Tag: خلا

  • کینیا کے گاؤں میں خلا سے عجیب و غریب چیز آگری

    کینیا کے گاؤں میں خلا سے عجیب و غریب چیز آگری

    کینیا کے گاؤں موکوکو میں خلا سے ایک نامعلوم چیز آکر گری ہے، تاہم گاؤں والے خوش قسمتی سے جانی نقصان سے محفوظ رہے۔

    خلا سے جو چیز گاؤں موکوکو میں گری اس کا وزن تقریباً 500 کلو گرام ہے، اس کا قطر 2.5 میٹر بتایا جارہا ہے، کینین حکام نے بتایا کہ یہ چیز ’ممکنہ طور پر راکٹ کے الگ ہونے کے مرحلے کے دوران یہ چیز زمین پر آکرگری ہے‘۔

    حکام نے مزید بتایا کہ آسمان کی وسعتوں سے گرنے والی اس چیز کے ملبے کے ٹکڑوں کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ پتا چلایا جاسکے کہ چیز کس ملک سے تعلق رکھتی ہے۔

    میجر ایلوئس ویر جو کہ کینیا کی خلائی ایجنسی سے تعلق رکھتے ہیں تو ان کا کہنا ہے کہ یہ ملبہ کس ملک یا ادارے کا ہے اس کی شناخت کی جائے گی،

    کینین خلائی ایجنسی کے اہلکار نے کہا کہ جو بھی اس چیز کے گرنے کا ذمہ دار ہوگا بین الاقوامی قانون کے مطابق قانونی طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے اسکا محاسبہ کیا جائے گا۔

    یہ بات قابل ذکر ہے کہ زیادہ تر صورتوں میں یہ ہوتا ہے کہ خلائی ملبہ فضا میں داخل ہوتے وقت جل جاتا ہے یا غیرآباد علاقوں جیسے سمندر میں گرتا ہے۔ تاہم ہمیشہ یہ ممکن نہیں کہ خلا سے گرنے والی چیز غیرآباد علاقے میں گرے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ اس طرح کے واقعات سنگین خطرات کا سبب بن سکتے ہیں، پچھلے سال مئی 2024 میں اسپیس ایکس کے ملبے کا ایک ٹکڑا شمالی کیرولینا میں ایک پہاڑی علاقے کے قریب ہائیکنگ ٹریک پر گرا تھا۔

  • چین کے پروفیسر جو خلا میں جا کر تاریخ رقم کرنے والے ہیں

    چین کے پروفیسر جو خلا میں جا کر تاریخ رقم کرنے والے ہیں

    بیجنگ: چین پہلی بار اپنے ایک سویلین شہری کو خلا میں بھیج رہا ہے، خلا میں جانے والے خوش قسمت گوئی ہیچاؤ بیجنگ کی یونیورسٹی آف ایروناٹکس اینڈ ایسٹرو ناٹکس میں پروفیسر ہیں۔

    چین کی مینڈ اسپیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ منگل کو پہلے شہری خلا باز کو بھیجنے کے لیے راکٹ مشن کے دیگر خلابازوں کو لے کر اڑے گا۔

    اسپیس ایجنسی کے ترجمان لن ژیقیانگ نے صحافیوں کو بتایا کہ اسپیس اسٹیشن جانے والے پے لوڈ ایکسپرٹ گوئی ہیچاؤ بیجنگ کی یونیورسٹی آف ایروناٹکس اینڈ ایسٹرو ناٹکس میں پروفیسر ہیں۔

    اب تک خلا میں بھیجے گئے تمام چینی خلا باز پیپلز لبریشن آرمی کا حصہ رہے ہیں۔

    اسپیس ایجنسی کے ترجمان لن ژیقیانگ کا کہنا ہے کہ پروفیسر گوئی بنیادی طور پر خلائی سائنس کے تجرباتی پے لوڈز کے مدار میں آپریشن کے لیے ذمہ دار ہوں گے، مشن کے کمانڈر جینگ ہیپینگ ہیں اور عملے کا تیسرا رکن ژو یانگ زو ہیں۔

