Tag: خرم سہیل کی تحریریں

  • شوگن: سترہویں‌ صدی کے جاپان پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے والی ویب سیریز

    شوگن: سترہویں‌ صدی کے جاپان پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے والی ویب سیریز

    دنیا بھر میں مقبولیت کا نیا اور منفرد ریکارڈ قائم کرنے والی یہ ویب سیریز شوگن ہمیں سترہویں صدی کے جاپان میں لے جاتی ہے جہاں حکمرانی اور اثر و رسوخ کے لیے طاقت کا استعمال دکھایا گیا ہے اور کرداروں کے ذریعے کہانی آگے بڑھتے ہوئے آپ کی توجہ اور دل چسپی سمیٹ لیتی ہے۔

    دنیا بھر میں اس وقت یہ ویب سیریز دیکھی جارہی ہے اور اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ 80 کی دہائی میں اسی کہانی پر ایک مختصر ڈراما سیریز بنی تھی، جس کو پاکستان ٹیلی وژن پر بھی قسط وار دکھایا گیا تھا۔ سترہویں صدی کے جاپان پر مبنی امریکی ویب سیریز کا اردو میں یہ واحد مفصل تجزیہ اور باریک بینی سے کیا گیا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    شوگن کیا ہے؟

    جاپانی تاریخ میں شوگن کی اصطلاح، فوجی سربراہ کے لیے بطور لقب استعمال ہوتی تھی اور یہی ملک کا حقیقی حکمران ہوا کرتا تھا۔ یہ لقب سب سے پہلے ہئین دور میں استعمال ہوا، جو کسی کامیاب جنگی مہم کے بعد متعلقہ جنرل کو دیا گیا۔ جب 1185ء میں میناموتویوری تومو نے جاپان پر فوجی کنٹرول حاصل کیا، تو اقتدار سنبھالنے کے سات سال بعد انہوں نے شوگن کا لقب اختیار کیا۔ جاپان کی قدیم تاریخ میں شوگن سے مراد ملک کا سربراہ اور دھرتی کا سب سے طاقتور فرد ہوا کرتا تھا۔ جاپان میں 1867ء کو سیاسی انقلاب برپا ہونے اور جاگیر دارانہ نظام کے خاتمے تک، یہ لقب اور اس سے جڑے افراد، جاپانی تاریخ کے اصل حکمران اور فوجی طاقت کا محور ہوئے۔ مذکورہ ویب سیریز کی کہانی میں ایسی ہی چند طاقت ور شخصیات کی اس اہم ترین عہدے کو پانے اور قائم رکھنے کے لیے لڑائیاں اور تصادم دکھایا گیا ہے۔

    پرانی ڈراما سیریز شوگن اور نئی ویب سیریز شوگن کا موازنہ

    یہ ذہن نشین رہے کہ پروڈکشن کے شعبے میں ڈراما سیریز کے لیے اب نئی اصطلاح، ویب سیریز ہے۔ اس میں فرق اتنا ہے کہ پہلے کسی بھی کہانی کو اقساط کی صورت میں ٹیلی وژن کے لیے تیار کیا جاتا تھا اور اب اس کو کسی اسٹریمنگ پورٹل کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے۔ 80 کی دہائی کی شوگن اور عہدِ حاضر میں بنائی گئی شوگن میں بڑا فرق کہانی کی طوالت کا ہے۔

    پرانی شوگن محدود اقساط پر مبنی ڈراما سیریز تھی، جب کہ موجودہ شوگن کے تین سیزن تیار کیے جائیں گے۔ ابھی پہلا سیزن بعنوان شوگن ہولو اسٹریمنگ پورٹل پر ریلیز کیا گیا ہے۔ اس مساوی کہانی کے دو مختلف پروڈکشن میں 64 ایسے نکات ہیں، جن کو تبدیل کیا گیا ہے، اس فرق کو سمجھانے کے لیے ہم نیچے ایک لنک دے رہے ہیں جس پر کلک کر کے آپ یہ فرق آسانی سے سمجھ سکیں گے۔

    پروڈکشن اور دیگر اہم تفصیلات

    امریکی پروڈکشن ادارے ایف ایکس نے پرانی کہانی پر ہی دوبارہ شوگن بنانے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس ویب سیریز کی مکمل پروڈکشن چار بڑی کمپنیوں کے اشتراک سے ممکن ہوئی ہے۔ ان چار کمپنیوں کے نام بالترتیب ڈی این اے فلمز، ایف ایکس پروڈکشنز، گیٹ تھرٹی فور پروڈکشنز اور مچل ڈے لوسا ہیں۔ اس کے لیے دس سے زائد پروڈیوسروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، جن میں مذکورہ ویب سیریز میں مرکزی کردار نبھانے والے جاپانی فلمی ستارے ہیروکی سنادا بھی شامل ہیں۔ اس ویب سیریز کی پروڈکشن ٹیم کا بڑا حصہ امریکی اور جاپانی فلم سازوں کے بعد اسکاٹش اور آئرش فلم سازوں پر مشتمل ہے، جو دل چسپ بات ہے۔ اس ویب سیریز کو جاپان اور کینیڈا میں پونے دو سال کے عرصہ میں فلمایا گیا ہے۔ شوگن، امریکی پروڈکشن ہاؤس ایف ایکس کی تاریخ کی سب سے مہنگی پروڈکشن ہے، اور اسے امریکی ٹیلی وژن ایف ایکس کے ساتھ ساتھ اسٹریمنگ پورٹلز اسٹار پلس، ڈزنی پلس اور ہولو پر ریلیز کیا گیا ہے۔

