Tag: خشک سالی

  • کیا ہماری زمین بنجر صحرا میں بدل جائے گی؟

    کیا ہماری زمین بنجر صحرا میں بدل جائے گی؟

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔ اس کے لیے غیر آباد زمینیں بہترین ہیں جہاں کاشت کاری یا باغبانی کی جاسکتی ہے۔

  • صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن

    صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، ’مستقبل کو مل کر اگائیں‘۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1 سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔ اس کے لیے غیر آباد زمینیں بہترین ہیں جہاں کاشت کاری یا باغبانی کی جاسکتی ہے۔

  • ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کا وزیراعظم عمران خان کوخط 

    ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کا وزیراعظم عمران خان کوخط 

    اسلام آباد: ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ خشک سالی پرقابو پانے کے لیے عالمی اداروں سے رابطہ کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے وزیراعظم عمران خان کوخط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سندھ ، بلوچستان میں خشک سالی ایک المیہ بن چکی ہے۔

    سلیم مانڈوی والا کے مطابق سندھ کے 8 اضلاع کوخشک سالی کا سامنا ہے، خشک سالی سے سندھ میں 4لاکھ 42 ہزارخاندان متاثرہوئے۔

    وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے بتایا کہ بلوچستان کے 18 اضلاع کوخشک سالی کا سامنا ہے، بلوچستان کے ایک لاکھ 35 ہزارخاندان متاثرہوئے ہیں۔

    ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ حکومت صوبائی ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹیزسے تعاون نہیں کررہی، وفاقی حکومت صوبائی اداروں کوفنڈزفراہم نہیں کررہی۔

    سلیم مانڈوی والا نے خط میں کہا کہ خشک سالی کے شکاراضلاع کوآفت زدہ قراردیا جائے، خشک سالی کے مسئلے پرکابینہ کا ہنگامی اجلاس بلایا جائے۔

    ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے خط میں مطالبہ کیا کہ خشک سالی سے نمٹنے کے لیے وفاقی اورصوبائی اداروں پرمشتمل فورس بنائی جائے اورعالمی اداروں سے رابطہ کیا جائے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں این ڈی ایم اے نے سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں کا خشک سالی سے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔

  • بلوچستان میں خشک سالی، لوگ اپنے باغات کاٹنے پر مجبور، قحط کی صورتِ حال

    بلوچستان میں خشک سالی، لوگ اپنے باغات کاٹنے پر مجبور، قحط کی صورتِ حال

    کوئٹہ: ملک کے اہم صوبے بلوچستان میں خشک سالی شدید نوعیت اختیار کر گئی ہے، لوگ اپنے باغات بھی کاٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان شدید طور پر خشک سالی کی لپیٹ میں ہے، جس کے باعث لوگ اپنے باغات کاٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں‘ مستونگ کی تحصیل دشت میں ڈھائی سو سے زائد ایکڑ اراضی پر مشتمل پھلوں کے درخت کاٹ دیے گئے۔

    [bs-quote quote=”علاقے میں اب تک 250 سو ایکڑ سے زائد اراضی پر مشتمل سیب‘ خوبانی اور دیگر پھلوں کے باغات کاٹے جا چکے ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے منظور احمد کی رپورٹ کے مطابق خشک سالی سے متاثرہ مستونگ کی تحصیل دشت میں پھلوں کے درخت مسلسل سوکھ رہے ہیں۔

    مقامی لوگوں نے گزشتہ روز مزید 20 ایکڑ پر محیط باغات کاٹ دیے‘ باغ بانوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں اب تک 250 سو ایکڑ سے زائد اراضی پر مشتمل سیب‘ خوبانی اور دیگر پھلوں کے باغات کاٹے جا چکے ہیں۔

    باغ بانوں کا کہنا ہے کہ اگر صورتِ حال یہی رہی تو علاقہ بنجر ہو جائے گا اور لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔


    یہ بھی پڑھیں:  بلوچستان حکومت اور ایشیائی ترقیاتی بینک میں قرض اور امداد کا معاہدہ طے


    مقامی زمین داروں کے مطابق بارشوں میں مسلسل کمی اور گزشتہ برس خاطر خواہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح 12 سو فٹ نیچے تک گر چکی ہے، جہاں سے پانی کا حصول بہت مشکل ہے۔