    مینڈ سپیس ایجنسی کے مطابق وہ منگل کو شمال مغربی چین میں جیوکوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے نو بجے روانہ ہونے والے ہیں۔

    صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین کے خلائی خواب کے منصوبوں پر عمل درآمد میں تیزی آئی ہے۔

    دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت نے اپنے فوجی خلائی پروگرام میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، اس پروگرام میں انسانوں کو چاند پر بھیجا جانا بھی شامل ہے۔

    بیجنگ کئی برسوں سے ان سنگ میلوں کو عبور کرنے کی کوشش میں ہے جس میں امریکا اور روس اس سے بہت آگے ہیں۔

    چین چاند پر ایک اڈہ بنانے کا بھی منصوبہ بنا رہا ہے اور ملک کی نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن نے کہا ہے کہ اس کا مقصد سنہ 2029 تک ایک انسانی مشن شروع کرنا ہے۔

  • خلا میں پہلی سالگرہ کی تقریب، سعودی خلا بازوں کی عربی مں مبارکباد

    خلا میں پہلی سالگرہ کی تقریب، سعودی خلا بازوں کی عربی مں مبارکباد

    زمین سے دور خلا میں موجود اسپیس اسٹیشن میں پہلی بار سالگرہ کی تقریب منعقد کی گئی، اماراتی خلا باز کی سالگرہ پر سعودی خلا بازوں نے انہیں عربی میں مبارکباد دی۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی خلا باز علی القرنی اور ریانہ برناوی نے دیگرخلا نوردوں کے ہمراہ اپنے اماراتی ساتھی سلطان النیادی کی سالگرہ کی تقریب سپیس اسٹیشن پر منعقد کی۔

    اماراتی خلا باز النیادی نے سالگرہ کے حوالے سے منائی جانے والی تقریب کی فوٹو شیئرکرتے ہوئے کہا کہ خلا میں پہلی بار سالگرہ کی تقریب۔

    النیادی کا مزید کہنا تھا کہ اس موقع پر اپنے خوشگوار احساسات کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہوں، خلا میں میرے ساتھی ہی میرے دوسرے اہل خانہ کی طرح ہیں جن میں ایک کیک امریکا اوردوسرا روس سے آیا۔

    انہوں نے کہا کہ مجھے ریانہ اور علی کی جانب سے عربی میں سالگرہ کی مبارکباد وصول کرتے ہوئے خلا میں غیر معمولی اپنائیت کا احساس ہوا۔

    واضح رہے کہ سعودی خلا باز گذشتہ ہفتے امریکہ کی ریاست فلوریڈا کے اکسیوم بیس سے خلائی تحقیقاتی سفر پرروانہ ہوئے تھے، خلا بازوں میں اماراتی، روسی اورامریکی شامل ہیں۔

    خلائی اسٹیشن پہنچتے ہی اماراتی خلا باز کی جانب سے خلائی سفر کے مناظر پر مبنی تصاویر ارسال کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

  • شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے خلا میں جانا بھی ممکن ہوگیا

    شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے خلا میں جانا بھی ممکن ہوگیا

    ویسے تو دنیا بھر میں شادیوں کے لیے نئے نئے ٹرینڈز متعارف کروائے جارہے ہیں جس کے لیے دلہا، دلہن اور ان کے اہلخانہ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔

    تاہم امریکی خلائی کمپنی نے سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے شادیوں کے لیے ایک نیا ٹرینڈ متعارف کروایا ہے، زمین کا دور اب گیا، اب انسانوں کی شادیاں 1 لاکھ فٹ کی بلندی پر ہوں گی۔

    امریکی خلائی کمپنی اسپیس پرسپیکٹیو نے شادی کرنے کے لیے ایک ناقابل یقین مقام متعارف کروایا ہے۔

