Tag: خلائی جہاز

  • امریکی نجی کمپنی کا خلائی جہاز چاند پر پہنچ گیا

    امریکی نجی کمپنی کا خلائی جہاز چاند پر پہنچ گیا

    امریکا کی نجی کمپنی نے اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے اپنا خلائی جہاز چاند پر پہنچا دیا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق روبوٹک خلائی جہاز ہیوسٹن کی کمپنی نے بھیجا ہے اور اس کے سگنل موصول ہوگئے ہیں۔ 1972 میں چاند پر اپالو کی لینڈنگ کے بعد امریکا کا یہ پہلا اقدام ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق چاند پر اترنے کے بعد جہاز کی حالت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکا ہے جبکہ اس مشن کے ساتھ کوئی بھی انسان روانہ نہیں ہوا ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں جاپان کا نیا فلیگ شپ ایچ تھری راکٹ بھی کامیابی سے لانچ کیا گیا تھا، مذکورہ راکٹ گزشتہ سال لانچنگ میں ناکام ہوگیا تھا۔

    نیکسٹ جنریشن ایچ تھری راکٹ کو عالمی سطح پر مسابقت حاصل کرنے کے لیے ایچ ٹو اے سے بڑے پے لوڈز لے جانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

    یہ لانچنگ جاپان ایرو اسپیس ایکسپلوریشن ایجنسی کے لیے مسلسل دوسری جیت کا نشان بھی ہے جب اس کے اسمارٹ لینڈر آف انویسٹیگیشن مون (سلم) نے گزشتہ ماہ ”پائن پوائنٹ”حاصل کیا اور جاپان کو چاند پر خلائی جہاز لگانے والا صرف پانچواں ملک بنا دیا۔

    خطرے کی علامت ’لاک بٹ‘ کیا ہے؟

    لانچ کی تعداد کے لحاظ سے خلا میں ایک نسبتاً چھوٹا راکٹ ہے، جاپان اپنے پروگرام کو کامیاب کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہا ہے کیونکہ وہ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے اتحادی امریکہ کا شراکت دار ہے۔

  • ناسا کے خلائی جہاز کی زمین پر واپسی کی ویڈیو سامنے آ گئی

    ناسا کے خلائی جہاز کی زمین پر واپسی کی ویڈیو سامنے آ گئی

    ناسا کا خلائی جہاز اورین کیپسول چاند مشن سے واپسی پر اتوار کے روز بہ حفاظت زمین پر اتر گیا۔

    تفصیلات کے مطابق چاند مشن سے واپس آنے والے ناسا خلائی جہاز کو زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی آگ لگ گئی تھی، تاہم چاند مشن آرٹیمس 1 میں شامل ’اورین‘ اسپیس کرافٹ چاند کے گرد آخری پرواز کے بعد کیلیفورنیا میں باجا کے ساحل پر بہ حفاظت اتر گیا۔

    اورین کیپسول چاند کے گرد 25 دن کا سفر مکمل کرنے کے بعد واپس پہنچا ہے، ناسا کا کہنا ہے کہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی کیپسول پر آگ لگ گئی تھی، تاہم 3 پیراشوٹس کی مدد سے اورین کیپسول کو بحرالکاہل کے کیلیفورنیا جزیرہ نُما میں اتار لیا گیا۔

    بحر الکاہل کی طرف آتے ہوئے، اورین کیپسول نے اُس کارکردگی کا مظاہرہ کیا جسے ’اسکپ انٹری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ ایک نئی تکنیک ہے جسے سائنس دانوں نے خلائی جہاز کو بہ حفاظت زمین پر اتارنے کے لیے بنائی ہے، اورین کیپسول نے تاریخ میں پہلی بار کسی انسانی خلائی جہاز کے لیے اس تکینیک کا استعمال کیا، یہ تدبیر بحرالکاہل میں اپنے لینڈنگ کی جگہ کی نشان دہی کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔

    اس تکنیک کے تحت خلائی جہاز زمین کے اوپری ماحول میں جیسے ہی غوطہ لگاتا ہے، یہ اس ماحول اور کیپسول کے لفٹ کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے زمین کے اس اوپری ماحول سے واپس باہر چلا جاتا ہے، اور اس کے بعد پیراشوٹس کے ساتھ واپس نیچے آتا ہے۔

    اب جب کہ اورین بحفاظت زمین پر واپس آ چکا ہے، ناسا ان تمام اعداد و شمار کا جائزہ لینا شروع کرے گا جو خلائی جہاز نے خلا میں اپنے 1.4 ملین میل کے سفر کے دوران جمع کیا ہے، اور آرٹیمیس II کی تیاری شروع کر دے گا۔

    آرٹیمس ٹو وہ مشن ہے جو 2024 کے لیے شیڈول کیا گیا ہے، اس مشن میں انسانی خلا بازوں کو اورین خلائی جہاز پر اڑتا ہوا دیکھا جائے گا، اور اس کے بعد 2025 یا 2026 کے اوائل میں (1972 کے اپالو پروگرام کے بعد سے) چاند پر اپنی پہلی لینڈنگ کو انجام دے گا۔

  • زمین سے 70 لاکھ میل دور سیارچے سے ٹکرانے کے لیے خلائی جہاز روانہ ہونے کے لیے تیار

    زمین سے 70 لاکھ میل دور سیارچے سے ٹکرانے کے لیے خلائی جہاز روانہ ہونے کے لیے تیار

    زمین سے 70 لاکھ میل دور سیارچے سے ٹکرانے کے لیے ناسا کا خلائی جہاز روانہ ہونے کے لیے تیار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خلا میں تیرنے والے سیارچوں سے زمین کا دفاع کرنے کے لیے ناسا نے دنیا کا پہلا ایسا خلائی جہاز تیار کر لیا ہے، جو خلا میں جا کر سیارچے سے ٹکرا کر اس کا رُخ تبدیل کرے گا، یہ جہاز بدھ کو لانچ کیا جائے گا۔

    ناسا حکام کا کہنا ہے کہ اس مشن کا مقصد یہ اندازہ لگانا ہے کہ کیا خلائی جہاز سیارچوں کا راستہ تبدیل کر سکتے ہیں؟ اس مشن کو ڈبل ایسٹرائیڈ ری ڈائریکشن ٹیسٹ (DART) کا نام دیا گیا ہے۔

    سیارچوں کے دفاعی ٹیسٹ مشن کے لیے تیار کیا جانے والا یہ خلائی جہاز کیلیفورنیا سے سیارچوں سے ٹکرانے کے مشن پر لانچ کیا جائے گا، جو 70 لاکھ میل دوری پر موجود دو سیارچوں سے ٹکرا کر ان کی سمت تبدیل کرے گا۔

    رپورٹ کے مطابق ڈارٹ خلائی جہاز ڈبل سیارچہ ڈیمورفوس اور اس کے چاند ڈیڈیموس کو نشانہ بنائے گا، ڈارٹ ٹیم کے مطابق ان میں سے کوئی سیارچہ زمین کے لیے خطرہ نہیں ہے۔

    ناسا حکام کا کہنا ہے کہ ہم ایسی صورت حال میں نہیں رہنا چاہتے جہاں کوئی سیارچہ زمین کر طرف بڑھ رہا ہو اور ہم کچھ کر نہ سکیں۔

    واضح رہے کہ سیارچے کے حجم کے مقابلے میں یہ خلائی جہاز ایک چھوٹے پتھر (4 فٹ) جیسا ہوگا تاہم ٹکرانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قوت اتنی ہوگی جس سے یہ سیارچہ اپنی سمت تبدیل کر سکتا ہے۔

