Tag: خطاطی

  • تزئینی خطّاطی

    تزئینی خطّاطی

    حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں اسلامی علوم و فنون کو خاص اہمیت دی گئی۔ آپ نے حفاظت حدیث کی خاطر حدیث کے جمع کرنے اور کتابت کرنے کا حکم دیا۔ اس دور میں خالد بن الہیاج نے خط کوفی میں انتہائی مہارت پیدا کر لی اور قرآنی آیات کو خوب صورت انداز میں مسجد نبوی کی دیواروں پر لکھا۔

    اموی دور کے مشہور خطاطوں میں ابو یحیٰ، مالک بن دینار، سامہ بن لوی اور قطبہ المحرر کے نام مشہور ہیں۔ قطبہ نے خط کوفی میں چار نئے اقلام ایجاد کیے تھے۔ ان کے علاوہ مروان بن محمد کے کاتب عبداللہ بن مقفع اور ہشام بن عبدالملک کے کاتب ابوالعلاء سالم کے نام بھی ملتے ہیں۔ ابن ندیم کے مطابق قطبہ المحرر اس دور میں روئے زمین پر سب سے بہتر عربی لکھنے والا شخص تھا۔

    عباسی دور میں ضحاک بن عجلان فن خطاطی میں قطبہ سے بھی بازی لے گیا۔ اس نے کوفی خط میں کئی اور اقلام ایجاد کیں۔ اس کے بعد خلیفہ منصور اور مہدی کے دور میں اسحاق بن حماد اور اس کے شاگرد یوسف اور ابراہیم بھی عمدہ خطاط تھے۔ اسحاق نے ضحاک بن عجلان کی قلموں میں مزید تحقیق کر کے بارہ نئی اقلام ایجاد کیں، جو بے حد مقبول ہوئیں۔ ان کے نام طومار، عہود، سجلات، امانات، مدیح، ریاش، موامرات، دیباج، مرصع، غبار، بیاض اور حسن ہیں۔

    عباسی خلفاء خطاطی سے خاص شغف رکھتے تھے۔ انھی خلفاء کی سرپرستی کے باعث اس فن میں کمال پیدا ہوا۔ یہ لوگ فن کاروں کی خاص قدر کیا کرتے تھے۔خلیفہ مامون نے ایک بار کہا، ترجمہ: ’’اگر عجمی بادشاہ اپنے کارناموں پر ہم سے باہم فخر کریں تو ہم اپنے پاس موجود خط کی انواع و اقسام پر فخر کریں گے، جو ہر جگہ پڑھا جاتا ہے اور ہر زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے اور ہر زمانے میں پایا جاتا ہے۔‘‘

    اسحاق سے یوسف الشجری اور ابراہیم الشجری نے یہ فن سیکھا اور اس میں مزید تجربات کیے۔ ابراہیم نے قلم ثلث اور نصف ایجاد کیے۔ الثلث عام کوفی کی نسبت زیادہ تیز رو تھا اور حروف آپس میں ملے ہوئے تھے۔ ابراہیم کے شاگردوں میں الاحول المحرر بہت مشہور ہوا تھا۔ اسے خطاطی کے اساتذہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ جس کے ذریعے اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، اس کا شاگرد ابن مقلہ تھا۔ ابن مقلہ نے خطاطی کو نئے انقلابات سے روشناس کرایا اور خط کوفی کی بالادستی ختم کر کے نئے خطوط کی بنیاد رکھی۔

