Tag: خطوط نگاری

  • ‘سزا یافتہ’ ادیب کا بھائی کے نام لکھا گیا خط!

    ‘سزا یافتہ’ ادیب کا بھائی کے نام لکھا گیا خط!

    روس کے مایہ ناز ادیب دوستوفسکی کی سزائے موت کو جب چار سال قید میں تبدیل کردیا گیا اور اسے سائبیریا کے یخ بستہ میدانوں میں بھیج دیا گیا، تو وہاں جانے سے پہلے اس نے اپنے بھائی کو ایک خط لکھا جو اس کے جذبات اور شدّتِ احساس کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ قید کے دوران صرف لکھنے کی اجازت چاہتا تھا اور اس کی سب سے بڑی آرزو یہی تھی۔

    پیارے بھائی!
    میں بالکل افسردہ نہیں ہوں۔ میں نے غم کو اپنے پاس پھٹکنے تک نہیں دیا۔ زندگی ہر جگہ زندگی ہے، وہی ہے جو ہمارے اندر ہے نہ کہ وہ جو باہر ہے۔

    میرے ساتھ اور بھی بہت لوگ ہوں گے۔ عوام کے درمیان معمولی انسان کی حیثیت میں رہنا، ہمیشہ اسی طرح زندگی بسر کرنا اور مصائب کی پروا نہ کرنا…. یہ ہے زندگی۔ یہی زندگی کا اصلی مقصد۔ میں اس چیز کو بخوبی سمجھ چکا ہوں۔ یہ خیال میرے گوشت پوست، رگ رگ اور نخ نخ میں سرایت کر گیا ہے اور یہ بالکل صداقت پر مبنی ہے۔

    وہ سَر، جو خیالات و افکار کی تخلیق کرتا تھا، وہ سَر، جو آرٹ کی بلندیوں میں اپنا آشیانہ بنائے تھا اور جو روح کی بلند ترین ضروریات سے آگاہ اور ان کا عادی تھا۔ وہ سَر، اب میرے شانوں سے علیحدہ ہوچکا ہے۔

    وہاں ان تخیلات کے دھندلے نقوش باقی رہ گئے ہیں، جو میں ابھی صفحۂ قرطاس پر منتقل نہیں کر سکا۔ یہ افکار ذہنی عذاب کا باعث ضرور ہوں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میرے دل میں ابھی تک وہ خون اور گوشت موجود ہے جو محبّت بھی کر سکتا ہے، مصیبت بھی جھیل سکتا ہے، جو خواہش بھی کرسکتا ہے اور آخر یہی تو زندگی ہے۔

    اگر کوئی شخص میرے متعلق اپنے دل میں کدورت رکھتا ہے، میں نے کسی سے جھگڑا کیا ہے یا میں نے کسی کے دل پر برا اثر چھوڑا ہے تو اس سے ملو اور میری طرف سے التجا کرو کہ وہ مجھے معاف کر دے۔ میرے دل میں ذرّہ بھر میل نہیں ہے۔

    اس وقت میری یہی خواہش ہے کہ میں اپنے احباب میں سے کسی کے گلے ملوں۔اس سے دل کو اطمینان ہوتا ہے۔

    میرا خیال تھا کہ میری موت کی خبر تمہیں ہلاک کر دے گی لیکن اب تمہیں کوئی فکر نہیں کرنا چاہیے، میں زندہ ہوں اور اس وقت تک زندہ رہوں گا، جب ہم دونوں دوبارہ بغل گیر ہوں گے۔

    ماضی کی طرف رخ پھیر کر دیکھتا ہوں کہ بہت فضول وقت ضائع ہوا ہے۔ بیشتر ایّام خوابوں، غلط کاریوں اور بیکار مشاغل میں گزرے ہیں۔ میں نے کئی بار ضمیر کے خلاف کام کیا ہے۔ یقین مانو میرا دل خون روتا ہے۔

    زندگی نعمت ہے، زندگی مسرت ہے۔ ہر وہ لمحہ جو ضائع ہوچکا ہے شادمان عرصۂ زندگی ہونا چاہیے تھا۔ اب کہ میں اپنی زندگی بدل رہا ہوں، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری روح نئے قالب میں داخل ہو رہی ہے۔ لیکن کیا یہ صحیح ہے کہ میرے ہاتھ قلم کو ترستے رہیں گے۔ میرا خیال ہے کہ چار سال کے بعد مجھے قلم پکڑنا نصیب ہوگا۔

    اے کاش! مجھے صرف لکھنے کی اجازت دی جائے۔ کتنے افکار کتنے خیالات جو میں نے تخلیق کیے تھے، تباہ ہو جائیں گے، میرے ذہن کی یہ چنگاریاں یا تو بجھ جائیں گی یا میری رگوں میں ایک آتشیں زہر بن کر حلول کر جائیں گی۔

    (مترجم: سعادت حسن منٹو)

  • زنگ آلود تالا اور بے وفائی کا گلہ

    زنگ آلود تالا اور بے وفائی کا گلہ

    مشاہیرِ ادب کے خطوط کی فہرست طویل ہے جو ہمارے لیے یادوں کا خزانہ اور علم و ادب کے اعتبار سے بہت مستند حوالہ ہی نہیں بلکہ معلومات کا خزانہ ہیں۔ یہاں ہم پاکستان کے ممتاز ادیب، شاعر اور نقّاد ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک خط نقل کررہے ہیں جو انھوں نے معروف شاعر اور مصنّف ڈاکٹر خورشید رضوی کے نام تحریر کیا تھا۔

    برادرم خورشید رضوی صاحب
    السلام علیکم!

