Tag: خلافت عثمانیہ

  • تاریخِ عالم: بوسنیا و ہرزیگوینا اور مسلمان

    تاریخِ عالم: بوسنیا و ہرزیگوینا اور مسلمان

    بوسنیا و ہرزیگوینا (عرف عام میں بوسنیا) جنوب مشرقی یورپ میں کروشیا، سربیا، مونٹینیگرو اور Adriatic Sea کی حدود سے ملحقہ آزاد ریاست ہے جس کا دارالحکومت سرائیوو ہے۔ زمینی خد و خال پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کا زیادہ تر علاقہ پہاڑوں اور سر سبز و دل موہ لینے والی وادیوں پر مشتمل ہے۔

    ابتدائی تاریخ: تاریخ بتاتی ہے کہ اِس خطۂ زمین کو الیرینز (Illyrians) قبائل کے لوگوں نے تقریباً سات سو صدی قبل مسیح میں آباد کیا۔ محققین لکھتے ہیں کہ الیرینز اور سلطنتِ روم کے درمیان اِس خطے کے حصول کے لیے پہلی لڑائی قبل مسیح میں ہوئی جس کے بعد یہ سلسلہ وقفہ وقفہ سے چلتا رہا اور دوسری صدی عیسوی میں دو بڑی لڑائیاں ہوئیں جس کے بعد سلطنتِ روم کی افواج نے بادشاہ آگستس کی قیادت میں خطہ کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا۔ سلطنت کا حصہ بننے کے بعد رومنوں نے اسے ترقی دی۔ رومی سلطنت کے باشندوں کی آباد کاری نے اس علاقے میں نئی جدید تہذیب کی بنیاد رکھی جو پہلے قبائل میں موجود نہ تھی۔ تین سو تیس عیسوی میں رومن سلطنت کے بادشاہ نے سلطنت کے امور کو بہتر طریقے سے سر انجام دینے کے لیے اسے دو حصوں میں تقسیم (بازنطینہ اور مغربی سلطنتِ روم) کیا تو یہ خطّہ (بوسنیا و ہرزیگوینا) مغربی سلطنتِ روم کا حصہ بن گیا۔ بعد میں‌ کئی ادوار گزرے اور تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک وہ وقت آیا جب سیاست کے نتیجے میں اقتدار، زمین اور وسائل کی جنگ زور پکڑ گئی اور مقامی لوگوں کے درمیان حکومت کے لیے کھینچا تانی کا اختتام خلافتِ عثمانیہ میں اس خطّے کی شمولیت پر ہوا-

    اسلام کی آمد: بوسنیا میں اسلام کی آمد 15 ویں صدی عیسوی میں مسلمان فاتحین کے یہاں آنے سے ہوئی۔ سلطان محمد فاتح نے بوسنیا کو فتح کیا اور یہ علاقہ خلافتِ عثمانیہ کا حصہ بنا اور مسلمان تاجروں اور فوجی جو وہاں آ کر بسے ان کی بدولت اسلام کی تبلیغ اور قبولیت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ بعد ازاں 16 ویں صدی میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام نے نمایاں کردار ادا کیا جن میں مختلف سلاسل کے بزرگوں کے نام لیے جاتے ہیں۔

    عہدِ اسلامی: خلافتِ عثمانیہ کی مثبت پالیسیوں نے بوسنیا کو معاشی، دفاعی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا۔ عہدِ خلافتِ عثمانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کی زندگی پر بھی توجہ دی گئی۔ انتظامی، قانونی اور سیاسی نظام میں تبدیلیوں نے علاقہ کی ترقی میں خاص کردار ادا کیا۔ قرآنی احکامات اور دین کی امن و بھائی چارے کی تعلیمات کے ذریعے مختلف مکاتب کے مابین فاصلہ کو کم کرنے پر توجہ دی گئی اور اس میں مشائخ و صوفیا نے کلیدی کردار ادا کیا۔

