Tag: خلائی سفر

  • شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے خلا میں جانا بھی ممکن ہوگیا

    شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے خلا میں جانا بھی ممکن ہوگیا

    ویسے تو دنیا بھر میں شادیوں کے لیے نئے نئے ٹرینڈز متعارف کروائے جارہے ہیں جس کے لیے دلہا، دلہن اور ان کے اہلخانہ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔

    تاہم امریکی خلائی کمپنی نے سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے شادیوں کے لیے ایک نیا ٹرینڈ متعارف کروایا ہے، زمین کا دور اب گیا، اب انسانوں کی شادیاں 1 لاکھ فٹ کی بلندی پر ہوں گی۔

    امریکی خلائی کمپنی اسپیس پرسپیکٹیو نے شادی کرنے کے لیے ایک ناقابل یقین مقام متعارف کروایا ہے۔

    یہ کمپنی جوڑوں کو ایک کاربن نیوٹرل غبارے میں خلا میں بھیجے گی، اس شاندار کاربن غبارے میں ہی وہ شادی کے بندھ میں بندھ جائیں گے، اس غبارے میں کھڑکیاں بھی موجود ہوں گی جس سے شادی شدہ جوڑا زمین کے بہترین نظاروں سے لطف اندوز ہوسکے گا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by David Grutman (@davidgrutman)

    اس غبارے کی پرواز 6 گھنٹے کی ہوگی جس میں مسافروں کو زمین سے 1 لاکھ فٹ کی بلندی پر لے جایا جائے گا۔ اس پرواز میں 8 مسافر اور ایک پائلٹ کی جگہ ہوگی۔

    اسپیس پرسپیکٹیو کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق اس خصوصی پرواز کے دوران مسافروں کو شاندار کاک ٹیل اور لذیز کھانے ملیں گے جبکہ آسمان سے نیچے زمین کے ناقابل یقین نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سفر کے لیے بہترین گانوں کی پلے لسٹ بھی موجود ہوگی۔

    اس کے علاوہ اس غبارے میں بیت الخلا اور وائی فائی بھی ہوگا جو مسافروں کو اپنے دوستوں اور اہل خانہ سے رابطے میں مدد دے گا۔

    اس منفرد تجربے کی قیمت 3 کروڑ 40 لاکھ روپے سے زائد ہے، کمپنی کی جانب سے اس پروگرام کو 2024 میں شروع کیے جانے کا امکان ہے، رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اس پروگرام کے پہلے ہی ایک ہزار ٹکٹ فروخت ہو چکے ہیں۔

  • سعودی عرب خلا میں بھی جھنڈے گاڑنے کو تیار: سعودی خلا بازوں کا سفر آج شروع ہوگا

    سعودی عرب خلا میں بھی جھنڈے گاڑنے کو تیار: سعودی خلا بازوں کا سفر آج شروع ہوگا

    ریاض: سعودی عرب کے 2 خلا باز آج خلائی سفر کے لیے روانہ ہوجائیں گے جس کے بعد سعودی عرب خلائی میدان میں بھی تاریخ رقم کردے گا۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی سپیس اتھارٹی خلائی سفر پر جانے والے دنوں خلا بازوں کی تیاری آخری مرحلے میں ہے، اتوار 21 مئی کو انہیں خلائی اسٹیشن پہنچا دیا جائے گا۔

    بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر جانے والوں میں پہلی سعودی خلا باز خاتون ریانہ برناوی اور علی القرنی شامل ہیں۔

    21 مئی کو دونوں سعودی خلا باز ماہرین کی ایک ٹیم کے ساتھ انٹرنیشنل خلائی اسٹیشن کے لیے روانہ ہوں گے جہاں سے ان کے خلائی سفر کا آغاز ہوگا۔

    سعودی سپیس اتھارٹی کا کہنا ہے کہ خلائی سفرکا پروگرام 22 ستمبر 2022 کو جاری کیا گیا تھا، گروپ میں شامل خلا باز مختلف سائنسی تجربات کریں گے جومائیکرو گریوٹی پر مشتمل ہیں۔

