Tag: خلا

  • خلائی راکٹ کا بے قابو ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا

    خلائی راکٹ کا بے قابو ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا

    خلا میں اس وقت تباہ شدہ راکٹس اور سیٹلائٹس کا ملبہ ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، ایسے ہی ایک راکٹ کا ٹکڑا چاند کی سطح سے جا ٹکرایا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ناسا کا کہنا ہے کہ خلا میں گھومتے بے قابو راکٹ کا ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا ہے۔

    سائنس دانوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ خلا میں کئی سالوں سے زیر گردش ناکارہ راکٹ کا تین ٹن وزنی ٹکڑا چاند کے اس حصے سے ٹکرا گیا ہے جو کہ خلائی دوربین کی نظروں سے اوجھل ہے۔

    اس حوالے سے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر اس تصادم میں چاند پر بہت معمولی اثرات مرتب ہوئے ہوں گے اور ہوسکتا ہے اس سے چاند کی سطح پر چھوٹا گڑھا بننے سے گرد و غبار کے بادل پیدا ہوئے ہوں۔

    تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات کچھ دنوں یا ہفتوں میں سامنے آجائیں گی۔

    سائنس داں اس راکٹ کے ٹکڑے کو کئی سالوں سے ٹریک کر رہے تھے۔ ابتدا میں ان کا خیال تھا کہ اس کا تعلق ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس سے ہے لیکن بعد میں اس کا تعلق چین کے کسی راکٹ سے جوڑا گیا تھا جس پر چین اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری بھی سامنے آئی۔

    ناسا کے مطابق راکٹ کے اس حصے کو مارچ 2015 میں ناسا کی جانب سے ریاست ایری زونا میں ہونے والے اس سروے کے دوران دیکھا گیا تھا۔ بعدازاں سائنس دانوں کی اس میں دلچسپی ختم ہوگئی تھی کیوں کہ وہ ابتدا میں اسے شہاب ثاقب سمجھ رہے تھے۔ اس وقت اسے خلائی کچرا تصور کیا گیا تھا۔

    خلائی کچرا اس وقت ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، یورپین اسپیس ایجنسی کے ایک محتاط اندازے کے مطابق خلا میں زیر گردش کچرے میں 36 ہزار 500 ٹکڑے جسامت میں 10 سینٹی میٹر (4 انچ) سے بھی بڑے ہیں۔

    جبکہ اس کچرے کی مانیٹرنگ کرنے کے لیے ابھی تک کوئی خلائی پروگرام شروع نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ یہ بہت مہنگا کام ہے۔

  • چمکدار خلائی تکون کی حیرت انگیز تصویر

    چمکدار خلائی تکون کی حیرت انگیز تصویر

    ماہرین فلکیات نے خلا میں ایک تکون کی تصویر جاری کی ہے جو دراصل دو کہکشاؤں کا تصادم ہے، تصادم کی وجہ سے وہاں بے شمار ستارے بن رہے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق خلا میں موجود ناسا کی ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ نے ایک خلائی تکون کی تصویر کھینچی ہے جس میں دو کہکشاؤں کا تصادم ہو رہا ہے، اس کے سبب بڑی تعداد میں ستارے پیدا ہوں گے۔

    ان دونوں کہکشاؤں کا مشترکہ نام Arp 143 ہے۔ جس کہکشاں میں چمک زیادہ ہے اس کا نام NGC 2445 ہے جبکہ کم چمک رکھنے والی کہکشاں NGC 2444 ہے۔

    NGC 2445 کی ساخت بدل کر تکون ہو گئی ہے جس میں چمکیلی روشنی موجود ہے کیوں کہ تصادم کے نتیجے میں وہاں موجود مٹیریل ہلا ہے اور تیزی سے ستارے بننے کا عمل جاری ہے۔

    امریکا کے ماہرینِ فلکیات جن کا تعلق نیویارک میں قائم فلیٹرون انسٹی ٹیوٹ کے سینٹر فار کمپیوٹیشنل آسٹرو فزکس اور سیئٹل میں قائم یونیورسٹی آف واشنگٹن سے ہے، انہوں نے زمین کے نچلے مدار میں موجود 32 سال سے موجود ٹیلی اسکوپ کی جانب سے کھینچی جانے والی تصاویر کا جائزہ لیا۔

    ماہرین نے بتایا کہ کہکشائیں ایک دوسرے کے اندر سے گزریں جس کی وجہ سے ستاروں کی تشکیل کے لیے منفرد آگ کا طوفان بپا ہوا، جہاں ہزاروں ستارے وجود میں آنے کےتیار ہیں۔

