Tag: خلا

  • انڈے اور ہماری کائنات میں قدر مشترک کیا ہے؟

    انڈے اور ہماری کائنات میں قدر مشترک کیا ہے؟

    انڈا ہماری روزمرہ کی غذا میں استعمال ہونے والا عام جز ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ انڈا ہماری کائنات کے کئی رازوں کا امین ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ اس کے کیلشیئم کاربونیٹ سے بنے چھلکے اور اس کے اندر کی دنیا کو غور سے دیکھیں تو اس کے اندر ہماری کائنات کی چھوٹی سی جھلک نظر آئے گی۔

    لوک کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں میں انڈے کا ذکر ثابت کرتا ہے کہ انڈا ہم سے بہت پہلے سے اس کائنات پرموجود ہے۔ قدیم مصری، یونانی، رومی اور انکا تہذیبوں سمیت مختلف مذاہب اور روایات میں انڈے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔

    امریکا میں جنوبی کیلی فورنیا میں موجود ایک قبیلے کی دیو مالائی کہانی میں بتایا جاتا ہے کہ جس طرح انڈا ٹوٹتا ہے بالکل ویسے ہی ہماری کائنات تخلیق ہوئی۔

    اسی طرح امریکی ریاست آئیووا کا ایک اور قبیلہ اوماہا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کروڑوں سال قبل ایک انڈا سمندروں میں پھینکا گیا جس کی حفاظت ایک سانپ کے پاس ہے، اس انڈے میں وہ تمام افراد آرام کر رہے ہیں جنہیں ابھی دنیا میں آنا ہے۔

    کیا ہماری کائنات بھی انڈے جیسی ہے؟

    سنہ 2006 میں ناسا کے ولکنسن سیٹلائٹ کی حاصل کردہ معلومات سے یہ مفروضہ پیش کیا گیا کہ کائنات (انڈے کی طرح) بیضوی شکل کی ہے۔ سائنسی طبقے نے آج تک اس مفروضے کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

    تاہم اس سے قبل سولہویں صدی عیسوی میں جرمن ماہر فلکیات جوہانس کیپلر اس بات کی تصدیق کر چکا تھا کہ ہمارے سیارے سمیت تمام سیارے سورج کے گرد گول دائرے میں نہیں بلکہ بیضوی دائرے میں گھومتے ہیں۔

    اسی طرح ماہرین کے مطابق انڈے کے خول اور چاند کی زمینی سطح میں بھی بے حد مماثلت ہے، دونوں کھردرے اور دانے دار ہیں۔

    انڈے کی بیضوی ساخت اپنے اندر یہ خصوصیت بھی رکھتی ہے کہ اگر اس کے کسی ایک سرے پر بیرونی دباؤ ڈالا جائے تو وہ دباؤ تمام حصوں پر یکساں تقسیم ہوجاتا ہے جس کے بعد اندر موجود زندگی محفوظ رہتی ہے۔

    اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ہم ایک بڑے سے انڈے میں رہ رہے ہیں جو مسلسل پھیل رہا ہے، تاہم تمام تر ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ماہرین اس بات کا حتمی تعین نہیں کرسکے۔

  • زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں کا موسم جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں کا موسم جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    کیا آپ اپنے شہر کی گرمی سے سخت پریشان ہیں؟ موسم گرما آپ کے لیے سخت تکلیف لے کر آتا ہے؟ اسی طرح موسم سرما میں بھی آپ مختلف دشواریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور آپ کو یہ موسم سخت لگتا ہے؟

    اگر آپ نظام شمسی میں موجود دوسرے سیاروں کے موسم کے بارے میں جانیں تو زمین آپ کو جنت کا ٹکڑا دکھائی دے گی اور اس کا موسم خدا کی رحمت۔ آئیں دیکھتے ہیں ہمارے پڑوسی سیاروں پر موسم کیسا ہوتا ہے۔

    سیارہ عطارد ۔ مرکری

    سورج سے قریب ترین سیارہ مرکری سورج سے قریب ہونے کی وجہ سے گرم جھلسا دینے والی ہواؤں کا مرکز ہے۔ مرکری کی فضا میں آکسیجن بھی بے حد کم ہے۔

    علاوہ ازیں سورج کی تابکار شعاعیں بھی مرکری پر براہ راست آرہی ہوتی ہیں جو زمین پر آنے والی تابکار شعاعوں سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہوسکتی ہیں۔

    سیارہ مرکری پر اگر آپ گرم ہوا سے جھلس کر یا آکسیجن کی کمی سے ہلاک نہ ہوں، تو تابکار شعاعیں ضرور آپ کو ہلاک کرسکتی ہیں۔

    سیارہ زہرہ ۔ وینس

    سیارہ زہرہ بادلوں سے ڈھکا ہوا سیارہ ہے، تاہم یہ بادل زہریلے ہیں اور ان سے سلفیورک ایسڈ کی بارش ہوتی ہے۔ یہ بارش چند لمحوں میں کسی بھی جاندار کے جسم کو گلا سکتی ہے۔