    صوبے میں خشک سالی کی دن بہ دن بھیانک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، محکمۂ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 کے دوران صرف 978 ملی میٹر بارش ہوئی جو معمول سے 733.5 ملی میٹر کم ہے۔

    بارش نہ ہونے سے بلوچستان کے 20 اضلاع شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں جن میں چاغی‘ نوشکی اور خاران کے بعض علاقوں میں قحط کی سی صورتِ حال بن گئی ہے۔

  • سال 2018: بلوچستان کے متعدد علاقے خشک سالی کی لپیٹ میں

    سال 2018: بلوچستان کے متعدد علاقے خشک سالی کی لپیٹ میں

    کوئٹہ: رواں برس صوبہ بلوچستان میں معمول سے نہایت کم بارشیں ہوئیں جس کے باعث متعدد علاقے خشک سالی کی لپیٹ میں آگئے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ بلوچستان میں گزشتہ 2 دہائیوں سے بارشوں میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے۔ محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2018 میں بارشوں میں مزید کمی دیکھی گئی۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق بلوچستان میں سال بھر میں مجموعی طور پر نہایت کم بارشیں ہوئیں جس کے باعث صوبے کے 14 اضلاع خشک سالی کی لپیٹ میں آگئے۔

    بارشوں میں کمی کی وجہ سے رواں برس زراعت کا شعبہ بھی شدید متاثر رہا۔ دریاؤں میں پانی کی کمی کے باعث گرین بیلٹ اور خشک آبہ علاقوں میں بھی زرعی پیداوار معمول سے کم رہی۔

    موسمی تبدیلیوں اور کم ہوتے آبی ذخائر سے نمٹنے کے لیے رواں برس کوئی قابل ذکر اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ نئی حکومت نے واٹر ایمرجنسی نافذ کردی تاہم کوئی بڑا ڈیم اس سال بھی مکمل نہ کیا جاسکا اور نہ ہی اینڈرڈ ڈیم منصوبے پر کوئی قابل ذکر پیشرفت ہوئی۔

    ماہرین کے مطابق صورتحال یہی رہی تو آئندہ برس صوبے کے بیشتر علاقوں میں قحط پڑنے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

  • پاکستان 2025 تک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے

    پاکستان 2025 تک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے

    اسلام آباد: پانی سے متعلق ’محفوظ پاکستان کی تعمیر‘ کے موضوع پر بین الاقوامی سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا، واٹر سمپوزیم کے اعلامیے میں خبردار کیا گیا کہ پاکستان 2025 تک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں محفوظ پاکستان کی تعمیر کے عنوان سے بین الاقوامی واٹر سمپوزیم میں کہا گیا کہ پاکستان میں قلتِ آب کا مسئلہ شدید تر ہو رہا ہے، ملک 2025 تک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔

    [bs-quote quote=”واٹر سمپوزیم کے اعلامیے میں سندھ طاس معاہدے پر دوبارہ غور کرنے کی تجویز دی گئی” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کا انتظام پہلی ترجیح ہونی چاہیے، اس معاہدے پر دوبارہ غور کیا جائے، زیرِ زمین پانی کے استعمال کی پالیسی شروع ہونی چاہیے۔

    سمپوزیم اعلامیے میں تجویز دی گئی کہ پانی کے عالمی قانون کے مطابق پاکستان اپنا مقدمہ لڑے، پانی کی تقسیم کے لیے جدید طریقے استعمال کیے جائیں، ملک میں چھوٹے ڈیم تعمیر کیے جائیں۔

    اعلامیے میں کہا گیا کہ میدانی، صحرائی علاقوں میں زیرِ زمین پانی کے ذخائر محفوظ بنائے جائیں اور ڈیموں کی تعمیر کے لیے مالیاتی اداروں سے رابطہ کیا جائے، دوسری طرف دریاؤں کو بھی محفوظ بنایا اور پانی کے ضیاع کو روکا جائے۔


    یہ بھی پڑھیں:  پانی کی کمی کی وجہ سے اپنی بچوں کی زندگی تلف ہوتے نہیں دیکھ سکتا: چیف جسٹس


