Tag: خلا

  • چلی میں دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی اسکوپ

    چلی میں دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی اسکوپ

    سان تیاگو: جنوبی امریکی ملک چلی دنیا کی سب سے بڑی دوربین (ٹیلی اسکوپ) بنانے جارہا ہے جس کی تعمیر کا افتتاح کردیا گیا۔

    چلی کی اس ٹیلی اسکوپ کی تعمیر چلی کے صحرائے اتا کاما میں کی جارہی ہے جو دنیا کی کسی بھی ٹیلی اسکوپ سے 5 گنا بڑی ہے۔

    ٹیلی اسکوپ کی تعمیر کا افتتاح چلی کی صدر مشیل بیچلے نے کیا۔ تقریب میں دیگر حکومتی عہدیداران اور سائنسی و خلائی ماہرین شریک ہوئے۔

    اس ٹیلی اسکوپ کی تعمیر پر 1 ارب ڈالر سے زائد لاگت آئے گی۔

    یہ دوربین زمین سے باہر دیگر سیاروں کی کھوج، ان کی فضا اور ان کے بارے میں دیگر معلومات فراہم کرسکے گی۔

    علاوہ ازیں یہ کائنات کے ان سربستہ رازوں سے بھی پردہ اٹھا سکے گی جو اب تک پوشیدہ ہیں۔

    ای ایل ٹی (ایکسٹریملی لارج ٹیلی اسکوپ) نامی یہ دوربین سنہ 2024 سے فعال ہو کر کام شروع کردے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • امریکی خلائی جہاز خفیہ مشن کے بعد زمین پر لوٹ آیا

    امریکی خلائی جہاز خفیہ مشن کے بعد زمین پر لوٹ آیا

    واشنگٹن: امریکہ کا خفیہ فوجی خلائی جہاز 2 سال بعد زمین پر واپس آ گیا۔ خلائی جہاز 2 سال تک کس مشن پر رہا کوئی کچھ نہیں جانتا، امریکی فضائیہ نے تفصیلات بتانے سے انکار کردیا۔

    امریکا کا فوجی خلائی طیارہ ایکس ۔ 37 بی خفیہ مشن مکمل کرنے کے بعد زمین پر بحفاظت لینڈ کر گیا۔

    سنہ 2015 میں 4 مئی کو خفیہ مشن پر جانے والے طیارے نے زمین کے مدار سے اوپر 700 سے زائد دن گزارے۔

    اس پروگرام کو امریکی خلائی ادارے ناسا نے 18 سال قبل شروع کیا تھا تاہم کچھ عرصے بعد یہ طیارہ مکمل طور پر امریکی فوجی ادارے پینٹاگون کے حوالے کر دیا گیا۔

    مزید پڑھیں: خلا میں جانے والوں کی غاروں میں تربیت

    خیال کیا جا رہا ہے کہ بغیر پائلٹ اس جہاز نے زمین کے مدار سے باہر کئی خفیہ تجربات کیے۔

    امریکی فضائی کا کہنا ہے کہ اس جہاز نے خلا میں دیگر خلائی جہازوں کو لاحق خطرات کم سے کم کرنے کے حوالے سے تجربات کیے، تاہم انہوں نے اس کی مزید تفصیل بتانے سے گریز کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پریانکا چوپڑا خلا باز بنیں گی

    پریانکا چوپڑا خلا باز بنیں گی

    ممبئی: بالی ووڈ بھارت کی پہلی خاتون خلا باز کلپنا چاولہ پر فلم بنانے جارہا ہے اور مرکزی کردار کے لیے اداکارہ پریانکا چوپڑا کو کاسٹ کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔

    ذرائع کے مطابق پریانکا چوپڑا نے اس اہم کردار کو ادا کرنے کے لیے ہامی بھر لی ہے اور ان کی ٹیم خاتون خلا باز کلپنا کی زندگی کے بارے میں معلومات جمع کر رہی ہے تاکہ پریانکا چوپڑا مکمل طور پر اپنے آپ کو اس کردار میں ڈھال سکیں۔