    سیارہ مریخ ۔ مارس

    مریخ لق و دق صحرا جیسا سیارہ ہے جہاں ہر وقت ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ تیز ہوا مٹی کو اڑا کر بڑے بڑے بگولے تشکیل دے دیتی ہے اور یہ بگولے زمین کی بلند ترین برفانی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی بلند ہوسکتے ہیں۔

    علاوہ ازیں مریخ پر اکثر و بیشتر مٹی کے طوفان آتے رہتے ہیں جو کئی مہینوں تک جاری رہتے ہیں اور پورے سیارےکو ڈھک لیتے ہیں۔

    سیارہ مشتری ۔ جوپیٹر

    سیارہ مشتری پر ایک غیر معمولی حد تک بڑا سرخ دھبہ موجود ہے (جو خلائی دوربینوں سے نظر آتا ہے) جو دراصل مشتری کا وہ عظیم اور ہنگامہ خیز طوفان ہے جسے سائنسدان میگا اسٹورم کا نام دیتے ہیں۔

    اس طوفان کا مشاہدہ اس وقت سے کیا جارہا ہے جب سے دوربین ایجاد ہوئی ہے یعنی سترہویں صدی سے۔ گویا 300 سال سے یہ طوفان اس سیارے پر موجود ہے۔ اس طوفان کا حجم زمین سے بھی بڑا ہے۔

    اس میگا سٹورم کے علاوہ مشتری پر ایک اور چھوٹا طوفان موجود ہے۔ یہ زمین پر آنے والے درجہ 5 طوفان کے برابر ہے جسے اوول بی اے کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ بڑے طوفان سے کچھ چھوٹا ہے اور اس کا حجم زمین کے برابر ہے۔ اس کا مشاہدہ پہلی بار سنہ 2000 میں کیا گیا ہے اور تب سے اب تک اس کے حجم میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

    سیارہ زحل ۔ سیچورن

    سیارہ زحل کے قطب شمالی میں ہوا کا ایک عظیم طوفان پنپ رہا ہے۔ اس طوفان کے چھ کونے ہیں جس کی وجہ سے اسے ہیگزاگون کا نام دیا گیا ہے، اس کا ہر کونا ہماری زمین سے بڑا ہے۔

    اس طوفان کے مرکز میں بادلوں کا ایک سسٹم موجود ہے جس کا دائرہ زمین پر آنے والے طوفانوں کے دائرے سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔

    سیارہ یورینس

    سیارہ یورینس دیگر سیاروں کی طرح اپنے مدار میں گول گھومنے کے بجائے ایک طرف کو جھک کر گردش کرتا ہے جس کی وجہ سے اس سیارے کے موسم طویل اور زیادہ شدت کے ہوتے ہیں۔

    یہاں موسم سرما میں بالکل اندھیرا ہوجاتا ہے۔ یہ سیارہ سورج سے خاصا دور ہے لہٰذا اس کے موسم سرما کا دورانیہ زمین کے 21 سالوں جتنا ہوتا ہے۔ اس دوران درجہ حرارت منفی 216 ڈگری سیلسیئس پر پہنچ جاتا ہے۔

    سیارہ نیپچون

    سیارہ نیپچون کو ہواؤں کا سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں 1 ہزار 930 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلتی ہیں۔

    یہ رفتار زمین پر آواز کی رفتار سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے جبکہ اس رفتار پر سفر کیا جائے تو امریکی شہر نیویارک سے لاس اینجلس پہنچنے میں صرف سوا 2 گھنٹے کا وقت لگے گا۔ یہ سفر عام طور پر 6 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔

    ان تمام سیاروں کے موسم کے مقابلے میں زمین کا موسم نہایت معتدل ہے۔ نہ زیادہ گرمی، نہ زیادہ سردی اور نہ ہی طوفانی ہوائیں، اور ہاں یہاں تیزابی بارشیں، تابکاری اور مٹی کے عظیم بگولے بھی نہیں آتے۔ تو پھر زمین کے موسم کی شکایت کرنا چھوڑیں اور ہر موسم کا لطف اٹھائیں۔

  • خلا بازی کا ایک اور ریکارڈ ٹوٹنے کے قریب

    خلا بازی کا ایک اور ریکارڈ ٹوٹنے کے قریب

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی خلا باز کرسٹینا کوچ کا زمین کے مدار سے باہر بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر مشن 11 ماہ کی طوالت اختیار کرنے والا ہے جس کے بعد وہ خلا میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والی خاتون پیگی وٹسن کا ریکارڈ توڑ دیں گی۔

    کرسٹینا کوچ رواں برس 14 مارچ کو اپنے 2 ساتھی خلا بازوں کے ساتھ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر پہنچی تھیں، ان کا مشن ابتدائی طور پر 6 ماہ کا تھا تاہم اب اس میں توسیع کردی گئی ہے۔

