Tag: خلیل جبران

  • مفکّر اور مقبول ترین شاعر خلیل جبران کا تذکرہ

    مفکّر اور مقبول ترین شاعر خلیل جبران کا تذکرہ

    لبنان کے خلیل جبران کا نام ایک مقبول ترین شاعر، مصنّف اور مفکر کے طور پر لیا جاتا ہے جس نے اپنے افکار کی بدولت دنیا بھر میں پہچان بنائی اور اس کی شاعری کا کئی زبانوں میں‌ ترجمہ کیا گیا۔ آج خلیل جبران کا یومِ‌ وفات ہے۔ عربی ادب میں‌ اس کا نام ایک باغی تخلیق کار کی حیثیت سے لیا جاتا ہے۔

    1923ء میں‌ خلیل جبران کی کتاب ’پیغمبر‘ شائع ہوئی تھی جس نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی اور دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا۔ اس کتاب کو امریکا میں بیسویں صدی کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کہا جاتا ہے۔ خلیل جبران شاعر ہی نہیں‌ مصوّر بھی تھا اور یہی فن ان کا ذریعۂ روزگار تھا۔ پیرس میں ایک آرٹ اسکول سے مصوّری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے خلیل جبران نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے ادب تخلیق کیا اور روایتی اصنافِ سخن کو بھی اپنے افکارِ تازہ سے سجاتے ہوئے اس میں تبدیلیاں بھی کیں‌۔ اسے کلاسیکی جمالیات کے مقابلے میں جدیدیت کو اپنانے والا اسلوب ساز تخلیق کار کہا جاتا ہے۔

    خلیل جبران 6 جنوری 1883 کو لبنان میں پیدا ہوا، اور نوجوانی میں اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ ہجرت کر گیا۔ یہ خاندان مالی طور پر آسودہ نہ تھا اور والد مسیحی پادری تھے۔ دیارِ غیر میں اس نے اپنی والدہ کو سخت محنت اور چھوٹے موٹے کام کرکے گھر کے اخراجات اور اپنی اولاد کی تعلیم کے لیے کوشش کرتے دیکھا۔ اس کے ایک بھائی اور والدہ نے ایک مرض میں وفات پائی۔ جبران مغربی ثقافت سے متاثر تھا اور یہ دیکھ کر اس کے گھر والوں نے اسے لبنان بھیج دیا تھا جہاں تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا، لیکن ساتھ ہی ادب اور لکھنے لکھانے کا بھی آغاز ہو گیا تھا اور لبنان میں‌ اس نے ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا۔ وہ کالج میں شاعر کے طور پر مشہور ہوگیا اور بعد میں پہلی کتاب ’پاگل‘ کے نام سے شائع کروائی۔

    بیروت میں قیام کے دوران وہ عالمی ادب بھی پڑھتا رہا اور پچھلی صدی عیسوی میں ساٹھ کی دہائی میں‌ خلیل جبران کی شاعری اور اس کے افکار کی مقبولیت امریکا اور عرب ممالک تک پھیل گئی۔

    خلیل جبران 48 برس کی عمر میں 10 اپریل 1931ء کو ٹی بی کے مرض کے باعث دنیا سے رخصت ہو گیا۔ وفات کے وقت وہ نیویارک میں‌ تھا اور اس کی وصیت کے مطابق موت کے ایک سال بعد اس کا جسدِ‌خاکی لبنان لایا گیا جہاں‌ اس کی تدفین کی گئی۔ آج بھی اس فلسفی، شاعر اور مصوّر کے یادگاری مجسمے اس کے وطن لبنان کے علاوہ امریکا اور یورپ بھر میں‌ دیکھے جاسکتے ہیں۔

  • فرشتۂ اجل اور دو آرزوئیں

    فرشتۂ اجل اور دو آرزوئیں

    لبنانی نژاد امریکی خلیل جبران کو دنیا ایک ایک عظیم مفکر اور تخلیق کار کی حیثیت سے جانتی ہے جس نے نثر اور شاعری دونوں اصناف میں اپنی تخلیقات اور اختراع سے نام کمایا۔

    لبنان کے اس نوجوان نے اپنے خاندان کے ساتھ امریکا ہجرت کی تھی جہاں فنونِ لطیفہ کی تعلیم مکمل کی اور ادبی سفر شروع کیا۔ خلیل جبران کے فلسفیانہ خیالات اور تخلیقات کا مغرب میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بعد میں ان کے مضامین اور شاعری کا کئی زبانوں‌ میں‌ ترجمہ کیا گیا، انھیں‌ دنیا کے چند سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے۔

