Tag: خرم سہیل کی تحریریں

  • ویب سیریز: اسکویڈ گیم (سیزن 3)

    ویب سیریز: اسکویڈ گیم (سیزن 3)

    چند برسوں سے دنیا بھر میں جنوبی کورین فلمیں اور ویب سیریز شوق سے دیکھی جا رہی ہیں اور کچھ فلموں نے تو مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ویب سیریز اسکویڈ گیم (squid game ) انہی میں سے ایک ہے، جو ناظرین کے دلوں کو چُھو گئی ہے۔ اب تک کروڑوں‌ لوگ اس ویب سیریز کو دیکھ چکے ہیں۔ یہ دنیا کے 93 ممالک میں نیٹ فلکس کے ٹاپ ٹین کے چارٹ میں نمبر ون پوزیشن پر رہی ہے اور اس وقت ہندی ڈبنگ کے ساتھ پاکستان اور انڈیا میں بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔

    27 جون 2025ء کو اسکویڈ گیم کا پریمیئر ہوا ہے اور یہاں ہم اس ویب سیریز کے تیسرے اور آخری سیزن کا ریویو پیش کررہے ہیں۔

    کہانی/ مرکزی خیال/ اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کی کہانی اور مرکزی خیال ہوانگ ڈونگ ہاؤک کا ہے، جو اس کے ہدایت کار بھی ہیں۔ خیال نیا نہیں ہے، لیکن اس کو ایک نئے انداز میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ ہوانگ ڈونگ ہاؤک کو ایک دہائی پہلے اس کا خیال آیا تو انہوں نے جنوبی کوریا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کو یہ کہانی سنائی، مگر کسی نے اسے لائقِ توجہ نہ سمجھا بلکہ یہ کہا گیا کہ کہانی میں دَم نہیں ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ یہ کہانی نیٹ فلیکس پر اب تک ریلیز ہونے والی ویب سیریز میں سب سے زیادہ مقبول کہانی ہے۔

    کہانی نویس اور ہدایت کار ہوانگ ڈونگ ہاؤک نے جنوبی کوریا میں بچّوں کے ایک کھیل کے ذریعے جس طرح وہاں کے لوگوں کی زندگیوں کا عکاسی کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس ویب سیریز میں یہ بتایا ہے کہ کیسے عام لوگ مالی پریشانی کے ساتھ ذہنی اذیت اور مختلف منفی احساسات کے دباؤ میں آکر اپنی زندگی کو جہنّم بنا لیتے ہیں اور پیسہ کمانے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔

    یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جنہیں ایک کھیل کو انعامی رقم جیتنے سے زیادہ اپنی بقا کے لیے کھیلنا پڑتا ہے۔ انہیں اس کھیل میں حصّہ لینے کا دعوت نامہ اچانک اور پراسرار طریقے سے موصول ہوتا ہے۔ کھیل ایک الگ تھلگ جزیرے پر ہوتا ہے اور شرکاء کو اس وقت تک بند رکھا جاتا ہے جب تک کہ کوئی کھیل کا حتمی فاتح بن کر سامنے نہ آجائے۔ اس کہانی میں 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں کے کوریائی بچوں کے مقبول کھیلوں کو شامل کیا گیا ہے، جیسے اسکویڈ گیم۔ اس میں جرم اور دفاع کے گھناؤنے کھیل کے لیے اسکویڈ کی شکل کا ایک بورڈ استعمال کیا جاتا ہے۔

    ایک ایسا کھیل، جو بظاہر سادہ سا ہے اور اس کے فاتح کو کروڑوں کی رقم بطور انعام دی جائے گی۔ اس مالی لالچ میں بہت سے معصوم لوگ بھی کھیل کھیل میں ایک دوسرے کی زندگیوں سے کھیلنے لگے ہیں۔ جیسے جیسے کھلاڑی جان سے جاتے جائیں گے، ویسے ویسے انعام کی رقم میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہ کھیل اسی گھناؤنے اور خوں ریز چکر کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ہر لمحہ میں، مقابلہ کرنے والوں کو اگلی اسٹیج پر جانے سے پہلے، اپنی موت کی طرف دھکیلنے کے لیے ایک یا ایک سے زیادہ کھلاڑیوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ تیسرے زون میں کم از کم ایک شخص کو مارنے کے بعد، آخر میں جو بھی باقی رہے گا، وہ کروڑوں کی یہ رقم حاصل کرے گا۔ یہ انعامی رقم کس نے حاصل کی، یہ جاننے کے لیے آپ کو ویب سیریز squid game دیکھنا ہوگی۔

    ہدایت کاری اور اداکاری

    فلم کے ہدایت کار ہوانگ ڈونگ ہاؤک نے پہلے دو سیزن میں تو ناظرین پر اپنی صلاحیتوں اور فنی مہارت کا ایسا جادو جگایا کہ سب دیکھتے رہ گئے، لیکن تیسرے سیزن میں ایسا محسوس ہوا کہ ان کے ذہن میں جو آئیڈیا تھا، اس کا رَس گزشتہ دو سیزن میں نچوڑا جا چکا ہے اور اب تیسرے سیزن کے لیے کچھ باقی نہیں بچا۔ کم از کم تیسرے سیزن کے معیار کو دیکھا جائے یہ اپنے پچھلے دو سیزن کا آدھا بھی نہیں ہے۔ انتہائی مایوس کن ہدایت کاری اور کہانی کا مرکب، جس میں پوری ویب سیریز میں کہیں کلائمکس نہیں دکھائی دے رہا، حتٰی کہ لوکیشنز کے لحاظ سے، سیٹ ڈیزائننگ کے اعتبار سے اور پروڈکشن کے دیگر پہلوؤں سے بھی اس کا جائزہ لیا جائے تو اسے ایک بدترین اور زبردستی بنایا ہوا سیزن تھری کہا جائے گا۔ اس ویب سیریز کو دو سیزن پر ہی ختم ہو جانا چاہیے تھا۔

    اداکاری کی طرف چلیں تو مرکزی اور معاون کرداروں کو سبھی فن کاروں نے بخوبی نبھایا ہے، لیکن تینوں سیزن میں مرکزی کردار ادا کرنے والے لی جانگ جے نے تیسرے سیزن میں بھی اپنی اداکاری کا معیار برقرار رکھا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ اداکاراؤں پارک گیو-ینگ اور کانگ ای شیم کے علاوہ نوجوان اور خوبرو اداکارہ جویوری نے بھی خوب اداکاری کی ہے۔آسڑیلوی اداکارہ کیٹ بلینچٹ بطور مہمان اداکار ویب سیریز کے چند مناظر جلوہ گر ہوئی ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ پھر بھی اداکاری کے لحاظ سے سیزن تھری کو بہتر کہا جاسکتا ہے، البتہ یہ ناکام کہانی اور ناکام ہدایت کاری کا ایک نمونہ ہے۔

    عالمی میڈیا اور مقبولیت کا ڈھونگ

    عام طور پر کسی بھی فلم اور ویب سیریز کی کام یابی کے پیچھے میڈیا، بالخصوص فلم کے ناقدین کا بہت ہاتھ ہوتا ہے، لیکن ویب سیریز اسکویڈ گیم سے متعلق یہ تاثر گہرا ہے کہ اس کی اندھا دھند ستائش کی گئی، مگر جس قدر بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے، وہ معیار اس سیزن تھری میں کہیں دکھائی نہیں دیا بلکہ یہ بہت ہی بچکانہ معلوم ہوا۔ فلموں کی مقبول ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی نے اسے 10 میں سے 8 ریٹنگ دی ہے۔ نیویارک ٹائمز اور ٹائم میگزین نے بھی اس کی ستائش کر رہے ہیں۔ دیگر معروف فلمی ویب سائٹوں میں روٹین ٹماٹوز نے اسے 81 فیصد اور میٹکریٹ نے 66 فیصد بہترین قرار دیا ہے۔

    اب اگر نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین چارٹ میں شامل ہونے کی بات کریں‌ تو اس کا پس منظر یہ ہے کہ لوگ وہاں ایک سیریز دیکھ رہے ہیں، اب وہ اچھی ہے یا بری، اس کا فیصلہ ناظرین کی تعداد کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا کہ زیادہ لوگوں نے دیکھا تو کوئی فلم یا ویب سیریز اچھی ہے۔ وہ بری، مایوس کن یا پست معیار کی بھی ہو سکتی ہے۔

    حرفِ آخر

    میری رائے ہے کہ اگر آپ اسکویڈ گیم کا سیزن تھری دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے پہلے دو سیزن ضرور دیکھ لیں جس سے آپ یہ جان سکیں‌ گے کہ کس طرح سیزن تھری تک آتے آتے ویب سیریز نے اپنا معیار کھویا ہے۔ اس کا بنانے والوں کو بھی شاید اندازہ ہے اسی لیے اس کو آخری سیزن بھی قرار دیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ گزشتہ دو سیزن کی مقبولیت کو نیٹ فلیکس نے اس تیسرے سیزن میں صرف کیش کیا ہے۔ اس طرح کاروباری سودا تو خوب خوب رہا، مگر معیار کے لحاظ سے یہ پست اور عامیانہ ہے، جسے دیکھنا میرے نزدیک وقت کا ضیاع ہے۔ اس سے کہیں زیادہ بہتر تو ہمارے پاکستانی ڈرامے ہیں، لیکن نیٹ فلیکس ہماری فلموں اور ویب سیریز کو اپنے پلیٹ فارم پر جگہ نہیں دیتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ جنوبی ایشیا (انڈیا) میں پڑوسیوں کی اجارہ داری ہے، کیونکہ نیٹ فلیکس کا جنوب ایشیائی ہیڈ آفس انڈیا میں ہے۔پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کے انٹرٹینمنٹ کے اداروں کو متوجہ کرے، کیوں کہ پاکستان بھی نیٹ فلیکس کا بڑا گاہک ہے۔

  • تہذیبِ گم گشتہ کی کہانی اور عہدِ موجود کے زوال کا بیان۔ مذاقِ خاص

    تہذیبِ گم گشتہ کی کہانی اور عہدِ موجود کے زوال کا بیان۔ مذاقِ خاص

    دنیا بھر میں تین ایسے فنون ہیں، جن کو پرفارمنگ آرٹس کی بنیاد سمجھا جاتا ہے، وہ تھیٹر، موسیقی اور رقص ہیں۔ پاکستان میں موسیقی کو سب سے زیادہ عروج ملا۔رقص تو کسی طور اپنا نام ٹھیک طور سے درج ہی نہ کروا سکا۔ باقی رہ گیا تھیٹر، تو اس فن کے نام پر کچھ کام ہوا، مگر اس تناظر میں ہونے والی تمام کوششیں انفرادی تھیں۔ کسی ادارے کے تحت جو کام ہوا، اس میں صرف دو ادارے "نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس” اور "کراچی آرٹس کونسل” دکھائی دیتے ہیں، جن میں سے اوّل الذکر تو مغربی ڈراما نگاری کے اثر سے تاحال باہر نہیں آسکا، البتہ کراچی آرٹس کونسل نے دیر سے سہی، مگر مقامی تھیٹر پر اپنی توجہ مرکوز کی، جو قابلِ تحسین ہے۔ اس سلسلے میں "عوامی تھیٹر فیسٹیول” تازہ ترین پیشکش ہے، جس میں ہر طرز اور مزاج کے تھیٹر کو جگہ ملی۔ اس ناٹک میلے میں سے ہم نے جس کھیل کا انتخاب کیا، اس کاعنوان”مذاقِ خاص” ہے۔

    مرکزی خیال/ مکالمے/ لفظیات

    یہ انسانی فطرت ہے، ہم جذباتی طور پر جن مقامات سے جڑے ہوتے ہیں، اس کا موازنہ ضرور کرتے ہیں کہ وہ مقام ماضی میں کیسا تھا اور حال میں کیسا ہے۔ ایسے ہی جذبات کے مد و جزر پر مبنی کھیل "مذاقِ خاص” تھا، جس میں عہدِ حاضر کے کراچی کا ایک معروف مقام "آرام باغ” دکھایا گیا ہے، جو ماضی کی شان دار تہذیب کا نوحہ پیش کررہا ہے۔ وہ عہد جب کراچی تہذیب و تمدن کا مرکز ہوا کرتا تھا، اس وقت اس باغ کا نام "رام باغ” تھا، جو آرام باغ ہو گیا۔ تہذیبِ گم گشتہ کی ایک ان کہی داستان کو مرکزی خیال کے ذریعے تمثیلی تخلیق کر کے پیش کیا گیا۔ یہ ترکیب تو انتہائی عام ہے، مگر اس کو جس خاص انداز سے پیش کیا گیا، وہ متاثر کن ہے۔ اسے ڈراما نویس نے "شہرِ خراب کا رام باغ” پکارا ہے اور یہ بنیادی تصور دیا کہ "تہذیب روایات نہیں رویہ ہے۔”

    اس تصور کو مزید بیان کرتے ہوئے جمال مجیب قریشی کہتے ہیں کہ "رام باغ عوام کے لیے کبھی ایک تفریح گاہ تھی، اب ایک اجاڑ ویران باغ ہے۔ شہر کے معیاری نفسیاتی اسپتال سے مریض بھاگ کر اکثر اس سرکاری باغ میں آکر چھپ جاتے ہیں۔ یہ سرکاری تحویل میں ایک ایسا مقام ہے جو ایک ایک گم گشتہ طبقاتی معاشرے کا کھنڈر بھی ہے۔ یہ ایک شکستہ مقام ہے۔ اس کے ہر ذرے پر ایک سوالیہ نشان کندہ ہے۔ اس باغ میں پھیلے سوکھے پتوں کی نیچے ایک آتش فشاں دہک رہا ہے۔ یہ ایک اجاڑ زنداں ہے۔ یہاں رات کے وقت بے چین ارواح کا گزر ہوتا ہے۔”

