Tag: خلا

  • امریکا خلا کوجنگی سرگرمیوں کا مرکز بنانے سے گریزکرے‘ چین کی وارننگ

    امریکا خلا کوجنگی سرگرمیوں کا مرکز بنانے سے گریزکرے‘ چین کی وارننگ

    بیجنگ: ترجمان چینی وزارت خارجہ ہوا چن ینگ نے کہا کہ خلا کو امن کا مقام رہنے دیا جائے اسلحے کے انبار مت لگائے جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق چین نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خلا کوجنگی سرگرمیوں کا مرکز بنانے سے گریزکرے۔

    ترجمان چینی وزارت خارجہ ہوا چن ینگ نے کہا کہ خلا کومیدان جنگ بنانا تباہ کن ہوگا، خلا کو امن کا مقام رہنے دیا جائے اسلحے کے انبار مت لگائے جائیں۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوج کی اسپیس کمانڈ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کرہ ارض کے بعد مدار پر بھی کنٹرول مضبوط کرنا چاہتا ہے۔

    امریکی صدر نے وزیردفاع جمیزمیٹس کو حکم دیا تھا کہ وہ پینٹاگون کے ایک افسر کا نام اسپیس کمانڈ کے کمانڈر کے طور پرپیش کریں جو سبھی خلائی آپریشنز اور سرگرمیوں کی نگرانی کرے-

    ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی ملٹری کواسپیس فورس کی تشکیل کا حکم


    یاد رہے کہ رواں سال جون میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ چین اور روس کو خلا میں سبقت حاصل ہو۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ صرف کافی نہیں ہے کہ خلا میں امریکی موجودگی ہو بلکہ ہم پرلازم ہے کہ خلا میں امریکی غلبہ ہو۔

  • ناسا کے خلائی روبوٹ کی مریخ پر کامیاب لینڈنگ

    ناسا کے خلائی روبوٹ کی مریخ پر کامیاب لینڈنگ

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا خلائی روبوٹ ان سائٹ کامیابی سے مریخ کی سطح پر لینڈ کرگیا۔ یہ ناسا کی تاریخ میں مریخ پر آٹھویں کامیاب لینڈنگ ہے۔

    خلائی روبوٹ ان سائٹ نے لینڈنگ کے بعد ناسا کو مشن کی تکمیل کا سگنل دیا ساتھ ہی مریخ کی پہلی تصویر بھی بھیجی جو شیشے پر گرد جمع ہونے کی وجہ سے دھندلی ہوگئی ہے۔

    چند گھنٹوں بعد ان سائٹ نے ایک اور تصویر بھیجی جو خاصی واضح ہے۔

    خلائی روبوٹ نے اپنی لانچ کے بعد سات ماہ میں 29 کروڑ 80 لاکھ میل کا سفر طے کیا اور بالآخر مریخ کی سطح پر لینڈنگ کی۔

    یہ روبوٹ مریخ کی تشکیل، اس پر آنے والے زلزلوں اور اس کی اندرونی ساخت کے بارے میں تحقیق کرے گا۔

    فی الحال سائنسدان اندھیرے میں ہیں کہ مریخ کی اندرونی سطح آیا زمین جیسی ہی ہے یا اس سے مختلف ہے۔

    روبوٹ میں شمسی توانائی کے پینلز بھی نصب ہیں جو اس وقت خودکار طریقے سے کام کرنے لگیں گے جب مریخ کا موسم انتہائی سرد ہوجائے گا۔

    ان سائٹ روبوٹ اس سے قبل مریخ پر بھیجے گئے مشنز سے مختلف ہے کیونکہ اس کے ساتھ 2 مصنوعی سیارے بھی مریخ کی فضا میں بھیجے گئے ہیں۔

  • اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    یہ 16 اپریل 2018 کا دن تھا۔ خلا سے جی ای 3 نامی ایک سیارچہ تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا اور سائنس دان اس راستے کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا تھے جہاں سے اس سیارچے کا زمین سے تصادم یقینی تھا۔

