Tag: خلا

  • شہاب ثاقب تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا ہمیں خطرہ ہے؟

    شہاب ثاقب تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا ہمیں خطرہ ہے؟

    خلا میں ایک چھوٹا سا شہاب ثاقب زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور سائنسدانوں کے مطابق وہ یا تو زمین کے قریب سے گزر جائے گا، یا اگر زمین کے زیادہ قریب آیا تو فضا میں ہی پھٹ جائے گا۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا زمین کے قریب سے گزرنے والے اجسام کا مشاہدہ کرنے والا ادارہ (سی ای این او ایس) ایک شہاب ثاقب کو ٹریک کر رہا ہے جسے  2020 ای ایف کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ شہاب ثاقب ممکنہ طور پر زمین کے قریب سے گزر جائے گا اور اگر زمین کے زیادہ قریب آیا تو وہ فضا میں ہی پھٹ جائے گا۔

    یہ شہابیہ 10 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کا قطر 98 ڈایا میٹر ہے۔

    مزید پڑھیں: اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ شہابیہ زمین کے قریب سے گزر جائے گا، اور اگر زمین کے قریب آیا تب بھی اس کی جسامت اتنی چھوٹی ہے کہ یہ کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

    تاہم زمین پر گرنے سے قبل یہ زمین کی فضا میں پھٹ سکتا ہے اور اس سے روشنی کا اخراج ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق زمین کی فضا میں شہاب ثاقب پھٹنے کا واقعہ اس سے قبل سنہ 2013 میں روس میں پیش آیا تھا جس سے روشنی کا ایک زوردار جھماکہ پیدا ہوا تھا اور یہ سورج کی روشنی سے 30 گنا زیادہ تھا۔

    اس واقعے میں 180 افراد آنکھوں کی تکلیف اور 70 عارضی نابینا پن کا شکار ہوگئے تھے، جبکہ کھڑکیاں ٹوٹنے اور ایک فیکٹری کی چھت گر جانے کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔

  • خلا سے موصول پراسرار سگنلز کے بارے میں ایک اور انکشاف، ماہرین سکتے میں آگئے

    خلا سے موصول پراسرار سگنلز کے بارے میں ایک اور انکشاف، ماہرین سکتے میں آگئے

    سائنسدانوں کو موصول ہونے والے پراسرار سگنلز کے بارے میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ یہ ہر 16 روز بعد باقاعدگی سے موصول ہو رہے ہیں۔

    ناسا کے سائنسدانوں کے مطابق یہ پراسرار سگنلز کینیڈا میں نصب ٹیلی اسکوپ کو موصول ہو رہے ہیں اور ان لہروں کے سفر کی رفتار حیران کن ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان لہروں کو جانچنے سے قاصر ہیں البتہ اب انہوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ یہ سگنلز ہر 16 دن بعد موصول ہورہے ہیں۔

    ٹیلی اسکوپ پر موصول ہونے والی یہ لہریں ایف آر بی یعنی فاسٹ ریڈیو برسٹ ہیں، یہ ایسی لہریں ہوتی ہیں جو بہت کم وقت کے لیے پیدا ہوتی ہیں اور ان کے حوالے سے عمومی خیال ہے کہ یہ کائنات کے دوسرے سرے سے آتی ہیں۔

    ماہرین اس بارے میں بھی اندھیرے میں ہیں کہ ایف بی آر نامی لہریں دراصل پیدا کیسے ہوتی ہیں چانچہ انہیں کائنات کا پراسرار ترین پیغام سمجھا جاتا ہے۔

    سائنسدانوں نے اب تک اس نوعیت کے 60 ایف آر بی کا سراغ لگایا ہے جو ایک بار سگنل دیتے ہیں جبکہ دو سگنل ایسے تھے جو بار بار آئے تھے۔

    یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے سائنسدانوں کے مطابق اگر یہ سگنل تواتر سے موصول ہوتے رہیں اور اس قسم کے پیغامات کو جانچنے کے ذرائع ہوں تو بہت جلد اس راز سے پردہ اٹھ جائے گا کہ یہ سگنلز کیا ہیں۔