    اس کھیل میں اداکاروں نے جو مکالمے ادا کیے، اور جو خود کلامی (مونو لاگ) تھے، وہ ذو معنی اور شعریت سے لبریز تھے، ادبیت سے بھرپور تھے اور صرف یہی نہیں بلکہ بین السطور بھی ایسے موضوعات تھے، جو آج کے حالاتِ حاضرہ کی منظر کشی کرتے ہیں، یعنی وہ باتیں بیان ہوئیں، جنہیں اب سماج میں کہنے کی کھلے بندوں اجازت نہیں ہے۔ اس باریک کام کو ڈراما نویس جمال مجیب قریشی نے بھرپور طور سے کر دکھایا۔ پھر اس کھیل کی ایک اور شان دار بات اس کی لفظیات ہیں، جس کو سماعت کر کے اور اسٹیج پر مکالموں کی صورت میں دیکھ کر لطف آگیا۔ اس کھیل میں وہ مذاق جو آپ کے ذوق کا عکاس ہوتا تھا، اس کو بھی بیان کیا گیا اور اس مذاق کو بھی، جس کو صرف ہم اڑانا مقصود سمجھتے ہیں۔ اس ناٹک کی کہانی کے بیان میں تہذیب کے زوال کے ساتھ ساتھ جس طرح فکشن کے دو کرداروں کو ملا کر کہانی بیان کی گئی ہے، وہ ترکیب بھی دل کو بھائی ہے۔ایک طرف امتیاز علی تاج کے ڈرامے کی "انار کلی” اور دوسری طرف مرزا ہادی رسوا کے ناول کی امراؤ جان ادا کا امتزاج دکھایا گیا ہے۔

    کہانی و کردار

    اس ڈرامے کا آغاز ایک صحافی کے کردار "شاہد میر” کے نمودار ہونے سے ہوتا ہے، ( جمال مجیب قریشی) جو صحافی ہے، آرام باغ نامی ایک پارک میں بینچ پر ماضی کی یادوں میں غرق ہے۔ پس منظر میں ایسی موسیقی ہے، جس سے ناسٹیلجیا بڑھ جاتا ہے، ماضی کی تصویریں ایک ایک کر کے ذہن کے پردے پر ابھرنے لگتی ہیں اور اسٹیج پر کرداروں کی صورت میں بھی عہدِ گم گشتہ کے یاد آنے کی شدت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ اسی ترتیب میں اگلا دلکش کردار "امراؤ جان ادا” کا ہے (فاطمہ علی بھائی)، جو اپنی اسی سج دھج سے طلوع ہوتا ہے، جو اس کردار کی شان ہے۔ ان دونوں کرداروں کے مکالمات، تاریخی پس منظر، شان دار اور منظوم و غیر منظوم مکالمات کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی ہے۔ یہ عہدِ حاضر ہے، جس کو ماضی اور حال کے کرداروں کے ساتھ ملا کر دکھایا گیا ہے۔

    اسکرپٹ کے منظر نامے کی ایک جھلک

    ڈرامے کا آغاز استاد بڑے غلام علی خان کی ٹھمری "آجابالم پردیسی”سے شروع ہوتا ہے۔ ایک صدا کار(جمال مجیب قریشی) کی صدا اسٹیج پر اور ہال میں گونجتی ہے کہ "یہ شہر خرابی کا رام باغ ہے، جو اب آرام باغ ہے۔ اور میں ایک جرنلسٹ ہوں۔ آدھا سچ اخبار میں چھپتا ہے اور پورا سچ میں اپنی ڈائری میں لکھتا ہوں۔ میں کہانیاں لکھتا ہوں، مظلوموں کی محرومیاں، زمانے کی ستم ظریفیاں، میرا قلم زخم قلم بند کرتا ہے۔ یہ رام باغ بھی زخموں سے چور ہے۔ کبھی یہاں گل ہی گل تھے اور اب خار ہی خار ہیں۔ کبھی یہاں پیڑوں کی چھاؤں تلے رومیو جولیٹ۔ شیریں فرہاد، لیلی مجنوں، ہیر رانجھا نظر آتے تھے۔ اب یہاں کچرے کا ڈھیر نظرآتا ہے۔ نشے کے عادی افراد اور گداگر نظر آتے ہیں۔ یہ باغ اب ایک باغ کم اور ایک کھنڈر زیادہ ہے۔

    کبھی رام باغ کی ایک جھلک دیکھنے بہت سے لوگ آتے تھے، اب یہاں کوئی نہیں آتا۔ اس سیاہ رات میں یہ باغ سسکیاں لے رہا ہے۔ کھنڈر سے بے چین روحوں کی آوازیں میرے تعاقب میں ہیں۔ یہ رات ایک درد بھری رات ہے۔ میں سونا چاہتا ہوں پر مجھے نیند نہیں آتی۔ یادیں مجھے سونے نہیں دیتیں۔ رام باغ کی ایک سہانی یاد آج تک میرے خیالوں میں تازہ ہے۔ وہ رات میں کبھی بھول نہیں پایا۔ کاش وہ رات کبھی پھر سے بسر ہو۔ کاش میری محبت پھر سے میری نظروں کے سامنے آجائے۔ کاش میں پھر سے اظہار محبت کرسکوں۔ "صدا کاری کے ایسے کئی شاہکار تھے، جنہوں نے حاضرین کی سماعتوں کو معطر کیا۔

    دیگر کردار اور کہانی کا کلائمکس

    ان دو مرکزی کرداروں کے بعد تین مزید کردار اسٹیج پر وارد ہوتے ہیں، جو ہیں حافظ (منان حمید)، ایک پولیس افسر (صابر قریشی) اور ایک دانشور ڈاکٹر عرفان اللہ (شاہد نظامی)۔ ڈاکٹر عرفان اپنی اردو شاعری کی بابت، گفتگو کے دوران معاشرے میں موجود طبقاتی فرق کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ پاگلوں کے ڈاکٹر کے طور پر اس کردار میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ اگلے منظر میں ایک اور تاریخی کردار، انار کلی (کومل ناز) سلیم (جمال مجیب) کے ساتھ محو گفتگو دکھایا گیا ہے۔ اس کہانی کا کلائمکس اس بات پر ہوتا ہے کہ کون سمجھ دار اور کون پاگل اور عہدِ حاضر کی حالت زار بگڑتے ہوئے کہاں تک آپہنچی ہے اور تہذیب کے نام پر کیا کچھ ہے، جو ہم کھو چکے ہیں۔ کہانی کا دورانیہ مختصر تھا، کردار میں جامعیت تھی اور مکالمے چست تھے، جن میں چومکھی پہلو تھے۔ ایک عرصے بعد اتنی اچھی کہانی کسی منچ پر دیکھنے کو ملی۔

    اداکاروں کی اداکاری

    اس کھیل میں تمام اداکاروں نے اپنی بساط میں اچھی اداکاری کی، مگر "امراؤ جان ادا” کے کردار میں فاطمہ علی بھائی نے اپنے فن سے حاضرین کو مبہوت کر دیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ان کا پہلا اسٹیج ڈراما تھا، جس میں انہوں نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس کا کریڈٹ، کھیل کے ہدایت کار نعمان خان کو جاتا ہے، جنہوں نے ان سے اس قدر عمدگی سے کام لیا۔ جمال مجیب قریشی اور کومل ناز نے بھی اپنی اداکاری سے متاثر کیا جب کہ دیگر فن کاروں نے بھی اس رنگین مگر اداس ناٹک میں اپنے اپنے حصے کے رنگ بخوبی بھرے، مگر مزید نکھار پیدا کیا جا سکتا تھا۔

    ہدایت کار کی ہدایت کاری

    نعمان خان کراچی آرٹس کونسل سے وابستہ اور تھیٹر کے عاشق ہیں۔ انہوں نے اس فن کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کی تازہ ترین پیشکش نے عوامی تھیٹر فیسٹیول میں ایسے حاضرین کو چونکا دیا ہے، جنہیں تہذیب و تمدن اور شعر و ادب جیسے موضوعات میں دلچسپی ہے۔ چالیس منٹس کے مختصر دورانیے میں، منچ پر دو ادوار کو پیش کرنا، دو تہذیبوں کا موازنہ اور تجزیہ کرنا ایک باریک اور مشکل کام ہے، جس کو بہت عمدگی سے نعمان خان نے جمال مجیب قریشی کے شان دار اسکرپٹ و صدا کاری کی بدولت نبھایا۔ امید ہے وہ مستقبل میں بھی ایسے کھیل باذوق افراد اور مداحوں کے لیے پیش کرتے رہیں گے۔

    آخری بات

    یہ ناٹک، کہانی اور لفظیات کے اعتبار سے سب شعبہ جات میں نمایاں رہا۔ اداکاری اور اسٹیج مینجمنٹ میں بھی مزید کام ہو سکتا تھا۔ پورے کھیل میں موسیقی کی صورت میں فلمی رنگ غالب رہا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مجموعی طور پر ہدایت کاری عمدہ اور کہانی نویسی شان دار تھی۔ جمال مجیب قریشی، نعمان خان اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ تھیٹر سے وابستہ اداروں کو چاہیے، اس طرز کے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان جیسے فن کاروں کو مزید مواقع دیں تاکہ ہم مقامی اور حقیقی تھیٹر کو فروغ دے سکیں۔

  • دشتِ سُوس۔ حسین بن منصورحلاج۔ ایک غِنائیہ

    دشتِ سُوس۔ حسین بن منصورحلاج۔ ایک غِنائیہ

    آج عہدِ حاضر میں، اگر اردو ادب کے دس بڑے اور اہم ناولوں کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں جمیلہ ہاشمی کا ناول ”دشتِ سوس“ سرِ فہرست ہوگا۔ تصوف پر مبنی، حسین بن منصور حلاج کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہوا یہ ناول تاریخی طور پر جو اہمیت رکھتا ہے، اس کی اپنی حیثیت ہے، لیکن اردو زبان، شان دار نثر اور کہانی کی بُنت میں یہ ناول اپنے وقت کے کئی بڑے ناولوں سے آگے ہے۔ اس ناول میں اردو زبان، نثر کے پیرائے میں شاعرانہ بلندی کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ناول اس وقت لکھا گیا، جب اردو ادب کے منظر نامے پر قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور انتظار حسین جیسے منجھے ہوئے ادیب ناول نگاری کررہے تھے۔ ایسے بہت سارے مہان ادیبوں کے درمیان جمیلہ ہاشمی نے ”دشتِ سوس“ اور ”تلاشِ بہاراں“ جیسے ناول لکھ کر نمایاں مقام حاصل کیا۔ اس ناول کو سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور نے شائع کیا ہے۔ تھیٹر کے لیے یہ ناٹک اسی ناول ”دشتِ سوس“ سے ماخوذ ہے، جس پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    مرکزی خیال/ کہانی

    مرکزی خیال اسلامی تاریخ کی مشہور صوفی شخصیت ”حسین بن منصور حلّاج“ کی سوانح کو بیان کرتا ہے۔ تصوف سے وابستہ منصور حلّاج نے اناالحق کا نعرہ لگایا اور معتوب ٹھہرےاور اس کی پاداش میں انہیں سوئے دار جانا پڑا۔ اسلامی تاریخ میں بالخصوص تصوف کے تناظر میں ان کی روداد کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جمیلہ ہاشمی کے لکھے ہوئے ناول کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے دل کو چُھو جانے والی نثر میں اس ناول کو لکھا اور ان کی نثر کا انداز بھی شاعرانہ ہے، جیسے صوفیوں کی شاعری کو نثر میں پرو دیا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے تصوف پر مبنی ادب کی پوری تاریخ میں اس ناول کا مقام جداگانہ رہا، کیونکہ اس ناول کا پلاٹ، کردار، زبان و بیان اور اسلوب سب سے مختلف تھا۔ آج بھی قارئین کو یہ ناول مستغرق رکھے ہوئے ہے۔

    مذکورہ تھیٹر کا کھیل، جس کا عنوان ناول کے نام پر ہی ہے، اس کی ڈرامائی تشکیل شاہنواز بھٹی کی کاوش ہے۔ ایک ضخیم ناول سے تھیٹر کے منچ کے لیے ان کی ماخوذ کہانی تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے دورانیے پر محیط ہے۔ سب سے پہلے تو وہ داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور دشتِ سُوس جیسے ناول کو ناٹک کی کہانی میں بدلا۔ ان کی کوشش بہت متاثر کن ہے، مگر جو ناول پڑھ چکے ہیں، وہ ظاہر ہے اس ڈرامائی تشکیل سے متاثر نہیں ہو پائیں گے، کیونکہ اس ناول کی سب سے نادر بات اس میں برتی گئی زبان تھی، جس کو ہدایت کار اور اخذ کنندہ نے ہلکی پھلکی زبان میں منتقل کر دیا، جس کی وجہ سے ناول کا مجموعی تاثر زائل ہو گیا۔

    ہدایت کاری

    اس کھیل کی ہدایت کاری کے فرائض بھی شاہنواز بھٹی نے انجام دیے، جو طویل عرصے سے تھیٹر اور فلم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس کھیل میں انہوں نے ایک خاص سیاہ پس منظر میں پوری کہانی پیش کی۔ کھیل کی طوالت زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کو محسوس ہوا کہ حاضرین اکتاہٹ کا شکار ہوسکتے ہیں، تو انہوں نے ایک گھنٹے کے دورانیے کے بعد دس منٹ کا وقفہ دے دیا، میرے خیال میں یہ ڈرامائی موڑ اس ناٹک کی موت تھی۔ اگر یہ تھیٹر کے عام طور پر معین اصولوں کے مطابق بغیر کسی وقفے کے کہانی کو جاری رہنے دیتے تو دھیرے دھیرے کہانی کا جو تاثر دیکھنے والوں پر طاری ہوا تھا، وہ دم نہ توڑتا۔ اب عالم یہ تھا کہ وقفے کے بعد حسین بن منصور حلّاج کا کردار جب اپنا مونولوگ بول رہا تھا تو حاضرین میں ایک ہلچل تھی، جیسے کہ ابھی تک وقفہ ختم نہ ہوا ہو۔ جمے جمائے تاثر کو وقفہ دے کر ضائع کر دینا ایک تکنیکی غلطی تھی، جو اس کھیل میں کی گئی۔