    ابو علی محمد بن علی بن حسین بن مقلہ بیضاوی، نے خطاطی کے علاوہ دیگر علوم میں بھی کمال حاصل کیا اور بغداد کے علمی حلقوں میں اپنا مقام بنا لیا۔ اس نے خط کوفی میں کمال حاصل کیا اور چھ بالکل نئے خط ایجاد کیے۔ ان کے نام ’’ثلث‘‘ ، ’’نسخ‘‘ ، ’’توقیع‘‘ ، ’’رقاع‘‘ ، ’’محقق‘‘ اور’’ ریحان‘‘ ہیں۔ ان کے علاوہ اس نے کئی اقلام ایجاد کیں اور خطاطی کے قواعد بھی مرتب کیے۔ اس کے شاگردوں میں محمد بن السمسانی اور محمد بن اسد مشہور ہوئے۔ ان سے یہ فن ابوالحسن علی بن ہلال المعروف ابن البواب نے حاصل کیا۔ ابن البواب ابن مقلہ سے متاثر تھا۔ اس نے خط نسخ میں مزید تحقیق کی اور اس کی خامیوں کو دور کیا۔ اس کے قواعد و ضوابط تیار کیے۔ اس دور میں خط نسخ پورے عرب میں مقبول ہو گیا تھا۔ اس کے شاگردوں میں محمد بن عبدالملک اور محدث خاتون کے نام قابل ذکر ہیں۔ محدث خاتون سے یہ فن امین الدین یاقوت الملکی نے سیکھا۔ امین الدین کے شاگردوں میں سب سے زیادہ مقبول اور مشہور خطاط یاقوت بن عبداللہ رومی المستعصمی تھا جو اپنی مہارت کی وجہ سے ’’قبلۃالکتاب ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ خطاطی میں ابن مقلہ اور ابن البواب کے بعد اسی کا درجہ ہے۔

    یہ وہ دور تھا جب فن خطاطی عرب سے نکل کر یورپ اور ہندوستان تک پھیل گیا تھا۔ ساری دنیا اس کی عظمت اور حسن سے متاثر ہوئی۔ دنیا کے کئی ممالک نے عربی خط کے حسن اور رعنائی سے متاثر ہو کر اپنی اپنی زبانوں کے لیے اس رسم الخط کو اختیار کر لیا۔ چنانچہ فن خطاطی پر بھی عربوں کی اجارہ داری ختم ہو گئی اور یہ فن ایران، مصر، افغانستان، ترکی، افریقہ، ہندوستان اور وسط ایشیا تک پہنچ گیا۔

    (اسلامیات کے مضمون کے استاد عبد الحئی عابد کے ایک علمی و تحقیقی سے اقتباس)

  • ابنِ مقلہ: عالمِ اسلام کے تین بڑے خطّاطوں میں سے ایک نام

    ابنِ مقلہ: عالمِ اسلام کے تین بڑے خطّاطوں میں سے ایک نام

    اسلامی دنیا بالخصوص خطّۂ عرب میں خوش نویسی اور فنِ خطّاطی کو ہر دور میں اہمیت دی گئی ہے۔ اس فن کو روحانی مسرّت کے حصول کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے اور اس فن میں کمال و مہارت کو خطّاط اپنے لیے باعثِ برکت و اعزاز تصور کرتے ہیں۔ یہ تذکرہ ہے کہ ابنِ مقلہ کا جو عباسی دورِ خلافت کے ایسے باکمال خطّاط تھے جنھوں نے اس فن کو قواعد و ضوابط کے ساتھ متعدد طرزِ تحریر سے آراستہ بھی کیا۔

    ابنِ مقلہ اپنے زمانہ میں اسلام کے علمی و ثقافتی مرکز کہلانے والے بغداد کے تین مشہور خطّاطوں میں سے ایک تھے۔ 20 جولائی 940ء کو ابنِ‌ مقلہ خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ محققین نے استاد خطّاط ابنِ مقلہ کا سنہ پیدائش 886ء لکھا ہے۔ ابنِ مقلہ کا مکمل نام ابوعلی محمد بن علی بن الحسین بن مقلہ تھا۔ انھیں ابنِ مقلہ شیرازی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماہرِ فنِ تحریر اور خطّاط ابنِ مقلہ نے علومِ متداولہ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ فقہ، قرأت، تفسیر اور عربی ادب میں ماہر تھے۔ انشاء اور کتابت و مراسلت پر زبردست گرفت تھی۔