    پریانکا اس سے پہلے بھی عالمی شہرت یافتہ بھارتی باکسر میری کوم کی زندگی پر بننے والی فلم میں مرکزی کردار ادا کرچکی ہیں۔ اب اپنے اس کردار کے لیے بھی وہ بہت پرجوش ہیں۔

    فلم کی ہدایت کار پریا مشرا ہیں اور بطور ہدایت کار یہ ان کی پہلی فلم ہوگی۔

    کلپنا چاولہ کون ہیں؟

    کلپنا چاولہ خلا میں جانے والی پہلی بھارتی خاتون ہیں۔ وہ سنہ 1997 میں پہلی بار ناسا کے خلائی مشن کے ساتھ خلا میں گئیں۔

    سنہ 2003 میں جب وہ اپنے دوسرے خلائی سفر کے لیے روانہ ہوئیں تو ان کا خلائی جہاز تکنیکی پیچیدگی کا شکار ہوگیا۔

    اس خرابی کو بر وقت ٹھیک نہ کیا جاسکا نتیجتاً واپسی میں جیسے ہی ان کا خلائی جہاز زمین کی حدود میں داخل ہوا اس میں آگ بھڑک اٹھی اور کلپنا سمیت اس میں موجود ساتوں خلا باز مارے گئے۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    دونوں خلائی مہمات کے دوران کلپنا نے کل 31 دن خلا میں گزارے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خلا میں ننھی منی تجرباتی لیبارٹری فعال

    خلا میں ننھی منی تجرباتی لیبارٹری فعال

    زمین سے 500 کلو میٹر کے فاصلے پر گردش کرتی ایک ننھی منی لیبارٹری نے سائنسی تجربات شروع کردیے ہیں۔ یہ زمین پر کشش ثقل کی موجودگی میں کیے جانے والے تجربات کو بغیر کشش ثقل کے دہرائے گی۔

    ایک چھوٹے سے سیٹلائٹ کے اندر نصب یہ لیبارٹری سوئٹزر لینڈ اور اسرائیل کی مشترکہ خلائی ایجنسی نے بنائی ہے اور حال ہی میں اپنا پہلا سائنسی تجربہ کامیابی سے مکمل کر چکی ہے۔

    lab-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ خلا میں کشش ثقل کی غیر موجودگی میں خلیے اور مالیکیول مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ اب زراعت سے لے کر طب تک، نئے سرے سے تجربات کیے جائیں گے جن پر کشش ثقل کا کوئی اثر نہیں ہوگا، ’اور یقیناً ہم اس سے نئی دریافتیں کر سکیں گے‘۔

    مزید پڑھیں: خلا میں دانت کیسے برش کیے جاتے ہیں؟

    اس تجربہ گاہ میں تجربات کے لیے سائنس دان زمین سے ڈیٹا اور ہدایات بھیجا کریں گے جس کے بعد یہ خود بخود تجربات انجام دے گی۔

    تجربہ مکمل ہونے کے بعد اسی طریقہ کار سے نتائج کو زمین کی جانب بھیج دیا جائے گا جس کے بعد سائنس دان اس کا جائزہ لیں گے۔

    lab-1

    فی الحال اس تجربہ گاہ میں صرف چند تجربات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاہم سائنس دانوں کو امید ہے کہ اگلے برس وہ یہاں 150 سے زائد تجربات کر سکیں گے۔

  • خلا میں دانت کیسے برش کیے جاتے ہیں؟

    خلا میں دانت کیسے برش کیے جاتے ہیں؟

    خلا میں وقت گزارنا ایک نہایت مختلف تجربہ ہوتا ہے۔ خلا میں زمین کی کشش ثقل موجود نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہاں چیزوں کو رکھنا نا ممکن ہوتا ہے اور ہر شے ہوا میں تیر رہی ہوتی ہے۔