    اتھارٹی نے بیان میں مزید کہا کہ دونوں سعودی خلا باز فالکن 9 نام راکٹ کے ذریعے اپنے خلائی سفر کا آغاز کریں گے۔

    قبل ازیں میڈیا سے گفتگو میں سعودی خلا بازوں ریانہ برناوی اور علی القرنی نے تاریخی خلائی مشن کا حصہ بننے پر جوش اور فخر کا اظہار کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ وہ 21 مئی کو مقررہ وقت پر بین الاقوامی خلائی اسٹیشن جانے والے خلائی مشن کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں۔

  • سوا لاکھ ڈالر میں خلائی سفر ممکن ہو گیا

    سوا لاکھ ڈالر میں خلائی سفر ممکن ہو گیا

    فلوریڈا: ایک امریکی فضائی کمپنی نے عام لوگوں کے لیے تاریخ میں پہلی بار خلائی سفر کو مناسب قیمت میں ممکن بنا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اب سوا لاکھ ڈالر میں خلائی سفر ممکن ہو گیا ہے، یہ سفر ہائیڈروجن سے چلنے والے ایک بڑے غبارے میں کیا جائے گا، جو فضا کی بلندیوں تک پرواز کر سکتا ہے۔

    انسانی تاریخ میں پہلی بار کم قیمت میں خلائی ٹور کرانے کی یہ پیش کش فلوریڈا میں قائم اسپیس ٹورازم کمپنی اسپیس پریسپکٹیو (Space Perspective) نے کی ہے، کمپنی نے اعلان کیا کہ گرم ہوا کے غبارے کے ذریعے فضائی غلاف تک ایک لاکھ 25 ہزار ڈالر میں سیر کرایا جائے گا۔

    یہ سفر 6 گھنٹے پر مبنی ہوگا، 2 گھنٹے میں یہ 32 کلو میٹر کی بلندی پر پہنچے گا، اور پھر دو گھنٹے تک غبارہ زمین کے اوپر تیرے گا، اس کے بعد دو گھنٹوں میں یہ نیچے اترے گا۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ نیپچون خلائی جہاز پر سوار ہو کر لوگ ایک لگژری سفر کا تجربہ کر سکیں گے، اور یہ اس حوالے سے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، اس خلائی سفر کے دوران مسافر گرم ہوا کے غبارے میں گھومنے والی کرسیوں اور پینورامک کھڑکیوں کی مدد سے زمین اور خلا کے نظاروں سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔

    جون 18 کو نیپچون ون نامی اس غبارے نے ٹیسٹ فلائٹ کامیابی سے مکمل کی تھی، جس کے بعد کمپنی نے 2024 سے باقاعدہ سفر کے لیے بکنگ شروع کر دی، کمپنی کے مطابق 2024 کی پروازیں ابھی سے فروخت ہو چکی ہیں اور اب 2025 کی فلائٹس کی فروخت جاری ہے۔

    لگژری سفر کے دوران غبارے میں تمام ضروری سہولتیں میسر ہوں گی، مشروبات کا انتظام ہوگا، ٹوائلٹ بھی بنائے گئے ہیں، واضح رہے کہ عام طور سے اس طرح کا خلائی سفر بہت زیادہ لاگت طلب ہوتا ہے، عام اسپیس راکٹ میں یہ سفر اس لیے مہنگا ثابت ہوتا ہے کہ اسے لانچ کرنے کے لیے لاکھوں پاؤنڈ کے ایندھن کی ضرورت پڑتی ہے۔

    اس نئے فضائی سفرمیں ایک ٹرپ میں صرف 8 افراد کے غبارے میں سوار ہونے کی گنجائش ہے، اور یہ غبارہ ساڑھے 600 فٹ اونچا ہے جو ہائیڈروجن گیس کے ذریعے خلا میں اڑنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

