خلائی دوربین ‘جیمزویب’ ایسی کہکشائیں تلاش کرنے میں مصروف ہے جن کا وجود نہیں ہونا چاہیے، یہ انتباہ دوران تحقیق ایک سائنس دان کی طرف سے سامنے آیا ہے۔
آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس سے تعلق رکھنے خلاف معمول کہکشاؤں کا مشاہدہ کرنے والے مائک بوئلن کولچن نے ایک جامع تحقیق کے بعد یہ تصدیق کی ہے کہ کہکشاؤں کو’تناؤ کی جانچ‘ کے ذریعے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ کیسے بنتی ہیں؟
نئی تحقیق کے مصف مائک بوئلن کولچن کا کہنا ہے کہ ’اگران کہکشاؤں والی بات درست ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ایسے علاقے میں ہیں جو پوشیدہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہمیں تخلیق کائنات سے متعلق علم میں تبدیلی کے لیے بہت سی نئی چیز درکار ہوگی بہت زیادہ انتہا کے امکانات میں سے ایک امکان یہ ہے کہ بگ بینگ کے فوراً بعد کائنات ہماری پیش گوئی کے مقابلے میں تیزی سے پھیل رہی تھی جس کے لیے نئی قوتوں اور ذرات کی ضرورت ہو سکتی تھی۔
پروفیسر بوئلن کولچن کی تحقیق نیچر ایسٹرونومی نامی جریدے میں رواں ہفتے شائع ہوئی ہے،اس سے پتہ چلتا ہے کہ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی فراہم کردہ معلومات سائنس دانوں کے لیے گہرے مخمصے کا سبب ہیں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شاید تاریک توانائی اور ٹھنڈے تاریک مادّے سے متعلق نظرئیے میں کائنات کے بارے میں علم کے اس موجودہ معیاری ماڈل کے معاملے میں کچھ غلط ہو سکتا ہے جو کئی دہائیوں سے کائنات کی تخلیق میں رہنمائی کرتا آ رہا ہے۔