    کھیل پر ڈیزائن کیے گئے کرداروں کی اداکاری کو ایک ہی فریم میں ڈیڑھ گھنٹے تک رکھ کر دکھایا گیا، جس سے اکتاہٹ ہونا فطری عمل تھا۔ اس کھیل کو ایک گھنٹے سے زیادہ کا نہیں ہونا چاہیے تھا اور چند فریم ضرور بدلنے چاہیے تھے۔لائٹنگ کا استعمال بھی کم رکھا گیا۔ لائیو موسیقی کا اہتمام عمدہ تھا، مگر اس کا استعمال بھی انتہائی محدود کیا، جب کہ اس کی بدولت ناٹک میں مزید جان پڑ سکتی تھی۔ ملبوسات کو ارم بشیر نے ڈیزائن کیا، جو کہانی کی کیفیت سے مطابقت رکھتے تھے۔ مجموعی طور پر ایک اچھی کوشش تھی، جس کو سراہا جانا چاہیے۔

    اداکاری

    اس کھیل میں مرکزی کردار حسین بن منصور حلاج کا تھا، جس کو تھیٹر سے وابستہ نوجوان اداکار ارشد شیخ نے عمدگی سے نبھایا۔ افسانوی شہرت کے حامل اس صوفی کردار کو اس کے والد یعنی منصور حلاج کی نسبت سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ کردار پارس مسرور نے نبھایا اور ہمیشہ کی طرح اپنی اداکاری سے متاثر کیا۔ دیگر اداکاروں میں بھی سب نے اپنے اپنے حصّے کے کرداروں کو خوب نبھایا، بالخصوص جنید بغدادی کے کردار میں سرفراز علی، ابو عمر قاضی کے کردار میں زبیر بلوچ، آقائے رازی کے کردار میں مجتبیٰ زیدی، اغول کے کردار میں طوبیٰ نعیم، محمی کے کردار میں عامر نقوی اور ہندی سوداگر کے کردار میں نادر حسین قابل تعریف ہیں۔ باقی سب اداکاروں نے بھی اچھا کام کیا، لیکن مذکورہ ناموں نے اپنے کرداروں سے کہانی میں ایک کیفیت پیدا کر دی جس کا سہرا ہدایت کار کو بھی جاتا ہے۔

    آخری بات

    یہ کھیل چونکہ آشکارہ آرٹ پروڈکشن کا تھا، جب کہ اس کو نیشنل اکادمی آف پرفارمنگ آرٹس کے ضیا محی الدین تھیٹر ہال میں پیش کیاگیا۔ اب ناپا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مغربی اثر سے نکل کر مقامی رنگ کو اپنی کہانیوں میں جگہ دیں۔ اردو ادب اور دیگر پاکستانی زبانوں کے اندر کہانیوں کے خزانے موجود ہیں، انہیں کوشش کرنا ہو گی، ایسی کوشش جو شاہنواز بھٹی صاحب نے کی۔ اب جنہوں نے جمیلہ ہاشمی کا ناول نہیں پڑھا ہوا، وہ اس کھیل سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، لیکن جو اس ناول کے قاری ہیں، ان کے سامنے ناٹک کے کرداروں سے ناول کا بیانیہ اور کردار بار بار ٹکرائیں گے، جو کہ فطری بات ہے۔ ایسے ناول بہت کم لکھے جاتے ہیں، اس پر ایک سے زائد تھیٹر کے ڈرامے بننے چاہییں۔ پہلی کوشش پر شاہنواز بھٹی اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔

    اس ناول کی ابتدا جس منظر سے ہوتی ہے اور قاری اسے پڑھنا شروع کرتا ہے تو ناول کے پہلے باب صدائے ساز میں، دوسرے صفحہ پر ایک کردار کچھ یوں گویا ہے کہ ہم سنتے ہوئے مبہوت ہو جائیں۔ تھیٹر کے لیے ناٹک کی شروعات بھی اسی سے ہوئیں۔ وہ کلام ملاحظہ کیجیے، انہیں پڑھ کر اور سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ پھول ہیں، جن کو ایک صوفی پر نچھاور کیا جا رہا ہے اور کبھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ کل زندگی کا فلسفہ ہے اور اس ناول اور کہانی کا خلاصہ بھی، جس کو یہاں نظم کیا گیا ہے۔ جمیلہ ہاشمی کی اس شان دار نثر کے ساتھ ساتھ یہ نظم، جس میں کردار کچھ یوں گویا ہے

    عشق ایک مزرعِ گلاب ہے
    اس کی پگڈنڈیاں ان کے لیے ہیں
    جو عاشقوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں
    عشق کی نشانیاں توفیق اور مہربانیاں
    ان کی منزل ہیں
    اور مہجوریاں غم خاموش اور برداشت
    کبھی نہ ختم ہونے والا سوز ہمیشگی اور اذیت ناکی
    اس کی شان ہے
    اس کے سوا باقی سب گم کردہ منزل
    جہالت اور وحشت تنہائی
    اور بے جادہ گردش ہے
    عشق مزرعِ زندگی ہے
    (دشتِ سُوس)

  • کوٹا فیکٹری….. سیزن 3

    کوٹا فیکٹری….. سیزن 3

    پاکستان ہو یا ہندوستان، تقسیم کے بعد سے آج تک دونوں ممالک کچھ ایسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش نہیں کرسکے اور انہیں حل نہیں کیا جاسکا ہے۔ ان میں ایک اہم ترین مسئلہ تعلیم کا وہ نظام ہے جو انفرادی اور اجتماعی سطح پر معاشرے کو متاثر کررہا ہے۔ دونوں ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طلبا کس طرح تعلیمی نظام میں استحصالی قوتوں کا شکار ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی زندگی اور شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ یہ ویب سیریز "کوٹا فیکٹری” اسی صورت حال کو بیان کرتی ہے اور اسے دیکھنے سے ہمیں انڈیا پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کے تعلیمی نظام کی خرابیوں اور کمزوریوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

    مرکزی خیال/ کہانی/ اسکرپٹ

    ویب سیریز "کوٹا فیکٹری” کا مرکزی خیال بہت اچھا ہے کہ کس طرح ناقص نظامِ تعلیم طلبا کی شخصیت کو تباہ کرتا ہے اور اس نظام میں تعلیم کا حصول زندگی کو بہتر بنانے کے بجائے کس طرح ابتری کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کہانی میں راجستھان کے شہر "کوٹا” کو مرکز بنایا گیا ہے۔ ساری کہانی کا تانا بانا اسی کے اردگرد بُنا گیا ہے۔ یہ شہر ٹیوشن سینٹرز اور کوچنگ سینٹرز کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ یہاں کے پڑھے ہوئے طلبا کسی بھی بڑی جامعہ میں داخلہ لینے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ اب اس شہر میں کس طرح یہ ٹیوشن مافیا طلبا کو اپنی طرف راغب کرتا ہے، اس کھینچا تانی میں طلبا کا کیا حشر ہوتا ہے، اور جو یہ دوڑ نہیں جیت پاتے، وہ جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر کن مسائل سے گزرتے ہیں، یہ کہانی ان کی اسی تکلیف اور خلش کو بیان کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک اچھا استاد کیسے اپنے طلبا کے لیے مشعلِ راہ بنتا ہے، یہ کہانی اس مثبت اور سنہری پہلو کو بھی بخوبی بیان کرتی ہے۔

    اس مرکزی خیال کے خالق اور اسکرپٹ نویس "تاموجیت داس” ہیں، اور اسے معروف انڈین پروڈیوسر "ارونابھ کمار” کی معاونت سے لکھا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ یہ مرکزی خیال ارونابھ کمار صاحب کا ہی ہے، جس کو انہوں نے تاموجیت داس کے حوالے کیا اورانہوں نے اس کی ڈرامائی تشکیل کی۔ ارونابھ کمار کی یہ کہانی اس لیے ذاتی لگتی ہے کیونکہ اس ویب سیریز میں جس تعلیمی ادارے "انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی” کا ذکر ہے کہ جس میں داخلے کے لیے طلبا ٹیوشن مافیا کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں، یہ صاحب اسی تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے اس مرکزی خیال میں یقینی طور پر ذاتی تجربات شامل کیے ہوں گے جن کو اسکرپٹ رائٹر نے باکمال انداز میں لکھا ہے۔ مکالمے بہت جان دار اور کہانی کا تسلسل بہت مناسب اور عمدہ ہے۔

    ویب سازی/ ہدایت کاری

    کوٹا فیکٹری کے اب تک تین سیزنز ریلیز کیے جا چکے ہیں۔ چوتھے سیزن کی بھی نوید ہے۔ ایک پرائیویٹ انڈین اسٹریمنگ پورٹل اور یو ٹیوب سے شروع ہونے والی اس ویب سیریز کو نیٹ فلیکس نے اچک لیا اور یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید شہرت سمیٹ رہی ہے۔ اس کہانی کو بلیک اینڈ وائٹ تھیم میں عکس بند کیا گیا ہے، جس سے بیانیے میں مزید جان پڑ گئی اور بغیر کسی گلیمر کے اسکرپٹ میں کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ انداز بہت متاثر کن اور قابلِ تقلید ہے۔ اس ہندوستانی ویب سیریز کوٹا فیکٹری کے ہدایت کار راگھو سوبا اور پراتش مہتا ہیں۔

    دونوں نے اچھے انداز سے اپنے کام کو نبھایا ہے، لیکن خاص طور پر پراتش مہتا جو کہ اس شعبے میں نئے ہیں، لیکن انہوں نے اب تک جتنا کام کیا ہے، اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح تعلیمی نظام پر بنی کہانیوں سے ہے، تو یہ اہم بات ہے کہ وہ اس موضوع پر ویب سیریز اور فلمیں بنانے والے ایک خاص ہدایت کار بنتے جا رہے ہیں۔ ویب سیریز میں دیگر شعبوں جن میں خاص طور پر کلر گریڈنگ، لائٹنگ، کاسٹیومز، لوکیشنز اور موسیقی، تمام شعبوں کا بہتر طریقے سے خیال رکھا گیا، تدوین اور پوسٹ پروڈکشن کے معاملات بھی اچھے سے نبھائے گئے، یہ پاکستانی شوبز، کانٹینٹ بنانے والے ادارے اور فلم سازوں کے لیے سبق ہے کہ اگر آپ کو اپنے موضوع اور کہانی پر گرفت ہو، تو آپ کو کمرشل دنیا میں بھی اتنی ہی توجہ ملے گی، جتنی کہ دیگر گلیمر پر مبنی سینما کو ملتی ہے۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز کا یہ بھی خاصّہ ہے کہ کاسٹنگ کرتے وقت کرداروں کی نوعیت، ان کی عمروں اور ان کے ظاہری حلیے کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے ویب سیریز کوٹا فیکٹری حقیقت سے قریب تر محسوس ہوئی ہے۔ اس میں ایک بڑی تعداد کوچنگ سینٹرز کے طلبا کی ہے، جنہوں نے شوٹنگ میں حصہ لیا۔ ویب سیریز کے نوجوان اداکاروں میں جیتندر کمار(ٹیچر) اور احساس چنا(نمایاں طالبہ) میور مور(مرکزی طالب علم) رانجن راج (نمایاں طالب علم) عالم خان (نمایاں طالب علم) سمیت دیگر تمام اداکاروں نے اپنی اپنی جگہ اچھا کام کیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ کچھ مختصر کردار مشہور اداکاروں نے بھی نبھائے لیکن ان کو گلیمرائز نہیں کیا گیا بلکہ کہانی کی روانی میں وہ شامل ہوئے، ان کا کردار آیا اور چلا گیا۔ اس انداز نے ویب سیریز کو طلبا کی زندگی سے بہت قریب کر دیا اور اداکاروں نے اپنی اداکاری اور جان دار مکالمات کہ وجہ سے اسے بہترین بنا دیا۔

    آخری بات

    ویب سیریز کوٹا فیکٹری تعلیمی نظام کے اس تاریک پہلو کو بیان کرتی ہے جس میں طالب علموں کو تعلیم کے نام پر ایک دھندے کی نذر کردیا جاتا ہے، جہاں وہ کس طرح پہلے ٹیوشن اور کوچنگ مافیا کا شکار ہوتے ہیں، پھر ان نام نہاد معروف تعلیمی اداروں کا، جن میں انہیں داخلہ لینا ہوتا ہے، اور پھر اس کیریئر میں مشکلات سے گزرتے ہیں، جہاں وہ اتنی محنت کر کے پہنچے ہوتے ہیں۔ انڈیا ہو یا پاکستان، یہ درست ہے کہ ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک میں تعلیم کے نام پر اب تک یہی ہوتا آیا ہے۔ اس نظام کو تبدیل ہونا چاہیے، یہ کب ہوگا، نہیں معلوم، مگر یہ تبدیلی ناگزیر ہے۔

  • آدو جیویتھم۔ دی گوٹ لائف (فلم ریویو)

    آدو جیویتھم۔ دی گوٹ لائف (فلم ریویو)