    یہ کمپنی جوڑوں کو ایک کاربن نیوٹرل غبارے میں خلا میں بھیجے گی، اس شاندار کاربن غبارے میں ہی وہ شادی کے بندھ میں بندھ جائیں گے، اس غبارے میں کھڑکیاں بھی موجود ہوں گی جس سے شادی شدہ جوڑا زمین کے بہترین نظاروں سے لطف اندوز ہوسکے گا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by David Grutman (@davidgrutman)

    اس غبارے کی پرواز 6 گھنٹے کی ہوگی جس میں مسافروں کو زمین سے 1 لاکھ فٹ کی بلندی پر لے جایا جائے گا۔ اس پرواز میں 8 مسافر اور ایک پائلٹ کی جگہ ہوگی۔

    اسپیس پرسپیکٹیو کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق اس خصوصی پرواز کے دوران مسافروں کو شاندار کاک ٹیل اور لذیز کھانے ملیں گے جبکہ آسمان سے نیچے زمین کے ناقابل یقین نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سفر کے لیے بہترین گانوں کی پلے لسٹ بھی موجود ہوگی۔

    اس کے علاوہ اس غبارے میں بیت الخلا اور وائی فائی بھی ہوگا جو مسافروں کو اپنے دوستوں اور اہل خانہ سے رابطے میں مدد دے گا۔

    اس منفرد تجربے کی قیمت 3 کروڑ 40 لاکھ روپے سے زائد ہے، کمپنی کی جانب سے اس پروگرام کو 2024 میں شروع کیے جانے کا امکان ہے، رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اس پروگرام کے پہلے ہی ایک ہزار ٹکٹ فروخت ہو چکے ہیں۔

  • خلا میں اگائے گئے ٹماٹر زمین پر لائے جائیں گے

    خلا میں اگائے گئے ٹماٹر زمین پر لائے جائیں گے

    ایک طویل عرصے سے خلا میں مختلف تجربات جاری ہیں اور ایسے ہی ایک تجربے کے تحت خلا میں اگائے گئے ٹماٹر آج زمین پر لائے جارہے ہیں۔

    خلا میں اگائے گئے ٹماٹروں کو زمین پر لانے کا سفر شروع ہوگیا ہے جو آج زمین پر پہنچ جائیں گے۔

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر خلا کے اندر لیب میں بنائے گئے ٹماٹروں کو زمین پر لایا جارہا ہے۔

    ناسا کے اعلان کے مطابق خلائی جہاز سائنسی تجربات اور دیگر سامان لے کر آج زمین پر پہنچے گا۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے گزشتہ برس انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں ٹماٹر اگانے کے منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔

  • ویڈیو: شہد جب خلا میں لے جایا گیا تو اس کے ساتھ کیا ہوا؟

    ویڈیو: شہد جب خلا میں لے جایا گیا تو اس کے ساتھ کیا ہوا؟

    سوشل میڈیا پر ایک خلا باز کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں انھوں نے شہد کو اپنے ساتھ خلا میں لے جا کر تجربہ کیا، اور اس کا عجیب نتیجہ برآمد ہوا۔

    کینیڈین اسپیس ایجنسی کی جانب سے یوٹیوب پر شیئر ہونے والی یہ ویڈیو دیکھ کر یوٹیوبر دنگ رہ گئے ہیں، کیوں اسے دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ کشش ثقل کی کتنی اہمیت ہے۔

    بہت سے لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ پانی خلا میں زمین کے مقابلے میں مختلف طریقے سے برتاؤ کرتا ہے، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پانی ایک پرفیکٹ ویکیوم (خلا) میں صرف گیس کے طور پر ہی موجود رہ سکتا ہے، اور اسپیس ایک پرفیکٹ خلا نہیں ہے۔