    جاپان سمیت پوری دنیا میں اس ویب سیریز کو بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔ اس ویب سیریز کے پروڈیوسرز میں سے ایک جاپانی پروڈیوسر اور عالمی شہرت یافتہ اداکار ہیروکی سنادا کا کہنا ہے، "ہالی ووڈ میں بیس سال کے بعد، میں ایک پروڈیوسر ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ میں کچھ بھی کہہ سکتا ہوں، کسی بھی وقت۔ میرے پاس پہلی بار ایک ٹیم تھی، لیکن اس سے بھی بڑھ کر، مجھے خوشی تھی۔” انہوں نے شو کو جاپانی تاریخ کے تناظر میں مستند حالات و واقعات سے مربوط رکھنے پر توجہ دی۔ "اگر کہانی میں کچھ غلط ہے تو لوگ ڈرامے پر توجہ نہیں دے سکتے۔ وہ اس قسم کا شو نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہمیں مستند کام کرنے کی ضرورت ہے۔” ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کچھ ڈرے ہوئے تھے کہ نجانے جاپانی ناظرین اسے کس طرح سے دیکھیں گے، لیکن ان کو یہ توقع نہیں تھی کہ جاپانی ناظرین اسے اتنا پسند کریں گے۔ وہ جاپان میں اس مقبولیت پر بے حد مسرور ہیں۔ اس ویب سیریز کے بنیادی شعبوں میں آرٹسٹوں اور ہنرمندوں نے متاثرکن کام کیا ہے، خاص طورپر موسیقی، ملبوسات، صوتی و بصری تاثرات، تدوین اور چند دیگر شعبہ جات اس میں‌ شامل ہیں۔

    مقبولیت کے نئے پیمانے

    فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی درجہ بندی دس میں سے آٹھ اعشاریہ سات ہے۔ فلمی ناقدین کی ویب سائٹ روٹین ٹماٹوز پر اسے 100 میں سے 99 فیصد کے غیرمعمولی تناسب سے پسند کیا گیا ہے اور بہت کم فلموں کے لیے یہ شرح تناسب دیکھنے میں آتا ہے۔ فلم افینٹی جو امریکی و برطانوی فلمی ویب سائٹ ہے، اس نے درجہ بندی میں اس ویب سیریز کو 10 میں سے 7.6 فیصد پر رکھا ہوا ہے۔ گوگل کے صارفین کی بات کریں تو وہاں ویب سیریز کی شرحِ پسندیدگی کا تناسب سو میں سے پچانوے فیصد ہے اور ویب سیریز کی یہ ستائش اور پذیرائی بھی انتہائی غیر معمولی ہے اور تادمِ تحریر یہ ویب سیریز مقبولیت اور پسندیدگی کی بلندیوں کی طرف ہی بڑھ رہی ہے اور لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مقبولیت کی نئی تاریخ رقم ہوگی۔ ویب سیریز کے ناظرین کی پسندیدگی تو ایک طرف، دنیا بھر کے فلمی ناقدین بھی اس ویب سیریز کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔

    ڈائریکشن اور اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کے ڈائریکٹر امریکی فلم ساز ٹم وین پیٹن ہیں، جن کے کریڈٹ پر گیمز آف تھرونز اور سیکس اینڈ سٹی جیسے تخلیقی شاہکار ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دی وائر اور بلیک مرر جیسی ویب سیریز کے بھی ہدایت کار رہ چکے ہیں۔ ریچل کوندو اور جسٹن مارکس کے تخلیق کردہ اس شاہکار کو اپنی ہدایت کاری سے انہوں نے گویا چار چاند لگا دیے ہیں۔

    ویب سیریز کی کہانی کا مرکزی خیال 1975ء میں شائع ہونے والے ناول شوگن سے لیا گیا، جس کے مصنف جیمز کلیویل ہیں۔ یہ دوسری عالمی جنگ میں، برطانیہ کی طرف سے سنگاپور میں جاپانیوں سے لڑے اور وہاں جنگی قیدی بھی بنے۔ شاید یہی ان کی زندگی کا موقع تھا، جس کی وجہ سے انہیں جاپانی تاریخ سے دل چسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے جاپان کے تناظر میں چھ ناولوں کی ایک سیریز لکھی، جن میں سے ایک ناول شوگن کے نام سے شائع ہوا۔ اس ناول پر ویب سیریز کا اسکرپٹ لکھنے والوں میں آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے اسکرپٹ رائٹر رونن بینٹ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

    مرکزی خیال و کہانی

    اس ویب سیریز کی کہانی کا آغاز سنہ 1600ء کے جاپان سے ہوتا ہے اور یہ اس کا پہلا سیزن ہے۔ فلم ساز ادارے نے اعلان کیا ہے کہ اس کے مزید دو سیزن بنیں گے، تو میرا یہ اندازہ ہے کہ اس ویب سیریز کی کہانی کو جاپان میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے تک فلمایا جائے گا۔

    پہلے سیزن میں اُس دور کی ابتدا کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اُس وقت کے جاپان کے مرکزی رہنما کی رحلت کے بعد سیاسی طاقت پانچ ایسے نگرانوں‌ میں مساوی تقسیم ہو جاتی ہے، جن کو ریجنٹس کہا گیا ہے، کیونکہ وہ پانچوں اس مرکزی حکمران کے بچے کی حفاظت پر مامور ہیں، جو اوساکا کے شاہی قلعہ میں پرورش پا رہا ہے۔ اس کے بالغ ہونے تک یہ طاقت ان پانچ نگرانوں کے پاس ہے اور وہ ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