    خط ملا، بے حد ممنون ہوں۔ آپ سے ملے تو جیسے صدیاں گزر گئیں۔ اس دوران میں کم از کم تین بار صرف آپ سے ملنے کے لیے گورنمنٹ کالج گیا، لیکن آپ کے کمرے کے باہر ایک اتنا بڑا زنگ آلود تالا پڑا دیکھا۔ نہ جانے یہ تالا آپ نے کہاں سے لیا ہے۔ خاصا مضبوط لگتا ہے مگر آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اسے دیکھ کر آپ کے دوستوں کے دل پر کیا گزرتی ہے۔

    خدارا اس ڈینو سار سے پیچھا چھڑائیں اور دروازے پر کوئی نرم و نازک جندری آویزاں کریں جس کی کلائی پروفیسر غلام جیلانی اصغر باآسانی مروڑ سکیں۔ اس کا فائدہ کم از کم یہ ضرور ہو گا کہ آپ کے دوست آپ کی عدم موجودگی میں کمرے کے اندر جا کر آپ کی خوشبو سے معانقہ کر سکیں گے۔

    غلام جیلانی اصغر اور میرا یہ تاثر ہے کہ ہمارے دوستوں میں سے رشید قیصرانی، جمیل یوسف اور نصف درجن دوسرے دوستوں کو چھوڑ کر، آپ سب سے زیادہ ”بے وفا“ ہیں کہ کبھی ملنے کی کوشش نہیں کرتے۔

    آپ نے صوفی محمد ضیاء الحق صاحب کا پوچھا ہے تو میری یادداشت نے ایک زقند بھری ہے اور میری نظروں کے سامنے وہ زمانہ آ گیا ہے جب میں گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج جھنگ کا طالب علم تھا اور صوفی محمد ضیاء الحق ہمیں پڑھاتے تھے۔ غالباً رومی ٹوپی پہنتے تھے۔ دبلے پتلے، مرنجاں مرنج، مجسم شرافت تھے۔ دھیمی آواز میں بولتے مگر ان کا ہر لفظ شفقت اور محبت سے لبریز ہوتا۔

    اس زمانے کے ایک اور استاد بھی مجھے یاد ہیں۔ ان کا نام خواجہ معراج الدین تھا۔ بڑے دبنگ آدمی تھے۔ مسلمان طلبہ کے لیے کالج کی سطح پر جنگیں لڑتے تھے جب کہ صوفی ضیاءالحق کسی بکھیڑے میں نہیں پڑے تھے۔ اپنے کمرے میں بیٹھے سب طلبہ کے لیے جیسے ایک چشمے کی طرح رواں دواں رہتے۔

    میں عربی کا طالبِ علم نہیں تھا۔ فارسی پڑھتا تھا جو خواجہ معراج الدین ہمیں پڑھاتے تھے۔ البتہ میں نے اُردو اختیاری لے رکھا تھا اور یہ ہمیں صوفی صاحب پڑھاتے تھے۔ اب میں کیا عرض کروں، اُردو کے ثقیل سے ثقیل الفاظ بھی ان کے ہونٹوں سے چھوتے ہی سبک بار اور شیریں ہو جاتے۔ میں کالج میگزین کا ایڈیٹر تھا اور اُردو میں تقریریں کرنے کا بھی مجھے شوق تھا، لہٰذا مجھ پر بہت مہربان تھے۔ یوں تو دو سال جو میں نے کالج میں گزارے ضیاء صاحب سے اکتسابِ نور میں بسر ہوئے مگر مجھے ان کا ایک جملہ آج تک نہیں بھولا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس جملے کا میری آئندہ ادبی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے۔

    بعض اوقات ایک معمولی سا اشارہ سائکی کے اندر جا کر ایک بیج کی طرح جڑیں پکڑ لیتا ہے۔ پھر جب حالات سازگار ہوں تو ایک انکھوے کی طرح پھوٹ نکلتا ہے۔ یہی قصہ اس جملے کا ہے۔ ایک روز باتوں باتوں میں مجھ سے کہنے لگے۔ دیکھو وزیر علی! (ان دنوں میں وزیر علی خان تھا) مجھے یقین ہے ایک دن تم کتابیں لکھو گے۔ یاد رکھو! کتاب سے بڑی اور کوئی شے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی کتاب ہی کے ذریعے اپنی مخلوق سے رابطہ قائم کیا تھا۔ بس ان کا یہ، جملہ ایک اشارہ یا suggestion بن کر میرے اندر اتر گیا اور پھر اس کے جو نتائج (اچھے یا برے) نکلے وہ آپ کے سامنے ہیں۔