    سمپوزیم اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ پانی کی قیمتوں کے حوالے سے پالیسی بنائی جائے، انڈس بیس اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے، ڈیموں، پانی کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے کے لیے انتظامات بہتر کیے جائیں۔

    اعلامیے میں کہا گیا کہ پانی سے متعلق اداروں کو اختیارات دیے جائیں، زراعت پر ٹیکس لگایا جائے، اسکولوں کے نصاب میں پانی کا ضیاع روکنے سے متعلق آگاہی دی جائے۔

  • تھرپارکر: خشک سالی اور غذائی قلت،30بچے دم توڑ گئے تعداد 500ہوگئی

    تھرپارکر: خشک سالی اور غذائی قلت،30بچے دم توڑ گئے تعداد 500ہوگئی

    تھرپارکر : سندھ کے سب سے بڑے ضلع تھرپارکر میں خشک سالی، قحط کے باعث غذائی قلت اور وبائی امراض نے ڈیرہ جما لیا، مٹھی کے اسپتال میں30بچے دم توڑ گئے تعداد 500تک جاپہنچی۔

    تفصیلات کے مطابق تھر میں اس سال پھر خشک سالی اور قحط کے باعث غذائی قلت وبائی امراض میں اضافہ ہوگیا ہے، پانی اور غذا کی شدید قلت سے تنگ آکر مقامی افراد اپنے مویشیوں کے ہمراہ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔

    یہی نہیں غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث بچوں کی اموات کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے، ضلع تھرپارکر میں وائرل انفیکشنز اور غذائی قلت کا راج بدستور مسلط ہے، آج بھی مقامی سول اسپتال میں علاج کے لیے لائے جانے والے دو بچے انتقال کر گئے۔

    مزید پڑھیں : صحرائے تھر ایک بار پھر قحط سالی کا شکار، لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی

    رواں ماہ کے دوران مٹھی اسپتال میں30بچے دم توڑ گئے، سال2018کے دوران جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد500ہوگئی، یہ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا آسانی سے شکار بن جاتے ہیں۔

  • چترال کا جنت نظیرعلاقہ پانی کی قلت سے صحرا میں تبدیل

    چترال کا جنت نظیرعلاقہ پانی کی قلت سے صحرا میں تبدیل

    چترال: خیبرپختونخواہ کے ضلع چترال کا خوبصورت علاقہ موری لشٹ پانی کی قلت کے سبب ان دنوں کسی ریگستان کا منظر پیش کررہا ہے، علاقے کے دو ہزار مکین نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چترال سے بونی جاتے وقت قدرے اونچائی پر واقع موری لشٹ کا علاقہ جو کسی زمانے میں انواع و اقسام کے پھلوں سے لدے درختوں کے سبب جنت کا منظر پیش کرتا تھا ، پچھلے کچھ عرصہ سے لق دق ریگستان کی طرح خشک پڑا ہے۔

    علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے کی جانب آنے والا پانی دوسرے علاقوں کی جانب موڑ دیا گیا ہے جبکہ یہاں آب رسانی کے لیے کوئی لائن بھی نہیں بچھائی گئی جس کے سبب یہاں کے ندی نالے اب خشک پڑے ہیں، ، پھلوں کے باغات خشک ہونے لگے ہیں اور انار، سیب، ناشپاتی ، آڑو، انگور پکنے سے پہلے خشک ہوکر گر رہے ہیں۔

    مکینوں کے مطابق فصل اور پھل ہی اس علاقے کے مکینوں کا کمائی کا واحد ذریعہ معاش تھا، ساتھ ہی ساتھ علاقے کے لوگ کھیتی باڑی کےعلاوہ مال مویشی بھی پالتے تھے مگر اب پانی نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اپنے مال مویشی فروخت کرنے پر مجبو ر ہیں۔