    ڈارٹ، جو کیلیفورنیا کے وینڈنبرگ ایئر فورس بیس سے روانہ ہوگا، 2022 کے موسم خزاں میں ڈیمورفوس اور ڈیڈیموس تک پہنچے گا۔ اس تجربے کے ذریعے ناسا یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ مستقبل میں اگر کبھی کوئی بڑا سیارچہ زمین کی طرف بڑھے تو اس کی سمت تبدیل کی جا سکتی ہے یا نہیں۔

  • خلائی جہاز عام شہریوں کو لے کر خلا میں روانہ

    خلائی جہاز عام شہریوں کو لے کر خلا میں روانہ

    فلوریڈا: ایرواسپیس کمپنی اسپیس ایکس کا خلائی جہاز عام شہریوں کو لے کر خلا میں روانہ ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسپیس ایکس کی پہلی نجی پرواز مقابلہ جیتنے والے دو عام افراد کے ساتھ مدار میں لانچ کر دی گئی ہے، جن میں سے ایک ہیلتھ کیئر ورکر اور ایک ان کا امیر اسپانسر ہے۔

    خلا کی سیاحت میں یہ اب تک کا سب سے زیادہ پُرعزم اور بڑا قدم ہے، اسپیس ایکس کے خلائی شٹل نے مدار میں جا کر تاریخ رقم کر دی ہے، خلائی شٹل انسپریشن فور مشن کے تحت چار افراد کو لے کر گئی ہے۔

    انسپریشن فور چاروں افراد کو لے کر زمین کے گرد چکر لگائے گی، خلائی شٹل فلوریڈا میں ناسا کے کینیڈی اسپیس اسٹیشن سے روانہ ہوئی، خلائی گاڑی مشن کے تحت 3 دن تک وہاں قیام کرے گی۔

    تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ بدھ کی رات کو لانچ ہونے والی اس خلائی گاڑی میں عملہ شوقیہ افراد پر مشتمل تھا اور پہلی بار ہے جب زمین کے گرد چکر لگانے والے افراد ماہر خلاباز نہیں ہیں۔

    اگلے تین دنوں میں اسپیس ایکس کے راکٹ میں موجود انسپریشن 4 کا عملہ ہر 24 گھنٹے میں 15 مرتبہ زمین کا چکر لگائے گا، خلائی گاڑی زمین کے مدار میں پہنچنے کے بعد27 ہزار 360 کلومیٹر فی گھنٹا رفتار سے ہر 90 منٹ میں ایک چکر مکمل کرے گی۔

    خلائی گاڑی اس دوران زمین کے گرد آواز کی رفتار سے 22 گنا زیادہ تیزی کے ساتھ سفر کرے گی۔

    یاد رہے کہ چند ماہ قبل ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس نے ناسا کے لیے انسانوں جیسے مدافعتی نظام رکھنے والے 73 ہزار خرد بینی جانور اور دیگر تحقیقاتی مواد کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن روانہ کیا تھا۔

  • ناسا کے پلینٹ ہنٹر نے 53 نوری سال کی دوری پر زمین جتنا سیارہ ڈھونڈ لیا

    ناسا کے پلینٹ ہنٹر نے 53 نوری سال کی دوری پر زمین جتنا سیارہ ڈھونڈ لیا

    واشنگٹن: ناسا کے پلینٹ ہنٹر خلائی جہاز نے زمین سے 53 نوری سال کی دوری پر زمین ہی جتنا سیارہ ڈھونڈ لیا ہے۔

    ایک سائنسی جریدے میں شایع شدہ تحقیق کے مطابق نیا دریافت شدہ سیارہ اپنے ستارے کے گرد 8 دن میں چکر پورا کرتا ہے، یہ سیارہ جس خلائی جہاز نے ڈھونڈ نکالا ہے اسے گزشتہ برس ہی لانچ کیا گیا تھا۔

