Tag: خلا

  • خلا سے پورے چاند کا خوبصورت نظارہ

    خلا سے پورے چاند کا خوبصورت نظارہ

    خلا میں ہونا زندگی کا ناقابل فراموش ترین تجربہ ہوسکتا ہے جہاں سے زمین اور چاند کے وہ نظارے دکھائی دے سکتے ہیں جو زمین سے دیکھنا ناممکن ہے۔

    حال ہی میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے سپر مون کے نظارے کی خوبصورت تصاویر شیئر کی گئیں۔

    انٹرنیشل اسپیس اسٹیشن (آئی ایس ایس) کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹا گرام پر چاند کی خوبصورت تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا کہ چاند چاہے کسی بھی مرحلے میں ہو خلا سے اس کا نظارہ نہایت خوبصورت ہوتا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by International Space Station (@iss)

    ان تصاویر کو سوشل میڈیا پر لاکھوں افراد نے لائیک کیا اور اس پر تبصرے کیے۔

    یاد رہے کہ 27 اور 28 اپریل کی رات کو آسمان پر نمودار ہونے والا چاند سپر مون تھا جسے پنک مون بھی کہا گیا۔

    سپر مون اس وقت ہوتا ہے جب چاند زمین سے قریب ترین ہو جس کی وجہ سے وہ معمول سے زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے۔

  • کیا خلا میں لگژری ہوٹل بننے جارہا ہے؟

    کیا خلا میں لگژری ہوٹل بننے جارہا ہے؟

    دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے خلا میں کی جانے والی تحقیقوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب زمین سے خلا میں جانے والے سیاحوں کی قطاریں کھڑی ہوں، اسی متوقع صورتحال کو دیکھتے ہوئے خلا میں پہلا ہوٹل بنانے کی تیاری شروع کردی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا کے پہلے خلائی ہوٹل ووئجر اسٹیشن کے ابتدائی ڈیزائن کو سامنے لایا گیا ہے، توقع کی جا رہی ہے کہ یہ ہوٹل سنہ 2027 تک اپنی سروس شروع کر دے گا۔

    ہوٹل میں ہر ہفتے 100 سیاحوں کے رہنے کی گنجائش ہوگی، خلائی پورٹ بنانے کے لیے شروع کیے جانے والے گیٹ وے فاؤنڈیشن نامی ادارے نے اس ہوٹل کے ابتدائی ڈیزائن کو پیش کیا ہے۔

    خلا کا یہ پہلا ہوٹل پہیے کی شکل میں 190 قطر میں ہوگا اور یہ چاند کی طرح گردش کرے گا تاکہ چاند کی سطح پر موجود قوت حاصل کر سکے، اس کا مطلب ہے کہ یہ ہوٹل مکمل طور پر مصنوعی کشش ثقل (آرٹی فیشل گریوٹی) پر انحصار کرے گا۔

    گیٹ وے فاؤنڈیشن کے مطابق خلائی ہوٹل میں 24 لگژری یونٹس ہوں گے، جن میں سے ہر ایک میں خواب گاہ بھی ہوگی۔

    اسی طرح دیگر سہولیات زندگی بھی فراہم کی جائیں گی، تعطیلات سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہوٹل میں تفریحی سہولیات جیسے عمدہ ریستوران اور سینما گھر بھی ہوں گے۔

    اگرچہ ادارے نے ابھی تک ہوٹل میں ایک رات ٹھہرنے کے کرائے کے بارے میں نہیں بتایا، لیکن کہا جا رہا ہے کہ یہ دنیا کے امیر ترین افراد کے لیے محدود مواقع میں دستیاب ہوگا۔

  • کیا 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سار چاند تک پہنچ گئے تھے؟

    کیا 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سار چاند تک پہنچ گئے تھے؟

    سنہ 1967 میں نیل آرم اسٹرونگ چاند پر قدم رکھنے والا پہلا شخص تھا لیکن حال ہی میں پیش کیے گئے ایک مفروضے کے مطابق آج سے 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سار بھی چاند تک پہنچ چکے تھے۔

