ان کے تخلیقی سفر کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ اس ویب سیریز کے تین سیزن بالترتیب نمائش کے لیے پیش کیے جا چکے ہیں، جن میں 2021 اور 2023 میں دو سیزن اور تیسرا سیزن رواں برس ریلیز کیا گیا ہے۔ عصرِ حاضر میں یہ ایران کے ہوم ٹیلی ویژن پر سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ڈرامہ ہے اور مختلف آن لائن اسٹریمنگ پورٹلز پر بھی لاکھوں کی تعداد میں ناظرین اسے دیکھ چکے ہیں۔

    اس ویب سیریز کی ہدایت کاری اچھی ہے مگر اس میں مزید بہتری کی گنجائش نظر آتی ہے۔ بہت سے فریم ایک جیسے ہیں، جس سے یکسانیت کا تاثر ابھرتا ہے، البتہ آؤٹ ڈور مناظر کافی اچھی طرح فلمائے گئے ہیں۔ سینماٹو گرافی، لائٹنگ، کاسٹیوم اور ایڈیٹنگ اور دیگر شعبوں میں اچھا کام ہوا ہے، لیکن کہانی کی رفتار تھوڑی اور بڑھا کر پیش کرتے تو شاید یہ کہانی مزید توجہ حاصل کرتی۔ بہرحال، اس کے باوجود کہانی ناظرین کو جکڑ لیتی ہے، جس کا کریڈٹ ہدایت کار کی بجائے کہانی نویس اور اداکاروں کو جاتا ہے، جنہوں نے اپنے کام سے بھرپور انصاف کیا ہے۔

    اداکاری و موسیقی

    اس ویب سیریز کے سب سے مضبوط حصے اداکاری اور موسیقی ہیں۔ یہ سیزن، جس کو تیسرا سیزن کہا گیا ہے، اس میں شامل اداکاروں نے اپنے کرداروں سے خوب انصاف کیا۔مرکزی کردار نبھانے والے جاوید عزتی (ملک مالیکی) پوری کہانی میں چھائے رہے اور بہت شان دار اداکاری کی۔ ان کے ساتھ معاون اداکاراؤں میں رعنا آزادویر (سمیرا بخشی) الہٰی حسیاری (کاظم)، مہرواشرفینیا (پنتیا) کےعلاوہ جاوید ہاشمی، کاظم دیرباز، سعید چنگیزین سمیت سب نے اچھا کام کیا ہے۔ تین سیزن کی کل اقساط 43 ہیں جن کو تین سال میں پیش کیا گیا ہے۔ گزشتہ دو سیزن کو زخم کاری- بازگشت کا نام دیا گیا تھا جب کہ موجودہ سیزن کو زخم کاری- انتقام کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس ویب سیریز کی پسِ پردہ موسیقی، ٹائٹل سونگ بہت شیریں اور سریلے ہیں۔ اس ویب سیریز کے موسیقار حبیب خازئیفر ہیں۔

    حرفِ آخر

    ایرانی سینما کی طرح ڈرامہ اور ویب سازی میں کہانی بیان کرنے کے طریقے پر کافی اچھی طرح کام ہوا ہے، البتہ ویب سازی اور فلمی دنیا میں جتنی جدّت آچکی ہے، ابھی ایران وہاں تک تو نہیں پہنچا، مگر ان کے ہاں کہانی کا عنصر ہمیشہ سے بہت مضبوط رہا ہے۔ اسی لیے ان کی فلمیں اور ڈرامے دیکھے جاتے ہیں۔ اب انہوں نے ویب سازی کی دنیا میں قدم رکھا ہے اور مذکورہ ویب سیریز کو دیکھنے والوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد ایران کے لیے کامیابی کے نئے دروازے کھول رہی ہے۔ آپ اس ویب سیریز کو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے کہیں کہیں ہمیں پی ٹی وی کا کلاسیکی دور بھی یاد آتا ہے۔ یہ ویب سیریز مختلف اسٹریمنگ پورٹلز پر باآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔

  • صدام حسین کے بعد کا عراق- “بغداد سینٹرل”

    صدام حسین کے بعد کا عراق- “بغداد سینٹرل”

    ویب سیریز بغداد سینٹرل 2003 کے پس منظر میں اس عراق کو دکھاتی ہے، جب وہاں صدام حسین کا اقتدار ختم ہوا۔ اس کے نتیجے میں عراقی معاشرہ کن مسائل کا شکار ہوا، عام آدمی اس سیاسی انتشار سے کیسے متاثر ہوا، نام نہاد جنگ عراقیوں پر لادنے کے بعد مغربی طاقتوں نے کس طرح وہاں اپنے لیے مادّی ثمرات تلاش کیے، اس کی قیمت کس نے چکائی اور عام آدمی نے قربانی کیسے دی؟ یہ کہانی ان تمام سوالوں کے جوابات دیتی ہے۔