    آپ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ خلا میں جانے کے بعد آپ کو کن کن امور کو مختلف انداز سے انجام دینا ہوگا۔ وہاں چلنا پھرنا تو محال ہے ہی، لیکن کھانا پینا، رفع حاجت اور سینکڑوں معمولی کاموں کے لیے بھی مختلف تکنیکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

    کینیڈا کی خلائی ایجنسی کے خلا میں موجود خلا باز کرس ہیڈ فیلڈ نے ہمیں اس صورتحال کا ذرا سا اندازہ کروانے کی کوشش کی ہے۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    ایک ویڈیو میں کرس بتارہے ہیں کہ خلا میں موجود افراد کس طرح سے ہاتھ دھوتے اور دانتوں میں برش کرتے ہیں۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جب وہ ہاتھ دھونے والے محلول کو اس کے بیگ میں سے نکالتے ہیں تو وہ ایک بلبلے کی صورت ہوا میں معلق ہوجاتا ہے۔ اسی بلبلے کو وہ اپنے ہاتھوں کی صفائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    اسی طرح دانت برش کرنے کے لیے بھی وہ یہی طریقہ استعمال کرتے ہیں۔

    یاد رہے کہ خلا میں وقت گزارنے کے بعد جب خلا باز واپس زمین پر آتے ہیں تو کئی طبی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے ہیں۔

    خلا میں کشش ثقل کی غیر موجودگی کا عادی ہونے کے بعد زمین پر واپسی کے بعد بھی خلا بازوں کو توازن برقرار رکھنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے جبکہ ان کے وزن میں بھی کمی ہوجاتی ہے۔

    علاوہ ازیں عارضی طور پر ان کے خون کے سرخ خلیات بننے میں کمی واقع ہوجاتی ہے (جو وقت گزرنے کے ساتھ معمول کے مطابق ہوجاتی ہے)، نظر کی کمزوری یا کسی چیز پر نظر مرکوز کرنے میں مشکل اور سونے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔

     

  • خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    جس طرح دنیا کا کوئی شعبہ اب خواتین کی کامیاب شمولیت سے مبرا نہیں، اسی طرح خواتین خلا میں بھی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چکی ہیں۔ آج اکیسویں صدی میں جب کئی پسماندہ ممالک میں خواتین اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں، ترقی یافتہ ممالک کی خواتین خلا تک کو تسخیر کر چکی ہیں۔

    امریکا کا خلائی ادارہ ناسا اپنے خلائی مشنز میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی اولیت دیتا ہے۔ ناسا نے آج سے 38 سال قبل اپنے ادارے میں خواتین کے ایک گروپ کو ملازمت دی جن میں سے ایک نے بعد ازاں خلا میں جانے والی پہلی امریکی خاتون کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    روس اس سے پہلے ہی بازی لے جا چکا تھا۔ 60 کی دہائی میں جب روس اور امریکا خلا کو تسخیر کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں تھے، تب روس نے ویلینٹینا ٹریشکووا کو خلا میں بھیج کر پہلی خاتون خلا باز بھیجنے کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔

    دنیا کی پہلی خاتون خلا باز

    ڈاکٹر ویلینٹینا نے جب خلا کی طرف اپنا پہلا سفر کیا اس وقت وہ صرف 26 برس کی تھیں۔ انہوں نے 3 دن خلا میں گزارے اور اس دوران 48 مرتبہ زمین کے گرد چکر لگایا۔

    ان کا خلائی جہاز ووسٹوک 6 ایک منظم خلائی پروگرام کا حصہ تھا جس کے تحت خلا کی مختلف تصاویر اور معلومات حاصل کی گئیں۔

