Tag: خلا

  • پاکستان خلا سے کیسا نظرآتا ہے، ناسا نے تصاویر جاری کردیں

    پاکستان خلا سے کیسا نظرآتا ہے، ناسا نے تصاویر جاری کردیں

    کراچی: خلا سے پاکستان کس طرح نظر آتا ہے ناسا نے ملک کے مختلف حصوں کی تصاویر جاری کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق ناسا کی جانب سے دنیا کے مختلف حصوں کی تصاویر جاری کی گئیں جو آپ نے دیکھیں ہوں گی تاہم اس بار  انتظامیہ نے خلا سے بنائی جانے والی پاکستان کے مختلف حصوں کی تصاویر جاری کی ہیں۔

    پاک بھارت سرحد

    ناسا کی جانب سے پہلی تصویر پاک بھارت سرحد کی جاری کی گئی ہے جس میں اورنج لائن سرحد کی نشاندہی کررہی ہے۔

    شہر کراچی کی تصویر

    دوسری تصویر شہر کراچی کی جاری کی گئی ہے جس دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کراچی واقعی روشنیوں کا شہر ہے کیونکہ خلاء سے لی جانے والی شہر قائد کی تصویر میں روشنی واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔

    مڈل ایسٹ کے نقشے پر پاکستان کیسے نظر آتا ہے

    ناسا کی تیسری تصویر مڈل ایسٹ کے وسط کی جاری کی گئی ہے جس میں بائیں ہاتھ کی جانب پاکستان ہے اور اس میں کراچی واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے جبکہ پاک بھارت بارڈر بھی نظر آرہی ہے۔

    خلا سے نظر آنے والے پاکستان کے مختلف شہر

    چوتھی تصویر میں پاکستان کے کے مختلف شہروں کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

    شمالی علاقوں کا خلا سے نظارہ

    ناسا نے پانچویں تصویرشمالی علاقوں کی جاری کی ہے جس میں پہاڑی علاقے برفباری سے مکمل ڈھکے ہوئے ہیں۔

    پڑھیں: پاکستانی نژاد خاتون ناسا میں‌راکٹ انجینئر بن گئیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قطبی روشنیوں کا خلا سے خوبصورت نظارہ

    قطبی روشنیوں کا خلا سے خوبصورت نظارہ

    آپ نے قطب شمالی اور قطب جنوبی پر پھوٹنے والی خوبصورت اور رنگین روشنیوں کے بارے میں ضرور سنا ہوگا۔ یہ روشنیاں سورج کی روشنی کے ذرات کے زمین کی فضا سے مخصوص ٹکراؤ کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔

    چند مخصوص ایام میں رات کے وقت پھوٹنے والی یہ روشنیاں صرف قطب شمالی اور قطب جنوبی کے علاقے میں ہی پیدا ہوتی ہیں۔

    ناسا کے ایک خلا باز نے زمین سے 250 میل کے فاصلے سے ان روشنیوں کی نہایت خوبصورت ویڈیو جاری کی ہے۔

    عالمی خلائی اسٹیشن پر موجود خلا باز جیک فشر نے اس وقت اس ویڈیو کو ریکارڈ کیا جب وہ ان کے اوپر سے 17 ہزار 5 سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گزر رہا تھا۔

    رواں برس اپریل سے عالمی خلائی اسٹیشن پر موجود فشر اکثر و بیشتر خلا سے زمین کی نہایت خوبصورت تصاویر جاری کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’یہ زمین مجھے اپنی خوبصورتی سے روز بے حد حیران کردیتی ہے‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خلا سے موصول پراسرار سگنلز کا معمہ حل

    خلا سے موصول پراسرار سگنلز کا معمہ حل

    میامی: خلا بازوں نے بالآخر ان نامانوس سگنلز کا کھوج لگا لیا ہے جو کسی قریبی ستارے سے موصول ہو رہے تھے اور انہیں خلائی مخلوق کی جانب سے بھیجے ہوئے سگنلز سمجھا جارہا تھا۔

