Tag: خلا کی خبریں

  • آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش آج ہوگی

    آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش آج ہوگی

    آسمان سے مینہ برستے تو ہم سب آئے روز دیکھتے رہتے ہیں مگر آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جو صدیوں سے انسان کے تجسس کو بھڑکائے ہوئے ہے اور قدیم تہذیبوں میں اس حوالے سے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں مگر موجودہ دور میں سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میں روز افزوں پیش رفت کی بدولت یہ گتھی انسان نے سلجھا لی ہے، آج کی رات وہ علاقے جہاں مصںوعی روشنیاں کم اور مطلع صاف رہے گا وہاں آسمان سے گرتے ان پتھروں کا مشاہدہ کیا جاسکے گا۔

    یہ پتھر دراصل فلکیاتی چٹانیں ( راکس) ہیں جو پوری کائنات اور ہمارے نظام ِ شمسی میں آوارہ گردی کر رہے ہیں ۔ جنھیں’می ٹیور‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ پتھر اِدھر اُدھر بھٹکتے ہوئے جب سیارۂ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو ہوا کی رگڑ ان کا اندرونی درجۂ حرارت بڑھا دیتی ہے،جس کے باعث یہ بھڑک اٹھتے ہیں اور زمین سے دیکھنے پر یہ روشن پتھروں کی بارش معلوم ہوتی ہے جسے ’می ٹیور شاور ‘ کہا جاتا ہے ۔ عموما ََ می ٹیور شاورز کا مشاہدہ اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی دم دار ستارہ زمین کے پاس سے گزرتا ہے ۔ چونکہ دم دار ستارے بھی سورج ہی کے گرد محو ِ گردش ہیں ۔لہذاٰ انکی دم سے خارج ہونے والی ’ڈسٹ ‘ یا چھوٹے چھوٹے چٹانی پتھر دھار کی صورت میں پیچھے رہ جاتے ہیں جنھیں ’شوٹنگ سٹار ‘یا ’فالنگ سٹار ‘ بھی کہا جاتا ہے ۔

    یہ دراصل خلا میں ہر جانب بکھری ہوئی چٹانیں یا کنکریاں ہیں جو سائز میں نسبتا ََ بڑی ہو تی ہیں اور لاکھوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے 70 سے 100 کلومیٹر کی بلندی پر گرتے نظر آتے ہیں ، لیکن ان میں سے کوئی شاذو نادر ہی زمین پر آگرتا ہے کیونکہ ہوا سے مسلسل رگڑ کے باعث زمینی ماحول میں یہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں ۔ اگرچہ ایک شاور میں یہ پتھر ہر جانب سے گرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اگر ان کے راستے کی خط کشی کی جائے تو معلوم ہوگا کہ سارے پتھر خلا کے ایک مخصوص علاقے یا مقام سے آرہے ہوتے ہیں ۔لہذا ٰ ہر می ٹیورشاور کا نام ’کانسٹی لیشن‘ یا برج ( ستاروں کا جھرمٹ ) کے نام کی مناسبت سے رکھا جاتا ہے ۔

