Tag: خلیق ابراہیم خلیق

  • مولوی سمیع اللہ کی دکان

    مولوی سمیع اللہ کی دکان

    جامع مسجد کے جنوبی دروازے کے بالمقابل اردو بازار میں مفتی کفایت اللہ صدر جمیعت العلمائے ہند کے داماد مولوی سمیع اللہ کی کتابوں کی دکان ادیبوں، شاعروں اور علم و ادب کا ذوق رکھنے والوں کی بیٹھک تھی۔

    مولوی سمیع اللہ بے حد منکسرالمزاج اور مجسم اخلاق تھے۔ آپ ان کی دکان پر کسی وقت بھی چلے جاتے، کسی نہ کسی علمی، ادبی یا سیاسی شخصیت سے ضرور مڈ بھیڑ ہوجاتی۔ ان میں دلی والے بھی ہوتے اور باہر سے آنے والے بھی۔

    اسی دکان پر میری ملاقات مولانا محمد حسین آزاد کے نواسے آغا محمد باقر، نخشب جارچوی، شکیل بدایونی، روش صدیقی، انور صابری اور مولانا امداد صابری سے ہوئی۔ غالباً انور صابری کو چھوڑ کر باقی حضرات اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔

    حمید ہاشمی سے بھی طفیل احمد جمالی نے مجھے مولوی سمیع اللہ کی دکان ہی پر ملایا تھا۔

    حمید ہاشمی قیام پاکستان کے بعد لاہور آگئے تھے اور روزنامہ ”امروز“ کے ادارتی عملے میں شامل تھے۔ قاہرہ کے الم ناک ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ ان کے بڑے بھائی انیس ہاشمی کراچی کی نمایاں سیاسی و سماجی شخصیتوں میں سے تھے۔

    (معروف ادیب، شاعر اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کی دہلی میں قیام کے تذکروں سے ایک ورق)

  • دلّی ہم نے دیکھا….

    دلّی ہم نے دیکھا….

    میں جامعہ کے غیر مقیم طالبِ علموں میں سے تھا، یعنی جامعہ کی کسی اقامت گاہ میں نہیں رہتا تھا۔ میرا قیام بستی نظام الدین میں بھیا احسان الحق کے دولت کدے "علی منزل” میں تھا جو حضرت نظام الدین اولیا، امیر خسرو اور غالب کی ابدی آرام گاہوں سے متصل تھا۔

    روزانہ صبح میں بھیا احسان الحق کے صاحب زادے شبلی کے ساتھ تانگے پر بستی نظام الدین سے قرول باغ جاتا اور دن بھر جامعہ میں گزارنے کے بعد شام کو واپس آتا۔

    درگاہ حضرت نظام الدین تو علی منزل سے دو قدم پر ہی تھی۔ بستی سے نکل کر بڑی سڑک پر آئیے تو سڑک کی دوسری جانب ہمایوں کا مقبرہ ہے۔ اسی سڑک پر آگے چل کر پرانا قلعہ آتا ہے۔

    پرانے قلعے سے اور آگے چلیے تو پرانی دہلی کے حدود میں داخل ہونے سے قبل فیروز شاہ کا کوٹلا ملے گا۔

    پرانی دہلی میں فیض بازار سے اردو بازار پہنچنے پر سامنے پریڈ کے لق و دق میدان کے پرے دائیں جانب لال قلعہ نظر آئے گا اور بائیں جانب قریب ہی جامعہ مسجد کی پُرشکوہ عمارت۔

    پریڈ کے میدان میں 1857 کی جنگِ آزادی سے قبل مغل دربار کے منصب داروں، امرا اور رؤسا کے محلات تھے، 1857 کی جنگِ آزادی کے ناکام ہونے پر انگریزوں نے لوٹ مار کے بعد ان محلات کو اس بری طرح مسمار کیا کہ آج اس میدان کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اب سے ڈیڑھ سو برس قبل یہ دلی کا اعلیٰ ترین رہائشی علاقہ تھا۔

    (دہلی کی بستی نظام الدین سے قرول باغ تک ماضی کی نشانیوں اور یادگاروں کا تذکرہ خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے)

  • کیا آپ پنڈت برج موہن دتاتریہ کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ پنڈت برج موہن دتاتریہ کو جانتے ہیں؟

    پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی اردو کے عاشقوں میں سے تھے۔

    انجمن ترقی اردو (ہند) کا مرکزی دفتر حیدر آباد دکن سے دہلی منتقل ہوا تو وہ انجمن کے ہمہ وقتی رکن بن گئے اور اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بابائے اردو کا ہاتھ بٹانے لگے۔

    بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔

    ابتدا میں اپنے کلام پر انھوں نے مولانا حالی سے اصلاح لی تھی۔ تنقید میں بھی حالی کی پیروی کرتے تھے۔ معاش کے لیے پنڈت کیفی نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ عرصہ دراز تک کشمیر میں قیام پذیر رہے۔ کچھ عرصہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں بھی گزارا۔ ان کی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ جہاں بھی رہے وہاں کے شاعر اور ادیب ان کے پاس آئے اور ان کی صحبت سے فیض اٹھایا۔

