Tag: خلا

  • خلا بازوں کو زمین واپسی پر چشمے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟

    خلا بازوں کو زمین واپسی پر چشمے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟

    زمین کے مخصوص حالات سے باہر نکل کر خلا میں جانا کوئی آسان بات نہیں۔ خلا میں کشش ثقل کی عدم موجودگی کے باعث حالات و واقعات زمین سے مختلف ہوتے ہیں۔

    یہ کشش ثقل زمین پر ہمیں اور تمام اشیا کو سیدھا زمین پر کھڑا رکھتی ہے۔ جب کوئی شے یا کوئی شخص خلا میں جاتا ہے تو وہ کھڑا نہیں رہ پاتا اور خلا میں تیرنے لگتا ہے۔

    کشش ثقل کی یہ عدم موجودگی خلا میں جانے والوں کی جسمانی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

    خلا میں کچھ عرصہ وقت گزارنے کے بعد زمین پر واپس آنے والے خلابازوں کا جب معائنہ کیا گیا تو دیکھا گیا کہ ان کی نظر خاصی کمزور ہوگئی تھی۔

    زمین پر واپسی کے بعد خلا بازوں کو عموماً ڈرائیونگ اور مطالعے کے لیے چشمے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق خلا باز اس کے علاوہ بھی کئی جسمانی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کا دل سکڑ جاتا ہے جبکہ ریڑھ کی ہڈی میں کھنچاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔


    کمزوری نظر کی وجہ

    ابتدا میں خیال کیا جاتا تھا کہ نظر کی یہ کمزوری سر پر دباؤ پڑنے کی وجہ سے ہوجاتی ہے تاہم بعد ازاں یہ نظریہ غلط ثابت ہوا۔

    دراصل یہ کمزوری جسم میں موجود سیربرو اسپائنل فلڈ (سی ایس ایف) نامی مائع کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ مائع ہمارے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں موجود ہوتا ہے اور نمکیات کی جسم میں گردش اور مضر صحت اجزا کا اخراج یقینی بناتا ہے۔

    تاہم اگر طویل عرصے تک زمین کے مدار سے باہر رہا جائے تو یہ مائع آنکھوں کے گرد جمع ہوجاتا ہے۔ اس کے باعث آنکھوں کے اعصاب سوج جاتے ہیں۔

    آنکھوں کے گرد اس مائع کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی، خلا باز کو دیکھنے میں اتنی ہی زیادہ تکلیف محسوس ہوگی۔

    بالآخر جب خلا باز زمین پر واپس آتے ہیں تو ان کی آنکھیں معمول کے مطابق نہیں رہ پاتیں اور خلا بازوں کو چشمے کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: خلا میں دانت کیسے برش کیے جاتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: خلا میں جانے والوں کی غاروں میں تربیت


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سنہ 2018 میں آسمانوں پر کیا ہوگا؟

    سنہ 2018 میں آسمانوں پر کیا ہوگا؟

    ہر برس کی طرح سنہ 2018 بھی اپنے جلو میں کچھ نئے، انوکھے اور یادگار واقعات لیے وارد ہونے والا ہے۔ ان میں بہت سے ایسے نادر فلکیاتی واقعات بھی شامل ہیں جو کئی بر سوں بلکہ بعض اوقات عشروں بعد دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کا سیرِ حاصل جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔


    سپر مون / بلو مون: یکم اور 31 جنوری

    نئے سال کا آغاز سال کے پہلے سپر مون سے ہوگا۔ سپر مون اس وقت دکھائی دیتا ہے جب چاند اپنے بیضوی مدار میں گردش کرتے ہوئے زمین کے قریب ترین مقام ’پیریگی‘ پر آجاتا ہے جس کے باعث وہ معمول سے زیادہ بڑا اور روشن دکھائی دیتا ہے۔

    یکم جنوری کو نظر آنے والا سپر مون 3 دسمبر 2017 کے چاند سے بہت مشابہہ ہوگا۔ یہ معمول کے سائز سے 14 فیصد بڑا اور 30 فیصد زیادہ روشن ہوگا۔ اس چاند کو فلکیاتی اصطلاح میں ‘ وولف مون’ بھی کہا جاتا ہے۔

    اسی ماہ دوسرا مکمل چاند 31 جنوری کی رات دیکھا جائے گا جو ’بلو مون‘ کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ایک فلکیاتی چار ماہی میں رونما ہونے والا تیسرا مکمل چاند ہوتا ہے اور نسبتاً زیادہ روشن بھی۔