    تھوڑی دیر بعد سیارچہ زمین سے صرف 1 لاکھ 90 ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر رہ گیا۔ یہ اس فاصلے سے بھی نصف تھا جو چاند سے زمین کا ہے یعنی 3 لاکھ 84 ہزار 400 کلو میٹر۔

    یکایک اس سیارچے نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور سورج کی طرف جانے لگا جس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے خلائی مراکز میں اسکرینز پر نظریں جمائے بیٹھے سائنسدان خوشی سے اچھل پڑے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔ زمین سے اس سیارچے کے تصادم کا خطرہ ٹل چکا تھا۔

    خطرہ تو ٹل چکا تھا تاہم یہ واقعہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا۔ ایک فٹبال کے میدان جتنا یہ سیارچہ اگر اپنا راستہ تبدیل نہ کرتا اور اسی طرح بڑھتا رہتا تو زمین کے باسیوں کا مقدر کیا تھا؟

    کیا اس سے پہلے آنے والے سیارچوں کی طرح یہ سیارچہ بھی زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا؟ اور اگر اپنے بڑے حجم کی وجہ سے یہ تیزی سے زمین کی طرف پہنچنے میں کامیاب بھی ہوجاتا تو اس کے بعد کیا ہونا تھا؟

    خلا سے مختلف سیارچوں کا زمین کی طرف آنا معمول کی بات ہے۔ ہر روز خلا سے تقریباً 100 ٹن ریت اور مٹی زمین سے ٹکراتی ہے۔

    سال میں صرف ایک بار کسی کار کے جتنی جسامت رکھنے والا سیارچہ زمین کے قریب آتا ہے لیکن یہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا ہے اور کبھی بھی زمین کی سطح سے نہیں ٹکراتا۔

    وہ سیارچہ جو 10 کلومیٹر چوڑا تھا اور جس نے ڈائنو سار کی نسل کا خاتمہ کردیا، کئی لاکھ سال میں شاذ و نادر زمین کی طرف اپنا رخ کرتا ہے۔

    ہماری اصل پریشانی کا سبب وہ پتھر ہیں جو جسامت میں سیارچے سے چھوٹے ہوتے ہیں اور انہیں شہاب ثاقب کہا جاتا ہے۔ یہ شہاب ثاقب بھی 2 ہزار سال میں ایک بار زمین کی طرف آتے ہیں۔

    تصور کریں ایک 100 میٹر طویل پتھر 19 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آپ کی جانب آرہا ہو تو یہ نظارہ کس قدر خوفناک ہوگا۔

    اگر یہ شہاب ثاقب زمین کی فضا سے صحیح سلامت گزر گیا تو اسے زمین کی سطح سے ٹکرانے میں صرف 3 سیکنڈ لگیں گے۔

    چونکہ زمین کے صرف 3 فیصد حصے پر آبادی موجود ہے لہٰذا قوی امکان ہے کہ شہاب ثاقب سمندر میں جا گرے۔ تاہم ان میں سے کوئی آدھ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو کسی پرہجوم شہر سے جا ٹکرائے۔

    اس کے بعد کیا ہوگا؟

    اگر واقعی ایسا ہوجاتا ہے، کوئی شہاب ثاقب زمین کی سطح سے آ ٹکراتا ہے تو نیویارک جیسے پرہجوم شہر میں یہ واقعہ 25 لاکھ اموات کا سبب بن سکتا ہے۔

    یہ شہاب ثاقب جس مقام پر گرے گا اس مقام کے 2 میل کے دائرے میں ہر چیز تباہ ہوسکتی ہے جبکہ 7 میل کے دائرے تک میں موجود عمارتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ایک امکان یہ بھی ہے کہ خلا میں بھیجے جانے والے انسانی مشنز کی بدولت یہ پتھر تابکاری سے آلودہ ہوں۔ ایسی صورت میں یہ تابکار پتھر زمین پر گرتے ہی آدھی سے زیادہ آبادی کو چند لمحوں میں فنا کرسکتے ہیں۔

    ایسے ممکنہ تصادم کی صورت میں تابکار پتھر کا ملبہ زمین کے گرد ویسے ہی حلقوں کی صورت گھومنے لگے گا جیسے سیارہ زحل کے گرد حلقے موجود ہیں۔

