Tag: خطرہ

  • جاپان میں سونامی کا خطرہ ٹل گیا؟

    جاپان میں سونامی کا خطرہ ٹل گیا؟

    روس میں 8.8 شدت کے زلزلے کے بعد جاپان سمیت کئی ملکوں میں سونامی وارننگ جاری کی گئی تھی تاہم اب جاپانی حکام نے نئی ایڈوائزری جاری کی ہے۔

    روس کے ساحلی شہر پیٹرو یاولوسک کامچٹسکی سے 136 کلومیٹر مشرق میں 8.8 شدت کا تباہ کن زلزلہ آیا تھا۔ زلزلے کے بعد کامچاٹکا میں آتش فشاں پھٹ پڑا۔ زلزلے سے متعدد گھر منہدم اور عمارتیں لرز گئیں، روس کے مشرقی علاقے سے 3 سے 4 میٹر اونچی لہریں ساحلوں سے ٹکرائیں جس سے مختلف علاقے زیر آب آ گئے تھے۔

    اس زلزلے کے بعد امریکا چین جاپان اور دیگر ملکوں میں سونامی وارننگ جاری کی گئی تھی جبکہ جاپان کے جزیرے ہوکیڈوں سے سونامی کی لہریں ٹکرانے کے بعد مختلف علاقوں میں ہنگامی سائرن بجائے گئے تھے جب کہ ٹوکیو میں ہائی الرٹ کرنے کے ساتھ نیوکلیئر پلانٹ بھی خالی کرا لیا گیا تھا۔

    تاہم تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جاپانی حکام نے سونامی الرٹ میں نرمی کا اعلان کرتے ہوئے آخری سونامی الرٹ کو کم درجے پر منتقل کر دیا ہے جب کہ ملک کے شمالی حصے میں جاری آخری سونامی وارننگ ختم کر دی گئی ہے۔ تاہم جاپان کے بحرالکاہل کے ساحلی علاقوں کیلیے سونامی ایڈوائزری اب بھی برقرار ہے۔

    دوسری جانب آئی اے ای اے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہےکہ روس کے زلزلے کے بعد سونامی سے جوہری پلانٹس کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے جوہری ادارے نے بھی ابتدائی رپورٹ جاری کر دی ہے۔

    آئی اے ای اے نے مزید کہا کہ بحرالکاہل کے ساحلی علاقوں کے نیوکلیئر پاور پلانٹس محفوظ ہیں اور وہ جاپانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق روس میں زلزلے کے بعد تائیوان، فلپائن، ہوائی اور الاسکا کے الیوشین جزائر کیلیے بھی سونامی کی وارننگ جاری کی گئی ہے جب کہ امریکی مغربی ساحل کے بیشتر حصے میں بھی سونامی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ایڈوائزری جاری کر دی گئی ہے۔

    امریکی جیولوجیکل سروے نے سونامی میں تین میٹر اونچی لہروں کی وارننگ جاری کی ہے جبکہ پیرو میں بھی ساحل کے لیے ہنگامی مرکز نے الرٹ جاری کر دیا ہے۔

    روس میں 8.8 شدت کے ہولناک زلزلے نے تباہی مچا دی، امریکا، چین، جاپان میں سونامی وارننگ جاری

    اس کے علاوہ چلی نے بھی ساحلی علاقوں میں سونامی ریڈ الرٹ جاری کر دیا ہے۔ ڈیزاسٹر ایجنسی نے شمالی وجنوبی ساحلی علاقوں کے لیے الرٹ جاری کرتے ہوئے ساحلی علاقوں سے لوگوں کو فوری انخلا کا حکم دیتے ہوئے علاقائی ٹیموں کو لوگوں کے محفوظ انخلا کے لیے ہدایات جاری کر دی ہیں۔