    ایک ایوارڈ یافتہ امریکی سائنس جرنلسٹ پیٹر برینن کی سنہ 2017 میں شائع شدہ کتاب دی اینڈز آف دا ورلڈ کا ایک اقتباس، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بے حد وائرل ہورہا ہے۔

    اس اقتباس میں کہا گیا ہے کہ اب سے 6 کروڑ 60 لاکھ سال قبل جب ایک شہاب ثاقب زمین سے پوری قوت سے ٹکرایا (جس نے ڈائنو سارز کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا)، تو زمین میں ایک گہرا گڑھا پڑا اور یہاں سے اٹھنے والا ملبہ پوری قوت سے فضا میں اتنی دور تک گیا، کہ چاند تک پہنچ گیا۔

    کتاب میں شامل ایک جغرافیائی سائنسدان کی رائے کے مطابق اس ملبے میں ممکنہ طور پر ڈائنو سارز کے جسم کی باقیات یا ہڈیاں بھی شامل تھیں جو شہاب ثاقب کے ٹکراتے ہی جل کر بھسم ہوگئے تھے۔

    پیٹر نے لکھا ہے کہ زمین سے ٹکرانے والا یہ شہاب ثاقب زمین پر موجود بلند ترین برفانی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کے برابر تھا، اور یہ گولی کی رفتار سے 20 گنا زیادہ تیزی سے زمین سے ٹکرایا۔

    ماہرین کے مطابق اس شہاب ثاقب کے ٹکراؤ کے بعد زمین پر 120 میل طویل گڑھا پڑ گیا جبکہ کئی سو میل تک موجود جاندار لمحوں میں جل کر خاک ہوگئے۔

    اس تصادم سے گرد و غبار کا جو طوفان اٹھا اس نے زمین کو ڈھانپ لیا اور سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روک دیا، جس کے نتیجے میں زمین پر طویل اور شدید موسم سرما شروع ہوگیا۔

    یہ وہی موسم سرما ہے جو زمین پر کسی بھی ممکنہ ایٹمی / جوہری جنگ کے بعد رونما ہوسکتا ہے لہٰذا اسے جوہری سرما کا نام دیا جاتا ہے۔

    اس دوران زمین پر تیزابی بارشیں بھی ہوتی رہیں اور ان تمام عوامل کے نتیجے میں زمین پر موجود 75 فیصد زندگی یا جاندار ختم ہوگئے۔

    ڈائنو سارز کی ہڈیوں کے چاند تک پہنچ جانے کے مفروضے کے کوئی سائنسی ثبوت تو نہیں تاہم اسے نہایت دلچسپی سے پڑھا جارہا ہے۔

  • خلا میں 150 سال سے موجود یہ روشنی کیسی ہے؟

    خلا میں 150 سال سے موجود یہ روشنی کیسی ہے؟

    واشنگٹن: امریکی خلائی ادارے ناسا نے خلا میں آتش بازی کی ایک تصویر جاری کی ہے جو گزشتہ 150 سال سے خلا میں موجود ہے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر یہ تصویر پوسٹ کرتے ہوئے ناسا نے لکھا کہ کیا آپ نے ایسی آتشبازی دیکھی ہے جو آہستگی سے حرکت کرے؟ اتنی آہستگی سے کہ وہ ڈیڑھ سو سال جاری رہے؟

    ناسا کے مطابق خلا میں یہ آتشبازی دراصل ایک ستارے ایٹا کرینا کے پھٹنے سے ہوئی، یہ ستارہ جو اب تباہ ہوچکا ہے زمین سے 7 ہزار 500 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by NASA (@nasa)

    ناسا کا کہنا ہے کہ یہ ستارہ سنہ 1840 کی دہائی میں ایک زور دار دھماکے سے پھٹا، اور سست روی سے ہونے والے اس دھماکے اور اس سے ہونے والی روشنی نے ایک دہائی تک اسے آسمان کا روشن ترین ستارہ بنائے رکھا۔