    اس میں سے زیادہ تر ملبہ بھی واپس زمین پر آ گرے گا جس سے شہروں اور جنگلات میں آگ لگ جائے گی۔

    زمین کی سطح پر بے تحاشہ دھول اور دھواں پھیل جائے گا جس سے بچنے کے لیے زندہ رہ جانے والے انسانوں کو زیر زمین بنکرز میں جانا ہوگا۔

    یہ دھواں اور گرد و غبار سورج کی روشنی کو زمین پر پہنچنے سے روک دے گا۔ سورج کے بغیر زیادہ تر پودے اور جانور مر جائیں گے۔

    تقریباً ایک سال بعد زمین کی فضا گرد و غبار سے کچھ صاف ہوگی تاہم اس وقت تک انسانوں کے کھانے کے لیے نہایت قلیل مقدار میں اشیا موجود ہوں گی۔

    ماہرین کے مطابق اس ممکنہ تصادم، اس کی تباہی اور بعد ازاں خوراک کی ناپیدگی انسانوں کی نسل کو ایسے ہی معدوم کردے گی جیسے آج سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سارز کی نسل معدوم ہوگئی۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ زمین سے اوپر اس کی فضا ایسی ہے جو سیارچوں کو زمین کی طرف آنے سے روک دیتی ہے اور فضا میں موجود گیسیں سیارچوں اور خلا سے آنے والے پتھروں کی تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔

    دوسری جانب دنیا کا سب سے بڑا خلائی مرکز ناسا بھی ہر وقت زمین کے ارد گرد خلا میں نظر رکھے ہوئے ہے۔

    تاہم بری خبر یہ ہے کہ سیارچے کے زمین سے تصادم کا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک وہ زمین سے بہت قریب نہ آجائے، اور ایسی صورت میں ہمارے پاس بچنے کے لیے بہت کم وقت ہوگا۔

  • مریخ پر بھی زندگی سانس لے سکتی ہے؟

    مریخ پر بھی زندگی سانس لے سکتی ہے؟

    انسان نے زمین کی حدود سے باہر جانے کے بعد جہاں دیگر سیاروں پر اپنے قدم رکھے، وہیں وہاں پر اپنا گھر بنانے کا بھی سوچا، لیکن ہر سیارہ زمین کی طرح زندگی کے لیے موزوں مقام نہیں ہے جہاں زندگی کے لیے ضروری آکسیجن اور پانی مل سکے۔

    تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مریخ کی اوپری سطح سے نیچے موجود نمکین پانی میں آکسیجن کی اتنی مقدار موجود ہے جو زندگی کے لیے کافی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جس طر ح زمین پر اربوں سال قبل خوردبینی جاندار موجود تھے اسی طرح مریخ پر بھی ایسی آبادیاں بس سکتی ہیں۔

    جرنل نیچر جیو سائنس میں چھپنے والی اس تحقیق کے مطابق مریخ پر کئی مقامت میں اتنی آکسیجن موجود ہے جو کثیر خلیہ جاندار جیسے اسفنج کی زندگ کے لیے معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

    اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ مریخ پر اتنی بھی آکسجین موجود نہیں کہ وہاں خوردبینی جاندار زندہ رہ سکیں، تاہم نئی تحقیق مریخ پر کیے جانے والے مطالعے کو نیا رخ دے گی۔

    اس سے قبل بھی کئی بار مریخ پر پانی کی موجودگی کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے جس کے باعث کہا گیا کہ ماضی میں مریخ پر بھی زندگی ہوا کرتی تھی۔

    ایک تحقیق میں سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ مریخ پر موجود کچھ نشانات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں یہاں وافر مقدار میں پانی موجود تھا۔ محققین کا کہنا ہے کہ پانی کی موجودگی سے آبادی کا قیاس کرنا غلط نہ ہوگا۔

    اس سے قبل نومبر 2016 میں ناسا کے ایک سائنسدان کی ریسرچ کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ مریخ کے ایک علاقے میں برف کا ایک بڑا ٹکڑا موجود ہے جو برفانی پہاڑ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک بار پھر مریخ پر راکٹ بھیجنا پڑے گا تاکہ ابہام کو دور کیا جا سکے۔