    مکمل چاند گرہن: 31 جنوری اور 27 جولائی

    مکمل چاند گرہن اس وقت رونما ہوتا ہے جب دورانِ گردش زمین، چاند اور سورج کے درمیان حائل ہو جاتی ہے جس کے باعث چاند خونی یا سرخی مائل دکھائی دیتا ہے۔

    زمین کا جو گہرا سایہ چاند پر پڑتا ہے وہ فلکیات کی اصطلاح میں ’امبرا‘ کہلاتا ہے۔ 31 جنوری کو رونما ہونے والا چاند گرہن شمالی مغربی امریکہ، مشرقی ایشیا،آسٹریلیا اور بحر الکاہل کے متعدد ممالک میں دکھائی دے گا جبکہ 27 جولائی کا گرہن یورپ، افریقہ، مغربی و وسطی ایشیا، بحر ہند اور مغربی آسٹریلیا سمیت دنیا بھر میں دیکھا جائے گا۔


    بلیک مون: فروری

    اس برس جنوری اور مارچ میں 2، 2 مکمل چاند یا بلو مون رونما ہونے باعث درمیان کے مہینے فروری میں ایک دفعہ بھی مکمل چاند نظر نہیں آسکے گا۔ یہ امر ’بلیک مون‘ کہلاتا ہے جو ہر 20 برس کے بعد رونما ہوتا ہے۔

    اگرچہ بلیک مون کوئی باقاعدہ فلکیاتی اصطلاح نہیں ہے مگرحالیہ چند برسوں میں سوشل میڈیا اور آسٹرولوجرز کی جانب سے اس کے کثرت استعمال کے باعث یہ زبان زد عام ہو گیا ہے۔

    بلیک مون اب دوبارہ 2038 میں رونما ہوگا۔


    جزوی سورج گرہن: 15 فروری، 13 جولائی اور 11 اگست

    سنہ 2018 کا پہلا جزوی سورج گرہن 15 فروری کو رونما ہوگا جو چلی، ارجنٹینا اور انٹارکٹیکا میں دیکھا جاسکے گا۔ 13 جولائی کا سورج گرہن آسٹریلیا اور انٹارکٹیکا میں جبکہ 11 اگست کو ایک دفعہ پھر چاند، زمین اور سورج کے درمیان کچھ وقت کے لیے حائل ہوگا جس کا مشاہدہ شمال مشرقی کینیڈا، گرین لینڈ، شمال شمالی یورپ، روس کے متعدد شمالی علاقوں اور شمال مشرقی ایشیا میں کیا جاسکے گا۔

    یہ سال کا سب سے بڑا سورج گرہن ہوگا جس کا دنیا بھر میں مشاہدہ کیا جائے گا۔


    میٹی یور شاورز یا شہابِ ثاقب کی برسات

    ہر برس کی طرح سال 2018 میں بھی آسمانی پتھروں کی بارش یا میٹی یور شاورز جاری رہیں گی۔ یہ کثرت سے دکھائی دینے والا عمل دراصل اس وقت رونما ہوتا ہے جب کوئی دم دار ستارہ تیزی سے زمین کے قریب سے گزرتا ہے تب اس کی دم سے خارج ہونے والے چھوٹے چھوٹے چٹانی پتھر یا کنکریاں برسات کی صورت میں گرتی ہوئی واضح دکھائی دیتی ہیں جنہیں ان کے متعلقہ کانسٹی لیشن یا برج کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔

    ان میں لیونائڈ، جیمینائڈ ، ٹورئڈ اور پرسیڈ شاورز قابلِ ذکر ہیں۔ سنہ 2018 میں 12 اور 13 اگست کی رات پر سیڈ میٹی یور شاور دکھائی دے گا جس میں پتھروں کی گرنے کی رفتار ساٹھ میٹی یور فی گھنٹہ ہوگی، جبکہ 13 اور 14 دسمبر کی رات سال کا زبردست شاور دیکھا جاسکے گا جس کی رفتار ایک سو بیس میٹی یور فی گھنٹہ ہوگی۔


    بلیک ہول کے ایونٹ ہوریزون کا مشاہدہ

    کسی بلیک ہول کا وہ مقام جہاں اس کا ثقلی دباؤ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ روشنی جو کائنات کی تیز ترین شے سمجھی جاتی ہے وہ بھی اس مقام سے خارج نہیں ہو پاتی، ایونٹ ہوریزون کہلاتا ہے۔