    اسلامی مقامات: آج بھی بوسنیا کے تاریخی مقامات میں اسلامی تہذیب و ثقافت چھلکتی ہے اور وہاں‌ کئی مساجد اور بزرگوں کے مزارات موجود ہیں۔ اس کی مثال غازی خسرو بیگ مسجد، مسجدِ سفید، بادشاہی مسجد اور محمد پاشا مسجد ہیں۔ غازی خسرو جنگِ ہسپانیہ کا ہیرو تھا جو بعد ازاں 1521 میں بوسنین صوبہ کا گورنر بنا، اسی کے نام پر غازی خسرو بیگ مسجد 1557 میں تعمیر کی گئی تھی۔

    ریاست بوسنیا و ہرزیگوینا نے یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے پر 1992 میں آزادی حاصل کی۔

  • مسلمانوں کا یورپ اور سلطنتِ عثمانیہ

    مسلمانوں کا یورپ اور سلطنتِ عثمانیہ

    اگرچہ گیارہویں سے تیرہویں صدی تک جاری رہنے والی صلیبی جنگیں بالآخر ختم ہو گئی تھیں مگر عیسائی اور مسلمان اپنے اقتدار کو مضبوط بناتے ہوئے مزید فتوحات کے خواہاں تھے جس میں پورپ ترکوں کے اقتدار اور سلطنتِ عثمانیہ کی طاقت سے خوف زدہ نظر آتا تھا۔

    ابتدائے اسلام اور زمانۂ خلافت کی فتوحات اور یورپ میں‌ قدم رکھنے کے بعد مسلمانوں میں ترکوں نے دنیا کی سب سے مضبوط اور طویل عرصے تک قائم رہنے والی اسلامی سلطنت (عثمانیہ) کی بنیاد رکھی تھی اور یورپ میں نورِ اسلام کا بول بالا ہوا تھا، حجاز کی فتح کے بعد عثمانی حکم رانوں نے اقتدار کو ’’خلافتِ عثمانیہ‘‘ کا نام دے کر عالمِ اسلام کی قیادت کی۔

    مسلمانوں نے مختلف ادوار میں مختلف بحیرۂ روم کے کئی جزائر فتح کیے۔ سب سے پہلے حضرت عثمانؓ کے دور میں 653ء میں قبرص فتح ہوا۔ 672ء میں روڈس جو عہد معاویہؓ کی فتح ہے اور اسی طرح 825ء میں کریٹ، 827ء میں سسلی (صقلی)، 869ء میں مالٹا، 902ء میں جزائر بلیارک اور 1015ء میں سارڈینیا کی فتح مسلمانوں کا مقدر بنی۔ اموی دور میں مسلمانوں نے یورپ کی طرف توجہ دی تھی اور اس کے ایک بڑے حصّے کو فتح کرلیا گیا۔

    مسلمانوں نے اسپین پر آٹھ سو سال حکومت کی۔ سسلی صدیوں تک اسلامی تہذیب کا گہوارہ رہا۔ 842ء میں مسلمانوں نے اٹلی کا شہر مسینا (Messina) اور 877ء میں دارالحکومت سیراکیوز فتح کیا۔ اٹلی کے ساحلی شہر فتح کرنے کے بعد جنوبی اٹلی پر ڈیڑھ سو سال حکومت کی۔ تیرہویں صدی میں اناطولیہ میں سلطنتِ عثمانیہ قائم ہوئی اور ایک صدی تک عثمانی فوجوں نے زبردست فتوحات کے بعد 1360ء میں سلطان مراد اوّل کے عہد تک یورپ کے بڑے حصّے پر قبضہ کرلیا۔ بلغاریہ، مقدونیہ، کوسوا اور سربیا کی فتح کیا، لیکن قسطنطنیہ جو رومی سلطنت کا ایک اہم شہر تھا، اسے فتح کرنے کی کئی کوششیں ناکام ہوچکی تھیں اور آخر سلطان محمد فاتح کے دور میں‌ یہ بھی ممکن ہوا۔