    خلیل جبران کی یہ تمثیل ان کی کتاب آنسو اور ایک مسکراہٹ (1914) سے لی گئی ہے جو آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    دو آرزوئیں
    رات کی گہری خاموشی میں فرشتۂ اجل، خداوند کے حضور سے زمین کی طرف اترتا ہے۔ شہر پر منڈلاتے ہوئے، وہ گھروندوں پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑاتا ہے۔ اور خوابوں کے دوش پر اڑتی ہوئی روحوں کی پرواز ملاحظہ کرتا ہے اور نیند کے مزے لوٹتے فانی انسانوں کو دیکھتا ہے۔

    جب ماہتاب افق پر سے روپوش ہوتا ہے اور شہر تاریکی میں ڈوب جاتا ہے تو فرشتۂ اجل گھروں میں سے اس بات کا خیال رکھتے ہوئے گزرتا ہے کہ کسی شے کو بھی نہ چھوئے، بالآخر وہ ایک عالی شان محل میں آن پہنچتا ہے۔

    مقفل دروازوں کو بغیر چھیڑے عبور کرتے ہوئے وہ ایک امیر آدمی کے سرہانے جا کھڑا ہوتا ہے۔ اور پھر اپنی پیشانی پر موت کے سرد ہاتھ کا لمس محسوس کرتے ہی نیند میں ڈوبا ہوا شخص دہشت کے عالم میں اپنی آنکھیں کھول دیتا ہے۔

    اور جب اس نے اپنے سرہانے اس عفریت کو دیکھا، تو وہ خوف اور غصہ کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ بولا،” دفعہ ہو جاؤ، میرے ڈراؤنے خواب؛ میرا پیچھا چھوڑ دو اے بھیانک بھوت۔

    کون ہو تم ؟ اور اس جگہ پر گھسے کیسے ہو؟ کیا چاہیے ہے تمہیں؟ میرے گھر سے فورا نکل جاؤ۔ میں اس گھر کا مالک ہوں اور میں اپنے غلاموں اور محافظوں کو بلا لوں گا اور انہیں تمہیں مارنے کا حکم دے دوں گا۔

    فرشتۂ اجل نرم لیکن گرج دار آواز میں بولا، ” میں موت کا فرشتہ ہوں، اٹھو اور چلو میرے ساتھ!”

    وہ شخص بولا، کیا چاہتے ہو تم؟

    ابھی تک جب کہ میں نے اپنے دنیاوی کام دھندے ختم نہیں کیے ہیں تم کس لیے یہاں آن دھمکے ہو؟

    میرے جیسے طاقت ور شخص کے پاس تم کیوں کر آئے ہو، جاؤ اور کسی کم زور اور لاچار شخص کے پاس جاؤ اور اسے اپنے سنگ لے جاؤ۔

    ”مجھے تمہارے خونی پنجوں اور کھوکھلے چہرے سے گھن آتی ہے، اور میری آنکھیں تمہارے مہیب استخوانی پروں اور مردار جسم کو دیکھنے کی روادار نہیں ہیں۔”

    خوف و اضطراب کی اسی کیفیت میں تھوڑی دیر بعد وہ پھر گڑگڑایا، نہیں، نہیں، اے مہربان موت! میری اول فول باتوں کا برا نہ ماننا، کہ خوف کے عالم میں وہ سب بھی عیاں ہو جاتا ہے جس کو ہمارا دل چھپانا چاہتا ہے۔

    میرے سونے چاندی کے خزانوں میں سے جو دل چاہے لے لو، یا میرے کچھ غلاموں کی روحیں قبض کر لو، پر خدارا! میری جاں بخشی کر دو۔ ابھی میری زندگی میں بہت سے کام کرنے باقی ہیں؛ ابھی بہت سے لوگوں نے میرے مال و اسباب لوٹانے ہیں؛ میرے جہاز میرا سامان لے کر ابھی بندرگاہ پر نہیں اترے؛ میری بس اتنی سی خواہش ہے کہ میری جان بخش دو۔”

    اے موت! میرے حرم میں دنیا کی حسین ترین عورتیں موجود ہیں؛ ان میں سے تمہاری پسند کی کنیز میری طرف سے تمہارے لیے ایک تحفہ ہوگا۔ سنو اے موت میرا بس ایک ہی بیٹا ہے اور میں اسے بے حد چاہتا ہوں کہ زندگی میں میری خوشی صرف اسی سے وابستہ ہے۔میں اپنی سب سے قیمتی شے قربان کرتا ہوں۔ یوں کرو، میری جگہ اسے اپنے ساتھ لے جاؤ، پر مجھے چھوڑ دو۔