    اس منظر نامے میں ایک انگریز ملاح بھی اس وقت شامل ہو جاتا ہے، جب اس کا ولندیزی جہاز، ایک سمندری طوفان کے نتیجے میں بھٹک کر جاپان کے ساحل کی طرف آ نکلتا ہے۔ یہ کردار انگریز جہاز راں ولیم ایڈمز سے منعکس ہے۔ دکھایا گیا ہے کہ اس برطانوی جہاز راں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے لیکن وہ جاپان کے سیاسی منظر نامے کی اہم ترین شخصیت اور پانچ نگراں حکمرانوں کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اپنی بعض خوبیوں اور بالخصوص عسکری مہارتوں کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس حکمران کی قربت حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے یہ وہ نگران حکمران ہے جس کا تعلق ایدو (ٹوکیو کا قدیم نام) سے ہے، اور دوسرے نگراں حکمران اس کے بڑے سخت مخالف ہیں، اور یہ اُن سے نبرد آزما ہے۔ ایدو سے تعلق رکھنے والے اس حکمران کی سپاہ میں بھی جہاز راں کی عسکری مہارتوں کا چرچا ہوتا ہے اور وہ ان کی نظر میں بھی مقام حآصل کرلیتا ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ اسے ایک اعلٰی عسکری عہدہ سونپ دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ ان کے ساتھ مل کر جنگی مہمات کا حصہ بنتا ہے۔ اس طرح ایک غیر جاپانی کو سمورائی کا درجہ مل جاتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ ایدو سے تعلق رکھنے والا یہ پہلا شوگن ہے، جس کی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پہلے سیزن کی کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے۔


    اس طرح کہانی میں آگے چل کر یہ پانچوں نگراں و مساوی حکمراں، انگریز جہاز راں، پرتگالی تاجر، کیتھولک چرچ کے نمائندے، سیاسی اشرافیہ سے وابستہ دیگر ذیلی کردار شامل ہوتے ہیں اور خاص طور پر ایک جاپانی خاتون کا کردار جو لیڈی تودا مریکو کہلاتی ہے، بھی اس کہانی میں نمایاں ہے اور یہ کردار ناظرین کو اپنے ساتھ اس طرح جوڑے رکھتا ہے کہ دس اقساط کب تمام ہوئیں، معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ان حکمرانوں کی کہانی میں جو روانی اور ربط ہے، اس پر اگر اس ویب سیریز کے لکھاری قابل ستائش ہیں، تو اس سے کہیں زیادہ وہ ناول نگار قابلِ تعریف ہے، جس نے جاپان کی تاریخ میں اتر کر، کہانی کو اس کی بنیاد سے اٹھایا۔ کہنے کو تو یہ خیالی کہانی (فکشن) ہے، مگر اس کے بہت سارے کردار اور واقعات جاپانی تاریخ سے لیے گئے ہیں اور وہ مستند اور حقیقی ہیں۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں مرکزی کرداروں کی بات کی جائے تو وہ تعداد میں درجن بھر ہیں۔ ان میں سے جن فن کاروں نے بے مثال کام کیا، ان میں ہیروکی سنادا (لارڈ یوشی توراناگاوا)، کوسمو جارویس (جان بلیک تھرون)، اننا ساوائی (لیڈی تودامریکو)، تادانوبو (کاشی گی یابوشیگے) تاکے ہیرو ہیرا (اشیدوکازوناری) اور دیگر شامل ہیں۔ ذیلی کرداروں میں دو درجن کردار ایسے ہیں، جنہوں نے اپنی اداکاری سے اس تاریخی ویب سیریز میں انفرادیت کے رنگ بھر دیے ہیں۔برطانوی اداکار کوسمو جارویس اور جاپانی اداکارہ اننا ساوائی کو اس کہانی کا ہیرو ہیروئن مان لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان دونوں کی وجہ سے کہانی میں ناظرین کی دل چسپی برقرار رہتی ہے جب کہ ہیروکی سنادا اور تادانوبو نے بھی ناظرین کو اپنی شان دار اداکاری کی بدولت جکڑے رکھا۔ دو مزید جاپانی اداکاراؤں موئیکا ہوشی اور یوکاکووری نے بھی متاثر کن اداکاری کی ہے۔ ان کو داد نہ دینا بڑی ناانصافی کی بات ہو گی۔ مجموعی طور پر اس ویب سیریز میں سیکڑوں فن کاروں نے حصہ لیا، جن میں اکثریت جاپانی اداکاروں کی ہے۔ سب نے بلاشبہ اپنے کرداروں سے انصاف کیا، یہی وجہ ہے کہ ویب سیریز نے ناظرین کے دل میں گھر کر لیا۔

    حرف آخر

    قارئین، اگر آپ عالمی سینما اور خاص طور پر کلاسیکی سینما کے پسند کرنے والے ہیں اور اس پر مستزاد آپ کو جاپان کی کلاسیکی ثقافت میں بھی دل چسپی ہے تو پھر یہ ویب سیریز آپ کے لیے ہی ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے آپ جاپان کی قدیم معاشرت، سیاست، ثقافت اور تہذیب کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھ سکیں گے۔ خوبصورت جاپان کے ساتھ اس ویب سیریز میں آپ جاپانی عورتوں کا حسن و جمال اور خوب صورتی بھی دیکھیں گے۔ ویب سیریز کے اس تعارف اور تفصیلی تبصرے کو میری طرف سے اس عید پر ایک تحفہ سمجھیے۔ اسے ضرور دیکھیے، آپ کی عید کی چھٹیوں کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔

  • ہیرا منڈی: ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا!

