Tag: خلائی سائنس

  • خلائی پرواز کا عالمی دن اور عظیم موجد گوڈارڈ کا تذکرہ

    خلائی پرواز کا عالمی دن اور عظیم موجد گوڈارڈ کا تذکرہ

    اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 7 اپریل 2011ء کو ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کے تحت ہر سال 12 اپریل کو دنیا ’’انسانی خلائی پرواز کا دن‘‘ مناتی ہے۔ اس کا مقصد روئے زمین سے انسان کی اوّلین خلائی پرواز اور دنیا کے لیے اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

    اسی دن کی مناسبت سے آج ہم آپ کو اس سائنس داں کے بارے میں بتارہے ہیں جس نے آسمان کی وسعتوں میں‌ انسان کی آمد و رفت کو آسان بنایا اور اسے تسخیر کرنے کا راستہ بتایا یہی نہیں بلکہ سائنس داں نے اپنی ایک ایجاد کے ذریعے خلا میں گویا پہلا قدم بھی رکھا۔ یہ سائنس داں رابرٹ ایچ گوڈارڈ تھا جسے اس روز خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے اور دنیا اس کے کارنامے کی یاد تازہ کرتی ہے۔

    پہلے خلائی سفر کے بعد، امریکہ اور روس میں خلائی دوڑ شروع ہوئی اور اسی دوڑ نے خلائی سائنس کی ترقّی کی رفتار بھی بڑھا دی۔ 1969 کو امریکی خلا نورد نیل آرمسٹرانگ چاند پر پہنچنے والا پہلا انسان بنا۔ آج دنیا کے مال دار اور طاقت ور خلائی راکٹ اور خلائی جہاز بنانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور سیّاروں‌ کو آباد کرنے کی دوڑ جاری ہے۔ اب تک کم و بیش 44 ممالک اپنے خلائی مشن بھیج چکے ہیں۔ امریکہ کا مشہور خلائی ادارہ ناسا ہے جب کہ روس نے روسکوسموس، چین نے سی این ایس اے کے ذریعے خلا میں قدم رکھنے کی کوششیں‌ شروع کررکھی ہیں جب کہ 22 یورپی ملکوں کا مشترکہ ادارہ یورپین سپیس ایجنسی کہلاتا ہے۔

    انسان بردار خلائی پرواز آج بھی نہ صرف بے حد مشکل بلکہ ایک خطیر رقم کی متقاضی ہے۔ انسان کو خلا تک بہ حفاظت پہنچانے اور طویل مدّت تک وہاں زندہ رہنے کے قابل بنانے کے لیے کئی خصوصی اقدامات کرنا پڑیں گے جس میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ غذائی ضروریات اور کسی حادثے یا بیماری سے نمٹنے کے قابل بنانا بھی شامل ہے۔

    اس تاریخ کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
    12 اپریل کو پہلی مرتبہ انسان نے چاند کی جانب اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس سے قبل خلا میں جانے کا تصوّر سائنس داں گوڈارڈ نے 1899 میں پیش کیا تھا اور یہ بھی بتایا تھاکہ خلا میں جانے کے لیے راکٹ کی ضرورت ہوگی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ مشین کس طرح کی ہوگی اور اسے کیسے بنایا جائے گا۔ ان کے اسی خواب کی اوّلین کام یاب شکل 60 سال بعد دیکھی گئی اور اسی کی مناسبت سے انسانی خلائی پرواز کا عالمی دن 12 اپریل کو منایا جاتا ہے۔

    رابرٹ ایچ گوڈارڈ کے سفرِ زیست اور سائنسی کارناموں پر ایک نظر
    20 ویں صدی عیسوی کے اس باصلاحیت انسان اور عظیم موجد کو آج دنیا میں "فادر آف ماڈرن راکٹری” کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ آج جب دنیا مریخ کے بعد نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں پر کمند ڈالنے کا سوچ رہی ہے تو اس کا سہرا بھی اسی سائنس داں کے سَر جاتا ہے۔ یہ گوڈارڈ ہی تھے جنھوں نے ایک ایسے راکٹ کا تصور پیش کیا تھا جو چاند تک پہنچ سکے۔ انھوں نے اس تصور اور اپنی ایجاد کے ساتھ کئی کام یاب تجربات بھی کیے مگر اس زمانے میں اکثریت کے نزدیک یہ ایک کارِ‌ محض اور بے سود کوشش تھی جب کہ اس طرح‌ کے کسی بھی کام کو کسی شخص کا جنون اور دیوانگی تو کہا جاسکتا تھا، لیکن اسے اہمیت دینے کو لوگ تیار نہ تھے۔ یہی کچھ گوڈراڈ کے ساتھ بھی ہوا اور انھیں تضحیک کا نشانہ بننا پڑا، لیکن اس سائنس داں نے اپنی کوششیں‌ ترک نہ کیں‌ اور جدید راکٹ کے ڈیزائن پر کام کرتے رہے۔