    محققین نے کہا ہے کہ اس سیارے کا جو ستارہ ہے وہ ہمارے سورج سے 20 فی صد چھوٹا ہے۔

    ایک سائنس دان کا کہنا تھا کہ وہ ستارے جو ہمارے بے حد قریب ہیں اور زیادہ روشن ہیں، امید ہے کہ ان کے درجنوں زمین جتنے سیارے دریافت ہو جائیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  ناسا نے سورج کی نزدیک ترین تصویر جاری کردی

    ان کا کہنا تھا کہ کہ موجودہ دریافت پلینٹ ہنٹر TESS کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ اس کی پہلی دریافت ہے، تاہم اپنی دو سالہ تحقیقی مدت کے دوران یہ دو لاکھ سے زائد ستاروں کی روشنی کو مانیٹر کرے گا۔

    واضح رہے کہ پچھلے برس امریکی خلائی تحقیقی ادارہ ناسا نے خلا میں نیا سیٹلائٹ بھیجا تھا جس کا مقصد نظام شمسی کے باہر ایسے سیاروں کی تلاش ہے جو قریب ترین اور روشن ترین ستاروں کے گرد گھوم رہے ہیں۔

  • اسرائیلی خلائی جہاز کا چاند پر اترنے کا مشن ناکام، جہاز تباہ

    اسرائیلی خلائی جہاز کا چاند پر اترنے کا مشن ناکام، جہاز تباہ

    تل ابیب: اسرائیل کی چاند پر خلائی جہاز اتارنے کی کوشش ناکام ہوگئی اور لینڈنگ کے دوران خلائی جہاز تباہ ہوگیا جس کے بعد اسرائیل چاند پر پہنچنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہونے سے رہ گیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل کا نجی سرمایہ کاری سے تیار کردہ خلائی جہاز اپنے مشن میں ناکام ہوگیا۔ برشیٹ نامی خلائی جہاز چاند کی سطح پر بھیجا گیا تھا۔

    مشن کی کامیابی کی صورت میں اسرائیل چاند پر جہاز بھیجنے والا چوتھا ملک بن جاتا، اب تک امریکا، روس (سوویت یونین) اور چین اپنے خلائی جہاز کامیابی سے چاند کی سطح پر اتار چکے ہیں تاہم اسرائیل اس فہرست میں شامل ہونے سے رہ گیا۔

    خلائی جہاز برشیٹ 4 اپریل کو چاند کے مدار میں پہنچا تھا اور اس وقت سے چاند کے گرد گردش کررہا تھا۔ گزشتہ روز مقررہ شیڈول کے مطابق اسے چاند پر لینڈنگ کرنی تھی تاہم لینڈنگ کی تیاری کے دوران انجن میں خرابی پیدا ہوئی اور وہ چاند کی سطح سے ٹکرا گیا۔

    اسرائیلی مشن کنٹرول کا کہنا تھا کہ لینڈنگ سے پہلے جہاز کا انجن خراب ہوگیا تھا جس کے باعث لینڈنگ نہ ہو سکی۔

    مشن سے منسلک ماہرین کے مطابق لینڈنگ سے قبل خلائی جہاز کا زمین سے رابطہ بھی منقطع ہوگیا تھا، جہاز کی لینڈنگ کی مانیٹرنگ کرتے زمین پر موجود خلائی عملے نے رابطہ بحال کرنے اور انجن کی خرابی دور کرنے کی کوشش کی تاہم وہ ناکام رہے۔

    مذکورہ خلائی جہاز کی تیاری میں 100 ملین ڈالرز کی لاگت آئی تھی اور اسے اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز نے ایک نجی کمپنی کے ساتھ مل کر تیار کیا تھا۔