    موت کا فرشتہ بولا،” تم امیر نہیں بلکہ قابلِ رحم حد تک غریب ہو۔”

    پھر موت نے دنیا کے اس غلام کا ہاتھ پکڑا، اس کو فرشتوں کے حوالے کیا کہ وہ اسے اصل حقیقت کا مزہ چکھائیں۔

    اور پھر فرشتۂ اجل غریبوں کی جھونپڑ پٹیوں میں سے چلتا ہوا سب سے مفلس شخص کے مکان پر پہنچا۔ گھر میں داخل ہو کر وہ ایک جوان کے بستر کے قریب پہنچا جو کہ دہرا ہو کر اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ موت نے اس کی آنکھوں کو چھوا، جب اس جوان نے موت کو اپنے سرہانے دیکھا تو وہ اچھل کر اٹھ بیٹھا اور بھرپور محبت سے بولا،

    ” اے حسین موت! میں حاضر ہوں۔ میری رو ح کو قبول کرو۔

    کیوں کہ تم میرے خوابوں کی آس ہو۔ ان کی تکمیل بنو! مجھے اپنے سینے سے لگا لو،
    اے میری محبوب موت! تم بہت مہربان ہو؛ مجھے چھوڑ کے مت جاؤ۔

    تم خداوند کی نامہ بر ہو، مجھے اس کے پاس لے چلو۔ تم صداقت کا سیدھا رستہ ہو اور دردمندی کا قلب ہو؛ مجھ سے غافل مت بنو۔

    ” میں نے بیسیوں بار تمہاری تمنا کی ، لیکن تم نہ آئیں؛ میں نے تمہاری چاہت کی مگر تم مجھ سے گریزاں ہی رہیں؛ میں تمہیں صدائیں لگاتا رہا مگر تم نے میری ایک نہ سنی لیکن اب تم نے میری عرض سن لی ہے- میری روح کو اپنے سینے سے لگا لو، محبوب موت!”

    موت نے اپنے مہربان ہاتھ اس کے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پر رکھے، اس کی تمام تلخیوں کا خاتمہ کیا اور حفاظت سے لے جانے کے لیے اسے اپنے پروں میں سمیٹ لیا۔ اور آسمان کی طرف جاتے ہوئے ایک خاموش نصیحت کی۔

    ”صرف وہ لوگ ہی ابدیت حاصل کر پاتے ہیں ، جو زمین پر ابدی زندگی کے خواہاں ہوتے ہیں۔”

    (اس تمثیل کے مترجم خلیل الرحمان ہیں)

  • پاکستانیوں کے پسندیدہ، لبنانی شاعر خلیل جبران کے وہ اقوال جو آپ نے کبھی نہیں پڑھے

    پاکستانیوں کے پسندیدہ، لبنانی شاعر خلیل جبران کے وہ اقوال جو آپ نے کبھی نہیں پڑھے

    معروف مفکر، شاعر، اور مصور خلیل جبران کا آج 137 واں یوم پیدائش ہے، خلیل جبران کو پڑھنے والوں کی بڑی تعداد پاکستان میں بھی موجود ہے۔

    لبنان کے شہر بشری میں پیدا ہونے والے خلیل جبران نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں امریکا کی طرف ہجرت کرلی تھی۔ ان کی نصف ابتدائی تعلیم لبنان، جبکہ نصف امریکا میں مکمل ہوئی۔

    خلیل جبران مفکر شاعر ہونے کے ساتھ ایک مصور بھی تھے۔ انہوں نے اپنی مصوری میں قدرت اور انسان کے فطری رنگوں کو پیش کیا۔

    جبران کی شہرہ آفاق کتاب ’دا پرافٹ (پیغمبر)‘ ہے جس میں انہوں نے شاعرانہ مضامین تحریر کیے۔ یہ کتاب بے حد متنازعہ بھی رہی، بعد ازاں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن گئی۔

    خلیل جبران شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔ وہ ایک مفکر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے اقوال میں زندگی کے ایسے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔

    آئیں ان کے کچھ اقوال سے آپ بھی فیض حاصل کریں۔

    ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ غاروں میں رہنے والے اب بھی موجود ہیں۔ ہاں، یہ غار ہمارے دلوں میں بنے ہوئے ہیں۔

    وہ شخص جو موت کی تمنا لے کر بھی اپنے عزیز و اقارب کے لیے جیے جا رہا ہے، زندگی اس کے لیے اذیت سے بھری ہوئی ہے۔