    سلطان محمد فاتح کے عہد میں مشرقی یورپ کی اہم ترین ریاست کریمیا (یوکرائن) عثمان کی باجگزار بن گئی۔ سلطان محمد فاتح کے بعد بھی یورپ میں شان دار فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ مختلف ادوار میں یورپ کے اہم علاقے سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِنگین جن میں سربیا، بلغاریہ، رومانیہ، یوگو سلاویہ وغیرہ شامل ہیں۔

    (یورپ میں‌ نُور از محمد ندیم بھٹی)

  • یورپی ملک بلغاریہ کی بنیا باشی مسجد جو سلطنتِ عثمانیہ کی یادگار ہے

    یورپی ملک بلغاریہ کی بنیا باشی مسجد جو سلطنتِ عثمانیہ کی یادگار ہے

    بلغاریہ کبھی سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ نگیں‌ اور جنوب مشرقی یورپ میں خطّۂ بلقان کا حصّہ تھا۔ آج یہ جمہوریہ بلغاریہ کے نام سے دنیا کے نقشے پر موجود ملک ہے جس کا دارُالحکومت صوفیہ ہے۔

    بلغاریہ کی سرحدیں شمال میں رومانیہ، مغرب میں سربیا، مقدونیہ اور جنوب میں یونان اور ترکی سے ملتی ہیں۔

    عثمانی سلاطین نے اپنے دور میں‌ یہاں کئی محلّات، پُل، سرائے، گزرگاہیں اور دیگر تعمیرات کروائی تھیں جو ترک طرزِ تعمیر کا شاہ کار اور اس دور کی خوب صورت یادگار ہیں۔ اسی زمانے میں بلغاریہ میں‌ مساجد بھی تعمیر کی گئیں‌ جن میں سے ایک دارُالحکومت صوفیہ میں "بنیا باشی مسجد” (Banya Bashi Mosque) کے نام سے موجود ہے۔

    خلافتِ‌ عثمانیہ کے زوال اور خطّے میں آزاد ریاستوں کے قیام کے بعد یہاں اس دور کی مساجد اور دیگر عمارتوں کی حیثیت یا تو تبدیل کردی گئی یا ان کا نام و نشان مٹا دیا گیا، لیکن صوفیہ کی یہ واحد قدیم مسجد آج بھی قائم ہے اور اس کی مذہبی حیثیت بھی برقرار ہے۔

    بنیا باشی کو یورپ کی قدیم مساجد میں شمار کیا جاتا ہے جو 1576ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس وقت صوفیہ سلطنتِ عثمانیہ کا حصّہ تھا۔ بلغاریہ پر لگ بھگ پانچ صدیوں تک عثمانی سلاطین نے حکم رانی کی تھی۔

    صوفیہ کی اس مسجد کا نقشہ اور ڈیزائن عثمانی دور کے مشہور اور ماہر معمار سنان پاشا کا بنایا ہوا تھا۔ بنیا باشی مسجد کا منفرد طرزِ تعمیر اپنی جگہ لیکن اس کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ اسے قدرتی گرم چشموں کے اوپر بنایا گیا تھا۔

    اس مسجد کا وسیع گنبد اور بلند مینار اسے اپنے طرزِ‌ تعمیر میں‌ منفرد بناتے ہیں اور یہی اس کی شہرت کا باعث بھی ہے۔

    اس مسجد کے معمار سنان پاشا اناطولیہ کے ایک عیسائی جوڑے کے گھر پیدا ہوئے تھے، جنھوں‌ نے بعد میں استنبول ہجرت کی اور یہاں اسلام قبول کیا۔ انھوں نے مختلف ترک حکم رانوں کا دور دیکھا اور ان کے حکم پر ترکی اور سلطنتِ‌ عثمانیہ کے زیرِ‌نگیں مختلف علاقوں میں‌ بطور ماہر معمار خدمات انجام دیں۔