    اپریل 2018 فلکیات اور خلا کی تسخیر میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے ایک بڑی خبر لارہا ہے جب خصوصی طور پر ڈیزائن کردہ ملٹی ٹیلی سکوپ کے ذریعے ہماری ملکی وے گلیکسی کے مرکز میں واقع بلیک ہول ’سیجی ٹیریس اے‘ کی تصاویر لی جائیں گی۔

    اس اسپیشل ٹیلی سکوپ کو ایونٹ ہوریزون ٹیلی سکوپ کا نام دیا گیا ہے۔ تقریباً 5 روز تک مسلسل مشاہدے کے بعد جو تصویر حاصل ہوگی وہ یقیناً بہت سی کائناتی گتھیوں کو سلجھانے کے علاوہ کچھ نئی دریافتوں کا بھی سبب بنے گی۔


    چاند کا سفر

    اگرچہ 1972 کے بعد سے چاند کی جانب کوئی نئی پیش قدمی نہیں کی گئی مگر سنہ 2018 اس حوالے سے خبروں کا مرکز رہے گا۔ چین اور انڈیا اپنے اپنے روبوٹک سپیس پروب چاند پر بھیجنے کے لیے پوری طرح مستعد ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے برس کے وسط تک یہ مشنز روانہ کیے جا چکے ہوں گے۔

    اس کے ساتھ ہی گوگل بھی اپنا روبوٹک پروب اسی برس بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے مگر عین ممکن ہے کہ اس میں کچھ تاخیر ہو جائے۔ جبکہ گذشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ناسا کی جانب سے بھی چاند پر دوبارہ مشن بھیجنے کے اعلانات سننے کو ملے ہیں۔ لہٰذا چاند کے شیدائیوں اور اپولو الیون کی لینڈنگ کو جھوٹا قرار دینے والوں کے لیے 2018 بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

    اسی برس سپیس ایکس کی جانب سے بھیجی جانے والی خلائی گاڑی زمین کے قریب ترین سیارچے پر اترے گی جس کی واپسی 2023 تک متوقع ہے۔ یقیناً اس مشن سے بھی زحل کے کیسینی مشن کی طرح گراں قدر معلومات حاصل ہوں گی۔


    عطارد کی جانب سفر

    ناسا اور یورپین سپیس ایجنسی کا خلا اور نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں پر کمندیں ڈالنے کا سفر کافی عرصے سے جاری ہے مگر حالیہ برسوں میں اس حوالے سے بڑی خبریں سامنے آئی ہیں اور خلا کے شیدائیوں کو نوید ہو کہ 2018 میں یورپین سپیس ایجنسی اور جاپان کی سپیس ایجنسی اپنا مشترکہ مشن عطارد کی جانب بھیجنے کا اعلان کرچکی ہیں۔

    واضح رہے کہ عطارد سورج کے سب سے نزدیک واقع سیارہ ہے۔ اس مشن کے لیے بھیجی جانے والی سپیس پروب 2025 تک عطارد پر لینڈ کر سکے گی مگر جیسے جیسے یہ عطارد کے قریب پہنچے گی، سورج سے فاصلہ کم ہونے باعث سائنسدانوں کو اس سے موصول ہونے والے سگنلز سے نہایت اہم معلومات حاصل ہوں گی۔

    اس مشن کو ’بی بی کولمبو‘ کا نام دیا گیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ٹرمپ کے حکم پر ناسا کا چاند مشن پروگرام بحال

    ٹرمپ کے حکم پر ناسا کا چاند مشن پروگرام بحال

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ناسا کے چاند پر امریکی خلا بازوں کو بھیجنے کے پروگرام کی بحالی کے حکم نامے پر دستخط کردیے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے ناسا کے چاند پر امریکی خلا بازوں کو بھیجنے کے پروگرام کی بحالی کے حکم نامے پر دستخط کردیے۔ ناسا کا چاند مشن سنہ 2011 میں معطل کردیا گیا تھا۔