    یہ سگنل دراصل ایک سیٹلائٹ کی جانب سے مداخلت کے باعث پیدا ہورہے تھے۔

    ماہرین کے مطابق یہ سنگلز اس ستارے سے موصول ہو رہے تھے جو زندگی کا امکان رکھنے والے سیاروں کی فہرست میں سب سے نیچے ہے۔

    مزید پڑھیں: خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    روز 128 نامی یہ بونا ستارہ ستاروں کے جھرمٹ میں گھرا ہوا ہے اور زمین سے 11 نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے۔

    کیلیفورنیا میں سیٹی برکلے ریسرچ سینٹر کے ایک پروفیسر کے مطابق ان سگنلز کو ابتدا میں خلائی مخلوق کی جانب سے بھیجے گئے سگنلز سمجھے گئے۔ ’تاہم تحقیق کے بعد اب ہمیں 100 فیصد یقین ہوگیا ہے کہ یہ سگنلز ایک سیٹلائٹ سے نشر ہو رہے ہیں‘۔

    ان کے مطابق یہ سگنلز صرف روز 128 کے ارد گرد سے پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ اس ستارے کے آس پاس بے شمار سیٹلائٹس موجود ہیں۔

    کائنات کے بارے میں مزید حقائق جانیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نظام شمسی سے خارج شدہ سیارہ پلوٹو کے خوبصورت پہاڑ اور میدان

    نظام شمسی سے خارج شدہ سیارہ پلوٹو کے خوبصورت پہاڑ اور میدان

    عالمی خلائی ادارے ناسا نے نظام شمسی سے خارج شدہ نویں سیارے پلوٹو کی نئی تصاویر اور ویڈیوز جاری کی ہیں جن میں سیارے کے خوبصورت پہاڑ اور برفیلے میدان دکھائی دے رہے ہیں۔

    اب سے 11 سال قبل بونے سیارے پلوٹو کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ناسا کی جانب سے نیو ہورائزنز (نئے افق) نامی خلائی جہاز کو روانہ کیا گیا۔

    اسی سال پلوٹو سیارے کو اس کی مختصر جسامت کی وجہ سے بونا سیارہ قرار دیا گیا اور اسے باقاعدہ نظام شمسی سے خارج کردیا گیا جس کے بعد اب ہمارے نظام شمسی میں 8 سیارے موجود ہیں۔

    نیو ہورائزنز کو زمین سے پلوٹو تک پہنچنے میں 9 سال کا طویل عرصہ لگا۔ یاد رہے کہ پلوٹو اور ہماری زمین کے درمیان 4 ارب کلومیٹر سے بھی زائد فاصلہ ہے۔

    جولائی سنہ 2015 میں یہ خلائی جہاز پلوٹو پر پہنچ کر رکا نہیں بلکہ اس کے اوپر سے گزرتا ہوا مزید آگے چلا گیا۔ اس دوران اس نے پلوٹو کی واضح ترین تصاویر کھینچیں جو اس سے قبل کسی صورت نہ لی جاسکی تھیں۔

    نیو ہورائزنز کی جانب سے بھیجے گئے ڈیٹا کو ناسا نے اب مزید نئی تکنیکوں کے ساتھ جاری کیا ہے۔

    ناسا نے خلائی جہاز کے اس سفر کی باقاعدہ ویڈیو جاری کی ہے جس میں نیو ہورائزنز پلوٹو کے اوپر سے گزرتا دکھائی دے رہا ہے۔

    اس مختصر سفر میں پلوٹو کے برفانی میدان جنہیں اسپٹنک پلینیشیا کہا جاتا ہے، اور کھائی زدہ پہاڑ نمایاں طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔

    ناسا نے نیو ہورائزنز سے موصول شدہ پلوٹو کے 5 چاندوں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں جن میں سب سے بڑے چاند کا نام چیرون ہے۔ خلائی جہاز نے چیرون چاند کے اوپر سے بھی اڑان بھری۔

    خلائی ادارے کے مطابق یہ پلوٹو سیارے کی واضح ترین تصاویر اور ویڈیوز ہیں جنہیں اس سے قبل حاصل کرنا ناممکن تھا۔

    خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق جانیں

    کائنات کے بارے میں مزید حقائق جانیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سیارہ مشتری کے ہنگامہ خیز طوفان کی نئی تصاویر جاری

    سیارہ مشتری کے ہنگامہ خیز طوفان کی نئی تصاویر جاری

    عالمی خلائی ادارے ناسا نے نظام شمسی کے پانچویں اور سب سے بڑے سیارے مشتری کے عظیم اور ہنگامہ خیز طوفان کی نئی تصاویر جاری کردی ہیں جو قدرے قریب سے کھینچی گئی ہیں۔

    یہ تصاویر مشتری کے گرد محو سفر خلائی گاڑی جونو نے کھینچی ہیں جو انسانی تاریخ میں پہلی بار اس طوفان کے اس قدر نزدیک سے گزری۔

    خلائی گاڑی جونو اس طوفان سے 9 ہزار کلومیٹر بلندی سے گزری اور اس دوران اس نے طوفان کی تصاویر و معلومات اکٹھی کیں۔

    ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سائنسدان اسکاٹ بولٹن کا کہنا ہے کہ کئی سو سالوں سے اس طوفان کا مشاہدہ کیا جارہا تھا اور اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جارہی تھی۔ ’اب جو ہمارے پاس تصاویر ہیں وہ سب سے بہترین ہیں‘۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان نئی واضح تصاویر کے ذریعے اس طوفان کے بارے میں مزید بہتر طور پر جاننے میں مدد مل سکتی ہے۔

    مشتری کا عظیم طوفان کیا ہے؟

    سیارہ مشتری پر ایک غیر معمولی حد تک بڑا سرخ دھبہ موجود ہے جو دراصل مشتری کا وہ عظیم اور ہنگامہ خیز طوفان ہے جسے سائنسدان میگا اسٹورم کا نام دیتے ہیں۔

    اس طوفان کا مشاہدہ اس وقت سے کیا جارہا ہے جب سے دوربین ایجاد ہوئی ہے یعنی سترہویں صدی سے۔ اس کا حجم زمین سے بھی بڑا ہے۔

    ناسا کے مطابق یہ طوفان 10 ہزار میل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

    خلائی گاڑی جونو کا سفر

    اگست سنہ 2011 میں لانچ کی جانے والی خلائی گاڑی جونو نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری کے مشاہدے کے مشن پر ہے جس کے دوران یہ سیارے کی تصاویر و معلومات جمع کرے گی۔

    جونو کی رفتار 165 ہزار میل فی گھنٹہ ہے۔ باسکٹ بال گراؤنڈ سائز کی یہ گاڑی شمسی توانائی سے چلتی ہے جس پر 1 ارب 10 کروڑ ڈالر کی لاگت آئی ہے۔

    جونو کا یہ مشن فروری 2018 تک جاری رہے گا جس کے بعد جونو مشتری کی فضا کے اندر ہی غوطہ لگا کر تباہ ہوجائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سیارہ مشتری کے عظیم طوفان کی جھلک

    سیارہ مشتری کے عظیم طوفان کی جھلک

    میامی: نظام شمسی کے پانچویں اور سب سے بڑے سیارے مشتری کے گرد محو سفر خلائی گاڑی جونو نے مشتری کے عظیم طوفان کے نہایت قریب جا کر اس کا مشاہدہ کیا۔ اس کی کھینچی گئی تصاویر بہت جلد جاری کردی جائیں گی۔

    عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق جونو کی یہ پرواز مشتری کے عظیم طوفان سے اس قدر قریب سے گزرنے والی پہلی پرواز ہے۔

    مشتری کا عظیم طوفان کیا ہے؟

    سیارہ مشتری پر ایک غیر معمولی حد تک بڑا سرخ دھبہ موجود ہے جو دراصل مشتری کا وہ عظیم اور ہنگامہ خیز طوفان ہے جسے سائنسدان میگا اسٹورم کا نام دیتے ہیں۔

