Tag: خشک سالی

  • معمول سے 62 فیصد کم بارشیں، خشک سالی کا الرٹ جاری

    معمول سے 62 فیصد کم بارشیں، خشک سالی کا الرٹ جاری

    محکمہ موسمیات نے پاکستان میں 62 فیصد تک معمول سے کم بارشوں کے باعث خشک سالی کا الرٹ جاری کر دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق محکمہ موسمیات نے پاکستان میں یکم ستمبر 2024 سے 21 مارچ 2025 تک معمول سے 62 فیصد تک کم بارشیں ہونے کے باعث ملک میں خشک سالی کا الرٹ جاری کر دیا ہے۔

    محکمہ موسمیات کے جاری اعداد وشمار کے مطابق یکم ستمبر 2024 سے 21 مارچ 2025 تک پاکستان بھر میں مجموعی طور پر 40 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں۔

    سب سے کم بارشیں صوبہ سندھ میں ہوئیں جہاں اسی مدت کے دوران معمول سے 62 فیصد کم بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔ اس کے بعد بلوچستان صوبے میں بھی 52 فیصد کم بارش ہوئی۔

    صوبہ پنجاب میں معمول سے 38 فیصد، خیبر پختونخوا میں معمول سے 35 فیصد اور آزاد کشمیر میں معمول سے 29 فیصد کم بارشیں ہوئیں۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق حالیہ بارشوں سے وسطی اور بالائی علاقوں میں خشک سالی کی صورتحال بہتر ہوئی۔ تاہم سندھ اور بلوچستان کے جنوبی حصوں اور پنجاب کے مشرقی میدانی علاقوں میں خشک سالی برقرار ہے۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ تربیلا اور منگلا ڈیموں میں پانی کی شدید قلت ہے جبکہ رواں سال مارچ میں جنوبی علاقوں میں اوسط درجہ حرارت معمول سے 2 سے 3 ڈگری زیادہ ہے۔

    محکمہ موسمیات نے بتایا کہ کچھ جنوبی علاقوں میں مسلسل خشک دنوں کی تعداد 200 سے بھی تجاوزکر چکی ہے، خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔

  • سندھ کے کن شہروں میں خشک سالی کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں؟

    سندھ کے کن شہروں میں خشک سالی کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں؟

    کراچی: سندھ حکومت کے محکمہ آبپاشی نے ایک مراسلہ جاری کرتے ہوئے کراچی سمیت سندھ بھر میں پانی کی شدید قلت اور خشک سالی کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔

    مراسلے کے مطابق رواں ربیع سیزن میں بارشوں کی کمی سے پانی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں، تربیلا میں صرف 0.102 ملین ایکڑ فٹ اور منگلا میں 0.226 ملین ایکڑ فٹ پانی موجود ہے۔

    مراسلے میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی کے ذخائر 4 سے 5 روز میں مکمل ختم ہو جائیں گے، اگر پانی کی کمی اسی طرح جاری رہی، تو خریف سیزن کے آغاز میں قلت 50 فی صد سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

    مراسلے میں محکمہ آبپاشی نے کہا ہے کہ دستیاب پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے منظم منصوبہ بندی کی جائے۔ مراسلے کے مطابق کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، ٹھٹھہ، بدین میں خشک سالی کے اثرات نمایاں ہونے لگے ہیں، دادو، سکھر، گھوٹکی، خیرپور، نوشہروفیروز، لاڑکانہ، جیکب آباد اور تھرپارکر میں بھی صورت حال خشک سالی والی ہے۔

  • کراچی  میں خشک سالی کا خدشہ، الرٹ جاری

    کراچی میں خشک سالی کا خدشہ، الرٹ جاری

    اسلام آباد : پی ڈی ایم اے نے کراچی سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں خشک سالی کے خدشے کا الرٹ جاری کردیا۔

    تفصیلات کے بارشوں میں کمی کی وجہ سے کراچی سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں خشک سالی کے پیش نظر پی ڈی ایم اے نے الرٹ جاری کردیا۔

    پی ڈی ایم اے نے کہا سندھ میں رواں سیزن کےدوران باون فیصد کم بارش ریکارڈ کی گئی، جس کے باعث فروری، مارچ تک خشک سالی بڑھنے کا امکان ہے۔

    الرٹ میں کہنا تھا کہ نوشہروفیروز، سکھر، شہید بے نظیرآباد، جامشورو میں بھی خشک سالی کا خدشہ ہے۔