    یہاں تک کہ انتہائی عام اشیا بھی خلا کے زیرو گریوٹی (صفر کشش ثقل) والے ماحول میں بہت مختلف انداز میں برتاؤ کرتی ہیں۔

    ویڈیو: سماعت سے محروم لڑکا پہلی بار آواز سنتے ہی رو پڑا

    ایسے میں کینیڈا کی خلائی ایجنسی کے خلاباز ڈیوڈ سینٹ جیکس نے دسمبر 2018 میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کا سفر کیا، تو اپنے 204 دنوں کے قیام کے دوران انھوں نے کچھ ہلکے پھلکے سائنسی تجربات بھی کیے، ان میں سے ایک تجربہ صفر کشش ثقل کے ماحول میں شہد کے برتاؤ کے بارے میں بھی تھا۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈیوڈ نے جار کا ڈھکن کھولا اور پھر دھیرے دھیرے اسے جار سے دور لے گیا، کیوں کہ شہد اس سے چپکا ہوا تھا، جو کچھ نظر آ رہا تھا وہ شہد کی طرح تو ہرگز نہیں تھا، بلکہ زرد رنگ کا پیسٹ لگ رہا تھا۔

    ڈیوڈ نے دونوں ہاتھوں سے جار کو چھوڑا تو وہ ہوا میں تیرنے لگا، پھر انھوں نے ڈھکن کو گھمایا تو اس سے چپکے ہوئے شہد کی لڑی بھی پیچ در پیچ گھوم گئی۔ انھوں نے ویڈیو میں کہا ’’جب آپ کشش ثقل کو ہٹاتے ہیں تو عجیب باتیں ہوتی ہیں۔‘‘

  • خلا میں شوٹ کی گئی دنیا کی پہلی فلم کا ٹریلر ریلیز

    روسی ڈائریکٹر نے خلا میں دنیا کی پہلی فلم تیار کرلی جس کا ٹریلر ریلیز کردیا گیا، ٹام کروز اپنی فلم خلا میں شوٹ کرنے کے اعلان کے بعد پیچھے رہ گئے۔

    سنہ 2020 میں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ ہالی وڈ اسٹار ٹام کروز امریکی خلائی ادارے ناسا اور اسپیس ایکس کے ساتھ مل کر انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں دنیا کی پہلی فلم کی شوٹنگ کریں گے۔

    اس کے چند ماہ بعد روس کی جانب سے بھی انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں ایک فلم کی شوٹنگ کا اعلان کیا گیا تھا، اب روسی ڈائریکٹر نے خلا میں دنیا کی پہلی فلم کی تیاری کے حوالے سے ٹام کروز کے پراجیکٹ کو واضح شکست دے دی ہے۔

    روسی اداکارہ یولیا پیری سلڈ کو فلم دی چیلنج کے اہم کردار کے لیے 3 ہزار امیدواروں میں سے منتخب کیا گیا تھا، اس فلم کی کہانی ایک ایسی خاتون سرجن کے گرد گھومتی ہے جو ایک خلاباز کو بچانے کے لیے انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن پر جاتی ہے۔

    اس فلم کے لیے ڈائریکٹر کلم شیپینکو، یولیا پیری سلڈ اور ایک خلاباز اکتوبر 2021 میں انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن پہنچے تھے اور وہاں 12 دن تک فلم کی عکسبندی کی۔

    جہاں تک ٹام کروز کی بات ہے تو اب بھی وہ خلا میں بنائی جانے والی پہلی ہالی وڈ فلم کا اعزاز اپنے نام کر سکتے ہیں۔

    یونیورسل اسٹوڈیو نے اکتوبر 2022 میں تصدیق کی تھی کہ ٹام کروز انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کے باہر چہل قدمی کرنے والے پہلے عام شہری ہوں گے۔

    یہ وہ کام ہے جس کے لیے ناسا کی جانب سے کئی ماہ کی تربیت دی جاتی ہے، مگر یہ واضح نہیں کہ ٹام کروز اس تربیتی پروگرام کا حصہ بنیں گے یا نہیں۔