    علاقے کے معروف سیاسی ، مذہبی اور سماجی کارکن اخونزادہ رحمت اللہ کا کہنا ہے کہ پہلے یہاں بہترین قسم کا انار اور سیب ہوا کرتا تھا اب اس سال پانی نہ ہونے کی وجہ سے انار بھی خشک ہوگئے اور سیب وقت سے پہلے گر رہے ہیں جبکہ پھل دار درخت خشک ہورہے ہیں یہاں کے ندی نالیاں خشک پڑی ہیں اور یہ علاقہ جو ماضی میں جنت کا منظر پیش کرتا تھا اب لق دق ریگستان بنا ہوا ہے اور پورا علاقہ بنجر ہے ۔انہوں نے حکومتی اداروں سے مطالبہ کیا کہ تین کلومیٹر کے فاصلے پر موجود پانی کے ذخائر سے ان کے لیے پائپ لائن کے ذریعے یا نہر بنا کر پانی لائے جائے تاکہ ان کو پینے کے ساتھ ساتھ آب پاشی کے لیے بھی پانی فراہم ہوسکے اور لوگ نقل مکانی پر مجبور نہ ہو۔

    علاقے کے مکینوں نے شکایت کی کہ پہلے اس علاقے میں وافر مقدار میں پانی آتا تھا مگر چترال کے محکمہ آب پاشی ایک ایکٹنگ ایگزیکٹیو انجینئر نے رشتہ داری اور خاندانی بنیاد پر دوسرے لوگوں کو ان کا پانی فراہم کیا اور ان کو محروم رکھا جس کی وجہ سے ان کی نہایت ذرخیز زمین بنجر ہوگئی اور فصلیں تلف ہوکر خشک ہوگئی ہیں۔ دوسری جانب محکمہ آب پاشی کے ذمہ دار افراد نے اس حوالے سے بات کرنے سے گریز کیا۔

  • زمین کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانے کا عالمی دن

    زمین کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانے کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، ’زمین بہت قیمتی ہے، اس پر سرمایہ کاری کریں‘۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1 سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔ اس کے لیے غیر آباد زمینیں بہترین ہیں جہاں کاشت کاری یا باغبانی کی جاسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • میکسیکو کے کسان بارش ’اگانے‘ میں مصروف

    میکسیکو کے کسان بارش ’اگانے‘ میں مصروف

    آپ نے مصنوعی بارش برسانے کے بارے میں تو سنا ہوگا؟ یہ بارش ان علاقوں میں برسائی جاتی ہے جہاں بارش نہ ہوتی ہو اور وہاں خشک سالی کا خدشہ ہو۔

    مصنوعی بارش کے لیے بادلوں پر کیمیائی مادوں کا مجموعہ ڈالا جاتا ہے۔ اس عمل کو ’کلاؤڈ سیڈنگ‘ کہا جاتا ہے جس سے بارش ہوتی ہے۔

    لیکن میکسیکو کے رہائشی اپنی بارش خود ’اگا‘ رہے ہیں۔

    rain-post-2

    دراصل میکسیکو کے کسان اپنے کھیتوں میں پوٹاشیم کے ذرات بو رہے ہیں۔ یہ ذرات اپنی جسامت سے 500 گنا زیادہ پانی جذب کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں یہ پانی ان ذروں کے اندر 8 سال تک رہ سکتا ہے۔

    یہ علاقہ شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں کے سیزن میں کمی ہوچکی ہے لہٰذا یہاں کے کسان سنگین صورتحال سے دو چار ہیں۔

    rain-post-1

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک سائنسدان سرگیو ریکو نے یہ ’خشک بارش‘ خشک سالی کا شکار کسانوں کی مدد کے لیے بنائی ہے۔ اسے کھیتوں میں ڈالنے کے بعد یہ جڑوں کو پانی فراہم کرتا رہتا ہے اور کھاد کی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے۔

    rain-post-4

    rain-post-3

    اسے متعارف کروانے والے ماہر سرگیو ریکو کا کہنا ہے کہ یہ انہیں بے شمار فوائد دے سکتا ہے۔ بڑی بڑی بوریوں میں بارش کو محفوظ کرنے کی صورت میں ان کے پانی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں جس کے بعد انہیں اپنے گھروں سے ہجرت کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

    اسے استعمال کرنے والے کسان خوش ہیں کہ یہ ’بارش‘ ان کی بھوک اور غربت کا خاتمہ کرسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