Tag: خطوط غالب

  • ‘عورت سے خبردار۔ ہاں عورت سے خبردار!!’​

    ‘عورت سے خبردار۔ ہاں عورت سے خبردار!!’​

    جوشؔ ملیح آبادی قادرُ الکلام شاعر ہی نہیں‌ نثر نگار بھی خوب تھے۔ انھیں‌ زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ رواں اور مترنم الفاظ جہاں‌ جوشؔ کی شاعری کی سحر انگیزی بڑھاتے ہیں، وہیں‌ ان کے مضامینِ نثر کی زبان بھی نہایت دل کش اور جان دار ہے۔

    یہاں‌ ہم استاد شاعر راغب مراد کے نام جوش صاحب کا ایک خط نقل کر رہے ہیں‌ جو شاعرِ انقلاب نے 1975ء میں‌ لکھا تھا۔ اس خط میں جوش ملیح آبادی نے "عورت” کے عنوان سے اپنا مضمون داخل کیا ہے اور اس پر راغب مراد آبادی سے رائے دینے پر اصرار کیا ہے۔ خط ملاحظہ کیجیے:

    راغب جانی، ابھی ابھی ‘ذکر و فکر’ کے لیے ایک مضمون لکھا ہے، جی چاہا، اس کی نقل آپ کو بھیج دوں۔ ملاحظہ فرمائیے:

    "عورت”​
    میں، عوام، یعنی، دو پاؤں پر چلنے والے حیوانوں سے خطاب کرنے کے ننگ پر، اپنے آپ کو آمادہ نہیں کر سکتا۔ میرا تو روئے سخن ہے تمہاری طرف، اے تلواروں کی دھاروں کو موڑ دینے والے ساونتو۔ اور، تمام کائنات کو، پلکوں پر، تول لینے والے گمبھیر فلسفیو۔ کہ تمہارے آگے، موت کی آگ پانی بھرتی ہے، اور تمہاری نظروں کے لمس سے، اسرارِ مرگ و زیست کا لوہا پگھلنے لگتا ہے۔

    ہاں، تو میں تم سے، کانپتی ہوئی پنڈلیوں، اور اپنے بدن کے تمام کھڑے ہوئے رونگٹوں کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ‘عورت سے خبردار۔ ہاں عورت سے خبردار!!’​

    یہ عورت، وہ حسین بلائے بے درماں ہے کہ افلاطون کی پشت پر سوار ہو کر، اسے گھوڑا بنا، اور نپولینِ اعظم کی ناک چھید کر، اسے نتھنی پہنا چکی ہے۔

    سنو، سنو کہ عورت ہر روپ میں خطرناک ہوتی ہے۔ وہ بے وفا ہو کہ وفادار، بہر رنگ ہے خوں خوار۔ وہ اگر، سراپا وفا ہے، تو عاشق کے دل میں وہ کیف بھر دیتی ہے کہ اس کو دین و دنیا دونوں سے بے خبر کر دیتی ہے۔ وہ، آدمی کو، فکرِ بیدار کی گلابی دھوپ سے اٹھاتی، اور خواب آور زلفوں کی مہکتی چھاؤں میں بٹھا دیتی ہے۔ اپنے، بوسہ طلب ہونٹوں کی مہک سے، یوں رجھاتی ہے کہ آدمی کی ہر سانس، اس کے گرد چکر لگاتی ہے۔ وہ کائنات کی تمام راگنیوں کا گلا گھونٹ کر، صرف اپنے کھنکتے بول سناتی ہے۔ وہ تشنگی کی آگ بھڑکانے کی خاطر، پیاس بجھاتی ہے۔ اور، انفس و آفاق کے تمام جلوؤں کو دھندلا کر، فقط اپنا دمکتا مکھڑا جھمکاتی ہے۔

    اور، آخرکار، انسان، اس کے بحرِ جمال میں، یوں بہہ جاتا ہے کہ معاشرے کا عضوِ معطل بن کر رہ جاتا ہے۔

    عشق نے غالب نکمّا کر دیا​….

    اور اگر، عورت نامہربان و جفا پیشہ ہوتی ہے تو، آدمی اس بے پایاں احساسِ کم تری میں گھر جاتا ہے کہ۔ اور تو اور، خود اپنی ہی نظروں میں گر جاتا ہے۔

    ٹھکرایا ہوا عاشق، اپنے کو، اس قدر نا مطبوع و مکروہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کے دل سے، دوستوں کا تو کیا ذکر، خود اپنی ماں تک کی شفقت کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ اور وہ بے چارہ اپنے کو اس حد کا حقیر و ذلیل سمجھنے لگتا ہے کہ جب وہ آئینہ اٹھاتا ہے، تو اپنا چہرہ ایسا نظر آتا ہے، گویا وہ ایک ایسا خارشتی ٹینی کتّا ہے جو، آسمان کی طرف تھوتھن اٹھا کر رو رہا ہے۔​