    سنہ 2018 میں نظر آنے والے چند اہم می ٹیور شاورز مندرجہ ذیل ہیں ۔

    پرسیڈ می ٹیورشاور: دنیا بھر سے فلکیات کے شائقین نے 13 اگست 2018 کی رات کو شہابیوں کے گرنے کی جس بارش کا مشا ہدہ کیا تھا اسے پر سیڈ می ٹیور شاور کہا جاتا ہے۔ جو 20 اگست تک ہر رات دیکھا گیا تھا مگر اس میں 13 اگست کی رات شدت تھی جس میں پتھروں کے گرنے کی تعداد 80 فی گھنٹہ تھی۔ اس شاور کا باعث بننے والے دم دار ستارے کا نام سوفٹ ٹرٹل ہے جس کا سورج کے گرد ایک چکر133 سال میں مکمل ہوتا ہے ۔ چونکہ 13 اگست کی رات چاند کی دو تاریخ تھی لہذا ٰ چاندنی بالکل نہ ہونے کے باعث اسے 30 سے 40 ڈگری کے زاویئے پر بہت واضح دیکھا گیا تھا۔ اس می ٹیور شاور میں گرنے والے پتھر ایک دوسرے سے اتنے کم فاصلے پر تھے کہ گرتے ہوئے کسی دھار یا روشن لکیرکی طرح معلوم پڑتے تھے۔ یہ بارش کو پرسیڈ شاور کا نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ یہ پرشس کانسٹی لیشن کی جانب سے ہوتی ہے اور جس مقام سے یہ گرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اسے فلکیات میں ‘ ریڈینٹ ‘ کہا جاتا ہے۔ اس شاور کو سب سے پہلے 1865 میں مشاہدہ کیا گیا تھا جس میں مکمل شدت سے پہلے ایک دفعہ پتھروں کے گرنے میں ہلکی شدت آتی ہے اور پھر کچھ وقفے کے بعد وہ زیادہ تعداد میں گرنے لگتے ہیں۔ پرسیڈ می ٹیور کا مشاہدہ 17 جولائی 2018 کی رات کو بھی کیا گیا تھا۔

    اورینائڈ می ٹیور شاور: آسمانی پتھروں کی یہ بارش ہیلی کی دم دار ستارے کے زمین کے قریب سے گزرنے کے باعث دکھائی دیتی ہے۔ چونکہ یہ بارش اورین کانسٹی لیشن کی جانب سے ہوتی ہے اس لیئے اسے اورینائڈ می ٹیور شاور کہا جاتا ہے۔ اکتوبر 2018 میں 16 سے 30 اکتوبر کی راتوں میں اورینائڈ می ٹیور شاور ہر رات دیکھا گیا ۔ جس میں شدت 21 اکتوبر کی رات میں تھی اور اس رات فی گھنٹہ 25 شہابیئے گرتے ہوئے دیکھے گئے۔ جو آسمان پر 30 سے 40 ڈگری کے فاصلے پر واضح دکھائی دیئے۔ مگر 21 اکتوبر کو چاند کی 12 تاریخ ہونے اور بھرپور روشنی ہونے کے باعث آسمانی پتھروں کی یہ بارش اتنی واضح نہیں تھی۔

    ٹورڈ می ٹیور شاور: فلکیات کے شائقین نے 5 نومبر 2018 کی رات کو آسمان سے پتھروں کی جس بارش کا مشاہدہ کیا اسے ٹورڈ می ٹیور شاور کہا جاتا ہےجو ٹورس کانسٹی لیشن کی جانب سے ہو تی ہے۔ اور اس کے باعث گرتے ہوئے می ٹیور کو 30 نومبر تک دیکھا جاسکے گا ۔ جو 2 پی اینکل دم دار ستارے کے زمین کے قریب سے گزرنے کے باعث ہوگی۔ 5 نومبر کی رات گرنے والے شہابیوں کی رفتار فی گھنٹہ دس تھی اور چونکہ اس رات چاند کی 27 تاریخ تھی تو چاند کی روشنی نہ ہو نے کے باعث اس بارش کو 14 ڈگری شمال یا اس سے دور 30 سے 40 ڈگری کے زاویوں پر بہت واضح دیکھا گیا تھا۔