  • کیا خلا میں بچے کی پیدائش ممکن ہے؟

    کیا خلا میں بچے کی پیدائش ممکن ہے؟

    برلن: تاریخ میں پہلی بار خلا میں بچوں کی زچگی کے مشن پر کام شروع ہوگیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ بارہ سال کے اندر اندر خلا میں بچے کی پیدائش کا عمل ممکن ہوسکے گا۔

    تفصیلات کے مطابق خلا میں بچے پیدا کرنے کے مشن پر کام شروع کردیا گیا ہے، حاملہ خواتین کو 24 سے 36 گھنٹے کے مشن پر مدار میں قائم خلائی اسٹیشن پر روانہ کیا جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جرمنی میں قائم ’اسپیس بورن‘ کے چیئرمین ڈاکٹر ایلبرٹ کا کہنا ہے کہ 2031 تک خواتین خلا میں بچے جن سکیں گی، جس کا مقصد خلا میں انسانی آبادی کے تصور پر تحقیق کرنا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ماہرین جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اس مشن پر تحقیق کررہے ہیں، تجربے کے لیے ایک کے بجائے درجنوں حاملہ خواتین کو میڈکل اسٹاف اور ڈاکٹروں کے ہمراہ خلا میں بھیجا جائے گا۔

    ڈاکٹر ایلبرٹ نے کہا کہ مشن کے پہلے مرحلے میں زمین کے سب سے نچلے مداد پر زچگی کا عمل یقینی بنایا جائے گا، اور یہ مشن کسی بھی قسم کے بڑے خطرے سے محفوظ ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ خلا میں صرف بچے کی زچگی پر کام کررہے ہیں، موسم کے حالات اور مداد کے گرد کشش ثقل کو مدنظر رکھتے ہوئے 2031 سے پہلے مشن کو تجربے کے لیے روانہ کیا جائے گا۔

  • بھارت کی چاند کو چھونے کی کوشش ایک بار پھر ناکام

    بھارت کی چاند کو چھونے کی کوشش ایک بار پھر ناکام

    بھارت کا چاند پر اترنے کا خلائی مشن چندریان 2 بھی ناکام ہوگیا، خلائی جہاز کا رابطہ اس وقت منقطع ہوگیا جب وہ چند ہی لمحے بعد چاند کی سطح پر لینڈ کرنے والا تھا۔

    بھارتی خلائی ادارے انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کا کہنا ہے کہ چندریان 2 چاند کے جنوبی قطب پر لینڈنگ کرنے جاہا تھا تاہم لینڈنگ سے چند ہی لمحے قبل زمینی مرکز سے اس کا رابطہ منقطع ہوگیا۔

    لینڈنگ سے قبل اسرو کے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ چاند پر لینڈنگ سے 15 منٹ قبل زمین پر موجود سائنسدانوں کا اس خلائی مشن میں کردار ختم ہوجائے گا۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو جہاز خود کار طریقے سے چاند پر لینڈ کر جائے گا، وگرنہ وہ چاند کی سطح سے ٹکرا کر تباہ ہوجائے گا۔

    تاحال اس خلائی جہاز کے بارے میں کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوسکیں چنانچہ توقع کی جارہی ہے کہ خلائی جہاز تباہ ہوچکا ہے۔

    مشن کی ناکامی کے بعد بھارتی صدر نریندر مودی اسرو پہنچے جہاں انہوں نے قوم کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ایسے مواقع مزید آئیں گے۔

    چندریان 2 کو 22 جولائی کو زمین سے لانچ کیا گیا تھا اور ایک ماہ بعد 20 اگست کو یہ چاند کے مدار میں داخل ہوگیا تھا۔