    ہیرا منڈی: ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا!

    ہندوستان کے معروف فلم ساز سنجے لیلا بھنسالی نے نیٹ فلیکس کے لیے اپنے فلمی کیریئر کی پہلی ویب سیریز "ہیرا منڈی” بنائی ہے، جس کا ان دنوں پاکستان اور بھارت میں بہت چرچا ہو رہا ہے۔ اس ویب سیریز پر فلم بینوں کے مثبت اور منفی تبصروں کے ساتھ فلمی ناقدین کی جانب سے تنقید بھی ہوئی ہے۔

    یہ تحریر آپ کو فیصلہ کرنے میں مدد دے گی کہ اس ویب سیریز کو کس نگاہ سے دیکھیں۔ اردو میں اس ویب سیریز پر پہلا مفصل تبصرہ اور تجزیہ پیشِ خدمت ہے۔

    پس منظر

    برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں بعض شہر اور مقامات ایسے ہیں جن کو ثقافتی حوالے سے بڑی اہمیت اور شہرت حاصل ہوئی، ان میں سے ایک پاکستان کے شہر لاہور کی "ہیرا منڈی” ہے۔ سولہویں صدی میں مغل دور میں، جب جلال الدین اکبر ہندوستان میں تخت پر براجمان تھا، تب اس کی بنیاد پڑی، کیوں کہ افغانستان، ازبکستان اور دیگر ایشیائی ممالک اور ہندوستان بھر سے رقاصاؤں نے یہاں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ان کے پڑوس ہی میں دربار سے وابستہ ملازمین کی رہائش گاہیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ یہ رقاصائیں دربار کی خدمت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ راجوں مہاراجوں کی دل جوئی کا سامان بھی تھیں۔ کچھ وقت گزرا تو یہ علاقہ غذائی اجناس کی تجارت کے لیے بھی پہچانا جانے لگا۔

    بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ افغان حکم راں احمد شاہ ابدالی کے دور میں ان طوائفوں کو جسم فروشی پر مجبور کیا گیا اور دل بہلانے کے ساتھ ساتھ ان پر ظلم و ستم بھی کیا گیا جس کا اختتام سکھوں کے دور میں ہوا۔ تاہم انگریزوں نے اپنے دور میں پھر ان عورتوں پر ظلم اور انھیں طرح طرح سے تنگ کرنا شروع کردیا۔ تجارت اور ثقافت کے اس سنگم کو سکھ دور میں اس وقت بامِ عروج پر دیکھا گیا جب رنجیت سنگھ ہندوستان کا حکم راں تھا۔ اس علاقے کو سکھ دور میں ہیرا سنگھ دی منڈی پکارا جاتا تھا، جو اُس دور کے سکھ وزیراعظم دھیان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ سے منسوب تھی۔

    اس طرح برٹش راج تک آتے آتے ہیرا منڈی ثقافتی تربیت کا مرکز بننے کے بعد، رقص و موسیقی کا مرکز بنی اور پھر شاہی محلّے میں تبدیل ہونے کے بعد ایک کوٹھے میں تبدیل ہوگئی۔ ان بدلتے ادوار کی تاریخ میں اس خطّے کی پیشہ ور عورت کے کئی نسوانی روپ دکھائی دیں گے، جس کا اختتام ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان پر ہوا۔ لاہور میں واقع آج کی ہیرا منڈی صرف اس تاریخ کے کھنڈر ہیں، جسے یہاں بیان کیا گیا ہے۔

    سینما میں بطور موضوع

    ہیرا منڈی ایک ایسی جگہ ہے، جس میں تخلیق کاروں کو بطور موضوع ہمیشہ کشش محسوس ہوئی ہے۔ اردو اور ہندی ادب سے لے کر، سینما تک سب نے اپنے اپنے انداز میں اس علاقے، یہاں کی روایات اور ثقافت کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔ سنجے لیلا بھنسالی نے بھی مذکورہ ویب سیریز کو اپنے تخیل میں تراشا۔ یہ خالصتاً ان کے دماغ کی اختراع ہے۔ حقیقت میں ہیرا منڈی میں کبھی ایسا دور نہیں گزرا۔ اس فلم ساز کے ذہن میں جو ہیرا منڈی تھی، وہ ترقی یافتہ لکھنؤ کی ہیرا منڈی ہے، مگر مجھے یہ کہنا پڑ رہا کہ فلم ساز اِس ہیرا منڈی کو اپنے اسکرپٹ میں بھی ڈھنگ سے پیش نہیں کرسکے، جو ان کے تخیل میں تھی۔