    https://urdu.arynews.tv/tsunami-waves-also-hit-the-us-coast/

  • ’صدر ٹرمپ کی ذہنی صحت امریکا اور دنیا کیلیے خطرہ ہے‘

    ’صدر ٹرمپ کی ذہنی صحت امریکا اور دنیا کیلیے خطرہ ہے‘

    صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ پر قبضے سے متعلق بیان کے بعد دنیا بھر سے شدید تنقید کی زد میں ہیں اور اب انہیں ذہنی بیمار قرار دے دیا ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں غزہ پر قبضے کا بیان دیا تھا جس پر دنیا بھر سے ردعمل عمل سامنے آ رہا ہے اور خود وائٹ ہاؤس کو بھی اس حوالے سے وضاحت جاری کرنی پڑی۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کے اسی بیان کے تناظر میں جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے امریکی صدر کو ذہنی بیمار قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ ٹرمپ کا غزہ سے متعلق بیان احمقانہ ہے اور ان کی ذہنی صحت امریکا اور دنیا کے لیے خطرناک ہے۔

    لیاقت بلوچ نے اپنے بیان میں ملکی سیاسی صورتحال پر بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی بحران پورے پاکستان میں بے یقینی کو بڑھا رہا ہے۔ سندھ باب الاسلام ہے، لیکن یہاں کے حکمرانوں نے اسے باب فسادات بنا دیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ سندھ کی سیاست کرپشن اور جبر مافیاز کی سرپرست بنا دی گئی ہے۔ سندھ کی سیاسی سول سوسائٹی قیادت آگے بڑھے اور تعلیم کو مکمل تباہی سے بچائے۔ پانی تقسیم وچوری کے خدشات کا ازالہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/palestinians-expulsion-from-gaza-will-be-permanent/

  • امریکا میں بارش اور سیلاب کے بعد ہیٹ ویو کا خطرہ

    امریکا میں بارش اور سیلاب کے بعد ہیٹ ویو کا خطرہ

    واشنگٹن: امریکا میں ایک طرف بارشیں اور سیلاب سے تباہی کا سلسلہ جاری ہے  تو دوسری جانب ہیٹ ویو کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا میں موسم گرما کی بدحالی اس ہفتے مزید بڑھنے کی توقع ہے، نیشنل ویدر سروس نے آنے والے مہینے میں مزید ضرورت سے زیادہ گرمی بڑھنے کا انتباہ جاری کیا گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ریاست کیلی فورنیا ،ٹیکساس اور فلوریڈا میں اس ہفتے شدید گرمی پڑنے کا امکان ہے،  اخبار گارجین کا بتانا ہے کہ پارہ 48 ڈگری سیلسز تک جا سکتا ہے۔

    شدید گرمی کی لہر کے سبب امریکا میں پانچ کروڑ افراد متاثر ہو سکتے ہیں، کیلی فورنیا کی جنوبی اور وسطی علاقوں کے لیے حد سے زیادہ گرمی پڑنے کی وارننگ جاری کر دی گئی۔

    واضح رہے کہ امریکا کی شمال مشرقی ریاستوں میں بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ ہڈسن وادی سیلابی پانی میں ڈوب گئی اور شاہراہیں ندی نالوں میں بتدیل ہو گئیں، رہی سہی کسر ڈیم کے پانی نے پوری کر دی اور سیلاب کا پانی ڈیم کے اوپر سے بہنے لگا۔

  • دادو میں سیلاب کا خطرہ

    دادو میں سیلاب کا خطرہ

    دادو: صوبہ سندھ کے شہر دادو کو سیلابی ریلے سے سخت خطرہ لاحق ہے، شہر میں ریڈ الرٹ جاری ہونے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایم این وی ڈرین میں سیلابی پانی کا جوہی شہر پر دباؤ ہے، سیلابی ریلے کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، بڑی تعداد میں شہری رنگ بند کو مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔

    شہری کشتیوں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کا بھاری کرایہ ادا کر کے نقل مکانی میں بھی مصروف ہیں۔