  • کیا خلائی سفر سے واپسی پر خلا باز مذہب اور روحانیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں؟

    کیا خلائی سفر سے واپسی پر خلا باز مذہب اور روحانیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں؟

    امریکی خلائی ادارے ناسا سمیت دنیا بھر میں مختلف خلائی ادارے خلا میں جانے اور وہاں نئی نئی ریسرچز کرنے میں مصروف عمل ہیں، ایسے میں خلا میں جانے والے زمینی باشندوں کے جسم پر پڑنے والے اثرات کا بھی بغور مشاہدہ کیا جاتا ہے۔

    یہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ خلا میں جانے کے بعد خلا بازوں کے جسم اور دماغ پر مختلف اثرات رونما ہوتے ہیں جو زمین پر واپسی کے کچھ عرصے تک قائم رہتے ہیں۔

    جسمانی تبدیلیوں کے علاوہ ان کے ذہن و نفسیات میں بھی مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

    بعض بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق خلا میں جانے والے خلا باز اپنے سفر کے دوران مذہب اور روحانیت کی طرف بھی مائل ہوجاتے ہیں۔

    خلا میں جانے والے پہلے امریکی جان گلین نے، جو خلا میں جانے والے دنیا کے تیسرے شخص تھے، اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ کوئی مذہبی انسان نہیں تھے تاہم جب وہ خلا میں تھے تب باقاعدگی سے عبادت کرنے لگے تھے۔

    جان کا کہنا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ جب آپ عقل سے ماورا ایک غیر معمولی مقام پر ہوں اور کائنات کی بے کراں وسعت کو دیکھ سکتے ہوں، تو ایسے میں آپ خدا کو نہ یاد کریں، اگر آپ خدا کو نہ بھی مانتے ہوں گے تو ایسے موقع پر اس کے جاہ و جلال پر ایمان لے آئیں گے۔

    سنہ 1968 میں اپالو 8 مشن پر چاند پر جانے والے امریکی و برطانوی خلا بازوں نے بھی اپنی منزل پر پہنچ کر بائبل کی آیات پڑھیں جنہیں پوری دنیا نے براہ راست ٹی وی نشریات پر دیکھا۔

    اسی طرح چاند پر قدم رکھنے والے اولین انسانوں نیل آرمسٹرونگ اور بز آلڈرن نے بھی چاند پر پہنچ کر سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور عبادت کی۔

    سنہ 1985 میں سعودی شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز خلا میں جانے والے پہلے مسلمان بنے جنہوں نے زمین کے مدار کے گرد چکر لگاتے ہوئے قرآنی آیات کی تلاوت کی۔

    شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز

    مذہب کا یہ سفر یہیں ختم نہیں ہوتا، خلائی سفر سے واپسی کے بعد خلا بازوں کی زندگی میں عظیم تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کئی خلاباز ایسے تھے جو ریٹائر ہونے کے بعد مذہبی سرگرمیوں و مذہبی ریسرچ سے وابستہ ہوگئے۔

    ناسا نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ خلا سے واپسی کے بعد خلا باز عموماً روحانیت اور فلاح انسانیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔

    زمین سے دور اندھیرے اور لامحدود خلا میں رہنا انہیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ خدا نے انہیں زمین جیسی نہایت خوبصورت نعمت سے نواز رکھا ہے۔

    اکثر خلا باز اپنے انٹرویوز میں یہ کہتے بھی دکھائی دیے کہ وہ جنگوں اور خونریزی سے نفرت کرنے لگے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام انسان امن اور محبت سے رہیں۔

    خلا بازوں کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں دنیا کے صاحب ثروت اور مراعات یافتہ افراد، مشکلات کا شکار افراد کی مدد کریں کیونکہ وہ سب ایک خاندان کی طرح ہیں جنہیں خدا نے اس زمین پر اتارا ہے۔