  • ناسا نے سورج کی جانب پہلا ’’پارکرسولر پروب ‘‘ نامی خلائی جہاز بھیج دیا

    ناسا نے سورج کی جانب پہلا ’’پارکرسولر پروب ‘‘ نامی خلائی جہاز بھیج دیا

    فلوریڈا : امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے سورج کی جانب پہلا خلائی جہاز تحقیقاتی مشن پر بھیج دیا، ایک گاڑی جتنی جسامت کے خلائی جہاز کو ’’ پارکر سولر پروب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے تاریخ میں پہلی بار سورج کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے لیے سیٹلائٹ روانہ کیا ہے۔ فلوریڈا سے بھیجے گئے پارکر نامی خلائی تحقیقاتی سیٹلائٹ انسانی تاریخ میں سب سے تیز رفتار مصنوعی سیارہ ہے جو کہ چھ لاکھ نوے ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرے گا۔

    جس کا مطلب ہے کہ نیویارک اور ٹوکیو کےدرمیان فاصلہ ایک منٹ سے بھی کم میں طے ہوگا۔ مذکورہ پارکر سٹیلائٹ سورج کے گرد چکر لگاتے ہوئے معلومات ارسال کرے گا۔

    اس خلائی جہاز کو انتہائی طاقتور راکٹ کے ذریعے بھیجا گیا ہے جسے مشن کے دوران انتہائی گرمی اور تابکاری کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے حساس آلات کو گرمی سے بچانے کے لیے خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں۔

    ناسا کے مطابق ایک عام سی گاڑی کے سائز کا سیارہ سورج سے اکسٹھ لاکھ کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچے گا، یہ اس سے پہلے بھیجے گئے مصنوعی سیاروں کی نسبت سات گنا زیادہ قریب پہنچے گا۔

    سات برس جاری رہنے والے مشن کے دوران وہ سورج کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور طوفان، جسے سولر ونڈ کہتے ہیں، کا جائزہ لے گا۔

    آج تک سورج کی جانب بھیجے گئے تمام سابقہ مشنز کے مقابلے میں یہ جہاز اس ستارے کے سب سے زیادہ قریب تک پہنچے گا۔ اس خلائی مشن کا کام یہ ہو گا کہ یہ سورج کے کرونا کہلانے والے بیرونی ایٹموسفیئر کے قریب پہنچے گا۔

    مزید پڑھیں: ناسا کے خطرناک اور جان لیوا “سورج چھونے کے مشن” کا آغاز 11 اگست کو ہوگا

    اس کی ساخت اس طرح اور ایسے مادوں سے بنائی گئی ہے کہ سورج سے فقط چھ ملین کلومیٹر کی دوری پر موجود رہنے کے باوجود یہ اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھے گا۔ادارے کی جانب سے تاریخی لمحے کی براہ راست کوریج کی گئی اور فیس بک پر بھی براہ راست دکھایا گیا۔

  • نظام شمسی سے خارج شدہ سیارہ پلوٹو کے خوبصورت پہاڑ اور میدان

    نظام شمسی سے خارج شدہ سیارہ پلوٹو کے خوبصورت پہاڑ اور میدان

    عالمی خلائی ادارے ناسا نے نظام شمسی سے خارج شدہ نویں سیارے پلوٹو کی نئی تصاویر اور ویڈیوز جاری کی ہیں جن میں سیارے کے خوبصورت پہاڑ اور برفیلے میدان دکھائی دے رہے ہیں۔

    اب سے 11 سال قبل بونے سیارے پلوٹو کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ناسا کی جانب سے نیو ہورائزنز (نئے افق) نامی خلائی جہاز کو روانہ کیا گیا۔

    اسی سال پلوٹو سیارے کو اس کی مختصر جسامت کی وجہ سے بونا سیارہ قرار دیا گیا اور اسے باقاعدہ نظام شمسی سے خارج کردیا گیا جس کے بعد اب ہمارے نظام شمسی میں 8 سیارے موجود ہیں۔

    نیو ہورائزنز کو زمین سے پلوٹو تک پہنچنے میں 9 سال کا طویل عرصہ لگا۔ یاد رہے کہ پلوٹو اور ہماری زمین کے درمیان 4 ارب کلومیٹر سے بھی زائد فاصلہ ہے۔