    خیال رہے کہ این ڈی ایم اے کے مطابق 14 جون سے اب تک بارشوں اور سیلاب سے ملک بھر میں 11 سو 36 افراد جاں بحق اور 16 سو سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

    اب تک 10 لاکھ 51 ہزار مکانات، 162 پل، اور 34 ہزار 71 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوچکی ہیں، جبکہ 7 لاکھ 35 ہزار سے زائد مویشی مر چکے ہیں۔

  • کیا ہماری زمین سے مینڈک ختم ہوجائیں گے؟

    کیا ہماری زمین سے مینڈک ختم ہوجائیں گے؟

    کینبرا: آسٹریلوی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے ہماری زمین سے مینڈک کی نسل کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق آسٹریلوی ماہرین نے مختلف بیماریوں اور موسمیاتی تبدیلوں کے باعث مینڈک کی مختلف نسل کے معدوم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے آسٹریلوی حکام کو اس بات سے خبردار کیا ہے کہ مینڈکوں کی 26 اقسام سنہ 2040 تک دنیا سے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گی، 4 اقسام پہلے ہی معدوم ہوچکی ہیں۔

    مصنف ڈاکٹر گریم گلیسپی کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کے شمالی علاقوں کے محکمہ ماحولیات نے سالوں کے مطالعے کے بعد مینڈک کی ختم ہو جانے والی اقسام کی نشاندہی کی ہے۔

    ڈاکٹر گلیسپی نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ مینڈک جلد ہی آسٹریلیا کے رینگنے والے جانوروں، ممالیہ جانوروں، پرندوں اور پودوں کی کئی اقسام کی طرح معدوم ہو سکتے ہیں جس سے فوڈ سائیکل متاثر ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹر گلیسپی کے مطابق مینڈکوں میں جلد کی بیماری کے ساتھ ایک اور بیماری بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے مینڈک کی 4 اقسام معدوم ہوچکی ہیں۔

    ان نئی اقسام کی بیماریوں کے ساتھ تیزی سے بدلتی موسمیاتی تبدیلیاں بھی خطرے کا سبب بن رہی ہیں، جنہیں محفوظ کرنے کے لیے جلد سے جلد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

  • کرونا وائرس: ماضی میں ڈینگی کا شکار افراد کے لیے خطرہ

    کرونا وائرس: ماضی میں ڈینگی کا شکار افراد کے لیے خطرہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے افراد میں کرونا وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ دوگنا ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برازیل میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ماضی میں ڈینگی کا سامنا کرنے والے افراد میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے پر کووڈ کی علامات ابھرنے کا امکان دگنا ہوتا ہے۔

    یونیورسٹی آف ساؤ پاؤلو بائیو میڈیکل سائنس انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں برازیل کے ایمیزون خطے کے ایک قصبے کے 12 سو 85 افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ ڈینگی کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں ان میں کووڈ 19 سے سنگین حد تک بیمار ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق ایک طرف کووڈ 19 کے نتیجے میں ڈینگی کی روک تھام کے اقدامات متاثر ہوئے ہیں، وہی دوسری جانب ڈینگی سے کووڈ کا شکار ہونے کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔

    یہ تحقیقی ٹیم عرصے سے اس خطے میں ملیریا کی روک تھام کے لیے کام کررہی ہے اور 2018 میں انہوں نے ہر ماہ بعد قصبے کی آبادی کے سروے کا پراجیکٹ شروع کیا تھا، تاہم کرونا وائرس کی وبا کے بعد اس کا رخ کووڈ کی جانب موڑ دیا گیا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ستمبر 2020 میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ایسے علاقے جہاں ڈینگی کے کیسز بہت زیادہ رپورٹ ہوچکے ہیں وہاں کووڈ 19 سے زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوئے۔