    سراپا کرم ہے کہ سفّاک ہے​
    بہر طور، عورت خطرناک ہے

    یا اس طرح کہہ لیجیے کہ:​

    سراپا سَمَن ہے کہ سفّاک ہے​
    بہر طور عورت خطرناک ہے​

    کہو، پیارے کیسا مضمون ہے؟ مجھے تو اچھا لگا کہ میں نے لکھا ہے۔ خورشید علی خان کو بھی یہ مضمون دکھا دیجیے گا۔​

    افسوس کہ اب کی نسیم صاحب سے نہایت سرسری ملاقات رہی۔

    جوش​،
    اسلام آباد​
    ۹/۸/۷۵​

  • ٹریفک حادثے میں‌ جاں‌ بحق ہونے والی شاعرہ کے والد کے نام خطوط

    ٹریفک حادثے میں‌ جاں‌ بحق ہونے والی شاعرہ کے والد کے نام خطوط

    فروغ فرخ زاد کا فن ہی نہیں ان کی زندگی بھی روایت اور کسی بھی معاشرے کی اس ڈگر سے ہٹ کر بسر ہوئی جس پر چلنے والے کو "باغی” کہا جاتا ہے۔

    1934ء میں‌ ایران کے قدیم و مشہور شہر تہران میں آنکھ کھولنے والی فروغ فرخ زاد نے شاعرہ اور فلم ساز کی حیثیت سے شہرت پائی۔ ان کے والد فوج میں کرنل تھے۔ سولہ سال کی عمر میں‌ انھوں‌ نے شادی کی جو ناکام ثابت ہوئی۔

    فروغ فرخ زاد کے فارسی زبان میں‌ شعری مجموعے خاصے مقبول ہوئے۔ ان کی نظم "ہمیں سرد موسم کی ابتدا پر یقین کرنے دو” کو فارسی کی منفرد نظم کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری کا انگریزی زبان میں‌ بھی ترجمہ ہوا۔

    وہ فلم ساز اور ہدایت کار بھی تھیں۔ ان کی ایک دستاویزی فلم "گھر سیاہ ہے” بہت مشہور ہوئی۔

    فروغ فرخ زاد 32 سال کی تھیں‌ جب کار میں دورانِ سفر ایک اسکول بس کو حادثے سے بچاتے ہوئے شدید زخمی ہوگئیں اور اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا۔ موت کے بعد ان کے خطوط کا ایک مجموعہ شائع ہوا جس میں‌ والد کے نام ان کے چند نامے لائقِ مطالعہ ہیں۔ شائستہ خانم نے فارسی سے ان خطوط کا اردو ترجمہ کیا ہے، جن میں‌ سے چند سطور قارئین کی نذر ہیں۔ یہ اقتباسات ان کی ذہنی کشمکش اور کرب کو عیاں کرتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں:

    "مجھے آپ چھوڑ دیں، دوسروں کی نظر میں مجھے بدنصیب اور پریشان حال رہنے دیں۔میں زندگی سے گلہ نہیں کروں گی۔ مجھے خدا اور اپنے بچّے کی قسم! میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں، آپ کے بارے میں سوچتی ہوں تو آنسو نکل آتے ہیں۔

    کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ خدا نے مجھے اس طرح کیوں پیدا کیا ہے۔ اور شاعری نامی شیطان کو میرے وجود میں کیوں زندہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے میں آپ کی خوشی اور محبت حاصل نہیں کر پائی لیکن میرا قصور نہیں ہے۔ میرے اندر ایک عام زندگی گزارنے اور برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، جیسے لاکھوں دوسرے لوگ گزارتے ہیں۔”

    ایک اور خط میں‌ انھوں‌ نے والد کو لکھا:

    "آپ سوچیے کہ میں بری لڑکی نہیں ہوں اور جان لیجیے کہ آپ سے محبّت کرتی ہوں۔ میں ہمیشہ آپ کی خیریت سے آگاہ رہتی تھی۔ اور میں ایسی ہوں کہ محبّت اور تعلق خاطر کو ظاہر نہیں کرتی جو کچھ ہوتا ہے اپنے دل میں رکھتی ہوں۔ آپ میرے لیے ہر مہینے کچھ رقم بھیجتے ہیں، اس کے لیے میں بہت ممنون ہوں۔ میں آپ پر بوجھ بننا نہیں چاہتی لیکن کیا کرسکتی ہوں، میری زندگی بہت سخت تھی، لیکن ایک دو ماہ مزید میں یہاں ہوں کہ مجھے کام مل جائے، پھر شاید مجھے ضرورت نہ ہو۔