    کرسٹینا کے ساتھ موجود بقیہ دونوں خلا باز 3 اکتوبر کو زمین پر واپس لوٹ آئیں گے تاہم کرسٹینا فروری 2020 تک اسٹیشن پر ہی رکیں گی جس کے بعد وہ پیگی وٹسن کا ریکارڈ توڑ دیں گی۔

    پیگی وٹسن نے خلا میں لگ بھگ 10 ماہ یعنی 288 دن گزار کر خلا میں طویل ترین وقت گزارنے والی خاتون خلا باز کا اعزاز حاصل کرلیا تھا۔ اب کرسٹینا 11 ماہ خلا میں گزارنے والی ہیں۔

    ابتدائی طور پر کرسٹینا کے مشن میں خلائی چہل قدمی بھی شامل تھی جو بذات خود ایک ریکارڈ بننے جارہا تھا۔ کرسٹینا اور ان کے ساتھ ایک اور خاتون خلا باز اینی مک کلین کو اسپیس واک کرنی تھی، اور زمین سے ان کی معاونت بھی ایک خاتون خلا باز کرسٹین فیکول کو کرنی تھی جس کے بعد یہ مکمل طور پر خواتین پر مشتمل پہلی ٹیم ہوتی جو خلائی چہل قدمی انجام دیتی۔

    تاہم ناسا کو اس وقت شدید شرمندگی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب وہ عین موقع پر خواتین خلا بازوں کو ان کے مناسب سائز کے خلائی لباس فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ مجبوراً ناسا کو خلائی چہل قدمی منسوخ کرنی پڑی۔

    کرسٹینا کا کہنا ہے کہ انہوں نے سنا تھا کہ ان کا مشن متوقع طور پر طوالت اختیار کرسکتا ہے اور اب جبکہ ان کے مشن کا ایک حصہ منسوخ ہوگیا، لیکن بہرحال وہ خلائی تاریخ میں ایک اور ریکارڈ بنانے جارہی ہیں تو ان کا دیرینہ خواب پورا ہونے جارہا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ کرسٹینا کا خلا میں طویل وقت گزارنے کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ خلا میں انسان پر کتنے عرصے میں کس طرح کے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ مشن چاند اور مریخ کی جانب متوقع مشنز بھیجنے میں بھی سہولت فراہم کرے گا۔

    خیال رہے کہ جون سے ستمبر کے دوران کئی خلا باز اپنے مشنز مکمل کر کے اسٹیشن سے واپس زمین پر آئیں گے اور زمین سے کئی نئے خلا باز مختلف مشنز کے ساتھ اسٹیشن پر پہنچیں گے۔

    زمین سے جانے والوں میں متحدہ عرب امارات کے پہلے خلا باز ھزا علی خلفان المنصوری بھی شامل ہوں گے، المنصوری 8 روز خلا میں گزاریں گے۔

  • اسرائیلی خلائی جہاز کا چاند پر اترنے کا مشن ناکام، جہاز تباہ

    اسرائیلی خلائی جہاز کا چاند پر اترنے کا مشن ناکام، جہاز تباہ

    تل ابیب: اسرائیل کی چاند پر خلائی جہاز اتارنے کی کوشش ناکام ہوگئی اور لینڈنگ کے دوران خلائی جہاز تباہ ہوگیا جس کے بعد اسرائیل چاند پر پہنچنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہونے سے رہ گیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل کا نجی سرمایہ کاری سے تیار کردہ خلائی جہاز اپنے مشن میں ناکام ہوگیا۔ برشیٹ نامی خلائی جہاز چاند کی سطح پر بھیجا گیا تھا۔

    مشن کی کامیابی کی صورت میں اسرائیل چاند پر جہاز بھیجنے والا چوتھا ملک بن جاتا، اب تک امریکا، روس (سوویت یونین) اور چین اپنے خلائی جہاز کامیابی سے چاند کی سطح پر اتار چکے ہیں تاہم اسرائیل اس فہرست میں شامل ہونے سے رہ گیا۔

    خلائی جہاز برشیٹ 4 اپریل کو چاند کے مدار میں پہنچا تھا اور اس وقت سے چاند کے گرد گردش کررہا تھا۔ گزشتہ روز مقررہ شیڈول کے مطابق اسے چاند پر لینڈنگ کرنی تھی تاہم لینڈنگ کی تیاری کے دوران انجن میں خرابی پیدا ہوئی اور وہ چاند کی سطح سے ٹکرا گیا۔

    اسرائیلی مشن کنٹرول کا کہنا تھا کہ لینڈنگ سے پہلے جہاز کا انجن خراب ہوگیا تھا جس کے باعث لینڈنگ نہ ہو سکی۔