    خدا کرے آپ بخیر و عافیت ہوں، کبھی سرگودھا آنے کا بھی سوچیے۔

    والسلام
    آپ کا، وزیر آغا
    3 فروری 1993

  • برما کے بادشاہ کا شاہِ انگلستان کے نام خط جسے گولڈن لیٹر کہا جاتا ہے

    برما کے بادشاہ کا شاہِ انگلستان کے نام خط جسے گولڈن لیٹر کہا جاتا ہے

    برطانیہ سے آزادی کی تحریکیں جب برصغیر میں چلیں تو پاکستان اور بھارت کی طرح برما بھی آزاد ہوا۔

    اس سے قبل یہاں بادشاہت قائم تھی اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں‌ الونگ پھیہ (Alaungphaya) اس زمانے میں‌ میانمار (برما) کا حکم ران تھا جسے سلطنت کے تین عظیم بادشاہوں میں‌ سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ آج بھی اس بادشاہ کے مجسمے اور مختلف یادگاریں‌ برما میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

    جب برما کے شاہی خاندانوں کا ذکر ہوتا ہے اور الونگ پھیہ کے عہد کی بات ہوتی ہے تو ہمیں‌ ایک ایسے نادر و اعجوبہ خط کے بارے میں‌ بھی معلوم ہوتا ہے جسے گولڈن لیٹر کے نام سے یاد رکھا گیا ہے۔ یہ خط سابق برمی شاہی حکم ران الونگ پھیہ نے انگلستان کے بادشاہ جارج ثانی کے لیے لکھا تھا۔

    یہ خط خالص سونے کی ایک شیٹ پر مشتمل ہے جس پر زیبائش کی غرض سے قیمتی پتّھر لعل یا روبی جڑے گئے ہیں۔ خالص سونے کی شیٹ پر یہ پیغام (خط) 1756ء عیسوی میں انگلستان کے شاہی دربار کو بھیجا گیا تھا۔

    یہ خط پچھلے ڈھائی سو سال سے جرمنی کے شہر ہینوور کی لائبنس لائبریری میں ایک صندوق میں محفوظ ہے۔ یونیسکو کی جانب سے اس خط (گولڈن لیٹر) 2015ء میں دنیا کی ایک یادگار قرار دیا گیا تھا۔ تاہم اس کے مندرجات محققین کے لیے چیلنج رہے ہیں۔

    سونے کے اس قیمتی شاہی خط کو ماہرین اور محققین نے دیکھنے اور تحریر کو سمجھنے کی کوشش کے بعد بتایا کہ برمی بادشاہ نے انگلستان کو اس خط کے ذریعے دونوں ممالک کے مابین تجارت بڑھانے اور اس حوالے سے تعاون کی تجویز دی تھی۔ یہ خط تہ لگا کر یا موڑ کر نہیں بلکہ اس طرح سیدھا رکھا گیا تھا کہ اس کی شکل، سجاوٹ اور تحریر خراب نہ ہو اور اسے باآسانی پڑھا جاسکے۔

    گولڈن لیٹر سونے کی تقریباً پونے دو فٹ لمبی اور پونے پانچ انچ چوڑی شیٹ پر محیط ہے۔ برمی بادشاہ کے اس خط پر دو درجن قیمتی پتّھر لگے ہوئے تھے۔ مؤرخین کے مطابق شاہِ برطانیہ نے اس خط کو شاہی لائبریری میں خوب صورت یادگار کے طور پر محفوظ کروا دیا۔ اس زمانے میں شاہی لائبریری شمالی جرمنی کے شہر ہینوور میں قائم تھی جب کہ بادشاہ کی ایک رہائش گاہ بھی اسی شہر میں ہوا کرتی تھی۔

    ریاستوں کے مابین جنگوں اور دشمن افواج حملوں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ تاریخی نوعیت کے اہم مقامات اور مراکز، قیمتی نوادرات، شاہی یادگاروں وغیرہ کو نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے اور لوٹ مار کی جاتی تھی۔ اسی طرح ڈنمارک کے بادشاہ نے 1768ء میں لشکر کشی کے دوران اس خط کو کھوکھلے ہاتھی دانت کے اندر موڑ کر رکھوا دیا تھا۔ اس طرح سونے کی یہ شیٹ اور اس پر لکھے ہوئے حروف خراب ہوگئے جنھیں بعد میں پڑھنا مشکل ہو گیا تھا۔

  • شریف گھرانے کی ایشیائی لڑکی کا ‘غیر مرد’ کو لکھا گیا ایک خط!

    شریف گھرانے کی ایشیائی لڑکی کا ‘غیر مرد’ کو لکھا گیا ایک خط!