    اکثر خلا بازوں نے کہا کہ زمین جیسی خوبصورت نعمت کے ہوتے ہوئے نفرت کا پرچار کرنا، دوسرے انسانوں کو اپنے سے کمتر سمجھنا اور زمین کی خوبصورتی کو تباہ کرنا کفران نعمت ہے، زمین دنیا کے تمام انسانوں کا مشترکہ اثاثہ ہے اور سب کو اس کی قدر کرنی چاہیئے۔

  • ناسا کی خاتون انجینیئر چاند کے تاریخی سفر کے لیے پرعزم

    ناسا کی خاتون انجینیئر چاند کے تاریخی سفر کے لیے پرعزم

    چاند پر قدم رکھنا انسان کا وہ خواب تھا جو ہزاروں سال سے شرمندہ تعبیر ہونے کا منتظر تھا، یہی وجہ ہے کہ جب پہلے انسان نے چاند پر قدم رکھا تو یہ انسانی ترقی و ارتقا کا ایک نیا باب قرار پایا۔

    اب بہت جلد ایک خاتون کو بھی چاند کی طرف بھیجا جانے والا ہے، امریکی خلائی ادارہ ناسا اس خلائی منصوبے پر کام کر رہا ہے اور امید ہے کہ وہ سنہ 2024 میں پہلی خاتون کو چاند پر بھیجنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

    اس منصوبے میں ایک خاتون انجینیئر ہیتھر پال بھی شامل ہیں، پال گزشتہ 25 برسوں سے ناسا سے منسلک ہیں اور فی الوقت وہ اس اسپیس کرافٹ پر کام کر رہی ہیں جو پہلی خاتون کو چاند پر لے کر جانے والا ہے۔

    پال کا کہنا ہے کہ گزشتہ 25 برسوں میں انہوں نے بہت سے رجحانات کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے، انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ اب اس شعبے میں بھی بہت سی خواتین آرہی ہیں اور انہیں مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔

    چاند پر واپسی کے اس سفر کو قدیم یونان کے چاند کے معبود ’ارٹمیس‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ ارٹمیس دیوی، اپالو کی جڑواں بہن تھی اور اپالو اس خلائی مشن کا نام رکھا گیا جو پہلے انسان کو چاند کی طرف لے کر گیا۔

    اس مشن کے لیے امریکی صدر ٹرمپ نے ناسا کے بجٹ میں ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کا اضافہ کیا ہے تاکہ ٹیکنالوجی اور خلائی میدان میں ایک اور تاریخ رقم کی جاسکے۔

  • سب سے زیادہ خلائی سفرکرنے والے جان ینگ چل بسے

    سب سے زیادہ خلائی سفرکرنے والے جان ینگ چل بسے

    واشنگٹن : خلاء میں سب سے زیادہ سفر کرنے کا ا عزاز حاصل کرنے والے امریکی خلاء نورد جان ینگ87عمر میں چل بسے ، وہ چاند کی سطح پر چلنے والے نویں خلاء نورد تھے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے اعلان کیا ہے کہ 6 مرتبہ خلاء کا سفر کرنے والے دنیا کے پہلے انسان جان ینگ 87 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔

    جان ینگ پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلاتھے، ناسا کے مطابق 42 سال پر محیط کیریئر میں جان ینگ وہ وہ واحد خلاء نورد تھے جو جیمینی اور اپولو پروگرام کے علاوہ اسپیس شٹل پروگرام کا حصّہ بن کر خلاء میں گئے۔

    مجموعی طور پر وہ خلاء میں سب سے زیادہ عرصہ گزارنے کا ریکارڈ رکھتے تھے۔

    ناسا کے قائم مقام ایڈمنسٹریٹر رابرٹ لائٹ فٹ کا کہنا ہے کہ جان ینگ امریکی خلائی ایجنسی کے سب سے زیادہ تجربہ کار خلانورد تھے۔

    جان ینگ خلاء میں سب سے پہلے جانے والے اس گروپ میں شامل تھے جن کی بہادری اور عزم وہمت نے ہمارے ملک کیلئے پہلی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔

    مرحوم بنیادی طور پر ایک ایوی ایشن انجینئر تھے جنہوں نے بعد ازاں ناسا کے لئے اپنی خدمات انجام دیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر ضرور شیئر کریں۔

  • زحل کے حلقوں کے درمیان خلائی جہاز کا غوطہ

    زحل کے حلقوں کے درمیان خلائی جہاز کا غوطہ

    خلائی جہاز کیسینی نظام شمسی کے چھٹے سیارے زحل اور اس کے گرد موجود دائرے یا مدار کے درمیان پہنچ گیا ہے۔

    عالمی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ یہ زحل کا وہ مقام ہے جہاں آج سے پہلے کوئی خلائی جہاز نہیں پہنچ سکا ہے۔

    یہ کیسینی کے سفر کا آخری مرحلہ ہے جس کے بعد یہ زحل کے اندر گر کر تباہ ہوجائے گا۔

    اس موقع پر گوگل نے بھی اس کامیابی کا جشن مناتے ہوئے اپنے ڈوڈل کو اس سفر کے منظر سے سجا دیا۔

    کیسینی کا سفر

    کیسینی خلائی جہاز کو سنہ 1997 میں زمین سے زحل کی جانب بھیجا گیا تھا اور یہ جولائی 2004 میں وہاں پہنچا تھا۔

    گزشتہ 13 سالوں سے یہ خلائی جہاز زحل سے ایک محفوظ فاصلے پر اس کے بارے میں تحقیق اور تصاویر زمین کی طرف روانہ کر رہا تھا۔

    اس دوران اس نے زحل کے گرد قائم دائروں یا حلقوں اور اس کے چاندوں کی تصاویر بھی بھیجی ہیں۔

    اس سارے سفر کے دوران کیسینی زحل سے ایک محفوظ فاصلے پر رہا ہے اور اس نے زحل کی فضا یا اس کے حلقوں سے ٹکرانے کی کوشش نہیں کی۔

    اب یہ اس کے سفر کا آخری مرحلہ ہے جس میں یہ زحل کی فضا اور اس کے حلقوں کے گرد تقریباً 22 غوطے لگائے گا۔

    گزشتہ روز لگایا جانے والا غوطہ سیارہ زحل اور اس کے سب سے قریبی حلقے کے درمیان تھا جو تقریباً 24 سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔

    کیسینی کے سفر کی تصوراتی منظر کشی

    کیسینی کا یہ سفر ستمبر تک جاری رہے گا جس کے بعد اس میں ایندھن ختم ہوجائے گا اور یہ 15 ستمبر کو زحل کی فضا میں اپنا آخری غوطہ لگا کر فنا ہوجائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خلا میں جانے والوں کی غاروں میں تربیت

    خلا میں جانے والوں کی غاروں میں تربیت

    تاریخ انسانی میں پہلی بار جب انسان چاند کے کامیاب سفر سے واپس لوٹا تو اسے چاند اور پھر زمین کے ماحول سے مطابقت کرنے میں بہت دقت پیش آئی۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین، اور زمین سے باہر خلا میں موجود ہر شے کا ماحول مختلف ہے۔ صرف خلا میں سفر کرنا ہو، یا چاند یا کسی اور سیارے پر قدم رکھ کر وہاں کی سرزمین کا مشاہدہ کرنا ہو، زمین سے جانے والوں کو اس ماحول سے مطابقت کرنے میں کچھ دقت ہوتی ہے۔

    اسی طرح کئی دن خلا میں گزارنے کے بعد جب خلا باز واپس زمین پر آتے ہیں، تو اب وہ خلا کے ماحول کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں اور انہیں زمین کے گرد و پیش سے مطابقت کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: خلا میں دانت کیسے برش کیے جاتے ہیں؟