    مشن سے منسلک ماہرین کے مطابق لینڈنگ سے قبل خلائی جہاز کا زمین سے رابطہ بھی منقطع ہوگیا تھا، جہاز کی لینڈنگ کی مانیٹرنگ کرتے زمین پر موجود خلائی عملے نے رابطہ بحال کرنے اور انجن کی خرابی دور کرنے کی کوشش کی تاہم وہ ناکام رہے۔

    مذکورہ خلائی جہاز کی تیاری میں 100 ملین ڈالرز کی لاگت آئی تھی اور اسے اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز نے ایک نجی کمپنی کے ساتھ مل کر تیار کیا تھا۔

  • شہاب ثاقب گرنے کا منظر کیمرے کی آنکھ میں قید

    شہاب ثاقب گرنے کا منظر کیمرے کی آنکھ میں قید

    شہاب ثاقب کا گرنا بعض اوقات خوبصورت منظر بھی ہوسکتا ہے لیکن اگر یہ حجم میں بڑا ہو تو زمین کے لیے خوفناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکا میں ایسے ہی شہاب ثاقب کے گرنے کے منظر کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرلیا گیا۔

    فلوریڈا کے شہر گنیز ویل میں رات 3 بجے دوران سفر ایک شہری کو روشنی کا گولہ گرتے ہوئے نظر آیا جسے اس نے اپنے کیمرے میں قید کرلیا۔

    بعد ازاں امریکی محکمہ موسمیات نے بھی شہاب ثاقب گرنے کی تصدیق کردی۔

    خیال رہے کہ خلا سے مختلف سیارچوں کا زمین کی طرف آنا معمول کی بات ہے۔ ہر روز خلا سے تقریباً 100 ٹن ریت اور مٹی زمین سے ٹکراتی ہے۔

    سال میں صرف ایک بار کسی کار کے جتنی جسامت رکھنے والا سیارچہ زمین کے قریب آتا ہے لیکن یہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا ہے اور کبھی بھی زمین کی سطح سے نہیں ٹکراتا۔

    مزید پڑھیں: اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    خوش آئند بات یہ ہے کہ زمین سے اوپر اس کی فضا ایسی ہے جو سیارچوں کو زمین کی طرف آنے سے روک دیتی ہے اور فضا میں موجود گیسیں سیارچوں اور خلا سے آنے والے پتھروں کی تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔

  • خلائی مخلوق کی تلاش: کیا ہم سے کمزور خلائی مخلوق موجود ہے؟

    خلائی مخلوق کی تلاش: کیا ہم سے کمزور خلائی مخلوق موجود ہے؟

    جب سے انسان ترقی یافتہ اور خلائی اسرار سمجھنے کے کچھ قابل ہوا ہے، تب سے وہ اس تلاش میں سرگرداں ہے کہ کیا اس وسیع و عریض کائنات میں ہم اکیلے ہیں یا ہمارے جیسا کوئی اور بھی سیارہ اپنے اندر زندگی رکھتا ہے؟

    کیا کوئی سیارہ ایسا بھی ہے جہاں زمین کی طرح زندگی رواں دواں ہے؟ کیا اس کائنات میں ہمارے جیسی کوئی مخلوق نت نئی ایجادات اور تحقیقوں میں مصروف ہے یا کم از کم پتھر کے دور میں ہی جی رہی ہے؟

    اگر اس کا جواب ہاں میں ہے، یعنی ہمارے علاوہ بھی اس کائنات میں زندگی بستی ہے اور لوگ رہتے ہیں تو کیا وہ بھی ایسے ہی کسی کی تلاش میں ہوں گے؟

    امریکا کی ایک کوانٹم آسٹرو کیمسٹ کلارا سلوا اس بارے میں بتاتی ہیں، ’اگر اس کائنات میں ہمارے علاوہ بھی کوئی ہے تو وہ باآسانی ہمیں ڈھونڈ سکتا ہے‘۔

    کلارا اس بارے میں مزید کیا بتاتی ہیں، انہی کی زبانی سنیں۔

    ’اگر خلائی مخلوق ہمیں تلاش کرنا چاہیں تو وہ بہت آسانی سے ہمیں تلاش کرسکتے ہیں۔ ہم گزشتہ 100 سال سے ریڈیو کے سگنلز خلا میں بھیج رہے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے ٹیلی ویژن کے سگنلز بھیجنا شروع کیے۔ اگر یہ سگنلز روشنی کی رفتار سے خلا میں جارہے ہیں تو اب تک یہ طویل فاصلے طے کر کے دور دراز واقع ستاروں اور سیاروں تک پہنچ چکے ہوں گے، ایسے ہی کسی دور دراز سیارے پر موجود، کسی دوسرے سیارے پر زندگی کھوجتی مخلوق آسانی سے یہ سگنلزوصول کرسکتی ہے‘۔