    ابنِ مقلہ عباسی دربار میں‌ وزیر بھی رہے اور مؤرخین کے مطابق ان کا اپنے دور کے سیاسی امور میں‌ بڑا عمل دخل تھا۔ تاریخ‌ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ ابنِ مقلہ اپنے ابتدائی زمانہ میں‌ ایک غیرمعروف اور غریب شخص تھے۔ ابنِ کثیر جیسے جیّد نے ابنِ مقلہ کے بارے میں لکھا کہ ان کے حالات ناگفتہ بہ تھے، لیکن قسمت نے پلٹا کھایا تو خلافتِ عباسیہ میں تین مرتبہ وزیر رہے۔ اسی طرح خطّاطی کی تاریخ‌ سے متعلق کتاب میں‌ سیّد محمد سلیم لکھتے ہیں‌ کہ آغازِ کار میں ابنِ مقلہ دفترِ مال (دِیوانی) میں ملازم ہوا تھا۔ یہ ملازمت ایران کے کسی علاقے میں اُسے حاصل ہوئی تھی۔ بعد ازاں وہ ابی الحسن ابنِ فرات کا ملازم ہوا اور بغداد چلا آیا۔ بغداد میں اُس کی قابلیت کے جوہر کھلے اور یہاں اُس کی بیش بہاء قدر دانی بھی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ روم و عرب کی جنگ کے بعد صلح نامہ اُس نے اپنے قلم سے لکھ کر روم بھیجا تھا جو وہاں فن (آرٹ) کے شاہکار کی حیثیت سے مدتوں شہنشاہِ روم کے خزانہ میں موجود رہا۔

    کہتے ہیں‌ کہ خلیفہ المقتدر باللہ نے 924ء میں ابنِ مقلہ کو وزیر مقرر کیا تھا۔ لیکن پھر ایک سازش کا شکار ہوگئے اور انھیں روپوشی اختیار کرنا پڑی۔ یوں ظاہر ہے کہ ہر قسم کا مرتبہ اور عہدہ ان کے ہاتھ سے چلا گیا، لیکن وقت گزرا تو حالات بہتر ہوئے اور وہ دربار تک پہنچے جہاں انھیں دوبارہ اپنا مقام و مرتبہ حاصل ہوا اور وہ سابق منصب پر فائز ہوئے۔ ابن مقلہ کو خلیفہ راضی باللہ کے زمانہ میں بڑا عروج حاصل ہوا۔ لیکن ایک مرتبہ پھر وہ محلّاتی سازشوں کی وجہ سے درباری مراتب سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس مرتبہ قید و اذیت بھی جھیلنا پڑی۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ ابنِ مقلہ دورانِ‌ قید ہی صعوبتیں جھیلتے ہوئے وفات پاگئے تھے۔

    اپنے عروج کے زمانے میں وہ بغداد کی ایک ایسی مشہور شخصیت تھے جس کی فن خطّاطی میں‌ کمال و مہارت کی وجہ سے ہر خاص و عام میں‌ بڑی عزّت تھی۔ ابنِ مقلہ کو عباسی دور میں ان کی قابلیت اور معاملہ فہمی کی وجہ سے اہمیت دی جاتی تھی۔ لیکن پھر اہلِ‌ بغداد نے ان کا زوال بھی دیکھا۔

    اکبر نامہ کے مصنّف اور مشہور مؤرخ ابو الفضل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابنِ مقلہ نے آٹھ خط ایجاد کیے جن کا رواج ایران، ہندوستان، بلادِ روم اور توران میں ہے۔

  • پاکستان کے نام وَر خطّاط صوفی خورشید عالم کی برسی

    پاکستان کے نام وَر خطّاط صوفی خورشید عالم کی برسی

    30 مئی 2004ء کو پاکستان کے نام ور خطّاط صوفی خورشید عالم خورشید رقم لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ صوفی خورشید کے نام سے مشہور تھے۔

    صوفی خورشید عالم خورشید کو 1965ء کی جنگ میں‌ جامِ شہادت نوش کرنے والے راجہ عزیز بھٹی کے لوحِ مزار کی خطّاطی کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ صوفی صاحب نے کئی موضوعات پر کتابوں اور اپنے دور کے نام ور مصنّفین کی کتابوں کے ٹائٹل کو اپنی خطّاطی سے سجایا۔

    خورشید عالم 1923ء میں کپور تھلہ، بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد رحمت علی خود بھی ایک اچھے خطّاط تھے۔ مشہور ہے کہ لاہور کے ناشرین کپور تھلہ جاکر ان سے کتابت کرواتے تھے۔ یوں انھیں بھی خوش نویسی کا شوق پیدا ہوا اور اپنے والد کو دیکھ کر خود بھی مشق کرنے لگے۔ ذوق و شوق اور مسلسل مشق نے ان کی لکھائی اور کتابت کو چمکایا اور وہ اس فن میں‌ کامل ہوئے۔