    NGC 2445 کہکشاں س تاروں کی پیدائش سے بھری پڑی ہے کیوں کہ اس میں وہ گیس بھرپور ہے جو ستارے بننے کا سبب بنتی ہے، لیکن اس کا NGC 2444 کی کششِ ثقل سے نکلنا باقی، جس رسہ کشی میں NGC 2444 جیتتی دکھائی دے رہی ہے۔

  • کیا خلا میں بھی برمودا ٹرائی اینگل موجود ہے؟

    کیا خلا میں بھی برمودا ٹرائی اینگل موجود ہے؟

    آپ نے اب تک بحر اوقیانوس کی برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں سنا ہوگا جہاں متعدد طیارے اور بحری جہاز پراسرار حالات میں غائب ہوچکے ہیں، کیا آپ جانتے ہیں خلا میں بھی ایسا ہی ایک مقام ہے۔

    زمین کی مقناطیسی فیلڈ میں ایک جگہ ہے جسے ساؤتھ اٹلانٹک اینوملی (ایس اے اے) کہا جاتا ہے، کچھ خلا نوردوں نے وہاں ہونے والی عجیب و غریب چیزوں کی اطلاع دی ہے۔

    جب بین الاقوامی خلائی اسٹیشن اس علاقے سے گزرا تو کچھ خلا نوردوں نے تیز روشنی کا تجربہ کیا۔

    خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چمک اس علاقے میں ریڈی ایشن بیلٹ کی وجہ سے ہے جو خلا نوردوں کے ریٹینا میں رد عمل کا باعث بن سکتی ہیں۔

    ہبل خلائی دوربین تابکاری کی وجہ سے اس علاقے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے سے قاصر ہے، ایس اے اے کے ارد گرد کے اسرار نے خلائی برمودا ٹرائی اینگل کا نام حاصل کرلیا ہے۔

  • زمین جیسے ماحول والا سیارہ دریافت

    زمین جیسے ماحول والا سیارہ دریافت

    ماہرین فلکیات نے ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جس کا ماحول زمین جیسا ہے، یہ زمین سے 322 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔

    حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نظامِ شمسی کے باہر موجود ایک انتہائی گرم مشتری کے جیسے سیارے میں، جس کا درجہ حرارت 32 سو ڈگری سیلسیس تک چلا جاتا ہے، حیران کن طور پر زمین کے جیسے ایٹماسفیئر کی تہہ ہے۔

    سوئیڈن اور سوئٹزرلینڈ کا ماہرین نے ہائی ریزولوشن اسپیکٹرواسکوپی کا استعمال کرتے ہوئے نظام شمسی کے باہر موجود سیارے کے پیچیدہ ایٹماسفیئر کے متعلق مزید باتیں دریافت کیں۔

    سنہ 2018 میں وائڈ اینگل سرچ فار پلینٹس کے تحت دریافت کیا گیا کہ یہ گیس کا دیو ہیکل سیارہ، جو زمین سے 322 نوری سال کے فاصلے پر ہے، اپنے مرکزی ستارے کے گرد گھومتا ہے۔

    اب ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ سیارے کا ایٹماسفیئر ایک کاک ٹیل پر مشتمل ہے جس میں ٹائٹینیم آکسائیڈ، آئرن، ٹائٹینیم، کرومیم، وینیڈیم، میگنیشیم اور میگنیز شامل ہیں۔

    اس کو پہلے انتہائی متشدد سیاروں کے طور پر بیان کیا گیا تھا جس کی سطح کا درجہ حرارت اتنا گرم ہے کہ فولاد بھی بخارات میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

    مشتری سے ڈیڑھ گنا بڑے سیارے کا اپنے مرکزی سیارے سے فاصلہ، زمین اور سورج کے درمیان فاصلے کی نسبت 20 گنا کم ہے کیونکہ یہ اپنے مرکزی ستارے سے اتنا قریب ہے اس لیے اس سیارے کا سال 2.7 دن کا ہوتا ہے۔

    اس سیارے کی منفرد خصوصیات کے باوجود ماہرین نے سیارے کے ایٹماسفیئر کا موازنہ زمین سے کیا ہے، کم از کم سطحوں کے اعتبار سے۔ زمین کا ایٹماسفیئر یکساں لفافے کی طرح نہیں ہے لیکن مختلف تہوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں ہر ایک میں علیحدہ خصوصیات ہوتی ہیں۔