    لیو نائڈ می ٹیورشاور: شوٹنگ یا فالنگ سٹارز کی بارش کبھی بھی محض ایک رات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ عموما ََ یہ ہفتوں تک گرتے نظر آتے رہتے ہیں ہر برس 17 اور 18 نومبر کی درمیانی شب لیو کانسٹی لیشن کی جانب سے لیونائڈ می ٹیور شاور کا مشاہدہ کیا جاتا ہے ۔کیونکہ ان راتوں میں ہماری زمین دم دار ستارے ٹیمپل ٹر ٹل کے بیضوی مدار میں سے ہوتی ہوئی گزرتی ہے ۔ دم دار ستارہ ٹیمپل ٹر ٹل 1865میں دریافت ہوا تھا اور اس کا سورج کے گرد ایک چکر تینتیس سال میں مکمل ہوتا ہے سو لیونائڈ شاور اس حوالے سے منفرد ہے کہ فلکیات کے شائقین اتنے ہی برس بعد دوبارہ اس نظارے سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ چونکہ یہ بارش لیو کانسٹی لیشن کی جانب سے ہوتی ہے اس لیئے اسے لیونائڈ می ٹیور شاور کا نام دیا گیا ہے۔ 2018 میں انہی راتوں میں لیونائڈ می ٹیور شاورچاند کی بھرپور روشنی ہونے کے باعث زیادہ واضح نہیں دیکھا جا سکا۔ ۔ اس رات فی گھنٹہ دس سے پندرہ می ٹیور گرتے ہوئے دکھائی دیئے ۔ اگرچہ پتھروں کے گرنے میں 17 نومبر کی رات شدت تھی مگر 18 نومبر کی رات انھیں زیادہ واضح نہیں دیکھا جاسکا۔

    جیمی نائڈ می ٹیور شاور: سنہ 2018 کی آخری می ٹیور شاور سے فلکیات کے شیدائی 14-13 دسمبر کی رات لطف اندوز ہو سکتے ہیں جسے جمینی کانسٹی لیشن کی مناسبت سے جیمی نائڈ شاور کا نام دیا گیا ہے۔ اسے علی الصبح تین سے چار بجے کے درمیان بہت واضح دیکھا جا سکے گا ۔ اس می ٹیور شاور کی سال کی بہترین بارش کہا جاتا ہے کیونکہ یہ نا صرف بہت واضح ہوتا ہے بلکہ پتھروں کی گرنے کی رفتار بھی زیادہ اور بہت تیز ہوتی ہے۔2018 میں ان کے گرنے کی رفتار مزید تیز ہوگی اور فی گھنٹہ 100 شہابیے گرنے کی توقع ہے۔ جن کو دیکھنے کا بہترین وقت آدھی رات ہے۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق جیمی نائڈ می ٹیور شاور قدیم زمانے سے مشاہدے کیے جارہے ہیں اور سب سے پہلے 1833 میں اسے دیکھ کر باقاعدہ ریکارڈ بھی جمع کیا گیا ۔ اور یہ مشاہدہ کیا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں پتھروں کے گرنے کی رفتار بڑھتی جارہی ہے کیونکہ مشتری کی گریویٹی ان چھوٹے چھوٹے اجسام کے منبع ایسٹی رائڈ 3200 فائی تھون کو کئی صدیوں سے آگے زمین کی طرف دکھیلتی رہی ہے۔ یہ ایسٹی رائڈ تقریبا 1 سال 4 ماہ میں سورج کے گرد اپنا چکر مکمل کرتا ہے۔

    لہذاٰ اگر آپ فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں نومبر اور دسمبر کی راتوں میں آسمانی پتھروں اور چٹانوں کی بارش دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو آپ کو اس کے لیے آبادی اور روشن علاقوں سے دور ایسے مقامات کا رخ کرنا ہوگا جہاں مصنوعی روشنی بالکل نہ ہو اور آپ با آسانی متعلقہ کانسٹی لیشن کی طرف رخ کر سکیں ۔می ٹیور شاوزر کا سادہ آنکھ سے بھی با آسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے قطعا دور بین یا مخصوص فلکیاتی گلاسز کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ پاکستان میں ابھی بھی دو بار ٹیور شاورز کا با آسانی مشاہدہ کیا جاسکے گا۔ سو ابھی سے اپنے کیلنڈرز کو مارک کرلیں ۔

