Tag: خلائی راکٹ

  • چین میں خلائی راکٹ حادثاتی طور پر لانچ ہونے کے بعد گر کر تباہ

    چین میں خلائی راکٹ حادثاتی طور پر لانچ ہونے کے بعد گر کر تباہ

    بیجنگ : چین میں خلائی راکٹ حادثاتی طور پر لانچ پیڈ سے الگ ہو کر فضا میں بلند ہونے کے بعد گر کر تباہ ہوگیا تاہم حادثے میں کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔

    تفصیلات کے مطابق چین میں خلائی راکٹ حادثاتی طور پر لانچ ہونے کے بعد گر کر تباہ ہوگیا، اسپیس پائنیئرنجی خلائی کمپنی تیان لونگ تھری راکٹ کا تجربہ کررہی تھی کہ راکٹ اچانک لانچ پیڈ سے الگ ہو کر فضا میں بلند ہوگیا۔

    جس کے بعد راکٹ کئی میٹرتک بلند ہونے کے بعد فوری میں واپس زمین پرآیا اورایک غیرآباد پہاڑی علاقے میں گرکرپھٹ گیا۔

    کمپنی کا کہنا ہےکہ تکنیکی خرابی کی وجہ سےلانچ پیڈ سے الگ ہوا، راکٹ پر موجود کمپیوٹرنےخود بخود کام کرنا بند کردیا اورلانچ پیڈ سے ڈیڑھ کلومیٹرکےفاصلے پر گر گیا تاہم حادثے میں کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔

    یاد رہے گذشتہ ہفتے جنوب مغربی چین کے ایک گاؤں کے اوپر ایک چینی راکٹ کا ملبہ زمین پر گرتا ہوا دیکھا گیا تھا، ویڈیو میں ایک چمک دار پیلے دھوئیں کی لکیر دکھائی دی اور دیہاتی ڈر کے مارے دوڑنے لگے۔

    یہ واقعہ صوبے گائے ژو میں پیش آیا، راکٹ کا ملبہ گرتا دیکھ کر مقامی لوگ ڈر گئے تھے، اور وہ علاقے سے دور بھاگ گئے، تاہم اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

    جنوب مغربی صوبے سیچوان میں شیچانگ سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے ایک راکٹ کو فضا میں لانچ کیا گیا تھا، راکٹ لانچ ہونے کے کچھ دیر بعد ہی مبینہ ملبے کی ویڈیوز سامنے آئیں، چینی حکام نے راکٹ کا ملبہ گرنے سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

    راکٹ کے ذریعے مدار میں ایک طاقت ور سیٹلائٹ ’خلائی متغیر آبجیکٹ مانیٹر‘ بھیجا گیا تھا، اسے چین اور فرانس نے دور دراز کے ستاروں کے دھماکوں کا مطالعہ کرنے کے لیے تیار کیا ہے، ان دھماکوں کو ’گاما رے برسٹ‘ کہا جاتا ہے۔

  • خلائی پرواز کا عالمی دن اور عظیم موجد گوڈارڈ کا تذکرہ

    خلائی پرواز کا عالمی دن اور عظیم موجد گوڈارڈ کا تذکرہ

    اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 7 اپریل 2011ء کو ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کے تحت ہر سال 12 اپریل کو دنیا ’’انسانی خلائی پرواز کا دن‘‘ مناتی ہے۔ اس کا مقصد روئے زمین سے انسان کی اوّلین خلائی پرواز اور دنیا کے لیے اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

    اسی دن کی مناسبت سے آج ہم آپ کو اس سائنس داں کے بارے میں بتارہے ہیں جس نے آسمان کی وسعتوں میں‌ انسان کی آمد و رفت کو آسان بنایا اور اسے تسخیر کرنے کا راستہ بتایا یہی نہیں بلکہ سائنس داں نے اپنی ایک ایجاد کے ذریعے خلا میں گویا پہلا قدم بھی رکھا۔ یہ سائنس داں رابرٹ ایچ گوڈارڈ تھا جسے اس روز خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے اور دنیا اس کے کارنامے کی یاد تازہ کرتی ہے۔

    پہلے خلائی سفر کے بعد، امریکہ اور روس میں خلائی دوڑ شروع ہوئی اور اسی دوڑ نے خلائی سائنس کی ترقّی کی رفتار بھی بڑھا دی۔ 1969 کو امریکی خلا نورد نیل آرمسٹرانگ چاند پر پہنچنے والا پہلا انسان بنا۔ آج دنیا کے مال دار اور طاقت ور خلائی راکٹ اور خلائی جہاز بنانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور سیّاروں‌ کو آباد کرنے کی دوڑ جاری ہے۔ اب تک کم و بیش 44 ممالک اپنے خلائی مشن بھیج چکے ہیں۔ امریکہ کا مشہور خلائی ادارہ ناسا ہے جب کہ روس نے روسکوسموس، چین نے سی این ایس اے کے ذریعے خلا میں قدم رکھنے کی کوششیں‌ شروع کررکھی ہیں جب کہ 22 یورپی ملکوں کا مشترکہ ادارہ یورپین سپیس ایجنسی کہلاتا ہے۔