    ان دنوں سوشل میڈیا پر، ملیالم زبان میں بننے والی ایک ہندوستانی فلم ”آدو جیویتھم۔دی گوٹ لائف“ کا بہت چرچا ہے۔ اس فلم کا مرکزی کردار نجیب محمد ہے، جو روزگار کی تلاش میں سعودی عرب جاتا ہے۔ وہاں اسے حادثاتی طور پر کن مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فلم میں یہ دکھایا گیا ہے۔ لیکن اصل واقعہ پر مبنی اس کہانی کا حقیقی انجام نہیں دکھایا گیا ہے۔ اس لحاظ سے فلم کی کہانی کو تو ادھورا ہی کہا جائے گا، مگر پوری بات سمجھنے اور حقائق جاننے کے لیے اس فلم کا یہ مفصل تجزیہ اور تبصرہ پڑھ سکتے ہیں۔

    مرکزی خیال/ کہانی/اسکرپٹ

    فلم سازوں نے یہ اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ کہانی مضبوط ہوگی تبھی فلم یا ویب سیریز کام یاب ہوسکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں جتنا سینما تخلیق ہو رہا ہے، اس میں سے تقریباً پچاس فیصد کہانیوں کا ماخذ کتابیں ہیں۔ مقبول ناولوں اور سوانح عمریوں پر بہت شان دار فلمیں اور ویب سیریز بنائی جا رہی ہیں۔ انڈیا میں بھی مذکورہ فلم ملیالم زبان میں لکھے گئے ناول ”آدو جیویتھم“ سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے، جس کے انگریزی میں لغوی معنی ”گوٹ لائف“ (بکری کی زندگی) ہیں۔

    اس ناول کے خالق بن یامین ہیں، جو ملیالم زبان کے معروف ادیب ہیں۔ اس فلم کے ہدایت کار بلیسی نے جب یہ ناول پڑھا، تو اسی وقت اس پر فلم بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس فلم میں خلیجی ممالک کے باشندوں کی نفسیات اور غیر عرب لوگوں کے ساتھ ان کے رویّے اور ناروا سلوک کو ناول میں مصنف نے بہت خوبی سے بیان کیا ہے۔ اس باریک بینی اور تفصیل کے پیچھے ناول نگار کا ذاتی مشاہدہ بھی موجود ہے، کیونکہ انہوں نے بحرین میں اپنی زندگی کے کئی سال گزارے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اس کہانی میں تکلیف دہ رویوں اور امتیازی سلوک کی واضح جھلک دیکھنے کو ملی ہیں۔ مذکورہ فلم میں ایک مجبور شخص کی زندگی کو بہت مؤثر طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔

    خلیجی ممالک میں کفیل کا نظام رائج ہے، جس کے تحت وہاں روزگار کے لیے جانے والے غیر ملکیوں کو عرب لوگوں کے زیرِ سرپرستی کام کرنا پڑتا ہے۔ فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک ہندوستانی کس طرح ایک کفیل کے دھوکے میں آ جاتا ہے، جو لوگوں کو غیر قانونی طور پر صحرا میں قید کر کے ان سے جبری مشقت کرواتا ہے۔ یہ ہندوستانی اور دوسرے دو قیدی وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، ان تین میں سے دو افراد صحرا میں سخت گرمی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اور ایک کسی مقامی عرب شخص کی مدد سے زندہ بچ جاتا ہے۔ یہی وہ مرکزی کردار نجیب محمد ہے، جس کی کہانی کو فلم میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک حقیقی واقعہ پر مبنی کہانی ہے، جس کے مطابق متاثرہ فرد کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کیا جاتا ہے اور بعد میں اسے باعزّت طریقے سے ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے، جب کہ اس فلم میں کہانی وہیں ختم ہوجاتی ہے، جہاں وہ صحرا سے زندہ نکلنے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔ اس کہانی کے اسکرپٹ رائٹر، مکالمہ نویس اور فلم ساز بلیسی نے بڑی بد دیانتی سے کام لیا اور فلم میں پوری کہانی بیان نہیں کی، جو اس فلم کا سب سے بڑا منفی پہلو ہے۔

    فلم سازی/ ہدایت کاری/ اداکاری

    اس فلم کو سعودی عرب اور دبئی میں فلمانے کی اجازت نہ ملنے کے بعد اسے عراق اور الجزائر کے صحراؤں میں فلمایا گیا ہے۔ اس کی عکس بندی کے لیے انڈیا میں راجستھان کا انتخاب بھی کیا جاسکتا تھا، لیکن فلم ساز نے حقیقت سے قریب تر رہنے کے لیے اسے انڈیا سے باہر عکس بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ فلم کے ہدایت کار 2008 سے اس کہانی پر کام کر رہے تھے۔ جیٹ میڈیا پروڈکشن کے جمی جین لوئس اور اَلٹا گلوبل میڈیا کے اسٹیون ایڈمز نے بھی بلیسی کے اس ویژول رومانس امیج میکرز کی پروڈکشن میں بطور پروڈیوسر شمولیت اختیار کی۔ ان کے ساتھ ساتھ فلم کے مرکزی اداکار پرتھوی راج سوکومران بحیثیت پروڈیوسر بھی اس کا حصہ رہے۔

    اس طرح ایک دہائی سے زیادہ عرصہ انتظار کرنے کے بعد اس فلم پر کام شروع ہوا، جب اس فلم کی شوٹنگ جاری تھی تو دنیا کورونا کی وبا کی لپیٹ میں آگئی جس کی وجہ سے یہ فلم کئی ہفتوں تک عراق میں لوکیشن پر پھنسی رہی اور فلم کی ٹیم کو ہندوستانی حکومت نے خصوصی مشن کے تحت وہاں سے نکالا، اس وجہ سے بھی فلم کی پروڈکشن تاخیر کا شکار ہوئی۔ ریلیز کے بعد باکس آفس پر فلم کو بہت کامیابی ملی ہے۔ یہ ملیالم زبان میں بننے والی معاشی اعتبار سے تین کام یاب ترین فلموں کی فہرست میں شامل ہوگئی ہے۔

    فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس کی ریٹنگ دس میں سے سات اعشاریہ ایک ہے، جب کہ روٹین ٹماٹوز کی ویب سائٹ پر اس کی پسندیدگی کی شرح 100 میں سے 80 فیصد ہے، جو بہت مناسب ہے۔

    فلم کے ہدایت کار بلیسی ایک عمدہ اور باصلاحیت فلم ساز ہیں۔ بطور ہدایت کار ان کا کام متاثر کن ہے۔ فلم کے معیار پر انہوں نے کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ جس انداز میں اس فلم کو بنایا جانا چاہیے تھا، اسی طرح بنائی گئی ہے۔ فلم کی سینماٹوگرافی کے ساتھ ساتھ دیگر تمام تکنیکی شعبوں میں بے حد مہارت سے کام کیا گیا، جو ساؤتھ انڈیا کی فلموں کا خاصا بھی ہے۔ مثلاً فلم کا ایک سین جس میں مرکزی اداکار اپنا چہرہ بکری کی آنکھ میں ایسے دیکھتا ہے، جیسے وہ آئینہ دیکھ رہا ہو، اس منظر کو عکس بند کرنے میں کئی دن لگ گئے، مگر فلم ساز نے ہار نہیں مانی۔

    فلم کی موسیقی شہرۂ آفاق موسیقار اے آر رحمان نے ترتیب دی ہے۔ چار نغمات کے ساتھ پس منظر کی موسیقی میں انہوں نے ایک بار پھر میدان مار لیا۔ شان دار موسیقی سے سماعتوں میں رس گھولتے ہوئے، اس کہانی کے درد کو موسیقار نے بہت اچھے انداز میں اجاگر کیا ہے۔ ٹائٹل سونگ ”مہربان و رحمان“ نے بلاشبہ دل کو چُھو لیا۔اس کے بول پراسون جوشی نے لکھے جب کہ جتھن راج نے اسے گایا ہے۔ اسی گیت کے ملیالم ورژن کو رفیق احمد نے لکھا اور اے آر رحمان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں جتھن راج نے اس ورژن میں بھی اپنی گائیکی سے دل موہ لیے۔ فلم کے دیگر گیت بھی دل کے تاروں کو چھیڑتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
    فلم کے اداکاروں میں مرکزی کردار نبھانے والے پرتھوی راج سوکومران نے تو اس فلم کے لیے پہلے اپنا وزن بڑھایا اور پھر کم کیا، جس کی وجہ سے ان کی صحت بھی گری۔ شوٹنگ کے دنوں میں سیٹ پر ہر وقت ایک ڈاکٹر موجود رہتا تھا تاکہ ایمرجنسی میں فوری طبّی امداد دے سکے۔ پرتھوی راج نے اپنے کردار سے مکمل انصاف کیا۔ ان کے معاون کرداروں نے بھی ناظرین کو اپنی اداکاری سے متوجہ کیا، جن میں بالخصوص امریکی اداکار جمی جین لوائس (ابراہیم قدیری) عمانی اداکار طالب البلوشی (نجیب کا کفیل) ہندوستانی اداکارہ امالا پاؤل (نجیب کی بیوی) شامل ہیں۔

    یہ بھی کہا گیا کہ کفیل کا کردار ادا کرنے والے عمانی اداکار طالب البلوشی پر سعودی عرب نے پابندی عائد کر دی ہے۔ اس بات میں اگرچہ صداقت نہیں ہے، لیکن کسی بھی ملک کی حکومت کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آخر کار وہ ایک فن کار ہیں، البتہ اس فلم سے متعلق کسی بھی تنازع میں اگر قصور وار کوئی ہے تو وہ فلم ساز بلیسی ہیں، جو تصویر کے دونوں رخ سے واقف تھے۔ ان کی سرزنش ہونی چاہیے جنہوں نے ادھوری کہانی پیش کی، اور عمانی اداکار کو کسی بھی طرح اور کسی بھی سطح پر قصور وار ٹھہرانا سراسر ناانصافی ہو گی۔

    تنازع۔ پس منظر و پیش منظر

    اس فلم کو گزشتہ مہینے ہی نیٹ فلیکس پر ریلیز کیا گیا ہے۔ اپنے حساس موضوع کی وجہ سے یہ سوشل میڈیا پر بہت زیرِ بحث رہی ہے۔ فلم دیکھنے کے بعد سعودی عرب کے شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی سوشل میڈیا پر تنقید کا جواب دیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ سعودی کفیل اپنے ملازمین کے ساتھ تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے لگے جس کا مقصد اپنے ذاتی نوکروں یا اپنے اداروں کے ملازمین کے ساتھ اپنے حسنِ سلوک کو دنیا کے سامنے لانا تھا۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور ایسے دیگر ممالک کے عوام کا بھی اس فلم پر بھرپور ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔

    راقم نے اس سلسلے میں سعودی عرب کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ”سعودی ریسرچ اینڈ مارکیٹنگ گروپ“ کے شعبۂ مارکیٹنگ کے سابق برانڈ منیجر معز مقري سے بات کی، جنہوں نے بتایا کہ 2015 کے بعد کا سعودی عرب ایک مختلف اور مثبت تبدیلیوں والا ملک ہے۔ یہاں کسی بھی غیر ملکی کے ساتھ اس طرح ناانصافی نہیں کی جاسکتی۔ مذکورہ فلم کی کہانی نوے کی دہائی کی ہے، جو تلخ ماضی ہے۔ آج سعودی عرب کی حکومت کے پاس کفالت کے نظام سمیت تمام شعبوں میں ہر چیز کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔ شکایات کا بھی ایک باقاعدہ نظام موجود ہے، جو بہت فعال ہے۔ یہ فلم سعودی عرب کی اکثریت کی عکاسی نہیں کرتی۔

    آخری بات

    دورِ حاضر میں سینما ایک اہم میڈیم ہے، جس کے ذریعے اپنی بات پوری دنیا میں پہنچائی جا سکتی ہے، البتہ پروپیگنڈہ اور حقیقی سینما کا فرق سمجھنا ہوگا، ہر چند کہ اس فلم آدو جیویتھم۔ دی گوٹ لائف میں مکمل حقائق پیش نہیں کیے گئے یا ادھوری حقیقت دکھائی ہے، لیکن جتنی کہانی بیان کی گئی وہ سچّی ہے اور بقول معیز مکھری سعودی عرب کا تلخ ماضی ہے۔

    قارئین! آپ اگر اس پہلو کو ذہن میں رکھ کر یہ فلم دیکھیں گے تو آپ دُکھی نہیں‌ ہوں گے۔ یہ ایک اچھے موضوع پر معیاری فلم ہے، جس کی طوالت تقریباً تین گھنٹے ہے۔ اپنی اوّلین فرصت میں یہ فلم دیکھیں، آپ کا وقت ضائع نہیں ہوگا، کیونکہ یہ فلم بتاتی ہے کہ انسان کیسے مشکل حالات اور مصائب کا سامنا کرنے کے بعد فاتح بنتا ہے۔ اگر اس کے حوصلے بلند ہوں تو پھر اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔

    (یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کی ذاتی رائے اور اس کے خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے تعلق نہیں ہے)
  • ٹوکیو سوینڈلرز:‌ نیٹ فلیکس کی نئی جاپانی ویب سیریز

    ٹوکیو سوینڈلرز:‌ نیٹ فلیکس کی نئی جاپانی ویب سیریز

    دنیا میں دھوکہ دہی اور جعل سازی کے واقعات عام ہیں اور اس کی مختلف شکلیں ہیں۔ اس ویب سیریز کی کہانی، موجودہ جاپان کے ایک ایسے جعل ساز گروہ کے بارے میں ہے، جس نے نہ صرف عام لوگوں کو کنگال کر دیا بلکہ کئی بڑے بڑے اداروں کو بھی لوٹ لیا۔ یہ گروہ جعل سازی کے فن میں طاق ہے اور اس کے ارکان کس طرح ہاتھ کی صفائی اور چرب زبانی کو اپنا ہتھیار بناتے ہیں، یہ سب اس ویب سیریز میں دکھایا گیا ہے۔

