Tag: خطوط نویسی

  • نواب شیدا بیگم کے نام جانِ‌ عالم کا رقعہ

    نواب شیدا بیگم کے نام جانِ‌ عالم کا رقعہ

    ہندوستان میں‌ مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ساتھ مختلف مطیع اور خودمختار ریاستوں میں انگریزوں‌ کا بڑھتا ہوا عمل دخل اور نوابوں کی بے توقیری تک تاریخ کے اوراق بہت کچھ لکھتے ہیں جن میں بیگماتِ اودھ کے خطوط کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ آخری تاج دارِ اودھ واجد علی شاہ کی بیگمات کے وہ نامے ہیں‌ جو جلاوطنی کے عالم میں‌ واجد علی شاہ تک پہنچے اور ان کی جانب سے ارسال کیے گئے۔

    یہاں ہم ایک ایسا ہی خط نقل کر رہے ہیں جو واجد علی شاہ کی طرف سے شیدا بیگم کو لکھا گیا تھا۔ اس خط کے القاب لائقِ توجہ ہیں۔ قدیم اردو میں‌ اس خط کا طرزِ تحریر رواں اور لطف انگیز ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ سطور ایک نواب کا اپنے حالات پر نوحہ بھی ہے۔ خط ملاحظہ کیجیے۔

    بہ نام
    نواب شیدا بیگم صاحبہ

    مرگ سوجھے ہے آج کل مجھ کو
    بے کلی سی نہیں ہے کل مجھ کو

    مہرِ سپہر بے وفائی، ماہ سمائے دل ربائی، گوہرِ تاج آشنائی، جوہرِ شمشیرِ یکتائی! ہمیشہ خوش رہو!

    معلوم ہو گیا ہمیں لیل و نہار سے
    ایک وضع پر نہیں ہے زمانے کا طور آہ

    معلوم ہوا اودھ میں کچھ بلوائی لوگ جمع ہوئے ہیں اور سرکار انگریزی کے خلاف ہو گئے ہیں۔ کم بختوں سے کہو ہم چپ چاپ چلے آئے تم لوگ کاہے کو دنگا مچا رہے ہو۔ میں یہاں بہت بیمار تھا، صفرہ کی تپ نے دق کر دیا تھا۔ آخر تبرید کے بعد صحت ہوئی۔ جس قدر نذر و نیاز مانی تھیں، وہ کی گئیں۔ جلسہ رات بھر رہا، ناچ گانا ہوتا رہا۔ کوئی چار گھڑی رات باقی ہو گی۔ غل پکار ہونے لگا۔ ہم غفلت میں پڑے تھے۔ آنکھ کھلتے ہی ہکّا بکّا رہ گئے۔ دیکھا کہ انگریزی فوج موج در موج ٹڈی دل چاروں طرف سے آ گئی۔ میں نے پوچھا یہ کیا غل ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا، علی نقی قید ہو گئے۔ مجھ کو غسل کی حاجت تھی۔ میں تو حمام میں چلا گیا۔ نہا کر فارغ ہوا کہ لاٹ صاحب کے سیکرٹری اومنٹن حاضر ہوئے اور کہنے لگے، میرے ساتھ چلیے۔ میں نے کہا، آخر کچھ سبب بتاؤ۔ کہنے لگے، گورنمنٹ کو کچھ شبہ ہو گیا ہے۔ میں نے کہا، میری طرف سے شبہ بے کار ہے۔ میں تو خود جھگڑوں سے دور بھاگتا ہوں۔ اس کشت و خون اور خلق خدا کے قتل و غارت کے سبب سے تو میں نے سلطنت سے ہاتھ اٹھا لیا۔ میں بھلا اب کلکتہ میں کیا فساد کرا سکتا ہوں۔