  • خلائی ٹیکنالوجی کا تبادلہ: سعودی عرب اور اٹلی کے درمیان معاہدہ

    خلائی ٹیکنالوجی کا تبادلہ: سعودی عرب اور اٹلی کے درمیان معاہدہ

    ریاض: سعودی عرب اور اٹلی کی خلائی ایجنسیوں کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے جس کے تحت دونوں ممالک خلائی ٹیکنالوجی کا تبادلہ کریں گے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی اسپیس کمیشن اور اٹلی کی خلائی ایجنسی نے ریاض میں پرامن مقاصد کے لیے خلائی سرگرمیوں کے حوالے سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔

    مفاہمتی یادداشت پر سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان اور اٹلی کے وزیر خارجہ کی موجودگی میں دستخط کیے گئے۔

    فریقین خلا کے پرامن استعمال میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے اور خلائی سرگرمیوں کے حوالے سے معلومات کا تبادلہ کیا جائے گا۔

    منصوبے کے تحت خلائی ٹیکنالوجی کا تبادلہ عمل میں آئے گا اور باہمی دلچسپی کے شعبوں میں دونوں ملکوں کے ماہرین ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔

    مملکت کی جانب سے ایگزیکٹیو چیئرمین ڈاکٹر محمد التمیمی اور اٹلی کی جانب سے ایجنسی کے سربراہ نے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔

    یاد رہے کہ سعودی عرب اور اٹلی مختلف شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، مفاہمتی یادداشت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کی بدولت علاقائی و بین الاقوامی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان ٹیکنالوجی و خلائی شعبے کے فروغ میں مدد ملے گی۔

  • خلائی مخلوق کے بارے میں وہ نظریات جو آپ کو دنگ کردیں

    خلائی مخلوق کے بارے میں وہ نظریات جو آپ کو دنگ کردیں

    دنیا بھر کے سائنس دان اور ماہر فلکیات کہیں نہ کہیں موجود خلائی مخلوق کا کھوج لگانے کی کوششوں میں ہیں، اتنی بڑی کائنات میں آخر کہیں نہ کہیں تو زندگی موجود ہوگی، تو پھر ہم اب تک اس کا سراغ لگانے میں ناکام کیوں رہے؟

    اگر اس کائنات میں ہمارے علاوہ کوئی اور بھی ہے، تو آخر وہ کہاں ہے اور اب تک ہمارا اس سے رابطہ کیوں نہیں ہوسکا؟

    یہ مشہور سوال دنیا کا پہلا جوہری ری ایکٹر تیار کرنے والے اٹلی کے مشہور طبیعات دان انریکو فرمی نے پوچھا تھا، سب کہاں ہیں؟

    لیکن اس کا کوئی جواب آج تک نہیں مل سکا۔

    ویسے تو سازشی نظریات ماننے والوں کی بڑی تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ہماری دنیا میں اکثر و بیشتر اڑن طشتریاں اترتی رہتی ہیں، لیکن ان کی خبروں کو چھپایا جاتا ہے۔

    تو آج ہم بھی اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے، کہ ہم اب تک خلائی مخلوق سے ملاقات کیوں نہیں کر سکے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے سنہ 2009 میں لانچ کی جانے والی کیپلر اسپیس ٹیلی اسکوپ نے ہماری زمین کے ارد گرد یعنی ہماری کہکشاں کے اندر سینکڑوں سیارے دریافت کیے۔

    اس دریافت کی بنیاد پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ہماری کہکشاں کے اندر کم از کم کھربوں کی تعداد میں سیارے موجود ہیں، اور کائنات میں ایسی اربوں کہکشائیں موجود ہیں۔

    فرض کیا جائے کہ ہماری کہکشاں میں موجود 10 ہزار میں سے کسی ایک سیارے پر بھی زندگی موجود ہے، تب بھی کم از کم 5 کروڑ ممکنہ سیارے ایسے ہوسکتے ہیں جہاں زندگی موجود ہونی چاہیئے۔