  • خلا میں ایسی دھات دریافت جس کے سامنے اسٹیل موم ہے

    خلا میں ایسی دھات دریافت جس کے سامنے اسٹیل موم ہے

    خلا میں تیرتے ایک نیوٹران ستارے پر ہونے والی تحقیق میں ایک ایسی دھات کی موجودگی کا انکشا ف ہوا ہے جو کہ زمین پر استعمال کی جانے والی مضبوط ترین دھات اسٹیل سے دس ارب گنا مضبوطی کی حامل ہے۔

    یہ تحقیق انڈیانہ یونی ورسٹی آف بلومنگٹن میں انجام دی گئی ہے ، تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہیں کہ نیوٹران تیاروں پر پائی جانے والی ایک دھات جسے نیوکلئیر پاستا کا نام دیا گیا ہے اس قد ر ٹھوس ہے کہ اس توڑنے کے لیےدرکار قوت اسٹیل کو توڑنے کے لیے درکار قوت سے دس ارب گنا زیادہ ہے۔

    تحقیق میں شریک مصنف اور ماہرِ فزکس چارلس ہوروٹز کا کہنا ہے کہ سننے میں یہ پاگل پن کی حد تک بڑا لگتا ہے لیکن دریافت کا گیا مادہ اس قدر ٹھوس ہے کہ زمین پر موجود کسی شے سے اس کا موازنہ ممکن نہیں ، اور نہ ہی یہاں کسی لیبارٹری میں اس کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔

    یاد رہے کہ نیوٹران ستارے اس وقت جنم لیتے ہیں جب کوئی مردہ پڑتا ستارہ ایک دھماکے سے پھٹ جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ وافر مقدار میں نیوٹران سے بھرپور غبار پید ا کرتا ہے ، اس غبار پر انتہائی طاقتور کششِ ثقل کی قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں ، جس کے سبب اس غبار میں موجود مٹیریل انتہائی غیر معمولی خصوصیات رکھتے ہیں۔

    تحقیق میں کہا گیا ہے کہ یہ دھات نیوٹران اسٹار کی سطح سے ایک کلومیٹر نیچے ہے جہاں ایٹمی نیوکلیائی مادے اس حد تک دباؤ کا شکار ہیں کہ وہ نیوٹران اور پروٹان کے اس مکسچر کو تشکیل دینے میں کامیاب ہوپائے ہیں۔ تاحال یہ ساری تحقیق نظریے کی بنیاد پر ہے اور کسی بھی سائنسی لیبارٹری میں اس کا تجزیہ ممکن نہیں ہے۔

    یہ مادہ ستارے کی تہہ میں مختلف اشکا ل میں موجود ہے اور اس کی نوڈلز سے ملتی جلدی شکل کے سبب اسے ’نیوٹران پاستا ‘کا نام دیا گیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ستارے کی تہہ میں جیسے جیسے اندر جاتے جائیں گے یہ مادہ اور سخت اور ٹھوس ہوتا جائے گا۔

  • خلائی سائنس کی دنیا میں تہلکہ خیزتحقیق کرنے والے پاکستانی سائنس داں سے ملیے

    خلائی سائنس کی دنیا میں تہلکہ خیزتحقیق کرنے والے پاکستانی سائنس داں سے ملیے

    پاکستانی نژاد جرمن سائنسداں ڈاکٹر نزیر خواجہ چاہتے ہیں کہ ان کی طرح پاکستان سے دیگر طالب علم بھی اسپیس سائنس کے میدان میں آگے آئیں اور ملک کا نام روشن کریں، ان کی حالیہ تحقیق نے خلائی سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔

    حال ہی میں ڈاکٹر نزیر خواجہ اور ان کی ٹیم نے ناسا ، یورپی اور اطالوی خلائی ایجنسی کے انتہائی مہنگے مشن ’کیسینی‘ سے حاصل شدہ ڈیٹا پر ثابت کیا ہے کہ مریخ کے ایک چاند ’انسلیداس ‘ پر وہ تمام عوامل موجود ہیں جو کہ زندگی کی نشونما کے لیے درکار ہیں۔