    انھوں نے کہا، مجھ کو صرف اتنا معلوم ہے کہ کچھ لوگ سلطنت کے شریک ہو کر فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا، اچھا اگر انتظام کرنا ہے تو میرے چلنے کی کیا ضرورت ہے۔ میرے ہی مکان پر فوج مقرّر کر دو۔ انھوں نے کہا، مجھ کو جیسا حکم ملا ہے میں نے عرض کر دیا۔ بالآخر میں ساتھ چلنے پر تیّار ہوا۔ میرے رفقا بھی چلنے پر تیّار ہو گئے۔ سیکرٹری نے کہا، صرف آٹھ آدمی آپ کے ہمراہ چل سکتے ہیں۔ پھوپھا مجاہد الدّولہ، ذہانت الدّولہ، سیکرٹری صاحب اور میں ایک بگھی میں سوار ہو کر قلعہ میں آئے اور قید کر لیے گئے۔ میرے ساتھیوں میں ذوالفقار الدّولہ، فتح الدّولہ، خزانچی کاظم علی، سوار باقر علی، حیدر خاں کول، سردار جمال الدین چپراسی، شیخ امام علی حقّہ بردار، امیر بیگ خواص، ولی محمد مہتر، محمد شیر خاں گولہ انداز، کریم بخش سقّہ، حاجی قادر بخش کہار، امامی گاڑی پوچھنے والا، یہ قدیم ملازم نمک خوار تھے، زبردستی قید خانہ میں آ گئے۔

    راحت سلطانہ خاصہ بردار، حسینی گلوری والی، محمدی خانم مغلانی، طبیب الدّولہ حکیم بھی ساتھ آیا۔ دیکھا دیکھی آیا تھا، گھبرا گیا اور کہنے لگا: خدا اس مصیبت سے نجات دے۔ میں نے بہت کچھ حق جتائے کہ تجھ کو بیس برس پالا ہے۔ مگر وہ اپنی جان چھڑا کر بھاگ گیا۔ جس قلعہ میں ہم قید کیے گئے تھے اس کو قلی باب کہتے ہیں۔

    یہ خط کربلائے آب خاصہ بردار کے بھائی کے ہاتھ بھیج رہا ہوں۔

    ؎
    ہوا ہے اب تو یہ نقشہ ترے بیمارِ ہجراں کا
    کہ جس نے کھول کر منہ اس کا دیکھا بس وہیں ڈھانکا

    جانِ عالم اختر

  • طامس ہڈرلی طامس: اردو کا پہلا روزنامچہ نویس

    طامس ہڈرلی طامس: اردو کا پہلا روزنامچہ نویس

    تھامس ہڈرلی (Thomas Heatherly) اردو کے مشہور انڈو یوروپین شاعر اور مرزا غالب اور عارف کے شاگرد کپتان الیگزینڈر ہڈرلی کے بڑے بھائی تھے۔ اردو میں وہ اپنا نام طامس لکھتے تھے اور یہی ان کا تخلص بھی تھا۔

    ان کے والد جیمس ہڈرلی بھی مشہور آدمی تھے اور مرزا غالب کے دوست تھے۔ نواب جھجر کے یہاں ملازم تھے۔ طامس ہڈرلی اردو اور فارسی کے اچھے عالم تھے اور انگریزی تو ان کی مادری زبان تھی۔

    اردو ادب میں طامس کی اہمیت دو وجہ سے زیادہ ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی الگزینڈر ہڈرلی آزاد کا دیوان مرتب کرکے شائع کیا جو اردو کے انڈو پوروپین شعرا کی صف اوّل کے شاعر تھے۔ دوسری اہمیت یہ ہے کہ اب تک کی دریافت کے مطابق وہ اردو کے سب سے پرانے روزنامچہ نویس ہیں۔ انھوں نے 1843ء سے 1853ء تک روزنامچہ لکھا۔ ان کا روزنامچہ پروفیسر نثار احمد فاروقی نے شائع کیا ہے۔ اس کا اصل نسخہ دہلی یونیورسٹی کی لائبریری میں محفوظ ہے۔

    پروفیسر نثار احمد فاروقی کے مطابق اردو کا سب سے پرانا روزنامچہ مولوی مظہر علی سندیلوی کا ہے۔ اس سے قبل جو روزنامچے لکھے جاتے تھے وہ فارسی میں لکھے جاتے تھے۔ حتّٰی کہ 1857ء میں جیون لال، معین الدّین اور عبدُاللطیف کے روزنامچے بھی فارسی میں لکھے گئے۔ اس اعتبار سے طامس کے روزنامچے کی خاص اہمیت ہے۔ ساتھ ہی اس سے نہایت اہم تاریخی اور ادبی معلومات فراہم ہو تی ہیں۔ یہ روزنامچہ بالکل ذاتی نوعیت کا ہے اور اس میں اپنے ذاتی مسائل کا ہی بیان ہے لیکن ضمناً تاریخی معلومات آگئی ہیں مثلاً ماہِ اپریل 1849ء میں کوہِ نور ہیرا کے ولایت جانے کا تذکرہ ہے۔ اسی طرح لاہور کی جنگ کا تذکرہ وغیرہ۔