    ہماری زمین، کائنات میں ہونے والے ایک بڑے دھماکے یعنی بگ بینگ کے 9 ارب سال بعد تشکیل پائی، فرض کرتے ہیں کہ اس طویل عرصے کے دوران ہم سے پہلے کسی سیارے پہ زندگی جنم لے چکی ہو۔

    اس سیارے کی مخلوق رفتہ رفتہ ارتقائی مراحل سے گزر کر ایک جدید مخلوق بنی ہو اور اس نے ہم جیسی یا ہم سے بھی بہتر ٹیکنالوجی تیار کرلی ہو۔

    گو کہ آج زمین پر جتنی بھی ٹیکنالوجی موجود ہے وہ گزشتہ صرف 100 سال کے عرصے میں سامنے آئی، لیکن چلیں ہم اس غائبانہ خلائی مخلوق کو رعایت دیتے ہیں کہ اسے اپنی ٹیکنالوجی کو جدید ترین سطح پر لانے میں کئی لاکھ سال لگے، تو اب تک اس مخلوق کو ٹیکنالوجی کے ذریعے کم از کم ہماری پوری کہکشاں تو فتح کرلینی چاہیئے تھی۔

    اور مان لیا کہ ایسا ہی ہوا ہو، اس خلائی مخلوق نے توانائی پیدا کرنے والے سیارے خلا میں چھوڑ رکھے ہوں، یا پھر ایسے فن پارے تخلیق کیے ہوں جو خلا میں معلق ہوں اور ہمیں چمکتے ستاروں اور مختلف خلائی مظاہر کی صورت میں دکھائی دیتے ہوں۔

    تب تو ایسی مخلوق سے رابطہ کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا کہ ان کے خارج کردہ سگنلز خلا میں جابجا موجود ہوں گے، لیکن پھر بھی ہم انہیں ڈھونڈنے میں ناکام ہیں۔ آخر کیوں؟

    اس کا سب سے آسان اور ممکنہ جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ نہایت ترقی یافتہ، ذہین اور جدید ٹیکنالوجی کی حامل اس مخلوق نے کہکشاں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہو اور انہوں نے مصنوعی طریقے سے ایک خلائی خاموشی طاری کر رکھی ہو تاکہ کسی ممکنہ دشمن سے بچ سکیں، اسی میں ان کی بقا ہے۔

    لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ایسی جدید مخلوق لاکھوں سال پہلے خود ہی مٹ چکی ہو کیونکہ ان کی تیار کردہ ٹیکنالوجی ان کے قابو سے باہر ہوگئی ہو اور اس نے پورے سیارے کو تباہ کردیا ہو۔

    یا پھر ایک عام سا خیال، کہ ممکن ہو وہ مخلوق اتنی ذہین نہ ہو کہ اتنی ترقی کرسکے، یا پھر واقعی ہم ہی اس کائنات کی واحد تہذیب ہوں۔

    بہت سی ترقی کرلینے کے باوجود ہم اب تک سیاروں اور ستاروں کی بہت معمولی سی تعداد ہی کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات حاصل کرسکے ہیں، تو یہ بھی ممکن ہے کہ خلائی مخلوق کی تلاش کے لیے ہم غلط سمت میں دیکھ رہے ہوں۔

    ایک اور دلچسپ نظریہ یہ بھی ہے کہ، ممکن ہے کہ خلائی مخلوق نے جان لیا ہو کہ زندگی صرف معلومات کے پیچیدہ نظام کا نام ہے جس کے لیے جسامت کوئی معنی نہیں رکھتی۔