  • خلا میں موجود یہ پراسرار بادل کیا ہے؟

    خلا میں موجود یہ پراسرار بادل کیا ہے؟

    ناسا نے اپنی ہبل ٹیلی اسکوپ سے لی گئی ایک تصویر جاری کی ہے جو خلا میں پھیلتے گیس کے بادل کی ہے، ناسا نے اس کے بارے میں وضاحت بھی پیش کی ہے۔

    ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ سے لی گئی نئی تصویر میں این جی سی 6891 خوب چمکتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، یہ تصویر سائنسدانوں کو یہ سمجھنے میں مدد دے گی کہ گیس کے یہ بادل کیسے بنے اور آگے کیسے بڑھے۔

    ماہرینِ فلکیات اسے پلینٹری نیبولا پکارتے ہیں، یہ لفظ ماضی کی غلط تشخیص ہے جب ٹیلی اسکوپ کی ٹیکنالوجی اپنے ابتدائی دور میں تھی۔

    آج ہم یہ جانتے ہیں یہ ایسی نیبولا دراصل چھوٹے ستاروں کے آخر وقتوں میں ان میں سے نکلنے والی گیسز کے نتیجے میں بنتی ہیں۔

    ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ کی ہائی ڈیفینیشن تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بادل کی گہرائی میں ایک سفید چھوٹا سا ستارہ ہے جس کے گرد تاریں اور گرہیں ہیں۔

    ڈیٹا یہ بھی بتاتا ہے کہ گیس کا بیرونی دائرہ نیبولا کے اندرونی حصے سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے اور مشاہدوں میں ایسے بھی گیس کے خول آئے ہیں جن کے رخ مختلف سمتوں میں ہیں۔

    ناسا حکام نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حرکات سے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ ان خولوں میں سے ایک 4 ہزار 800 سال پرانا ہے جبکہ بیرونی دائرہ کچھ 28 ہزار برس پرانا ہے جو ایک دم توڑتے ستارے کے مختلف اوقات میں تواتر کے ساتھ ہوتے دھماکوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

    ہبل فی الحال 23 اکتوبر کو ہونے والے سنکرونائزیشن گلچ سے بحالی کے مراحل میں ہے اور اس کے آلات آہستہ آہستہ واپس آن لائن آرہے ہیں۔

  • خلا سے ماؤنٹ ایورسٹ کی تصویر

    خلا سے ماؤنٹ ایورسٹ کی تصویر

    دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ ان چند مقامات میں سے ایک ہے جو خلا سے بھی دکھائی دیتی ہیں، تاہم حال ہی میں خلا سے لی گئی کچھ تصاویر میں سوشل میڈیا صارفین ماؤنٹ ایورسٹ کو ڈھوندنے میں پریشانی کا شکار ہوگئے۔

    انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن (آئی ایس ایس) میں موجود ناسا کے ایک خلا باز مارک ٹی وینڈی ہے نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر 2 تصاویر پوسٹ کر کے لوگوں کو چیلنج کیا کہ وہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو اس میں دریافت کریں۔

    انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ متعدد بار کوشش کرنے کے بعد آخر کار میں اسپیس اسٹیشن سے ماؤنٹ ایورسٹ کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا، کیا آپ ان تصاویر میں اسے تلاش کرسکتے ہیں؟

    ماؤنٹ ایورسٹ یقیناً زمین کی سب سے بلند چوٹی ہے مگر جب آپ 17 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے مدار پر سفر کررہے ہوں تو وسیع پس منظر میں وہ آسانی سے گم ہوسکتی ہے اور صحیح موقع پر کیمرا سے تصویر لینا بھی آسان نہیں۔

    اب یہی تصاویر زمین سے 248 میل کی بلندی سے لی گئی ہے جس میں ماؤنٹ ایورسٹ کو تلاش کرنا بہت مشکل ہے تاہم کچھ صارفین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اسے ڈھونڈ لیا ہے۔

    ایک صارف اسٹیو رائس نے بتایا کہ وہ ایورسٹ کی تصاویر میں ڈھونڈنے میں کامیاب رہا جس کے لیے اس نے گوگل میپس سے بھی کچھ مدد لی۔