    انہوں نے بتایا کہ چونکہ ہم اس خطے کے رہائشیوں کے خون کے نمونے کورونا وائرس کی وبا کی پہلی لہر سے پہلے اور بعد میں اکٹھے کرچکے تھے، تو ہم نے ان کو اس خیال کی جانچ پڑتال کے لیے آزمانے کا فیصلہ کیا کہ ماضی میں ڈینگی وائرس کا سامنا کرنے والے افراد کو کسی حد تک کووڈ سے تحفظ حاصل ہوتا ہے، مگر نتائج اس سے بالکل متضاد رہے۔

    تحقیق میں جن خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا وہ نومبر 2019 اور نومبر 2020 میں اکٹھے کیے گئے تھے اور ان میں موجود اینٹی باڈیز کو ڈینگی تمام اقسام اور کرونا وائرس کے خلاف آزمایا گیا۔

    نتائج سے ثابت ہوا کہ 37 فیصد افراد نومبر 2019 سے قبل ڈینگی جبکہ 35 فیصد افراد نومبر 2020 سے قبل کرونا سے متاثر ہوچکے تھے۔

    ماہرین کے مطابق شماریاتی تجزیے سے نتیجہ نکالا گیا کہ ماضی میں ڈینگی وائرس سے متاثر ہونے سے کووڈ سے بیمار ہونے کا خطرہ کم نہیں ہوتا۔ ان کہنا تھا کہ درحقیقت تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو ڈینگی کا سامنا ہوچکا ہے، ان میں کرونا سے متاثر ہونے پر علامات ابھرنے کا امکان دیگر سے زیادہ ہوتا ہے۔

  • کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف جسمانی مسائل سامنے آچکے ہیں، اب حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ کرونا وائرس کا شکار افراد ذیابیطس یا شوگر کے مریض بھی بن سکتے ہیں۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ 19 نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے والا مرض ہے بلکہ یہ متعدد مریضوں میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

    ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 ایسے افراد کو ذیابیطس کا شکار بنارہا ہے جو اس سے پہلے اس بیماری کے شکار نہیں تھے۔

    یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے لوگوں میں ذیابیطس کا عارضہ کیوں ہوسکتا ہے مگر کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سارس کووڈ 2 وائرس ممکنہ طور لبلبے کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    لبلبہ ایک ہارمون انسولین کو بناتا ہے جو خون میں موجود شکر کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے اور اس میں مسائل سے ذیابیطس کا مرض ہوسکتا ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 46 کروڑ سے زائد ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ کووڈ کی اس غیرمعمولی پیچیدگی سے اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے محکمہ ویٹرنز افیئرز کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس سے شواہد اکٹھے کیے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں آئندہ 6 ماہ کے دوران ذیابیطس کی تشخیص کا امکان 39 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ سے معمولی بیمار رہنے والے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، ان میں سے ہر ایک ہزار میں سے 6.5 میں ذیابیطس کا خطرہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے ہر ایک ہزار میں سے 37 مریض ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں اور یہ شرح ان مریضوں میں زیادہ ہوسکتی ہے جن کو آئی سی یو میں زیر علاج رہنا پڑا ہو۔

    کووڈ کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ شرح معمولی نہیں کیونکہ دنیا بھر میں کووڈ کے مریضوں کی تعداد 15 کروڑ سے زیادہ ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی ممکنہ وجہ لبلبے کے انسولین بنانے والے خلیات کا تباہ ہونا ہے جو یا تو کرونا وائرس کا اثر ہے یا کووڈ کے خلاف جسمانی ردعمل اس کا باعث بنتا ہے۔

    ابھی یہ واضح طور پر کہنا مشکل ہے کہ کووڈ 19 ہی ذیابیطس کا باعث بنتا ہے، تاہم اس حوالے سے ڈیٹا سے کرونا کی وبا کے اس اثر کو جانچنے میں مدد مل سکے گی۔

