Tag: خلا

  • پاکستان نے سیٹلائٹ تیار کرلیا، آئندہ ماہ خلا میں بھیجا جائے گا

    پاکستان نے سیٹلائٹ تیار کرلیا، آئندہ ماہ خلا میں بھیجا جائے گا

    اسلام آباد: پاکستان نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں اہم سنگِ میل عبور کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار مقامی سطح پر سیٹلائٹ تیار کرلیا جسے آئندہ ماہ خلا میں بھیجا جائے گا۔

    دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مقامی وسائل سے پاک ٹیس ون اے نامی سیٹلائٹ تیار کیا جسے آئندہ ماہ خلا میں بھیجا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ سیٹلائٹ زمین کے جغرافیے، موسم، ماحول اور سائنسی تحقیق میں معاون ثابت ہوگا۔دفتر خارجہ ترجمان کے مطابق ٹیس ایس ون کا وزن 285 کلوگرام ہے اور یہ 610 کلومیٹر کی بلند پر مدار میں چکر لگائے گا۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ مقامی سطح پر تیار کردہ سیٹلائٹ ریموٹ سینسنگ کے لیے استعمال ہوگا۔

    دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ سیٹلائٹ پاک ٹیس-1اے حساس آلات اور کیمروں لیس خلا میں 610 کلومیٹر کے فاصلے پر رہے گا اور پاک ٹیس-1اے سورج کے اعتبار سے اپنی جگہ تبدیل نہیں کرے گی۔

    پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں ملک کے سائنسدانوں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’آپ نے پاکستانی شہریوں کو فخر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے‘۔

    ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ (آر ایس ایس) کے نام سے مشہور سیٹلائٹ کی مدد سے زمین کی متخلف خصوصیات کا جائزہ لے سکے گی اور زمین کے نیچے موجود معدنی ذخائر کا جائزہ بھی لے سکی گی۔

    خیال رہے کہ سیٹلائٹ میں نصب کیے گئے حساس آلات کے باعث آر ایس ایس موسمیاتی تبدیلی کا بھی اندازہ لگانے میں معاون ثابت ہوگا، جس میں گلئشیئرز پگھلنے، گرین ہاوس گیسز، جنگلات میں لگی آگ اور زراعت سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ جبکہ سیٹلائٹ دیگر سرگرمیاں انجام دینے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔

    یاد رہے کہ سیٹلائٹ کی سمت کا تعین کرنے والی ٹیکنالوجی پاکستان سنہ 2012 میں ہی چین سے حاصل کرچکا ہے۔

    قومی خلائی ادارے نے سیئٹلائٹ خلا میں بھیجنے کے حوالے سے سپارکو(پاکستان اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن) اور آئی ایس پی آر سے رابطہ کیا گیا تو دونوں اداروں نے اس حوالے سے معلومات کا تبادلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔

    واضح رہے کہ پاکستان کا روایتی حریف بھارت سنہ 1970 میں ہی اس قسم کی سیٹلائٹ خلا میں بھیج چکا ہے۔

    سابق وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر عطا الرحمٰن نے پاکستانی سائنس دانوں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے آئندہ ماہ سیٹلائٹ خلا میں بھیجنا قابل فخر اور مثبت اقدام ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ آبزرویٹری سیٹلائٹ میں کمیونیکیشن سیٹلائٹ کی طرح بڑی، بھاری اور پیچیدہ ٹیکنالوجی کے بجائے سادہ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے، لیکن یہ دیگر سیٹلائٹ کی طرح تمام امور انجام دے سکتی ہے۔

    ڈاکٹر عطا الرحمٰن کا کہنا تھا کہ سیٹلائٹ میں نصب کیے گئے ریموٹ سینسنگ آلات زمین سے خلا میں جانے والی الیکٹرو مگنیٹک لہروں اور تابکاریوں کا بھی جائزہ لے سکتی ہے۔

    سابق وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان خلائی سرگرمیوں کے حوالے سے خطے میں بہت پیچھے ہے، حتیٰ کہ پاکستان اپنے حریف بھارت سے بھی 25 سے 30 برس پیچھے ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں پاک فضائیہ کے ائیرمارشل سہیل امان نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان آئندہ دو برسوں میں خلائی مشن بھیجے گا جس کے لیے پاک چین تعاون سے نیکسٹ جنریشن طیارہ سازی کی جارہی ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان آئندہ دو برسوں میں خلاء میں سیٹلائٹ مشن بھیجے گا، ایئر مارشل سہیل امان

