Tag: خصوصی عدالت

  • سلمان خان کے قتل کیلیے کرائے کے قاتلوں کو کتنی رقم دی گئی؟

    سلمان خان کے قتل کیلیے کرائے کے قاتلوں کو کتنی رقم دی گئی؟

    بالی ووڈ کے معروف اداکار سلمان خان کو قتل کرنے لے لیے کرانے کے قاتلوں کو لاکھوں روپے دینے کا انکشاف ہوا ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بالی ووڈ سپر اسٹار سلمان خان کے گھر پر فائرنگ کے کیس میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، ممبئی کرائم برانچ کی جانب سے دائر چارج شیٹ میں اہم انکشاف کیا گیا ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق لارنس بشنوئی نے سلمان خان کے قتل کی ہدایت دی تھی اور اس کام کے لیے 6 کرائے کے قاتلوں کو ٹاسک دیا گیا تھا، لارنس بشنوئی نے قاتلوں کو سلمان خان کو قتل کرنے کے لیے 20 لاکھ کی ادائیگی کی تھی۔

    چند روز قبل ممبئی کی خصوصی عدالت نے جیل میں قید گینگسٹر لارنس بشنوئی کے بھائی انمول بشنوئی اور روہت گوڈیرا نامی شخص کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیا تھا، روہت مبینہ طور پر لارنس بشنوئی گینگ کا رکن ہے۔

    تاہم انمول اور روہت واقعے کے بعد سے مفرور ہیں اور ممبئی پولیس نے انہیں چارج شیٹ میں نامزد کیا تھا۔

    واضح رہے کہ اسی سال 14 اپریل کو 2 موٹر سائیکل سواروں نے سلمان خان کی ممبئی کی رہائش گاہ پر فائرنگ کی تھی، جس کے بعد متعدد لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

  • سائفر کیس اوپن اینڈشٹ کیس تھا، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے کیس خراب کیا،  تفصیلی فیصلہ جاری

    سائفر کیس اوپن اینڈشٹ کیس تھا، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے کیس خراب کیا، تفصیلی فیصلہ جاری

    راولپنڈی : خصوصی عدالت نے سائفر کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس ہے، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریش نے دانستہ حرکات کے باعث کیس خراب کیا اور مجرم قرار پائے۔

    تفصیلات کے مطابق خصوصی عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کیخلاف سائفرکیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

    خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا، سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ 77 صفحات پرمشتمل ہے۔

    تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی نےسائفروزارت خارجہ کوواپس نہیں بھیجا، سائفر معاملے سے دیگرممالک سے تعلقات پر اثرپڑا، جس سے دشمنوں کوفائدہ ہوا اور سماعت کے دوران وکلا صفائی غیرسنجیدہ دکھائی دیئے۔

    عاالتی فیصلے میں کہنا تھا کہ 17 ماہ کی تحقیقات سےثابت ہوا،سائفرکیس تاخیر سےدائرنہیں کیاگیا، بانی پی ٹی آئی کی ذمہ داری تھی بطور وزیراعظم سائفر واپس بھجواتے، بانی پی ٹی آئی نے اب تک سائفرکی کاپی واپس نہیں کی۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود کیس میں تاخیر کیلئےچھپن چھپائی کا کھیل کھیلتے رہے، تکلیف دہ یہ ہے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے کئی وکلا تبدیل کئے، ہائی پروفائل ،حساس کیس میں ملزمان کو بار بار صفائی کے مواقع فراہم کئے گئے۔

    تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ملزمان نے چھپن چھپائی کا کھیل کھیلا اور کارروائی کومذاق سمجھا،بانی پی ٹی آئی اورشاہ محمود آفیشل سیکرٹ ایکٹ کےتحت مجرم ثابت ہوئے، بانی پی ٹی آئی اورشاہ محمودکو 10،10سال قیدبامشقت کی سزا سنائی جاتی ہے، جو ثبوت عدالت میں پیش کئے گئے وہ ناقابل تردیدہیں۔