    بھارت نے اس مشن کے لیے اپنا سب سے مضبوط راکٹ جیو سنکرونس سیٹلائٹ لانچ وہیکل (جی ایس ایل وی) مارک تھری استعمال کیا تھا۔ اس کا وزن 640 ٹن ہے (جو کہ کسی بھرے ہوئے جمبو جیٹ 747 کا ڈیڑھ گنا ہے) اور اس کی لمبائی 44 میٹر ہے جو کسی 14 منزلہ عمارت کے برابر ہے۔

    اس سیٹلائٹ سے منسلک خلائی گاڑی کا وزن 2.379 کلو ہے اور اس کے تین واضح مختلف حصے ہیں جن میں مدار پر گھومنے والا حصہ آربیٹر، چاند کی سطح پر اترنے والا حصہ لینڈر، اور سطح پر گھومنے والا حصہ روور شامل تھا۔

    اگر بھارت کا یہ مشن کامیاب ہوجاتا تو وہ سابق سوویت یونین، امریکہ اور چین کے بعد چاند کی سطح پر لینڈنگ کرنے والا چوتھا ملک بن جاتا۔ مشن کی کامیابی کی صورت میں ایک اور تاریخ بھارت کی منتظر تھی، بھارتی خلائی جہاز چاند کے اس حصے پر لینڈ کرنے جارہا تھا جہاں آج تک کوئی نہیں گیا۔

    بھارت کا اس مشن کو بھیجنے کا مقصد ایک طرف تو خلائی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنا تھا، تو دوسری طرف چاند کی سطح پر تحقیقات کرنا بھی تھا۔ خلائی مشن پانی اور معدنیات کی تلاش کا کام کرنے والا تھا جبکہ چاند پر آنے والے زلزلے کے بارے میں بھی تحقیق کی جانی تھی۔

    چاند کے مدار میں گردش کرنے والے حصے کی زندگی ایک سال کی تھی جو چاند کی سطح کی تصاویر لینے والا تھا، اس کے ساتھ وہ وہاں کی مہین ماحول کو سونگھنے کی کوشش بھی کرنے والا تھا۔

    چاند کی سطح پر اترنے والے حصے کا نام اسرو کے بانی کے نام پر ’وکرم‘ رکھا گیا تھا۔ اس کا وزن نصف تھا اور اس کے بطن میں 27 کلو کی چاند پر چلنے والی گاڑی تھی جس پر ایسے آلات نصب کیے گئے تھے جو چاند کی سرزمین کی جانچ کر سکتے۔

    اس حصے کی زندگی صرف 14 دن تھی اور اس کا نام ’پراگیان‘ رکھا گیا تھا جس کا مطلب دانشمندی ہے۔

    بھارت اس سے پہلے سنہ 2008 میں ایک اور خلائی مشن چندریان 1 چاند کی طرف روانہ کرچکا ہے۔ وہ خلائی جہاز بھی چاند کی سطح پر اترنے میں ناکام رہا لیکن اس نے ریڈار کی مدد سے چاند پر پانی کی موجودگی کی پہلی اور سب سے تفصیلی دریافت کی تھی۔

  • ناسا کی خاتون انجینیئر چاند کے تاریخی سفر کے لیے پرعزم

    ناسا کی خاتون انجینیئر چاند کے تاریخی سفر کے لیے پرعزم

    چاند پر قدم رکھنا انسان کا وہ خواب تھا جو ہزاروں سال سے شرمندہ تعبیر ہونے کا منتظر تھا، یہی وجہ ہے کہ جب پہلے انسان نے چاند پر قدم رکھا تو یہ انسانی ترقی و ارتقا کا ایک نیا باب قرار پایا۔

    اب بہت جلد ایک خاتون کو بھی چاند کی طرف بھیجا جانے والا ہے، امریکی خلائی ادارہ ناسا اس خلائی منصوبے پر کام کر رہا ہے اور امید ہے کہ وہ سنہ 2024 میں پہلی خاتون کو چاند پر بھیجنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

    اس منصوبے میں ایک خاتون انجینیئر ہیتھر پال بھی شامل ہیں، پال گزشتہ 25 برسوں سے ناسا سے منسلک ہیں اور فی الوقت وہ اس اسپیس کرافٹ پر کام کر رہی ہیں جو پہلی خاتون کو چاند پر لے کر جانے والا ہے۔