    جب میں تہران آؤں گی تو مال دار ہوں گی اور آپ کا قرض واپس کر دوں گی۔ اگر آپ مجھے جواب دیں گے تو مجھے بہت خوشی ہوگی، جیسے دن میں اب گزار رہی ہوں، بہت سخت اور درد ناک ہیں اور قبر میں سوئے ہوئے آدمی کی طرح اکیلی ہوں۔

    مٹّھی بھر تلخ اور عذاب ناک سوچیں ہیں اور ایک مٹّھی بھر غصہ جو کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔ اب میں کوئی ایسا کام بھی نہیں کرسکتی جس سے آپ کو راضی کرسکوں، لیکن شاید ایک دن آئے کہ آپ بھی مجھے حق دیں اور دوبارہ مجھ پر ناراض نہ ہوں اور مجھ پر دوسرے بچّوں کی طرح مہربان ہو جائیں۔”

  • مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے آیا ایک خط!

    مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے آیا ایک خط!

    ذاکر باغ،
    مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
    5 جنوری 1975

    مکرمی، سلام مسنون

    آپ نے جن مقامات کی سیاحت فرمائی، وہاں کے جن گزشتہ اور موجودہ علما، شعرا، سلاطین اور اکابر کو یاد کیا اور ان کی منزلت یاد دلائی، نیز یہ کہ ان کے عظیم کارنامے کتنے وسیع خطۂ ارض، کیسی گراں قدر تصانیف اور یادگاروں اور مختلف الاحوال لوگوں کے ذہن و دماغ میں کس طرح اور کس شکل میں جلوہ گر ہیں اس کا احساس شاید ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے طبقے میں بھی کم ہی لوگوں کو ہوگا۔

    ان کار ہائے عظیم اور خدماتِ جلیلہ کے باوجود ہماری جو حالت و شہرت مہذب دنیا میں ہے وہ کتنی عبرت ناک ہے۔ آپ نے اس کا احساس کیا اور کلام پاک کے حوالے سے اس کا جواب بھی دیا۔ لیکن کلامِ پاک کی تنبیہ اور تاکید کو یاد دلانا آسان ہے اس کو منوانا اور ذہن نشیں کرا دینا، جس کی قدرت میں ہے، وہ نہ ہمارے بس کا ہے نہ آپ کے بس کا۔

    قلب ضرور ہمارا ہے، لیکن اس کا مقلب تو کوئی اور ہی ہے۔ ایسا تو نہیں کہ مسلمانوں کا اقبال گزشتہ تہذیبوں کے فطری زوال کے مانند عمر طبعی کو پہنچ چکا ہو۔ ایسا ہے تو اس کی ضرب کہاں کہاں پہنچتی ہے اس کا اندازہ مجھ سے کہیں زیادہ آپ کرسکتے ہیں۔

    دعا ہے کہ آپ اس پایہ کی تصنیف سے ہمارے ولولوں کو آنے والے اچھے دنوں کی بشارت سے تازہ کار رکھیں گے اور تقویت پہنچاتے رہیں گے۔ آپ کی تصانیف میں انشا پردازی کا جو حسن، جامعیت اور ”موافق الاحوال“ ہونے کی صفت پائی جاتی ہے اس کا اعتراف مجھ سے بہتر لوگ کرچکے ہیں۔ مختلف تقریبوں میں آپ کی تقریریں بڑی عالمانہ، شگفتہ، شائستہ اور بَرمحل ہیں۔ کہیں کوئی ڈھیل بر بنائے مصلحت نہیں ملتی۔ سطرِ آخر سے پہلی سطر میں آپ نے ”اسلامی نخوت“ کا فقرہ لکھا ہے۔

    نخوت کا لفظ اسلامی کے ساتھ کھٹکا، عربی، فارسی زبان میں نخوت کا جو بھی مفہوم ہو، اردو میں تکبر، گھمنڈ اور غرور کے معنی میں بالعموم استعمال ہوتا ہے۔ عام طور پر کبرونخوت ہی بولتے ہیں۔ اردو میں نخوت کو بزرگی کا مفہوم شاید ہی کسی نے دیا ہو، لیکن اس معاملے میں آپ کا قول، قولِ فیصل ہے۔

    دعا ہے کہ آپ خوش و خرم ہوں۔

    مخلص
    رشید احمد صدیقی


    (ممتاز ادیب، نقاد اور محقق رشید احمد صدیقی نے معروف عالمِ دین اور نہایت قابل شخصیت مولانا ابوالحسن علی ندوی کے نام اس خط میں‌ ایک سفر نامے پر مولانا کو مسلمانوں‌ کا حقیقی خیر خواہ اور مصلح کہہ کر ان کی حوصلہ افزائی کی ہے)