Tag: خطاط ابن مقلہ

  • ابنِ مقلہ: عالمِ اسلام کے تین بڑے خطّاطوں میں سے ایک نام

    ابنِ مقلہ: عالمِ اسلام کے تین بڑے خطّاطوں میں سے ایک نام

    اسلامی دنیا بالخصوص خطّۂ عرب میں خوش نویسی اور فنِ خطّاطی کو ہر دور میں اہمیت دی گئی ہے۔ اس فن کو روحانی مسرّت کے حصول کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے اور اس فن میں کمال و مہارت کو خطّاط اپنے لیے باعثِ برکت و اعزاز تصور کرتے ہیں۔ یہ تذکرہ ہے کہ ابنِ مقلہ کا جو عباسی دورِ خلافت کے ایسے باکمال خطّاط تھے جنھوں نے اس فن کو قواعد و ضوابط کے ساتھ متعدد طرزِ تحریر سے آراستہ بھی کیا۔

    ابنِ مقلہ اپنے زمانہ میں اسلام کے علمی و ثقافتی مرکز کہلانے والے بغداد کے تین مشہور خطّاطوں میں سے ایک تھے۔ 20 جولائی 940ء کو ابنِ‌ مقلہ خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ محققین نے استاد خطّاط ابنِ مقلہ کا سنہ پیدائش 886ء لکھا ہے۔ ابنِ مقلہ کا مکمل نام ابوعلی محمد بن علی بن الحسین بن مقلہ تھا۔ انھیں ابنِ مقلہ شیرازی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماہرِ فنِ تحریر اور خطّاط ابنِ مقلہ نے علومِ متداولہ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ فقہ، قرأت، تفسیر اور عربی ادب میں ماہر تھے۔ انشاء اور کتابت و مراسلت پر زبردست گرفت تھی۔

    ابنِ مقلہ عباسی دربار میں‌ وزیر بھی رہے اور مؤرخین کے مطابق ان کا اپنے دور کے سیاسی امور میں‌ بڑا عمل دخل تھا۔ تاریخ‌ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ ابنِ مقلہ اپنے ابتدائی زمانہ میں‌ ایک غیرمعروف اور غریب شخص تھے۔ ابنِ کثیر جیسے جیّد نے ابنِ مقلہ کے بارے میں لکھا کہ ان کے حالات ناگفتہ بہ تھے، لیکن قسمت نے پلٹا کھایا تو خلافتِ عباسیہ میں تین مرتبہ وزیر رہے۔ اسی طرح خطّاطی کی تاریخ‌ سے متعلق کتاب میں‌ سیّد محمد سلیم لکھتے ہیں‌ کہ آغازِ کار میں ابنِ مقلہ دفترِ مال (دِیوانی) میں ملازم ہوا تھا۔ یہ ملازمت ایران کے کسی علاقے میں اُسے حاصل ہوئی تھی۔ بعد ازاں وہ ابی الحسن ابنِ فرات کا ملازم ہوا اور بغداد چلا آیا۔ بغداد میں اُس کی قابلیت کے جوہر کھلے اور یہاں اُس کی بیش بہاء قدر دانی بھی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ روم و عرب کی جنگ کے بعد صلح نامہ اُس نے اپنے قلم سے لکھ کر روم بھیجا تھا جو وہاں فن (آرٹ) کے شاہکار کی حیثیت سے مدتوں شہنشاہِ روم کے خزانہ میں موجود رہا۔

    کہتے ہیں‌ کہ خلیفہ المقتدر باللہ نے 924ء میں ابنِ مقلہ کو وزیر مقرر کیا تھا۔ لیکن پھر ایک سازش کا شکار ہوگئے اور انھیں روپوشی اختیار کرنا پڑی۔ یوں ظاہر ہے کہ ہر قسم کا مرتبہ اور عہدہ ان کے ہاتھ سے چلا گیا، لیکن وقت گزرا تو حالات بہتر ہوئے اور وہ دربار تک پہنچے جہاں انھیں دوبارہ اپنا مقام و مرتبہ حاصل ہوا اور وہ سابق منصب پر فائز ہوئے۔ ابن مقلہ کو خلیفہ راضی باللہ کے زمانہ میں بڑا عروج حاصل ہوا۔ لیکن ایک مرتبہ پھر وہ محلّاتی سازشوں کی وجہ سے درباری مراتب سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس مرتبہ قید و اذیت بھی جھیلنا پڑی۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ ابنِ مقلہ دورانِ‌ قید ہی صعوبتیں جھیلتے ہوئے وفات پاگئے تھے۔

    اپنے عروج کے زمانے میں وہ بغداد کی ایک ایسی مشہور شخصیت تھے جس کی فن خطّاطی میں‌ کمال و مہارت کی وجہ سے ہر خاص و عام میں‌ بڑی عزّت تھی۔ ابنِ مقلہ کو عباسی دور میں ان کی قابلیت اور معاملہ فہمی کی وجہ سے اہمیت دی جاتی تھی۔ لیکن پھر اہلِ‌ بغداد نے ان کا زوال بھی دیکھا۔