    خصوصی عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو مختلف دفعات کے تحت قید کی سزا اور جرمانے کا حکم دیتے ہوئے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی سیکشن 5تھری اے اور 5 ون سی کے تحت مجرم قرار دیا۔

    بانی پی ٹی آئی کوایکٹ کےسیکشن 5تھری بی کےتحت2سال قید ،10لاکھ جرمانےکی سزاکا حکم دیا اور بانی پی ٹی آئی کو سیکشن فائیو تھری اے کے تحت 10 سال قید کا حکم دیا۔

    فیصلے میں عدالت کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں پر ایک ساتھ عمل شروع ہوگا، ریاست کے اخراجات پر ڈیفنس کونسل دیےگئے، اسٹیٹ ڈیفنس کونسل نےگواہان پر جرح کی، بغیرشک وشبہ کےاستغاثہ کیس ثابت کرنےمیں کامیاب رہی۔

    خصوصی عدالت نے کہا کہ یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس ہے، بانی پی ٹی آئی اورشاہ محمودنےدانستہ حرکات کےباعث کیس خراب کیااورمجرم قرار پائے، دونوں مجرم جرح کے عمل کو متاثر کرنے کیلئےاپنے عمل کی وجہ سےکسی رعایت کےمستحق نہیں۔

    کسی کو بھی دوسرےممالک کیساتھ تعلقات خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، سائفر ٹیلی گرام بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے قبضے میں رہا، اعظم خان نےکئی بار متنبہ بانی پی ٹی آئی کو کیا تھا، بانی پی ٹی آئی نےمقامی،غیرملکی میڈیا، سوشل میڈیا پر سائفر پربات کی، اعظم خان کا بیان سچائی پر مبنی تھا جس نےپراسیکیوشن دلائل کومضبوط کیا۔

    عدالت نے مختلف دفعات کے تحت بانی پی ٹی آئی کو مجموعی طور پر 24 سال قید بامشقت اور شاہ محمود قریشی کو بھی مختلف دفعات کے تحت مجموعی طورپر20سال قید بامشقت کا حکم دیا۔

    تفصیلی فیصلے میں کہنا تھا کہ تمام سزائیں ایک ساتھ شروع ہوں گی، مجرمان کا دفعہ 382 کے تحت جیل میں گزاراوقت بھی سزا میں تصور ہوگا، مجرمان کےاس عمل کی وجہ سےپاکستان کومعاشی ،سفارتی ،سیاسی نتائج کاسامنا کرنا پڑا، پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی بری طرح متاثر ہوئی، اس سارے عمل میں غیر ملکی طاقتوں کو فائدہ ہوا جو پاکستان کےدوست نہیں۔

  • چیئرمین پی ٹی آئی کا ہر ہفتے کے روز بیٹوں سے بات کرانے کیلئے عدالت سے رجوع

    چیئرمین پی ٹی آئی کا ہر ہفتے کے روز بیٹوں سے بات کرانے کیلئے عدالت سے رجوع

    اسلام آباد : چیئرمین پی ٹی آئی نے ہر ہفتہ کے روز بیٹوں سے بات کرانے کیلئے عدالت سے رجوع کرلیا، جس میں کہا ہے کہ بیٹوں سلمان اور قاسم سے چیئرمین پی ٹی آئی کا بات کرناحق ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی نے ہر ہفتہ کے روز بیٹوں سے بات کرانے کیلئے درخواست دائر کردی۔

    چیئرمین پی ٹی آئی نے درخواست شیراز احمد رانجھا ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر کی، جس میں مؤقف اختیار کیا کہ عدالت نے21 اکتوبر کو چیئرمین پی ٹی آئی کی بیٹوں سے بات کرانے کا حکم دیا، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ نے واٹس ایپ پر چیئرمین پی ٹی آئی کی بیٹوں سے بات کرائی۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ ہر ہفتہ کےروز چیئرمین پی ٹی آئی کی بیٹوں سے بات کرانے کا حکم دیاجائے، بیٹوں سلمان اور قاسم سے چیئرمین پی ٹی آئی کا بات کرناحق ہے۔

    آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی عدم دستیابی کے باعث تاحال درخواست پرکارروائی نہ ہوسکی۔

  • سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت، ہائی پروفائل اور نیب کیسز میں تبادلے روک دیے

    سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت، ہائی پروفائل اور نیب کیسز میں تبادلے روک دیے

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہائی پروفائل کیسز میں تفتیشی افسران کے تبادلے روکنے کا حکم جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے عدالتوں میں جاری کیسز میں اعلیٰ حکومتی شخصیات کی جانب سے مداخلت پر از خود نوٹس لیا تھا، جس کی سماعت کرتے ہوئے آج عدالت نے اہم حکم جاری کر دیا ہے۔

    کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت، ہائی پروفائل اور نیب کیسز میں تفتیشی افسران کے تبادلے روک دیے ہیں۔

    سپریم کورٹ نے ایف آئی اے، نیب پراسیکویشن اور تفتیشی ریکارڈ سیل کرنے کا بھی حکم جاری کر دیا ہے، نیز نیب اور ایف آئی اے کو حکم دیا گیا ہے کہ تا حکم ثانی وہ کوئی بھی کیس عدالتی فورم سے واپس نہ لیں۔

    سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ای سی ایل میں شامل، نکالے گئے تمام نام اور طریقہ کار کی تفصیل پیش کی جائے، اور پراسیکیوشن سے متعلقہ 6 ہفتے میں کی گئی تقرریوں اور تبادلوں کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کی جائیں۔

    کیس کی مزید سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے سیکریٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین نیب، پراسیکیوٹرز، ایڈووکیٹ جنرل، او رہیڈ آف پراسیکیوشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے از خود نوٹس کی سماعت آئندہ ہفتے کے جمعے تک ملتوی کر دی۔

    قبل ازیں، چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی افسر کو پیش ہونے سے منع کیا، پراسیکیوشن برانچ اور پراسیکیوشن کے عمل میں یہ مداخلت نہیں ہونی چاہیے، ہم پراسیکیوشن کو ہٹانے کا معاملہ جاننا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا ڈی جی ایف آئی اے ثنا اللہ عباسی اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں، ڈاکٹر رضوان کو تبدیل کیا گیا، اور بعد میں ان کا ہارٹ اٹیک ہوا، عدالت کو ان معاملات پر تشویش ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا اخباری تراشے ہیں ای سی ایل سے نام نکلنے پر ہزاروں افراد کا فائدہ ہوا، ہم ان معاملات کو بھی جاننا چاہتے ہیں، ہم ایسی خبریں ایک ماہ سے دیکھ اور پڑھ رہے ہیں، اس سے قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے، امن اور اعتماد کو معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت ایک ذمہ داری ہے، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے واضح کیا کہ یہ کارروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا شرمندہ کرنے کے لیے نہیں ہے، یہ کارروائی فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کے لیے ہے۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت کے دوران کہا ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت میں تحریری درخواست دیتے ہوئے بتایا کہ انھیں پیش نہ ہونے کا کہا گیا ہے، پراسیکیوٹر کو کہا گیا کہ جو وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بننے والا ہے، اس کے مقدمے میں پیش نہ ہوں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ٹارگٹڈ ٹرانسفر پوسٹنگ کیے گئے، اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ اشتر اوصاف نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ ہوگی، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا اس پر ہمیں تشویش ہے اس لیے چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لیا، آپ تعاون کریں۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے کہا ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے درخواست دینی پڑتی ہے، سیکڑوں لوگوں کی درخواستیں پڑی رہتی ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے دریافت کیا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کا کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا؟ چیف جسٹس نے کہا ہماری تشویش صرف انصاف فراہمی کے لیے ہے، ہم تحقیقاتی عمل کا وقار، عزت اور تکریم برقرار رکھنا چاہتے ہیں، ہم یہ پوائنٹ اسکورنگ کے لیے نہیں کر رہے، اس لیے ہم کسی قسم کی تعریف اور تنقید سے متاثر نہیں ہوں گے، آئین اور اللہ کو جواب دہ ہیں۔