    ’اگر کوئی ایسا ہوگا جو اپنے طاقتور ڈی ٹیکٹرز کا ہماری طرف رخ کیے ہوگا، تو وہ بی بی سی کی براڈ کاسٹنگ سن رہا ہوگا، وہ ہمارے ٹی وی پروگرامز سن رہا ہوگا اور اب تک اندازہ کرچکا ہوگا کہ ہمارا رہن سہن اور طرز زندگی کیسا ہے‘۔

    ’کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک انہایت احمقانہ عمل ہے کہ ہم اپنے بارے میں بہت ساری معلومات پوری کائنات میں بھیج رہے ہیں۔ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق خطرناک بھی ہوسکتی ہے چنانچہ ہمیں اپنی پوزیشن کے بارے میں نہیں بتانا چاہیئے‘۔

    اگر ہم خلا میں سگنلز نہ بھیجیں کیا تب بھی ہمیں ڈھونڈا جا سکتا ہے؟

    اگر ایک لمحے کے لیے تصور کیا جائے کہ ہم اپنے تمام سگنلز بند کردیں اور بالکل خاموشی سے بیٹھ جائیں، کیا تب بھی خلائی مخلوق ہمیں ڈھونڈ سکتی ہے؟

    اس بارے میں کلارا کہتی ہیں۔

    ’اگر ہم خلا میں کوئی سنگلز نہ بھیجیں، اور کوئی خلائی مخلوق طاقتور دوربین لگا کر ہمیں ڈھونڈنا چاہے تو اسے ہر جگہ 300 ارب سیارے دکھائی دیں جو خوبصورت سفید روشنیوں کی صورت میں چمک رہے ہوں گے‘۔

    ’تاہم یہ سفید روشنی بھی بہت سارے راز عیاں کرسکتی ہے‘۔

    ’ہم جانتے ہیں کہ جب سفید روشنی میں پانی کا قطرہ داخل ہوتا ہے تو آس پاس موجود اشیا کے رنگ اس میں منعکس ہونے لگتے ہیں (اسی تکنیک سے قوس قزح تشکیل پاتی ہے)۔ اگر خلائی مخلوق ایک طاقتور پریزم (ایک تکون جسم جس سے روشنی گزرتی ہے تو منعکس ہوتی ہے) ہمارے سورج کی طرف کریں تو وہ ہماری قوس قزح کو باآسانی دیکھ سکتے ہیں‘۔

    ’اور اگر وہ کچھ عرصے تک مستقل اس کا مشاہدہ کریں تو دیکھیں گے کہ ہر سال اس قوس قزح میں کچھ نئے رنگ ظاہر ہوتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں۔ یہ رنگ ان مالیکیولز کی وجہ سے ظاہر اور غائب ہوتے ہیں جو ہماری فضا میں موجود ہیں‘۔

    ’ان رنگوں کو دیکھ کر باآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس ایک خوبصورت اور متنوع سیارہ موجود ہے۔ ہمارے پاس آبی حیات سے بھرے سمندر ہیں اور آکسیجن پر انحصار کرنے والی زندگیاں ہیں۔‘

    ’ان تمام معلومات پر مبنی ہماری فضا، زمین کے گرد ایک تہہ تشکیل دیتی ہے جسے بائیو سفیئر کہا جاتا ہے اور صرف یہی ہماری موجودگی کا سب سے بڑا ثبوت ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ بائیو سفیئر بتاتا ہے کہ اس سیارے پر کون موجود ہے اور کس طرح زندگی گزارتا ہے۔ گویا اگر ہم اپنے سگنلز بھیجنا بند بھی کردیں تب بھی ہماری موجودگی کے اشارے ملتے رہیں گے‘۔

    کیا اس تکنیک سے ہم بھی خلائی مخلوق کو ڈھونڈ سکتے ہیں؟

    کلارا کا کہنا ہے کہ ابھی تک ہم ایسے ٹولز نہیں بنا سکے جو کسی سیارے کی بائیو سفیئر کی جانچ کرسکیں، ہم صرف اس قابل ہیں کہ اگر کوئی خلائی مخلوق اپنے سگنلز ہماری طرح خلا میں بھیج رہی ہے تو ہم اسے وصول کرسکیں، تاہم میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ایسے ٹولز کی تیاری پر کام جاری ہے جو بائیو سفیئر کی جانچ کرسکے۔

    ’ان ٹولز کی تیاری کے بعد ہم ان خلائی مخلوق کو بھی ڈھونڈ سکتے ہیں جو ہماری طرح ترقی یافتہ نہیں اور خلا میں کوئی سگنلز نہیں بھیج رہی‘۔

  • زمین کا وہ مقام جو خلائی اسٹیشن سے بے حد نزدیک ہے

    زمین کا وہ مقام جو خلائی اسٹیشن سے بے حد نزدیک ہے

    کیا آپ جانتے ہیں ہماری زمین پر ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں پہنچنا بے حد مشکل ہے، اور اسے زمین کا مشکل ترین مقام قرار دیا جاتا ہے؟