    حقیقت سے قریب تر رہتے ہوئے تخلیق کی گئی اس ویب سیریز کے آفیشل ٹریلر کو، ریلیز کے بعد سے اب تک تقریباً 300 ملین مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ اسے تاحال مقبولیت حاصل ہے۔ ماضی قریب (2020) سے منتخب کی گئی اس برطانوی ویب سیریز کا تفصیلی تجزیہ و تبصرہ پیش خدمت ہے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    اس کی کہانی معروف امریکی ناول نگار اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ایلیٹ کولا کے ناول سے ماخوذ ہے۔ ناول کے عنوان کو اختیار کرتے ہوئے، ویب سیریز کا نام بھی "بغداد سینٹرل” رکھا گیا ہے۔ یہ ناول 2014 میں شایع ہوا تھا، جو کہانی کے پس منظر کی ضرورت کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ناول نگار عربی ادب و ثقافت پر گہری نظر رکھتے ہیں اور متعدد عربی نالوں کے انگریزی تراجم بھی کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے، انہوں نے اِس کہانی کو اُس وقت کے عراق کے زمینی حقائق کے مطابق قلم بند کیا ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کو کوئی عراقی مصنّف ہی بیان کررہا ہے۔ اس پہلو سے ناول نگار کی اپنے موضوع پر دسترس قابلِ تعریف ہے، جس نے ویب سیریز میں جان ڈال دی۔

    اس شان دار ناول پر مبنی کہانی کو اسکرپٹ کی صورت دینے والے اسٹیفن بوچرڈ ہیں، جن کا تعلق برطانیہ سے ہے اور وہ کئی مقبول ڈراموں کے اسکرپٹ نویس رہے ہیں۔ مذکورہ ویب سیریز کو بھی انہوں نے انتہائی مہارت سے لکھا ہے، جس میں کہانی برق رفتار، کرداروں کا ایک دوسرے سے تعلق، مختلف بدلتی ہوئی صورتِ حال اور اس کے مطابق سچویشنز سمیت دیگر تخلیقی پہلوؤں سے وہ فلم بینوں کو متاثر کرتے ہیں، البتہ ایک نقص کہانی میں محسوس ہوا کہ زیادہ تر مقامی کرداروں کا لہجہ عراق میں رائج عربی لہجے سے مطابقت نہیں رکھتا، اس پر ہدایت کارہ کو کام کرنے کی ضرورت تھی۔ دیگر پہلوؤں سے کہانی بہرحال متاثر کن ہے۔

    ایک ایسے سابق پولیس افسر کی کہانی، جو صدام حسین کے دور میں اپنی سرکاری ذمے داریاں احسن طریقے سے نبھا رہا تھا، ساتھ ساتھ عراق کی بدلتی ہوئی صورتحال پر بھی اس کی نظر تھی۔ اس تناظر میں وہ اپنے اہلِ خانہ سے بات چیت بھی کرتا تھا، خاص طور پر اپنی دونوں بالغ بیٹیوں سے، جن میں سے ایک سنگین بیماری کا شکار تھی، جب کہ دوسری سرکاری یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھی۔ اچانک عراق کے حالات بدلتے ہیں، سماج ایک انتشار کا شکار ہوتا ہے اور ایسے میں اس کی بڑی بیٹی لاپتا ہوجاتی ہے۔ اسے چھوٹی بیٹی کے علاج کا سلسلہ جاری رکھنا ہے اور ایسے میں امریکی اسے دہشت گردوں کا سہولت کار سمجھ کر دھر لیتے ہیں۔ وہ ان حالات میں کیسے اپنی بقا کی جنگ لڑتا ہے اور اپنے اہل خانہ کی زندگی محفوظ بناتا ہے، یہ کہانی اسی جدوجہد پر مبنی ہے۔

    مغربی طاقتوں کے ہتھکنڈے، ان کے اہل کاروں کی سفاکیت، پیسہ بنانے کی ہوس اور کئی ایسے دیگر خوفناک اور تلخ حقائق بھی اس کہانی کے منظر نامے میں ناظرین کے لیے حیرت کے نئے زاویے کھولتے ہیں۔

    ویب سازی/ ہدایت کاری

    اس ویب سیریز کو برطانوی فلم پروڈکشن ایوسٹن فلمز کے تحت پروڈیوس کیا گیا ہے، جب کہ ریلیز برطانیہ کے سرکاری چینل فور پر کی گئی۔ مراکش کے مختلف شہروں میں بڑی چابک دستی سے عکس بند کی گئی اس ویب سیریز کی سینماٹوگرافی کمال ہے، لوکیشنز حقیقی معلوم ہوتی ہیں، جس کا کریڈٹ ہدایت کارہ کو جاتا ہے۔ بغداد سینٹرل کی ہدایت کارہ ایلس ٹروگھوٹن ہیں، جن کو زیادہ تجربہ برطانوی ٹیلی ویژن کے لیے تخلیقی کام کا ہے، مگر اب ان کا رجحان فلم سازی کی طرف بھی ہوا ہے۔

    اس ویب سیریز کی چھ اقساط کو انہوں نے تن تنہا بنایا ہے، اسی لیے کہانی کا ردھم ایک ترتیب میں بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مقامی کرداروں کے عربی لہجے، پس منظر کی موسیقی اور کاسٹیوم پر مزید توجہ دیتیں، تو یہ ویب سیریز اور نکھر سکتی تھی، لیکن پھر بھی یہ اتنی عمدہ ہے کہ اس پر پروپیگنڈا سینما کا گمان نہیں ہوتا۔ اس کا کریڈٹ ہدایت کارہ سے زیادہ ناول نگار اور اسکرپٹ نویس کو جاتا ہے، جنہوں نے کرداروں کے ذریعے کہانی کو عمدہ اور دل چسپ بنا دیا۔