    صوفی خورشید عالم خورشید نے بعدازاں تاج الدّین زریں رقم جیسے نام ور اور عظیم خطّاط کے ادارے سے وابستگی اختیار کرلی تھی جہاں عرصے تک کام کیا، زریں رقم کی وفات کے بعد لاہور کے اکابر خطّاط نے صوفی صاحب کو ان کا جانشین مقرر کردیا تھا۔

    خوش نویسی اور فنِ خطّاطی میں کمال و مہارت رکھنے والے خورشید عالم خورشید رقم نے مختلف اخبارات غالب، آفاق، کوہستان، نوائے وقت، مساوات، ندائے ملت، آزاد اور امروز میں بھی کام کیا تھا اور مینار پاکستان کے بعض کتبات ان کے فن کا نقش ثبت ہے۔

    صوفی صاحب خطّاط ہی نہیں شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل، نعت و قصیدہ گوئی اور دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی۔ وہ مخمور تخلّص کرتے تھے اور مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لیتے رہے۔

    صوفی صاحب کی نمازِ جنازہ داتا دربار، لاہور میں ادا کی گئی اور انھیں حضوری باغ کے قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • خوش خطی سے تحریر تک قلم اور پین کا سفر

    خوش خطی سے تحریر تک قلم اور پین کا سفر

    پیارے بچّو! جس پین سے آپ آج لکھتے ہیں، اس تک پہنچنے کے لیے قلم کو ایک طویل سفر طے کرنا پڑا ہے۔ پرانے زمانے میں مور کے پنکھ کو قلم بنا کر بھوج پتّوں پر لکھا جاتا تھا۔

    بھوج ایک درخت ہے، جس کا تنا چمڑی جیسی کئی جلدوں سے بنتا ہے۔ اس تنے پر سے یہ پتلی پتلی جلدیں احتیاط کے ساتھ اتار لی جاتی تھیں اور ان کو ایک سائز کی پٹیوں میں کاٹ لیا جاتا تھا۔ ان پٹیوں پر تیل مل دیا جاتا تھا۔ جب یہ چکنی ہوجاتی تھیں تو ان کے اوپر مور کے پنکھ سے بنائے ہوئے قلم سے لکھا جاتا تھا۔

    لکھنے کے بعد تحریر پر سیاہی مل دی جاتی تھی تو تحریر ابھر آتی تھی اور اس کو آسانی سے پڑھا جاسکتا تھا۔

    پھر کاغذ ایجاد ہوا۔ گھاس پھوس کو کئی روز تک پانی میں بھگو کر گوندھ لیا جاتا تھا اور اس کی لوئی بنالی جاتی تھی۔ اس لوئی کو دیوار پر لیپ دیا جاتا تھا۔ جب یہ سوکھ جاتی تھی تو اس کو اتار کر ایک سائز میں کاٹ لیا جاتا تھا۔

    اس پر لکھنے کے لیے مور پنکھ کی جگہ پر سر کنڈے کا قلم استعمال کیا جانے لگا۔ لکھنے کے لیے روشنائی ایجاد کی گئی۔ اخروٹ کے چھلکے کو جلا کر اس میں سرسوں کا تیل ملا دیا جاتا تھا اور سیاہ روشنائی تیار ہوجاتی تھی۔ اسی لیے آج تک لوگ روشنائی کو سیاہی کہتے ہیں۔

    سر کنڈے کے قلم میں قط لگانا بھی ایک ہنر تھا۔ قلم کا قط صحیح ہو تو تحریر خوش خط ہوجاتی ہے۔

    پھر نب ایجاد ہوگئے۔ قلم کو بار بار تراشنا اور اس میں قط لگانا پڑتا تھا۔ نب کو تراشنے یا اس میں قط لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ دونوں صورتوں میں بار بار دوات میں سے روشنائی لینا پڑتی تھی، جس کی مشقت سے بچنے کے لیے فاؤنٹین پین ایجاد کیا گیا ہے۔

    پلاسٹک کے اس پین میں انجکشن کی طرح روشنائی بھرلی جاتی تھی اور یہ دیر تک چلتا تھا۔ اس کو بار بار دوات میں نہیں ڈبونا پڑتا تھا۔

    لوگوں کو دوسرے تیسرے روز یا ہر ہفتے پین میں روشنائی بھرنا بھی مشقت کا کام ہورہا تھا، اس لیے بال پین ایجاد کیا گیا۔ اس میں روشنائی نہیں بھرنا پڑتی تھی۔ گاڑھی روشنائی کی ایک پتلی سی پائپ اس کی ٹپ سے جڑی ہوتی تھی۔ نب کی جگہ پر ٹپ نے آکر خوش خطی کا معاملہ ہی ختم کردیا۔