    پہلی امریکی خاتون خلا باز

    ویلینٹینا کے خلا میں سفر کے 20 برس بعد سنہ 1983 میں امریکا کی سیلی رائڈ نے خلا میں سفر کر کے پہلی امریکی خاتون خلا باز ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    ان کا سفر اس لیے بھی منفرد رہا کہ ویلینٹینا کے برعکس انہوں نے خلائی جہاز سے باہر نکل خلا کی فضا میں چہل قدمی بھی کی جسے اسپیس واک کا نام دیا جاتا ہے۔

    پہلی افریقی خاتون خلا باز

    سنہ 1992 میں مے جیمیسن نامی افریقی نژاد خاتون خلا میں جانے والی پہلی افریقی خاتون بن گئیں۔

    مے نے 8 دن خلا میں گزارے۔

    پہلی ایشیائی خاتون خلا باز

    کسی ایشیائی ملک سے کسی خاتون کا پہلی بار خلا میں جانے کا اعزاز سنہ 1994 میں جاپان نے اپنے نام کیا۔ پہلی ایشیائی اور جاپانی خاتون خلا باز چکائی مکائی تھیں جنہوں نے خلا میں 23 دن گزارے۔

    وہ اس سے قبل طب کے شعبہ سے وابستہ تھیں اور کارڈیو ویسکیولر سرجری کی تعلیم مکمل کر چکی تھیں۔

    پہلی خاتون خلائی پائلٹ

    اس سے قبل خلا میں جانے والی تمام خواتین نے خلائی جہاز کے اندر مختلف تکنیکی و تحقیقاتی امور انجام دیے تھے تاہم سنہ 1995 میں ایلن کولنز وہ پہلی خاتون بن گئیں جنہوں نے پہلا خلائی جہاز اڑانے کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    وہ اس سے قبل امریکی فضائیہ میں بھی بطور پائلٹ اپنی خدمات سر انجام دے چکی تھیں۔

    پہلی بھارتی خاتون خلا باز

    کلپنا چاولہ خلا میں جانے والی پہلی بھارتی خاتون ہیں۔ وہ سنہ 1997 میں پہلی بار ناسا کے خلائی مشن کے ساتھ خلا میں گئیں۔

    سنہ 2003 میں جب وہ اپنے دوسرے خلائی سفر کے لیے روانہ ہوئیں تو ان کا خلائی جہاز تکنیکی پیچیدگی کا شکار ہوگیا۔ اس خرابی کو بر وقت ٹھیک نہ کیا جاسکا نتیجتاً واپسی میں جیسے ہی ان کا خلائی جہاز زمین کی حدود میں داخل ہوا اس میں آگ بھڑک اٹھی اور کلپنا سمیت اس میں موجود ساتوں خلا باز مارے گئے۔

    خلا میں جانے کے بعد خواتین پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟

    خواتین کو خلا میں بھیجنے سے قبل اس بات پر کافی عرصہ تک بحث جاری رہی کہ خلا میں جانے کے بعد ان پر کیا جسمانی و نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے۔ سنہ 1963 میں جب ووسٹوک 6 کو لانچ کیا گیا جو پہلی بار کسی خاتون کو خلا میں لے کر جارہا تھا، تب اس میں جسمانی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی آلات نصب تھے۔

    پہلی خاتون خلا باز ڈاکٹر ویلینٹینا کی واپسی کے بعد دیکھا گیا کہ خلا میں خواتین پر کم و بیش وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو مردوں پر ہوتے ہیں۔ خلا میں کشش ثقل کی غیر موجودگی کا عادی ہونے کے بعد زمین پر واپسی کے بعد بھی خلا بازوں کو توازن برقرار رکھنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے جبکہ ان کے وزن میں بھی کمی ہوجاتی ہے۔

    علاوہ ازیں عارضی طور پر ان کے خون کے سرخ خلیات بننے میں کمی واقع ہوجاتی ہے (جو وقت گزرنے کے ساتھ معمول کے مطابق ہوجاتی ہے)، نظر کی کمزوری یا کسی چیز پر نظر مرکوز کرنے میں مشکل اور سونے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر ایک سال گزارنے کے بعد کیا ہوگا؟