    پال کا کہنا ہے کہ گزشتہ 25 برسوں میں انہوں نے بہت سے رجحانات کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے، انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ اب اس شعبے میں بھی بہت سی خواتین آرہی ہیں اور انہیں مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔

    چاند پر واپسی کے اس سفر کو قدیم یونان کے چاند کے معبود ’ارٹمیس‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ ارٹمیس دیوی، اپالو کی جڑواں بہن تھی اور اپالو اس خلائی مشن کا نام رکھا گیا جو پہلے انسان کو چاند کی طرف لے کر گیا۔

    اس مشن کے لیے امریکی صدر ٹرمپ نے ناسا کے بجٹ میں ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کا اضافہ کیا ہے تاکہ ٹیکنالوجی اور خلائی میدان میں ایک اور تاریخ رقم کی جاسکے۔

  • انسان کے پہنچتے ہی خلا میں بھی جرائم شروع ہوگئے

    انسان کے پہنچتے ہی خلا میں بھی جرائم شروع ہوگئے

    انسان ایک طرف تو آسمانوں کی وسعت کو چیر کر خلا کو تسخیر کر رہا ہے اور نئے سیاروں پر پہنچ رہا ہے تو دوسری جانب اپنی سرشت کے ہاتھوں بھی مجبور ہے، یہی وجہ ہے کہ خلا میں کیا جانے والا پہلا جرم بھی سامنے آگیا۔

    امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ امریکی خلا باز این مک کلین خلا میں اپنے قیام کے دوران ایک جرم کی مرتکب ہوئی ہیں جس کی جلد تحقیقات شروع کردی جائیں گی۔

    این کی ساتھی سمر وورڈن نے الزام لگایا ہے کہ این نے اپنے خلائی قیام کے دوران ان کے بینک اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔

    اس ہم جنس پرست جوڑے نے سنہ 2014 میں شادی کی تھی، ان کا ایک بچہ بھی ہے جسے این مک کلین خلائی سفر پر جانے سے قبل اپنے ساتھ ناسا کے دفتر لائی تھیں اور اس کے ساتھ فوٹو شوٹ بھی کروایا تھا۔

    تاہم سمر وورڈن کی شکایت کے بعد اس فوٹو سیشن کو ہٹا دیا گیا۔ یہ دونوں خواتین اپنی شادی کے خاتمے کے لیے قانونی مراحل طے کر رہی ہیں اور بچے کی حوالگی کے لیے بھی ان کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔

    سمر وورڈن جو خود بھی ایک سابق ایئر فورس اہلکار ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کے اکاؤنٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے بعد انہوں نے بینک انتظامیہ سے کہا کہ وہ اس مقام کے بارے میں بتائیں جہاں سے ان کا اکاؤنٹ استعمال کیا گیا۔

    انہیں بتایا گیا کہ اس کام کے لیے استعمال کیا جانے والا کمپیوٹر نیٹ ورک امریکی خلائی ادارے ناسا میں رجسٹرڈ ہے جس کے بعد سمر نے نہ صرف پولیس میں رپورٹ درج کروائی بلکہ ناسا میں بھی باضابطہ طور پر اپنی شکایت جمع کروائی۔

    دوسری جانب این نے ان الزمات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ایک مشکل مرحلے سے گزر رہی ہیں جب انہیں اپنی شادی ختم کرنی پڑ رہی ہے۔

    این مک کلین نے رواں برس اس وقت دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ حاصل کرلی تھی جب ان کے خلائی سفر کا اعلان کیا گیا تھا۔ این کو ایک اور خاتون خلا باز کے ساتھ خلائی چہل قدمی (اسپیس واک) کرنی تھی، اور زمین سے ان کی معاونت بھی ایک خاتون خلا باز کرسٹین فیکول کو کرنی تھی جس کے بعد یہ مکمل طور پر خواتین پر مشتمل پہلی ٹیم ہوتی جو خلائی چہل قدمی انجام دیتی۔