    نب کئی قسم کے ہوا کرتے تھے۔ ان میں قط بنے ہوئے ہوتے تھے جو مختلف تحریروں کے لیے مختلف طرح کے ہوتے تھے۔ مثلاً انگریزی لکھنے کے لیے جی کا نب استعمال کیا جاتا تھا، اردو لکھنے کے لیے بیورلی کا نب استعمال کیا جاتا تھا۔

    اس زمانے میں مدارس میں جب امتحان لیا جاتا تھا تو طلبا کو خوش خطی کے نمبر الگ سے دیے جاتے تھے۔ بال پین میں قط نہ ہونے کی وجہ سے بس لکھا جاتا ہے، تحریر کیسی ہی کیوں نہ ہو۔

    قلم کی کوکھ میں سے خطّاطی کا جنم ہوا۔ رومن رسمُ الخط میں چوتھی پانچویں صدی عیسوی میں خطّاطی کے ذریعے بائیبل کو اور دسویں صدی میں قرآن دیدہ زیب بنانے کی غرض سے لفظوں، آیات و احادیث کو مختلف طرح کے قلموں سے لکھ کر نظر فریب بنانے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ خطّاطی ایک ایسا ہنر ہے جس کو ہم قلم کا جوہر کہہ سکتے ہیں۔

    ایک بات یاد رکھیے کہ انسان کا خط اس کی شخصیت کا غماز ہوتا ہے۔ آپ کا خط جتنا خوب صورت ہوگا، اتنی ہی نکھری ہوئی آپ کی شخصیت ہوگی۔ اس لیے اپنے خط پر توجہ دیجیے اور اسے بہتر بنانے کا عزم کیجیے۔

  • صادقین جنھیں‌ "قاف” نے خطاطی کا امام بنا دیا

    صادقین جنھیں‌ "قاف” نے خطاطی کا امام بنا دیا

    شہرہ آفاق مصور اور خطاط صادقین کی یہ رباعی پڑھیے۔

    ہیں قاف سے خطاطی میں پیدا اوصاف
    ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف
    بن مقلہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر
    ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف

    صادقین شاعر بھی تھے اور رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن۔ آج اس عجوبہ روزگار کی برسی ہے۔ صادقین نے 10 فروری 1987 کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی۔

    صادقین کی وجہِ شہرت اسلامی خطاطی ہے جسے انھوں‌ نے نئی جہات سے روشناس کیا۔

    انھوں‌ نے قرآنی آیات اور اشعار کو انفرادیت اور نزاکتوں سے کینوس پر اتارا ہے۔

     

    سید صادقین احمد نقوی ان کا پورا نام تھا۔ 1930 میں امروہہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا خطاط تھے اور یہ خاندان اس فن کے لیے مشہور تھا۔

     

    ابتدائی تعلیم امروہہ میں‌ حاصل کی اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ تقسیم کے بعد پاکستان آئے اور یہ خاندان کراچی میں‌ بس گیا۔

    کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں‌ ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    صادقین کے فن کو سراہنے اور آرٹ کے شعبے کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں‌ جہاں‌ انھیں‌ قومی اعزازات دیے گئے، وہیں‌ دنیا بھر میں‌ ان کے فن پاروں‌ کی نمائش کے ساتھ امریکا، یورپ سمیت کئی ملکوں‌ نے اپنے اعزازات ان کے نام کیے۔

    صادقین، سخی حسن قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • ریڈیو پاکستان کا مونو گرام اور محمد یوسف دہلوی

    ریڈیو پاکستان کا مونو گرام اور محمد یوسف دہلوی

    خطاطی اور خوش نویسی نہ صرف ایک فن ہے بلکہ خاص طور پر اسلامی خطاطی کو نہایت متبرک اور باعثِ اجر و ثواب سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اس فن کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان میں طغریٰ اور عام خطاطی شامل ہے جس میں ہمارے ملک میں کئی شخصیات نے نام و مقام بنایا۔ ان میں سے ایک محمد یوسف دہلوی بھی ہیں جو نہایت خوش ذوق اور قابل خطاط مانے جاتے ہیں۔