    ماہرین کے مطابق خواتین کے ساتھ ایک اور پیچیدگی یہ پیش آسکتی ہے کہ ماہواری کے ایام میں کشش ثقل نہ ہونے کے باعث خون جسم سے باہر کے بجائے اندر کی طرف بہنے لگے۔ گو کہ ایسا واقعہ آج تک کسی خاتون خلا باز کے ساتھ پیش نہیں آیا تاہم یہ عمل جسم کے اندرونی اعضا کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔

    اب تک خلا میں جانے والی خواتین نے خلائی سفر سے قبل عارضی طور پر اپنی ماہواری ایام کو ختم کرنے کو ترجیح دی اور طبی ماہرین کے مطابق اس میں کسی نقصان کا اندیشہ نہیں۔

    ایک اور پہلو خلا میں حاملہ خواتین کے سفر کا ہے۔ سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ خلائی جہاز اور اس تمام عمل میں موجود تابکار لہریں حاملہ خواتین کے بچوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں لہٰذا ان کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین خلا باز حمل کے دوران کسی خلائی سفر کا حصہ نہ بنیں۔

  • خلا میں مینیقن چیلنج

    خلا میں مینیقن چیلنج

    آپ نے مینیقن چیلنج کے بارے میں تو ضرور سنا ہوگا جس میں چند سیکنڈز کے لیے تمام افراد اپنی جگہوں پر بالکل ساکت ہوجاتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد اپنی اصل حالت میں واپس آجاتے ہیں۔

    آج کل ہر شخص اس چیلنج کو کرتا ہوا نظر آرہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی مقبولیت زمین کی حدوں کو چیر کر خلا تک جا پہنچی اور خلا میں موجود خلا بازوں نے بھی یہ چیلنج کر دکھایا۔

    space-2

    خلا میں کشش ثقل کی عدم موجودگی کی وجہ سے بالکل ساکت رہنا ایک ناممکن عمل سمجھا جاتا ہے، لیکن عالمی خلائی اسٹیشن آئی ایس ایس کے خلابازوں نے اس ناممکن کام کو بھی کر دکھایا۔

    آئی ایس ایس کے فیس بک صفحہ پر جاری کی جانے والی ویڈیو میں خلائی اسٹیشن پر موجود 5 خلابازوں کو بالکل ساکت دیکھا جاسکتا ہے۔

    دراصل ان خلا بازوں نے کونوں پر سہارا لیا یا خود کو کسی شے کے ساتھ پھنسا لیا تاکہ وہ حرکت نہ کرسکیں، یوں بالکل ساکت ہو کر انہوں نے مینیقن چیلنج کو پورا کر ڈالا۔

    space-3

    آئی ایس ایس کے صفحہ کے مطابق اس طرح ان خلابازوں نے خلا میں نیا سال منایا۔

  • سال کے آخری دن، آخری سیکنڈ میں کچھ حیرت انگیز ہونے والا ہے

    سال کے آخری دن، آخری سیکنڈ میں کچھ حیرت انگیز ہونے والا ہے

    سال 2016 اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بہت جلد ہم اس سال اور اس کی یادوں کو الوداع کہہ کر نئے سال میں داخل ہوجائیں گے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ سال کے اختتام سے چند لمحوں قبل ایک ایسا واقعہ پیش آئے گا جو بہت کم پیش آتا ہے؟

    آج یعنی 2016 کے آخری دن جب 11 بج کر 59 منٹ ہوں گے تو ہم نئے سال میں داخل نہیں ہوں گے، بلکہ اس کے لیے ہمیں مزید 1 سیکنڈ کا انتطار کرنا پڑے گا۔