    انسان بردار خلائی پرواز آج بھی نہ صرف بے حد مشکل بلکہ ایک خطیر رقم کی متقاضی ہے۔ انسان کو خلا تک بہ حفاظت پہنچانے اور طویل مدّت تک وہاں زندہ رہنے کے قابل بنانے کے لیے کئی خصوصی اقدامات کرنا پڑیں گے جس میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ غذائی ضروریات اور کسی حادثے یا بیماری سے نمٹنے کے قابل بنانا بھی شامل ہے۔

    اس تاریخ کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
    12 اپریل کو پہلی مرتبہ انسان نے چاند کی جانب اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس سے قبل خلا میں جانے کا تصوّر سائنس داں گوڈارڈ نے 1899 میں پیش کیا تھا اور یہ بھی بتایا تھاکہ خلا میں جانے کے لیے راکٹ کی ضرورت ہوگی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ مشین کس طرح کی ہوگی اور اسے کیسے بنایا جائے گا۔ ان کے اسی خواب کی اوّلین کام یاب شکل 60 سال بعد دیکھی گئی اور اسی کی مناسبت سے انسانی خلائی پرواز کا عالمی دن 12 اپریل کو منایا جاتا ہے۔

    رابرٹ ایچ گوڈارڈ کے سفرِ زیست اور سائنسی کارناموں پر ایک نظر
    20 ویں صدی عیسوی کے اس باصلاحیت انسان اور عظیم موجد کو آج دنیا میں "فادر آف ماڈرن راکٹری” کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ آج جب دنیا مریخ کے بعد نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں پر کمند ڈالنے کا سوچ رہی ہے تو اس کا سہرا بھی اسی سائنس داں کے سَر جاتا ہے۔ یہ گوڈارڈ ہی تھے جنھوں نے ایک ایسے راکٹ کا تصور پیش کیا تھا جو چاند تک پہنچ سکے۔ انھوں نے اس تصور اور اپنی ایجاد کے ساتھ کئی کام یاب تجربات بھی کیے مگر اس زمانے میں اکثریت کے نزدیک یہ ایک کارِ‌ محض اور بے سود کوشش تھی جب کہ اس طرح‌ کے کسی بھی کام کو کسی شخص کا جنون اور دیوانگی تو کہا جاسکتا تھا، لیکن اسے اہمیت دینے کو لوگ تیار نہ تھے۔ یہی کچھ گوڈراڈ کے ساتھ بھی ہوا اور انھیں تضحیک کا نشانہ بننا پڑا، لیکن اس سائنس داں نے اپنی کوششیں‌ ترک نہ کیں‌ اور جدید راکٹ کے ڈیزائن پر کام کرتے رہے۔

    ان کے والد نے فلکیات میں ان کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے انھیں دوربین خرید کر دی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کو اکثر ایسے دور دراز مقامات پر لے کر جاتے تھے جہاں وہ رات گئے اپنی دوربین کی مدد سے چاند ستاروں کا مشاہدہ کرتے اور نتائج اخذ کرنے کے ساتھ اپنے ذہن میں‌ آنے والے سوالات اور مشاہدے کے نتائج کو نوٹ کرتے جاتے۔ انھوں نے ایک روز اپنی ڈائری میں لکھا کہ "آج پہلی دفعہ مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ میں دوسرے لوگوں سے کچھ مختلف ہوں، مجھے کچھ غیر معمولی کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔” وہ تاعمر ایسا راکٹ بنانے میں جٹے رہے جس کی مدد سے انسان خلا میں آسان اور محفوظ سفر کرسکے۔

    گوڈارڈ نے میسا چوسٹس سے گریجویشن کے بعد کلارک یونیورسٹی سے فزکس میں پی ایچ ڈی کیا تھا اور وہیں‌ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ یہ 1914ء کی بات ہے جب اس موجد نے کئی حصوں پر مشتمل ملٹی اسٹیج راکٹ کا تصور پیش کیا اور پھر 1916 میں اسے لانچ کیا گیا۔

    گواڈرڈ 1882 میں‌ پیدا ہوئے اور دس اگست 1945 کو امریکہ، میری لینڈ میں‌ وفات پائی۔ بعد از مرگ ان کے کام کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا گیا اور امریکہ نے متعدد اعزازات اس موجد کے نام کیے۔

  • خلائی راکٹ کا بے قابو ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا

    خلائی راکٹ کا بے قابو ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا

    خلا میں اس وقت تباہ شدہ راکٹس اور سیٹلائٹس کا ملبہ ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، ایسے ہی ایک راکٹ کا ٹکڑا چاند کی سطح سے جا ٹکرایا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ناسا کا کہنا ہے کہ خلا میں گھومتے بے قابو راکٹ کا ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا ہے۔