  • معروف اداکار خلا میں جانے والے معمر ترین شخص بن گئے

    معروف اداکار خلا میں جانے والے معمر ترین شخص بن گئے

    خلا کا چکر لگانے والے معمر ترین انسان کا اعزاز مشہور فلم اسٹار ٹریک کے اداکار ولیم شیٹنر کو مل گیا، وہ 90 برس کی عمر میں خلا کا سفر کر آئے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فلم اسٹار ٹریک سے شہرت پانے والے کینیڈین اداکار ولیم شیٹنر 90 برس کی عمر میں خلا کا چکر لگانے والے دنیا کے معمر ترین شخص بن گئے۔

    ولیم شیٹنر، ایمازون کے بانی جیف بیزوز کی کمپنی بلیو اوریجن کے راکٹ شپ میں خلا کا چکر لگا کر آئے۔

    وہ ان 4 مسافروں میں شامل تھے جنہوں نے سفید رنگ کے مکمل طور پر خود کار 60 فٹ طویل نئے شیپرڈ خلائی جہاز میں خلا کا سفر کیا جس کا دورانیہ 10 منٹ اور 17 سیکنڈز پر محیط تھا جو ٹیکساس کے ٹاؤن وان ہارن سے 20 میل (32 کلومیٹر) کے فاصلے پر بلیو اوریجن کی لانچ سائٹ سے روانہ ہوا تھا۔

    خلائی شٹل کا عملہ سب اوربٹل پرواز سے کیپسول پیراشوٹ کے ذریعے ٹیکسس کے صحرا میں واپس آیا، ولیم شیٹنر احتیاط سے باہر نکلے اور دیگر افراد نے خلا کا چکر لگا کر آنے کی خوشی منائی۔

    جیف بیزوز بھی وہاں موجود تھے جو ولیم شیٹنر سے ملے، انہوں نے نیلے رنگ کا فلائٹ سوٹ اور کیپ پہنی ہوئی تھی اور ان کی شرٹ کی ایک آستین پر سفید حروف میں کمپنی کا نام درج تھا۔

    ولیم شیٹنر نے جیف بیزوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ آپ نے مجھے دیا ہے وہ بہت اچھا تجربہ ہے،میں اس حوالے سے بہت جذبات ہوں۔

    چاروں خلا بازوں نے چند منٹ بے وزنی کا تجربہ کیا اور خلا کی عالمی تسلیم شدہ حد سے زیادہ 65.8 میل (106 کلومیٹر) کا سفر کیا۔

  • انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دمدار ستارہ دریافت

    انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دمدار ستارہ دریافت

    بین الاقوامی ماہرین نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دمدار ستارہ دریافت کیا ہے جو اب سے 10 سال بعد ہمارے نظام شمسی کے قریب سے گزرے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انسانی تاریخ میں سب سے بڑا دمدار ستارہ (کومٹ) دریافت ہوا ہے جو 100 سے 200 کلومیٹر وسیع ہے اور یہ سنہ 2031 میں ہمارے نظام شمسی کے قریب سے گزرے گا۔

    یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے پروفیسر گیری برنسٹائن اور ان کے پی ایچ ڈی شاگرد پیڈرو برنارڈینیلائی نے مشترکہ طور پر اسے دریافت کیا ہے اور اسی بنا پر اسے برنسٹائن برنارڈینیلائی دمدار ستارے کا نام دیا گیا ہے۔

    سنہ 2031 میں یہ زمین سے قریب ہوگا جسے دیکھنے کےلیے صرف ایک دوربین درکار ہوگی، حالانکہ جتنے دمدار ستارے ہم دیکھ چکے ہیں یہ ان سے ایک ہزار گنا بڑا ہے۔

    یہ دیو نما دمدار ستارہ نظام شمسی سے باہر لاکھوں کروڑوں برس سے زیرِ گردش ہے اسی لیے یہ زمین سے دریافت ہونے والا بعید ترین دمدارستارہ بھی ہے جس کی قربت پر اسے دیکھتے ہوئے نظام شمسی اور کائنات کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔

    چلی میں واقع سیرو ٹولولو انٹر امریکن رصد گاہ پر نصب چار میٹر قطر کی دوربین سے اسے دریافت کیا گیا ہے۔ اس دوربین پر ڈارک انرجی کیمرہ بھی نصب ہے۔ اس دوربین سے حاصل شدہ 6 سالہ ڈیٹا کا صبر آزما تجزیہ کرکے یہ دمدار ستارہ دریافت کیا گیا ہے۔

    اس چھ سالہ ڈیٹا کو چھاننے کےلیے یونیورسٹی آف الی نوائے کے سپر کمپیوٹنگ مرکز سے مدد لی گئی، اس دوران ایک ہی فلکیاتی جسم کو 32 مرتبہ دیکھا گیا اور وہ یہی دمدار ستارہ تھا۔