    ایئرچیف کا کہنا تھا کہ حصول تعلیم کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کا احسن استعمال اور سماجی فلاح و بہبود ہونا چاہیے، خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں ایئر یونیورسٹی کے زیراہتمام ملکی تاریخ کی سب سے بڑی اور منفرد چار روزہ ٹیکنالوجی کی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔

    چار روزہ ٹیکنالوجی مقابلوں کے انعقاد کا مقصد ملک بھر کے قابل طلباء وطالبات کی تخلیقی اور قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانا تھا اور اس ایئرٹیک کانفرنس میں شرکت تھی۔

    اسے بھی پڑھیں: پاکستان 2018 میں خلا میں سیٹلائٹ بھیجے گا

    یاد رہےکہ پاکستان نے اپنا اسپیس پروگرام سنہ 1961 میں بھارت سے آٹھ سال قبل شروع کیا اور بدر نامی پہلا راکٹ ناسا کے تعاون سے تیار کیا تھا، ایشیائی ممالک میں اسرائیل اور جاپان کے بعدپاکستان تیسرا ملک تھا جس نے راکٹ تیار کیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی ملٹری کواسپیس فورس کی تشکیل کا حکم

    ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی ملٹری کواسپیس فورس کی تشکیل کا حکم

    واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ چین اور روس کو خلا میں سبقت حاصل ہو۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی ملٹری کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی فورس کی چھٹی شاخ اسپیس فورس کے قیام کے لیے کام شروع کرے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی ملٹری کی اس نئی شاخ کے قیام سے قومی سلامتی اور معیشت کو مدد ملے گی اور اس سے روزگار ملے گا۔

    امریکی صدر نے کہا کہ یہ صرف کافی نہیں ہے کہ خلا میں امریکی موجودگی ہو بلکہ ہم پرلازم ہے کہ خلا میں امریکی غلبہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ چین اور روس کو خلا میں سبقت حاصل ہو۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ وفاقی ایجنسیوں کو احکامات جاری کریں گے اسپیس ٹریفک مینیجمنٹ کے لیے جدید فریم ورک مرتب کریں۔

    خیال رہے کہ نئی اسپیس فورس کے بارے میں امریکی صدر کی جانب سے نہیں بتایا گیا کہ وہ کیسی ہوگی اور اس کا کام کیا ہوگا تاہم ملٹری کی جانب سے نئی شاخ کی تشکیل دینے کے لیے امریکی کانگریس کی جانب سے قانون کی منظوری ضروری ہے۔


    امریکی ملٹری کی موجودہ شاخیں

    1- یو ایس آرمی

    2- یو ایس میرین کور

    3- یو ایس نیوی

    4- یو ایس ایئرفورس

    5- یو ایس کوسٹ گارڈ


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • 4 سالہ بیٹے کو چھوڑ کر جانے والی خلا نورد ماں

    4 سالہ بیٹے کو چھوڑ کر جانے والی خلا نورد ماں

    واشنگٹن: ناسا کی ایک خلا نورد ماں کی اپنے بیٹے کے ساتھ کھینچی جانے والی خوبصورت تصاویر کو دنیا بھر میں بے حد سراہا جارہا ہے۔

    این مک کلین نامی یہ خلا نورد جو ایک ایرو اسپیس انجینیئر بھی ہیں، ایک خلائی مشن کے ساتھ عالمی خلائی اسٹیشن پر جارہی ہیں۔

    روایت کے مطابق مشن شروع ہونے سے قبل خلائی لباس میں فوٹو سیشن کے لیے انہوں نے اپنے بیٹے کو بھی ساتھ رکھا۔ ماں اور بیٹے کی ان خوبصورت تصاویر کو بے حد پسند کیا جارہا ہے۔

    خلا نورد کا 4 سالہ بیٹا اپنے ساتھ گود میں اپنے کھلونے کو لیے بیٹھا ہے۔

    این کا کہنا ہے کہ مشن پر جاتے ہوئے اپنے 4 سالہ بیٹے کو چھوڑ کر جانا ان کے لیے ایک تکلیف دہ مرحلہ ہے، وہ بھی ایک ایسے سفر پر جانا جہاں سے ہوسکتا ہے ان کی واپسی نہ ہو، لیکن یہ ان کے بیٹے کی تربیت میں بھی معاون ثابت ہوگا اور وہ زندگی کی معنویت کو سمجھے گا۔