    اس طوفان کا مشاہدہ اس وقت سے کیا جارہا ہے جب سے دوربین ایجاد ہوئی ہے یعنی سترہویں صدی سے۔ اس کا حجم زمین سے بھی بڑا ہے۔

    ناسا کی جانب سے ابتدائی طور پر جاری کی گئی معلومات کے مطابق یہ طوفان 10 ہزار میل کے رقبے پر پھیلا ہوا طوفان ہے۔

    جونو اس طوفان سے 5 ہزار 6 سو میل کے فاصلے پر گزرا اور اس دوران اس نے اس کی کئی تصاویر کھینچیں جبکہ اس کے بارے میں معلومات بھی اکٹھی کیں جن کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

    خلائی گاڑی جونو کا سفر

    اگست سنہ 2011 میں لانچ کی جانے والی خلائی گاڑی جونو نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری کے مشاہدے کے مشن پر ہے جس کے دوران یہ سیارے کی تصاویر و معلومات جمع کرے گی۔

    جونو کی رفتار 165 ہزار میل فی گھنٹہ ہے۔ باسکٹ بال گراؤنڈ سائز کی یہ گاڑی شمسی توانائی سے چلتی ہے جس پر 1 ارب 10 کروڑ ڈالر کی لاگت آئی ہے۔

    جونو کا یہ مشن فروری 2018 تک جاری رہے گا جس کے بعد جونو مشتری کی فضا کے اندر ہی غوطہ لگا کر تباہ ہوجائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    زمین سے باہر بے کراں خلا اور وسعت بے شمار عجائبات کا نمونہ ہے۔ یہاں ایسی ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا تصور ہم یہاں زمین پر بیٹھ کر، کر ہی نہیں سکتے۔

    آج ہم آپ کو خلا اور نظام شمسی سے متعلق ایسے ہی کچھ حیرت انگیز مگر نہایت دلچسپ حقائق سے آگاہ کر رہے ہیں۔


    ہماری زمین 1 ہزار 29 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کر رہی ہے۔

    لیکن ہمارا پورا نظام شمسی بشمول 9 سیارے اور سورج وغیرہ 4 لاکھ 9 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت یا گردش کرتا ہے۔

    سورج کی طرف سے دوسرا سیارہ زہرہ (وینس) تمام سیاروں کے برعکس مخالف رخ پر گردش کرتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سورج کی کشش ثقل نے اس کے محور کو 180 ڈگری پر پلٹا دیا ہے۔

    نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ مشتری (جوپیٹر) اتنا بڑا ہے کہ یہ سورج کے گرد گردش نہیں کرتا۔ یہ سورج کے محور میں موجود ایک نقطے کو مرکز بنا کر اس کے گرد گردش کرتا ہے۔

    خود سورج بھی اسی نقطے کے گرد گردش کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ تھوڑا ڈگمگاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

    حلقے دار سیارہ زحل (سیچورن) پر ہیروں کی بارش ہوتی ہے۔

    دراصل اس سیارے کی فضا میں موجود حرارت اور دباؤ ایسا ہے کہ یہ فضا میں کاربن کے ذرات کو ہیروں میں تبدیل کرسکتا ہے، اور یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ہیرے کاربن کی ہی تبدیل شدہ شکل ہیں۔

    ہماری کہکشاں میں موجود لاکھوں کروڑوں سیارے اور ستارے مزید ٹوٹ سکتے ہیں۔ ٹوٹنے کے اس عمل سے ہمارا سورج موجودہ مقام سے کسی اور مقام پر منتقل ہوسکتا ہے مگر اس سے زمین پر کوئی تباہی نہیں آئے گی۔

    کائنات میں سب سے تیز رفتار شے ایک ٹوٹا ہوا ستارہ ہے جو ایک سیکنڈ میں 716 دفعہ حرکت کرتا ہے۔

    خلا میں موجود کچھ بادلوں میں گیلنوں کے حساب سے الکوحل موجود ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس الکوحل کا ذائقہ رس بھری جیسا ہوسکتا ہے۔