    پروگرام کی بحالی کے حکم نامے پر دستخط کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکا کے نئے چاند مشن سے مریخ مشن کی بنیاد پڑے گی۔ امریکی خلا بازوں کا دوبارہ چاند پر پہنچنا اہم قدم ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نہ صرف چاند پر اپنا پرچم لہرائیں گے اور نقش چھوڑیں گے بلکہ مستقبل میں مریخ کو بھی تسخیر کرنے کی کوشش کریں گے۔

    اس موقع پر صدر ٹرمپ نے ایک کھلونا خلا باز کے ساتھ تصویر بھی کھنچوائی۔

    یاد رہے کہ ناسا کا اپولو پروگرام نامی چاند مشن 1969 سے 1972 تک فعال رہا تھا۔ اسی پروگرام کے تحت امریکا نے پہلی بار چاند کو تسخیر کیا تھا اور خلا باز نیل آرم اسٹرونگ نے چاند پر قدم رکھ کر چاند پر جانے والے پہلے انسان ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خلا کی چند خوبصورت اور حیران کن تصاویر

    خلا کی چند خوبصورت اور حیران کن تصاویر

    خالق کائنات نے صرف ہماری زمین کو ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کو اس طرح تشکیل دیا ہے کہ اس پر جتنا غور کیا جائے اتنا ہی ہم پر حیرت و فکر کے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔

    زمین کے نظارے تو خوبصورت ہیں ہی سہی، لیکن زمین کی حدود سے باہر خلا میں بھی ایسے ایسے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں۔

    آج ہم آپ کو ایسی ہی خلا کی کچھ تصاویر دکھانے جارہے ہیں جنہیں دیکھ کر شاید آپ خلا میں منتقل ہونے کا ارادہ کرلیں۔


    سیارہ مشتری پر سورج گرہن کا منظر


    مختلف رنگوں کی کہکشائیں


    سورج کی بیرونی تہہ میں ہونے والا قدرتی دھماکہ


    امریکا کی وسطی و جنوبی ریاستوں میں تباہی مچانے والا طوفان ماریا خلا سے کچھ یوں دکھائی دیتا ہے


    خلا میں مصروف عمل چند خلا باز


    ستاروں کے درمیان کہکشاں


    خلائی جہاز کیسینی کی تباہی سے پہلے سیارہ زحل کی آخری مکمل تصویر


    خلا سے زمین کی روشنیاں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خلا میں جانے والے چوہوں پر کیا بیتی؟

    خلا میں جانے والے چوہوں پر کیا بیتی؟

    کیا آپ جانتے ہیں خلا میں اب تک صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی جا چکے ہیں؟ آج سے 60 سال قبل روسی خلائی اسٹیشن لائیکا نامی ایک کتے کو خلا میں بھیج چکا ہے جسے خلا میں جانے والے پہلے جانور ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

    تاہم اب خلا میں جانوروں پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے مزید جانوروں کو خلا میں بھیجا جارہا ہے اور اس ضمن میں خاص طور پر چھوٹے جانوروں کا انتخاب کیا جارہا ہے۔

    عالمی خلائی اسٹیشن پروگرام کے سربراہ جولی رابنسن اس بارے میں ان حالات سے آگاہ کرتے ہیں جو جانوروں کو خلا میں بھیجے جانے کے بعد ان پر بیتے۔

    ابتدا میں جب خلا میں جانوروں کو بھیجنے کا آغاز کیا گیا تو پہلے ممالیہ جانوروں جیسے کتا، بلی اور بندروں وغیرہ کو بھیجا گیا۔ تاہم وہاں پہنچ کر ان کی حالت خراب ہوگئی۔ یہ جانور کشش ثقل کے بغیر خلا میں زیادہ نہیں جی سکے اور بہت جلد ہلاک ہوگئے۔

    مزید پڑھیں: خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    چنانچہ اب ان کے بعد غیر ممالیہ اور چھوٹے جانوروں کو خلا میں بھیجا گیا تاکہ تحقیقاتی عمل مکمل کیا جاسکے۔ ان جانوروں میں چوہے اور مچھلیاں سرفہرست تھیں۔

    چوہے کے خلا میں پہنچنے کے بعد چوہے اور وہاں موجود خود خلا باز بھی تناؤ کا شکارہوگئے۔ ابتدا میں چوہے پریشان رہے کہ بنا کشش ثقل یہاں کیسے زندگی گزاری جائے، تاہم بہت جلد انہوں نے اس ماحول سے مطابقت کرلی اور وہ عام انداز میں خلا میں تیرنے، کھانے پینے اور سونے لگے۔