  • خلا سے زمین کا خوبصورت نظارہ

    خلا سے زمین کا خوبصورت نظارہ

    بین الاقوامی خلائی اسٹیشن یا مرکز (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔

    یہ خلائی اسٹیشن اس وقت خلا میں موجود سب سے بڑی جسامت ہے جو بعض اوقات زمین سے بھی بغیر کسی دوربین کے دیکھی جاسکتی ہے۔

    یہ اسٹیشن امریکا، روس، یورپ، جاپان اور کینیڈا کے خلائی مراکز کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کیا گیا تھا اور اس کا مقصد زمین سے باہر خلا میں مختلف تجربات اور مشاہدات کرنا ہے۔

    مزید پڑھیں: بین الاقوامی خلائی مرکز کب تک کارآمد رہے گا؟

    یہ اسٹیشن دوسرے سیاروں کی طرف جانے والی مہمات اور خلابازوں سے بھی رابطے میں رہتا ہے جبکہ خلا میں ہونے والی تبدیلیوں سے مسلسل سائنس دانوں کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں اس اسٹیشن سے زمین کیسی دکھائی دیتی ہے؟ تو چلیں پھر آج وہاں سے زمین کی سیر کرتے ہیں۔

  • امریکا کی خلا میں جنگ لڑنے کی تیاریاں

    امریکا کی خلا میں جنگ لڑنے کی تیاریاں

    واشنگٹن : امریکا اب خلا میں جنگ لڑنے کی تیاریاں کررہا ہے، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسپیس فورس کے لئے ابتدائی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں اور  2020 تک قائم کردی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ نے خلائی فورس بنانے کی تیاری شروع کردی، امریکی نائب صدرمائیک پنس نے پینٹاگون کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کے کہ نئے میدان جنگ کے لئےتیاری کا وقت آگیا ہے، خلائی فورس سے امریکی مسلح افواج کی تاریخ میں عظیم باب کا اضافہ ہوگا۔

    مائیک پنس کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے امریکی خلائی فوج 2020 تک قائم کردی جائے گی خلا میں بالادستی ہمارا مقصد ہے، ہم چاہتے ہیں کہ خلا میں بھی ہم سب پر سبقت لے جائیں ۔

    کانگریس آئندہ پانچ سال میں خلائی سیکورٹی سسٹم میں مزید آٹھ بلین کی سرمایہ کاری کرے گا۔

    خیال رہے خلائی فورس کے قیام کے لئے کانگریس کی منظوری ضروری ہے، کانگریس کے متعدد ارکان نے فورس پرآنے والے ممکنہ اخراجات پرتحفظات کا اظہار کیا ہے۔


    مزہد پڑھیں : ڈونلڈ ٹرمپ نے محکمہ دفاع اور پینٹاگون کو خلائی فوج بنانے کا حکم دے دیا


    یاد رہے اسپیس فورس کےقیام کا حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جون میں دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم یہ برداشت نہیں کریں گے کہ چین اور روس ہم سے پہلے خلا میں ہوں۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس بار خلا پر صرف جھنڈا یا قدموں کے نشان نہیں چھوڑیں گے بلکہ خلا پر قبضہ کریں گے، روس اور چین کو وہاں اپنے قدم جمانے نہیں دیں گے، ہم پر لازم ہے کہ خلا میں امریکی غلبہ ہو، اس نئی شاخ کے قیام سے قومی سلامتی اور معیشت کو مدد ملے گی کیونکہ اس سے روزگار بھی ملے گا۔

  • 17 سالہ ایلیسا مریخ پر پہلا قدم رکھنے کو تیار

    17 سالہ ایلیسا مریخ پر پہلا قدم رکھنے کو تیار

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا مریخ پر پہلا پڑاؤ ڈالنے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہے۔ ایسے میں ایک 17 سالہ دوشیزہ بھی مریخ پر قدم رکھنے والی پہلی انسان کا اعزاز حاصل کرنے والی ہیں۔

    ایلیسا کارسن صرف 17 سال کی ہیں جو اس وقت ناسا میں خلا باز بننے کی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔

    وہ مریخ پر قدم رکھنے والی پہلی انسان بننا چاہتی تھیں اور ان کے خواب کی تعبیر انہیں اس طرح مل رہی ہے کہ سنہ 2033 میں وہ مریخ پر بھیجے جانے والے اولین انسانی مشن کا حصہ ہوں گی۔

    امریکی ریاست لوزیانا سے تعلق رکھنے والی ایلیسا ابتدائی خلائی تربیت مکمل کرنے والی سب سے کم عمر ترین طالبہ ہیں جس کے بعد اب وہ ناسا کا باقاعدہ حصہ ہیں۔

    ایلیسا 4 زبانوں یعنی انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی اور چینی زبان میں عبور رکھتی ہیں جبکہ پرتگالی اور ترکی زبان بھی کچھ کچھ جانتی ہیں، اس کے علاوہ روسی زبان کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

    ایلیسا بچپن سے کچھ منفرد کرنا چاہتی تھیں، جب اسے معلوم ہوا کہ انسان چاند کو تسخیر کرچکا ہے لیکن مریخ تاحال ناقابل تسخیر ہے تو مریخ پر جانا ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب بن گیا۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر پہلا قدم کس کا ہونا چاہیئے؟

    وہ بخوبی جانتی ہیں کہ ایک بار مریخ پر جانے کے بعد اس کا زمین پر لوٹنا شاید ممکن نہ ہو، پھر بھی زمین سے تقریباً 40 کروڑ کلومیٹر دور مریخ پر پہنچنے ان کی ضد برقرار ہے۔

    ناسا کے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مریخ پر جانے کے سفر کے دوران چاند پر عارضی پڑاؤ ڈالا جاسکتا ہے، لہٰذا چاند گاؤں بنانے کا کام بھی جاری ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سیارہ مشتری کے 12 نئے چاند دریافت

    سیارہ مشتری کے 12 نئے چاند دریافت

    نظام شمسی کے پانچویں اور سب سے بڑے سیارے مشتری کے گرد محو سفر مزید 12 چاند دریافت کرلیے گئے جس کے بعد مشتری کے چاندوں کی تعداد 79 ہوگئی ہے۔

    مذکورہ دریافت واشنگٹن میں واقع کارنیگی انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے ماہرین فلکیات نے طاقتور ترین دوربینوں کی مدد سے کی۔

    حالیہ دریافت کے بعد مشتری سب سے زیاد چاند رکھنے والا سیارہ بن گیا ہے۔

    ادارے کے ماہرین کے مطابق مشتری کے نئے چاندوں کی حرکت کا ایک سال تک مشاہدہ کیا گیا جس کے بعد اب ان کی دریافت کا حتمی اعلان کردیا گیا ہے۔

    ماہرین کے ابتدائی اندازے کے مطابق یہ چاند دراصل اسی مادے سے بنے ہیں جس سے سیارہ مشتری تخلیق ہوا۔ یہ ٹکڑے سیارے سے جڑنے سے رہ گئے جس کے بعد اب یہ چاندوں کی صورت میں مشتری کے گرد گھوم رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: سیارہ مشتری کے عظیم طوفان کی جھلک

    نو دریافت شدہ 12 میں سے تین چاندوں کو مشتری کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں زمین کے 2 سال یعنی 730 دن لگ جاتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پاکستان نے اپنے پہلے سیٹلائٹس لانچ کردیے

    پاکستان نے اپنے پہلے سیٹلائٹس لانچ کردیے

    پاکستان نے خلا اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار مقامی سطح پر تیار کیے گئے سیٹلائٹ لانچ کردیے۔

    قومی ادارے اسپیس اینڈ اپر ایٹمو سفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کے مطابق لانچ کیے گئے 2 سیٹلائٹس میں سے ایک پی آر ایس ایس 1 ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ہے جو زمین کی مختلف خصوصیات اور معدنی ذخائر کا جائزہ لے گا۔

     