    مزید پڑھیں: خلا بازی کا ایک اور ریکارڈ ٹوٹنے کے قریب

    تاہم ناسا کو اس وقت شدید شرمندگی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب وہ عین موقع پر خواتین خلا بازوں کو ان کے مناسب سائز کے خلائی لباس فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ مجبوراً ناسا کو خلائی چہل قدمی منسوخ کرنی پڑی۔

    این کا جرم سامنے آنے کے بعد اب ناسا کے تفتیش کار مائیکل متایا نے کیس کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ اگر جرم ثابت ہوگیا تو این کو مروجہ قوانین کے تحت سزا تو ہوسکتی ہے، تاہم جرم کا خلا سے ہونا اس کیس میں اہم موڑ اور پیچیدگی لا سکتا ہے۔

  • روس نے انسان نما روبوٹ خلا میں بھیج دیا

    روس نے انسان نما روبوٹ خلا میں بھیج دیا

    ماسکو : روس نے انسان نما روبوٹ فیڈور کو خلاف میں بھیج دیاجو 10روز تک بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر موجود رہے گا، جس سے خلا بازوں کو تحقیق میں مدد ملے گی۔

    تفصیلات کے مطابق انسان نما روبوٹ ایک ایسے راکٹ کے ذریعے بھیجا گیا ہے جس میں کوئی انسان سوار نہیں جبکہ روبوٹ 10روز تک بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر موجود رہے گا،روبوٹ سے خلا بازوں کو تحقیق میں مدد ملے گی۔

    اس روبوٹ کو یفیڈوری کا نام دیا گیا ہے جو فائنل ایکسپیریمنٹ ڈیمانسٹریشن آبجیکٹ ریسرچ کے الفاظ کا مخفف ہے،یہ پہلا موقع ہے کہ جب روس نے انسان نما روبوٹ خلا میں روانہ کیا ہے۔

    روسی خلائی ایجنسی کے ڈائریکٹر ایلگزینڈر بلاسفینکو نے راکٹ کی لانچنگ کے وقت ہونے والی تقریب کے دوران ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ روبوٹ کو بجلی کی تاروں سے کنکٹ بھی کیا جاسکتا ہے اور بغیر کنکشن کے بھی اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    خلائی ایجنسی کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ فیڈر کا قد ایک انسان کی مانند 5 فٹ 11 انچ اور وزن 160 کلو ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ امید کی جارہی ہے کہ فیڈر بالآخر اسپیس واکس جیسے مزید خطرناک کام انجام دے گا۔

    خیال رہے کہ خلاء میں بھیجا جانے والا فیڈر پہلا روبوٹ نہیں، اس سے قبل سنہ2013 میں جاپان نے بھی خلاء میں روبوٹ بھیجا تھا اور 2011 میں امریکا نے خلا میں روبوٹ بھیجا جسےگزشتہ برس فنی خرابی کے باعث واپس بلایا تھا۔

  • کیا آپ چاند پر زمین خریدنا چاہتے ہیں؟

    کیا آپ چاند پر زمین خریدنا چاہتے ہیں؟

    چاند پر قدم رکھنے کے اہم ترین سنگ میل کو 50 برس مکمل ہوچکے ہیں۔ ان 50 برسوں میں دنیا خلائی میدان میں بھی کافی آگے نکل چکی ہے، چاند کے علاوہ دوسرے سیاروں پر بھی کئی کامیاب مشنز بھیجے جا چکے ہیں۔

    جب سے چاند کا سفر انسان کی دسترس میں آیا ہے تب سے دنیا کے دولت مند افراد چاند پر جانے، وہاں کی زمین کو اپنی ملکیت قرار دینے اور وہاں پر گھر بنانے کی خواہش کر چکے ہیں۔

    یہ وہ افراد ہیں جو زمین کے تمام وسائل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور زمین کی ہر سہولت ان کے لیے قابل رسائی ہے چنانچہ اب ان کا اگلا خواب چاند پر جانا ہے۔