    یہ سنجے لیلا بھنسالی کا مرغوب موضوع ہے، جس پر وہ مختلف انداز سے طبع آزمائی کرچکے ہیں اور جن میں ان کی فلمیں‌‌، ہم دل دے چکے صنم، دیو داس، باجی راؤ مستانی، پدما وت اور گنگو بائی کاٹھیاواڑی شامل ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کسی آن لائن اسٹریمنگ پورٹل کے لیے یہ کام کیا ہے اور یہ ان کی اوّلین ویب سیریز ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی طوالت کو فلم ساز سنبھال نہیں پائے اور ایک اچھی ویب سیریز بنانے کے باوجود ان سے کئی سنگین غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ اس کی توقع اُن سے نہ تھی۔ ان غلطیوں کی بنیادی وجہ ویب سیریز کا ناقص اسکرپٹ ہے، جسے ایک اچھے مرکزی خیال پر لکھا گیا ہے۔

    اسی موضوع پر ہندوستانی اور پاکستانی سینما میں چند اچھی فلمیں بھی تخلیق کی جا چکی ہیں، جنہوں نے طوائف کے موضوع سے انصاف کیا۔ معروف فلمی محقق ذوالفقار علی زلفی کے بقول "اس موضوع پر پہلی فلم 1928ء کی خاموش فلم ‘وشو موہنی’ ہے۔” انہوں نے اس کے بعد بننے والی فلموں کو بالتّرتیب بیان کیا ہے جن میں 1939ء کی فلم ‘آدمی’ بھی شامل ہے جس کے ہدایت کار وی شانتا رام تھے۔

    1944ء میں سہراب مودی کی فلم ‘پرکھ’ خواجہ احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ گرودت کی فلم ‘پیاسا’ اور 1958ء میں ریلیز ہونے والی فلمیں ‘سادھنا’ اور ‘چاندنی چوک’ کے ہدایت کار بی آر چوپڑا تھے۔ اس کے بعد کی چند مشہور فلموں میں آستھا، چاندنی بار، چنبیلی سمیت دوسری فلموں میں مرزا غالب، مہندی، بے نظیر، میرے حضور، شرافت، آنسو اور مسکان، امراؤ جان ادا، شطرنج کے کھلاڑی، بیگم جان اور دیگر شامل ہیں۔ وکرم سیٹھ کے ناول پر بنی بی بی سی کی ویب سیریز ‘اے سوٹ ایبل بوائے’ بھی قابلِ ذکر تخلیق ہے، جس کی ہدایت کار میرا نائر تھیں۔

    ‘پاکیزہ’، ‘منڈی’ بھی دو ایسی ہیں فلمیں ہیں، جن کو اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے بلکہ کچھ لوگ تو ہدایت کار کے آصف کی فلم ‘مغلِ اعظم’ کو بھی اسی آنکھ سے دیکھتے ہیں جو بہرحال اپنے موضوع کے اعتبار سے مختلف فلم ہے۔ اسی موضوع کے تناظر میں کچھ اور فلمیں بھی بنیں۔ ان میں طوائف (1985ء) طوائف کی بیٹی (1989ء) پتی پتنی اور طوائف (1990ء) کلنک (2019ء) شامل ہیں۔ پاکستانی سینما میں عطاءُ اللہ ہاشمی کی 1961 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘غالب’ اور دیگر فلموں میں انجمن (1970ء) امراؤ جان ادا (1972ء) پاکیزہ (1979ء) ثریا بھوپالی (1976ء) بازارِ حسن (1988ء) صاحب بی بی اور طوائف (1998ء) ماہ میر (2016ء) اور ٹکسالی گیٹ (2024ء) شامل ہیں۔

    سنجے لیلا بھنسالی کی ‘ہیرا منڈی’

    کہانی۔ اسکرپٹ

    اس کہانی کا مرکزی خیال معین بیگ کی تخلیق ہے، جس پر سنجے لیلا بھنسالی نے اسکرپٹ لکھا اور دیویاندہی اور ویبو پوری نے مکالمے۔ جب کہ اس کہانی کے تخلیقی تسلسل اور اسکرپٹ سے متعلق دیگر شخصیات میں پرشانت کشور جوشی، موہن روات، ویبہو ڈکشٹ بھی شامل ہیں۔ مرکزی خیال کے پیش کار معین بیگ ہندوستان کی ایک ادبی شخصیت ہیں اور ان کی سنجے لیلا بھنسالی سے پرانی راہ و رسم ہے۔ انہوں نے 14 برس پہلے سنجے لیلا بھنسالی کو لاہور کی ہیرا منڈی کے تناظر میں ایک کہانی کا مرکزی خیال سنایا تھا جس پر فلم ساز نے پہلے فلم بنانے کا سوچا، لیکن موضوع کی گہرائی اور کہانی کی انفرادیت نے ان کو آمادہ کیا کہ وہ اسے وقت دیں اور اس پر جم کر کام کیا جائے۔ اس طرح انہوں نے اپنے کیریئر کی پہلی ویب سیریز لکھتے ہوئے اس کی ہدایات دیں اور اس کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    سنجے لیلا بھنسالی کے اس اسکرپٹ کا پلاٹ تو بہت مضبوط ہے، جو مرکزی خیال سے پیوست ہے۔ طوائفوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تصویر کشی کرتے ہوئے، ان کے آزادی کی جنگ سے جڑ جانے کو بہت عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔ بس، بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ کہانی لکھنؤ کے پس منظر میں سوچی گئی اور ہندوستانی جذبات کے ساتھ فلمائی گئی اور اس کے ماتھے پر زبردستی ‘ہیرا منڈی’ کا لیبل چسپاں کردیا گیا۔