    وہ کہتی ہیں، ’میرے پاس دو راستے تھے، ایک یہ کہ میں بہت آرام دہ اور نارمل زندگی گزاروں، اور دوسرا یہ کہ ایک غیر معمولی زندگی گزاروں جو نہ صرف مجھ پر زندگی کے نئے دریچے وا کرے گی بلکہ دوسروں کے لیے بھی رہنما ثابت ہوگی۔ میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا‘۔

    این کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا ان کے بغیر بہت تنہائی محسوس کرتا ہے، لیکن جب وہ بڑا ہوگا تو اسے اندازہ ہوگا کہ ضروری نہیں ہر شخص کو ایک جیسی زندگی ملے۔ ’بڑے مقصد کے لیے چھوٹی چھوٹی چیزوں کی قربانی دینی پڑتی ہے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پوپ فرانسس کے لیے خلائی لباس کا تحفہ

    پوپ فرانسس کے لیے خلائی لباس کا تحفہ

    ویٹی کن سٹی: عیسائیوں کے مذہبی و روحانی پیشوا پوپ فرانسس کو عالمی خلائی اسٹیشن کے خلا بازوں نے خلائی لباس کا تحفہ پیش کیا جسے دیکھ کر پوپ نہایت خوش ہوئے۔

    یہ تحفہ پوپ کو اس وقت پیش کیا گیا جب 4 خلا بازوں کا وفد ان سے ملاقات کے لیے ویٹی کن سٹی پہنچا۔ ان خلا بازوں میں سے 3 کا تعلق امریکا جبکہ ایک کا تعلق روس سے ہے۔

    پوپ فرانسس کو یہ تحفہ بے حد پسند آیا اور انہوں نے مذاقاً خلا بازوں سے کہا کہ اب آپ کو میرے خلائی سفر کے انتظامات بھی کرنے ہوں گے۔

    پوپ فرانسس کو پیش کیے جانے والے لباس پر ان کا نام اور ان کے وطن ارجنٹائن کا جھنڈا چپساں ہے۔

    خلا بازوں کا کہنا تھا کہ یوں تو یہ لباس عام خلا بازوں کے لباس جیسا نیلا ہی ہے، لیکن چونکہ پوپ ایک ممتاز مذہبی شخصیت ہیں لہٰذا ان کے لیے لباس کے ساتھ سفید رنگ کی خصوصی کیپ بھی تیار کی گئی ہے جس پر ناسا کا لوگو اور کشیدہ کاری سے پوپ فرانسس درج ہے۔

    اس سے قبل گزشتہ برس پوپ فرانسس نے ویٹی کن سٹی سے عالمی خلائی اسٹیشن پر موجود خلا بازوں سے ویڈیو کال پر گفتگو بھی کی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کہکہشاں کا تھری ڈی نقشہ

    کہکہشاں کا تھری ڈی نقشہ

    پیرس: یورپ کے گایا سیٹلائٹ کی طرف سے ہماری کہکہشاں کا تھری ڈی نقشہ جاری کردیا گیا جس کے بعد ہماری کہکہشاں میں موجود ستاروں کے رنگ اور حرکت کو مزید وضاحت سے دیکھنا ممکن ہوجائے گا۔

    گایا سیٹلائٹ نے یہ ڈیٹا 22 ماہ میں جمع کیا ہے جس میں 1 ارب 70 کروڑ ستاروں کی معلومات شامل ہیں۔

    یہ نقشہ ان ستاروں کی آسمان میں صحیح سمت، ان کی روشنی اور رنگ کے بارے میں نہایت درست معلوم فراہم کرتا ہے۔

    سنہ 2013 میں لانچ کیا جانے والا یہ سیٹلائٹ زمین سے 9 لاکھ 30 میل کے فاصلے پر خلا میں موجود ہے۔

    سیٹلائٹ نے 22 ماہ تک فی منٹ 1 لاکھ ستاروں کی معلومات جمع کیں جبکہ دن میں 50 کروڑ پیمائشیں کی۔

    ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا علم فلکیات میں انقلابی اضافے کرے گا جس کے بعد کہکہشاں کو سمجھنا مزید آسان ہوجائے گا۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا خاصی حد تک مکل ہے اور اس حد تک مکمل ڈیٹا اس سے پہلے جاری نہیں کیا گیا۔

    گایا نے کہکہشاں کا پہلا نقشہ ستمبر 2016 میں جاری کیا تھا جس میں 1 ارب 15 کروڑ ستاروں کی معلومات شامل تیھں۔

    اب اس میں مزید معلومات شامل کی گئی ہیں جن میں ستاروں کی تعداد 1 ارب 70 کروڑ ہوگئی ہے۔

    گایا کی جانب سے بھیجی جانے والی معلومات کی جانچ پڑتال اور ترتیب میں 20 ممالک کے 450 ماہرین فلکیات اور سائنس دانوں نے حصہ لیا۔

    ان میں سے ایک سائنس داں ایٹونلا ویلنری کا کہنا ہے کہ اس نقشے کو دیکھنا کسی چاکلیٹ باکس کو کھولنے جیسا ہے۔ ’یہ بہت شاندار کام ہے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مریخ پر پہلا قدم کس کا ہونا چاہیئے؟

    مریخ پر پہلا قدم کس کا ہونا چاہیئے؟

    بنی نوع انسان نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے خلا کی وسعتوں کو بھی چھاننا شروع کردیا ہے اور آج کے دور میں مختلف سیاروں کو سر کیے جانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں جن میں سے ایک مریخ بھی شامل ہے، ناسا کی ایک سینیئر انجینیئر کا کہنا ہے کہ مریخ پر پہلا قدم رکھنے والا انسان کوئی مرد نہیں بلکہ خاتون ہونا چاہیئے۔

    امریکا کے خلائی ادارے ناسا میں بطور انجینیئر اپنی خدمات سر انجام دینے والی ایلسن مک انتارے کا کہنا ہے کہ چاند پر اب تک 12 افراد کو بھیجا جا چکا ہے جن میں سے ایک بھی خاتون نہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ اب جبکہ مریخ پر جانے کے منصوبے زیر تکمیل ہیں تو اس بار مریخ پر پہلا قدم رکھنے کا اعزاز ایک خاتون کو ہونا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر ایک سال گزارنے کے بعد کیا ہوگا؟

    ایلسن گزشتہ 30 برس سے ناسا سے منسلک ہیں اور ان کے مطابق انہوں نے وقت کو بدلتے دیکھا ہے۔ ’پہلے ادارے میں رکھے جانے والے افراد زیادہ تر مرد ہوتے تھے اور بہت کم خواتین کو ترجیح دی جاتی تھی، تاہم اب وقت بدل گیا ہے اب خواتین بھی مردوں کی طرح اعلیٰ عہدوں پر فائز کی جارہی ہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کے شعبے کے ڈائریکٹر اور ڈویژن انچارج کی ذمہ داریاں بھی خواتین کے پاس ہیں، ’یقیناً خواتین مریخ پر بھی بہترین کارکردگی کا مظاہر کرسکتی ہیں‘۔

    ایلسن مک انتارے کی اس تجویز کا تمام حلقوں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ خلا میں جانے والی سب سے پہلی خاتون کا اعزاز روسی خلا نورد ویلینٹینا ٹریشکووا کے نام ہے جنہوں نے 60 کی دہائی میں زمین کے مدار سے باہر نکل کر یہ اعزاز اپنے نام کیا۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    ڈاکٹر ویلینٹینا نے جب خلا کی طرف اپنا پہلا سفر کیا اس وقت وہ صرف 26 برس کی تھیں۔ انہوں نے 3 دن خلا میں گزارے اور اس دوران 48 مرتبہ زمین کے گرد چکر لگایا۔

    ان کا خلائی جہاز ووسٹوک 6 ایک منظم خلائی پروگرام کا حصہ تھا جس کے تحت خلا کی مختلف تصاویر اور معلومات حاصل کی گئیں۔

    ایک اور خلا باز پیگی وٹسن کو خلا میں سب زیادہ دن گزارنے والی پہلی خاتون خلا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ پیگی 3 خلائی مشنز میں مجموعی طور پر 665 دن خلا میں گزار چکی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اگر سیارے زمین سے قریب ہوتے تو آسمان پر کیسے دکھائی دیتے؟