    جناب بھائی صاحب!
    آپ کا خط ملا۔ میں آپ کو ہر گز خط نہ لکھتی، لیکن پھر خیال آیا کہ آپ کی بہن میری سہیلی ہیں اور کہیں وہ برا نہ مان جائیں۔

    وہم و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا کہ کبھی کسی غیر مرد کو خط بھیجوں گی۔ امید کرتی ہوں کہ آئندہ لکھتے وقت اس بات کا خیال رکھیں گے کہ آپ ایک شریف گھرانے کی ایشیائی لڑکی سے مخاطب ہیں۔ احتیاطاً تحریر ہے کہ میرا آپ کو خط لکھنا اس امر کا شاہد ہے کہ ہم لوگ کس قدر وسیع خیالات کے ہیں۔

    مجھے بتایا گیا تھا کہ آپ رشیدہ اور حمیدہ کو جانتے ہیں۔ کلثوم اور رفعت سے بھی واقفیت رہ چکی ہے۔ ثریا اور اختر کو خط لکھا کرتے تھے۔ آپ کو کلب میں‌ ناچتے بھی دیکھا گیا ہے اور ایک شام کو آپ چمکیلی سی پیلے رنگ کی چیز چھوٹے سے گلاس میں پی رہے تھے اور خوب قہقہے لگا رہے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم ماڈرن نہیں ہیں۔ ہمیں یہ ہوا نہیں لگی۔ نہ اس روش پر چلنے کا ارادہ ہے۔ ہمارے ہاں جہاں مذہب، شرافت اور خاندانی روایات کا خیال ملحوظ ہے وہاں اعلیٰ تربیت اور بلند خیالی بھی ہے۔

    میں بی اے (آنرز) میں پڑھتی ہوں۔ شام کو مولوی صاحب بھی پڑھانے آتے ہیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ آپ نے مجھے تانگے میں کالج سے نکلتے دیکھا تھا اور میں نے برقعے کا نقاب الٹ رکھا تھا۔ آپ نے کسی اور کو دیکھ لیا ہو گا۔ اوّل تو میں ہمیشہ کالج کار میں جاتی ہوں، دوسرے یہ کہ میں نقاب نہیں الٹا کرتی۔ ہمیشہ برقعہ میرے ہاتھوں میں کتابوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔

    جی ہاں مجھے ٹھوس مطالعے کا شوق ہے۔ ابّا جان کی لائبریری میں فرائیڈ، مارکس، گراؤچو مارکس، ڈکنز، آگاتھا کرسٹی، پیٹر چینی، تھورن اسمتھ اور دیگر مشہور مفکروں کی کتابیں موجود ہیں۔ میں نے سائیکا لوجی پڑھنا شروع کی تو یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہ سب کچھ تو مجھے پہلے سے معلوم ہے۔ فلاسفی پڑھی تو محسوس ہوا جیسے یہ سب درست ہے۔ سوشل سائنس پڑھی تو لگا کہ واقعی یونہی ہونا چاہیے تھا۔ آخر ہمیں ایک نہ ایک روز تو جدید تہذیب کے دائرے میں آنا تھا۔ زمانے کو بیسویں صدی تک بھی تو پہنچنا ہی تھا۔ میرے خیال میں میں کافی مطالعہ کر چکی ہوں۔ چنانچہ آج کل زیادہ نہیں پڑھتی۔

    آپ نے پوچھا ہے کہ موجودہ ادیبوں میں سے مجھے کون پسند ہیں۔ سو ڈپٹی نذیر احمد، مولانا راشد الخیری اور پنڈت رتن ناتھ سرشار میرے محبوب مصنفین ہیں۔ شاعروں میں نظیر اکبر آبادی مرغوب ہیں۔ خواتین میں ایک صاحبہ بہت پسند ہیں۔ انہوں نے صرف دو ناول لکھے ہیں جن میں جدید اور قدیم زیورات و پارچہ جات، بیاہ شادی کی ساری رسوم اور طرح طرح کے کھانوں کے ذکر کو اس خوبصورتی سے سمو دیا ہے کہ یہ پتہ چلانا مشکل ہے کہ ناول کہاں ہے اور یہ چیزیں کہاں؟

    ایک اور خاتون ہیں، جو باوجود ماڈرن ہونے کے ترقی پسند نہیں ہیں۔ ان کے افسانے، ان کی امنگیں، ان کی دنیا، سب کچھ صرف اپنے گھر کی فضا اور اپنے خاوند تک محدود ہے۔ مبارک ہیں ایسی ہستیاں۔ ان کی تصویریں دیکھ دیکھ کر ان سے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا۔ پھر پتہ چلا کہ ان کا رنگ مشکی ہے اور عینک لگاتی ہیں۔

    آپ کی جن کزن کا کہنا ہے کہ انہوں نے مجھے کلب میں دیکھا تھا ذرا ان سے پوچھیے کہ وہ خود وہاں کیا کر رہی تھیں۔

    یہ جن حمید صاحب کا آپ نے ذکر کیا ہے، وہی تو نہیں جو گورے سے ہیں۔ جن کے بال گھنگھریالے ہیں اور داہنے ابرو پر چھوٹا سا تل ہے۔ گاتے اچھا ہیں۔ روٹھتے بہت جلد ہیں۔ جی نہیں۔ میں انہیں نہیں جانتی۔ نہ کبھی ان سے ملی ہوں۔