    خلا بازوں نے جب چوہوں کو پرسکون دیکھا تو انہوں نے بھی اطمینان کی سانس لی۔

    ان کے برعکس مچھلیوں نے بہت جلد خلا کے ماحول سے مطابقت کرلی۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ خلا میں جانے کے بعد چوہوں میں کم و بیش وہی طبی و جسمانی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں جو انسانوں میں نظر آتی ہیں۔ زمین پر واپس آنے کے بعد بھی وہ انہی مسائل کا شکار ہوگئے جن سے انسان ہوتے ہیں جیسے ہڈیوں اور جوڑوں یا پٹھوں میں کمزوری اور وزن گھٹ جانا وغیرہ۔

    جولی رابنسن کا کہنا ہے کہ اس تحقیقاتی مطالعے کو وسیع کرنے کے لیے بہت جلد مزید جانور بھی خلا میں بھیجے جائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ناسا کا اعلیٰ ترین اعزاز بنگلہ دیشی انجینئر کے نام

    ناسا کا اعلیٰ ترین اعزاز بنگلہ دیشی انجینئر کے نام

    واشنگٹن: عالمی خلائی ادارے ناسا کے سالانہ اعلیٰ ترین اعزاز کا حقدار اس بار ایک بنگلہ دیشی نژاد طالبہ کو قرار دیا گیا ہے جنہوں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں بہترین ایجاد کی۔

    امریکی پروفیسر رابرٹ ایچ گوڈرڈ کے نام پر قائم ناسا کے پروگرام گوڈرڈ اسپیس فلائٹ سینٹرز انٹرنل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (آئی آر اے ڈی) میں بنگلہ دیشی نژاد انجینئر محمودہ سلطانہ کو سال کے بہترین تخلیق کار کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔

    سلطانہ نے خلا میں مزید بہتر طریقے سے کام کرنے والے نینو مٹیریلز اور ڈیٹیکرز بنانے کا تجربہ کیا تھا جو کامیاب رہا اور سلطانہ کو اس اعلیٰ اعزاز کا حقدار بھی قرار دیا گیا۔

    مزید پڑھیں: تھرکول منصوبے میں مصروف عمل تھر کی پہلی خاتون انجینئر

    ایوارڈ کا اعلان کرتے ہوئے گوڈرڈ کے چیف ٹیکنالوجسٹ نے سلطانہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا وہ ایک بہترین تکنیکی و تخلیقی ذہن کی مالک اور متاثر کن صلاحیتوں کی حامل ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ اس کم عمر طالبہ کی کامیابی سے نہایت خوش ہیں اور انہیں یقین ہے کہ سلطانہ مستقبل میں مزید کارنامے سر انجام دے گی۔

    سلطانہ اپنے بارے میں بتاتی ہیں، ’جب ہم اس ادارے میں نئے نئے آئے تھے تو سب کے پاس نہایت اچھوتے آئیڈیاز تھے جو باہر کی دنیا کے افراد کے لیے نہایت انوکھے اور ناقابل عمل تھے۔ لیکن سب نے اپنے تخیلات و تصورات پر کام کیا اور سب ہی اس میں کامیاب ہوئے‘۔

    محمودہ سلطانہ اس وقت دنیا کے بہترین تحقیقی اداروں میں سے ایک میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ساتھ بھی طبیعات کے ایک پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    سلطانہ نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں بنگلہ دیش سے ہجرت کرلی تھی جس کے بعد انہوں نے اپنی تعلیم کیلی فورنیا میں مکمل کی۔ بعد ازاں انہوں نے ایم آئی ٹی سے ہی کیمیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی بھی کی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آج رات آسمان سے شہاب ثاقب کی برسات ہوگی

    آج رات آسمان سے شہاب ثاقب کی برسات ہوگی

    اس ہفتے آپ ممکنہ طور پر نہایت ہی خوبصورت فلکیاتی مظہر دیکھ سکیں گے۔

    دراصل آج رات آسمان پر شہاب ثاقب کی روشنیوں کی بھرمار ہوگی جن میں سے کچھ شہاب ثاقب زمین پر بھی آ گریں گے، لیکن ڈرنے کی بات نہیں، یہ زمین کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے بلکہ یہ ایک نہایت ہی خوبصورت اور دلفریب نظارہ ہوگا۔

