Tag: خلائی جہاز

  • زحل کے حلقوں کے درمیان خلائی جہاز کا غوطہ

    زحل کے حلقوں کے درمیان خلائی جہاز کا غوطہ

    خلائی جہاز کیسینی نظام شمسی کے چھٹے سیارے زحل اور اس کے گرد موجود دائرے یا مدار کے درمیان پہنچ گیا ہے۔

    عالمی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ یہ زحل کا وہ مقام ہے جہاں آج سے پہلے کوئی خلائی جہاز نہیں پہنچ سکا ہے۔

    یہ کیسینی کے سفر کا آخری مرحلہ ہے جس کے بعد یہ زحل کے اندر گر کر تباہ ہوجائے گا۔

    اس موقع پر گوگل نے بھی اس کامیابی کا جشن مناتے ہوئے اپنے ڈوڈل کو اس سفر کے منظر سے سجا دیا۔

    کیسینی کا سفر

    کیسینی خلائی جہاز کو سنہ 1997 میں زمین سے زحل کی جانب بھیجا گیا تھا اور یہ جولائی 2004 میں وہاں پہنچا تھا۔

    گزشتہ 13 سالوں سے یہ خلائی جہاز زحل سے ایک محفوظ فاصلے پر اس کے بارے میں تحقیق اور تصاویر زمین کی طرف روانہ کر رہا تھا۔

    اس دوران اس نے زحل کے گرد قائم دائروں یا حلقوں اور اس کے چاندوں کی تصاویر بھی بھیجی ہیں۔

    اس سارے سفر کے دوران کیسینی زحل سے ایک محفوظ فاصلے پر رہا ہے اور اس نے زحل کی فضا یا اس کے حلقوں سے ٹکرانے کی کوشش نہیں کی۔

    اب یہ اس کے سفر کا آخری مرحلہ ہے جس میں یہ زحل کی فضا اور اس کے حلقوں کے گرد تقریباً 22 غوطے لگائے گا۔

    گزشتہ روز لگایا جانے والا غوطہ سیارہ زحل اور اس کے سب سے قریبی حلقے کے درمیان تھا جو تقریباً 24 سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔

    کیسینی کے سفر کی تصوراتی منظر کشی

    کیسینی کا یہ سفر ستمبر تک جاری رہے گا جس کے بعد اس میں ایندھن ختم ہوجائے گا اور یہ 15 ستمبر کو زحل کی فضا میں اپنا آخری غوطہ لگا کر فنا ہوجائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چینی خلائی جہاز پر خلائی مخلوق کی دستک

    چینی خلائی جہاز پر خلائی مخلوق کی دستک

    زمین پر رہنے والے افراد ایک طویل عرصے سے دوسرے سیاروں کی مخلوق سے رابطہ کرنے کی کوشش میں ہیں، اور اس جستجو میں اب تک اربوں ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں، اور عجیب و غریب آلات ایجاد کیے جا چکے ہیں تاکہ کسی طرح خلائی مخلوق سے رابطہ کیا جاسکے۔

    تاہم چین کے ایک خلاباز نے اپنے حالیہ انٹرویو میں یہ بتا کر اس جستجو کو اور بھی مہمیز کردیا ہے کہ انہوں نے اپنے خلا میں قیام کے دوران ممکنہ طور پر خلائی مخلوق کی آوازوں کو سنا ہے۔

    ایک چینی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یانگ لی وی نے بتایا کہ خلائی جہاز کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے کچھ غیر معمولی آوازوں کو سنا تھا، ’یہ آوازیں نہ باہر سے آرہی تھیں نہ جہاز کے اندر سے۔ یہ ایسی تھیں جیسے کوئی خلائی جہاز کی بیرونی سطح کو کسی چیز سے کھٹکھٹا رہا ہو‘۔

    china-1

    یانگ لی وی خلا میں جانے والے چین کے پہلے شخص ہیں جو سنہ 2003 میں چین کے پہلے خلائی پروگرام شینزو 5 کے تحت خلا میں گئے۔ اس وقت وہ بطور پائلٹ فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے تاہم اب وہ میجر جنرل ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اپنے خلا میں قیام کے دوران انہوں نے یہ غیر معمولی ’دستک‘ کی آوازیں سنی تھیں۔ بقول ان کے، انہوں نے تکنیکی معاونت کاروں کو اس سے آگاہ کیا تھا، اور ان سب نے خلائی جہاز میں موجود آلات کو جہاز کی سطح سے ٹکرا کر دیکھا تھا، لیکن وہ ایسی آواز پید انہیں کر سکے جیسی انہوں نے سنی تھی۔

    یانگ لی کا کہنا ہے کہ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسی ’شے‘ جو انسانوں سے مختلف ہے، ہمارے ہی جیسے تجسس کا شکار ہو کر ہمارے جہاز کو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی اور عین ممکن ہے کہ وہ کسی دوسرے سیارے کی کوئی مخلوق ہو۔

    ان کے بقول نہ صرف انہوں نے بلکہ ان کے دیگر ساتھیوں نے بھی اس آواز کو سنا تھا۔

    واضح رہے کہ یانگ لی کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دو روز قبل ترکی میں کچھ غیر معمولی روشنیوں کا مشاہدہ کیا گیا اور خیال کیا گیا کہ یہ کسی اڑن طشتری کی روشنیاں ہیں۔