    ان کے والد نے فلکیات میں ان کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے انھیں دوربین خرید کر دی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کو اکثر ایسے دور دراز مقامات پر لے کر جاتے تھے جہاں وہ رات گئے اپنی دوربین کی مدد سے چاند ستاروں کا مشاہدہ کرتے اور نتائج اخذ کرنے کے ساتھ اپنے ذہن میں‌ آنے والے سوالات اور مشاہدے کے نتائج کو نوٹ کرتے جاتے۔ انھوں نے ایک روز اپنی ڈائری میں لکھا کہ "آج پہلی دفعہ مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ میں دوسرے لوگوں سے کچھ مختلف ہوں، مجھے کچھ غیر معمولی کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔” وہ تاعمر ایسا راکٹ بنانے میں جٹے رہے جس کی مدد سے انسان خلا میں آسان اور محفوظ سفر کرسکے۔

    گوڈارڈ نے میسا چوسٹس سے گریجویشن کے بعد کلارک یونیورسٹی سے فزکس میں پی ایچ ڈی کیا تھا اور وہیں‌ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ یہ 1914ء کی بات ہے جب اس موجد نے کئی حصوں پر مشتمل ملٹی اسٹیج راکٹ کا تصور پیش کیا اور پھر 1916 میں اسے لانچ کیا گیا۔

    گواڈرڈ 1882 میں‌ پیدا ہوئے اور دس اگست 1945 کو امریکہ، میری لینڈ میں‌ وفات پائی۔ بعد از مرگ ان کے کام کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا گیا اور امریکہ نے متعدد اعزازات اس موجد کے نام کیے۔

  • خلائی سائنس میں کویت کی بڑی کام یابی

    خلائی سائنس میں کویت کی بڑی کام یابی

    کویت سٹی: کویت نے ریاست کا پہلا سائنسی تجربہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن بھیجنے میں کامیابی حاصل کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق کویت فاؤنڈیشن فار ایڈوانسمنٹ آف سائنسز کے سائنٹفک سینٹر کے ڈائریکٹر جنرل رانا النبری نے اعلان کیا کہ ریاست نے پہلا سائنسی تجربہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن بھیج دیا، جو کویت کے لیے ایک تاریخی کامیابی ہے۔

    انھوں نے اپنے ایک بیان میں سائنٹفک سینٹر کے 4 طلبہ کے ڈیزائن کردہ تجربے کی کامیابی پر فخر کا اظہار کیا، ان کا کہنا تھا کہ طلبہ نے کرونا وبا کی وجہ سے بہت مشکل حالات میں یہ تجربہ ڈیزائن کیا۔

    النبری نے بتایا کہ اسپیس ایکس کے ذریعے ڈیزائن کیا گیا فالکن 9 راکٹ اتوار کے روز امریکا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے لانچ کیا گیا۔

    انھوں نے مزید بتایا کہ اس تجربے کا انتخاب آربیٹل اسپیس (یو اے ای کی کمپنی) کے تعاون سے سائنٹفک سینٹر کے 2019 کے سالانہ ایونٹ میں ہونے والے ایک مقابلے میں کیا گیا تھا، یہ کیوب سیٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے خلا تک رسائی فراہم کرتا ہے۔

    آربیٹل اسپیس کے بانی اور جنرل منیجر ڈاکٹر بسام الفیلی نے کویتی نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور خلائی سائنس کے شعبے کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے پر سائنٹفک سینٹر کی کاشوں کو سراہا۔

    آربیٹل اسپیس کی تعلیمی سرگرمیوں اور مواصلات کی ڈائریکٹر نادا الشمری نے کہا کہ اس تجربے کو مکمل کرنے اور طلبہ کے خواب کو پورا کرنے کے لیے تمام مطلوبہ سامان مہیا کرنے اور ان کے لیے مناسب ماحول پیدا کرنے کے لیے سائنٹفک سینٹر کے ساتھ ناسا اور بین الاقوامی کمپنیوں نے بھی تعاون کیا۔

    انھوں نے کہا کہ ہم نوجوانوں کو سائنسی مواقع فراہم کر کے ان کی صلاحیتوں کی نشوونما کرتے رہیں گے۔