    اگر سیارے زمین سے قریب ہوتے تو آسمان پر کیسے دکھائی دیتے؟

    ہمارے نظام شمسی میں تمام سیارے اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر موجود ہیں لہٰذا انہیں زمین سے دیکھنا ناممکن ہے۔

    لیکن اگر یہی سیارے زمین سے اس قدر قریب ہوتے کہ چاند کی طرح ہمارے آسمان پر نظر آتے تو کیسے دکھائی دیتے؟

    ایک علم فلکیات دان نک ہومز نے اینی میشن کے ذریعے بتانے کی کوشش کی ہے کہ نظام شمسی میں موجود دیگر سیارے زمین سے کیسے نظر آسکتے ہیں۔

    اس اینی میشن کی بنیاد اس نقطے پر ہے کہ اگر تمام سیارے زمین سے صرف اتنے فاصلے پر ہوتے جتنا کہ چاند ہے یعنی کہ زمین سے 3 لاکھ 84 ہزار 4 سو کلومیٹر کے فاصلے پر تو وہ کس طرح دکھائی دیتے۔

    مزید پڑھیں: طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    یاد رہے کہ نظام شمسی میں واقع تمام سیارے زمین سے کروڑوں اربوں کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔

    اس اینی میشن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر چاند زمین سے صرف اتنا دور ہوتا جتنا کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن زمین سے دور ہے، تو وہ کس طرح دکھائی دیتا۔

    خیال رہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔ یہ خلائی اسٹیشن اس وقت خلا میں موجود سب سے بڑی جسامت ہے جو بعض اوقات زمین سے بھی بغیر کسی دوربین کے دیکھی جاسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت مل گیا؟

    خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت مل گیا؟

    خلائی مخلوق کی موجودگی کے بارے میں اب تک کئی متضاد دعوے سامنے آچکے ہیں اور ان میں سے کون سا دعویٰ حتمی ہے، یہ کہنا مشکل ہے تاہم پہلی بار چاند پر قدم رکھنے والے خلانوردوں کا یہ دعویٰ کہ ان کا سامنا خلائی مخلوق سے ہوا تھا، اب سچ ثابت ہوگیا ہے۔

    سنہ 1969 میں امریکی خلائی مشن اپالو 11 چاند پر بھیجا گیا تھا اور اس میں موجود خلا نوردوں نے چاند پر قدم رکھ کر، چاند پر پہنچنے والے اولین انسانوں کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

    مشن پر جانے والے خلا نورد اپنے کئی انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ ان کا سامنا خلائی مخلوق سے ہوا تھا تاہم ان کے دعوے پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔

    مزید پڑھیں: چینی خلائی جہاز پر خلائی مخلوق کی دستک

    اب حال ہی میں ان خلا نوردوں کا لائی ڈیٹیکٹر (جھوٹ پکڑنے والی مشین) سے ٹیسٹ کیا گیا جس میں وہ کامیاب ہوگئے، گویا خلائی مخلوق کو دیکھنے کا ان کا دعویٰ درست ہے۔

    یہ ٹیسٹ امریکی ریاست اوہائیو میں واقع انسٹیٹیوٹ آف بائیو ایکوزٹک بیالوجی میں کیا گیا جس میں اپالو 11 میں موجود خلا نورد بز ایلڈرن نے یہ ٹیسٹ پاس کرلیا۔

    ٹیسٹ کے نتائج میں ماہرین نے بتایا کہ ایلڈرن جو نیل آرم اسٹرونگ کے بعد چاند پر قدم رکھنے والے دوسرے انسان تھے، اس مشن کی واپسی سے یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ انہوں نے چاند تک اپنے سفر کے دوران خلائی مخلوق کو دیکھا تھا، اب انہوں نے لائی ڈیٹیکٹر کا یہ ٹیسٹ پاس کرلیا ہے چنانچہ ہم یہ مان سکتے ہیں کہ انہوں نے خلائی مخلوق کو واقعتاً دیکھا تھا۔

    ایلڈرن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے چاند کے سفر کے دوران ایک قابل مشاہدہ شے دیکھی تھی جو انگریزی حرف تہجی ’ایل‘ جیسی تھی۔ ٹیسٹ لینے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ گو کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں تاہم وہ شے کیا تھی، ان کا دماغ اس کی تشریح پیش کرنے سے قاصر ہے۔