    ایسا ہی ایک شخص ڈینس ہوپ بھی ہے جو پہلے ہی چاند پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرچکا ہے۔ سنہ 1980 میں ڈینس نے اقوام متحدہ کو ایک خط لکھ کر چاند پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا اور دریافت کیا کہ اگر انہیں اس پر کوئی قانونی اعتراض ہے تو وہ اسے آگاہ کریں۔

    اقوام متحدہ نے ڈینس کے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا جس کے بعد ڈینس خود کو اس حوالے سے کلیئر سمجھتا ہے۔

    اس کے بعد اس نے لونر ایمبسی نامی ویب سائٹ بنائی جہاں اس نے چاند پر جائیداد کی خرید و فروخت کا کام شروع کردیا، اور صرف یہی نہیں دنیا بھر سے اب تک 60 لاکھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس ویب سائٹ کے ذریعے چاند پر زمین خرید چکے ہیں۔

    ڈینس کے بعد اس کا بیٹا کرس لیمار اب یہ کام کر رہا ہے۔ وہ صرف 24.99 ڈالر کے عوض چاند کا ایک ایکڑ فروخت کر رہا ہے۔

    اگر لونر ایمبسی کی اس قیمت کو مدنظر رکھا جائے تو چاند کی زمین جو 9 ارب 38 کروڑ 37 لاکھ 48 ہزار 198 ایکڑ پر مشتمل ہے، کی کل قیمت 2 کھرب 34 ارب سے زائد بنتی ہے۔

    لیکن کیا آپ واقعی چاند پر جائیداد خرید سکتے ہیں؟

    سرد جنگ کے دور میں جب امریکا اور سوویت یونین کے درمیان خلائی دوڑ جاری تھی، تب اقوام متحدہ نے ایک خلائی معاہدہ طے کیا۔

    اس معاہدے کے مطابق کوئی بھی فلکی جسم جیسے چاند، کسی سیارے یا کسی شہاب ثاقب پر، کوئی بھی قوم حاکمیت، اپنے استعمال یا اس پر اپنے تصرف کے باعث وہاں اپنی ملکیت نہیں جتا سکتی۔

    یعنی کوئی بھی قوم وہاں اپنا جھنڈا لگا کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ ہماری زمین ہے۔

    تاہم کرس لیمار اور اس کے 60 لاکھ گاہک حکومتیں نہیں ہیں، یہ فرد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سو اسے اس معاہدے کا ایک جھول تو کہا جاسکتا ہے، تاہم چاند پر صاحب جائیداد ہونا پھر بھی ممکن نہیں۔

    سنہ 2015 میں سابق امریکی صدر بارک اوباما نے ایک اسپیس ایکٹ پر دستخط کیے تھے جس کے تحت انفرادی طور پر چاند سمیت دیگر فلکی اجسام پر کان کنی اور خرید و فروخت کا کام کیا جاسکتا ہے، تاہم چاند کی زمین کی ملکیت پھر بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔

    ناسا کے ایک سابق ڈپٹی ڈائریکٹر فار انٹرنل افیئرز اسٹیفن ای ڈوئل کے مطابق، جو ایک ریٹائرڈ وکیل بھی ہیں، ’آپ چاند پر جا سکتے ہیں اور وہاں سے اس کی مٹی یا پتھر تو ساتھ لاسکتے ہیں۔ لیکن آپ چاند پر کچھ لکیریں کھینچ کر اسے اپنا حصہ قرار نہیں دے سکتے‘۔

    یعنی آپ چاند پر زمین کی ملکیت نہیں حاصل کرسکتے۔

    اس کے باوجود چاند کے حوالے سے تجارتی دوڑ دنیا کی کئی بڑی کمپنیوں کے درمیان جاری ہے۔ سنہ 2016 میں مون ایکسپریس وہ پہلی نجی امریکی کمپنی بنی جسے چاند پر لینڈ کرنے کی حکومتی اجازت ملی۔

    تاہم ابھی تک مون ایکسپریس کا شمسی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ یہ کمپنی خلا میں ان خلائی مشنز کے لیے ایک گیس اسٹیشن بنانا چاہتی ہے جو خلا میں دور تک جانا چاہتے ہوں۔