    اور مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عالمی خلائی اسٹیشن پر موجود انسان اس مقام سے، زمین پر موجود انسانوں کی نسبت زیادہ نزدیک ہیں۔

    پوائنٹ نیمو نامی یہ مقام جنوب بحر اوقیانوس کے وسط میں واقع ہے اور یہ خشکی سے نہایت دور ہے۔ اس مقام سے قریب ترین زمین 1400 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہے۔

    لفظ ’نیمو‘ لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’کوئی نہیں‘۔

    کسی بھی قسم کے جاندار سے خالی اس مقام کو سنہ 1992 میں اس وقت دریافت کیا گیا جب سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے اس خطے کا نقشہ تیار کیا جارہا تھا۔

    اس مقام کے آس پاس مہر آئی لینڈ، ایسٹر آئی لینڈ اور ڈیوئس آئی لینڈ نامی جزیرے موجود ہیں لیکن یہ بھی اس سے 2300 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اس مقام کو زمین کا تنہا ترین مقام بھی کہا جاتا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق عالمی خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) پر موجود انسان، دیگر زمینی باشندوں کی نسبت اس مقام سے زیادہ نزدیک ہیں، یہ اسٹیشن زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔

    پوائنٹ نیمو کو خلائی جہازوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔ جب بھی خلا سے کوئی سیٹلائٹ، خلائی اسٹیشن یا خلائی جہاز ناکارہ ہونے کے بعد واپس زمین پر پھینکا جاتا ہے تو اسے اسی مقام پر پھینکا جاتا ہے تاکہ یہ کسی انسانی آبادی کو نقصان نہ پہنچائے۔

  • خلا میں جانے والی پہلی خاتون سے ملیں

    خلا میں جانے والی پہلی خاتون سے ملیں

    چاند پر سب سے پہلا قدم کس نے رکھا تھا، یہ تو سب ہی جانتے ہیں۔ تاہم زمین سے باہر خلا میں جانے والا پہلا شخص اور پہلی خاتون کون تھی اس کے بارے میں بہت کم افراد جانتے ہیں۔

    سنہ 1969 میں جب چاند پر پہلے انسان نے قدم رکھا، اس سے 8 سال قبل ہی روس اپنے پہلے خلا نورد کو خلا میں بھیج چکا تھا۔ یوری گگارین کو خلا میں جانے والے پہلے شخص کا اعزاز حاصل ہے۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    اس کے صرف 2 سال بعد 1963 میں ایک باہمت خاتون ویلینٹیا ٹرشکوا خلا میں جانے والی پہلی خاتون کاا عزاز حاصل کر کے تاریخ میں اپنا نام درج کروا چکی تھیں۔

    سنہ 1937 میں سوویت یونین کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والی ویلینٹینا کے والد ٹریکٹر ڈرائیور تھے جبکہ والدہ ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں ملازمت کرتی تھیں۔

    ویلینٹینا کی عمر صرف 2 سال تھی جب ان کے والد فوج کی ملازمت کے دوران مارے گئے۔ والد کی موت کے بعد وہ اپنی والدہ کے ساتھ فیکٹری میں کام کرنے لگیں۔

    ویلینٹینا کو پیراشوٹنگ کا بہت شوق تھا۔ اپنی پہلی نوکری کے دوران اس نے کچھ رقم جمع کی تھی تاکہ وہ پیراشوٹ جمپنگ کر کے اپنا شوق پورا کرسکے۔

    22 سال کی عمر میں وہ ایک مشاق اسکائی ڈائیور بن چکی تھی۔

    یہ وہ وقت تھا جب روس خلائی میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ روس کی جانب سے پہلی بار کسی انسان کو خلا میں بھیجا جا چکا تھا اور اب وہ کسی خاتون کو خلا میں بھیجنے کا خواہشمند تھا۔

    اس وقت ویلینٹینا نے خطرہ مول لیا اور خلا باز بنانے کے لیے درخواست دے دی۔

    جب خلا میں جہاز بھیجے جانے کے حتمی امتحان کا وقت آیا تو ویلینٹینا نے 400 مرد و خواتین کو شکست دے کر اس امتحان میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس کے بعد اس کی خلائی تربیت شروع کردی گئی۔

    ویلینٹینا کو خلائی مشن ووسٹوک اسپیس کرافٹ کا پائلٹ منتخب کیا گیا۔ اس وقت اس کی عمر صرف 26 برس تھی۔

    اس کے ساتھ ٹریننگ پر موجود تمام دیگر امیدوار مرد تھے اور اس سے عمر میں کہیں زیادہ بڑے تھے۔ ان کی ٹریننگ بھی ویلینٹینا سے کہیں زیادہ مشکل تھی۔

    ویلینٹینا نے اپنے ٹرینر سے درخواست کی کہ اسے ویسی ہی تربیت دی جائے جو اس کے ساتھی مرد خلابازوں کو دی جاتی ہے۔