    جیسے زمین پر ایجاد کیا گیا اسٹیریو سسٹم آہستہ آہستہ چھوٹا ہو کر ایک معمولی سے آئی پوڈ کی صورت ہاتھوں میں سما گیا، ویسے ہی خلائی مخلوق نے بھی خود کو مائیکرو اسکوپک لیول پر منتقل کرلیا ہو، ایسی صورت میں ممکن ہے کہ ہماری کہکشاں خلائی مخلوق سے بھری پڑی ہو لیکن ہمیں ان کی موجودگی کا ادراک نہیں۔

    ایک اور اچھوتا نظریہ جاننا بھی آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

    یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان کے دماغ میں موجود خیالات دراصل خلائی شے ہوں۔ وہ ایسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا ظاہری جسم تو مرجاتا ہے لیکن ہمارے آئیڈیاز اور خیالات، زمین پر موجود ایجادات، کتابوں اور فن کی صورت میں زندہ رہتے ہیں اور یہ اپنے اندر پوری ایک دنیا، ایک اچھوتی دنیا رکھتے ہیں۔

    ممکن ہے کہ خلائی مخلوق نے خود کو ارتقائی مراحل سے گزار کر ایسے زندہ رہنے کا راز جان لیا ہو۔

    ان میں سے کون سا نظریہ حقیقت کے کتنا قریب ہے، یہ کہنا مشکل ہے۔ شاید ہم کبھی خلائی مخلوق کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوجائیں، یا پھر ہم یہ ادھوری خواہش لیے ختم ہوجائیں اور خلائی مخلوق کا راز کبھی نہ جان سکیں۔

  • خلا سے گرتا کچرا کہاں جارہا ہے؟

    خلا سے گرتا کچرا کہاں جارہا ہے؟

    گزشتہ کچھ عرصے میں خلا میں ہونے والی سرگرمیوں میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے، تاہم اب خلا میں موجود کچرا زمین کے سمندروں کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔

    بین االاقوامی ویب سائٹ کے مطابق خلائی تحقیق میں ہونے والی پیش رفت اور خلا میں کی جانے والی کمرشل سرگرمیوں نے دنیا بھر کے سمندروں کو زمینی آلودگی کے ساتھ ساتھ خلائی آلودگی کے خطرے سے بھی دو چار کردیا ہے۔

    انسانوں کی خلا میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے وہاں خلائی کچرے کی مقدار میں بھی دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے، خلا میں ناکارہ ہونے والے بڑے جہاز، راکٹ اور دیگر ملبے کے لیے زمین پر پہلے ہی آلودگی کے شکار سمندروں کو قبرستان میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

    روس گزشتہ کئی دہائیوں سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے پیدا ہونے والے ٹنوں وزنی ملبے کو بحرالکاہل میں ڈبو رہا ہے۔

    لیکن یہ معاملہ صرف روس یا بحر الکاہل تک ہی محدود نہیں ہے، ماضی میں روس کے خلائی اسٹیشن اور چین کے تیانگ گونگ ون کی زندگی کا اختتام بھی سمندر کے پانیوں میں کیا گیا۔

    اسی طرح 1979 میں امریکا کا تجرباتی خلائی اسٹیشن اسکائی لیب بھی ٹکڑوں کی شکل میں آسٹریلیا کے ساحلوں پر بکھر گیا تھا۔ آنے والے چند سالوں میں خلائی کچرے کا ایک اور بڑا ٹکڑا زمین پر واپس آنے والا ہے۔

    سائنس دان 2030 میں اپنی عمر تمام کرنے والے 500 ٹن وزنی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کو بحرالکاہل کے جنوبی حصے میں اس جگہ گرانے کی تیاری کر رہے ہیں جسے پوائنٹ نیمو کے نام سے جاتا ہے۔

    یہ دنیا کا سب سے غیر آباد اور ناقابل رسائی علاقہ تصور کیا جاتاہے، اس جگہ سے قریب ترین سمندری حصہ بھی 1450 ناٹیکل میل (2 ہزار 685 کلو میٹر) کے فاصلے پر ہے۔