    اداکاری

    بغداد سینٹرل کے لیے زیادہ تر عربی پس منظر رکھنے والے امریکی اداکاروں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں، مرکزی کردار نبھانے والے عراقی پولیس افسر محسن قادر الخفاجی (ولید زوایتار) ہیں۔ یہ فلسطینی نژاد امریکی اداکار ہیں، جن کی زندگی کا ایک بڑا حصہ کویت میں بھی گزرا، لیکن زیادہ عرصہ امریکا میں ہی رہے۔ اسی لیے اپنے فلسطینی اور امریکی دونوں مزاج مدنظر رکھتے ہوئے ہالی ووڈ اور برطانوی سینما میں کام کررہے ہیں، صرف اداکاری ہی نہیں کرتے بلکہ مقبول پروڈیوسر بھی ہیں اور اداکار تو وہ بہت ہی اچھے ہیں، جس کا اندازہ اس ویب سیریز میں ان کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ساتھ دیگر عرب اور انگریز اداکاروں نے بھی اپنے کرداروں سے انصاف کیا ہے، خاص طور پر جولی نمیر(مروج الخفاجی) لیم لبنیٰ (سواسن الخفاجی) برٹی کارول (فرینک ٹیمپل) کورے اسٹول (کیپٹن جون پیروڈی) اور کلارا کورے (زبیدہ رشید) شامل ہیں۔

    مغرب کا پسندیدہ موضوع اور مقبولیت کا تناسب

    نیٹو کی افواج کا حملہ اور پھر اس خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے پس منظر میں عراق کو مغرب میں بہت اہمیت دی گئی۔ اس سے جڑی کہانیوں اور حقائق کو بہت توجہ ملی۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ، وہاں مغربی طاقتوں کی یلغار کے حوالے سے میڈیا میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔ عراق اور اس جنگ کے پس منظر میں ناول تخلیق کیے گئے اور فلمیں بنائی گئیں، جنہیں بہت مقبولیت ملی۔ یہ موضوع اب تک پرانا نہیں ہوا اور اس پر ناول یا فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ویب سیریز بغداد سینٹرل کی خوبی یہ ہے کہ اس کو غیر جانب دار انداز میں، ایک متوازن طریقے سے عام آدمی کی کہانی کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور سیاسی پروپیگنڈے کو کہانی کا حصہ بنانے سے اجتناب برتا کیا گیا ہے۔ اسی لیے ناظرین نے اس کو بے حد پسند کیا۔

    اس ویب سیریز کو فلموں اور ویب سیریز کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے 7 اعشاریہ تین ریٹنگ ملی، جب کہ روٹین ٹماٹوز پر 100 میں سے اس کی پسندیدگی کا تناسب 83 فیصد رہا۔ گوگل کے 5 ستاروں میں اسے 4 اعشاریہ پانچ فیصد ستارے ملے۔ دیگر کئی اور ویب سائٹس پر اچھا ردعمل سامنے آیا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ عربی اور انگریزی میں تخلیق کی جانے والی ویب سیریز بغداد سینٹرل کے پہلے سیزن کے بعد دوسرا سیزن بھی ضرور تیار کیا جائے گا۔ اس کی مقبولیت سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔

    حرفِ آخر

    ویسے تو یہ سیریز چند سال پرانی ہے، مگر اسے دیکھ کر یہ سمجھا آسان ہوجاتا ہے کہ کس طرح عراق نے اس مخصوص سیاسی و سماجی دور میں انتشار کا سامنا کیا اور وہاں کے عوام نے کیسے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی بقا کی لڑائی لڑی ہوگی۔ ایسی متوازن کہانیوں کو دیکھ کر اس طرح کے جنگ اور آفت زدہ ممالک کے لوگوں کے مسائل کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اور اس تکلیف کی شدت کو بھی ہم محسوس کرسکتے ہیں جس سے وہ لوگ گزرے۔ وقت ملے تو ویب سیریز بغداد سینٹرل ضرور دیکھیے۔

  • ہاتھ سے بنائی گئی پہلی پاکستانی ٹو ڈی اینیمیٹڈ فلم۔ دی گلاس ورکر

    ہاتھ سے بنائی گئی پہلی پاکستانی ٹو ڈی اینیمیٹڈ فلم۔ دی گلاس ورکر

    ان دنوں پاکستان میں زیرِ نمائش فلم "دی گلاس ورکر” کا بہت چرچا ہو رہا ہے۔ اس فلم کو انگریزی اور اردو میں فلم بینوں کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان، جاپان، امریکا سمیت 50 سے زائد ممالک میں نمائش پذیر ہوئی ہے، جسے فلم بین دیکھ رہے ہیں اور پسند کررہے ہیں۔