    جولائی سنہ 2015 میں یہ خلائی جہاز پلوٹو پر پہنچ کر رکا نہیں بلکہ اس کے اوپر سے گزرتا ہوا مزید آگے چلا گیا۔ اس دوران اس نے پلوٹو کی واضح ترین تصاویر کھینچیں جو اس سے قبل کسی صورت نہ لی جاسکی تھیں۔

    نیو ہورائزنز کی جانب سے بھیجے گئے ڈیٹا کو ناسا نے اب مزید نئی تکنیکوں کے ساتھ جاری کیا ہے۔

    ناسا نے خلائی جہاز کے اس سفر کی باقاعدہ ویڈیو جاری کی ہے جس میں نیو ہورائزنز پلوٹو کے اوپر سے گزرتا دکھائی دے رہا ہے۔

    اس مختصر سفر میں پلوٹو کے برفانی میدان جنہیں اسپٹنک پلینیشیا کہا جاتا ہے، اور کھائی زدہ پہاڑ نمایاں طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔

    ناسا نے نیو ہورائزنز سے موصول شدہ پلوٹو کے 5 چاندوں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں جن میں سب سے بڑے چاند کا نام چیرون ہے۔ خلائی جہاز نے چیرون چاند کے اوپر سے بھی اڑان بھری۔

    خلائی ادارے کے مطابق یہ پلوٹو سیارے کی واضح ترین تصاویر اور ویڈیوز ہیں جنہیں اس سے قبل حاصل کرنا ناممکن تھا۔

    خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق جانیں

    کائنات کے بارے میں مزید حقائق جانیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • امریکی خلائی جہاز خفیہ مشن کے بعد زمین پر لوٹ آیا

    امریکی خلائی جہاز خفیہ مشن کے بعد زمین پر لوٹ آیا

    واشنگٹن: امریکہ کا خفیہ فوجی خلائی جہاز 2 سال بعد زمین پر واپس آ گیا۔ خلائی جہاز 2 سال تک کس مشن پر رہا کوئی کچھ نہیں جانتا، امریکی فضائیہ نے تفصیلات بتانے سے انکار کردیا۔

    امریکا کا فوجی خلائی طیارہ ایکس ۔ 37 بی خفیہ مشن مکمل کرنے کے بعد زمین پر بحفاظت لینڈ کر گیا۔

    سنہ 2015 میں 4 مئی کو خفیہ مشن پر جانے والے طیارے نے زمین کے مدار سے اوپر 700 سے زائد دن گزارے۔

    اس پروگرام کو امریکی خلائی ادارے ناسا نے 18 سال قبل شروع کیا تھا تاہم کچھ عرصے بعد یہ طیارہ مکمل طور پر امریکی فوجی ادارے پینٹاگون کے حوالے کر دیا گیا۔

    مزید پڑھیں: خلا میں جانے والوں کی غاروں میں تربیت

    خیال کیا جا رہا ہے کہ بغیر پائلٹ اس جہاز نے زمین کے مدار سے باہر کئی خفیہ تجربات کیے۔

    امریکی فضائی کا کہنا ہے کہ اس جہاز نے خلا میں دیگر خلائی جہازوں کو لاحق خطرات کم سے کم کرنے کے حوالے سے تجربات کیے، تاہم انہوں نے اس کی مزید تفصیل بتانے سے گریز کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زحل اور اس کے حلقوں کے درمیان عظیم خلا

    زحل اور اس کے حلقوں کے درمیان عظیم خلا

    خلائی جہاز کیسینی کا نظام شمسی کے چھٹے سیارے زحل اور اس کے گرد موجود دائروں یا حلقوں کے درمیان سفر جاری ہے اور اس دوران نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔

    کیسینی اپنے سفر کے اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ اس کے سفر کا آخری مرحلہ سیارہ زحل اور اس کے خوبصورت حلقوں کے درمیان 22 غوطے لگانا ہے۔

    اپنے پہلے غوطے کے دوران کیسینی سے موصول ہونے والے ڈیٹا سے سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ سیارہ زحل اور اس کے حلقوں کے درمیان موجود جگہ کسی بھی قسم کی گیس یا گرد، دھول، مٹی کے ذرات سے پاک ہے اور یہاں کی فضا مکمل طور پر خالی ہے۔

    سائنس دانوں نے اس خالی جگہ کو عظیم خلا کا نام دیا ہے۔

    یہ غوطہ سیارہ زحل اور اس کے سب سے قریبی حلقے کے درمیان تھا جو تقریباً 24 سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ ناسا کے مطابق یہ وہ مقام ہے جہاں آج سے پہلے کوئی خلائی جہاز نہیں پہنچ سکا۔

    مشن سے منسلک سائنس دانوں کو امید تھی کہ یہ خالی جگہ گرد سے آلودہ ہوگی اور جب گرد کے یہ ذرات کیسینی سے ٹکرائیں گے تو نہ صرف بہت شور پیدا ہوگا بلکہ کیسینی کو خود کار نظام کے تحت اپنے اوپر ایک حفاظتی خول بھی چڑھانا پڑے گا تاکہ وہ ان ذرات کے باعث نقصان سے محفوظ رہ سکے۔

    تاہم جب کیسینی اس خلا میں داخل ہوا تو سائنسدانوں کو جھٹکا لگا کیونکہ انہیں بہت کم شور سنائی دیا جبکہ کیسینی کو ڈھال فراہم کرنے کے لیے اس کا خود کار نظام بھی حرکت میں نہیں آیا۔

    مشن کے سربراہ ایرل میز کا کہنا ہے، ’ہم گن سکتے ہیں کہ ہم نے کتنی بار ننھے ذرات کی کیسینی سے ٹکرانے کی آواز کو سنا۔ یہ ہماری توقع کے بالکل برخلاف تھا‘۔

    ان کے مطابق اس پہلے غوطے سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی بنیاد پر زمین پر موجود سائنس دانوں اور کیسینی کے خود کار نظام کو حکمت عملی طے کرنی تھی کہ کیسینی کے اگلے 21 غوطوں کے دوران کیا حالات پیش آسکتے ہیں اور ان سے کیسے نمٹنا ہوگا۔

    ساتھ ہی وہ یہ جاننے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں کہ زحل کے اس مقام پر گرد کی سطح اس قدر کم کیوں ہے۔

    کیسینی کا سفر

    یاد رہے کہ خلائی جہاز کیسینی گزشتہ 13 سالوں سے زحل سے ایک محفوظ فاصلے پر اس کے بارے میں تحقیق اور تصاویر زمین کی طرف روانہ کر رہا تھا۔

    اس سارے سفر کے دوران کیسینی زحل سے ایک محفوظ فاصلے پر رہا ہے اور اس نے زحل کی فضا یا اس کے حلقوں سے ٹکرانے کی کوشش نہیں کی۔

    تاہم اب یہ اس کے سفر کا آخری مرحلہ ہے جس میں آئندہ 22 ہفتوں کے دوران یہ زحل کی فضا اور اس کے حلقوں کے گرد تقریباً 22 غوطے لگائے گا اور ہر غوطے میں اس سے قریب تر ہوتا چلا جائے گا۔

    اس دوران یہ زحل کی واضح تصاویر بھی زمین کی طرف روانہ کرتا رہے گا۔

    اپنے آخری یعنی 22 ویں چکر میں یہ زحل کی فضا میں داخل ہوجائے گا اور انتہائی تیز رفتاری سے زحل کی فضاؤں کے ساتھ رگڑ کھا کر جل اٹھے گا اور اس کے ساتھ ہی کیسینی کا سفر اختتام پذیر ہوجائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