  • پرویز مشرف کی مشکلات میں اضافہ

    پرویز مشرف کی مشکلات میں اضافہ

    لاہور : سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی سزا اور تشکیل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنچ کر دیا گیا، جس میں کہا گیا خصوصی عدالت کی سزا کے خلاف اپیل صرف سپریم کورٹ میں دائر کی جاسکتی ہے،فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سابق پرویز مشرف کے خلاف سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی سزا اور تشکیل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف درخواست دائر کردی گئی ۔

    لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ نے دائر کی، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہےکہ لاہور ہائی کورٹ کو کیس کی سماعت کا اختیار نہیں تھا خصوصی عدالت کی سزا کے خلاف اپیل صرف سپریم کورٹ میں دائر کی جاسکتی ہے۔

    درخواست میں کہا گیا قانون کے مطابق خصوصی عدالت مفرور ملزم کے خلاف فیصلہ سنا سکتی ہے ، اس لیے پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ آئین کے مطابق ہے۔

    درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل قانون کے مطابق تھی، خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے وفاقی حکومت اور چیف جسٹس پاکستان کےدرمیان مشاورت آئین کے مطابق تھی ہائی کورٹ کے فل بنچ کو درخواست دی مگر اس نے سنے بغیر مسترد کر دی۔

    درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت عظمی سپیشل کورٹ کی تشکیل کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

    یاد رہے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبع نقوی کی سربراہی میں فل بنچ نے پرویز مشرف کے خلاف سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا تھا۔

    واضح رہے 17 دسمبر کو خصوصی عدالت نے آئین شکنی کیس میں محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے سابق صدر و سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا، عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوا ہے۔

  • پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں سزا آئین اور اسلامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، تفصیلی فیصلہ جاری

    پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں سزا آئین اور اسلامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، تفصیلی فیصلہ جاری

    لاہو ر : لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کے خلاف درخواست پر تفصیلی فیصلے میں کہا خصوصی عدالت کی کارروائی غیر آئینی ہے اور پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں سزا آئین اور اسلامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کے خلاف درخواست پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، تفصیلی فیصلہ صفحات پر مشتمل ہے۔

    عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ آرٹیکل 6 میں اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی کی گئی اس لیے آرٹیکل چھ کا ماضی سے اطلاق نہیں کیا جاسکتا، خصوصی عدالت کی تشکیل اور کیس کو چلانے کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

    فیصلے میں کہا گیا استغاثہ وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر دائر نہہں کیا جاسکتا جبکہ پرویز مشرف کے خلاف استغاثہ کابینہ کی منظوری کے بغیر دائر کیا گیا، لہذا خصوصی عدالت کی کارروائی غیر آئینی ہے، پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں سزا آئین اور اسلامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

    ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں دی گئی سزا کو غیر آئینی قرار دے دیا جبکہ عدالت نے اسپیشل کورٹ لاء ایکٹ 1976 کی شق 9 کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔

    مزید پڑھیں : پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم دینے والی خصوصی عدالت کی تشکیل غیرآئینی قرار

    یاد رہے 13 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست منظور کرتے ہوئے خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دیاتھا۔

    خیال رہے سابق صدر پرویزمشرف نے خصوصی عدالت کےخلاف درخواست دائرکی تھی ، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل غیر آئینی ہے، پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کی وفاقی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی، نوازشریف نے اپنی صوابدید پر خصوصی عدالت قائم کی، خصوصی عدالت کے پراسیکیوٹر کی تعیناتی سمیت کوئی عمل قانون کے مطابق نہیں۔

    واضح رہے 17 دسمبر کو خصوصی عدالت نے آئین شکنی کیس میں محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے سابق صدر و سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا، عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوا ہے۔