    پہلے سیزن کی سات اقساط اتنی شان دار ہیں کہ ایک بار آپ اسے دیکھنے بیٹھے تو خود کو اگلی قسط دیکھنے سے روک نہیں پائیں گے۔ اس ویب سیریز کا تفصیلی تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    مرکزی خیال/ اسکرپٹ

    مذکورہ ویب سیریز کی کہانی ایک جاپانی ناول "ٹوکیو سوینڈلرز” سے ماخوذ ہے، جس کے مصنّف جاپانی ناول نگار کوشینجو ہیں۔ اس میں 2017ء کا وہ موقع دکھایا گیا ہے جب ٹوکیو شہر میں عنقریب اولمپکس کا انعقاد ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے مقامی زمینوں کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ فریبی کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کے لیے کیا ستم ڈھایا جاتا ہے، یہ داستان اسی کے گرد گھومتی ہے۔

    اس ناول کے انگریزی مترجم چارلس دے وولف ہیں، جن کا تعلق امریکا سے ہے۔ انہوں نے جاپان کے معروف ناول نگار ہاروکی موراکامی کے ناولوں کا ترجمہ بھی کیا ہے اور وہ جاپانی ادب میں ڈاکٹریٹ کی سند بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بہترین انگریزی ترجمے کی بدولت نیٹ فلیکس کی توجہ اس کہانی پر مرتکز ہوئی اور انہوں نے اس پر ویب سیریز بنائی۔ جتنا اچھا یہ ناول لکھا گیا ہے، اسی معیار کا ویب سیریز کے لیے اسکرپٹ بھی تحریر کیا گیا ہے، اور اسے ویب سیریز کے ہدایت کار ہتوشی ون نے ہی لکھا ہے۔ ناول کی طرح ویب سیریز کی کہانی بھی چست اور دل چسپ ہے۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھے گی، آپ کا تجسس بھی بڑھتا جائے گا۔ اس ویب سیریز کو دیکھنے والا کہانی کے تسلسل میں بہہ کر کہیں دور نکل جاتا ہے اور یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ کب کہانی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔

    ایک شخص (تاکومی تسوجیموتو) ہے جس کی وجہ سے اس کے والد کو زمین کے سودے میں دھوکہ ہوا، ردعمل میں اس کے والد نے اپنے ہی گھر کو آگ لگا دی، جس میں اُس شخص کے اہلِ خانہ راکھ ہوگئے۔ اس راکھ نے اس کی زندگی کو گویا تاریک بنا دیا۔ اُس شخص نے انتقال لینے کی نیّت سے جعلی کاغذات کی مدد سے زمینیں فروخت کرنے والے گروہ کا پیچھا کیا، اور ان کا حصّہ بن گیا تاکہ وہ اپنے پیاروں کی موت کا بدلہ لے سکے۔

    وہ نہ صرف اس گروہ کا ایک فعال رکن بنا اور وارداتوں میں ان کا ساتھ دیتا رہا۔ بلکہ اس گروہ کی کام یابیوں کی کلیدی وجہ وہی شخص (تاکومی تسوجیموتو) ٹھہرا۔ ٹوکیو شہر کی سڑکوں پر یہ گروہ دندناتا پھر رہا تھا اور آخرکار اپنے انجام کو پہنچا۔ اس انجام کو جاننے کے لیے یہ ویب سیریز دیکھنا ہوگی جسے نیٹ فلیکس پر ہندی ڈبنگ کے ساتھ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں کہیں کہیں بے باک اور پُر تشدد مناظر بھی شامل ہیں۔

    ویب سازی/ ہدایت کاری

    اس ویب سیریز کی پروڈکشن انتہائی عمدہ ہے۔ جدید جاپان کا بے مثال شہر ٹوکیو اس کہانی میں پوری آب و تاب سے چمکتا دمکتا دکھائی دیتا ہے۔ گھروں، دفتروں، گلی کوچوں، شاہراہوں اور فضائی مناظر نے کہانی میں بے مثال رنگ بھر دیے ہیں۔ اس ویب سیریز کا تھیم سونگ، سینماٹوگرافی، ساؤنڈ، ایڈیٹنگ اور لائٹنگ انتہائی شان دار ہے، خاص طور پر بصری تأثر (ویژول ایفیکٹس) کے شعبے میں سو سے زائد ہنرمندوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے، جس نے اس ویب سیریز کو بلاشبہ ایک ماسٹر پیس بنا دیا ہے۔ نیٹ فلیکس کے ذریعے یہ ویب سیریز پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے اور یہ اس ویب سیریز کا پہلا سیزن ہے۔ اس کے پروڈیوسرز ہارومیاکے اور کینیچی یوشیدا ہیں جب کہ ہدایت کار ہیتوشی ون ہیں، جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جاپانی فلمی صنعت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز کے دو اداکاروں کو ہم مرکزی کرداروں کے طورپر دیکھتے ہیں، اور ویب سیریز میں ان کے نام تاکومی تسوجیموتو اور ہیریسن یاماناکا ہیں۔ ان کے اصل نام گوایانو اور ایتسوشی توایوکاوا ہیں۔ ان دونوں نے اپنی اداکاری سے اسکرین پر ایک دوسرے کو بہت مصروف رکھا۔ دونوں کی عمروں اور تجربے میں فرق ہے، اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے پر اپنے فن کے ذریعے چھائے رہے۔ ان کے ساتھ ذیلی کرداروں میں کازوکی کیتامورا، للی فرینکی، پیرتاکی اور جاپانی اداکارہ ایکو کیوکے اور ایلزیا اکیدا شامل ہیں۔ سب نے اپنے اپنے کرداروں کو بخوبی نبھایا ہے۔

    شہرت کی سیڑھیاں

    ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ ویب سیریز اپنی شہرت کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے۔ یہ ویب سیریز جاپان میں نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین چارٹ میں پہلے نمبر پر موجود ہے۔ سینما کی دنیا میں معروف ترین فلمی ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی ریٹنگ دس میں سے سات اعشاریہ تین ہے۔ مائی ڈریم لسٹ ویب سائٹ پر دس میں سے سات اعشاریہ پانچ کے ساتھ یہ ویب سیریز سرفہرست ہے۔ گوگل کے قارئین اور ناظرین میں 100 میں سے 91 فی صد نے اسے اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ جاپان کے معروف انگریزی اخبار نے اس ویب سیریز کو پانچ میں سے تین اسٹارز دیے ہیں۔ جس قدر مہارت اور چابک دستی سے اس ویب سیریز کا سیزن ون بنایا گیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ناظرین بے چینی سے اس کے دوسرے سیزن کا انتظار کریں گے۔

    حرفِ آخر

    آپ اگر ایک ایسی کہانی کو اسکرین پر دیکھنا چاہتے ہیں جس میں ہر منظر پُرتجسس اور اشتیاق سے بھرپور ہو تو یہ ویب سیریز آپ کو اسی کیفیت سے دوچار کرے گی۔ ٹوکیو کی سڑکوں پر چلتے پھرتے لوگوں کے بیچ میں یہ گروہ کس طرح زمین کے لیے دوسروں پر زمین تنگ کرتا ہے اپنی شعبدہ بازی سے، اسے اسکرین پر دیکھ کر آپ ضرور لطف اندوز ہوں گے۔ جاپان کے مؤقر انگریزی روزنامہ "جاپان ٹائمز” نے اس ویب سیریز کے بارے میں لکھتے ہوئے اسے "موسمِ گرما کی مجرمانہ خوشی” سے تعبیر کیا۔ اس سے مراد وہ خوشی جو ایک اچھی کہانی کو اسکرین پر دیکھ کر آپ کو حاصل ہوسکتی ہے۔ تو دیر نہ کیجیے، اور اس ویب سیریز کو دیکھنے کے ساتھ عہدِ حاضر کے ٹوکیو کی سیر بھی کیجیے۔

  • پاکستان کی پہلی علامتی ویب سیریز: برزخ

    پاکستان کی پہلی علامتی ویب سیریز: برزخ

    برزخ ویب سیریز دیکھنے سے پہلے یہ جان لیجیے

    آپ کے لیے جاننا ضروری ہے کہ تجریدیت کیا ہوتی ہے، علامت اور استعارہ کسے کہتے ہیں اور تمثیل کا تخلیقی اظہار کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’سُرریل ازم‘‘ (Surrealism) کیا چیز ہے، کس طرح عالمی ادب اور مصوری میں ان تمام نظریات کا استعمال ہوا۔ بعد میں بین الاقوامی فلمی دنیا نے بھی ان نظریات کو اپنایا۔ عالمی سینما میں ایسے افکار اور نظریات کی بنیاد پر فلمیں اور ویب سیریز بنانے کی روایت اب خاصی پرانی ہوچلی ہے، حتیٰ کہ ہمارے پڑوسی ممالک ہندوستان اور ایران میں بھی ایسے نظریاتی تجربات سے بھرپور فلمیں دیکھنے کو ملتی ہیں، جنہیں ہم عرف عام میں ’’متوازن سینما‘‘ یا ’’آرٹ فلمیں‘‘ کہتے ہیں۔

    پاکستان میں البتہ ان نظریات کی بنیاد پر تھیٹر، مصوری اور ادب کے شعبوں میں تو کام ہوا، لیکن ہمارا ٹیلی وژن اور سینما اس سے تقریباً محروم رہا۔ نئے فلم سازوں میں کچھ بیدار مغز اور باشعور فلم ساز ان فنی باریکیوں سے واقف ہیں، تو وہ شاید اب کچھ ایسے تجربات کریں، جن کا تذکرہ یہاں کیا گیا ہے۔ تو یوں سمجھیے ایسا ہی ایک تجربہ ویب سیریز کی دنیا میں پاکستان کی طرف سے ہوا ہے، جس کا نام ’’برزخ‘‘ ہے۔ یہ کیسا تجربہ ہے، اس کا فیصلہ آپ ویب سیریز دیکھ کر خود کریں۔ ہم نے اس کو کیسا پایا، اس پر ہمارا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    برزخ کیا ہے؟

    عربی زبان کے اس لفظ بطور مذہبی اصطلاح دیکھنا ہوگا۔ لغوی اعتبار سے برزخ دو چیزوں کے درمیان روک اور آڑ کو کہتے ہیں جب کہ اصطلاحِ شریعت میں اس سے مراد، روح اور جسم کے درمیان، موت کے بعد سے قیامت تک کی آڑ یا درمیانی عرصہ ہے۔ مرنے کے بعد تمام جن و انس حسبِ مراتب برزخ میں رہیں گے۔ عالمِ برزخ سے کچھ تعلق دنیا اور کچھ کا آخرت کے ساتھ ہوتا ہے، جب تک کہ تمام روحیں قیامت کے روز خدا کے حضور پیش نہیں ہو جاتیں۔

    اس اصطلاح کا دنیا کے ساتھ تعلق کچھ یوں ہے، جب انسان مر جاتا ہے، تو اس کے عزیز و اقارب میّت کے ثواب کے لیے صدقہ، خیرات اور ذکر و اذکار کرتے ہیں۔ عقیدہ یہ ہے کہ اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور راحت و آرام ملتا ہے۔ آخرت کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جو عذاب یا آرام برزخ میں شروع ہوتا ہے۔ وہ آخرت میں ملنے والے عذاب یا آرام کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں روحیں قیامت آنے تک رہتی ہیں اور بہت ساری روحیں ایسی بھی ہیں، جو عالمِ ارواح سے باہر بھی آتی جاتی ہیں۔ اس عرصے میں بدن اور روح کا تعلق کسی نہ کسی طرح رہتا ہے، وہ ایک دوسرے کی تکلیف کو بھی محسوس کرتے ہیں۔

    اس اصطلاح اور اس سے جڑے عقائد کو مزید تفصیل سے سمجھنے کے لیے اسلامی کتب اور متعلقہ ویب سائٹس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ کائنات کی تسخیر کے لیے جو علوم وجود میں آئے، بھلے وہ اسپیس سائنس ہو یا کوانٹم فزکس، ان سب کے مطابق برزخ عدم ہے یعنی ڈارک انرجی۔ یعنی بزرخ وہ نقطۂ تبدل ہے، جس پہ حالتوں کی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اس طرح ہم مذہبی اور سائنسی دونوں پہلوؤں سے اس لفظ اور اصطلاح کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔

    مرکزی خیال/ کہانی

    مذکورہ ویب سیریز کا مرکزی خیال تو مندرجہ بالا افکار پر ہی محیط ہے، مگر ظاہر ہے، کہانی لکھتے ہوئے ویب نگار نے اس کو اپنے طرز سے بیان کیا ہے، جس میں افسانوی رنگ بھی شامل ہے۔ اس ویب سیریز کی کہانی کے مطابق، ایک پہاڑی وادی ہے، جو حسین درختوں سے لدی پھندی ہے، اس شان دار فطری مظاہر کو بیان کرنے والے گاؤں کا کرتا دھرتا، جس کو چوہدری، وڈیرا، جاگیر دار، سردار اور کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ ’’آقا‘‘ نامی شخص ہے، جس نے اپنے اوائلِ جوانی میں محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی محبوبہ کو بیوی بنایا اور اس کو پتوں کا ہار پہناتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ کمانے کے لیے شہر جائے گا اور اس کے لیے سونے کا ہار بنوا کر لائے گا۔