    طامس ہڈرلی کی صحیح تاریخِ پیدائش تو نہیں معلوم لیکن وہ 1874ء میں ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ اگر ان کی عمر اس وقت 55 سال مانی جائے تو ان کی ولادت 1819ء کے قریب ہوئی ہوگی۔ اس طرح وہ اپنے چھوٹے بھائی الیگزینڈر ہڈرلی سے دس سال بڑے تھے۔

    طامس کے والد جیمس ہڈرلی نواب جھجر کے معتمدِ خاص تھے۔ اس لیے ان کو بھی آسانی سے نواب صاحب کے یہاں ملازمت مل گئی۔ 50 روپیہ مہینہ مشاہرہ مقرر ہوا۔ 1843ء میں وہ اسی ملازمت پر تھے۔ پھر بعد میں 18 مارچ 1845ء کو وہ کل ریاست کے منصرمِ خزانہ مقرر ہوگئے۔

    رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز نواب فیض علی خاں کے بیٹے یعقوب علی خاں کے تحویل دارِ خزانہ کی حیثیت سے کیا تھا اور سو روپیہ ان کا مشاہرہ تھا۔ لیکن طامس کی ڈائری سے اس کی بہت تائید نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔

    1845ء میں جولائی کے مہینہ میں نواب صاحب نے ان کو بڈھوانہ کا تحصیل دار مقرر کرنا چاہا۔ لیکن انھوں نے انکار کر دیا جس کی وجہ سے نواب صاحب خفا ہو گئے۔

    نواب صاحب کی ناراضگی کے ایّام میں طامس نے ایک مہینہ کی رخصت لی اور الور چلے گئے۔ الور میں وہ کم وبیش ایک ماہ رہے۔ اور یہاں اپنے لیے ایسی جگہ بنالی کہ پھر ان کے خاندان کے متعدد لوگ الور میں ملازم رہے۔ اپنے سفر الور کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے: ’’بباعث قبول نہ کرنے تحصیل داری بڈھوانہ کے، نواب صاحب خیلے آزردہ خاطر ہو گئے۔چوں کہ ہم بھی ان کی عنایت پر ناز کرتے تھے لہٰذا ہم نے ایک ماہ کی رخصت سرکار سے لی اور ارادہ الور جانے کا کیا اور والد بزرگوار سے بھی اجازت حاصل کر لی۔‘‘

    طامس کا اپنا مستاجری کا کام تھا، اس کے سلسلے میں جھجر آنا رہتا تھا۔ ایسے ہی کسی سفر میں ایک مرتبہ جھجر آئے تو یہاں نواب صاحب نے ان کی منصرمی کے زمانے کا حساب مانگ لیا۔ لیکن طامس پہلے ہی حساب کر کے صافی نامہ لے چکے تھے اس لیے کوئی مسئلہ نہیں پیدا ہوا۔

    طامس نے ملازمت کی تلاش میں اپنی جدوجہد کا اپنی ڈائری میں تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ وہ نوکری کی تلاش میں کئی جگہ گئے، دہلی میں نواب اکبر علی خاں کے ذریعہ بھی کوشش کی لیکن انہیں ملازمت کی جگہ نئے نئے تجربات ہی ملتے رہے۔ آخر ایک مرتبہ مایوسی کے عالم میں لکھا کہ’’مگر ہمارے مقسوم آج کل کوئی روزگار نہیں۔‘‘

    کافی دن کی تلاش و جستجو اور بڑی تگ دو کے بعد بھی ان کو کوئی معقول روزگار نہ مل سکا آخر پھر جھجر میں ہی نوکری کرنی پڑی اور اس دفعہ وہی نوکری کرنی پڑی جس سے انکار کرکے مرحوم نواب صاحب کو پہلے ناراض کر چکے تھے یعنی بڈھوانہ کی تحصیل داری۔

    مارچ 1848ء کو اسی بڈھوانہ میں تحصیل داری کی نوکری کر لی۔ ڈائری میں لکھا ہے: ’’6 مارچ کو نواب صاحب نے ہم کو تحصیل دار بڈھوانہ کا کیا۔ شکر خدا کا بعد مدّت روزگار کی صورت نظر آئی۔‘‘