    بلغاریہ میں‌ چند دہائیوں قبل تک مسلمانوں نے مذہبی بنیادوں‌ پر کئی پابندیوں‌ کا سامنا کیا اور ان کے مذہبی تشخص کو خطرہ رہا، لیکن اب شہروں اور دیہات میں‌ مساجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور مسلمان اقلیتی حقوق کے تحت اپنے اخبار و رسائل کی اشاعت اور ان کے اجرا کی اجازت رکھتے ہیں۔

    بلغاریہ میں عثمانی عہد کی یادگار بنیا باشی مسجد کے تذکرے کے ساتھ اگر ہم بلقان اور اس خطّے کی تاریخ کو جاننے کی کوشش کریں‌ تو معلوم ہو گا کہ ‘بلقان’ ترکی زبان کا لفظ ہے۔ یہ لفظ پہاڑیوں کے معنیٰ‌ میں‌ استعمال ہوتا ہے۔ اس علاقے کو ترک وراثت کا حصّہ کہا جاسکتا ہے۔

    چودھویں صدی عیسوی تک یہاں‌ ہنگری کے بادشاہ کا راج تھا۔ ترک فوجوں نے خطۂ بلقان کے اس حکم راں کو شکست دے کر 1463ء میں بوسنیا کو سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کیا اور یوں‌ یہاں اسلامی دور کا آغاز ہوا۔

    یورپی مؤرخین بھی تسلیم کرتے ہیں‌ کہ اس خطّے میں‌ ترکوں کی حکم رانی کے بعد علم و ادب کو فروغ ملا اور یہاں‌ مدارس اور جامعات قائم کی گئیں۔ ترکوں نے اس خطّے میں مذہبی رواداری کو بھی فروغ دیا۔ انھوں‌ نے یہاں مساجد ہی نہیں‌ تعمیر کروائیں‌ بلکہ یتیم خانے، لائبریریاں اور مختلف عالی شان عمارتیں بھی بنوائیں‌ جو ترک طرزِ‌ تعمیر کا شاہ کار ہیں۔

    سلطنتِ عثمانیہ کے کم زور پڑنے کے بعد 1878ء میں خطۂ بلقان سے ترکوں کی حکومت بھی ختم ہوگئی۔

  • رجب طیب اردگان کے فیصلے سے خلافت عثمانیہ کے دور کی یاد تازہ ہوگئی، پرویز الہیٰ

    رجب طیب اردگان کے فیصلے سے خلافت عثمانیہ کے دور کی یاد تازہ ہوگئی، پرویز الہیٰ

    لاہور: اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا کہ رجب طیب اردگان کے فیصلے سے خلافت عثمانیہ کے دور کی یاد تازہ ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی نے ترک صدر رجب طیب اردگان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ 15ویں صدی کی یادگار مسجدکی دوبارہ بحالی ترک صدر کا جراتمندانہ فیصلہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ طیب اردگان کے فیصلے سے خلافت عثمانیہ کے دور کی یاد تازہ ہوگئی ترک صدر کو مسجدکا درجہ بحال کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

    پرویز الہیٰ کا کہنا تھا کہ آیا صوفیہ مسجددنیا بھر کے مسلمانوں کا ثقافتی ورثہ ہے،1453میں سلطان محمدفاتح دوئم کے دور میں قائم مسجد کو 1935 میں میوزیم بنایاگیا تھا۔

    آیا صوفیہ میوزیم سے مسجد میں تبدیل

    یاد رہے کہ گزشتہ روز ترک صدر رجب طیب اردگان نے 1934 میں مصطفیٰ کمال اتا ترک کی جانب سے میوزیم میں تبدیل کی گئی آیا صوفیہ مسجد کو عدالتی فیصلے بعد بحال کرتے ہوئے نماز کے لیے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔

    ترک صدر نے مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کے لیے بنائے ٹیمپل ماؤنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہودی اورعیسائی بھی تو مسلسل مسجدالاقصیٰ کو نشانہ بنا رہے ہیں جو خاموش رہتے ہیں اور آیا صوفیہ مسجد پر تجویز کی جرات نہیں کرسکتے انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ آیا صوفیہ کو مسجدمیں تبدیل کرنا ترکی کا حق ہے۔