    یہ پاکستانی فلمی صنعت میں اس لیے اہم فلم ہے، کیونکہ یہ ہاتھ سے بنائی گئی تصویروں پر مشتمل اینیمیٹیڈ فلم ہے جسے ہدایت کار عثمان ریاض نے تقریباً ایک دہائی کے عرصہ میں مکمل کیا ہے۔ اس فلم کی تکمیل کے لیے کتنی محنت اور جدوجہد کرنا پڑی، یہ آپ اس مفصل تبصرے اور تجزیے میں جان سکتے ہیں۔
    گلاس ورکر فلم

    ہینڈ میڈ اینیمیشن کیا ہوتی ہے

    اینیمیشن سے مراد ڈرائنگ کر کے بنائی جانے والی وہ تصویریں ہوتی ہیں، جن کو متحرک کرکے فلم میں ڈھالا جاتا ہے۔ وہ تصویریں جو کمپیوٹر سے بنائی جاتی ہیں، ان کو "کمپیوٹر جنریٹیڈ امیجری” (Computer-generated imagery) کہا جاتا ہے، جب کہ وہ تصویریں جنہیں ہاتھ سے بنایا جائے، ان کو "ہینڈ میڈ امیجز” کہا جاتا ہے، یعنی انسانی ہاتھ کی بنائی ہوئی وہ تصویر جسے کمپیوٹر کی اسکرین پر لا کر حتمی شکل دی جاتی ہے اور تصویروں کے خاکے بنا کران میں رنگ بھرتے ہیں جس سے فلم تیار کرلی جاتی ہے۔

    یہ پہلی پاکستانی ہینڈ میڈ اینیمیشن فلم کیسے ہے؟

    پاکستانی فلمی صنعت میں اینیمیشن فلموں کی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے، ہم اگر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو جن پاکستانی اینیمیٹڈ فلموں کو باکس آفس پر مقبولیت ملی اور وہ "سی جی ای” کی مدد سے بنائی گئیں، ان چند نمایاں فلموں میں دی کرونیکل آف عمرو عیار (2024) اللہ یار اینڈ دی ہنڈرڈ فلاورز آف گاڈ (2023) ڈونکی کنگ (2018) اور تین بہادر سیریز کی تینوں فلمیں اور دیگر شامل ہیں۔ فلم "دی گلاس ورکر” اس لحاظ سے منفرد اور پاکستان کی پہلی فلم ہے، جس کی اینمیشن ہاتھوں سے کی گئی۔
    یہ طریقہ امریکا اور جاپان سے آیا ہے، وہاں اس طرز کی فلمیں اب تک بنائی جاتی ہیں بلکہ "دی گلاس ورکر” کے ہدایت کار عثمان ریاض نے تو برملا جاپانی اینیمیشن سے متاثر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ وہ جاپان کے "اسٹوڈیو گیبلی” اور اس کے بانیان اور ہینڈ میڈ اینیمیٹیڈ فلموں کے فلم ساز "ہیا اومیازاکی” اور "ایساؤ تاکاہاتا” سے بے پناہ متاثر ہیں۔ یہی وجہ ہے، عثمان ریاض کی اس پہلی فیچر فلم پر اس اسٹوڈیو اور فلم سازوں کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ انہیں امریکی فلم ساز "والٹ ڈزنی” کا کام بھی پسند ہے۔

    فلم سازی

    ہاتھ سے تخلیق کردہ اینیمیشن فلموں کا بجٹ کافی زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے "دی گلاس ورکر” کی ٹیم نے سب سے پہلے امریکا اور جاپان میں متعلقہ فلم سازوں سے رابطے کیے اور ان سے ملنے والی تجاویز کی روشنی میں فیصلہ کیا کہ پاکستان میں ہینڈ میڈ اینیمیشن اسٹوڈیو قائم کیا جائے اور اس کے تحت کام کو آگے بڑھایا جائے۔ عثمان ریاض جو ایک اچھے فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقار بھی ہیں، انہوں نے اپنی اہلیہ مریم ریاض پراچہ اور کزن خضر ریاض کے ساتھ مل کر "مانو اینیمیشن اسٹوڈیوز” قائم کیا۔ اس اسٹوڈیو میں جدید ٹیکنالوجی اور فنی مہارتوں کے حامل تعلیم یافتہ اور نوجوان نسل کے ہنر مندوں کو جمع کیا گیا اور یوں درجنوں اینیمیٹرز نے مل کر اس فلم کے خواب کی تعبیر پانے کی جدوجہد شروع کی۔ اس فلم کے مرکزی پروڈیوسرز میں خضر ریاض (پاکستان) اورمینول کرسٹوبیل (اسپین) شامل ہیں، جب کہ ایگزیکٹیو پروڈیوسرز میں عامر بیگ (پاکستان) اپوروا بخشی (انڈیا)، اظہر حمید (پاکستان)، اطہر ملک (پاکستان)، احمد ریاض (پاکستان) اور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر مریم ریاض پراچہ ہیں۔