    کائنات کے بارے میں مزید حقائق جانیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زمین جیسی جسامت کے 10 نئے سیارے دریافت

    زمین جیسی جسامت کے 10 نئے سیارے دریافت

    واشنگٹن: امریکی خلائی ادارے ناسا نے ہمارے نظام شمسی سے باہر زمین کے جیسی جسامت رکھنے والے 10 نئے سیارے دریافت کرلیے ہیں جن پر ممکنہ طور پر پانی موجود ہوسکتا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ 10 سیارے اپنے اپنے سورجوں کے گرد اتنے ہی فاصلے پر گردش کر رہے ہیں جتنے فاصلے پر ہماری زمین اپنے سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ فاصلہ ان سیاروں کو زندگی کے لیے قابل سیارہ بنا دیتا ہے۔

    ناسا کی ابتدائی تحقیق کے مطابق ان سیاروں کی زمین پتھریلی ہے اور وہاں پانی کی موجودگی کا بھی امکان ہے۔

    یہ دریافت ناسا کی دوربین کیپلر کی بدولت عمل میں آئی جو اپنے مشن کے دوران کل 4 ہزار سے زائد سیارے دریافت کر چکی ہے۔ ان سیاروں کی تصدیق کیپلر کے علاوہ دوسری ٹیلی اسکوپس نے بھی کی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کیپلر سے کی جانے والی تحقیق شاید اس سوال کا جواب دے سکے کہ ہماری کائنات میں زمین جیسے کتنے سیارے موجود ہیں؟

    یاد رہے کہ چند روز قبل بھی ایک ایسا سیارہ دریافت کیا گیا تھا جو سورج سے بھی دو گنا زیادہ گرم ہے۔

    مزید پڑھیں: سورج سے دوگنا گرم سیارہ دریافت

    یہ سیارہ جسامت میں ہمارے نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری سے بھی بڑا تھا اور ماہرین کے مطابق اس کی فضا کا درجہ حرارت 4 ہزار 300 ڈگری سینٹی گریڈ ہوسکتا ہے۔

    اس سے چند ماہ قبل سائنس دانوں نے ہماری کائنات میں ایک نیا نظام شمسی بھی دریافت کیا تھا جس میں 7 سیارے ایک ستارے کے گرد محو گردش تھے۔

    ٹریپسٹ 1 نامی یہ نظام زمین سے 39 نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے اور ماہرین کے مطابق یہ زون یا علاقہ نہ تو اتنا گرم ہے جہاں پانی فوراً بھاپ بن جائے اور نہ ہی اتنا سرد ہے کہ ہر چیز منجمد ہوجائے۔ گویا یہ زندگی کے لیے نہایت سازگار ماحول ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ 

  • سورج سے دوگنا گرم سیارہ دریافت

    سورج سے دوگنا گرم سیارہ دریافت

    سائنس دانوں نے ہمارے نظام شمسی سے دور ایک ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جو سورج سے بھی دوگنازیادہ گرم ہے۔

    زمین سے 650 نوری سال کے فاصلے پر واقع یہ سیارہ کیلٹ 9 سیارہ مشتری سے دگنی جسامت کا ہے جو اپنے سورج کے گرد محو گردش ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس سیارے کی گردش اپنے سورج کے گرد اس قدر تیز ہے کہ یہ ایک چکر صرف 2 دن میں مکمل کرلیتا ہے گویا یہاں کا ایک سال ہماری زمین کے 2 دن جتنا ہے۔

    اسے دریافت کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سیارے میں دن کے اوقات میں درجہ حرات 4 ہزار 300 ڈگری سینٹی گریڈ ہوسکتا ہے۔ ان کے مطابق اس کی عمر صرف 30 کروڑ سال ہے اور یہ جسامت میں ہمارے سورج سے بھی دوگنا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سیارہ اپنے ستارے سے تقریباً جڑا ہوا ہے یعنی اس کا ایک ہی رخ عام طور پر اپنے سورج کی طرف رہتا ہے۔

