Tag: خشک میوے

  • کون سا میوہ، کسے پسند ہے؟

    کون سا میوہ، کسے پسند ہے؟

    خشک میوہ جات نہ صرف خوش ذائقہ نعمت ہیں بلکہ بے شمار طبی فوائد کے حامل بھی ہیں۔

    یہ جہاں جسم کو قوت بخشتے ہیں، وہیں کئی بیماریوں سے ہماری حفاظت بھی کرتے ہیں۔ موسمِ سرما میں ان کا استعمال بڑھ جاتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ڈرائی فروٹس صحت کے لیے مفید ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی درجہ حرارت میں بھی اضافہ کرتے ہیں  اور  اسے سردی کے برے اثرات سے بچاتے ہیں۔

    پوری دنیا میں یوں تو سردیوں میں خشک میوہ جات کی طلب بڑھ جاتی ہے، لیکن مختلف خشک میوہ جات سال بھر استعمال ہوتے ہیں۔

    ہر ملک میں خوش ذائقہ میوہ جات موسم کے اعتبار سے اور اپنی پسند کے مطابق سال بھر استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہاں‌ ہم آپ کو ان چند میوہ جات کے بارے میں بتارہے ہیں جو مختلف ملکوں میں سب سے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔

    پاکستان میں مونگ پھلی، اخروٹ، بادام اور سردیوں میں خاص طور پر چلغوزہ ایسی سوغات تھی جو اب عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہے۔ کاجو اور پستہ بھی لوگ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔

    افغانستان میں پستہ، کاجو، اخروٹ اور گری دار میوہ جات نہ صرف لوگ خود بہت شوق سے کھاتے ہیں بلکہ ان سے مہمانوں کی تواضع بھی کی جاتی ہے۔

    بھارت میں بھی خاص طور پر سردیوں میں اخروٹ، کاجو، مونگ پھلی کا استعمال بڑھ جاتا ہے، لیکن چھوہارے اور کشمش کو عام پسند کیا جاتا ہے۔

    ایران چلیے تو خاص طور پر سردیوں میں تازہ اور خشک میوہ جات کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ وہاں انجیر، کشمش، پستہ، اخروٹ، کاجو وغیرہ زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔

    یمن کے باشندے بھی یوں تو ہر قسم کے میوہ جات کے شوقین ہیں، لیکن بازار میں سال بھر کشمش کی مختلف اقسام زیادہ نظر آتی ہیں۔

    مراکش میں کھجوروں کی کئی اقسام دکانوں پر سجی دیکھی جاسکتی ہیں جب کہ سردیوں میں ہر قسم کے میوہ جات کا استعمال عام ہے۔

    عراق میں سردیوں کے عام میوہ جات کے علاوہ سورج مکھی کے بیج، پستہ اور بادام کی کئی اقسام پسند ہیں۔

    سورج مکھی کے بیج اور مونگ پھلی سنگاپور کے لوگوں کو بے حد پسند ہے۔

    مختلف پکوان خاص طور پر سویٹ ڈشز میں‌ بھی خشک میوہ جات کا استعمال عام ہے۔

  • قرآن اور بائبل میں انجیر کا ذکر کیوں آیا ہے؟

    قرآن اور بائبل میں انجیر کا ذکر کیوں آیا ہے؟

    انجیر وہ پھل ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے اور بائبل میں بھی۔ مقدس کتاب قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انجیر کی قسم اٹھائی ہے۔

    انجیر کا درخت پستہ قد ہوتا ہے۔ ماہرینِ نباتات کے نزدیک اس کا اصل وطن یونان سے افغانستان اور مشرقی بحیرہ روم کا علاقہ ہے۔ پکنے کے بعد انجیر درخت سے ٹوٹ کر گر جاتا ہے۔

    ہمارے یہاں انجیر کو خشک کر کے محفوظ کر لیا جاتا ہے اور یوں یہ خاص طور پر سردیوں میں دوسرے میوہ جات کی طرح استعمال ہوتا ہے۔ طبی ماہرین نے موسمِ سرما میں انجیر کے استعمال کے کئی فوائد بتائے ہیں۔
    قدیم زمانے میں بھی اطبا اور حکما اسے مختلف جسمانی عوارض سے نجات کے لیے استعمال کرواتے تھے۔ یہ جسمانی طور پر کم زور اور دبلے لوگوں کے لیے ایک نعمت ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ جسم کو فربہ اور سڈول بناتا ہے۔ مختلف زبانوں اور علاقوں میں اسے مختلف ناموں سے پہچانا جاتا ہے تاہم اس کا نباتاتی نام فیک کیریکا ہے۔

    انجیر ایسا پھل ہے جسے خشک کر کے زیادہ عرصے تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ انجیر کو خشک کرنے کے دوران جراثیم سے پاک کرنے کی غرض سے گندھک کی دھونی دی جاتی ہے اور پھر اسے نمک کے پانی میں ڈبوتے ہیں جس سے سوکھنے کے بعد وہ نرم و ملائم اور خوش ذائقہ معلوم ہو۔

    انجیر میں پروٹین، معدنی اجزا شکر، کیلشیم، فاسفورس کی مقدار بھی موجود ہوتی ہے۔ یہ ہاضم ہے اور جگر اور تلی کے لیے مفید ہے۔ طبیب اکثر نہار منہ انجیر کھانے کی ہدایت کرتے ہیں اور اس کے بہت سے فوائد بتائے جاتے ہیں۔ یہ قبض سے نجات دلاتا ہے۔ سردیوں میں انجیر بچوں کی نشوونما میں مفید ہے۔ دودھ کے ساتھ انجیر کا استعمال رنگت نکھارتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ پھل خون کے سرخ ذرات میں اضافہ کرتا ہے اور زہریلے مادے ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