    پنڈت کیفی ان بوڑھوں میں سے تھے جن کی صحبت میں بوڑھوں، جوانوں، بچوں سبھی کا دل لگتا۔ میری ان سے خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ دلی تو ان کا گھر ہی تھا۔ اس کے چپے چپے کی تاریخ سے وہ واقف تھے۔ اپنے بچپن اور جوانی کی دلی کے قصے مزے لے لے کے سنایا کرتے تھے۔ کشمیر اور لائل پور کے بھی قصے سناتے اور لائل پور کے اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے۔

    کیفی دہلوی نے ادب و شعر کی مختلف اضاف میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے بعض نصاب میں بھی شامل رہیں۔ وہ 13 دسمبر 1866 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 1955 کو نواسی سال کی عمر میں دہلی کی ایک نواحی بستی غازی آباد میں وفات پائی۔

    (معروف شاعر، افسانہ نگار اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کی یادداشتوں سے ایک ورق)

  • مقتول کو مفتون پڑھنے والے دیوان سنگھ کی کہانی

    مقتول کو مفتون پڑھنے والے دیوان سنگھ کی کہانی

    1924 میں سردار دیوان سنگھ مفتون نے دہلی سے اپنا مشہور ہفتہ وار با تصویر اخبار ”ریاست“ نکالا جو اپنے مواد اور ہیئت یا صورت و سیرت دونوں کے لحاظ سے اعلیٰ پائے کے انگریزی جرائد کی ہمسری کا دعویٰ کرسکتا تھا۔

    یہ اخبار جسے اردو صحافت میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے سال ہا سال تک نکلتا رہا۔ صحافت میں سردار دیوان سنگھ مفتون اس قول پر پوری ایمان داری سے عمل پیرا تھے کہ ”اخبار نویس دنیا میں ان لوگوں کا ساتھ دینے کے لیے پیدا ہوا ہے جو مصائب میں مبتلا ہوں۔ ان لوگوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں جو عیش و آرام میں زندگی بسر کررہے ہوں۔“ چنانچہ ان کا اخبار ”ریاست“ مظلوموں کی پناہ گاہ تھا۔

    ستم رسیدہ لوگ اپنی شکایتیں لے کر ان کے پاس پہنچتے تو وہ یہ تحقیق کرلینے کے بعد کہ ان کی شکایت صحیح ہے ان کی حمایت پر کمر بستہ ہوجاتے۔ ”ریاست“ نے دیسی ریاستوں اور رجواڑوں کے حکم رانوں کی سیاہ کاریوں اور سازشوں، حکومت اور پولیس کی چیرہ دستیوں اور معاشرے کی نا ہمواریوں اور ظلم و جبر کو آشکارا کرکے اردو صحافت میں آزادیِ رائے اور بے لاگ تنقید و احتساب کی ایک روشن روایت قائم کی۔

    دیوان سنگھ مفتون نے زندگی کے ہفت خواں طے کرنے کے لیے مختلف کام سیکھے اور مختلف پیشے اختیار کیے۔ ساتھ ساتھ حصولِ علم کے لیے ذاتی مطالعہ بھی جاری رہا۔ پڑھنے کے ساتھ لکھنے کا شوق بھی پیدا ہوا اور اس شوق کے طفیل صحافت کا ایسا چسکا پڑا کہ پھر ساری عمر کے لیے اِسی کے ہوکر رہ گئے۔ سید جالب دہلوی اور خواجہ حسن نظامی جیسے جید صحافیوں سے انھوں نے صحافت کے گُر بڑی کھکھیڑ اٹھاکر سیکھے اور خود اپنی محنت اور تگ و دو سے اردو صحافت میں تاریخ ساز کارنامے انجام دیے۔

    یہاں یہ اَمر آپ کی معلومات میں دل چسپی میں اضافے کا باعث ہوگا کہ سردار دیوان سنگھ کے ساتھ”مفتون“ کا لاحقہ کیسے لگا۔ کہیں آپ اسے ان کا تخلص تو نہیں سمجھ رہے ہیں۔ قصہ یہ ہے کہ جس زمانے میں وہ خواجہ حسن نظامی کے صحافت میں شاگرد تھے ان کی کسی تحریر پر اصلاح دینے کے بعد خواجہ صاحب نے، جو خاصے بزلہ سنج واقع ہوئے تھے، ایک تہدیدی نوٹ لکھا جس میں انھیں مخاطب کرتے ہوئے ان کے نام دیوان سنگھ کے ساتھ ”مقتول“ کا لاحقہ لگا دیا۔ انھوں نے ”مقتول“ کو ”مفتون“ پڑھا اور اسے استاد کی طرف سے اپنی عزت افزائی سمجھتے ہوئے اپنے نام کا مستقل جزو بنالیا۔
    (خلیق ابراہیم خلیق کے مضمون سے خوشہ چینی)