    اس زمانے میں اس دھماکے کی روشنی اتنی تھی کہ اس وقت جنوبی سمندروں میں جانے والے ملاح اس روشن ستارے سے سمندر میں سمت کا تعین کیا کرتے تھے۔

    اس ستارے کو ناسا کی ہبل ٹیلی اسکوپ سے عکس بند کیا گیا ہے۔

    ناسا نے مزید بتایا کہ ایٹا کرینا دو ستاروں کے ایک دوسرے کے مدار میں گھومنے کے سسٹم کو کہا جاتا ہے، دونوں ستاروں کی مشترکہ روشنی ہمارے سورج کی روشنی سے 50 لاکھ گنا زائد ہوتی ہے۔

    ناسا کی اس تصویر کو 9 لاکھ سے زائد افراد نے لائک کیا اور مختلف کمنٹس کیے۔

  • کیا خلائی سفر سے واپسی پر خلا باز مذہب اور روحانیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں؟

    کیا خلائی سفر سے واپسی پر خلا باز مذہب اور روحانیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں؟

    امریکی خلائی ادارے ناسا سمیت دنیا بھر میں مختلف خلائی ادارے خلا میں جانے اور وہاں نئی نئی ریسرچز کرنے میں مصروف عمل ہیں، ایسے میں خلا میں جانے والے زمینی باشندوں کے جسم پر پڑنے والے اثرات کا بھی بغور مشاہدہ کیا جاتا ہے۔

    یہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ خلا میں جانے کے بعد خلا بازوں کے جسم اور دماغ پر مختلف اثرات رونما ہوتے ہیں جو زمین پر واپسی کے کچھ عرصے تک قائم رہتے ہیں۔

    جسمانی تبدیلیوں کے علاوہ ان کے ذہن و نفسیات میں بھی مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

    بعض بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق خلا میں جانے والے خلا باز اپنے سفر کے دوران مذہب اور روحانیت کی طرف بھی مائل ہوجاتے ہیں۔

    خلا میں جانے والے پہلے امریکی جان گلین نے، جو خلا میں جانے والے دنیا کے تیسرے شخص تھے، اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ کوئی مذہبی انسان نہیں تھے تاہم جب وہ خلا میں تھے تب باقاعدگی سے عبادت کرنے لگے تھے۔

    جان کا کہنا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ جب آپ عقل سے ماورا ایک غیر معمولی مقام پر ہوں اور کائنات کی بے کراں وسعت کو دیکھ سکتے ہوں، تو ایسے میں آپ خدا کو نہ یاد کریں، اگر آپ خدا کو نہ بھی مانتے ہوں گے تو ایسے موقع پر اس کے جاہ و جلال پر ایمان لے آئیں گے۔

    سنہ 1968 میں اپالو 8 مشن پر چاند پر جانے والے امریکی و برطانوی خلا بازوں نے بھی اپنی منزل پر پہنچ کر بائبل کی آیات پڑھیں جنہیں پوری دنیا نے براہ راست ٹی وی نشریات پر دیکھا۔

    اسی طرح چاند پر قدم رکھنے والے اولین انسانوں نیل آرمسٹرونگ اور بز آلڈرن نے بھی چاند پر پہنچ کر سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور عبادت کی۔

    سنہ 1985 میں سعودی شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز خلا میں جانے والے پہلے مسلمان بنے جنہوں نے زمین کے مدار کے گرد چکر لگاتے ہوئے قرآنی آیات کی تلاوت کی۔

    شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز

    مذہب کا یہ سفر یہیں ختم نہیں ہوتا، خلائی سفر سے واپسی کے بعد خلا بازوں کی زندگی میں عظیم تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کئی خلاباز ایسے تھے جو ریٹائر ہونے کے بعد مذہبی سرگرمیوں و مذہبی ریسرچ سے وابستہ ہوگئے۔

    ناسا نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ خلا سے واپسی کے بعد خلا باز عموماً روحانیت اور فلاح انسانیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔

    زمین سے دور اندھیرے اور لامحدود خلا میں رہنا انہیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ خدا نے انہیں زمین جیسی نہایت خوبصورت نعمت سے نواز رکھا ہے۔