    ان کے والد منشی محمد الدین جنڈیالوی بھی خطاط تھے جنھوں نے 1932 میں غلافِ کعبہ پر خطاطی کا شرف حاصل کیا۔ یوسف دہلوی نے انہی سے ذوقِ خوش نویسی سمیٹا تھا۔ وہ مختلف خوش نویسوں اور اپنے دور کے باکمال خطاطوں کے فن پاروں کا گہرائی سے مطالعہ کرتے رہے اور اس فن میں اپنی اختراع اور اجتہادی صلاحیتوں کے سبب ممتاز ہوئے۔ انھوں نے ایک نیا طرز متعارف کروایا جسے دہلوی طرزِ نستعلیق کہا جاتا ہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے اس وقت کے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے اصرار اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی کوششوں سے پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر اپنے فنِ خطاطی کے نقوش چھوڑے۔ بعد ازاں پاکستان ہجرت کی اور ایک بار پھر یہاں سکوں پر لفظ حکومتِ پاکستان نہایت خوب صورت انداز میں تحریر کیا۔

    آپ نے ریڈیو پاکستان کا مونو گرام دیکھا ہو گا جس پر قرآنی آیت، قُولُوالِلنَّاسِ حُسناً تحریر ہے؟ یہ بھی محمد یوسف دہلوی کے کمالِ فن کا نمونہ ہے۔ 11 مارچ 1977 کو ایک ٹریفک حادثے میں یوسف دہلوی زندگی کی بازی ہار گئے.

  • امریکا میں خطاطی کی سب سے بڑی نمائش

    امریکا میں خطاطی کی سب سے بڑی نمائش

    واشنگٹن: امریکا میں منعقد کی جانے والی ایک آرٹ کی نمائش میں قرآن کریم کے قدیم نسخے اور خطاطی کے نمونے پیش کیے گئے ہیں جو آرٹ کے دلدادہ مسلم و غیر مسلم افراد کے لیے یکساں دلچسپی کا باعث بن گئے۔

    فروری 2017 تک جاری رہنے والی ’دی آرٹ آف دا قرآن‘ نامی یہ نمائش واشنگٹن کے فریئر اینڈ سیکلر میوزیم میں جاری ہے۔ میوزیم کی ویب سائٹ کے مطابق یہاں پیش کیے جانے والے نمونے عراق،ا فغانستان اور ترکی سمیت پوری اسلامی دنیا سے حاصل کیے گئے ہیں۔

    1

    2

    نمائش میں پیش کیے گئے قرآن کریم کے نسخے اور خطاطی کے نمونے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دور کے ہیں۔ یہ نسخے اور نمونے عثمانی سلاطین، ان کی ملکاؤں اور وزرا کی جانب سے مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں کو پیش کیے گئے تھے۔

    5

    6

    ان میں سے کچھ نمونے اس میوزیم کا حصہ ہیں جبکہ کچھ استنبول کے میوزیم آف ترکش اینڈ اسلامک آرٹس سے مستعار لیے گئے ہیں۔

    8

    9

    نمائش میں پیش کیے جانے والے خطاطی کے نمونوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف سلاطین نے اسلامی روایات کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کی بھی سرپرستی کی۔ نمائش میں رکھے جانے والے نمونوں سے خطاطی کے مختلف ارتقائی مراحل کے بارے میں بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے کہ کس دور میں کس قسم کی خطاطی فروغ پائی۔

    4

    7

    واضح رہے کہ یہ امریکا میں اپنی نوعیت کی پہلی نمائش ہے۔ انتظامیہ کے مطابق قرآن کریم کی سب سے بڑی اس نمائش کا مقصد شاندار خطاطی کو خراج تحسین پیش کرنا اور اسے دنیا کے سامنے لانا ہے۔

    3

    ان کا کہنا ہے کہ یہ نمائش مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان رابطہ قائم کرنے، ان کے لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے واقفیت حاصل کرنے اور قریب لانے میں مددگار ثابت ہوگی۔

    :قرآنی خطاطی سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

    خطاط الحرم المسجد النبوی ۔ استاد شفیق الزمان *

    پاکستانی خطاط کے لیے بین الاقوامی اعزاز *

    خانہ کعبہ کی تصویر پیش کرتا قرآن کا قدیم نسخہ *