    اس فلم کے ابتدائی فنڈز جمع کرنے کے لیے "کک اسٹارٹر” کے فورم سے مدد لی گئی اور اس تناظر میں ایک لاکھ سولہ ہزار ڈالرز کی رقم حاصل ہوئی، جس سے اسٹوڈیو قائم ہوا اور فلم بنانے کی ابتدا ہوئی۔ اس کے بعد کئی پروڈیوسرز بھی اس فلم کا حصہ بنے اور بالآخر فلم پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ اس فلم کو فرانس کے عالمی شہرت یافتہ اینیمیٹیڈ فلموں کے فیسٹیول "اینسی انٹرنیشنل ” کا حصہ بنایا گیا، جہاں یہ آفیشل مقابلے میں تو شامل نہ ہوسکی، لیکن بغیر مقابلہ منتخب کردہ فیچر فلموں کی فہرست میں اسے شامل کر لیا گیا۔ اسی طرح پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ فلم فرانس کے مشہور فلم فیسٹیول "کانز” کا بھی حصہ بنی۔ پروڈکشن کے لحاظ سے عثمان ریاض کی یہ حکمتِ عملی مؤثر رہی کہ انہوں نے عالمی سطح کے نامور لوگوں کو ٹیم کا حصّہ بنایا، جس کی وجہ سے ان کو بین الاقوامی فلمی حلقوں کی توجہ حاصل ہوئی اور وہ اپنی فلم کی شہرت پوری دنیا تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے معروف امریکی فلم ساز اسٹیون اسپیل برگ سے بھی ایک مختصر ملاقات میں اپنی اس فلم کا تذکرہ کیا۔

    یہ سارا منظر نامہ متاثر کن ہے، جو اس فلم کو ایک برانڈ میں تبدیل کرتا نظر آتا ہے۔پاکستان میں البتہ فلم کا پریمئیر، پروموشن ہونی چاہیے تھی، وہ بہت زیادہ مؤثر طریقے سے نہیں ہوئی اور پاکستانی فلم بینوں کو اس فلم کے قریب لانے کی کوششیں کچھ زیادہ نہ ہوسکیں۔ شاید ہدایت کار کی نظر صرف عالمی فلمی حلقوں اور شخصیات پر ہی مرکوز ہو گی۔ بقول عثمان ریاض اس فلمی منصوبے پر لگ بھگ چار سو سے پانچ سو افراد نے کام کیا ہے، جو ایک قابلِ ذکر بات ہے۔

    کہانی/ اسکرین پلے

    اس فلم کی کہانی کے بارے میں عثمان ریاض کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کہانی کو سوچا، کیونکہ یہ کہانی اور اس کے کلیدی ماخذ انہیں اپنے خاندان سے ورثے میں ملے۔ یوں مرکزی خیال تو عثمان ریا ض کا ہے، البتہ اسے فلم کی کہانی میں تبدیل کر کے اسکرپٹ لکھنے کا کام برطانوی اسکرپٹ رائٹر "مویا اوشیا” نے کیا۔ وہ عالمی شہرت یافتہ لکھاری ہیں اور انہوں نے اس کہانی کو بھی چابک دستی سے لکھا ہے۔ جنگ اور محبت کے تناظر میں لکھی گئی یہ کہانی متاثر کن ہے البتہ کچھ چیزوں کا فیصلہ ہدایت کار کو کرنا تھا، جن کی وضاحت اس کہانی میں نہ ہوسکی۔

    عثمان ریاض کے مطابق کہانی کا پس منظر پاکستان ہے، جب کہ فلم دیکھ کر ایسا کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ چند مناظر کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ پاکستانی پس منظر ہے، مگر فلم میں اس کا تناسب بہت کم اور تاثر بہت مدھم ہے۔ اس کہانی کا مرکزی خیال لکھنے والے اگر اسے پاکستانی پس منظر میں قید کرنے کی کوشش نہ کرتے، تو اچھا تھا اور اگر پاکستانی ثقافت ناگزیر تھی تو پھر اس کو اچھی طرح کہانی، کرداروں اور مکالمات کے ذریعے پیش کرتے۔ اس پہلو سے کہانی ناکام رہی اور فلم دیکھ کر پاکستانی کہانی ہونے کا قطعی احساس نہیں ہوتا، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ فلم "گیبلی اسٹوڈیو” کے فلم ساز "ہیااُو میازاکی” کی فلم "ہاؤلز موونگ کیسل” سے کافی متاثر ہے۔

    اس فلم کی کہانی میں دو مزید خامیاں ہیں۔ پہلی خامی یہ کہ کہانی میں مرکزی کرداروں "ونسنٹ اولیور” اور "ایلیزا امانو” کی تشکیل ادھوری ہے۔ ذیلی کرداروں میں ونسنٹ اولیور کے والد تھامس اولیور (شیشہ گر) اور ایلیزا امانو کے والد (فوجی افسر) کہانی پر زیادہ چھائے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے سائے میں مرکزی کردار دب گئے۔ یہ کہانی کی ناکامی ہے اور دوسری خامی کہانی کا برق رفتاری سے آگے بڑھنا ہے۔ کئی مقامات اور کرداروں کے حالات کی وضاحت ہی نہیں ہوسکی، نہ ہی ان کرداروں کو اچھی طرح سے کہانی میں بیان کیا گیا۔ کمزور کرداروں اور ادھورے اور کنفیوز کلائمکس کے ساتھ بہرحال اپنے آرٹ ورک کی وجہ سے یہ کہانی فلم بینوں کو اپنی طرف ضرور متوجہ کرے گی۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس فلم میں کہانی کا شعبہ کمزور ہے۔