  • پرویزمشرف نے خصوصی عدالت کا سزائے موت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    پرویزمشرف نے خصوصی عدالت کا سزائے موت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    اسلام آباد : سابق صدر پرویزمشرف نے خصوصی عدالت کا سزائے موت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، جس میں خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق صدر پرویزمشرف نے خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی ، درخواست سلمان صفدر نے سپریم کورٹ میں دائر کی، اپیل 65 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں وفاق اور خصوصی عدالت فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا خصوصی عدالت نےٹرائل مکمل کرنے میں آئین کی 6 بارخلاف ورزی کی، شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا،خصوصی عدالت کی تشکیل غیرآئینی تھی۔

    دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ مقدمہ کی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی اور خصوصی عدالت نے بیان ریکارڈ کرانے کا موقع نہیں دیا، انصاف کا قتل نہ ہو اسی لیے مقررہ قانونی مدت میں درخواست دائر کی۔

    درخواست میں کہا گیا خصوصی عدالت کے 17 دسمبر کے فیصلے سے غیرمطمئن ہوں، خصوصی عدالت میں جو پراسیکیوشن ہوئی وہ سلیکٹیو تھی، ایمرجنسی کی اعانت اورسہولت کاروں کوٹرائل کاحصہ نہیں بنایا گیا، سہولت کاروں کوحصہ بنانے کی درخواست کونظر انداز کرکے ٹرائل مکمل کیا گیا اور پرویز مشرف کے خلاف مبینہ آئینی جرم کا ٹرائل غیرقانونی طریقے سے چلایا گیا۔

    پرویز مشرف نے کہا میں نے فوج میں43 سال ایمانداری اور سخت لگن سےخدمات انجام دیں اور 2001 سے2008 تک ملک کےصدر رہا اور نوے کی دہائی میں تباہ حال معیشت کی بحالی میں اہم کرداراداکیا ، ہماری کوششوں سےپاکستان ایشیا کی چار ترقی کرتی معیشتوں میں شامل ہوا جبکہ بطور صدر میرے دور میں پاکستان کی دیوالیہ کے قریب معیشت کو بحال کیا گیا۔

    مؤقف میں کہا گیا درخواست گزارکے دور میں بھارت سےامن عمل بڑھانے کے اقدامات کیےگئے ، درخواست گزار نے کوئی کام بھی ملکی مفاد کے خلاف نہیں کیا ، پرویز مشرف کا کیس حراست سے بھاگنے کا نہیں ، وہ اجازت کے ساتھ بیرون ملک گئے جہاں وہ بیمار ہوگئے ، حکومت نے جلد بازی اور بغیر قانونی طریقہ اپنائے کیس تیار کیا۔

    درخواست میں کہا گیا خصوصی عدالت کی تشکیل اور ججوں کی تعیناتی قانون کے مطابق نہیں ، حکومت نےکسی مرحلے پربھی کابینہ کی منظوری نہیں لی، اور پراسیکیوٹر نے قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر ہی کیس دائر کیا ، خصوصی عدالت کی سزا کو کالعدم قرار دیا جائے۔

    دائر درخواست میں مزید کہا گیا دہشت گردی میں امریکا کا اتحادی بننے سے پاکستان دنیا میں نمایاں ہوا، پرویز مشرف کی خصوصی عدالت سےغیر حاضری جان بوجھ کرنہیں تھی، وہ علالت کےباعث خصوصی عدالت میں پیش نہ ہوسکے، درخواست

    درخواست کے مطابق پرویز مشرف جیل توڑ کر نہیں بھاگے تھے، خصوصی عدالت نے بھی ان کی علالت کو تسلیم کیا، تاہم عدالت نےپرویز مشرف کوغیر حاضری میں سزا سنائی، پرویز مشرف کی اپیل ان کی غیر حاضری میں پذیرائی کےقابل ہے، بینظیر بھٹو کی اپیل کوبھی سپریم کورٹ نےغیر حاضری میں پذیرائی دی۔

    سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا کہ سزا نے سابق صدر، سابق آرمی چیف اور پوری قوم کے لیے برا تاثر دیا، پرویز مشرف مفرورنہیں لیکن سنجیدہ بیماریوں میں مبتلا ہیں، پراسیکیوشن غداری کا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہی، پرویزمشرف علالت کے باعث سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوسکتے، وہ اسپتال میں زیر علاج ہیں، پاکستان سفرنہیں کرسکتے۔

  • پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی مقدمے کا تفصیلی فیصلہ آج جاری ہوگا

    پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی مقدمے کا تفصیلی فیصلہ آج جاری ہوگا

    اسلام آباد: سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کا تفصیلی فیصلہ آج جاری کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت اپنے عبوری حکم میں سابق آرمی چیف کو سنگین جرم کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت سنا چکی ہے، تین رکنی بنچ نے فیصلہ دو ایک کی بنیاد پر دیا تھا۔

    خصوصی عدالت کا بینچ جسٹس وقار سیٹھ، جسٹس نذر اکبر اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل ہے۔

    جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے فیصلے پر رد عمل میں کہا ہے کہ مجھے ان لوگوں نے ٹارگٹ کیا جو اونچے عہدوں پر فائز اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  ذاتی عداوت کا نشانہ بنایا گیا، پاکستانی عدلیہ سے انصاف امید ہے، پرویز مشرف

    خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد پرویز مشرف نے اے آر وائی نیوز کو خصوصی پیغام دیتے ہوئے کہا خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو مشکوک سمجھتا ہوں، ایسے فیصلے کی مثال نہیں ملتی جہاں دفاع کا موقع نہیں دیا گیا، کیس میں قانون کی بالا دستی کا خیال نہیں رکھا گیا۔

    پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ وہ جج جنھوں نے میرے زمانے میں فوائد اٹھائے وہ کیسے میرے خلاف فیصلے دے سکتے ہیں، اس کیس کو سننا ضروری نہیں تھا، اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد کروں گا، پاکستانی عوام اور فورسز کا شکر گزار ہوں، جنھوں نے مجھے یاد رکھا، یہ میرے لیے تمغا ہے اسے قبر میں لے کر جاؤں گا۔

  • چیف جسٹس اور صحافیوں کی ملاقات پر سپریم کورٹ کی جانب سے وضاحت جاری

    چیف جسٹس اور صحافیوں کی ملاقات پر سپریم کورٹ کی جانب سے وضاحت جاری

    اسلام آباد: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور صحافیوں کی ملاقات پر سپریم کورٹ کی جانب سے وضاحت جاری کی گئی ہے، جس میں کہا گیا کہ خصوصی عدالت سے متعلق شائع خبریں من گھڑت ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پرویزمشرف کیس پرچیف جسٹس سےمنسوب خبریں سیاق وسباق سے ہٹ کر تھیں، خبر سے ایسا تاثر ملا جیسے چیف جسٹس بذات خود اس کیس کو دیکھ رہے تھے۔

    اعلامیے میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس نے خصوصی عدالت کو کوئی ہدایات جاری نہیں کی، خصوصی عدالت سے متعلق شائع خبریں من گھڑت ہیں، نشر،شائع کی جانے والی خبریں سیاق وسباق سے ہٹ کر اورحقائق کے منافی ہیں، عدالت کی یہ وضاحت بھی اس طرح چلائی جائے جس طرح خبر چلائی گئی۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے اعلامیے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے مختلف بینچز پرویزمشرف کیس کے مختلف پہلوؤں کو سنتے رہے، مختلف بینچزنے مختلف مواقع پرکیسز کی سماعت، جلد فیصلے کےاحکامات دیے۔

    اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کےمختلف بینچز کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کی، سماعت کرنے والے دیگر ارکان میں جسٹس سردارطارق، جسٹس طارق پرویز شامل تھے۔

    سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق 2 مقدمات ایسےتھے جس میں3 رکنی بینچ نے فیصلے دیے تھے، بینچ نے حکم دیا تھا خصوصی عدالت کیس قانون کے مطابق بغیر تاخیر کے سنے، ایک اورکیس جسٹس آصف سعید، جسٹس منصورعلی، جسٹس منیب اخترنے سنا تھا، اس بینچ نے فیصلہ دیا خصوصی عدالت اگلی تاریخ پر مقدمےکی سماعت کرے گی۔