    دراصل آج وقت کے دورانیے میں ایک سیکنڈ کا اضافہ ہوجائے گا اور جس وقت 12 بج کر 1 منٹ ہونا چاہیئے اس وقت 12 بجیں گے اور ایک سیکنڈ بعد ہم اگلے سال میں داخل ہوں گے۔

    وقت کی یہ رفتار برطانیہ، آئرلینڈ، آئس لینڈ اور کچھ افریقی ممالک میں اپنی چال بدلے گی جبکہ پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک میں وقت وہی رہے گا اور اس میں کسی قسم کا کوئی اضافہ یا کمی نہیں ہوگی۔

    leap-3

    سائنسدانوں کے مطابق جس طرح فروری کی 29 ویں تاریخ کا سال لیپ کا سال کہلاتا ہے، اسی طرح اس اضافی سیکنڈ کو بھی لیپ سیکنڈ کہا جاتا ہے اور آج اس کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں 2016 کا آخری منٹ 60 کے بجائے 61 سیکنڈ کا ہوگا۔

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لیپ سیکنڈ ہر ڈیڑھ سال کے وقفے کے بعد آتا ہے اور آخری لیپ سیکنڈ 30 جون 2015 میں دیکھا گیا تھا۔

    دوسری جانب پیرس آبزرویٹری کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق وقت میں اس اضافے کے بعد، خلا کے وقت کا درست تعین کرنے کے لیے بھی اس میں تبدیلی کرنی ہوگی۔

    سائنسی و خلائی تحقیقوں کے لیے سیکنڈ کا ہزارواں حصہ بھی بے حد اہمیت رکھتا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ زمین کے وقت کے ساتھ خلا کے وقت کو بھی درست کیا جائے۔

    واضح رہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت کا دورانیہ ہمیشہ ایک سا نہیں ہوتا اور اس میں چند سیکنڈز کا اضافہ یا کمی ہوتی رہتی ہے۔

    leap-2

    ماہرین کے مطابق یہ فرق اس لیے رونما ہوتا ہے کیونکہ زمین کی گردش کا سبب بننے والے جغرافیائی عوامل اس قدر طویل عرصے تک اتنی درستگی کے ساتھ جاری نہیں رہ سکتے۔ کسی نہ کسی وجہ سے ان میں فرق آجاتا ہے جو نہایت معمولی ہوتا ہے۔

    رائل گرین وچ آبزرویٹری کے سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی گردش میں جن وجوہات کے باعث تبدیلی آتی ہے ان میں چاند کے زمین پر اثرات، برفانی دور کے بعد آنے والی تبدیلیاں، زمین کی تہہ میں موجود دھاتوں کی حرکت اور ان کا زمین کی سطح سے ٹکراؤ، اور سطح سمندر میں اضافہ یا کمی شامل ہیں۔

    چند روز قبل ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں ماہرین کا کہنا تھا کہ زمین کی گردش کی رفتار کبھی آہستہ ہوتی ہے اور کبھی تیز، لیکن فی الحال مجموعی طور پر زمین کی گردش کی رفتار آہستہ ہوگئی ہے یعنی دن بڑے ہوگئے ہیں۔

  • ہزاروں سال بعد چاند کی شکل تبدیل

    ہزاروں سال بعد چاند کی شکل تبدیل

    ہم ہمیشہ سے ایک ہی قسم کا چاند دیکھتے آرہے ہیں۔ خوبصورت گول چاند پر دادی اماں کی کہانیوں کے مطابق، ایک بڑھیا چرغہ کاٹتی ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں چاند ہر 81 ہزار سال بعد تبدیل ہوجاتا ہے؟

    ایسا ناسا کا کہنا ہے۔ عالمی خلائی ادارے ناسا کے ڈیٹا پر مشتمل ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خلا میں موجود مختلف اقسام کے پتھر اس قدر شدت سے چاند پر گرتے ہیں کہ ہر 81 ہزار سال بعد چاند کی بیرونی سطح بالکل مختلف ہوجاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: اگر چاند اچانک دھماکے سے پھٹ جائے تو؟