    اکبر نامہ کے مصنّف اور مشہور مؤرخ ابو الفضل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابنِ مقلہ نے آٹھ خط ایجاد کیے جن کا رواج ایران، ہندوستان، بلادِ روم اور توران میں ہے۔

  • ابنِ مقلہ: ممتاز خطّاط اور ماہرِ کتابت و مراسلت

    ابنِ مقلہ: ممتاز خطّاط اور ماہرِ کتابت و مراسلت

    دنیائے عرب میں خوش نویسی ایک ایسا فن رہا ہے جس سے پاکیزگی اور روحانی مسرّت کا تصوّر جڑا ہوا ہے اور اسی فن کی ایک نہایت ممتاز اور معروف شکل خطّاطی کو عالمِ اسلام میں‌ باعثِ برکت و اعزاز سمجھا جاتا ہے ابنِ مقلہ عباسی دور کے ایک باکمال اور استاد خطّاط گزرے ہیں۔ وہ قدیم علمی و ثقافتی مرکز بغداد کے تین مشہور خطّاط میں سے ایک اور ایسے نادرِ روزگار ہیں جنھوں نے پہلی مرتبہ عرب دنیا میں‌ فنِ‌ خطّاطی کو قواعد و ضوابط کے ساتھ متعدد طرزِ تحریر دیے۔

    20 جولائی 940ء کو ابنِ مقلہ اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ محققین کے مطابق ان کا سنہ پیدائش 886ء ہے۔

    ابنِ مقلہ عباسی دربار میں‌ وزیر رہے اور سیاست میں‌ ان کا بڑا عمل دخل تھا۔ تاریخ‌ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ ابنِ مقلہ اپنے ابتدائی زمانہ میں‌ ایک غیر اہم اور کم آمدن شخص تھے۔ ابنِ کثیر جیسے جیّد نے ابنِ مقلہ کے بارے میں لکھا کہ ان کے حالات ناگفتہ بہ تھے، لیکن قسمت نے پلٹا کھایا تو خلافتِ عباسیہ کا تین بار وزیر بنا۔ اسی طرح خطّاطی کی تاریخ‌ سے متعلق کتاب میں‌ سیّد محمد سلیم لکھتے ہیں‌ کہ آغازِ کار میں ابنِ مقلہ دفترِ مال (دِیوانی) میں ملازم ہوا تھا۔ یہ ملازمت ایران کے کسی علاقے میں اُسے حاصل ہوئی تھی۔ بعد ازاں وہ ابی الحسن ابنِ فرات کا ملازم ہوا اور بغداد چلا آیا۔ بغداد میں اُس کی قابلیت کے جوہر کھلے اور یہاں اُس کی بیش بہاء قدر دانی بھی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ روم و عرب کی جنگ کے بعد صلح نامہ اُس نے اپنے قلم سے لکھ کر روم بھیجا تھا جو وہاں فن (آرٹ) کے شاہکار کی حیثیت سے مدتوں شہنشاہِ روم کے خزانہ میں موجود رہا۔

    کہتے ہیں‌ کہ خلیفہ المقتدر باللہ نے 924ء میں ابنِ مقلہ کو وزیر مقرر کیا تھا۔ لیکن پھر ایک سازش کے نتیجے میں وہ روپوش ہونے پر مجبور ہوا اور یوں یہ عہدہ اس کے ہاتھ سے گیا، بعد میں‌ حالات بہتر ہوئے تو وہ دربار میں‌ پہنچا اور اسی منصب پر فائز ہوا۔ ابن مقلہ کو خلیفہ راضی باللہ کے زمانہ میں عروج حاصل ہوا۔ لیکن ایک مرتبہ پھر محلّاتی سازشوں کا شکار ہوا اور اس مرتبہ قید کے ساتھ سخت جسمانی تکالیف بھی جھیلنا پڑیں۔

    قید خانے ہی کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے ہی ابنِ مقلہ کا انتقال ہوا تھا۔ ابنِ مقلہ کا مکمل نام ابوعلی محمد بن علی بن الحسین بن مقلہ تھا۔ انھیں ابنِ مقلہ شیرازی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماہرِ فنِ تحریر اور خطّاط ابنِ مقلہ نے علومِ متداولہ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ فقہ، قرأت، تفسیر اور عربی ادب میں ماہر تھے۔ انشاء اور کتابت و مراسلت پر زبردست گرفت تھی۔

    بغداد میں ابنِ مقلہ نے اپنی قابلیت اور فن کا مظاہرہ اس طرح‌ کیا کہ دربار سے عوام تک ان کی بڑی عزّت اور قدر کی گئی۔ دربارِ اکبری کے مشہور مؤرخ ابو الفضل نے اکبر نامہ میں لکھا ہے کہ ابنِ مقلہ نے آٹھ خطوط ایجاد کیے جن کا رواج ایران، ہندوستان، بلادِ روم اور توران میں ہے۔