    سیارے کی اپنی حرارت اور پھر اپنے سورج سے اس قدر قریب ہونے کے باعث سیارہ آہستہ ختم ہورہا ہے کیونکہ اس کا سورج بے تحاشہ تابکار شعاعیں خارج کر رہا ہے۔

    چونکہ سیارے کی فضا میں موجود گیس تابکاری سے پھٹ پھٹ کر خلا میں گم ہوتی جا رہی ہے لہٰذا بہت جلد یہ سیارہ قصہ پارینہ بن جائے گا۔

    سیارے کی موجودگی حیرت انگیز

    کیلٹ 9 سیارے کو سنہ 2014 میں دریافت کیا گیا تھا۔ تاہم اس کی موجودگی اور ساخت اس قدر حیران کن تھی کہ سائنسدان اسے اپنی آنکھوں کا دھوکہ سمجھتے رہے اور مکمل تصدیق کے لیے انہیں 3 سال کا عرصہ لگا۔

    سائنسدانوں نے 3 سال تک اس سیارے کے بارے میں تحقیق کی اور ان کا کہنا ہے کہ اب یہ سیارہ اپنے خاتمے کے قریب پہنچ چکا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ‘زمین ایک نگینہ ہے’

    ‘زمین ایک نگینہ ہے’

    زمین پر رہتے ہوئے شاید ہمیں اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہ ہوتا ہو، مگر اس کی صحیح اہمیت وہ خلا باز جانتا ہے جو طویل عرصے تک زمین سے دور خلا میں رہے اور زمین کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرے۔

    تھامس پسکٹ نامی فرانسیسی سائنسدان گزشتہ 6 ماہ سے خلا میں موجود ہے اور اس دوران خلا سے لاتعداد زاویوں سے زمین کو دیکھ چکا ہے۔ اپنے گھر اور اپنی زمین سے دور رہنے کے بعد تھامس کا کہنا ہے، ’زمین حقیقی معنوں میں ایک نگینہ ہے‘۔

    وہ کہتا ہے کہ جب وہ زمین سے دور ہوا، اور اس نے ایک عظیم فاصلے سے زمین کو دیکھا، تب اس پر ادراک ہوا کہ زمین کتنی خوبصورت اور حسین ہے۔ ’یہ خلا سے کسی نگینے کی طرح نظر آتی ہے‘۔

    تھامس اس وقت ایک روسی خلاباز اولیگ نووٹسکی اور امریکی خلاباز پیگی وائٹ سن کے ساتھ 6 ماہ طویل ایک مشن پر عالمی خلائی اسٹیشن پر موجود ہے۔

    یاد رہے کہ پیگی وائٹ سن کو خلا میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والی خلا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    اس مشن کے دوران ان خلا بازوں نے نہ صرف کئی نئی تحقیقات کیں، اور اہم ڈیٹا ناسا کو روانہ کیا، بلکہ اس دوران انہوں نے زمین کی مختلف زاویوں سے بے شمار تصاویر بھی کھینچیں جو نہایت خوبصورت دکھائی دیتی ہیں۔

    تھامس اور ان کا یہ مشن رواں ہفتے جمعہ کے دن اختتام کو پہنچ جائے گا جس کے بعد وہ زمین پر واپس آجائیں گے۔

    چھ ماہ تک خلا میں رہنے کے بعد اب وہ یہاں سے جاتے ہوئے کچھ اداس تو ہیں، تاہم انہیں اپنے گھر واپسی اور اپنے پیاروں سے ملنے کی خوشی بھی ہے۔

    خلا سے دیے گئے ایک انٹرویو میں تھامس کا کہنا تھا، ’میں پھر سے اپنے پیاروں سے ملنا چاہتا ہوں، ساحل پر جانا چاہتا ہوں، پہاڑوں کے درمیان چہل قدمی کرنا چاہتا ہوں اور ٹھنڈی ہوا کو اپنے چہرے پر محسوس کرنا چاہتا ہوں‘۔

    تھامس کا کہنا ہے، ’میرا سوٹ کیس تیار ہے۔ میں زمین پر واپس جاتے ہوئے اداس بھی ہوں اور پرجوش بھی‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