    یہ فلکیاتی مظہر دراصل ہیلے نامی دمدار ستارے کے ملبے کا زمین کی حدود میں داخل ہونے کے بعد رونما ہوگا، تاہم یہ زمین کے باسیوں کے لیے 74 سے 79 برس بعد قابل مشاہدہ ہوتا ہے، اور آج کی رات وہی رات ہے جب زمین والے اس نظارے کو دیکھ سکیں گے۔

    دمدار ستارے ہیلے کے ٹوٹے ہوئے ذرات جب زمین کے مدار میں داخل ہوتے ہیں تو یہ جل اٹھتے ہیں اور آسمان پر روشنی کا نہایت دلفریب نظارہ تخلیق کریتے ہیں۔

    یہ عمل ہر سال پیش آتا ہے جس کے باعث آسمان کم از کم 30 کے قریب شہاب ثاقبین کی روشنیوں سے جگمگا اٹھتا ہے۔

    سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ پوری دنیا میں ہر جگہ دکھائی دے گا، بس آپ کے مطلوبہ مقام کی فضا آلودگی اور مصنوعی روشنی سے پاک ہو اور آسمان دھندلا نہ دکھائی دیتا ہو۔

    شہروں کی بڑی بڑی عمارتوں کی جگمگاتی روشنیوں میں تو یہ ہرگز نظر نہیں آئیں گی، لہٰذا بہتر ہے کہ یہ نظارہ دیکھنے کے لیے آپ شہر سے دور کسی ویران جگہ کا رخ کریں جہاں مصنوعی روشنیاں آنکھوں کو چندھیاتی نہ ہوں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چاند گاؤں: مریخ کی طرف سفر کا پہلا پڑاؤ

    چاند گاؤں: مریخ کی طرف سفر کا پہلا پڑاؤ

    زمین کے پڑوسی سیارے مریخ جسے سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے، پر انسانی آبادیاں اور مزید دریافتیں کرنے کے مشن پر کام جاری ہے، اور اس سلسلے میں مریخ تک پہنچنے کے لیے چاند پر عارضی پڑاؤ قائم کیا جاسکتا ہے۔

    جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے کی سالانہ کانفرنس میں کہا گیا کہ مریخ تک پہنچنے کے لیے چاند بہترین پڑاؤ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کانفرنس میں 4 ہزار کے قریب ماہرین فلکیات نے شرکت کی۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب وقت ہے کہ ہم زمین کے مدار سے باہر بھی کاروباری سرگرمیاں شروع کریں اور نئی جہتوں کو دریافت کریں۔

    مزید پڑھیں: خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    ایک خلائی ماہر پائرو میسینا کا کہنا تھا کہ ہم گزشتہ 17 سال سے زمین کے محور سے بالکل باہر رہ رہے ہیں۔

    یہاں ان کی مراد بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے ہے جو زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔

    سنہ 1998 میں لانچ کیا جانے والا بین الاقوامی خلائی اسٹیشن یا انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن 27 ہزار 6 سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے مدار میں چکر لگا رہا ہے۔ یہ خلائی اسٹیشن ہر 92 منٹ میں زمین کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کر لیتا ہے۔

    خلائی اسٹیشن پر متعدد خلا باز بھی موجود ہیں جو اسٹیشن پر مختلف خلائی آپریشنز سرانجام دے رہے ہیں۔

    اب یہ اسٹیشن مریخ کی طرف بڑھنے جارہا ہے اور یہ مریخ کی طرف جانے والا پہلا انسانی مشن ہوگا۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر زندگی کے واضح ثبوت مل گئے

    خلائی ماہرین کے مطابق اس سفر کے دوران چاند پر رک کر ایک مستقل پڑاؤ ڈالنا بہترین طریقہ ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت بنایا جانے والا سب سے تیز رفتار خلائی جہاز زمین سے مریخ تک کا سفر 39 دن میں طے کر سکتا ہے۔

    مریخ پر پہنچ کر انسانی آبادی بسانے کا ابتدائی مرحلہ رواں برس عالمی خلائی اداروں کا مشن ہے۔

    یورپین خلائی ایجنسی سنہ 2024 تک عالمی خلائی اسٹیشن کو ختم کرکے چاند پر مستقل کالونی بنانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے تاکہ خلاؤں کی مزید تسخیر اب چاند پر رہتے ہوئے کی جاسکے۔