    اگر تمہارا دل آتش فشاں ہے، تو تم اس میں سے پھول کھلنے کی توقع کیسے کرسکتے ہو؟

    میں نے باتونی سے خاموشی سیکھی، شدت پسند سے برداشت کرنا سیکھا، نامہربان سے مہربانی سیکھی، اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ میں ان استادوں کا شکر گزار نہیں ہوں۔

    خود محبت بھی اپنی گہرائی کا احساس نہیں کر پاتی جب تک وہ جدائی کا دکھ نہیں سہتی۔

    بے شک وہ ہاتھ جو کانٹوں کے تاج بناتے ہیں، ان ہاتھوں سے بہتر ہیں جو کچھ نہیں کرتے۔

    تم جہاں سے چاہو زمین کھود لو، خزانہ تمہیں ضرور مل جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ زمین کامیابی کے یقین کے ساتھ کھودو۔

    حیرت ہے کہ مجھ میں موجود اچھائی نقصان کے سوا مجھے کچھ نہیں دیتی، جبکہ مجھ میں موجود برائی نے مجھے کبھی نقصان نہیں دیا۔ تاہم اچھائی سے میری وارفتگی جاری ہے۔

    ہم میں سے زیادہ تر لوگ خاموش بغاوت اور چرب زبان اطاعت کے درمیان مشکوک طور پر معلق ہیں۔

    خدا سے قربت چاہتے ہو تو اس کے بندوں کے قریب ہو جاؤ۔

    بناؤ سنگھار کرنے والا اپنی بدنمائی و بدصورتی کی تائید کرتا ہے۔

    کچھ لوگ اپنے کانوں سے سنتے ہیں، کچھ اپنے پیٹ سے، کچھ اپنی جیب سے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو سنتے ہی نہیں۔

    بدنیت اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔

    شاعر تو وہ ہے جس کی غزل پڑھنے کے بعد آپ یہ محسوس کریں کہ اس کے بہترین اشعار تو ابھی کہے نہیں گئے۔

  • مفکر و شاعر خلیل جبران کا 135 واں یوم پیدائش

    مفکر و شاعر خلیل جبران کا 135 واں یوم پیدائش

    معروف مفکر، شاعر، اور مصور خلیل جبران کا آج 135 واں یوم پیدائش ہے۔ خلیل جبران شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔

    لبنان کے شہر بشری میں پیدا ہونے والے خلیل جبران نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں امریکا کی طرف ہجرت کرلی تھی۔ ان کی نصف ابتدائی تعلیم لبنان، جبکہ نصف امریکا میں مکمل ہوئی۔

    خلیل جبران مفکر شاعر ہونے کے ساتھ ایک مصور بھی تھے۔ انہوں نے اپنی مصوری میں قدرت اور انسان کے فطری رنگوں کو پیش کیا۔

    art-1

    جبران کی شہرہ آفاق کتاب ’دا پرافٹ (پیغمبر)‘ ہے جس میں انہوں نے شاعرانہ مضامین تحریر کیے۔ یہ کتاب بے حد متنازعہ بھی رہی۔ بعد ازاں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن گئی۔

    خلیل جبران ایک مفکر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے اقوال میں زندگی کے ایسے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔

    آئیے ان کے کچھ اقوال سے آپ بھی فیض حاصل کریں۔

    اگر تمہارا دل آتش فشاں ہے، تو تم اس میں سے پھول کھلنے کی توقع کیسے کرسکتے ہو؟

    میں نے باتونی سے خاموشی سیکھی، شدت پسند سے برداشت کرنا سیکھا، نامہربان سے مہربانی سیکھی، اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ میں ان استادوں کا شکر گزار نہیں ہوں۔

    خود محبت بھی اپنی گہرائی کا احساس نہیں کرپاتی جب تک وہ جدائی کا دکھ نہیں سہتی۔

    بے شک وہ ہاتھ جو کانٹوں کے تاج بناتے ہیں، ان ہاتھوں سے بہتر ہیں جو کچھ نہیں کرتے۔

    کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جس مخلوق کی کمر میں مہرے نہیں، وہ سیپی کے اندر مہرہ دار مخلوق سے زیادہ پر امن زندگی بسر کرتی ہے۔

    تم جہاں سے چاہو زمین کھود لو، خزانہ تمہیں ضرور مل جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ زمین کامیابی کے یقین کے ساتھ کھودو۔

    گزرنے والا کل آج کی یاد ہے، آنے والا کل آج کا خواب ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