    وہ جب کئی برسوں کے بعد شہر سے لوٹتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیوی دنیائے فانی سے کوچ کرچکی ہے۔ اس کے بعد وہ اس کی یاد میں ایک اور شادی کرتا ہے، اور اس عورت کے بطن سے اولاد بھی نصیب ہوتی ہے، مگر وہ پہلی بیوی کو بھول نہیں پاتا جو اس کی محبوبہ بھی تھی، اور آخر کار زندگی کے اختتامی برسوں میں وہ ڈمنشیا نامی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے، جس میں انسان کی یادداشت اور حواس دھیرے دھیرے ختم ہونے لگتے ہیں۔ اب اس بوڑھے کی ضد ہے کہ وہ اپنی پہلی بیوی سے دوبارہ شادی کرے گا، جو عدم سے وجود پائے گی اور ظاہر میں اس سے ملاپ کرنے آئے گی۔ یہ مرکزی کردار ہے، جس کے اردگرد اس کے بھائی، اس کی اولاد، گاؤں کے لوگ اور مقامی پولیس افسر سمیت دیگر کرداروں کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔

    اس گاؤں میں اب یادداشت کھوتا ہوا بوڑھا اپنی شادی کی تیاری کررہا ہے۔ اولاد بھی اس مقصد کے لیے مختلف شہروں سے آچکی ہے۔ گاؤں کے لوگ اس شادی سے خوف زدہ ہیں۔ گاؤں میں چھوٹی کئی بچیاں لاپتا ہوچکی ہیں، جن کے بارے میں ایک عام خیال ہے کہ وہ روحوں کے بلانے پر ان کے ساتھ عالم ارواح میں چلی گئی ہیں۔ اس بوڑھے کی ایک لاڈلی اور معاون بیٹی کا نام شہرزاد ہے، جس کے بارے میں یہ دھندلا تاثر ہے کہ وہ اس کی اُسی پہلی بیوی سے ہے، جس نے اس کو عالمِ ارواح میں جانے کے بعد پیدا کیا اور اسے دنیا میں بھیج دیا۔گاؤں کے لوگوں کا بھی یہی خیال ہے۔

    اب آقا پُرعزم ہے اپنی شادی کے اعادے کے لیے، لاڈلی بیٹی معاونت کررہی ہے جو عالمِ ارواح کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے۔ باقی دو اولادیں اسے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہی خیال گاؤں کے تھانیدار کا بھی ہے اور گاؤں کے نمبردار کا بھی، جو آقا کا بھائی بھی ہے۔ اب اصل میں ماجرا کیا ہے۔ اجسام اور روح کس طرح اس کہانی میں مل رہے ہیں، ملیں گے بھی یا نہیں اور کیا ہوگا، اس پر کہانی آپ کو متجسس کیے رکھے گی، جس کو توجہ سے دیکھنا ضروری ہے، کیونکہ بہت کچھ علامتوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ بوجھ اٹھائے چلتے ہوئے اجسام، کبوتر، پرانی روایات کی کتاب، لال رنگ کے ملبوسات، گلابی رنگ کا دھواں اور بہت کچھ اس کہانی کو تہ در تہ بیان کر رہا ہے، البتہ اس کہانی میں بہت سارے ایسے تصورات بھی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی مذہبِ اسلام سے کوئی تعلق ہے۔ وہ مصنّف کے ذہن کی اختراع ہے اور انہوں نے اپنی کہانی میں کئی افسانوی رنگ بھرے ہیں۔ اردو اور انگریزی میں بیان کی گئی، اس کہانی کے مصنف عاصم عباسی ہیں۔

    پروڈکشن اور دیگر تخلیقی شعبے

    یہ ویب سیریز پاکستان اور ہندوستان کی مشترکہ پروڈکشن ہے۔ پاکستان سے اس کے مرکزی اور معروف پروڈیوسر وقاص حسن ہیں۔ ہندوستان سے شلجا کجروال اس ویب سیریز کی مرکزی پروڈیوسر ہیں، وہ اس ویب سیریز کے ہدایت کار عاصم عباسی کے ساتھ ماضی قریب میں ’’چڑیلز‘‘ ویب سیریز کے لیے بھی بطور پروڈیوسر کام کرچکی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی ویب سیریز ’’قاتل حسینوں کے نام‘‘ اور ’’دھوپ کی دیوار‘‘ سمیت پاکستانی فلم ’’لیلیٰ بیگم‘‘ شامل ہیں، جن میں وہ پروڈیوسر کے فرائض نبھا چکی ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ بھی اس ویب سیریز میں دونوں ممالک سے مزید کئی پروڈیوسرز شامل ہیں۔

    مذکورہ ویب سیریز سمیت یہ تمام پروڈکشنز زی زندگی (زی فائیو) کے لیے کی گئی ہیں، جو معروف ہندوستانی اسٹریمنگ پورٹل ہے۔ ہندوستانی پروڈیوسر شلجا کجروال کا پاکستانی فلم سازوں کے ساتھ اس قدر اشتراک حیرت انگیز ہے، جب کہ ابھی تو کئی برسوں سے دونوں ممالک کا ماحول یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی فلمیں اپنے اپنے ملک میں ریلیز نہیں کرسکتے، جس اسٹریمنگ پورٹل پر یہ مشترکہ پروڈکشن کی بنیاد پر سارا پاکستانی کونٹینٹ ریلیز کیا جا رہا ہے، یہ اسٹریمنگ پورٹل تو پاکستان میں کام ہی نہیں کرتا ہے۔ آپ گوگل کرکے دیکھ سکتے ہیں، پھر بھی ہندوستانی پروڈیوسر کی اس قدر دل چسپی قدرے مشکوک بھی ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر تخلیقی منصوبے متنازع بھی ہیں، جس طرح اب ’’برزخ‘‘ جیسی ویب سیریز میں امرد پرستی جیسے قبیح فعل کو بھی کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے، جس کی ضرورت کہانی میں محسوس نہیں ہوتی، مگر یہ اس کا حصہ ہے۔

    مجموعی حیثیت میں یہ ویب سیریز بطور پروڈکشن ڈیزائن اچھی ہے، جس کے پیچھے ایرج ہاشمی کی کوششیں شامل ہیں۔ اس ویب سیریز میں تمام ضروری پہلوؤں کا خیال رکھا گیا ہے، مگر خاص طور پر دو چیزوں نے بہت متاثر کیا، جن میں پہلی چیز بصری اثرات (ویژول ایفکٹس) ہیں، جن میں پاکستان سے محمد عمر اسلم اور ہندوستان سے ششی سنگھ راجپوت نے اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایا۔ دوسری اہم چیز موسیقی ہے،جس کو پاکستان کی نئی نسل سے تعلق رکھنے والے معروف گلوکار اور موسیقار سرمد غفور نے ترتیب دیا ہے، جو قابلِ ستائش ہے۔ سینماٹو گرافی مواعظمی کی ہے، جب کہ اس کے ساتھ دیگر شعبوں، جن میں ایڈیٹنگ، لائٹنگ، کاسٹیوم، آرٹ ڈیزائننگ، آڈیو اور دیگر شامل ہیں۔ ان تمام متعلقہ شعبوں میں پیشہ ورانہ کام دیکھنے کو ملا ہے۔

    ہدایت کاری

    اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عاصم عباسی ایک بہت اچھے ہدایت کار ہیں، جنہوں نے فیچر فلم ’’کیک‘‘ سے مجھے متاثر کیا، میں نے ان کی وہ فلم ریویو بھی کی تھی، لیکن اس کے بعد اب جا کر، اس ویب سیریز سے انہوں نے اپنے خالص تخلیقی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ عاصم عباسی چونکہ مذکورہ ویب سیریز کے مصنّف بھی ہیں، جو کہ میری رائے میں ان کا کمزور شعبہ ہے، اس لیے انہیں صرف اپنی ہدایت کاری پر ہی توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم ان کا مزید خوب صورت اور تخلیقی کام دیکھ سکیں۔

    ڈائریکٹر عاصم عباسی

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں سب سے بہترین اداکار جس کا انتخاب کیا گیا، وہ سلمان شاہد ہیں۔ وہ لیونگ لیجنڈ ہیں، اس کے علاوہ مرکزی کرداروں میں فواد خان اور صنم سعید کے علاوہ پوری کاسٹ ہی تقریباً درست انتخاب ہے۔ ان دو باصلاحیت اداکاروں کی جگہ اس کہانی میں نہیں بنتی تھی، نجانے کیوں ان کو کاسٹ کیا گیا، یہ دونوں اپنے کرداروں کو نبھانے میں ناکام رہے۔ ان کے ہاں تصنّع اور جذبات سے عاری اداکاری دیکھنے کو ملی ہے، یہ مس کاسٹنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے وہ اپنے مزاج کے لحاظ سے دیگر کئی کرداروں میں متاثر کن کام کرچکے ہیں، خاص طور پر فواد خان تو بہت عمدہ اداکار ہیں، البتہ صنم سعید کو ہماری ڈراما انڈسٹری نے اداکارہ بنا دیا، ورنہ ان کا اصل کیریئر ماڈلنگ تھا، وہ وہیں ٹھیک تھیں۔ اس ویب سیریز میں پس منظر میں آواز یعنی صداکاری کے لیے بھی صنم سعید کا انتخاب کیا گیا، جب کہ ان کی آواز صداکاری کے لیے موزوں نہیں ہے، انھیں سنتے ہوئے محسوس ہوگا کہ وہ ناک میں بول رہی ہیں۔ یہ سب تو ہدایت کار کو دیکھنا ہوتا ہے، ظاہر ہے اس میں اداکاروں کا کوئی قصور نہیں ہے۔

    اسی ویب سیریز میں محمد فواد خان، میثم نقوی اور کلثوم آفتاب جیسے انتہائی شان دار اداکار اور صدا کار موجود ہیں، جنہوں نے اداکاری بھی خوب جم کر کی۔ ان میں سے کسی کی آواز کو استعمال کر کے کہانی کی پڑھنت کو چار چاند لگائے جاسکتے تھے۔

     تیسری قسط میں وہ منظر، جب ایک کردار (کلثوم آفتاب) اپنی بیٹی کی گمشدگی کے بارے میں گاؤں والوں کو بتا کو رہا ہے اور اپنی ممتا کا دکھ بیان کررہا ہے، یہ منظر اور مونو لاگ(خود کلامی)‌ اس ویب سیریز میں صنم سعید کی پوری اداکاری پر بھاری ہے۔

    اب جب روایتی میڈیم اور سنسر بورڈ وغیرہ سے جان چھڑا کر آزاد میڈیم کے لیے چیزیں تخلیق کر ہی رہے ہیں تو برانڈنگ پرفامرز کی بجائے اسٹینڈنگ پرفامر کو موقع دینا ہوگا، جس طرح ہندوستان میں دیا جاتا ہے، ورنہ ہم اسٹریمنگ پورٹلز کی آزاد دنیا میں بھی جلد اپنا اعتبار کھو دیں گے۔ تنقید برائے تعمیر سمجھ کر ان پہلوؤں پر ضرور غور کیا جائے۔

    حرف آخر

    اس ویب سیریز کے تناظر میں سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر کمنٹس میں منفی و مثبت تاثرات پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بارے میں کیا سوچا جا رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، جو خوش آئند ہے۔ میری حتمی رائے بھی یہی ہے کہ یہ ایک اچھی ویب سیریز ہے، جس پر عاصم عباسی اور ان کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔

    قارئین! اگر آپ علامت، استعارہ، تشبیہ اور تجرید میں دل چسپی لیتے ہوئے ایک ایسی کہانی دیکھنے کے طلب گار ہیں تو یہ ویب سیریز آپ کو لطف دے گی۔ آپ اس ویب سیریز کو یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ معمولی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کوشش کو سراہیے۔ہمیں امید ہے، ہمارے یہ نئے تخلیق کار مستقبل میں مزید متاثر کن کہانیاں دیں گے اور ہمیں حیران کرتے رہیں گے۔

  • ہیرارکی: نوجوان نسل میں مقبول ہوتی جنوبی کوریا کی ویب سیریز

    ہیرارکی: نوجوان نسل میں مقبول ہوتی جنوبی کوریا کی ویب سیریز

    دنیا بھر میں جنوبی کوریا کی فلمیں اور ویب سیریز بے حد پسند کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے، نیٹ فلیکس سمیت کئی بڑے اسٹریمنگ پورٹلز نے اس ملک کی کہانیوں کو اہمیت دیتے ہوئے، ان کی پروڈکشن شروع کی ہے۔ ہمیں اب تواتر کے ساتھ جنوبی کوریا کی ہر موضوع پر، ہر قسم کی فلمیں اور ویب سیریز دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ رواں برس ابھی تک جن کورین ویب سیریز کو بہت توجہ ملی، ان میں سے ایک یہ ویب سیریز "ہیرارکی” ہے، جس کی کہانی نئی نسل کے چند لاابالی نوجوانوں کے جذبات و احساسات کے گرد گھومتی ہے۔