    اکثر خلا باز اپنے انٹرویوز میں یہ کہتے بھی دکھائی دیے کہ وہ جنگوں اور خونریزی سے نفرت کرنے لگے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام انسان امن اور محبت سے رہیں۔

    خلا بازوں کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں دنیا کے صاحب ثروت اور مراعات یافتہ افراد، مشکلات کا شکار افراد کی مدد کریں کیونکہ وہ سب ایک خاندان کی طرح ہیں جنہیں خدا نے اس زمین پر اتارا ہے۔

    اکثر خلا بازوں نے کہا کہ زمین جیسی خوبصورت نعمت کے ہوتے ہوئے نفرت کا پرچار کرنا، دوسرے انسانوں کو اپنے سے کمتر سمجھنا اور زمین کی خوبصورتی کو تباہ کرنا کفران نعمت ہے، زمین دنیا کے تمام انسانوں کا مشترکہ اثاثہ ہے اور سب کو اس کی قدر کرنی چاہیئے۔

  • ٹام کروز اپنی فلم کی شوٹنگ کے لیے خلا میں کب جائیں گے؟

    ٹام کروز اپنی فلم کی شوٹنگ کے لیے خلا میں کب جائیں گے؟

    معروف ہالی ووڈ اداکار ٹام کروز نے خلا میں فلم کی شوٹنگ کے لیے امریکی خلائی ادارے ناسا سے معاملات طے کیے تھے اور اب ان کے خلا میں جانے کی حتمی تاریخ بھی سامنے آگئی ہے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر خلائی مشن سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے ادارے اسپیس شٹل المینیک نے ایک چارٹ شیئر کیا۔

    اس چارٹ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اکتوبر 2021 میں اسپیس ایکس نامی کمپنی کے پائلٹ لوپیز الیگریا کے ہمراہ ٹام کروز اور معروف ہدایت کار ڈوگ لیمن بھی خلا میں جائیں گے۔

    اس چارٹ میں خلا میں جانے کے لیے ان کے ساتھ ایک اور شخص کی سیٹ خالی ہے، تاہم اس پر کوئی نام سامنے نہیں آسکا ہے۔

    خیال رہے کہ رواں برس مئی میں خبریں سامنے آئی تھیں کہ ٹام کروز فلم کی شوٹنگ کے لیے خلا میں جائیں گے۔ ایک امریکی اخبار کا کہنا تھا کہ آٹو کمپنی ٹیسلا اور راکٹ کمپنی اسپیس ایکس کے سربراہ ایلن مسک بھی اس منصوبے میں شامل ہوں گے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کے ایڈمنسٹریٹر جم برائیڈنسٹائن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ناسا زمین کے مدار کے باہر بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (اسپیس اسٹیشن) پر ٹام کروز کے ساتھ فلم کی شوٹنگ کے لیے پرجوش ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس طرح کے مقبول میڈیم کے ذریعے انجینیئرز اور سائنسدانوں کی نئی نسل ناسا کے منصوبوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے متاثر ہوگی۔

  • خلا کی تسخیر کے لیے متحدہ عرب امارت کا اہم اقدام

    خلا کی تسخیر کے لیے متحدہ عرب امارت کا اہم اقدام

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات نے خلا کی تسخیر کے لیے امریکی خلائی ادارے ناسا سے معاہدہ کرلیا، اماراتی خلا نورد ناسا کے تحت عالمی تجربہ اور مہارت حاصل کریں گے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں محمد بن راشد خلائی مرکز اور ناسا نے اماراتی خلا نوردوں کی ٹریننگ کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ نئے معاہدے کے تحت اماراتی خلا نورد ناسا کے تحت عالمی تجربہ اور مہارت حاصل کریں گے۔

    معاہدے کے مطابق ناسا میں 4 اماراتی خلا نوردوں کو تربیت دی جائے گی، ابتدا ھزاع المنصوری اور سلطان النیادی سے کی جائے گی۔ دوسرے مرحلے میں دیگر 2 خلا نوردوں کو امریکا بھیجا جائے گا۔