    ان کی اس تحقیق کو تسلیم کرتے ہوئے ناسا نے گزشتہ ماہ اس کا باقاعدہ اعلان کیا جس کے بعد یہ ساری دنیا کے نشریاتی اداروں کی ہیڈلائن بن گئی۔ ڈاکٹر نزیر اور ان کے ساتھی فرینک پوسٹ برگ اس وقت سے ہی عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    پاکستان کے لیے فخر کا مقام یہ ہے کہ اس انتہائی بلند پایہ تحقیق کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر نزیر خواجہ پاکستانی شہری ہیں ۔ ان کا تعلق پاکستان کے ضلع وزیر آباد سے ہے ۔پنجاب یونی ورسٹی سے اسپیس سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں جرمنی کے نامور تعلیمی ادارے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیااور پھر وہیں خلائی تحقیق سے وابستہ ہوگئے۔

    پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والے ڈاکٹر نزیر کا تحقیقاتی کام دنیا کے موقر ترین سائنسی جریدوں میں شائع ہوتا رہتا ہے ، اس کے علاوہ وہ خلائی سائنس سے وابستہ اداروں میں جاکر بھی مقالے پڑھا کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ وقتاً فوقتاً ا پنےمتعلقہ مضمون سے متعلق پاکستانی طالب علموں کی رہنمائی بھی کیا کرتے ہیں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے آسٹرو بیالوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے نام سے ایک سوسائٹی بھی قائم کررکھی ہے جس کے ذریعے وہ نوجوانوں سے رابطے میں رہتے ہیں، اس نیٹ ورک کے قیام کا مقصد اسپیس سائنس میں دلچسی رکھنے والے طلبہ و طالبات کو مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے تربیت یافتہ رضا کار اگلے مرحلےمیں اسکولوں میں جاکر طالب علموں کی رہنمائی کریں گے کہ مروجہ روایتی مضامین سے ہٹ کر بھی طالب علموں کے پاس کئی مواقع موجود ہیں۔

    ڈاکٹر نزیر کی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ تر حصہ کیسینی نامی خلائی مشن سے حاصل کردہ ڈ یٹا پر کام کرتے گزرا ہے جو کہ خلائی تسخیر کی تاریخ کا اہم ترین مشن سمجھا جاتا ہے اور حالیہ تحقیق میں اس مشن کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔

    خلا کے طویل سفر پر جانے والے ’کیسینی ‘نامی خلائی جہاز کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا پر تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ بالا چاند کی سطح پر’ پیچیدہ مالیکیول‘ تشکیل پارہے ہیں جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ سمندر حیات کی ابتدا کے لیے انتہائی ساز گار ماحول رکھتے ہیں۔ تحقیق کے نتیجے میں تشکیل پانے والے مالیکیول اب تک کے سب سے بڑے مالیکیول ثابت ہوئے ہیں۔تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ زحل کے چاند پر موجود سمندر میں بالکل ویسے ہی نمکیا ت پائے جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے سمندروں میں موجو د ہیں۔

    اے آروائی نیوز کے لیے خصوصی طور پر ریکارڈ کردہ ویڈیو پیغام میں ڈاکٹر نزیر نے اپنی تحقیق کے حوالے سے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے زحل پر کوئی زندگی تلاش کرلی ہے بلکہ ہماری تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زحل کے چاند انسلیدس پر وہ تمام عوامل موجود ہیں جو کہ زندگی کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ اور یہ پہلی بار ہے کہ زمین سے باہر کسی مقام پرخلائی تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو زندگی کے لیے سازگار حالات کے اتنے پختہ ثبوت ملے ہوں۔