    دوسری جانب امریکی خلائی ادارہ ناسا بھی چاند پر ایک خلائی اسٹیشن بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

    چاند پر ایک مستقل باقاعدہ رہائشی پڑاؤ بنانے کا کام جاری ہے اور اس سلسلے میں یورپی خلائی ایجنسی نے روس کی خلائی ایجنسی روسکوسموس سے معاہدہ بھی طے کرلیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جب چاند نے 3 سیاروں کا راستہ روک دیا

    جب چاند نے 3 سیاروں کا راستہ روک دیا

    رواں ماہ کے چاند نے اپنی گردش کے دوران ایسا تاریخی سفر کیا جو ماہرین کے مطابق بے حد کم دیکھنے میں آتا ہے۔

    اپنے مقررہ راستے پر سفر کرتا ہوا چاند اس بار 3 سیاروں اور ایک ستارے کے درمیان آگیا جس نے ماہرین فلکیات کے لیے ایک دلچسپ نظارہ پیدا کردیا۔

    اس سفر میں زمین کا پڑوسی سیارہ زہرہ، مریخ، سورج سے سب سے قریب سیارہ عطارد اور آسمان پر اس وقت موجود سب سے روشن ستارہ ریگیولس اور چاند ایک ہی قطار میں آگئے۔

    ماہرین کے مطابق یہ نظارہ آسمان پر خالی آنکھ سے بغیر کسی خلائی اسکوپ سے دیکھنا ممکن تھا تاہم یہ صرف کچھ ہی ممالک میں نظر آیا جیسے وسطی اور جنوبی امریکا، میکسیکو اور بحر الکاہل کے کنارے واقع کچھ ممالک میں دیکھا جاسکا۔

    ماہرین فلکیات کے مطابق یہ منظر اس سے قبل سنہ 2008 میں دیکھا گیا تھا، جبکہ اب اس نوعیت کا مشاہدہ جولائی سنہ 2036 میں ہوگا۔

    مزید پڑھیں: مختلف مہینوں کے مختلف چاند


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مصر کے 30 اہراموں جتنا بڑا سیارچہ زمین کے قریب سے گزرنے کو تیار

    مصر کے 30 اہراموں جتنا بڑا سیارچہ زمین کے قریب سے گزرنے کو تیار

    میامی: اس صدی میں جسامت کے لحاظ سے سب سے بڑا سیارچہ کل یکم ستمبر کو زمین سے ایک محفوظ فاصلے پر گزرے گا۔

    عالمی خلائی ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ گو کہ اس سیارچے کا فاصلہ زمین سے اس قدر ہوگا کہ یہ زمین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، تاہم یہ فاصلہ گزشتہ سیارچوں کے مقابلے میں بے حد کم ہوگا اور یہ زمین سے صرف 70 لاکھ کلو میٹر کے فاصلے سے گزرے گا۔

    یہ سیارچہ سنہ 1981 میں دوربین کی زد میں آیا تھا اور اس وقت کی جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ اینگل کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس سیارچے کا نام فلورنس رکھا گیا تھا۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ زمین سے اس قدر کم فاصلے پر گزرنے والے یہ سیارچہ اپنی جسامت کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے۔ ان کے مطابق اس سیارچے کا حجم لگ بھگ اتنا ہے جتنا مصر کے 30 اہراموں کو یکجا کردیا جائے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل زمین کے قریب سے گزرنے والے تمام سیارچے مختصر جسامت کے تھے۔

    مزید پڑھیں: جبل الطارق سے بڑا سیارچہ زمین کے قریب

    ناسا کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی کئی سیارچے زمین کی طرف آئے ہیں تاہم وہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتے ہیں۔ ان کے مطابق لاکھوں کروڑوں سال میں ایک ہی واقعہ ایسا رونما ہوتا ہے جب کوئی سیارچہ زمین سے آ ٹکرائے اور زمین پر تباہی مچادے۔

    سائنس دانوں کو یقین ہے کہ فلورنس سیارچہ ہرگز ان سیارچوں میں سے نہیں جو زمین کے لیے کسی نقصان کا سبب بن سکے۔

    ان کا کہنا ہے کہ زمین کے قریب سے گزرتے ہوئے وہ اس سیارچے کی تصاویر اور معلومات حاصل کریں گے تاکہ وہ مستقبل کی خلائی ریسرچز میں معاون ثابت ہو سکے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