    طبقۂ اشرافیہ اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اسکول کے طالبِ علم آپس میں بھڑ جاتے ہیں، یہ ویب سیریز ان کی کہانی کو بہت دھیمے لیکن عمدہ انداز میں پیش کرتی ہے۔ اردو زبان میں اس ویب سیریز کا مفصل تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    مرکزی خیال/ اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کے نام سے ہی اس کے موضوع اور کہانی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ "ہیرارکی” انگریزی کا لفظ ہے، جس سے مراد وہ درجہ بندی یا تقسیم کا عمل ہے جو طاقت اور حیثیت کے بل بوتے پر ہوتی ہے۔ مذکورہ ویب سیریز کی کہانی جنوبی کوریا کے ایک ایسے فرضی اسکول "جوشین ہائی اسکول "سے متعلق ہے، جہاں پورے ملک سے صرف ایک فیصد طلبا کو داخلہ ملتا ہے اور ان سب کا تعلق اشرافیہ سے ہوتا ہے۔ ان میں سے معدودے چند کو اسکالر شپ کی بنیاد پر داخلہ دیا جاتا ہے۔ اسکول میں امیر اور غریب کی تقسیم واضح ہے، جسے اسکول انتظامیہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اب ایسے ماحول میں یہ رئیس زادے اور بڑے کاروباری خاندانوں کے بچّے اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے اور کوئی درجن بھر امیر ترین طلبا کیسے تعلیمی ادارے میں اقدار کو اپنے قدموں تلے روندتے ہیں، اس کہانی میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
    لیکن کہانی میں سنسنی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب یہاں اسکالر شپ پر آئے ہوئے ایک طالب علم کا قتل ہو جاتا ہے۔ اس مقتول طالبِ علم کے بھائی کو اسی اسکول میں اسکالر شپ مل جاتی ہے اور یہاں پہنچ کر وہ اپنے بھائی کے قاتلوں کی تلاش شروع کرتا ہے۔ اس دوران وہ محبت جیسے جذبے سے بھی آشنا ہوتا ہے۔ محبت کا یہی جذبہ اسکول کے چند امیر طلبا کی زندگیوں میں بھی احساسات اور کیفیات کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ موجزن ہے۔ اس سارے منظر نامے میں ان مخصوص طلبا کے ساتھ چند اساتذہ اور اسکول کی پرنسپل کو بھی شریکِ عمل دکھایا گیا ہے۔ کاروباری شخصیات اور امرا کے یہ بچّے زندگی کو کیسے اپنے انداز سے گزارتے ہیں، اور ایک غریب کا بچّہ کس طرح اپنی منزل تک پہنچتا ہے، یہ کہانی اسی کو عمدہ طریقے سے بیان کرتی ہے۔ اسکول میں ہی ان نوجوانوں میں دوستی، محبّت اور انتقام جیسے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور وہ ان کا اظہار کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔

    مجموعی طور پر کہانی اچھی ہے، جس کو سات اقساط میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ پہلا سیزن ہے اور امید ہے کہ اس کا دوسرا سیزن بھی آئے گا۔ ابتدائی طور پر کہانی سست روی کا شکار نظر آتی ہے، لیکن اگلی اقساط میں کہانی رفتار پکڑ لیتی ہے۔ نئی نسل کے لحاظ سے اس کو روایتی انداز میں ہی فلمایا گیا ہے۔ یہ پیشکش بہت اچھوتی تو نہیں، لیکن دیکھنے والوں کو کسی حد تک متاثر ضرور کرے گی۔ اسے چوہائے می نو نے لکھا ہے۔

    پروڈکشن/ ڈائریکشن

    اس ویب سیریز کا پروڈکشن ڈیزائن بہت خوب ہے۔ اسے جنوبی کوریا کے دس شہروں میں فلمایا گیا ہے اور سینماٹوگرافی بہت کمال ہے۔ ملبوسات، لائٹنگ، ایڈیٹنگ اور دیگر تکنیکی امور بخوبی انجام دیے گئے ہیں، البتہ میک اپ کے شعبے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کورین فلم ساز لڑکے لڑکی کا فرق مٹانا چاہتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں ان کا میک اپ اتنا اچھا نہیں ہوتا، خاص طور پر اس سیریز میں مرکزی کرداروں کا میک اپ اضافی معلوم ہوگا۔ اس سے کہانی میں تصنع کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ پس منظر میں موسیقی اور دیگر ضروری باتوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ ویب سیریز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہدایت کاری کے فرائض بھی بے ہیوجن نے بخوبی انجام دیے ہیں۔ اس کے موسیقار کم تائی سنگ ہیں۔ ان کی موسیقی نے کہانی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

    اداکاری و دیگر پہلو

    کہانی کچھ سست اور طویل محسوس ہوتی ہے۔ مکالمے بھی زیادہ جاندار نہیں، جس کی وجہ سے اداکاری پر فرق پڑا۔ خاص طور پر مرکزی کردار یعنی ہیرو اور ہیروئن، جن کے نام جونگ جے ای اور کم ری آن ہیں، ان کی اداکاری بہت یکسانیت کا شکار دکھائی دی۔ البتہ اس ویب سیریز کے معاون اداکاروں نے بھرپور طریقے سے اپنے کردار نبھائے، اور انہی کی وجہ سے مجموعی طور پر ویب سیریز دل چسپ ہوگئی، ورنہ ہیرو ہیروئن کی جذبات سے عاری اداکاری اس ویب سیریز کو لے ڈوبتی۔ کانگ ہا اس ویب سیریز کا وہ کردار ہے جس نے سب سے عمدہ اداکاری کی۔ یہ اسکول میں اسکالر شپ پر آنے والا طالبِ علم ہے جس کی وجہ سے ویب سیریز دل چسپ ہوگئی۔

    کہا جارہا ہے اس کا دوسرا سیزن بھی آئے گا، جب کہ اس ویب سیریز کو دیکھنے کے بعد بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ دوسرے سیزن کی ضرورت ہے، لیکن کچھ عرصے سے جنوبی کوریا میں ویب سیریز کے نئے سیزن کا رجحان بڑھ گیا ہے اور چند ویب سیریز ایسی ہیں جن کے نئے سیزنز کا حال ہی میں اعلان کیا گیا ہے۔ ان میں سویٹ ہوم، ہاسپٹل پلے لسٹ، اور یومی کوریائی ڈراموں کی وہ مثالیں ہیں جو متعدد سیزنز پر مشتمل ہیں اور اسکویڈ گیم جیسی مقبول ویب سیریز کا بھی اس سال کے آخر میں دوسرا سیزن پیش کیا جائے گا۔

    ویب سیریز ہیرارکی کو 51 ممالک میں دیکھا گیا۔ یہ نیٹ فلیکس پر ٹاپ ٹین میں شامل رہی۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا میں بھی اسے بہت توجہ ملی، یہ کئی ہفتے ٹاپ ویب سیریز کی فہرست میں پہلی پوزیشن پر رہی اور منفی تبصروں کے باوجود اس نے نئی نسل کو اپنی طرف کھینچا اور لاکھوں ناظرین نے اس ویب سیریز کو دیکھا۔

    حرفِ آخر

    قارئین! اگر آپ رومان، تجسس اور تصورات کی دنیا میں جانا پسند کرتے ہیں اور کسی معاشرے میں طبقاتی تقسیم کے اثرات اور نئی نسل کے خیالات، ان کے جذبات کو جاننا چاہتے ہیں تو پھر یہ ویب سیریز آپ ہی کے لیے ہے۔ یہ بتاتا چلوں کہ کہانی شروع میں آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا کر سکتی ہے، لیکن دھیرے دھیرے یہ آپ کو اپنی جانب کھینچ لے گی اور آپ اسے آخر تک دیکھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ نیٹ فلیکس پر یہ ویب سیریز ہندی ڈبنگ میں آپ کی منتظر ہے۔

  • ڈارک میٹر: وہ ویب سیریز جسے دیکھ کر انسانی عقل ورطۂ حیرت میں‌ ڈوب جاتی ہے

    ڈارک میٹر: وہ ویب سیریز جسے دیکھ کر انسانی عقل ورطۂ حیرت میں‌ ڈوب جاتی ہے

    کسی انسان کی ملاقات اگر اپنے ہم زاد سے ہو جائے تو کیا ہوگا؟ یہ ویب سیریز ڈارک میٹر اسی سوال کا جواب دیتی ہے۔

    کس طرح انسانی باطن پر، کوانٹم فزکس کے اصول لاگو ہوتے ہیں، بے شک تخیل سہی، مگر سوچا جائے تو یہ بہت پُراسرار، حیرت انگیز، عجیب و غریب اور پُرلطف بھی ہے۔ اس وقت دنیا میں دیکھی جانے والی دس اہم ویب سیریز میں، اپنی ریٹنگ کی بنیاد پر، آئی ایم ڈی بی کے پیمانے کے مطابق، یہ تیسرے درجے پر فائز ویب سیریز ہے۔ ایپل پلس ٹیلی وژن کی نو اقساط پر مبنی یہ ویب سیریز آپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے گی اور میرا دعویٰ ہے کہ آپ اس کی تمام اقساط دیکھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ یہی اس کا تخلیقی کمال ہے۔

    سائنس کی دنیا میں "ڈارک میٹر” کیا ہے ؟

    ماہرینِ فلکیات نے ایسے مادّہ کی موجودگی کا پتہ لگایا جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اس کا نام ڈارک میٹر ہے، جسے ہم سیاہ مادّہ بھی کہتے ہیں۔ کسی بھی مادّہ یا کسی شے کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جسم روشنی کا اخراج کرتا ہو یا پھر اس روشنی کو جذب کرے۔ سائنس بتاتی ہے کہ جو چیز روشنی کا اخراج کرے گی، وہ ہمیں رنگین نظر آئے گی یا روشنی کو جذب کرے گی تو وہ چیز ہمیں سیاہ نظر آئے گی، لیکن ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ ایسا کچھ نہیں کرتا، البتہ وہ کششِ ثقل کی ایک بڑی مقدار ضرور فراہم کرتا ہے۔

    کششِ ثقل فراہم کرنے کی بنیاد پر ہی ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ مختلف کہکشاؤں کو مربوط رکھے ہوئے ہے۔ اس دنیا اور کائنات میں جو چیز بھی ہم دیکھتے ہیں خواہ وہ ایٹم کے ذرّات ہوں یا اس کائنات میں موجود کہکشائیں، سورج، چاند اور ستارے یہ سب اس کا کائنات کا محض چار سے پانچ فیصد ہیں، باقی 71 فیصد ڈارک انرجی اور بیس سے زائد فیصد ڈارک میٹر پر پھیلا ہوا ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ انہی تصورات کو انسان کی ذات، اس کی نفسیات اور تصورات پر لاگو کریں تو آپ پوری بات سمجھ لیں گے، اور اسی کو مذکورہ ویب سیریز میں بیان کیا گیا ہے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کا مرکزی خیال ایک ناول "ڈارک میٹر” سے مستعار لیا گیا ہے، جس کے مصنّف امریکا سے تعلق رکھنے والے ولیم بلیک کروچ ہیں۔ ناول نگار تجسس سے بھرپور اور سائنسی تصورات پر مبنی کہانیاں لکھنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ مذکورہ ویب سیریز دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی انسان اپنی مادّی دنیا سے نکل کر اس نظر سے کیسے کائنات کو دیکھ سکتا ہے اور اس طرح کیسے سوچ سکتا ہے جیسا مصنّف اپنے ناول میں دکھایا۔ اسی ناول سے متاثر ہوکر یہ ویب سیریز تخلیق کی گئی ہے۔

    ڈارک میٹراب کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔ شکاگو سے تعلق رکھنے والا ایک طبیعیات داں اور استاد جیسن ڈیسن ہے، جو سادہ دل، نرم مزاج اور حساس طبیعت کا مالک ہے اور اپنی بیوی ڈینیلیا ڈیسن اور بیٹے چارلی ڈیسن کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے۔ کائنات کے اسرار و رموز پر غور کرنے والا یہ ذہین شخص، انسانی طبیعیات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور ایک دن اس کا واسطہ اپنے ہم زاد سے پڑتا ہے، جو مادّی روپ دھار کر اس کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ جیسن ڈیسن کو اس دنیا میں بھیج دیتا ہے، جہاں سے وہ ہم زاد آیا تھا۔ اس دنیا میں وہ ایک خاتون سے محبت کرتا ہے، جس کا نام امانڈا لوکس ہے۔

    ویب سیریز کے اس مرکزی کردار کے ساتھ معاون کرداروں میں اس کے دوست ریان ہولڈر اور لیٹن وینس ہیں، جن سے اس کی دونوں زندگیوں کا تعلق بنا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ ذیلی کرداروں سے کہانی مزید گہرائی میں جاتی ہے۔

    ہم اس بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی شخصیت میں بعض اوقات دو زندگیاں ایک ساتھ بسر کررہے ہوتے ہیں، لیکن دنیا کو صرف ایک زندگی یا وہ روپ دکھائی دے رہا ہوتا ہے، جو ہم اسے دکھانا چاہتے ہیں۔ اس کہانی میں مرکزی کردار کی دونوں زندگیاں یعنی ظاہر و باطن آمنے سامنے ہوجاتے ہیں۔ یہاں کہانی میں پہلا شخص تو بہت ملن سار ہے، جب کہ ہم زاد سخت مزاج، تیکھا اور کسی حد تک سفاک بھی ہے۔

    اب اصل شخصیت کا مالک اپنی مادّی یا ظاہری دنیا سے نکل کر اس دوسری دنیا میں کیسے پہنچتا ہے، وہاں کیا دیکھتا ہے اور پھر واپس اپنی اصل دنیا میں آنے کے لیے کیا جتن کرتا ہے، کس طرح اپنے ہم زاد سے پیچھا چھڑواتا ہے اور اپنی ہنستی بستی زندگی کو اتنی مصیبتیں جھیلنے کے بعد کیسے واپس حاصل کرتا ہے۔ یہ کہانی اسی جدوجہد اور ظاہری و باطنی لڑائی کا عکس پیش کرتی ہے۔ اس جدوجہد کو کہانی اور کرداروں کے ساتھ پیوست کر کے بہت اچھے انداز میں پہلے ناول کی شکل میں پیش کیا گیا تھا اور اب اسے ویب سیریز میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔

    پروڈکشن ڈیزائن اور ہدایت کاری

    اس ویب سیریزکا آرٹ ورک، تھیم اور اس کے مطابق سارے گرافکس اور وی ایف ایکس کا کام انتہائی متاثر کن ہے، جنہوں نے مبہم اور غیر مادی احساسات کو تصویری اور متحرک شکل میں پیش کیا۔ دیگر تمام شعبہ جات سمیت پروڈکشن ڈیزائن پُرکشش ہے، جو ایک بھاری بھرکم موضوع کی بدولت بھی ناظرین کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتا، یہ ایک بہت اہم اور عمدہ بات ہے۔