  • آسمان سے نازل ہونے والے’سیارچوں‘ کا عالمی دن

    آسمان سے نازل ہونے والے’سیارچوں‘ کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں سیارچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد اس کرہ ارض کے مکینوں کو آسمان سے گرنے والے شہابِ ثاقب اور سیارچوں سے پھیلنے والی تباہی سے بچنے کے لیے تیار کرنا ہے، یاد رہے کہ زمین ماضی میں ایک سیارچے کے ٹکرانے سے اپنی 75 فیصد حیات سے محروم ہوچکی ہے۔

    سیارچوں کاعالمی دن منانے کا آغاز آج سے چار سال قبل یعنی 30 جون 2014 میں کیا گیا۔خلائی تحقیقات کرنے والے اداروں اور اقوام متحدہ کے توسط سے اب ہر سال 30 جون کو یہ دن منا یا جاتا ہے اور آج دنیا بھر میں پانچواں عالمی یوم سیارچہ منایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے امریکا سے لے کر برطانیہ اور جرمنی سے لے کر آسٹریلیا تک مختلف سیمینارز اور سائنسی پروگرامات کا اہتمام کیا گیا ہے تاہم پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس حوالے سے انتہائی محدود پیمانے پر سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔

    30 جون کو عالمی یوم سیارچہ منانے کا اولین مقصد یہ ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے افراد میں آسمان سے نازل ہونے والے ان سیارچوں کی ہلاکت خیزی اور بچاؤ کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جاسکے۔سیارچے یا ایسٹی رائڈ وہ اجسام ہیں جو ہمارے نظام ِ شمسی میں آزادانہ گھومتے رہتے ہیں اور عموما دیگر سیاروں سے ٹکرا کر بڑی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔

    تاریخی اور سائنسی حوالوں کے مطابق تقریبا 6 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے جدید میکسیکو کے سمندری علاقے چک سولب کے قریب 10 سے 15 کلو میٹر قطر کا ایک سیارچہ ٹکرایا تھا، جس کے نتیجے میں وہاں 150 کلو میٹر بڑا اور 20 کلومیٹر گہرا گڑھا پڑا۔

    اس ٹکراؤ سے زمین کے اسٹریٹو سفیئر میں گرد و غبار اور دھواں اس قدر زیادہ تھا کہ سورج کی روشنی زمین پر پہنچنا تقریباً معدوم ہوگئی جبکہ اس سے خارج ہونے والی توانائی کا اندازہ لگانا اب تک مشکل ہے کیوں کہ کرہ ارض کا شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو جو اس تصادم سے ہونے والی تباہی کی زد پر نہ آیا ہو۔

    ماہرین کے مطابق اگر یہ سیارچہ میکسیکو کے علاوہ زمین کے 87 فیصد حصے میں واقع کسی اور علاقے سے ٹکراتا تو شاید اتنی تباہی نہ ہوتی اور آج ڈائنا سارز جیسے عظیم الجثہ جانوروں کی کوئی نوع زمین پر ضرور موجود ہوتیں۔

    دستیاب ریکارڈ کے مطابق یہ سیارچے 6 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے چک سو لب پر ہونے والے واقع کے بعد بھی وقتا فوقتا زمین پر تباہی پھیلاتے رہے ہیں، جن میں سب سے زیادہ اہم 30 جون 1908 کو رونما ہونے والے ‘ٹنگسکا’ کے واقع کو حاصل ہے جو روس میں دریائے ٹنگسکا او رمشرقی سائیبیریا کے قریب کم آبادی والا علاقہ ہے۔

    اس واقعے کو اس حوالے سے زیادہ اہمیت حاصل ہے کہ اس میں 200 سے 620 فٹ بڑا سیارچہ زمین کی سطح سے ٹکرانے کے بجائے فضا میں 5 سے 10 کلومیٹر کی بلندی پر شدید دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا تھا جس سے ری ایکٹر اسکیل پر 5 درجے کے زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے گئے تھے، اس کے علاوہ اطراف میں 200 کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے جنگلات شدید متاثر ہوئے اور 80 لاکھ درخت جل کر خاکستر ہوگئے تھے، مگر آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا، اس کے باوجود ٹنگسکا کے واقع کو کسی شہابیے یا سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کے باعث ہونے والا تاریخ کا ہولناک ترین واقع قرار دیا جاتا ہے ، کیونکہ 6 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے ہونے والے چک سولب واقعے کی صرف دستیاب آثار قدیمہ سے ہی تصدیق ہو سکی ہے۔