    سائنس دانوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ خلا میں کئی سالوں سے زیر گردش ناکارہ راکٹ کا تین ٹن وزنی ٹکڑا چاند کے اس حصے سے ٹکرا گیا ہے جو کہ خلائی دوربین کی نظروں سے اوجھل ہے۔

    اس حوالے سے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر اس تصادم میں چاند پر بہت معمولی اثرات مرتب ہوئے ہوں گے اور ہوسکتا ہے اس سے چاند کی سطح پر چھوٹا گڑھا بننے سے گرد و غبار کے بادل پیدا ہوئے ہوں۔

    تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات کچھ دنوں یا ہفتوں میں سامنے آجائیں گی۔

    سائنس داں اس راکٹ کے ٹکڑے کو کئی سالوں سے ٹریک کر رہے تھے۔ ابتدا میں ان کا خیال تھا کہ اس کا تعلق ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس سے ہے لیکن بعد میں اس کا تعلق چین کے کسی راکٹ سے جوڑا گیا تھا جس پر چین اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری بھی سامنے آئی۔

    ناسا کے مطابق راکٹ کے اس حصے کو مارچ 2015 میں ناسا کی جانب سے ریاست ایری زونا میں ہونے والے اس سروے کے دوران دیکھا گیا تھا۔ بعدازاں سائنس دانوں کی اس میں دلچسپی ختم ہوگئی تھی کیوں کہ وہ ابتدا میں اسے شہاب ثاقب سمجھ رہے تھے۔ اس وقت اسے خلائی کچرا تصور کیا گیا تھا۔

    خلائی کچرا اس وقت ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، یورپین اسپیس ایجنسی کے ایک محتاط اندازے کے مطابق خلا میں زیر گردش کچرے میں 36 ہزار 500 ٹکڑے جسامت میں 10 سینٹی میٹر (4 انچ) سے بھی بڑے ہیں۔

    جبکہ اس کچرے کی مانیٹرنگ کرنے کے لیے ابھی تک کوئی خلائی پروگرام شروع نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ یہ بہت مہنگا کام ہے۔

  • روس 45 برسوں میں پہلی بار چاند کی کھوج دوبارہ شروع کر رہا ہے

    روس 45 برسوں میں پہلی بار چاند کی کھوج دوبارہ شروع کر رہا ہے

    ماسکو: رواں برس خلائی سائنس کے بڑے منصوبے شروع کرتے ہوئے روس برسوں بعد چاند کی کھوج دوبارہ شروع کر رہا ہے، قومی خلائی ادارے کے چیف نے کہا ہے کہ روس 45 برسوں میں پہلی بار چاند کی کھوج دوبارہ شروع کرنے جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روس رواں برس 2021 میں خلائی سائنس میں بڑے منصوبے رکھتا ہے، روس کی جانب سے 29 راکٹ خلا میں چھوڑے جائیں گے۔

    اس سلسلے میں روسی خلائی سرگرمیوں کے لیے قائم روسکوسموس (Roscosmos) کارپوریشن کے سی ای او دمتری روگوزین نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو ہفتے کو بتایا کہ ٹائم ٹیبل کے مطابق روس 2021 میں 29 خلائی راکٹ چھوڑے گا۔

    روسی قومی خلائی ایجنسی کے چیف کا کہنا تھا کہ 2020 میں 17 خلائی راکٹ چھوڑے گئے تھے اور 7 فوجی میزائل لانچ کیے گئے تھے۔

    روگوزین نے کہا کہ رواں برس ہم نے بہت اہم منصوبوں پر عمل درآمد کرنا ہے، 45 برسوں میں پہلی بار ہم چاند کی چھان بین دوبارہ شروع کریں گے۔

    روسی کمپنی کلاشنکوف کا جدید ترین سب مشین گنز کی فراہمی کا اعلان

    انھوں نے بتایا کہ اکتوبر میں اسپیس پورٹ ’ووستوچنی‘ سے گرنے والے ماڈیول (خلائی جہاز سے الگ ہونے والا حصے) کو لانچ کیا جائے گا، اس کے بعد چاند کی خود کار کھوج شروع کی جائے گی، اور پھر آدمی بردار پروگرام شروع کیا جائے گا۔

    روگوزین کا کہنا تھا دو ماڈیولز انٹرنیشنل اسپیس سینٹر (آئی ایس ایس) بھیجے جائیں گے، دونوں جنوبی قازقستان میں قائم اسپیس پورٹ بیکانور پر پہلے سے موجود ہیں، اور ان کے الیکٹرک ٹیسٹ مکمل ہونے جا رہے ہیں، سب سے بڑا ماڈیول نوکا (Nauka) مئی میں لانچ کیا جائے گا، جب کہ انگارہ (Angara) نامی خلائی راکٹ کے ٹیسٹ کا عمل اس دوران جاری رہے گا۔