    ہدایت کاری

    اس فلم کو کیسے بہت محنت کے ساتھ مختلف مراحل سے گزار کر حتمی شکل میں پیش کیا گیا، یہ آپ یہاں پڑھ چکے ہیں۔ ایک اچھے آرٹ ورک اور پروڈکشن ڈیزائن کی بنیاد پر عثمان ریاض بطور ہدایت کار کامیاب رہے ہیں۔ اتنی بڑی ٹیم، فن کاروں اور اینیمیٹرز کے ساتھ کام کیا لیکن شاید یہ پہلی فلم ہے، اس لیے ان پر جاپانی اینیمیشن کے گہرے اثرات ہیں۔ بطور ہدایت کار ان کو اپنا مختلف انداز اور طرز اپنانا ہو گی، تب ہی وہ تخلیقی طور پر کامیاب سمجھے جائیں گے۔ ورنہ انہیں جاپانی اینیمیشن فلم سازی کی پرچھائیں کے طور پر ہی شناخت ملے گی، جو بالکل مناسب نہیں ہے۔ ہر فلم ساز کی اپنی جداگانہ شناخت ہونی چاہیے۔

    صدا کاری

    انگریزی اور اردو ورژن کے لیے الگ الگ فن کاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ دونوں ورژن میں کام متاثر کن ہے۔ انگریزی میں آرٹ ملک (اطہر ملک) نے بہترین کام کیا ہے۔ پاکستانی نژاد امریکی فن کار نے ہالی ووڈ میں نام پیدا کیا اور دنیا کے مقبول ترین فن کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اس فلم میں بھی انہوں نے عمدہ کام کیا ہے۔ دیگر فن کاروں نے بھی اچھی کارکردگی دکھائی۔ اسی طرح اردو ورژن میں بھی تمام فن کاروں نے اپنے حصے کا کام اچھی طرح انجام دیا، لیکن خالد انعم نے تو دل چھو لیا۔ انہوں نے کمال صدا کاری کی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس فلم کا میدان اطہر ملک اور خالد انعم نے مار لیا۔

    موسیقی و دیگر پہلو

    اس فلم کی تین خاص باتیں‌ ہیں جن میں سے ایک اس کی مسحور کن موسیقی بھی ہے۔ پہلی خاص بات تو فلم کا آرٹ ورک ہے اور دوسری بہت ساری محنت جو اس فلم کو بنانے میں ہوئی، جس کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے اسے مانو اینیمیشن اسٹوڈیو کے یوٹیوب چینل پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اور تیسری خاص بات یعنی اس کی انتہائی سریلی، مدھر اور دلوں کے تار چھیڑنے والی موسیقی ہے، جس سے آپ فلم دیکھتے ہوئے بے حد لطف اندوز ہوں گے۔ عثمان ریاض چونکہ خود اچھے موسیقار ہیں اور امریکا کے "برکلے کالج آف میوزک” سے تعلیم یافتہ ہیں، تو اس پر انہوں نے خوب توجہ دی ہے۔ اپنے فن سے اور دنیا بھر کے چند اچھے اور منتخب فن کاروں کے کام کو شامل کرکے، ایک یادگار موسیقی تخلیق کی ہے۔ عثمان ریاض کے ساتھ ساتھ اٹلی سے تعلق رکھنے والے موسیقار "کارمین ڈی فلوریو” کی کاوشوں نے فلم کو سُروں سے بھر دیا ہے۔

    پذیرائی و مقبولیت

    اس فلم کو پاکستان میں سمیت دنیا بھر میں پسند کیا جا رہا ہے، جو بہت خوش گوار بات ہے۔ اب تک یہ فلم باکس آفس پر بھی تیس ملین سے زائد کا بزنس کر چکی ہے۔فلموں کی سب سے بڑی ویب سائٹ "آئی ایم ڈی بی” پر اس فلم کی ریٹنگ 10 میں سے 8 اعشاریہ چھ فیصد ہے۔ گوگل کے صارفین کی طرف سے اب تک پسندیدگی کا تناسب سو میں سے اٹھانوے فیصد ہے اور پانچ میں سے چار اعشاریہ آٹھ فیصد ریٹنگ ہے۔ پاکستان میں بھی فلم دی گلاس ورکر کی پسندیدگی کا تناسب کافی بہتر ہے۔
    یہ الگ بات ہے، برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی پاکستان میں اردو سروس پر عثمان ریاض کے ایک انٹرویو کی سرخی میں فلم کا اردو نام میں "شیشہ گر” کے بجائے "شیشہ گھر” لکھا گیا اور شاید اسی غلطی کو دیکھتے ہوئے فلم ساز نے فیصلہ کیا کہ اس کے اردو ورژن کو بھی "دی گلاس ورکر” ہی لکھا جائے تو بہتر ہے۔