    طامس کے لیے یہ ملازمت کا فی مشکل ثابت ہوئی۔ آئے دن سازشیں اور الزامات کا سلسلہ تھا۔ ایک مرتبہ تو نواب صاحب خود تحقیقات کے لیے بڈھوانہ آئے۔ طامس کی گرفتاری کا بھی حکم دیا۔ باضابطہ فوجی پہرہ میں حساب ہوا۔ طامس کے بقول وہ اس میں بچ گئے لیکن ان پر24 ہزار روپیہ ہرجانہ عائد ہوا۔ اس واقعہ کے بعد 17 فروری 1851ء میں طامس نے اس ملازمت سے دوبارہ استعفیٰ دے دیا۔ نواب صاحب ان کا استعفیٰ منظور نہیں کر رہے تھے لیکن طامس صاحب دہلی آکر بیٹھ گئے۔ نواب صاحب کو مجبوراً ان کا استعفی قبول کر کے ان کو صافی نامہ دینا پڑا۔ اس وقت نواب صاحب کسی وجہ یا غالباً کسانوں کی بچول (دھرنا یا ہڑتال) کی وجہ سے دباؤ میں تھے۔ طامس نے اس کا فائدہ یہ اٹھایا کہ اپنے والد کے لیے تا حیات پنشن لکھوا لی۔

    15 جولائی 1852 کو طامس پھر جھجر میں ملازم ہوئے اور اس دفعہ باول کے تحصیل دار مقرر ہوئے۔ طامس کی ڈائری میں لکھا ہے کہ ’’شکر اس خالق اور رزّاق کا کہ آج مدّت کے بعد صورتِ روزگار نظر آئی۔ یعنی نواب صاحب نے ہم کو تحصیل دار پرگنہ باول کا کیا۔‘‘

    17 مئی 1854 میں طامس نے جھجر کی ملازمت ترک کر دی اور جے پور کے قریب کھیتڑی کے مختار ہو گئے۔ 1855 میں لارڈ لارنس نے ڈھائی سو روپیہ ماہوار پر انھیں گوپال گڑھ (علاقہ میوات) کا تحصیل دار مقرر کیا۔ 1862ء میں وہ ڈپٹی کلکٹر ہو گئے اور ان کا تبادلہ الور ہو گیا۔ پھر اسی عہدے پر بھرت پور پہنچے اور یہاں مہتمم مال گزاری میں صدر مقرر ہوئے، 400 روپیے تنخواہ مقرر ہوئی۔ 1874 میں ریٹائرڈ ہوئے اور میرٹھ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ وہیں 1891ء میں ان کی وفات ہو گئی۔

    طامس اردو کے بہترین نثر نگار تھے جس کا ثبوت ان کی ڈائری ہے۔ وہ اردو کے شاعر بھی تھے۔ نثار احمد فاروقی نے لکھا ہے کہ وہ عارف کے شاگرد تھے لیکن اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ البتہ ان کی ڈائری میں عارف سے ملاقات کا تذکرہ ہے۔ لکھا ہے: ’’22 اکتوبر 1847 کو سوار ہو کر دہلی آیا اور لالہ اجودھیا پرشاد کے مکان پر قیام کیا اور نواب زین العابدین خاں عارف سے ملاقات کی۔‘‘

    مرزا غالب سے بھی یقیناً تعلق تو رہا ہوگا چونکہ ان کے والد مرزا کے پرانے دوست تھے۔اور چھوٹے بھائی ان کے شاگرد بھی تھے اور باہم خط وکتابت بھی تھی اور یہ خود نواب زین العابدین خاں عارف سے ملنے بھی جاتے تھے جس کا ذکر ان کی ڈائری میں بھی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غالب کی ان سے زیادہ قربت نہیں تھی۔ اس لیے غالب نے یوسف مرزا کے نام ایک خط میں لکھا ہے۔

    ’’خدا کی قسم طامس ہڈرلی صاحب سے میری ملاقات نہیں ہے۔‘‘

    طامس ہڈرلی اردو کے نثر نگار ہونے کے ساتھ اردو کے شاعر بھی تھے۔ کسی تذکرہ نگار نے بطور شاعر ان کا ذکر نہیں کیا ہے۔ پروفیسر نثار احمد فاروقی نے ان کی ڈائری کے ساتھ ان کا ایک انتخاب کلام بھی شائع کیا ہے جو کسی انگریز نے کیا تھا لیکن ان کا نام درج نہیں ہے۔ ان کی شاعری کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے کہ ان کے کلام میں کوئی خاص خوبی نہیں ہے۔ اس کی اہمیت یہی ہے کہ وہ ایک اینگلو انڈین شاعر کا کلام ہے۔

    (محمد مشتاق تجاروی کے تحقیقی مضمون سے انتخاب)