    دمدار ستارے کیا ہوتے ہیں؟

    دمدار ستارے گرد و غبار اور برف کے گولے ہوتے ہیں۔ جب یہ سورج کی سمت سفر کرتے ہیں تو ان کی برف پگھل کر طویل دم کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور اسی مناسبت سے انہیں دمدار ستارے کہا جاتا ہے۔

    یہ بھی نظام شمسی کے ساتھ ہی تشکیل پاتے ہیں لیکن بعد میں ان کے انتہائی طویل اور بیضوی مداروں سے یہ نظام شمسی کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں۔

    دمدار ستارے کا سب سے اہم حصہ مرکزہ یا نیوکلیئس ہوتا ہے جو قدرے ٹھوس برف، گرد و غبار اور گیس وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کی دمیں لاکھوں بلکہ کروڑوں میل لمبی ہوسکتی ہیں۔

  • چین نے نیا سیٹلائٹ خلا میں بھیج دیا

    چین نے نیا سیٹلائٹ خلا میں بھیج دیا

    بیجنگ: چین نے نیو جنریشن میٹرولوجی سیٹلائٹ خلا میں بھیج دیا۔

    تفصیلات کے مطابق چین نے خلا میں فِنگ یُن 4 بی نیو جنریشن سیٹلائٹ خلا میں بھیج دیا ہے، جو موسمیاتی پیش گوئی، موسمیاتی تجزیے اور ماحول و قدرتی آفات کی مانیٹرنگ کے لیے استعمال ہوگا۔

    شنہوا نیوز کی خبر میں کہا گیا ہے کہ ’فِنگ یُن 4 بی‘ نامی یہ سیٹلائٹ لانگ مارچ۔3 بی راکٹ کے ذریعے صوبہ سیچوان کے شی چنگ سیٹلائٹ اسٹیشن سے خلا میں بھیجا گیا۔

    حکام کا کہنا ہے کہ یہ سیٹلائٹ مدار میں پہنچ گیا ہے، جسے چین کا محکمہ موسمیات کنٹرول کرے گا، یہ سیٹلائٹ دسمبر 2016 میں خلا میں بھیجے گئے ’فِنگ یُن 4 اے‘ سیٹلائٹ کے ساتھ مل کر موسمیاتی مانیٹرنگ نیٹ ورک تشکیل دے گا۔

    یاد رہے کہ چند دن قبل چین کا ایک مال بردار خلائی جہاز تیان ژو-2 خلائی اسٹیشن پر کامیابی کے ساتھ لنگر انداز ہوا تھا، چین نے اس خلائی جہاز کے ذریعے آلات اور دیگر اشیا خلائی اسٹیشن کی طرف روانہ کی تھیں۔

    خلا کی دنیا: چین نے ناقابلِ یقین کامیابی حاصل کرلی

    واضح رہے کہ چینی ماہرین کی جانب سے خلا سے متعلق پیش کردہ اپنے منصوبے 2 سال میں مکمل کرنے کے لیے تیزی سے کام جاری ہے، مذکورہ جہاز کی لینڈنگ کا تجربہ بھی اُن میں‌سے ایک تھا، ان منصوبوں‌ میں مدار کی تعمیر مکمل کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔

  • دنیا کے 2 امیر ترین افراد آمنے سامنے، وجہ؟

    دنیا کے 2 امیر ترین افراد آمنے سامنے، وجہ؟

    آج کل کی مصروف زندگی میں ہر شخص مقابلے اور مسابقت کا شکار نظر آتا ہے اور اپنے ارد گرد والوں سے آگے نکلنا چاہتا ہے، کچھ ایسا ہی حال دنیا کے 2 امیر ترین افراد کا بھی ہے جو اپنی دولت میں مزید اضافے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔

    امیزون کے بانی جیف بیزوز اور ٹیسلا و اسپیس ایکس کی ملکیت رکھنے والے ایلون مسک دنیا کے 2 امیر ترین افراد ہیں جو خلا کو تسخیر کرنا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے دنیا کے 2 امیر ترین افراد کے درمیان ایک جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔

    جیف بیزوز کی ملکیت میں موجود خلائی کمپنی بلیو اوریجن نے امریکا کے خلائی ادارے ناسا کی جانب سے ایلون مسک کی اسپیس ایکس ٹیم کو مختلف معاہدے دینے پر احتجاج کرتے ہوئے عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔

    تجزیہ کار ڈینئیل آئیوس نے بتایا کہ یہ صرف خلا کی جنگ نہیں، بلکہ انا کی جنگ بھی ہے، یہ ذاتی مسئلہ زیادہ بننے والا ہے۔

    57 سالہ جیف بیزوز بلیو اوریجن کے ساتھ ساتھ امیزون کے بھی بانی ہیں اور 202 ارب ڈالرز کے ساتھ دنیا کے امیر ترین شخص ہیں۔

    دوسری جانب 49 سالہ ایلون مسک ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے ساتھ دیگر کمپنیوں کے بانی ہیں اور وہ 182 ارب ڈالرز کے ساتھ دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص ہیں۔

    خلا کی تسخیر کا عزم رکھنے والی ان دونوں افراد کی کمپنیاں سیٹلائیٹ نیٹ ورکس کو تشکیل دے رہی ہیں تاکہ انٹرنیٹ سروس اور خلائی سیاحت کا مقصد حاصل کیا جاسکے۔

    اسپیس ایکس اور بلیو اوریجن کو اپنے بانیوں کے اثاثوں سے فائدہ تو ہوتا ہے مگر ان دونوں کے درمیان امریکی فوج یا خلائی اداروں کے معاہدوں کے لیے بھی مسابقت موجود ہے۔

    اس معاملے میں ایلون مسک کو جیف بیزوز پر واضح برتری حاصل ہے۔

    اسپیس ایکس نے اب تک زمین کے مدار میں سیکڑوں سیٹلائیٹس بھیجے ہیں جبکہ ایلون مسک نے مائیکرو سافٹ کے ساتھ ایک شراکت داری بھی قائم کی ہے۔

    مائیکرو سافٹ کلاؤڈ مارکیٹ میں امیزون کی سب سے بڑی حریف کمپنی ہے جس کے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے اسپیس ایکس سیٹلائیٹ کی مدد سے انٹرنیٹ سروس فراہم کرے گی۔

    اس شراکت داری کا اعلان 2020 کے آخر میں کیا گیا تھا اور مائیکرو سافٹ نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ اسپیس ایکس کے ساتھ مل کر ایک حکومتی معاہدے کے تحت دماغی نظام کی اہلیت رکھنے والے سیٹلائیٹس تیار کرے گی، جو میزائلوں کو ٹریک اور انہیں روک سکے گا۔

    گزشتہ برس امریکی محکمہ دفاع نے 10 ارب ڈالرز کا کلاؤڈ کمپیوٹنگ کا کنٹریکٹ بھی امیزون کی بجائے مائیکرو سافٹ کو دیا۔ امیزون کا الزام ہے کہ سابق امریکی صدر جیف بیزوز اور ان کی کمپنی کے مخالف تھے اور اسی لیے یہ معاہدہ اسے نہیں مل سکا۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کو بھی اسپیس ایکس پر اعتماد ہے جس نے انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن تک خلا بازوں اور سپلائیز کو پہنچایا ہے۔ اس کے مقابلے میں بلیو اوریجن ناسا کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

    جیف بیزوز نے رواں سال کے شروع میں امیزون کے چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا اور بلیو اوریجن سمیت دیگر منصوبوں پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

    جیف بیزوز کی جانب سے ایلون مسک کے مریخ پر انسانی آبادیاں بسانے کے منصوبوں کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے، جیف بیزوز نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ سرخ سیارہ انسانوں کے قیام کے لیے نہیں ہے۔

    سنہ 2019 میں ایک کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ کون مریخ پر منتقل ہونا چاہتا ہے؟ تو مجھ پر ایک احسان کریں اور ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر ایک سال تک قیام کریں اور دیکھیں کیا آپ اسے پسند کریں گے، کیونکہ وہ مریخ کے مقابلے میں کسی جنت سے کم نہیں۔

    ایلون مسک اور جیف بیزوز کے درمیان یہ مسابقت خلا سے حاصل ہونے والی مالی مفادات کے لیے ہے۔ تجزیہ کاروں نے پیشگوئی کی ہے کہ خلا سے آمدنی کے منصوبوں پر بہت جلد کام شروع ہوجائے گا اور کھربوں ڈالرز کمائے جائیں گے۔

    تجزیہ نگاروں کے مطابق جیف بیزوز اور ایلون مسک جانتے ہیں کہ خلائی جنگ کے فاتح کا فیصلہ آئندہ ایک سے 2 سال میں ہوجائے گا۔