    اس ویب سیریز کی نو اقساط ہیں اور پانچ مختلف ڈائریکٹرز نے ان کی ہدایات دی ہیں۔ ان کے نام جیکب وربرگین، روکسن ڈوسن، علیک سخاروف، سلین ہیلڈ اور لوجن جارج ہیں، ان ہدایت کاروں کا تعلق بیلجیئم، امریکا، برطانیہ اور روس سے ہے۔ یہ نو اقساط متعدد ہدایت کاروں کے ہاتھوں تکمیل کے مراحل سے گزری ہیں، لیکن خوبی یہ ہے کہ کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہدایت کار تبدیل ہوا ہے۔ تمام اقساط میں تخلیقی سطح یکساں ہے، البتہ مجموعی طورپر کہانی تھوڑی طویل محسوس ہوتی ہے، اور میرا خیال ہے کہ اسے سمیٹا جاسکتا تھا تاکہ وہ ناظرین، جو کوانٹم فزکس اور متبادل کائنات کے تصوّر میں دل چسپی نہیں رکھتے وہ بھی اسے آسانی سے سمجھ سکتے۔ پھر بھی اگر توجہ سے یہ ویب سیریز دیکھی جائے، تو باآسانی تفہیم ہوسکتی ہے۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں بیک وقت ہیرو اور ولن کے کردار میں آسڑیلوی اداکار جوئل ایڈجرٹن نے انتہائی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک مثبت اور دوسرا منفی کردار بخوبی نبھایا ہے۔ متضاد کرداروں کی نفسیات پر خوب گرفت رکھنے والے اس اداکار نے پوری ویب سیریز کا بوجھ گویا اپنے کندھوں پر اٹھایا اور مجموعی طور پر کام یاب بھی رہے۔ ان کے مدمقابل دو حسین اداکارائیں جینیفر کونلی اور ایلس براگا تھیں، جنہوں نے جم کر اداکاری کی اور اسکرین پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ان میں سے اوّل الذکر اداکار کا تعلق امریکا اور دوسری کا تعلق برازیل سے ہے۔ دیگر معاون اداکاروں میں جمی سمپسن (امریکا)، ڈائیو اوکنی (نائیجیریا)، اوکس فیگلی (امریکا) اور امانڈا بروگل (کینیڈا) نے بھی اپنے کرداروں سے انصاف کرتے ہوئے، اس پیچیدہ کہانی کو سمجھنے میں معاونت کی ہے اور ایک اچھا فریم ورک تشکیل پایا۔

    حرفِ آخر

    یہ ویب سیریز گزشتہ چند ہفتوں سے پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے مقبولیت مل رہی ہے۔ ایک پیچیدہ اور مشکل موضوع پر بنائی گئی اس ویب سیریز کو صرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر آپ جم کر کوئی ویب سیریز دیکھ سکتے ہیں، بغیر توجہ ہٹائے، تو یہ کہانی آپ کو تخیلاتی اعتبار سے کسی دوسری اَن دیکھی دنیا میں لے جائے گی۔ اس پوری کیفیت اور کہانی کو اگر میں ایک شعر میں بیان کروں تو بقول رضی اختر شوق:

    اپنی طرف سے اپنی طرف آرہا تھا میں
    اور اس سفر میں کتنے زمانے لگے مجھے!

  • The Regime: نرگسیت زدہ آمر خاتون کی عبرت ناک داستان

    The Regime: نرگسیت زدہ آمر خاتون کی عبرت ناک داستان

    دنیا میں کئی ایسے ممالک موجود ہیں، جہاں اُن کے سیاسی نظام میں اعلانیہ طورپر آمریت موجود ہے اور کہیں یہ ڈھکے چھپے انداز میں اقتدار سے چمٹی ہوتی ہے۔ اب ایسے ماحول میں تصور کریں، آمریت نافذ کرنے والی ایک بد دماغ عورت ہو تو کیا منظر نامہ بنے گا۔ مذکورہ ویب سیریز "دی رجیم” میں یہی صورتِ حال پیشِ نظر ہے۔

    یورپ کے وسط میں ایک فرضی ریاست دکھائی گئی ہے، جہاں اس حکمران عورت نے سب کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اس ویب سیریز کو دیکھتے ہوئے نجانے کیوں اس فرضی کہانی پر حقیقت کا گمان گزرتا ہے اور ہمیں چند ممالک کا واضح عکس اس کہانی میں دکھائی دیتا ہے۔ آخر کار فکشن بھی ایک طرح سے سچ کی تلخی کو شیرینی میں ڈبو کر ہی پیش کرتا ہے۔ اس دل چسپ مگر مختصر امریکی ویب سیریز کا تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    کہانی /اسکرپٹ

    دی رجیم کا مرکزی خیال ایک فرضی ریاست میں نافذ نسائی آمریت ہے۔ یہ سیاسی تمثیلی کہانی ہے، جو بتاتی ہے کہ جبر کا نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ آخر کار اس کو اپنے انجام تک پہنچنا ہی ہوتا ہے۔ اس کہانی میں ریاست پر قابض خاتون آمر”چانسلر ایلینا ورنہم” اپنے عالیشان محل میں براجمان دکھائی دیتی ہے، جہاں وہ اپنی من مانی کرتی ہے۔ وہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے علاوہ، ذاتی مراسم اور رشتے داروں سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ ایک حکمران اور ایک عورت، ان دونوں کا واضح فرق مرکزی کردار میں رکھا گیا ہے۔

    دی ریجیم

    اس خاتون آمر کی حکم رانی کا آخری سال دکھایا گیا ہے، جب اس کی زندگی میں ایک عسکری شخصیت، اس کی حفاظت کے لیے شامل ہوتی ہے۔ دھیرے دھیرے ایک آمریت پر دوسری آمریت غالب آجاتی ہے۔ چانسلر اپنے سیکورٹی سیکشن کے سربراہ کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے اور اس کی منشا کے مطابق سیاسی فیصلے کرتی ہے، جس کے نتیجے میں پہلے شاہی محل میں اور بعد میں پورے ملک میں ایک انتشار پھیلتا ہے، جو آخرکار اس کی آمریت کو نگل لیتا ہے۔

    دی ریجیماس کہانی کے خالق امریکی اسکرپٹ رائٹر "ول ٹریسی” ہیں، جن کا لکھنے کا کیریئر ہی ویب سیریز پر مبنی ہے۔ وہ اس سے پہلے کئی عمدہ کہانیاں لکھ کر بے پناہ ستائش اور کئی ایوارڈز وصول کر چکے ہیں۔ ان میں دی مینیو، سکسیشن اور لاسٹ ویک ٹو نائٹ وِد جان الیور شامل ہیں۔اس مختصر امریکی ویب سیریز دی رجیم کی کل چھ اقساط ہیں، جن کو وہ چابک دستی سے قلم بند کرچکے ہیں۔ پوری کہانی مرکزی اور ذیلی کرداروں سے اچھی طرح پیوستہ ہے۔ اس لیے کہیں بھی ناظرین کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوگی۔ انہوں نے فرضی ریاست کے نام پر کہانی میں جس ملک کے ڈھانچے کو پیش کیا ہے، وہ برطانیہ کا ہے۔ کہانی میں آمریت کو بیان کرتے کرتے موجودہ دور کے کئی سیاسی مسائل، اختلافات اور دنیا کے تحفظات کو بھی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ خاص طور پر عالمی برادری میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور امریکا کی دیگر ممالک میں سیاسی مداخلت سمیت متعدد اہم معاملات کو کہانی میں مہارت سے بیان کیا ہے۔

    اداکاری

    یہ کہنا بجا ہے کہ برطانوی اداکارہ "کیٹ ونسلیٹ” نے اپنی اداکاری سے دی رجیم میں اپنے کردار کو زندۂ جاوید کر دیا۔ اداکارہ نے اپنے کردار کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے مدمقابل بیلجیم سے تعلق رکھنے والے ایک باصلاحیت یورپی اداکار "میتھیاس شوناٹس” ہیں، جنہوں نے ایک فوجی سربراہ کا کردار نبھایا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ فرانسیسی اداکار "گیلیوم گیلیان” برطانوی اداکارہ "اینڈریا رائزبورو” اور دیگر فن کاروں نے اپنے کام سے بھرپور انصاف کیا ہے۔ امریکی اداکارہ "مارتھا پلمٹن” نے اپنی مختصر لیکن بہت مضبوط اداکاری سے اسکرین پر "کیٹ ونسلیٹ ” کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ مجموعی طور پر یہ کہانی نرگسیت کا شکار ایک آمر خاتون کی عکاسی کرتی ہے، جس کو کیٹ ونسلیٹ نے اپنی فنی صلاحیتوں سے امر کر دیا۔

    ہدایت کاری اور پروڈکشن

    اس مختصر ویب سیریز کو دو ہدایت کاروں نے مل کر تخلیق کیا ہے۔ ان میں پہلے برطانوی فلم ساز "اسٹیفن فیریس” جب کہ دوسری نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والی فلم ساز "جیسیکا ہوبز” ہیں۔ دونوں نے مشترکہ طور پر تین تین اقساط کو اپنی ہدایت کاری سے مزین کیا، دونوں اپنے اپنے شعبوں میں جانے پہچانے نام ہیں۔ تکنیکی طورپر بہت کامیابی سے بنائی گئی ویب سیریز دی رجیم کا سب سے کمزور نکتہ یہ ہے کہ ناظرین اس فرضی ریاست کو بخوبی پہچان سکتے ہیں کہ اس پر کس ملک کی چھاپ نظر آرہی ہے۔ ان کو چاہیے تھا کہ یہ اس کو مزید استعارات اور تمثیلوں کے ساتھ دل چسپ بناتے، مگر ایک بہت اچھی کہانی کی وجہ سے اس واحد خامی کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔

    معروف امریکی فلم ساز ادارے "ایچ بی او” (HBO) نے اس ویب سیریز کو پروڈیوس کیا ہے۔ ان کی ٹیم میں اس ویب سیریز کے لکھاری کے علاوہ بھی ایک پوری ٹیم مستند پروڈیوسرز پر مشتمل ہے، جس میں کیٹ ونسلیٹ بھی شامل ہے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے سینماٹو گرافر "ایلون ایچ کچلر” نے کمال مہارت سے اس کو عکس بند کیا ہے۔ ویب سیریز کی تدوین، اقساط کا ردھم اور عنوانات، لائٹنگ، میوزک، کاسٹیومز اور دیگر لوازمات کا خیال رکھا گیا ہے۔

    اس میں جس عمارت کو بطور شاہی محل دکھایا گیا ہے، وہ یورپی ملک آسٹریا کے شہر ویانا کا ایک میوزیم اور اس سے ملحقہ عمارت "شون برون پیلس” ہے۔ اس کا کچھ حصہ برطانیہ میں شوٹ کیا گیا ہے، البتہ مجموعی طور پر پروڈکشن ڈیزائن اچھا ہے۔ بہت تھام جھام نہیں ہے، بس ضروری انتظامات کیے ہیں اور اس ویب سیریز کو تخلیق کیا گیا ہے۔ اس کے برطانوی پس منظر کی وجہ سے متعلقہ تکنیکی و فنی ہنر مند ہی اس کی تشکیل میں شامل ہوئے ہیں۔ اسی لیے امریکی ویب سیریز ہونے کے باوجود اس پر یورپی سینما کی گہری چھاپ محسوس کی جاسکتی ہے۔

    مقبولیت کے نئے زاویے

    مارچ میں اس ویب سیریز کی پہلی قسط اسٹریمنگ پورٹل پر جاری کر دی گئی تھی۔ پھر بالترتیب چھ اقساط ریلیز ہوئیں۔ ناظرین اور ناقدین کی طرف سے اس کو پسند کیا جا رہا ہے۔ فلموں اور ویب سیریز کے تبصروں کے لیے جانی پہچانی ویب سائٹ "روٹین ٹماٹوز” پر اس کی مقبولیت کا تناسب ستاون فیصد ہے جب کہ میٹرکٹ ویب سائٹ پر بھی یہی تناسب دیکھا گیا ہے۔ آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے 6 اعشاریہ ایک فیصد پسندیدگی کا تناسب ہے اور یہ گزرتے دنوں کے ساتھ مزید بڑھ رہا ہے۔ گوگل کے قارئین کی طرف سے پانچ میں سے تین اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ 100 میں سے اس ویب سیریز نے 50 کا ہندسہ عبور کرتے ہوئے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور ناقدین کو بھی متاثرکرنے میں کامیاب رہی ہے۔

    آخری بات

    آمریت جیسے روایتی موضوع پر ویب سیریز یا فلم بنانا ایک مشکل کام ہے، کیونکہ یہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے، مگر اس ویب سیریز میں جس طرح ایک آمریت اور عورت کو تمثیل بنا کر پیش کیا گیا ہے، اس کے تناظر میں یہ عالمی سیاست میں خواتین کے نرگسیت زدہ کرداروں کی عکاسی کی کوشش ہے۔ اس میں آپ کو اپنی مقامی سیاست کے کسی کردار کی جھلک بھی دکھائی دے سکتی ہے اور کئی عالمی شہرت یافتہ سیاسی اور نیم سیاسی نسائی کرداروں کی چاپ بھی محسوس ہوسکتی ہے۔ اگر آپ عالمی سیاست میں دل چسپی رکھتے ہیں تو یہ ویب سیریز دیکھتے ہوئے آپ کا وقت ضائع نہیں ہوگا۔ ایچ بی او کے آن لائن اسٹریمنگ پورٹل پر یہ ویب سیریز آپ کی توجہ کی منتظر ہے۔