    انہیں سنہ 2021 کے لیے خلا نوردوں کے ناسا پروگرام میں شامل کیا گیا ہے۔

    اماراتی خلا نورد وہی جسمانی اور ذہنی تربیت حاصل کریں گے جو ناسا کی جانب سے اپنے خلا نوردوں کو دی جاتی ہے۔

    ناسا کا جانسن سینٹر خلا نوردی کے شعبے میں نصف صدی سے کہیں زیادہ سے کام کررہا ہے، یہ سینٹر سائنسی اور ٹیکنالوجی معلومات کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

    سنہ 1961 کے دوران ہیوسٹن میں قائم کیا جانے والا ی ادارہ تقریباً 10 ہزار افراد کو تیار کر چکا ہے۔

    خیال رہے کہ امارات کے خلا نورد ھزاع المنصوری اور سلطان النیادی ستمبر 2018 کے دوران ماسکو کی سٹارز سٹی میں یوری گگارین سینٹر میں بھی ٹریننگ حاصل کر چکے ہیں۔

  • زمین سے ایک سیارچہ ٹکرانے جارہا ہے

    زمین سے ایک سیارچہ ٹکرانے جارہا ہے

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ رواں برس نومبر میں ایک سیارچہ زمین سے ٹکرائے گا تاہم زمین کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

    ناسا نے حال ہی میں ایک سیارچے کا مشاہدہ کیا ہے جو خلا میں زمین سے براہ راست تصادم کے راستے پر ہے، 6.5 میٹر قطر کا یہ سیارچہ نومبر تک زمین کے قریب پہنچ جائے گا۔

    ناسا کے مطابق امریکا میں صدارتی انتخاب سے ایک روز قبل 2 نومبر کو یہ سیارچہ زمین کی فضا میں داخل ہوجائے گا۔ زمین پر اس کے اثرات ایک فیصد سے بھی کم ہوں گے لہٰذا یہ سیارچہ زمین کے لیے کسی قسم کا خطرہ ثابت نہیں ہوگا۔

    اس سیارچے کو کیلی فورنیا کی رصد گاہ میں 2 سال قبل دیکھا گیا تھا۔

    اس سے قبل سنہ 2018 میں ایک خطرناک جسامت کا سیارچہ زمین کے نہایت قریب آگیا تھا، ویسٹا نامی یہ سیارچہ پاکستان کے کل رقبے جتنا بڑا تھا جبکہ سیارچے میں 13 میل بلند پہاڑ بھی موجود تھے۔

    ناسا کا کہنا تھا کہ وہ سیارچہ جو زمین سے ٹکرا کر ڈائنو سارز کے نسل کے خاتمے کی وجہ بنا، صرف 10 سے 15 کلومیٹر چوڑا تھا، جبکہ ویسٹا کی چوڑائی 252 کلو میٹر تھی۔ اس کے زمین سے ٹکرانے کی صورت میں زمین پر سے زندگی کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔

    تاہم خوش قسمتی سے زمین سے انتہائی قریب ہونے کے باجوود یہ اس راستے پر نہیں تھا جس پر زمین سے اس کا تصادم ہوسکے، چنانچہ یہ زمین کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اپنے راستے پر خلا کی وسعتوں میں گم ہوگیا۔

  • خلا باز کے لباس سے ننھا سا آئینہ خلا میں گر پڑا

    خلا باز کے لباس سے ننھا سا آئینہ خلا میں گر پڑا

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ ایک خلا باز نے خلا میں کام کے دوران غلطی سے ایک چھوٹا سا آئینہ گرا دیا جو خلا کی وسعتوں میں گم ہوچکا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ خلا باز کمانڈر کرس بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے خلائی چہل قدمی (اسپیس واک) کے لیے باہر جارہے تھے، انہیں اسٹیشن کی بیٹریز پر کام کرنا تھا جب ان کے لباس سے آئینہ گر پڑا۔