    حرفِ آخر

    مانو اینیمیشن اسٹوڈیوز، عثمان ریاض ان کی ٹیم اور وہ سیکڑوں لوگ جنہوں نے اس فلم کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کیا، مبارک باد کے مستحق ہیں مگر اس دنیا میں اپنی الگ اور منفرد شناخت بنانی ہے، تو اسی طرح پاکستانی انداز اپنائیے، جس طرح آپ نے "ای ایم آئی پاکستان” کے لیے، پاکستان کی موسیقی کے سنہرے دور کو اینیمیشن کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اسی طرح اپنی مقامی کہانیاں، اپنے اس شان دار آرٹ کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کر کے مزید مقبولیت اور کام یابیاں سمیٹی جاسکتی ہیں۔
    ایک افسوس ناک بات یہ بھی ہوئی کہ پاکستان میں اس فلم کے تقسیم کار نے عین اس فلم کی نمائش کے موقع پر کراچی شہر کے مرکز میں واقع اپنا سینما اچانک بند کر دیا۔
    پاکستان میں فلمی صنعت اور سینما کے موجودہ حالات کے اس پس منظر میں "دی گلاس ورکر” ایک تازہ ہوا کا جھونکا ضرور ہے۔ فلم بینوں سے کہوں گا کہ آپ ہاتھ سے بنائی گئی پہلی پاکستانی ٹو ڈی اینیمیٹڈ فلم دیکھنے سینما ضرور جائیے تاکہ انتھک محنت کے ساتھ ایسی زبردست کاوش پر فلم ساز اور پوری ٹیم کی حوصلہ افزائی ہو اور پاکستانی فلمی صنعت کا یہ نیا شعبہ پھولے پَھلے اور ترقی کرے۔

  • ٹوکیو سوینڈلرز:‌ نیٹ فلیکس کی نئی جاپانی ویب سیریز

    ٹوکیو سوینڈلرز:‌ نیٹ فلیکس کی نئی جاپانی ویب سیریز

    دنیا میں دھوکہ دہی اور جعل سازی کے واقعات عام ہیں اور اس کی مختلف شکلیں ہیں۔ اس ویب سیریز کی کہانی، موجودہ جاپان کے ایک ایسے جعل ساز گروہ کے بارے میں ہے، جس نے نہ صرف عام لوگوں کو کنگال کر دیا بلکہ کئی بڑے بڑے اداروں کو بھی لوٹ لیا۔ یہ گروہ جعل سازی کے فن میں طاق ہے اور اس کے ارکان کس طرح ہاتھ کی صفائی اور چرب زبانی کو اپنا ہتھیار بناتے ہیں، یہ سب اس ویب سیریز میں دکھایا گیا ہے۔

    پہلے سیزن کی سات اقساط اتنی شان دار ہیں کہ ایک بار آپ اسے دیکھنے بیٹھے تو خود کو اگلی قسط دیکھنے سے روک نہیں پائیں گے۔ اس ویب سیریز کا تفصیلی تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    مرکزی خیال/ اسکرپٹ

    مذکورہ ویب سیریز کی کہانی ایک جاپانی ناول "ٹوکیو سوینڈلرز” سے ماخوذ ہے، جس کے مصنّف جاپانی ناول نگار کوشینجو ہیں۔ اس میں 2017ء کا وہ موقع دکھایا گیا ہے جب ٹوکیو شہر میں عنقریب اولمپکس کا انعقاد ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے مقامی زمینوں کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ فریبی کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کے لیے کیا ستم ڈھایا جاتا ہے، یہ داستان اسی کے گرد گھومتی ہے۔

    اس ناول کے انگریزی مترجم چارلس دے وولف ہیں، جن کا تعلق امریکا سے ہے۔ انہوں نے جاپان کے معروف ناول نگار ہاروکی موراکامی کے ناولوں کا ترجمہ بھی کیا ہے اور وہ جاپانی ادب میں ڈاکٹریٹ کی سند بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بہترین انگریزی ترجمے کی بدولت نیٹ فلیکس کی توجہ اس کہانی پر مرتکز ہوئی اور انہوں نے اس پر ویب سیریز بنائی۔ جتنا اچھا یہ ناول لکھا گیا ہے، اسی معیار کا ویب سیریز کے لیے اسکرپٹ بھی تحریر کیا گیا ہے، اور اسے ویب سیریز کے ہدایت کار ہتوشی ون نے ہی لکھا ہے۔ ناول کی طرح ویب سیریز کی کہانی بھی چست اور دل چسپ ہے۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھے گی، آپ کا تجسس بھی بڑھتا جائے گا۔ اس ویب سیریز کو دیکھنے والا کہانی کے تسلسل میں بہہ کر کہیں دور نکل جاتا ہے اور یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ کب کہانی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔

    ایک شخص (تاکومی تسوجیموتو) ہے جس کی وجہ سے اس کے والد کو زمین کے سودے میں دھوکہ ہوا، ردعمل میں اس کے والد نے اپنے ہی گھر کو آگ لگا دی، جس میں اُس شخص کے اہلِ خانہ راکھ ہوگئے۔ اس راکھ نے اس کی زندگی کو گویا تاریک بنا دیا۔ اُس شخص نے انتقال لینے کی نیّت سے جعلی کاغذات کی مدد سے زمینیں فروخت کرنے والے گروہ کا پیچھا کیا، اور ان کا حصّہ بن گیا تاکہ وہ اپنے پیاروں کی موت کا بدلہ لے سکے۔