    ماہرین نے بتایا کہ شہاب ثاقب کی اس بمباری سے چاند کی سطح پر نئے آتش فشانی دہانے پیدا ہوجاتے ہیں جن کا حجم پیش گوئی کیے جانے والے حجم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

    خلائی سائنسدانوں نے یہ رپورٹ ان تصاویر کی بنیاد پر تیار کی جو مدار میں گھومنے والے چاند کی نگرانی پر معمور خلائی جہاز سے موصول ہوئیں۔ ان تصاویر کا سائنسدانوں نے پہلے اور بعد کی بنیاد پر مطالعہ کیا۔

    ماہرین کے مطابق خلا سے گرنے والے شہابیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور یہ روز زمین پر گر سکتے ہیں مگر خوش قسمتی سے ہماری زمین کے اوپر فضا میں گیسوں سے بنی ہوئی ایک موٹی تہہ موجود ہے جو ان شہابیوں کو روک دیتی ہے۔

    مزید پڑھیں: چاندنی راتیں نیند میں کمی کا سبب

    اس کے برعکس چاند کے گرد قائم گیسوں کی تہہ معمولی اور پتلی ہوتی ہے جس کے باعث شہاب ثاقب چاند پر گرتے رہتے ہیں۔

  • خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اور زمین کی تباہی کا سبب

    خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اور زمین کی تباہی کا سبب

    چین کی جانب سے بنائی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی دوربین نے حال ہی میں ستاروں، کہکشاؤں اور خلا کے پوشیدہ رازوں کے سگنل کی تلاش کا کام شروع کر دیا ہے۔

    اٹھارہ کروڑ ڈالر کی خطیر رقم اور 5 سال کی مدت میں تیار ہونے والے اس منصوبے سے خلا میں پوشیدہ رازوں کو بہتر طریقے سے جاننے میں مدد ملے گی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس دوربین کی مدد سے خلائی مخلوق کے بارے میں بھی تحقیق کی جاسکے گی۔

    لیکن کیا خلائی مخلوق کو اپنی موجودگی سے آگاہ کرنا یا انہیں زمین پر آنے کی دعوت دینا درست ہے؟

    دور جدید کے مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ اسے ایک خطرناک عمل قرار دیتے ہوئے اس سے گریز کرنے کی ہدایت دیتے ہیں۔

    seti-2
    اسٹیفن ہاکنگ

    وہ بہت پہلے تنبیہہ کر چکے ہیں کہ خلا میں اپنی موجودگی کے ثبوت بھیجنے سے گریز کیا جائے ورنہ ہم زمین کے لیے ایک عظیم تباہی کو دعوت دے سکتے ہیں، ’اس معاملے میں بہت احتیاط کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ خلا کی نامعلوم دنیا میں کس قسم کی مخلوق بستی ہے۔ آپ خلا میں اپنے سگنلز بھیج کر اس انجان مخلوق کو یہ بتا رہے ہیں کہ ہم یہاں ہیں‘۔

    وہ کہتے ہیں، ’ہوسکتا ہے، عین ممکن ہے کہ ان مخلوقات کی 99 فیصد آبادی امن پسند ہو، وہ شاعری، ادب اور آرٹ جیسی چیزوں کو پسند کرتی ہو۔ لیکن قوی امکان ہے کہ ان میں کم از کم 1 فیصد ایسے نہ ہوں۔ وہ 1 فیصد آبادی تخریب کارانہ جذبات رکھتی ہو۔ ہوسکتا ہے وہ ہماری موجودگی سے آگاہ ہو کر ہمیں تباہ کرنے کی کوشش کریں۔ ہر صورت میں یہ ایک خطرناک عمل ہے‘۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق 2025 میں منظرعام پر آجائے گی، ناسا کی پیش گوئی