  • چھٹی حِس پر نئی تحقیق سامنے آ گئی

    چھٹی حِس پر نئی تحقیق سامنے آ گئی

    واشنگٹن: امریکی محققین نے ایک تحقیق میں معلوم کیا ہے کہ چھٹی حِس دماغ کے اندرونی حصے میں ہوتی ہے اور خطرے کے وقت متحرک ہو جاتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چھٹی حس کے بارے میں ابھی تک کوئی تحقیق اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچی، تاہم ایک حالیہ ریسرچ اسٹڈی سے محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چھٹی حِس خاص طور پر دماغ کے اندورنی حصے میں موجود ہوتی ہے۔

    اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ انسان کو لاحق خطرہ دماغ کے اس حصے میں موجود حس کو متحرک کرتا ہے، اور ایسے احساسات مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔

    چھٹی حس دراصل پانچ حواس سے ہٹ کر واقعات کو دور سے سمجھنے کی صلاحیت ہے، یہ حس ہمیں بعض جذبات سے متعلق بھی معلومات فراہم کرتی ہے اور خبردار کرتی ہے۔ محققین نے چھٹی حس کی کئی اقسام بتائی ہیں، مثلاً کوئی واقعہ ہونے سے پہلے پیش گوئی کرنا، یا خیالات کو پڑھنا چھٹی حس کی اعلیٰ ترین سطح میں سے ایک ہے۔

    واضح رہے کہ چھٹی حس کے بارے میں یہ حتمی طور پر معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ لوگوں میں چھٹی حس ایک دوسرے سے کتنی مختلف ہوتی ہے، عموماً لوگ اسے ایک اضافی حس سمجھتے ہیں جو انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رد عمل کے لیے تیار رہا جائے۔

    جن لوگوں کی چھٹی حس طاقت ور ہوتی ہے، وہ جذباتی اور نفسیاتی طور پر مستحکم، اندرونی طور پر خوش اور خود اعتماد ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کے سماجی تعلقات وسیع ہوتے ہیں اور یہ کامیاب ہونے کی خصوصیت رکھتے ہیں۔

    کیا چھٹی حس میں بہتری لائی جا سکتی ہے؟ جی ہاں

    اس کے لیے آپ یہ مشق کر سکتے ہیں کہ کسی چیز کا تجزیہ محض اپنی اندرونی جبلت سے کریں، یعنی اس چیز کا عقلی تجزیہ نہ کریں، اس سے اندرونی جبلت کا شعور تیز ہوگا۔

    اپنے خوابوں کو یاد رکھنے کی کوشش کریں، کیوں کہ خواب وہ خیالات اور احساسات ہیں جو آپ کے لا شعور میں پوشیدہ ہیں۔

    کسی کاغذ کا خالی ٹکڑا لیں اور کوئی بھی سوچ جو آپ کے دماغ میں گھوم رہی ہے اسے بغیر کسی ہچکچاہٹ لکھ لیں، لکھنے سے آپ کا لا شعوری ذہن مضبوط ہوگا۔

    اپنے اردگرد کے لوگوں اور بے جان اشیا کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات پر توجہ دینا سیکھیں تاکہ آپ کو باریک چیزیں سمجھنے میں آسانی ہو۔

    اور جب آپ کسی سے بات کر رہے ہوں تو پوری توجہ مرکوز کریں، اور اس کی تبدیلیوں اور موڈ کو دیکھیں۔

  • کرونا وائرس: عینک والے افراد کے لیے خوشخبری

    کرونا وائرس: عینک والے افراد کے لیے خوشخبری

    بیجنگ: ماہرین نے عینک پہننے والوں کو خوشخبری سنا دی، ماہرین کا کہنا ہے کہ عینک پہننے والے افراد میں کرونا وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    حال ہی چینی ماہرین نے اپنی ایک تحقیق میں بتایا ہے کہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے عینک پہننے والوں کو کرونا وائرس لاحق ہونے کا خطرہ دوسروں کی نسبت کئی گنا کم ہوتا ہے۔

    تحقیق کے لیے عینک پہننے والے ہزاروں مرد و خواتین کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ کم از کم 8 گھنٹے عینک پہننے والوں کو کرونا وائرس لاحق ہونے کا خطرہ 5.8 فیصد کم تھا۔