    ناسا کے مطابق یہ آئینہ خلا بازوں کے لباس میں نصب ہوتا ہے اور کمانڈر کرس جب خلائی اسٹیشن سے باہر نکلے تو کسی طرح یہ ان کے لباس سے علیحدہ ہوگیا۔

    مذکورہ آئینہ ایک فٹ فی سیکنڈ کے حساب سے خلا میں تیرتا ہوا کمانڈر کی پہنچ سے دور ہوگیا، اب یہ آئینہ خلا میں زمین کے مدار میں بڑی تعداد میں تیرتے خلائی ملبے کا حصہ ہے تاہم اس سے خلائی مشن، خلائی اسٹیشن یا خلا بازوں کو کوئی خطرہ نہیں۔

    ہالی ووڈ فلم گریویٹی کا منظر، جس میں خلا باز (جارج کلونی) مذکورہ آئینے میں اپنے پیچھے موجود خلا باز کو دیکھتا ہے

    ناسا کا کہنا ہے کہ یہ آئینہ خلا بازوں کے خلائی لباس میں ہر آستین پر نصب ہوتا ہے تاکہ کام کے دوران خلا باز اس کی مدد سے آس پاس بھی نظر رکھ سکیں۔ یہ آئینہ 3 بائی 5 انچ کا ہوتا ہے اور اس کا وزن منسلک کیے جانے والے بینڈ سمیت بمشکل ایک پاؤنڈ کا دسواں حصہ ہوتا ہے۔

    ناسا کے مطابق خلا باز کمانڈر کرس اپنے ایک اور ساتھی باب بینکن کے ساتھ خلائی اسٹیشن کی پرانی نکل ہائیڈروجن بیٹریوں کو تبدیل کرنے کا کام کر رہے ہیں۔

    بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں نئی لیتھیئم آئن بیٹریز نصب کی جارہی ہیں جو اب اس وقت تک کے لیے کافی ہوں گی جب تک خلائی اسٹیشن فعال رہے گا۔ سنہ 2017 سے شروع کیے جانے والے اس مشن میں اب تک 18 بیٹریز اسٹیشن میں نصب کی جاچکی ہیں جبکہ خلا باز کرس اور باب مزید 6 بیٹریز نصب کریں گے۔

    یہ کام رواں برس جولائی تک مکمل ہوجائے گا جس کے بعد کمانڈر کرس اگست میں زمین پر واپس لوٹ آئیں گے۔

  • خلا سے زمین کا یہ نظارہ دل تھام کر دیکھیئے

    خلا سے زمین کا یہ نظارہ دل تھام کر دیکھیئے

    واشنگٹن: زمین سے دور خلا میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) سے زمین کی ایک نہایت سحر انگیز ویڈیو ریکارڈ کی گئی ہے جسے دیکھ کر آپ کی سانسیں رک سکتی ہیں۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے جاری کردہ ایک خوبصورت ویڈیو میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے زمین کا سحر انگیز منظر دیکھا جاسکتا ہے۔

    ویڈیو میں ایک خلا باز اسٹیشن سے باہر کچھ تکنیکی کاموں میں مصروف ہے جبکہ اس کے عین نیچے زمین ایک محدود دائرے میں موجود نظر آرہی ہے۔

    زمین کی فضا پر نرم روئی جیسے بادل اور کہیں نیلگوں سمندر نظر آرہا ہے، ناسا کے مطابق یہ زمین کا وہ منظر ہے جو ہم میں سے بہت سے لوگ کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔

     

    View this post on Instagram

     

    The ultimate perspective of our planet, not many of us will ever experience. 🌍 By @nasa #earthfocus

    A post shared by EARTH FOCUS (@earthfocus) on

    خیال رہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے، یہ اسٹیشن خلا میں تحقیقی مقاصد کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

    ناسا جلد اسے تجارتی مقاصد کے لیے بھی کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے لیے ناسا اور معروف ہالی ووڈ اداکار ٹام کروز کے درمیان ایک پروجیکٹ زیر غور ہے جس کے تحت ٹام کروز اپنی ایک فلم کی شوٹنگ خلائی اسٹیشن پر انجام دیں گے۔