    وہ نہ صرف اس گروہ کا ایک فعال رکن بنا اور وارداتوں میں ان کا ساتھ دیتا رہا۔ بلکہ اس گروہ کی کام یابیوں کی کلیدی وجہ وہی شخص (تاکومی تسوجیموتو) ٹھہرا۔ ٹوکیو شہر کی سڑکوں پر یہ گروہ دندناتا پھر رہا تھا اور آخرکار اپنے انجام کو پہنچا۔ اس انجام کو جاننے کے لیے یہ ویب سیریز دیکھنا ہوگی جسے نیٹ فلیکس پر ہندی ڈبنگ کے ساتھ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں کہیں کہیں بے باک اور پُر تشدد مناظر بھی شامل ہیں۔

    ویب سازی/ ہدایت کاری

    اس ویب سیریز کی پروڈکشن انتہائی عمدہ ہے۔ جدید جاپان کا بے مثال شہر ٹوکیو اس کہانی میں پوری آب و تاب سے چمکتا دمکتا دکھائی دیتا ہے۔ گھروں، دفتروں، گلی کوچوں، شاہراہوں اور فضائی مناظر نے کہانی میں بے مثال رنگ بھر دیے ہیں۔ اس ویب سیریز کا تھیم سونگ، سینماٹوگرافی، ساؤنڈ، ایڈیٹنگ اور لائٹنگ انتہائی شان دار ہے، خاص طور پر بصری تأثر (ویژول ایفیکٹس) کے شعبے میں سو سے زائد ہنرمندوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے، جس نے اس ویب سیریز کو بلاشبہ ایک ماسٹر پیس بنا دیا ہے۔ نیٹ فلیکس کے ذریعے یہ ویب سیریز پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے اور یہ اس ویب سیریز کا پہلا سیزن ہے۔ اس کے پروڈیوسرز ہارومیاکے اور کینیچی یوشیدا ہیں جب کہ ہدایت کار ہیتوشی ون ہیں، جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جاپانی فلمی صنعت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز کے دو اداکاروں کو ہم مرکزی کرداروں کے طورپر دیکھتے ہیں، اور ویب سیریز میں ان کے نام تاکومی تسوجیموتو اور ہیریسن یاماناکا ہیں۔ ان کے اصل نام گوایانو اور ایتسوشی توایوکاوا ہیں۔ ان دونوں نے اپنی اداکاری سے اسکرین پر ایک دوسرے کو بہت مصروف رکھا۔ دونوں کی عمروں اور تجربے میں فرق ہے، اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے پر اپنے فن کے ذریعے چھائے رہے۔ ان کے ساتھ ذیلی کرداروں میں کازوکی کیتامورا، للی فرینکی، پیرتاکی اور جاپانی اداکارہ ایکو کیوکے اور ایلزیا اکیدا شامل ہیں۔ سب نے اپنے اپنے کرداروں کو بخوبی نبھایا ہے۔

    شہرت کی سیڑھیاں

    ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ ویب سیریز اپنی شہرت کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے۔ یہ ویب سیریز جاپان میں نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین چارٹ میں پہلے نمبر پر موجود ہے۔ سینما کی دنیا میں معروف ترین فلمی ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی ریٹنگ دس میں سے سات اعشاریہ تین ہے۔ مائی ڈریم لسٹ ویب سائٹ پر دس میں سے سات اعشاریہ پانچ کے ساتھ یہ ویب سیریز سرفہرست ہے۔ گوگل کے قارئین اور ناظرین میں 100 میں سے 91 فی صد نے اسے اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ جاپان کے معروف انگریزی اخبار نے اس ویب سیریز کو پانچ میں سے تین اسٹارز دیے ہیں۔ جس قدر مہارت اور چابک دستی سے اس ویب سیریز کا سیزن ون بنایا گیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ناظرین بے چینی سے اس کے دوسرے سیزن کا انتظار کریں گے۔

    حرفِ آخر

    آپ اگر ایک ایسی کہانی کو اسکرین پر دیکھنا چاہتے ہیں جس میں ہر منظر پُرتجسس اور اشتیاق سے بھرپور ہو تو یہ ویب سیریز آپ کو اسی کیفیت سے دوچار کرے گی۔ ٹوکیو کی سڑکوں پر چلتے پھرتے لوگوں کے بیچ میں یہ گروہ کس طرح زمین کے لیے دوسروں پر زمین تنگ کرتا ہے اپنی شعبدہ بازی سے، اسے اسکرین پر دیکھ کر آپ ضرور لطف اندوز ہوں گے۔ جاپان کے مؤقر انگریزی روزنامہ "جاپان ٹائمز” نے اس ویب سیریز کے بارے میں لکھتے ہوئے اسے "موسمِ گرما کی مجرمانہ خوشی” سے تعبیر کیا۔ اس سے مراد وہ خوشی جو ایک اچھی کہانی کو اسکرین پر دیکھ کر آپ کو حاصل ہوسکتی ہے۔ تو دیر نہ کیجیے، اور اس ویب سیریز کو دیکھنے کے ساتھ عہدِ حاضر کے ٹوکیو کی سیر بھی کیجیے۔