  • دنیا کی سب سے بڑی دوربین نے کام شروع کردیا

    دنیا کی سب سے بڑی دوربین نے کام شروع کردیا

    چین کی جانب سے بنائی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی دوربین نے ستاروں، کہکشاؤں اور خلا کے پوشیدہ رازوں کے سگنل کی تلاش کا کام شروع کر دیا ہے۔

    فاسٹ نامی اس دوربین کی تیاری پر چین نے تقریباً 18 کروڑ ڈالر کی رقم خرچ کی ہے اور اس کو مکمل کرنے میں پانچ برس کا عرصہ لگا۔ اس دوربین کا حجم فٹ بال کے 30 گرؤانڈز کے برابر ہے۔

    اس دوربین میں 500 میٹر قطر کے ریفلیکٹر لگائے گئے ہیں جب کہ 4450 پینلز نصب کیے گئے ہیں۔ ہر پینل کی ایک سطح کی لمبائی 11 میٹر ہے۔ یہ دوربین دیگر جدید آلات کے مقابلے میں آسمان کو دو گنازیادہ سکین کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    دنیا کی سب سے بڑی دوربین پر فیڈ کیبن نصب *

    چین کے قومی فلکیات کے ادارے سے وابستہ زنگ ژوانین کا اس موقعے پر کہنا تھا کہ خلا کی گہرائیوں کا جائزہ لینے کے لیے بنائی جانی والی یہ دوربین اس بات کی مظہر ہے کہ چین غیر معیاری صنعت کاری سے ہٹ کر ہائی ٹیک سائنسی صنعت کاری کی طرف بڑھ رہا ہے۔

    زنگ ژوانین کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے خلا میں پوشیدہ رازوں کو بہتر طریقے سے جاننے میں مدد ملے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس دوربین کی مدد سے خلائی مخلوق کے بارے میں بھی تحقیق کی جاسکے گی۔

    ان کے بقول یہ دور بین اگلے 10 سے 20 برس تک دنیا کی سب سے بڑی دور بین رہے گی اور اس کے سامنے دیگر بڑی دوربینیں پست دکھائی دیں گی۔

    دوربین کی لانچ کے موقع پر کئی ہزار افراد نے جمع ہو کر اس کا نظارہ دیکھا۔

  • سیارہ مشتری پر زندگی کا امکان؟

    سیارہ مشتری پر زندگی کا امکان؟

    میامی: امریکی خلائی ادارے ناسا نے امکان ظاہر کیا ہے کہ نظام شمسی کے پانچویں سیارے مشتری کے برفیلے چاند کے نیچے ایک سمندر ہوسکتا ہے جس کے بعد اس سیارے پر زندگی کی موجودگی کا بھی امکان ہے۔

    ناسا کی ہبل ٹیلی اسکوپ سے موصول شدہ تصاویر کو دیکھ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ مشتری کے برفیلے چاند یوروپا کی سطح کے نیچے کسی قسم کا سمندر ہوسکتا ہے۔

    jupitar-2

    ناسا کے مطابق انہیں اس بارے میں حیران کن تفصیلات موصول ہوئی ہیں اور وہ جلد ان کا اعلان کرنے والے ہیں۔

    ہبل ٹیلی اسکوپ نے سنہ 2012 میں یوروپا کے جنوبی قطبی حصہ پر پانی کے چند قطروں کا مشاہدہ کیا تھا جس کے بعد خیال ظاہر کیا گیا کہ یہ پانی چاند کے اندر سے باہر آرہا ہے یعنی چاند کی بیرونی سطح کے نیچے پانی کا کوئی ذخیرہ موجود ہے۔

    گزشتہ برس اسی قسم کا انکشاف مشتری کے سب سے بڑے چاند گینی میڈ کے بارے میں بھی ہوا تھا جب سائنسدانوں نے اس کی سطح کے نیچے ایک سمندر دریافت کیا تھا۔ اس سمندر کے پانی کی مقدار زمین پر موجود تمام پانی سے بھی زیادہ تھی۔

    سائنسدانوں کو اس کا سراغ ہبل ٹیلی اسکوپ کی موصول شدہ تصاویر میں ارورا روشنیوں کے ذریعہ ملا تھا۔ ارورا روشنیاں وہ رنگ برنگی روشنیاں ہیں جن کا نظارہ قطب شمالی میں رات کے وقتکیا جاسکتا ہے۔ یہ روشنیاں چاند یا سیارے کی بیرونی سطح سے نکلتی ہیں اور اس بات کے شواہد فراہم کرتی ہیں کہ جس سطح سے وہ خارج ہو رہی ہیں، اس سطح کے نیچے کیا ہے۔

    jupitar-4

    واضح رہے کہ سیارہ مشتری کو نظام شمسی کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے اور اس کے 50 سے زائد چاند ہیں۔

    رواں برس ناسا کی 1.1 بلین ڈالر مالیت کی خلائی گاڑی جونو کامیابی سے مشتری کے مدار میں اتر چکی ہے جہاں یہ مشتری کے بارے میں مختلف معلومات جمع کر رہی ہے۔

    ناسا سنہ 2020 میں ایک روبوٹک خلائی جہاز مشتری کے چاند یوروپا کے مدار میں بھیجنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے تاکہ اس چاند کے بارے میں قریب سے درست معلومات جمع کی جاسکیں۔