    ٹیسٹ میں خلا نوردوں ایڈگر مچل اور گورڈن کوپر کی آوازوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ یہ دونوں خلا نورد انتقال کرچکے ہیں اور ان کی آواز کے تجزیے کے لیے ان کے ایک پرانے انٹرویو سے مدد لی گئی۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کو بلانا زمین کی تباہی کا سبب

    ایڈگر مچل کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے متعدد اڑن طشتریوں کو دیکھا تھا۔ مذکورہ ٹیسٹ میں ان کی آواز کے تجزیے کے بعد سائنس دانوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ وہ بھی سچ کہہ رہے تھے۔

    خلا نوردوں پر مذکورہ ٹیسٹ کے بعد خلائی مخلوق کی تلاش کے مشنز اور تجربات کے لیے ایک نئی راہ کھل گئی ہے۔ سائنس داں پر امید ہیں کہ اس سلسلے میں ان کی کی جانے والی کوششوں کو جلد کامیابی حاصل ہوگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خلا میں گردش کرتا فائیواسٹار ہوٹل

    خلا میں گردش کرتا فائیواسٹار ہوٹل

    کیلی فورنیا : اب سیاح خلا میں فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام کر سکیں گے،  امریکی کمپنی کی جانب سے خلائی اسٹیشن پر ایک منفرد ہوٹل 2021 تک قائم کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی کمپنی آرین اسپیَن نے 2021ء تک بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر فائیو اسٹار ہوٹل تعمیر کرنے کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں مختلف منصوبوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

    آرین اسپیَن کے سی ای او کا کہنا ہے کہ ہم پہلی بار خلا میں ایک سستا اور لگژری ہوٹل ارورا اسٹیشن شروع کرنے جارہے ہیں، آرین سپین از خود ارورا اسٹیشن تعمیر کررہا ہے ، کمپنی کے کچھ انتہائی اہم انجینئرز اس پر کام کررہے ہیں اور انہوں نے ڈیزائن بنانے اور آئی ایس ایس کو چلانے میں مدد دی ہے جبکہ ہیوسٹن میں ایک ہوٹل اور ساحلی علاقے میں اسے چلانے کے لیے سافٹ فیئر بھی تیار کیا جارہا ہے۔

    ارورا اسٹیشن ایک بڑے جیٹ کے کیبن کے سائز کے برابر ہوگا، اسی کی لمبائی 43.5 فٹ اور چوڑائی 14.1 فٹ ہوگی۔

    خلا میں گردش کرتے اس پرتعیش ہوٹل میں ایک وقت میں چھ لوگ قیام کر سکیں گے لیکن یہاں قیام سستا نہیں ہوگا۔

    سیاحوں سے بارہ دن کے قیام کیلئے ساڑے نو ملین ڈالرز فی کس وصول کیے جائیں گے، اس دوران سیاح ریسرچ پروگرام کا بھی حصہ بن سکیں گے جبکہ وائی فائی کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔

    https://youtu.be/4AsRGV2wXnc

    یاد رہے اس سے قبل روسی کمپنی ’’ روسکوسموس‘‘ نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ 2022 تک بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر فائیوسٹار ہوٹل تعمیر کرے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خلا میں بیڈ منٹن میچ

    خلا میں بیڈ منٹن میچ

    خلا میں تحقیقی مقاصد کے لیے وقت گزارنے والے خلا باز وقتاً فوقتاً اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔

    کبھی وہ خلا میں دانت برش کر کے دکھاتے ہیں، کبھی وہ فلم دیکھتے ہیں، حال ہی میں ان کی جانب سے بھیجی گئی ایک ویڈیو میں خلا باز بیڈ منٹن کا میچ کھیلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

    عالمی خلائی اسٹیشن پر رہائش پذیر ان خلا بازوں نے زمین کی کشش ثقل کے بغیر خلا میں پہلا بیڈ منٹن میچ کھیل کر نیا ریکارڈ قائم کردیا۔

    کشش ثقل نہ ہونے کے باعث گو کہ یہ مختلف طریقے سے کھیل رہے ہیں تاہم یہ میچ خلابازوں اور زمین پر دیکھنے والوں کے ایک دلچسپ تفریح ثابت ہوا۔

    آئیں آپ بھی اس میچ سے لطف اٹھائیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