    پی ڈی ایم اے نے کراچی میں ڈپٹی کمشنرز کو متبادل انتظام کی ہدایت کردی ہے جبکہ خیرپور اور تھرپارکر کی ضلعی انتظامیہ کو بھی پیشگی انتظام کی ہدایت کی ہے

  • پاکستان میں قحط پڑنے کا خطرہ ہے، سرکاری ادارے نے خبردار کر دیا

    پاکستان میں قحط پڑنے کا خطرہ ہے، سرکاری ادارے نے خبردار کر دیا

    اسلام آباد: پاکستان میں معمول سے کم بارشوں کے باعث خشک سالی کے خطرے کا انتباہ جاری کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ موسمیات نے ملک کے بیش تر علاقوں میں کم بارشوں کی وجہ سے خشک سالی جیسی صورت حال کا انتباہ جاری کر دیا ہے۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق یکم ستمبر 2024 سے 15 جنوری 2025 کے درمیان معمول سے 40 فی صد کم بارشیں ہوئیں، سندھ میں بارشیں معمول سے 52 فی صد، بلوچستان میں 45 فی صد اور پنجاب میں 42 فیصد کم بارشیں ہوئیں۔

    معمول سے کم بارشوں کے باعث ملک میں خشک سالی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، اگر جلد بارشوں کا سلسلہ شروع نہ ہوا تو خشک سالی کے حالات مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔

    دوسری طرف ملک بھر میں سردی کی لہر برقرار ہے، محکمہ موسمیات نے کشمیر اور بلتستان میں بارش اور پہا ڑوں پر برف باری کی پیش گوئی کی ہے، بالائی علاقوں میں بارش اور برف باری سے سردی بڑھ گئی ہے۔

    اسکردو میں درجہ حرارت منفی 5 ریکارڈ کیا گیا۔ کالام میں 9 انچ تک برف پڑ چکی ہے۔ مالم جبہ میں 7 انچ تک برف باری نے پارہ منفی 4 تک گرا دیا۔ گلگت میں درجہ حرارت صفر، کوئٹہ میں 1، مظفر آباد 3، اسلام آباد 4، پشاور 5 اور لاہور میں 10 ڈگری ریکارڈ کیا گیا۔ کراچی میں درجہ حرارت 13.5 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔

  • کینیا: خشک سالی سے 40 نایاب زیبرے ہلاک، ہاتھی بھی دم توڑ رہے ہیں

    کینیا: خشک سالی سے 40 نایاب زیبرے ہلاک، ہاتھی بھی دم توڑ رہے ہیں

    نیروبی: کینیا میں خشک سالی سے 40 نایاب زیبرے ہلاک ہو چکے ہیں، ہاتھی بھی بڑی تعداد میں دم توڑ رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کینیا میں خشک سالی جنگلی حیات پر بھاری پڑنے لگی، چار دہائیوں میں ہونے والی بدترین خشک سالی نے تین مہینوں میں دنیا کے نایاب زیبرے کے تقریباً 2 فی صد مار دیے، اسی عرصے کے دوران معمول سے 25 گنا زیادہ ہاتھی مارے گئے ہیں۔

    خشک سالی سے کینیا کی مشہور وائلڈ لائف خوراک کے ذرائع سے محروم ہو رہی ہے، جس کے سبب جانوروں کو اپنے علاقوں سے نکلنا پڑ رہا ہے اور اس طرح انسانوں کے ساتھ ان کا مہلک آمنا سامنا ہو رہا ہے، زیبرے اور ہاتھ پانی اور خوراک کی تلاش میں انسانی قصبوں اور دیہات کے کناروں تک پہنچ جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جنگلی حیات کو بچانے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے، اور بارشیں نہ ہوئیں تو مشرقی افریقی ملک کے بہت سے حصوں میں جانوروں کو وجودی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق گریوی کا زیبرا، عام میدانی زیبرے سے بڑا جانور ہے، اس کے جسم پر دھاریاں زیادہ قریب ہوتی ہیں، اور اس کے کان چوڑے ہوتے ہیں، یہ انواع میں سب سے نایاب ہیں، دنیا میں یہ صرف 3 ہزار باقی بچے ہیں، جن میں سے ڈھائی ہزار کینیا میں ہیں۔

    جون سے لے کر اب تک خشک سالی سے تقریباً 40 گریوی ہلاک ہو چکے ہیں، یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پورے سال میں کتنے زیبرا مرے ہوں گے۔