    میری حقیر رائے میں آپ نے آرٹس پڑھ کر بڑا وقت ضائع کیا ہے۔ آپ کی بہن نے لکھا ہے کہ اب آپ کا ارادہ بزنس کرنے کا ہے۔ اگر یہی ارادہ تھا تو پھر پڑھنے کی کیا ضرورت تھی۔ عمر میں گنجائش ہو تو ضرور کسی مقابلے کے امتحان میں بیٹھ جائیے اور ملازمت کی کوشش کیجیے کیونکہ ملازمت ہر صورت میں بہتر ہے۔ اس کے بغیر نہ پوزیشن ہے نہ مستقبل۔ یہاں ڈپٹی کمشنر کی بیوی ساری زنانہ انجمنوں کی سیکرٹری ہیں اور تقریباً ہر زنانہ جلسے کی صدارت وہی کرتی ہیں۔ دوسرا فائدہ ملازمت کا یہ ہے کہ انگلستان یا امریکہ جانے کے بڑے موقعے ملتے ہیں۔ مجھے دونوں ملک دیکھنے کا ازحد شوق ہے۔

    آپ نے موسیقی کا ذکر کیا ہے اور مختلف راگ راگنیوں کے متعلق میری رائے پوچھی ہے۔ جی ہاں مجھے تھوڑا بہت شوق ہے۔ جے جے ونتی سے آپ کو زیادہ دل چسپی نہیں۔ آپ کو تعجب ہو گا کہ جب دلی سے بٹھنڈہ آتے وقت میں نے جے جے ونتی اسٹیشن دیکھا تو مجھے بھی پسند نہیں آیا۔ میاں کی ملہار سے آپ کی مراد غالباً خاوند کی ملہار ہے۔ جی نہیں میں نے یہ نہیں سنی۔ ویسے ایک خاندان کے افراد بھی میاں کہلاتے ہیں۔ شاید یہ ان کی ملہار ہو۔ آپ کا فرمان ہے کہ ٹوڈی صبح کی چیز ہے لیکن میں نے لوگوں کو صبح شام ہر وقت” ٹوڈی بچہ ہائے ہائے” کے نعرے لگاتے سنا ہے۔

    بھوپالی کے متعلق میں زیادہ عرض نہیں کر سکتی، کیونکہ مجھے بھوپال جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ البتہ جوگ اور بہاگ کے بارے میں اتنا جانتی ہوں کہ جب یہ ملتے ہیں تو سوزِ عشق جاگ اٹھتا ہے (ملاحظہ ہو وہ گرامو فون ریکارڈ "جاگ سوزِ عشق جاگ)

    جی ہاں، مجھے فنونِ لطیفہ سے بھی دل چسپی ہے۔ مصوّری، بت تراشی، موسیقی، فوٹو گرافی اور کروشیے کی بہت سی کتابیں ابّا جان کی لائبریری میں رکھی ہیں۔ میں اچھی فلمیں کبھی نہیں چھوڑتی۔ ریڈیو پر اچھا موسیقی کا پروگرام ہو تو ضرور سنتی ہو، خصوصاً دوپہر کے کھانے پر۔

    سیاست پر جو کچھ آپ کے لکھا ہے اس کے متعلق اپنی رائے اگلے خط میں لکھوں گی۔

    آپ کی بہن مجھ سے خفا ہے اور خط نہیں لکھتی۔ شکایت تو الٹی مجھے ان سے ہونی چاہیے۔ انہوں نے رفی کو وہ بات بتا دی جو میں نے انہیں بتائی تھی کہ اسے نہ بتانا۔ خیر بتانے میں تو اتنا حرج نہ تھا لیکن میں نے ان سے تاکیداً کہا تھا کہ اس سے نہ کہنا کہ میں نے ان سے کہا تھا کہ اس سے نہ کہنا۔

    پتہ نہیں یہ کزن والی کون سی بات ہے جس پر انہوں نے مجھ سے قسم لی تھی کہ رفی تک نہ پہنچے۔ مجھے تو یاد نہیں۔ ویسے میری عادت نہیں کہ دانستہ طور پر کوئی بات کسی اور کو بتاؤں۔ اگر بھولے میں منہ سے نکل جائے تو اور بات ہے۔

    خط گھر کے بجائے کالج کے پتے پر بھیجا کیجیے اور اپنے نام کی جگہ کوئی فرضی نام لکھا کیجیے تاکہ یوں معلوم ہو جیسے کوئی سہیلی مجھے خط لکھ رہی ہے۔

    باقی سب خیریت ہے۔

    فقط
    آپ کی بہن کی سہیلی​
    (اور اس خط کا ذکر کسی سے بھی مت کیجیے۔ تاکیداً عرض ہے)

    (معروف مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کے قلم کی شوخی)

  • زبان آزادی نہیں‌ پابندی چاہتی ہے!

    زبان آزادی نہیں‌ پابندی چاہتی ہے!