    پاکستان سمیت متعدد ترقی پذیر ممالک میں شہابیوں کی بارش یا سیارچوں کے ٹکراؤ کے حوالے سے آج کے جدید ڈیجیٹل دور میں بھی توہمات پائی جاتی ہیں اور آئے روز اس طرح کی خبریں گردش میں ہوتی ہیں کہ قیامت آنے والی ہے یا زمین کا اختتام ہوا چاہتا ہے اور اس طرح کی پیش گوئیاں عموما ایسے جیوتشی یا ایسٹرولوجرز کرتے ہیں جن کی سائنسی معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔

    اس امر میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ آسمان سے پتھروں کی بارش یا کسی سیارچے کا زمین سے ٹکراؤ چک سولب جیسی ہولناک تباہی کا باعث بن سکتا ہے، جس کی وجہ سے زمین پر آباد 75 فیصد مخلوق فنا ہو گئی تھی۔ مگر اس کی قبل از وقت پیش گوئی وہ بھی سائنسی معلومات سے بے خبر ایسٹر لوجزر کی جانب سے کی جانے والی پیش گوئی حقیقت سے بہت دور ہوتی ہے، عوام کو چاہیے کہ ایسی افواہوں پر کان دھرنے کے بجائے مستند عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ خبروں پر نظر رکھا کریں۔

  • پاکستانی سائنس داں نے زحل کے چاند پرزندگی کے آثاردریافت کرلیے

    پاکستانی سائنس داں نے زحل کے چاند پرزندگی کے آثاردریافت کرلیے

    پاکستانی نژاد جرمن سائنس داں ڈاکٹر نُزیر اوران کےہمراہ سائنسدانوں کی ٹیم نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ سیارہ زحل کے چاند پرزندگی کے آثارموجود ہیں، یہ تحقیق ناسا اوریورپی اسپیس ایجنسی اور اطالوی اسپیس ایجنسی کے مشترکہ مشن ’کیسینی‘ سے موصول ہونے والے ڈیٹا پرکی گئی ہے ۔

    سائنس کی دنیا کے موقر ترین جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی تحقیق پاکستانی سائنسداں ڈاکٹرنزیراورڈاکٹر فرینک پوسٹ بر کی سربراہی میں کی گئی ہے جس کے مطابق زحل کے برفیلے چاند’’انسیلیدس‘‘ پر زندگی کےلیے موافق حالات موجودہ ہیں۔

    نیچر نامی جریدے کا برقی عکس

    ناسا کے خلا کے طویل سفر پر جانے والے ’کیسینی ‘نامی خلائی جہاز کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا پر تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ بالا چاند کی سطح پر’ پیچیدہ مالیکیول‘ تشکیل پارہے ہیں جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ سمندر حیات کی ابتدا کے لیے انتہائی ساز گار ماحول رکھتے ہیں۔ تحقیق کے نتیجے میں تشکیل پانے والے مالیکیول اب تک کے سب سے بڑے مالیکیول ثابت ہوئے ہیں۔

    یہ تحقیق یونی ورسٹی آف ہائیڈل برگ سے تعلق رکھنے والے نزیرخواجہ اورفرینک پوسٹ برگ کی سربراہی میں یورپین اسپیس ایجنسی میں کی گئی ہے ۔ تحقیق کے مطابق ہائیڈرو تھرمل وینٹس کے خلا میں تیرتے منجمد آمیزے کا جب تجزیہ کیا گیا تو اس میں نامیاتی مالیکیولز کے بڑے ٹکڑے پائے گئے جو کہ ارتقاء کے عمل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    ہائیڈرو وینٹس کا عمل