    جون 1963 کی ایک صبح ویلینٹینا کے خلائی جہاز نے زمین کو پیچھے چھوڑا اور خلا کی طرف رخت سفر باندھا۔ ویلینٹینا نے خلا میں 3 دن گزارے اور اس دوران زمین کے گرد 48 چکر لگائے۔

    مشن کے دوران ویلینٹینا کو احساس ہوا کہ اس کے خلائی کیپسول میں زمین پر واپسی کا پروگرام سیٹ نہیں کیا گیا۔

    ویلینٹینا نے بغیر کسی گھبراہٹ کے زمین پر رابطہ کیا، اس میں کافی وقت لگا۔

    بالآخر اس نے زمین پر موجود سائنسدانوں کی ہدایات کے مطابق مہارت سے واپسی کا پروگرام سیٹ کیا اور زمین کی فضا سے 4 میل کے فاصلے پر کامیابی سے خود کو خلائی جہاز سے علیحدہ کرلیا۔

    ویلینٹینا کہتی تھیں، ’جس طرح کوئی پرندہ صرف ایک پر کے ساتھ پرواز نہیں کرسکتا، اسی طرح خلائی مشنز میں مزید کامیابی کے لیے مرد کے ساتھ خواتین کی شرکت بھی ضروری ہے‘۔

    ویلینٹیا ٹرشکوا خلا میں جانے والی اب تک کی سب سے کم عمر خاتون ہیں۔

  • خلا میں اربوں سال کے فاصلے سے پراسرار سگنل موصول

    خلا میں اربوں سال کے فاصلے سے پراسرار سگنل موصول

    خلا اور خلائی مخلوق سے دلچسپی رکھنے والے افراد اس وقت نہایت تجسس میں مبتلا ہیں کیونکہ اربوں نوری سال کے فاصلے سے زمین پر کچھ سگنلز موصول ہوئے ہیں، یہ کہنا مشکل ہے کہ سگنل بھیجنے والے کون ہیں۔

    ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ ارب نوری سال کے فاصلے سے کچھ ریڈیائی لہریں کینیڈا کی ایک ٹیلی اسکوپ کو موصول ہوئے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان لہروں کے سفر کی رفتار حیران کن ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان لہروں کو جانچنے سے قاصر ہیں، جس ٹیلی اسکوپ پر یہ سگنل موصول ہوئے ہیں اس نے کچھ عرصہ قبل ہی کام شروع کیا ہے۔

    کینیڈا کی ٹیلی اسکوپ جہاں سگنلز موصول ہوئے

    ٹیلی اسکوپ پر یہ موصول ہونے والی لہریں ایف آر بی یعنی فاسٹ ریڈیو برسٹ ہیں، یہ ایسی لہریں ہوتی ہیں جو بہت کم وقت کے لیے پیدا ہوتی ہیں اور ان کے حوالے سے عمومی خیال ہے کہ یہ کائنات کے دوسرے سرے سے آتی ہیں۔

    ماہرین اس بارے میں بھی اندھیرے ہیں کہ ایف بی آر نامی لہریں دراصل پیدا کیسے ہوتی ہیں چانچہ انہیں کائنات کا پراسرار ترین پیغام سمجھا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اسٹیفن ہاکنگ نے خلائی مخلوق سے کیوں خبردار کیا تھا؟

    ان لہروں کے بارے میں متضاد خیالات پائے جارہے ہیں، کچھ سائنسدانوں کے مطابق یہ لہریں نیوٹرون ستارے کی حرکت کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔ اس ستارے کی مقناطیسی سطح بہت طاقتور ہوتی ہے اور یہ بہت تیزی سے گھومتا ہے۔

    دوسری جانب ایسے سائنسدانوں کی بھی کمی نہیں جو ان لہروں کو خلائی مخلوق کا بھیجا گیا سگنل سمجھ رہے ہیں۔ ان لہروں کی اصل حقیقت جاننے کے لیے شاید کچھ وقت انتظار کرنا پڑے۔

  • پانچ قرآنی آیات جنہوں نے سائنسدانوں کو حیران کردیا

    پانچ قرآنی آیات جنہوں نے سائنسدانوں کو حیران کردیا

    آج کی جدید سائنس ایسے ایسے میدان سر کررہی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ، آج انسانی ایجادات خلا کی وسعتوں کو چیرتے ہوئے نظامِ شمسی سے باہر نکل چکی ہیں اور بہت جلد ہی یہ انسان پڑوسی سیارے پر آباد ہونے کی تیاری کررہا ہے۔

    آج سے ایک صدی پہلے تک یہ سب خواب و خیال کی باتیں تھی اور اگر کوئی ایسے نظریات پیش کرتا تو اسے دیوانہ تصور کیا جاتا تھا، لیکن آج کی دنیا میں یہ سب حقیقت ہے۔

    سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ایک صدی پہلے تک یہ سب دیوانگی سمجھا جارہا تھا تو آج سے چودہ سو سال قبل عرب کے صحرا میں ہمارے نبی ﷺ مدینے کی مسجد کے منبر سے افلاک کی وسعتوں کے بارے میں ایسی آیات مسلمانوں کو حفظ کرارہے تھے جن کے بارے میں صدیوں ابہام رہا اور اب انسانی ارتقاء کی اس جدید ترین صدی میں ان کی تصدیق ممکن ہوئی ہے۔

    یہاں ہم پیش کررہے ہیں کچھ ایسی آیات جو کہ کائنات کی وسعتوں پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو بھی حیران کیے ہوئے ہیں۔


    جب کوئی نہیں جانتا تھا کہ چاند اور سورج ایک مقررہ حساب سے اپنا کام انجام دے رہیں تب سورہ رحمان کی آیت پانچ میں قرآن کہتا ہے

    [bs-quote quote=”والشمس والقمر بحسبان

    آفتاب اور مہتاب (مقررہ) حساب سے ہیں

    ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    سورہ رحمان کی آیت 19 اور 20میں خالق ِ کائنات زمیں پر موجود نمکین اور میٹھے پانی کے فرق کو بیا ن کرتا ہے۔

    [bs-quote quote=”مرج البحرین یلتقیان۔ بینھما برزخ لا یبغن

    اور اس نے دو دریا جاری کردیے جو آپس میں مل جاتے ہیں ۔ ان دونوں کے درمیان برزخ) ہے کہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔

    ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    قدیم زمانے میں خیال کیا جاتا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد طواف کرتا ہے، ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ سورج اپنی جگہ ساکن ہے ، لیکن قرآن نے دونوں نظریات سے ہٹ کر سورہ یس کی آیت نمبر 38 میں بیان کیا کہ

    [bs-quote quote=”والشمس تجری لمستقر لھا ۔ ذلک تقدیر العزیز العلیم

    اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب، باعلم اللہ تعالٰی کا” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    آج سائنس داں جانتے ہیں کہ سورج جسے ساکن تصور کیا جاتا ہے درحقیقت اپنے پورے نظامِ شمسی اور اس سے بڑھ کر یہ پوری کہکشاں ایک نامعلوم سمت میں رواں دواں ہے۔

    آج سے14 سو سال قبل جب عرب میں اسلام ، محمد عربی ﷺ کے زیر سایہ نمو پارہا تھا ، اس زمانے کے ماہرینِ فلکیات سمجھتے تھے کہ چاند ، سورج اور ستارے درحقیقت آسمان میں لٹکے ہوئے چراغ ہیں اور اپنی جگہ ساکن ہیں لیکن قرآن نے سورہ یس کی آیت نمبر 40 میں انکشاف کیا کہ

    [bs-quote quote=”لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر والا اللیل سابق النھار۔ وکل فی فلک یسبحون

    نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    آسمان کے لیے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ اپنی جگہ پر جامد ہے لیکن جب جدید سائنس نے انسان کو اس آسمان یعنی خلا کی وسعتوں تک رسائی دی تو انکشاف ہوا کہ یہ مسلسل پھیل رہی ہے، اس امر کو اللہ قرآن کی سورہ الذریات کی آیت نمبر 47 میں کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ

    [bs-quote quote=”والسما بنینا ہا باید وانالموسعون

    اس آسمان کو ہم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم اسے مسلسل پھیلاتے چلے جارہے ہیں” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]


    یقیناً بحیثیتِ مسلم ہمارے لیے یہ امر قابلِ ا فتخار ہے کہ آج جو کچھ سائنس دریافت کررہی ہے اس کے اشارے ہمیں قرآن نے 14 صدیوں قبل ہی دے دیے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ امر بھی ہمارے لیے قابلِ غور ہے کہ یہ قرآن ہمارے لیے ہی نازل کیا گیا تھا۔ ہمارے رب نے اسے انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ حیات قرار دے کر ہم سے کہا تھا کہ اس ( قرآن ) میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

    کیا ہی اچھا ہو کہ ہم محض غیر مسلموں کی دریافتوں کو قرآن سے سند عطا کرنے کے بجائے خود آگے بڑھیں اور علم و تحقیق کی دنیا میں ایسے ایسے کام کرجائیں کہ دنیا قرآن کا مطالعہ کرکے ایک دوسرے سے کہیں،  کہ دیکھو! مسلمانوں کو ان کے رب نے جو نشانی قرآن میں بتائی تھی وہ انہوں نے دریافت کر ڈالی ہے۔

    آج کی دنیا علم و فن کی دنیا ہے، تیز رفتار سائنسی ترقی کی دنیا ہے اگر ہم نے اس میدان کی جانب توجہ نہیں دی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا حشر بھی ویسا ہی ہو، جیسا کہ ہم سے اگلوں کا ہوا اور ان کے قصے بھی اسی قرآن میں ہمیں کھول کھول کر بیان کیے گئے ہیں کہ ہم ہدایت حاصل کرسکیں۔