    ہر شخص کو اپنی زبان پیاری ہوتی ہے۔ ادیبوں اور شاعروں کو اور بھی زیادہ۔ کیوں کہ زبان کا بنانا سنوارنا اور اسے ترقّی دینا انہیں کا کام ہوتا ہے۔

    اسے سیکھنے اور سلیقے سے برتنے کے لیے انہیں سیکڑوں معیاری کتابوں کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ پھر انہیں مشق و مزاولت کے ہفت خواں طے کرنے پڑتے ہیں۔ اس پر بھی برسوں کے بعد ان کی نثر یا نظم میں چٹخارہ پیدا ہوتا ہے۔

    امیرؔ اک مصرعۂ تربت کہیں صورت دکھاتا ہے
    بدن میں خشک جب ہوتا ہے شاعر کے لہو برسوں

    زبان کا معاملہ آزادی کا نہیں پابندی کا ہے۔ ادیبوں کا ایک ایک لفظ زبان و بیان کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے کیوں کہ ادیب سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نفیس اور قابلِ تقلید نثر لکھے لگا۔ ہر ادیب کی امکانی کوشش یہی ہونی چاہیے۔ تو اس کا دعویٰ کوئی نہیں کر سکتا کہ وہ بے عیب نثر لکھتا ہے، یا اس سے کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ ہمارے سامنے رہ نمائی اور تقلید کے لیے اسلاف کے اعلیٰ نمونے ہیں۔

    دلّی اور لکھنؤ کے نمونے بڑی حد تک مثالی سمجھے جاتے ہیں۔ کنگز انگلش کے بعد آکسفورڈ اور کیمبرج کی انگریزی مثالی تصور کی جاتی ہے۔ اب دلّی اور لکھنؤ مرکز نہیں رہے تو لاہور اور کراچی مرکز بن گئے ہیں اور لاہور تو ایک صدی سے اردو کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کراچی قیامِ پاکستان کے بعد بن رہا ہے، کیوں کہ دلّی اور لکھنؤ کی بیشتر آبادی کراچی میں منتقل ہو گئی ہے اور اب اس 22 لاکھ آبادی کے شہر میں اردو کے مقتدر ادارے بھی قائم ہو چکے ہیں۔

    (اردو کے حال اور مستقبل سے متعلق صاحب اسلوب ادیب، تذکرہ و خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے خیالات، جن کا اظہار انھوں نے اپنے ایک ہم عصر کو لکھے گئے خط میں‌ کیا تھا)

  • ٹریفک حادثے میں‌ جاں‌ بحق ہونے والی شاعرہ کے والد کے نام خطوط

    ٹریفک حادثے میں‌ جاں‌ بحق ہونے والی شاعرہ کے والد کے نام خطوط

    فروغ فرخ زاد کا فن ہی نہیں ان کی زندگی بھی روایت اور کسی بھی معاشرے کی اس ڈگر سے ہٹ کر بسر ہوئی جس پر چلنے والے کو "باغی” کہا جاتا ہے۔

    1934ء میں‌ ایران کے قدیم و مشہور شہر تہران میں آنکھ کھولنے والی فروغ فرخ زاد نے شاعرہ اور فلم ساز کی حیثیت سے شہرت پائی۔ ان کے والد فوج میں کرنل تھے۔ سولہ سال کی عمر میں‌ انھوں‌ نے شادی کی جو ناکام ثابت ہوئی۔

    فروغ فرخ زاد کے فارسی زبان میں‌ شعری مجموعے خاصے مقبول ہوئے۔ ان کی نظم "ہمیں سرد موسم کی ابتدا پر یقین کرنے دو” کو فارسی کی منفرد نظم کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری کا انگریزی زبان میں‌ بھی ترجمہ ہوا۔

    وہ فلم ساز اور ہدایت کار بھی تھیں۔ ان کی ایک دستاویزی فلم "گھر سیاہ ہے” بہت مشہور ہوئی۔

    فروغ فرخ زاد 32 سال کی تھیں‌ جب کار میں دورانِ سفر ایک اسکول بس کو حادثے سے بچاتے ہوئے شدید زخمی ہوگئیں اور اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا۔ موت کے بعد ان کے خطوط کا ایک مجموعہ شائع ہوا جس میں‌ والد کے نام ان کے چند نامے لائقِ مطالعہ ہیں۔ شائستہ خانم نے فارسی سے ان خطوط کا اردو ترجمہ کیا ہے، جن میں‌ سے چند سطور قارئین کی نذر ہیں۔ یہ اقتباسات ان کی ذہنی کشمکش اور کرب کو عیاں کرتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں:

    "مجھے آپ چھوڑ دیں، دوسروں کی نظر میں مجھے بدنصیب اور پریشان حال رہنے دیں۔میں زندگی سے گلہ نہیں کروں گی۔ مجھے خدا اور اپنے بچّے کی قسم! میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں، آپ کے بارے میں سوچتی ہوں تو آنسو نکل آتے ہیں۔

    کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ خدا نے مجھے اس طرح کیوں پیدا کیا ہے۔ اور شاعری نامی شیطان کو میرے وجود میں کیوں زندہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے میں آپ کی خوشی اور محبت حاصل نہیں کر پائی لیکن میرا قصور نہیں ہے۔ میرے اندر ایک عام زندگی گزارنے اور برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، جیسے لاکھوں دوسرے لوگ گزارتے ہیں۔”

    ایک اور خط میں‌ انھوں‌ نے والد کو لکھا:

    "آپ سوچیے کہ میں بری لڑکی نہیں ہوں اور جان لیجیے کہ آپ سے محبّت کرتی ہوں۔ میں ہمیشہ آپ کی خیریت سے آگاہ رہتی تھی۔ اور میں ایسی ہوں کہ محبّت اور تعلق خاطر کو ظاہر نہیں کرتی جو کچھ ہوتا ہے اپنے دل میں رکھتی ہوں۔ آپ میرے لیے ہر مہینے کچھ رقم بھیجتے ہیں، اس کے لیے میں بہت ممنون ہوں۔ میں آپ پر بوجھ بننا نہیں چاہتی لیکن کیا کرسکتی ہوں، میری زندگی بہت سخت تھی، لیکن ایک دو ماہ مزید میں یہاں ہوں کہ مجھے کام مل جائے، پھر شاید مجھے ضرورت نہ ہو۔

    جب میں تہران آؤں گی تو مال دار ہوں گی اور آپ کا قرض واپس کر دوں گی۔ اگر آپ مجھے جواب دیں گے تو مجھے بہت خوشی ہوگی، جیسے دن میں اب گزار رہی ہوں، بہت سخت اور درد ناک ہیں اور قبر میں سوئے ہوئے آدمی کی طرح اکیلی ہوں۔

    مٹّھی بھر تلخ اور عذاب ناک سوچیں ہیں اور ایک مٹّھی بھر غصہ جو کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔ اب میں کوئی ایسا کام بھی نہیں کرسکتی جس سے آپ کو راضی کرسکوں، لیکن شاید ایک دن آئے کہ آپ بھی مجھے حق دیں اور دوبارہ مجھ پر ناراض نہ ہوں اور مجھ پر دوسرے بچّوں کی طرح مہربان ہو جائیں۔”

  • نواب حسن علی خاں امیرؔ کو منانے کے لیے لکھا گیا ایک خط

    نواب حسن علی خاں امیرؔ کو منانے کے لیے لکھا گیا ایک خط

    اردو ادب میں مکتوب نگاری کو ایک موضوع کے طور پر خاص اہمیت دی گئی ہے اور اپنے زمانے کے مشاہیر اور نابغہ روزگار شخصیات کے درمیان رابطے کی اس تحریری شکل کو باقاعدہ موضوع بنایا گیا ہے۔ اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کے خطوط کو سرفہرست رکھتے ہوئے ان کی زبان، روز مرّہ کے الفاظ کا بے تکلّف استعمال اور مکتوب نگاری کی دیگر خصوصیات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اسی طرح اردو کے استاد شاعر مرزا داغ دہلوی کے خطوط بھی مشہور ہیں۔

    داغ کے خطوط میں بھی ان کی زندگی سے متعلق بے شمار واقعات، حادثات، خواہشات، مختلف درباروں سے ان کی وابستگی، ان کے معاشقوں کا تذکرہ، عزیز شاگردوں کا احوال، اردو زبان و بیان اور شاعری کے بارے میں‌ کئی باتیں‌ پڑھنے اور سیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہاں‌ ہم ان کے ایک ایسے ہی خط کو موضوع بنارہے ہیں‌ جس میں‌ انھوں نے اپنے ایک رفیق سے پیدا ہونے والی کسی رنجش یا غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

    نواب حسن علی خاں امیرؔ، حیدر آباد (دکن) کے شرفا میں شمار ہوتے ہیں اور جب داغ ؔ حیدر آباد پہنچے تو امیر بڑے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کہنے کو داغ کے شاگرد تھے، لیکن شاگردی سے زیادہ دوستی و محبّت کا رشتہ رہا۔

    آخری وقت تک خانگی معاملات میں بھی خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے داغ کے ساتھ رہے۔ 1902ء کے شروع میں کسی وجہ سے امیر ؔ نے داغ سے ناراض ہوکر ان کے یہاں آنا جانا بند کردیا تو دیکھیں کہ داغ ؔ نے کن الفاظ میں انھیں مدعو کیا۔

    نواب صاحب!
    صاحب عالم بہادر کہتے ہیں کہ کل صبح پتنگوں کے پیچ ہیں۔ بغیر نواب صاحب کی تشریف آوری کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ مجھ کو خبر نہیں تھی کہ پیچ تو وہاں لڑیں گے اور دلوں میں پیچ مجھ سے پڑیں گے، مردِ خدا! یہ کیا بات ہے آپ نے یک لخت ملاقات کم کر کے کیوں ترک کردی۔

    میں نے کوئی بات بغیر آپ کے مشورے کے نہیں کی، مصلحتِ وقت نہیں چھوڑی جاتی، آپ کو حسبِ معمول روز آنا چاہیے۔ ماحضر یہیں تناول فرمانا چاہیے اور اگر یہاں کھانا کھانا گوارا نہیں تو بہتر ہے نہ کھائیے۔ مجھ کو بھی نہ کھلائیے، آئیے، آئیے تشریف لائیے۔

    داغ 25، جنوری 1902ء (شب)

    اس کے باوجود نواب امیر کے نہ آنے پر اپنے ذاتی رشتے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے ہی خط میں لکھتے ہیں۔