    مون ایکسپریس کے علاوہ یورپی خلائی ایجنسی اور ایک اور نجی کمپنی پلینٹری ریسورسز بھی چاند کے حوالے سے تجارتی مقاصد رکھتی ہیں۔ جدید سائنس اور خلائی ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ چاند پر بھی جلد تعمیراتی منصوبے اور ملکیتی تنازعے شروع ہوسکتے ہیں۔

  • خلا پر جانے کے پچاس سال، گوگل کا خوشی منانے کا زبردست انداز

    خلا پر جانے کے پچاس سال، گوگل کا خوشی منانے کا زبردست انداز

    نیویارک: چاند پر انسانی قدم پہنچنے کی نصف سنچری مکمل ہونے پر گوگل نے خصوصی ڈوڈل جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق 19 جولائی 1969 کو پہلی بار امریکی خلا باز آرمسٹرانگ اور ایڈورڈ ایلڈرن کئی مشکل مراحل طے کرنے کے بعد چاند پر قدم رکھا تھا، انہوں نے خلائی سفر کا آغاز 16 جولائی کو شروع کیا تھا اور مسلسل 8 روز بعد واپس زمین پر آئے۔

    سائنسی میدان میں کئی معرکے سر کرنے کے باوجود اس واقعہ کو انیسویں صدی کی آج بھی بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ امریکی خلا باز وں نے ناتجربے کاری کے باوجود چاند پر جانے کا اعلان کیا تھا۔

    دنیا بھر کے ماہرین 16 جولائی سے 8 روز تک بے چینی کا شکار رہے تھے کیونکہ امریکی خلا باز 24 جولائی کو اپنا سفر مکمل کر کے واپس زمین پر لوٹ گئے تھے۔

    گوگل نے چاند پر قدم رکھنے کے پچاس سال مکمل ہونے پر نہ صرف قیمتی دن کو اہمیت دی بلکہ ڈوڈل سجاتے ہوئے پانچ منٹ کی ویڈیو بھی لگائی جس میں سفر سے متعلق آگاہی دی گئی ہے۔

  • روس نے چار فوجی سیٹلائٹ خلاء میں بھیج دئیے

    روس نے چار فوجی سیٹلائٹ خلاء میں بھیج دئیے

    ماسکو : روس نے چار عسکری سیٹلائٹ خلا میں بھیج دیئے، روسی حکومت کےترجمان نے ان سیٹلائٹ کی قسم اور ان کے آئندہ کردار کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں دی۔

    تفصیلات کے مطابق روس نے خلا میں چار عسکری سیٹلائٹ چھوڑدیئے ، ان چاروں سیٹلائٹ کو ملک کے شمال میں واقع پلیسٹیک خلائی مرکز سے روانہ کیا گیا۔

    اس سلسلے میں ریاستی نیوز ایجنسی نے روسی فوج کے ترجمان کے حوالے سے بتایا کہ خلائی فورسز کے ایک یونٹ نے سویوز راکٹ کو بھیجنے کا کامیاب تجربہ کیا جو چار سیٹلائٹ کا حامل ہے۔ یہ سیٹلائٹ وزارت دفاع کی ضروریات کے واسطے مخصوص ہیں۔

    ترجمان نے ان سیٹلائٹ کی قسم اور ان کے آئندہ کردار کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں دی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ روس سال 2011 سے وہ واحد ملک بن چکا ہے جو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ٹیموں کو بھیجنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کے کئی اسکینڈلوں اور متعدد ناکام تجربات نے روسی خلائی سیکٹر پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

    غیر ملکی خبر راساں ادارے کا کہنا تھا کہ رواں ماہ کی بیس تاریخ کو مقررہ پروگرام کے مطابق ایک نئی ٹیم بین الاقوامی خلائی اسٹیشن بھیجی جائے گی۔ ٹیم میں امریکا، روس اور اطالیہ شامل ہیں۔