    اعلامیے میں بتایا گیا کہ ملزم بیان ریکارڈ نہیں کراتا یا پیش نہ ہو تو خصوصی عدالت کو کارروائی آگے بڑھانے کا اختیار ہوگا، چیف جسٹس نے خصوصی عدالت کو 2 فیصلوں کےعلاوہ کوئی اور ڈائریکشن جاری نہیں کی۔

  • پرویز مشرف: حالات زندگی، دور اقتدار اور تنازعات

    پرویز مشرف: حالات زندگی، دور اقتدار اور تنازعات

    پرویز مشرف کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کی معطلی کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔

    خصوصی عدالت کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد جہاں میڈیا پر سیاست دانوں اور قانونی ماہرین کی جانب سے رائے کا اظہار اور مباحث جاری ہیں، وہیں عوام بھی سرد موسم میں‌ اسی گرما گرم موضوع پر تبصرے کررہے ہیں اور اس حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

    آئیے پرویز مشرف کی ذاتی زندگی، فوج میں ان کی خدمات اور دورِ اقتدار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
    آئین شکنی کیس میں سزائے موت پانے والے پرویز مشرف کا تعلق دہلی سے ہے۔ ان کا خاندان قیامِ پاکستان سے قبل دہلی میں مقیم تھا۔ پرویز مشرف 11 اگست 1943 کو پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے وقت ہی ان کے والد نے پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا اور کراچی آگئے۔ ان کے والد سید مشرف الدین نے پاکستان میں اہم خدمات انجام دیں اور سفارت کار کی حیثیت سے متحرک رہے۔
    پرویز مشرف کا بچپن ترکی میں گزرا۔ یہ 1949 سے 1956 تک کا زمانہ تھا جب ان کے والد ترکی کے شہر انقرہ میں تعینات تھے۔
    1961 میں پرویز مشرف پاکستان ملٹری اکیڈمی کا حصّہ بنے اور 1964 میں سیکنڈ لیفٹننٹ کے عہدے پر ترقی کی۔
    1965 میں پاک بھارت جنگ ہوئی جس کے بعد پرویز مشرف ان افسران میں سے تھے جنھیں بہادری کی اعزازی سند دی گئی۔
    1971 کی جنگ کے دوران پرویز مشرف کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
    1991 میں انھیں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔
    7 اکتوبر 1998 کو چیف آف آرمی اسٹاف اور 9 اپریل 1999 کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مقرر ہوئے۔
    12 اکتوبر 1999 پاکستان کی سیاست میں ایک نیا موڑ ثابت ہوا جب اس وقت کے وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کو فوج کے سربراہ کے عہدے سے ہٹاکر نئے آرمی چیف کا اعلان کیا، مگر ان کی معزولی کے بعد پرویز مشرف نے ملک کا اقتدار سنبھالا۔
    20 جون 2001 کو پرویز مشرف ملک کے صدر بنے۔
    30 اپریل 2002 کو ملک میں پرویز مشرف کے حق میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کروایا گیا۔
    2003 میں پرویز مشرف پر دو قاتلانہ حملے بھی ہوئے۔
    ستمبر 2006 میں پرویز مشرف کی خودنوشت ان دی لائن آف فائر منظرِ عام پر آئی۔
    پرویز مشرف نے 18 اگست 2008 کو قوم سے خطاب میں اپنے مستعفی ہو نے کا اعلان کیا تھا۔

    مشرف دور کے متنازع اقدامات
    پاکستان میں حدود آرڈیننس میں ترمیم، جامعہ حفصہ اور لال مسجد آپریشن، قومی مفاہمتی آرڈیننس جسے عام طور پر این آر او کہا جاتا ہے مشرف دور کے متنازع فیصلے اور اقدامات مانے جاتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان آپریشن اور اکبر بگٹی کی شہادت کا واقعہ، عافیہ صدیقی کا معاملہ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر الزامات اور نظر بندی بھی متنازع رہی۔