    اس حوالے سے ڈاکٹرپوسٹ برگ کا کہنا ہے کہ زحل کے چاند کےسمندروں میں جاری یہ عمل بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ہماری زمین پر یہ عمل سمندروں کی تہہ میں جاری رہتا ہے اور اسی عمل کے نتیجے میں کرہ ارض پر اولین حیات کا وجود ہوا تھا۔

    ڈاکٹر پوسٹ برگ کی اس تحقیق میں پاکستانی نژاد ڈاکٹر نزیر خواجہ ان کے شریکِ کار تھے اور دونوں ماہرین کے زیرِ نگرانی دنیا بھرکے نامور سائنسدانوں نے یہ تحقیق مرتب کی ہے۔

    ڈاکٹرنُزیربطور پاکستانی


    ڈاکٹر نزیر خواجہ کا تعلق پاکستان کے ضلع وزیر آباد سے ہے ۔ انہوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے اسپیس سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں جرمنی کے نامور تعلیمی ادارے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔

    ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ تر حصہ کیسینی نامی خلائی مشن پر کام کرتے گزرا ہے جو کہ خلائی تسخیر کی تاریخ کا اہم ترین مشن سمجھا جاتا ہے اور حالیہ تحقیق میں اس مشن کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔

    اسلام آباد میں ڈاکٹر نزیر خواجہ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے

    پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والے ڈاکٹر نزیر کا تحقیقاتی کام دنیا کے موقر ترین سائنسی جریدوں میں شائع ہوتا رہتا ہے ، اس کے علاوہ وہ خلائی سائنس سے وابستہ اداروں میں جاکر بھی مقالے پڑھا کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں

    بلکہ وہ وقتاً فوقتاً ا پنےمتعلقہ مضمون سے متعلق پاکستانی طالب علموں کی رہنمائی بھی کیا کرتے ہیں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے آسٹرو بیالوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے نام سے ایک سوسائٹی بھی قائم کررکھی ہے جس کے ذریعے وہ نوجوانوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔

    کیسینی جہاز کا سفر


    خیال رہے کہ کیسینی میں ایسے آلات موجود تھے کہ وہ خلا میں جس شے کا بھی معائنہ کرتا اس کا مکمل ڈیٹا یہاں امریکی خلائی ادارے ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کو موصول ہوجاتا تھا ۔ یہ جہاز چار ارب ڈالر کی لاگت سے خلا میں بھیجا گیا تھا جسے زحل تک پہنچنے میں ایک طویل عرصہ لگا۔ اس نے زحل سے کئی کار آمد تصاویر اور ڈیٹا یہاں سائنسدانوں کو فراہم کیا تھا ۔

    خلائی جہاز کیسینی

    سنہ 2017 میں اس کا رخ زحل کی سطح کی جانب موڑ کر اسے تباہ کردیا گیا تھا ۔سائنس دانوں کے مطابق کیسینی کا مشن پورا ہوچکا تھا، اس کا ایندھن اختتام پر تھا ، جس کے بعد وہ ادھر ادھر بھٹکنے لگتا اس لیے اس جہاز کا تباہ ہونا بہتر تھا چنانچہ اسے زحل کے مدار میں داخل کردیا گیا۔

    ناسا کے مطابق اس مشن پر چار ارب ڈالر کی لاگت آئی اور تیرہ برس کاعرصہ لگا، اس کی رفتار ایک لاکھ 20 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور اسی رفتار سے یہ زحل کی سطح سے ٹکرانے کے لیے روانہ ہوا۔متوقع وقت پر جہاز کے سگنل آنا بند ہوگئے جس سے سائنس دانوں کو یقین ہوگیا کہ جہاز زحل سیارہ سے ٹکرا کر تباہ ہوچکا ہے۔