    یہ سیٹلائٹ موسمیاتی تبدیلی کا بھی اندازہ لگانے میں معاون ثابت ہوگا، جس میں گلیشیئرز کے پگھلنے، گرین ہاؤس گیسز کے اثرات، جنگلات میں آتشزدگی اور زراعت سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔

    اس سیٹلائٹ کی لانچنگ کے بعد پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوگا جو زمینی مدار میں اپنا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ روانہ کر چکے ہیں۔

    دوسرا سیٹلائٹ پاک ٹیس – 1 اے حساس آلات اور کیمروں سے لیس خلا میں 610 کلو میٹر کے فاصلے پر رہے گا اور سورج کے اعتبار سے اپنی جگہ تبدیل نہیں کرے گا۔

    دونوں سیٹلائٹس چینی ساختہ راکٹس کی مدد سے لانچ کیے گئے ہیں۔ سیٹلائٹ کی سمت کا تعین کرنے والی ٹیکنالوجی پاکستان سنہ 2012 میں ہی چین سے حاصل کرچکا ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے سیٹلائٹ کی تیاری کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان نے مقامی وسائل سے پاک ٹیس ون اے نامی سیٹلائٹ تیار کیا ہے جس کے تیاری کے تمام مراحل پاکستان میں طے کیے گئے ہیں۔

    انہوں نے کہا تھا کہ سیٹلائٹ زمین کے جغرافیے، موسم، ماحول اور سائنسی تحقیق میں معاون ثابت ہوگا۔ ٹیس ون اے کا وزن 285 کلو گرام ہے اور یہ 610 کلو میٹر کی بلندی پر مدار میں چکر لگائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خلائی مخلوق وجود رکھتے ہیں: ناسا کے سائنسدان کا انکشاف

    خلائی مخلوق وجود رکھتے ہیں: ناسا کے سائنسدان کا انکشاف

    عالمی خلائی ادارے ناسا کے ایک سابق سائنسداں کا کہنا ہے کہ خلائی مخلوق نہ صرف موجود ہیں بلکہ کئی بار انسانوں کا ان سے سامنا بھی ہوچکا ہے، لیکن حکومتوں نے اس بات کو خفیہ رکھا ہوا ہے۔

    دی کنورزیشن نامی جریدے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کیون کنتھ نے دعویٰ کیا کہ ہماری کائنات میں خلائی مخلوق اور اڑن طشتریوں کی موجودگی کے بے شمار ثبوت موجود ہیں۔

    کیون کنتھ ناسا میں اپنی ملازمت مکمل ہونے کے بعد اب ایک امریکی یونیورسٹی میں طبیعات کے پروفیسر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت مل گیا

    اپنے مضمون میں انہوں نے کہا کہ ہمیں اس امکان کو تسلیم کرلینا چاہیئے کہ کچھ ایسے اجنبی اڑنے والے آبجیکٹس (آسان الفاظ میں اڑن طشتریاں) موجود ہیں جو ہمارے ایجاد کردہ ایئر کرافٹس سے کہیں بہتر ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے بھی بے تحاشہ ثبوت ہیں جنہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    پروفیسر کا کہنا ہے کہ اڑن طشتریوں کے بارے میں بات کرنا اس وقت نہایت متنازعہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ان دعووں کی سائنسی بنیاد پر تحقیق نہیں کی جارہی۔

    ان کے خیال میں اس کی ذمہ دار حکومتیں اور میڈیا ہے جس نے اس موضوع کو نہایت متنازعہ بنا دیا ہے۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اور زمین کی تباہی کا سبب

    پروفیسر نے کہا کہ خلائی مخلوق ایک حقیقت ہیں کیونکہ ہماری کائنات میں 300 ارب ستارے موجود ہیں، اور ان میں سے کچھ یقیناً ایسے ہوں گے جہاں زندگی موجود ہوگی۔

    اپنے مضمون میں انہوں نے کہا کہ اب تک ایک بھی ایسا باقاعدہ اور مصدقہ دستاویز تیار نہیں کیا گیا جو اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے حوالے سے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں ان معلومات کو راز میں رکھنا چاہتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس بارے میں سائنسی بنیادوں پر تحقیق بنی نوع انسان کے لیے فائدہ مند ہوگی اور اس سے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