    یہ ہندوستان کے کسی بھی ایسے علاقے کی کہانی ہوسکتی تھی، جہاں طوائفیں رہتی تھیں۔ اس کہانی میں نہ تو کہیں لاہور آیا، نہ کہیں اس علاقے کا کلچر، حتیٰ کہ پنجابی زبان، جو اس شاہی محلّے کا خاصّہ تھی، اس کا سفاکی سے قلع قمع کیا گیا۔ اس کہانی کو تحریر کرتے ہوئے کئی سنگین غلطیاں کی گئیں، جس طرح ہیرا منڈی کا تاریخی اور درست نام ‘شاہی محلّہ’ ہے، لیکن ویب سیریز کے اس اسکرپٹ میں اسے ‘شاہی محل’ لکھا اور بولا گیا۔ کوٹھے کی مالکن اور طوائفوں کی برادری کی سربراہ کے لیے لفظ ‘نائیکہ’ مستعمل ہے، جب کہ اس کہانی میں اس عورت کے نام کے ساتھ حضور، حضور کی تکرار کی گئی، جس کا نہ کوئی معنوی تعلق اس کہانی سے بنتا ہے اور نہ ہی تخلیقی۔ یہ ایک مہمل لفظ تھا، جن جن جگہوں پر بھی یہ استعمال ہوا۔

    ویب سیریز اور اس کے اسکرپٹ میں لکھی گئی اردو انتہائی ناقص اور غلط العام ہے۔ یہاں تک کہ اردو کا ایک اخبار دکھایا گیا، جس کو ایک معروف طوائف پڑھ رہی ہے، اس اخبار میں کئی جگہ غلط اردو دکھائی دی۔ سڑکوں پر آویزاں پوسٹرز اور احتجاجی جلوس میں شرکا کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے بینرز پر درج عبارتوں میں کئی غلط الفاظ اور ہندی رسم الخط دکھائی دیا جو کہانی کے مقام اور علاقے سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا تھا۔ کہانی اور کرداروں کی ترتیب، بُنت اور کلائمکس اچھے تھے، جس کی وجہ سے آٹھ اقساط کی اس سیریز میں دل لگتا ہے۔

    اس کہانی میں سوائے قدسیہ بیگم نامی کردار کے، جس کو معروف ہندوستانی اداکارہ فریدہ جلال نے ادا کیا، کسی نے اردو زبان کے تلفظ اور ادائی کا خیال نہیں رکھا۔ فریدہ جلال کے اردو بولنے کا ڈھنگ اور درست تلفظ کی تربیت شاید اس زمانہ میں ہوئی ہو جب وہ دور درشن ٹیلی وژن پر کام کرتی تھیں جہاں درست زبان بولنے پر ایسے ہی زور دیا جاتا ہے، جیسے کسی زمانے میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر ہوتا تھا۔ کرداروں کے غلط تلفظ نے اس کہانی کو جا بجا مجروح کیا، البتہ ایک کہانی میں کئی کہانیاں پیش کرنے کی کوشش کامیاب رہی، جن کا مونتاج بنانے میں سنجے لیلا بھنسالی بطور اسکرپٹ رائٹر کامیاب رہے، لیکن اگر انہوں نے طوائف کے موضوع پر اتنی تفصیل میں ہی جانا تھا تو سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کا ہی مطالعہ کر لیتے اور کہانی کی نفسیات، تکنیک، کرداروں کی مزید بنت اور زبان و بیان برتنے کا سلیقہ سیکھ سکتے تھے۔ اب بھی وقت ہے، اگر وہ چاہیں تو اس ویب سیریز کا دوسرا سیزن بنانے سے پہلے منٹو سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

    ہدایت کاری

    یہ ویب سیریز ایک ہدایت کار کے طورپر کامیاب پروجیکٹ ہے۔ اس کے پروڈکشن ڈیزائن سے لے کر تمام شعبہ ہائے تخلیق میں سنجے لیلا بھنسالی کا کام متاثر کن ہے۔ اگر ان کو اچھا اسکرپٹ ملتا تو ڈائریکشن کے تناظر میں جو معمولی غلطیاں ہوئیں، وہ نہ ہوتیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک عمدہ ڈائریکشن ہے، جس میں خاص طور پر اینی میشن، گرافکس، ویژول ایفکٹس، سیٹ ڈیزائننگ، کاسٹیومز، جیولری، میک اپ، لائٹنگ، ساؤنڈ، فریمز، سینماٹو گرافی اور سب کچھ دلکش ہے۔ ویب سیریز کو دیکھتے ہوئے اکثر یہ بصری دھوکہ ہوتا ہے کہ ہم ایک کے بعد ایک مغلیہ پینٹنگز دیکھ رہے ہیں۔ ہر فریم عمدہ اور نگار و نقش پُرسوز اور شان دار ہے۔ اس لیے اگر اسکرپٹ کی تکنیکی غلطیوں کو جن میں زبان و بیان کی غلطیاں ہیں، نظر انداز کر کے ویب سیریز کو دیکھا جائے تو یہ آپ کو ضرور ایک مختلف دنیا میں لے جائے گی، جہاں ہر چیز گویا محوِ رقص ہے۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز کے جن چھے کرداروں کے لیے اداکاراؤں کا انتخاب کیا گیا، ان میں سے تین کو درست انتخاب کہا جاسکتا ہے، جن میں منیشا کوئرالہ (ملکہ جان) سوناکشی سنہا (فریدن، ریحانہ) اور شرمین سہگل (عالم زیب) شامل ہیں۔ ان تینوں نے پوری ویب سیریز کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور خاص طور پر ان میں سب سے جونیئر اداکارہ شرمین سہگل نے اپنی اداکاری، چہرے کے تاثرات، بدن کی حرکات و سکنات اور شخصیت کی رعنائی سے بے حد متاثر کیا۔ انہوں نے کردار کو درکار نرماہٹ کا پورا پورا احساس دلایا۔ منیشا کوئرالہ اور سوناکشی سنہا نے حیران کر دیا۔ ان سے اتنے اچھے اور پختہ کام کی توقع کم ہی تھی۔