  • یورپ کو 500 سال بعد بڑے خطرے نے گھیر لیا

    یورپ کو 500 سال بعد بڑے خطرے نے گھیر لیا

    برسلز: یورپ کو 500 سال میں پہلی بار بدترین خشک سالی کے عفریت نے گھیر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق برِّ اعظم یورپ کا تین تہائی علاقہ خشک سالی کی زد میں آ گیا ہے، گلوبل ڈراٹ آبزرویٹری کی رپورٹ کے مطابق بر اعظم یورپ کے 47 فی صد علاقوں میں خشک سالی جیسے حالات موجود ہیں۔

    سینتالیس فی صد یورپی خطے میں زمین کی مٹی سوکھ چکی ہے، 17 فی صد یورپی علاقوں میں گھاس، پھوس اور سبزے کے خاتمے کی علامات ظاہر ہو چکی ہیں۔

    گلوبل ڈراٹ آبزرویٹری نے انتباہ میں کہا کہ خشک سالی کا اثر فصلوں کی پیداوار پر پڑے گا، اور خشک سالی کے باعث جنگلات میں آگ بھی بھڑک سکتی ہے، اور خشک سالی یورپ کے کچھ جنوبی علاقوں میں مزید کئی ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔

    برطانیہ کے مختلف حصوں میں خشک سالی کا اعلان

    رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ یورپ کے تقریباً تمام دریا کسی نہ کسی حد تک خشک ہو چکے ہیں۔

    امریکا میں خشک سالی سے صورت حال انتہائی خراب ہو گئی

    یورپی یونین کی پیش گوئیوں کے مطابق پچھلے پانچ سالوں کے مقابلے میں مکئی کی فصل 16 فی صد، سویابین کی 15 فی صد اور سورج مکھی کی فصل 12 فی صد کم ہوگی۔

    خیال رہے کہ خشک سالی کی آبزرویٹری یورپی کمیشن کے ریسرچ ونگ کا حصہ ہے، اس رپورٹ پر کمیشن نے متنبہ کیا ہے کہ ابتدائی اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ موجودہ خشک سالی کم از کم 500 سالوں کے بعد بدترین دکھائی دیتی ہے۔

  • خشک سالی اور قحط سے بچنے کے لیے درخت لگانا ضروری

    خشک سالی اور قحط سے بچنے کے لیے درخت لگانا ضروری

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو منانے کی قرارداد 30 جنوری 1995 کو منظور کی تھی جس کے بعد سے یہ دن ہر سال 17 جون کو منایا جاتا ہے۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔ اس کے لیے غیر آباد زمینیں بہترین ہیں جہاں کاشت کاری یا باغبانی کی جاسکتی ہے۔

    علاوہ ازیں آبی ذرائع کی مینجمنٹ کرنا اور انہیں احتیاط سے استعمال کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔

  • بلوچستان، سندھ اور پختونخواہ خشک سالی اور غذائی قلت کا شکار

    بلوچستان، سندھ اور پختونخواہ خشک سالی اور غذائی قلت کا شکار

    اسلام آباد: ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے گلوبل رپورٹ آن فوڈ کرائسز میں کہا گیا ہے کہ صوبہ بلوچستان اور سندھ میں خشک سالی کی صورتحال ہے، جبکہ پختونخواہ میں مون سون کی ناکافی بارشوں سے خوراک میں کمی ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے گلوبل رپورٹ آن فوڈ کرائسز جاری کری گئی۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تیل کی بلند قیمتوں، خشک سالی، مویشیوں میں بیماریوں اور کرونا وبا کے اثرات کی وجہ سے صوبہ بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور سندھ میں غذائی قلت پیدا ہوئی۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ بلوچستان اور سندھ میں خشک سالی کی صورتحال ہے، پختونخواہ میں مون سون کی ناکافی بارشوں سے خوراک میں کمی ہوئی۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار میں کمی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، بلوچستان اور سندھ میں بارش والے علاقوں میں گندم کی پیداوار متاثر ہوسکتی ہے۔

  • خبردار! ہیٹ ویو، سیلاب اور خشک سالی کے لیے تیار رہیں

    خبردار! ہیٹ ویو، سیلاب اور خشک سالی کے لیے تیار رہیں

    جنیوا: اقوام متحدہ کے ماحولیات سے متعلق ایک ادارے نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ ہیٹ ویو، سیلاب، بارشوں اور خشک سالی کے لیے تیار رہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے بین الحکومتی پینل (IPCC) نے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کو ہیٹ ویو، سیلاب، بارشوں اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے گا، اور یہ ماحولیاتی تبدیلی انسانی بقا کے لیے خطرناک ہے۔

    رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ حرارت 2030 تک 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے جب کہ عالمی حدت میں انسانوں کا کردار حد سے زیادہ اور واضح ہے، اقوام متحدہ کے سائنس دانوں کے مطابق انسان دنیا کے ماحول پر بری طرح سے اثر انداز ہو رہا ہے اور اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

    رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ جس حساب سے گیسز کا اخراج جاری ہے ایک عشرے میں درجۂ حرارت کی حد کے تمام ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں اور اس صدی کے اختتام تک سمندر کی سطح میں 2 میٹر تک اضافے کے خدشے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

    واضح رہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں یہ دنیا کی اب تک کی سب سے بڑی رپورٹ ہے، جسے جلد شائع کیا جائے گا ، جس میں ہماری زمین کی حالت کی واضح حقیقت بیان کی جائے گی۔ یہ مطالعہ بین الحکومتی پینل کی طرف سے کیا گیا ہے جس نے 14 ہزار سے زائد سائنسی مقالوں کو پڑھا۔

    آنے والی دہائیوں میں گلوبل وارمنگ دنیا کو کس طرح بدل دے گی، یہ رپورٹ اس کا تازہ ترین جائزہ ہوگی۔

  • برطانوی دور میں لاکھوں ہندوستانیوں کی موت کا ذمہ دار کون؟

    برطانوی دور میں لاکھوں ہندوستانیوں کی موت کا ذمہ دار کون؟

    ‘دا گریٹ بُک آف ہاریبل تھنگز'( The Great Book of Horrible Things) مشہور امریکی مؤرخ میتھیو وائٹ کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے دنیا کی تاریخ میں‌ سو بدترین سفاکیوں اور ہولناک واقعات کا تذکرہ کیا ہے جن میں‌ بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ اسی کتاب میں برطانوی دور میں ہندوستان میں‌ آنے والے قحط سے ہلاکتوں کو تاریخ کی چوتھی بدترین سفاکی کے طور پر جگہ دی گئی ہے۔ مؤرخ کے مطابق انسانی سفاکی نے دو کروڑ 66 لاکھ ہندوستانیوں کی جانیں لے لی تھیں۔

    کہتے ہیں کہ اس تعداد میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران بنگال کے قحط میں ہلاک ہونے والے شامل نہیں‌ ہیں جن کی تعداد 30 سے 50 لاکھ تک تھی۔ اگر یہ تعداد بھی شامل ہو تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں اور بعد میں براہِ راست برطانوی دور حکومت میں تقریباً تین کروڑ ہندوستانی زندگی سے محروم ہوئے۔

    ہندوستان کا شمار دنیا کے سب سے زرخیز خطوں میں ہوتا تھا جسے برطانیہ نے اپنی کالونی بنایا اور یہاں راج کرتا رہا، لیکن جب یہاں انسانوں پر قحط کا قہر ٹوٹا، بھوک نے زندگیاں چھینیں تو برطانیہ کیسے بے نیاز نظر آیا۔ میتھیو وائٹ کے مطابق ہندوستان میں‌ آنے قحطوں کی وجہ ‘تجارتی استحصال’ تھا۔

    کسی انگریز نے برطانوی دور کے ایک قحط کے بعد امید اور امکان کے ڈولتے لمحوں اور بکھرتی زندگی کا منظر یوں بیان کیا ہے:

    ‘دسیوں لاکھ لوگ چند بقیہ ہفتوں تک زندہ رہنے کی آس لیے مر گئے جو انھیں فصل تیار ہونے تک گزارنے تھے۔ ان کی آنکھیں ان فصلوں کو تکتی رہ گئیں جنھیں اس وقت پکنا تھا جب انھیں بہت دیر ہو جاتی۔’

    تاریخ شاہد ہے کہ طاقت ور اور مال دار ممالک دنیا کے مختلف خطّوں کی کم زور اور پسماندہ اقوام کی مجبوریوں کا سودا کرنے میں کام یاب ہونے کے بعد ان کے قدرتی وسائل پر نہ صرف قابض ہوئے بلکہ مختلف طریقوں سے ان کا استحصال کرکے اپنا خزانہ بھرتے رہے جسے مشہور فلسفی ول ڈیورانٹ نے یوں عیاں کیا ہے:

    ‘ہندوستان میں آنے والے خوف ناک قحطوں کی بنیادی وجہ اس قدر بے رحمانہ استحصال، اجناس کی غیر متوازن درآمد اور عین قحط کے دوران ظالمانہ طریقوں سے مہنگے ٹیکسوں کی وصولی تھی کہ بھوک سے ہلاک ہوتے کسان انھیں ادا نہیں کر سکتے تھے۔ حکومت مرتے ہوئے لوگوں سے بھی ٹیکس وصول کرنے پر تلی رہتی تھی۔’