    تحقیق میں نن چنگ یونیورسٹی کے ماہرین نے ہزاروں لوگوں کے چشمہ پہننے کی عادت اور ان کو وائرس لاحق ہونے کے امکان کا تجزیہ کر کے نتائج مرتب کیے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس سے پہلے بھی ثابت ہوچکا ہے کہ بیشتر لوگوں کو کرونا وائرس آنکھوں کے ذریعے لاحق ہوتا ہے۔

    وائرس ان کی آنکھوں میں ہوا میں معلق لعاب کے قطروں سے یا ہاتھوں سے آنکھوں کو چھونے سے داخل ہوتا ہے، چنانچہ جن لوگوں نے عینک پہن رکھی ہو، وہ ان دونوں خطرات سے محفوظ رہتے ہیں۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ کمزور بصارت کا شکار افراد کے علاوہ دیگر افراد بھی وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے چشمے کا استعمال کرسکتے ہیں۔

  • فربہ افراد کرونا وائرس کے لیے سب سے آسان ہدف کیوں ہیں؟

    فربہ افراد کرونا وائرس کے لیے سب سے آسان ہدف کیوں ہیں؟

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور ایسے میں کمزور قوت مدافعت رکھنے والے، بزرگ اور دیگر بیماریوں کا شکار افراد اس کا آسان ہدف ہوسکتے ہیں۔

    کرونا وائرس کے آغاز سے ماہرین خبردار کرچکے ہیں کہ فربہ افراد کو کوویڈ 19 کا شکار ہونے کا زیادہ خطرہ ہے، اب حال ہی میں ماہرین نے اس کی ممکنہ وجوہات سے آگاہ کیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق موٹاپے کی وجہ سے جسم کے مختلف اعضا جیسے دل کے ارد گرد چربی جمع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دل کو خون پمپ کرنے میں دباؤ کا سامنا ہوتا ہے، اس کی وجہ سے بلڈ پریشر کی شکایت ہوسکتی ہے۔

    اسی وجہ سے موٹاپا جسم کو دیگر بیماریوں جیسے ذیابیطس، امراض قلب، جگر اور گردوں کے مسائل کا تحفہ دے سکتا ہے۔ یہ تمام بیماریاں کرونا سمیت ہر طرح کے وائرسز کو جسم میں دعوت دے سکتی ہیں۔

    موٹاپے کی وجہ سے سانس لینے میں بھی دشواری پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ جسم کی نالیوں میں موجود چکنائی کی وجہ سے آکسیجن کی آمد و رفت مشکل ہوتی ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر سوزن جیب کے مطابق موٹاپے کی وجہ سے دراصل تمام اعضا کو اپنے افعال ادا کرنے کے لیے دگنی محنت کرنی پڑتی ہے، وہ اعضا جو پہلے ہی دگنا کام کر رہے ہوں وہ جسم میں داخل ہونے والے کسی نئے وائرس سے مزاحمت کس طرح کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موٹاپے اور کرونا وائرس میں تعلق کی ایک اور وجہ جسم میں فیٹی ٹشوز کا ہونا بھی ہے جو موٹاپے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، ان ٹشوز میں ایک خاص قسم کے انزائم پیدا ہوتے ہیں۔ کرونا وائرس ان انزائم کو جسم میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    لندن کے کنگز کالج کے ماہر فرانسسکو روبینو کہتے ہیں کہ موٹاپے اور کرونا وائرس کے تعلق کو دو پینڈیمکس کا ٹکراؤ کہا جاسکتا ہے۔

    روبینو کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19 نے ہمیں احساس دلایا ہے کہ موٹاپے کا تدارک کرنے کی جتنی ضرورت اب ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اب وقت ہے کہ صحت مند طرز زندگی اپنایا جائے، فعال اور متحرک زندگی گزاری جائے اور موٹاپے سے چھٹکارہ پایا جائے۔