    ہیرا منڈی

    ہیرا منڈی

    باقی تین اداکارائیں ‘مِس کاسٹنگ’ ہیں، جس کی ذمہ دار ظاہر ہے کاسٹنگ ڈائریکٹر شرتی مہاجن ہیں۔ ان کی جگہ دوسری بہتر اداکاراؤں کو موقع دیا جا سکتا تھا۔ اس معاملے میں سنجے لیلا بھنسالی نے وہی غلطی دہرائی، جو انہوں نے "گنگو بائی کاٹھیاواڑی” میں عالیہ بھٹ کو کاسٹ کر کے اور ہما قریشی کو مختصر کردار میں ضائع کر کے کی تھی۔ میری نظر میں ویب سیریز میں تبو، مادھوری ڈکشٹ اور ہما قریشی جیسی مجسم طوائف کا سراپا رکھنے والی اداکاراؤں کو شامل نہ کرنا ان کے فن کی عظمت سے انکار ہے۔ ہما قریشی ہوتی تو پتہ چلتا کہ سوناکشی سنہا کتنی دیر اسکرین پر ڈٹ کر کھڑی رہ سکتی تھی۔ بہرحال ایک حسین امتزاج بن سکتا تھا، جس کی طرف فلم ساز نے توجہ نہیں دی۔

    ویب سیریز کے دوسرے کرداروں میں قدسیہ بیگم (زبیدہ جلال) استاد (اندریش ملک) صائمہ (شرتی شرما) شمع (پراتی بھا رنتا) اور جیسن شاہ (السٹائرکارائٹ) شامل ہیں۔ بالخصوص اندریش ملک ویب سیریز کے کئی سیزنز میں ساتھی اداکاراؤں پر حاوی نظر آیا۔ باقی کرداروں میں چند نے مناسب اور زیادہ تر نے غیر معیاری اداکاری کی، جس کی بنیادی وجہ اسکرپٹ کی وہ غلطیاں ہیں، جن کا ہم اوپر بیان کرچکے۔

    موسیقی

    اس شعبے میں سنجے لیلا بھنسالی ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔ بطور موسیقار اس بار بھی وہ سرخرو ہوئے۔ اس ویب سیریز میں مرکزی نغمات کی تعداد نو ہے، جس کی طوالت 32 منٹ 48 سیکنڈز بنتی ہے۔ یہ گیت بالتّرتیب طلسمی بیھین، سکل بن، آزادی، چودہویں صاحب، معصوم دل ہے میرا، پھول گیندوانہ مارو، سیاں ہٹو جاؤ، ایک بار دیکھ لیجیے اور نظر ای کی ماری ہیں۔ ان گیتوں کو جن گلوکاروں نے گایا ہے، اسی ترتیب سے ان کے نام شرمیستھا چترجی، راجا حسن، آرچاناگوری، پراگیتی جوشی، پریتی پرابہو دیسائی، آروہوئی، ادیتی پاؤل، ترنم ملک جین، دیپیتی راگے، شیریا گھوشل، شیکا جوشی، برنالی چتوپادھیوئے، کلپنا گندھوارا اور مدھوبنتی باگچی ہیں۔

    ہیرا منڈی

    اس ویب سیریز کا بیک گراؤنڈ میوزک برطانوی موسیقار بینڈیکٹ ٹیلر نے دیا ہے اور بہت شاندار اور مدھر انسٹرومنٹل میوزک ہے، جسے سن کر وجد طاری ہو جائے۔ وہ کئی انڈین فلموں کے لیے موسیقی مرتب کر چکے ہیں، لیکن ہیرا منڈی میں ان کے فن کا جادو سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔

    اس ویب سیریز میں مقبول ترین اور سب سے مشکل دھن، مشہورِ زمانہ امیر خسرو کی "سکل بن” ہے، جس کو راجا حسن سے گوایا گیا اور ہزاروں بار گائی ہوئی اس دھن کو انہوں نے اپنی آواز اور اندازِ گائیکی سے منفرد بنا دیا۔

    اس کی ویڈیو نے دھن کی جمالیاتی ساخت کو مزید پختہ کیا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی اپنی آواز کا کرشمہ دکھا پایا ہے تو وہ شرمیستھا چترجی، شیریا گھوشل اور برنالی چتوپادھیوئے ہیں جنہوں نے اس ویب سیریز میں دل کے تاروں کو اپنے سروں سے چھیڑ کر سماں باندھ دیا۔

    قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ شرمیستھا چترجی جنہوں نے اس ویب سیریز کا پہلا گیت طلسمی بیھین گایا ہے، وہ شیریا گھوشل کی طرح بنگالی زبان کا پس منظر رکھتی ہیں اور بے انتہا سریلی گلوکارہ ہیں۔ یہ ان کے فلمی کیریئر کا ابتدائی نغمہ ہے، اس سے پہلے وہ انفرادی طور پر کلاسیکی موسیقی کو گاتی رہی ہیں اور پاکستان سے ان کا ایک تعلق اس طرح بنتا ہے کہ وہ پاکستان کے کلاسیکی ماڈرن میوزک کے لیے مشہور "میکال حسن بینڈ” کی لیڈ سنگر بھی رہی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک البم بھی پاکستان میں ریکارڈ کروایا، جس کا نام "اندولن” ہے اور یہ 2014 میں ریلیز ہوا تھا۔ وہ پاکستان کے کوک اسٹوڈیو میں بھی اپنی آواز کا جادو جگا چکی ہیں۔