    واضح رہے کہ اسٹیفن ہاکنگ کو صدی کا، آئن اسٹائن کے بعد دوسرا بڑا سائنسدان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی زیادہ تر تحقیق کائنات اور بلیک ہولز کے شعبہ پر مشتمل ہے۔ ان کی ایک کتاب ’وقت کی مختصر تاریخ‘ ایک شہرہ آفاق کتاب ہے جو ماہرین، سائنسدانوں اور عام افراد کے لیے یکساں دلچسپی رکھتی ہے۔

    ہاکنگ کا ماننا ہے کہ خلائی مخلوق کی تلاش میں کامیاب ہونا نسل انسانی کی تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

    تاہم سیٹ شوسٹک کو اس خیال سے اختلاف ہے۔ شوسٹک ایک امریکی خلا باز ہیں اور فی الحال امریکا کے سیٹی انسٹیٹیوٹ میں پروفیسر کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

    seti-1
    سیٹ شوسٹک

    امریکا کا سیٹی انسٹیٹیوٹ (سرچ فار ایکسٹرا ٹیرسٹریل انٹیلی جنس) غیر معمولی ذہانت (دماغوں) کی تلاش کا انسٹیٹیوٹ ہے اور اس کا کام ہی خلا سے باہر کسی دوسرے سیارے کی مخلوقات کو کھوجنا ہے۔

    اس کا ایلین ٹیلی اسکوپ خلا کی وسعتوں میں خلائی مخلوق کے سگنلز تلاش کرنے میں سرگرداں ہے۔

    seti-4
    ایلین ٹیلی اسکوپ

    شوسٹک کا کہنا ہے کہ ہم پچھلے 70 برس سے خلا میں اپنے سگنلز بھیج رہے ہیں۔ ’ہم ریڈیو بنا چکے ہیں، ہم ٹی وی تخلیق کرچکے ہیں جن کے اینٹینوں اور سگنلز کی برقی لہریں آسمانوں کی وسعت میں جارہی ہے۔ سب سے بڑی بات ہمارے پاس ریڈار ہے جو ہزاروں میل دور سفر کرنے والے جہاز کی صحیح سمت بتا سکتا ہے‘۔

    وہ کہتے ہیں، ’ہم مانتے ہیں کہ یہ کوئی بہت عظیم تخلیقات نہیں ہیں۔ لیکن اگر کائنات میں ہمارے علاوہ بھی کوئی مخلوق ہے، اور ہماری طرح وہ بھی دوسری دنیاؤں کی مخلوق سے رابطہ قائم کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے ان سنگلز کو پکڑنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔ وہ بآسانی ان سنگلز کو کیچ کر کے ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا‘۔

    مزید پڑھیں: امریکی سائنسدانوں کا خلائی مخلوق سے ازخود رابطہ کرنے کا فیصلہ

    شوسٹک کے مطابق ’اس کے دو ہی مطلب ہیں۔ یا تو کائنات میں ہمارے علاوہ اور کوئی موجود ہے ہی نہیں اور ہم اس عظیم اور وسیع کائنات میں اکیلے ہیں، یا اگر کوئی ہے بھی، تو وہ یقیناً اتنا ترقی یافتہ نہیں کہ ہمارے بھیجے گئے سگنلز کو پکڑ سکے‘۔

    زمین سے باہر کی دنیا انسانوں کے لیے ہمیشہ سے پراسرار اور دلچسپی کا باعث رہی ہے اور سائنسدان ہمیشہ سے دوسرے سیاروں پر زندگی تلاش کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہے۔

    حال ہی میں ناسا نے امکان ظاہر کیا ہے کہ نظام شمسی کے پانچویں سیارے مشتری کے 67 چاندوں میں سے ایک برفیلے چاند یوروپا کے نیچے ایک سمندر ہوسکتا ہے جس کے بعد اس سیارے پر خلائی مخلوق کی موجودگی کا بھی امکان ہے۔