    اس سلسلے میں سب سے اہم عنصر کشش ثقل ہے۔ زمین پر موجود کشش ثقل، یعنی ہر چیز کو نیچے کی طرف رکھنے والی قوت، زمین کی حدود سے باہر نکلتے ہی ختم ہوجاتی ہے اور اب آپ خلا کی بے کراں وسعتوں میں الٹے سیدھے تیر رہے ہوتے ہیں، کیونکہ وہاں ایسی کوئی قوت نہیں جو آپ کو سطح پر جکڑ کر رکھے۔

    ایک اور پہلو وہ حالات ہیں جو زمین سے باہر پیش آتے ہیں۔ مثلا پانی یا غذا کی عدم دستیابی، خلا میں بکھری چٹانوں کے ٹکڑوں کا سامنا، ممکنہ طور پر پہاڑوں کی موجودگی۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    یہ وہ ماحول ہے جو سائنسدانوں کو زمین پر رہتے، ایک عام زندگی گزارتے ہوئے میسر نہیں ہوتا لہٰذا جب خلا میں اس گر دو پیش میں وہ کسی مشکل میں پھنستے ہیں تو بعض اوقات ان کی عقل کام کرنا چھوڑ جاتی ہے اور وہ کسی حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔

    غار کس طرح خلا سے مشابہہ؟

    خلا بازوں کی اس کمزوری پر قابو پانے کے لیے یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے نے سنہ 2011 میں ایک تربیتی پروگرام کا آغاز کیا جس کے تحت خلا بازوں کو غاروں میں رکھا جانے لگا۔

    پرگرام میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ غاروں میں دنیا سے کٹ کر رہنا، اور پانی، خوراک اور دیگر وسائل کی عدم موجودگی کم و بیش وہی حالات ہیں جو خلا میں پیش آتے ہیں۔

    caves-4

    اسی طرح غاروں میں موجود چٹانیں، پانی اور ان کے باعث پیدا ہونے مختلف حالات جیسے چٹانوں کا ٹوٹنا یا پانی میں جوار بھاٹا اٹھنا وغیرہ خلا میں جانے والوں کو ایک اشارہ دیتے ہیں کہ ان کے خلا میں گزارے جانے والے دن کیسے ہوسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خلا نوردوں کے لیے زمین سے کھانے کی ترسیل

    یورپی خلائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے مختلف سیاروں اور زمین پر پائے جانے والے مختلف غاروں کی تصاویر کو بغور دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ دنوں مقامات میں بے حد مشابہت ہے۔

    caves-3

    غاروں کے قدیم پتھر اور چٹانیں وقت کے طویل ارتقا کی گواہ ہوتی ہیں، لہٰذا ان کو دیکھنا، ان پر تحقیق کرنا اور ان کا جائزہ لینا خلا بازوں کے لیے دراصل ایک تربیت ہوگی کہ وہ خلا میں جا کر کس طرح کام کریں گے۔

    غار میں رہائش کے دوران خلا باز ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کے لیے مختلف سرنگوں سے، بیٹھ کر، لیٹ کر اور رینگ کر گزرتے ہیں لہٰذا یہ کٹھن تربیت انہیں خلائی سفر کے لیے تیار کر رہی ہوتی ہے۔

    caves-2

    یہ پروگرام ان خلا بازوں کے بے حد فائدہ مند ہے جو طویل خلائی سفر کے لیے جا رہے ہوں اور خاص طور پر ان کا مشن کسی سیارے پر اتر کر زندگی کو ڈھونڈنا ہو۔

    یورپی ایجنسی اس پروگرام کے تحت اب تک کئی خلا بازوں کی خلا میں جانے سے پہلے تربیت کر چکی ہے۔

    ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس پروگرام سے خلا بازوں کی نئی آنے والی نسلیں زمین سے باہر کے حالات کے بارے میں واقف ہوتی جائیں گی یوں ان کی صلاحیتوں اور استعداد میں اضافہ اور کسی خطرے کا شکار ہونے کے امکان میں کمی ہوگی۔