    مقبولیت کے نشیب و فراز

    پاکستان اور انڈیا کے میڈیا میں اس ویب سیریز کو بہت زیادہ توجہ ملی اور یہ زیرِ بحث رہی اور اب بھی اس پر بات کی جارہی ہے۔ دونوں طرف کے فن کاروں نے بھی اس پر اپنے خیالات اور تاثرات کا اظہار کیا۔ دونوں ممالک کے مابین اگر حالات معمول پر ہوتے تو قوی امید تھی کہ پاکستان سے بھی کچھ فن کاروں کو اس ویب سیریز میں شامل کیا جاتا۔ یہ تو نہیں ہوسکا، لیکن دونوں طرف سے اس پر لفظوں‌ کے نشتر ضرور چلائے گئے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ ویب سیریز گویا زیرِ عتاب رہی۔ اس تمام مخالفت کے باوجود یہ ویب سیریز نیٹ فلیکس پر ریلیز ہونے کے بعد مسلسل مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے۔ فلم ساز نے واضح طور پر کہا کہ "میں نے ہیرا منڈی کی حقیقی تاریخ نہیں بیان کی، بلکہ میں نے اپنے ذہن اور تخیل میں موجود ہیرا منڈی کو فلمایا ہے۔” اس کے بعد بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ اس ویب سیریز میں جو واقعات اور حالات دکھائے گئے ہیں وہ حقائق کے منافی ہیں۔

    سینما کی معروف ویب سائٹ "آئی ایم ڈی بی” پر ہیرا منڈی کی ریٹنگ 10 میں سے چھ اعشاریہ پانچ ہے۔ فلمی تبصروں کی معروف ویب سائٹ پر اس کی پسندیدگی کا تناسب 50 فیصد ہے۔ گوگل کی ریٹنگ میں 5 میں سے 4 ستارے ہیں۔ ہندوستانی 200 کروڑ کے بجٹ سے تیار ہونے والی یہ ویب سیریز اپنی غلطیوں کی وجہ سے اپنی مقبولیت کے نصف تک پہنچ سکی ہے۔ امید ہے اگر دوسرا سیزن تنقید اور تجاویز کے تناظر میں، غلطیوں سے سیکھنے کے بعد بنایا گیا تو یہ پہلے سیزن کو بھی پیچھے چھوڑ دے گی۔

    آخری بات

    اس ویب سیریز کی جمالیاتی تشکیل بہت عمدہ ہے۔ تکنیکی غلطیوں کو نظر انداز کر کے دیکھا جائے، تو یہ آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس ویب سیریز میں لاہور کے ساتھ ساتھ کراچی کا ذکر بھی آیا ہے اور دیگر کئی مشہور ہندوستانی شہروں کا بھی۔ حقیقی ہیرا منڈی کو نظرانداز کر کے سنجے لیلا بھنسالی کی ہیرا منڈی، جو لکھنؤ سے متاثر ہے، اسے ضرور دیکھیے، آپ اس سے لطف اندوز ہوں گے۔

    ویب سیریز جو کہ آٹھ اقساط پر مشتمل ہے، اسے دیکھنے کے لیے وقت نکالنا چاہیے، شروع کی ایک آدھ قسط دھیمی رفتار سے آگے بڑھتی ہے لیکن اس کے بعد کہانی کئی کلائمکس میں تقسیم اور کردار ایک دوسرے سے بندھے ہوئے دکھائی دیں گے، جس سے آپ حظ اٹھائیں گے اور فائنل کلائمکس پر دل خون کے آنسو روئے گا۔ اس ویب سیریز کے آخری منظر میں ان طوائفوں کے سارے گناہوں کی کالک دھل جاتی ہے اور آزادی کے پرچم کی سفیدی، ان کے تاریک ماضی پر غالب آجاتی ہے۔

    ہیرا منڈی

    اس پسے ہوئے طبقے کو جنہیں کبھی طوائف کہا جاتا تھا، یہ ویب سیریز خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک ایسی کوشش بھی ہے جس کی داد نہ دینا ناانصافی ہو گی۔ اس ویب سیریز ہیرا منڈی کی دنیا میں، آزادی کی جنگ لڑنے والی طوائفوں کے لیے میر تقی میر کی ایک غزل پڑھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ اس میں ان طوائفوں کا ہی دکھ بیان کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کہانی کو اگر ایک غزل کی صورت میں بیان کیا جائے، تو ان چند اشعار میں اس ویب سیریز کی پوری کہانی منعکس ہو رہی ہے، جسے آپ بھی محسوس کرسکتے ہیں۔

    دل جو زیرِ غبار اکثر تھا

    کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا

    اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن

    رات دن ہم تھے اور بستر تھا

    کیوں نہ ابرِ سیہ سفید ہوا

    جب تلک عہدِ دیدۂ تر تھا

    سرسری تم جہاں سے گزرے

    ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا

    یہ تحریر بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور رائے پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متّفق ہونا ضروری نہیں ہے۔