    نواب صاحب آپ تو بیٹھے بٹھائے کلیجے میں نشتر چبھو دیتے ہیں۔ یہ فقرہ کیوں کر دل دوز اور جگر فگار نہ ہو کہ اب مجھے روز کی حاضری سے معاف فرمایا جائے۔ مجھ سے جو کچھ ہوا دانستہ نہیں ہوا۔ حجاب (داغ دہلوی کی ایک محبوبہ) جیسی ہزار ہوں تو تمہارے خلوص، تمہاری محبّت پر نثار۔ تم سے کیا پردہ ہے، اور تم سے کیا چھپا ہے۔

    (ڈاکٹر محمد کاظم، دہلی کے ایک مضمون سے خوشہ چینی)

  • میرا جی کے نام لندن سے آیا ایک خط!

    میرا جی کے نام لندن سے آیا ایک خط!

    لندن،
    14 ستمبر 1987ء

    میرا جی صاحب!

    کلیات حاضر ہے، فرمائیے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کلیات کے بہانے آپ کے دوست ایک پرانا قرض اُتار رہے ہیں۔بات قرض چکانے کی نہیں فرض ادا کرنے کی ہے۔ اب اگر آپ کا کلام یکجا نہ کیا جاتا تو اردو ادب کی تاریخ میں کتنا بڑا خلا رہ جاتا۔ ویسے یہ کام آپ کے دوستوں نے نہیں، جمیل جالبی صاحب نے کیا ہے اور وہ بھی اُن دنوں میں جب آپ شیخ الجامعہ کراچی کے منصب سے نبرد آزما تھے، اور چشمِ حسد تنگ ہی نہیں تاریک ہو رہی تھی۔

    آپ کی شاید جالبی صاحب سے ملاقات نہیں تھی مگر آپ انہیں شاہد احمد دہلوی کے رشتہ سے پہچان لیں گے۔ دونوں میں بڑی دوستی تھی اور یہ دوستی پاکستان میں اردو ادب کی ترقی کا باعث بنی۔ جالبی صاحب، صاحبِ علم اور صاحبِ قلم ہیں۔ انہوں نے اردو تنقید کو جس اعلیٰ مقام تک پہنچایا ہے اس کی نظیر ان کی تصانیف ہیں۔ اس افراتفری اور نفسا نفسی کے زمانے میں اُن سا منکسرالمزاج اور دُھن کا پکا انسان مشکل سے ملتا ہے۔ بڑی کاوش سے انہوں نے آپ کا کلام اکٹھا کیا ہے اور پھر اسے ترتیب دے کر اس کی کتابت، طباعت اور اشاعت کے سارے مرحلے بھی بڑے عزم اور خندہ پیشانی سے طے کیے ہیں۔ آپ کے دوست اور اردو ادب سے لگاؤ رکھنے والے سب ان کے احسان مند ہیں۔

    آپ آئے اور چلے گئے، مگر دوستی (بلکہ یاری) کا ایک ایسا نقش چھوڑ گئے کہ آج تک دوست کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ اکیلے میں، محفل میں، چلتے پھرتے آپ سے باتیں ہوتی رہتی ہیں اور کبھی کبھار تو بحث بھی ہو جاتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا میں نے ایک دفعہ پوچھا تھا۔

    ”کبھی دیکھا کہ گورستان سے کوئی کفن پہنے ہوئے نکلا، انہی گلیوں، انہی کوچوں میں آیا۔“

    آپ دیر تک میری طرف دیکھتے رہے اور وہ لمحہ جب آپ ریل گاڑی کے ڈبے سے لگے گا رہے تھے۔

    ”لاگ اساڑھ چلی پُرویّا سارس دوڑ لگائے۔“ آج بھی ذہن کے آئینہ خانے میں جگمگانے لگتا ہے۔ شاید وہ لمحہ توجہ کا تھا۔

    کوئی درویش جو بال بڑھائے، ہاتھوں میں گولے اور گلے میں مالا سجائے سچ کی تلاش میں اس نگری میں آنکلا (اور کچھ دیر کے لیے گھر کا رستہ بھول گیا) اور جب اُس نے دیکھا کہ یہاں تو جھوٹ ہر لمحہ جواں رہتا ہے تو وہ جہاں سے آیا تھا وہیں پلٹ گیا لیکن اس مختصر سے عرصے میں اس کی ذات ہر ملنے والے کی زندگی پر اپنا عکس چھوڑ گئی۔

    میرا جی! آپ کو زندگی عزیز تھی، ایک ہی گھونٹ میں اسے پی گئے، ہم لوگ تو اب تک ایک جرعے کی تلاش میں عمر گزار رہے ہیں۔ اور اب ایک ایک کر کے آپ کے دوست آپ ہی کی طرف آرہے ہیں۔

    میانِ لالہ و گل خواستم کہ مے نوشم
    زشیشہ تابہ قدح ریکتم بہار گذشت

    والسلام

    الطاف گوہر

    (اردو کے نام ور شاعر میرا جی کی کلیات میں‌ شامل یہ خط مشہور سول سرونٹ، لکھاری اور صحافی الطاف گوہر کی اختراع ہے)