Tag: خواتین سائنسدان

  • خواتین سائنس دانوں کو بھی کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا سامنا، رپورٹ میں بڑا انکشاف

    خواتین سائنس دانوں کو بھی کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا سامنا، رپورٹ میں بڑا انکشاف

    پیرس: ایک سروے رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ خواتین سائنس دان بھی کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی سے محفوظ نہیں ہیں، پوری دنیا میں نصف سائنس داں خواتین کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

    جمعرات کو شائع ہونے والی ایک سروے رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تمام خواتین سائنس دانوں کی نصف تعداد کو کام کی جگہ پر اپنے کیریئر کے دوران کسی نہ کسی موقع پر جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔

    اے ایف پی کے مطابق 49 فی صد خواتین سائنس دانوں نے سروے کے دوران رپورٹ کیا کہ ان کے ساتھ ذاتی طور پر ہراسانی کا کم از کم ایک واقعہ پیش آیا ہے، 2017 میں ’می ٹو تحریک‘ کے بعد نصف کے قریب کیسز رپورٹ ہوئے۔

    یہ سروے لوریئل فاؤنڈیشن اور بین الاقوامی ادارے اپسوس پولنگ فرم نے کیا ہے، جس میں 65 فی صد خواتین کا کہنا تھا کہ ہراسانی نے ان کے کیریئر پر منفی اثر ڈالا، پانچ میں سے ایک متاثرہ خاتون نے اپنے ادارے کو ہراسانی کے بارے میں رپورٹ کیا۔

    یہ سروے ان خواتین سے ہوا جو سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی سمیت مختلف شعبوں میں کام کرتی ہیں، اور وہ دنیا بھر میں 50 سے زیادہ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

    ایک چوتھائی خواتین نے کہا کہ انھیں غیر مناسب طریقے سے اور بار بار لڑکی، گڑیا یا بے بی کہہ کر پکارا گیا اور توہین کی گئی۔ 24 فی صد نے کہا کہ ذاتی یا جنسی زندگی کے بارے میں بھی بار بار سوال پوچھے گئے جس سے بے چینی پیدا ہو جاتی۔ زیادہ تر ہراسانی کے کیسز خواتین کے کیریئر کے آغاز میں ہوئے۔

    پانچ میں سے ایک خاتون کا کہنا تھا کہ انھوں نے خود کو کام کے ادارے میں محفوظ محسوس نہیں کیا، جب کہ 65 فی صد کے قریب خواتین نے کہا کہ کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی سے نمٹنے کے لیے خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔

    واضح رہے کہ لوریئل فاؤنڈییشن جو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے، اور خواتین سائنس دانوں کی مدد کرتا ہے، فاؤنڈیشن نے اکیڈیمک اور تحقیقی اداروں سے مطالبہ کیا کہ ہراسانی کے خلاف زیرو ٹالیرنس کی پالیسی اختیار کی جائے۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر میں سائنسی محققین میں سے صرف 33 فی صد خواتین ہیں اور سائنس کے شعبے میں چار فی صد خواتین نے نوبل انعام جیتا ہے۔

  • "پلوٹو” کو تو آپ جانتے ہیں، مگر ایلزبتھ ولیمز کا نام شاید ہی سنا ہو!

    "پلوٹو” کو تو آپ جانتے ہیں، مگر ایلزبتھ ولیمز کا نام شاید ہی سنا ہو!

    ایلزبتھ ولیمز نہ ہوتیں تو شاید 1930 میں پلوٹو کی دریافت ممکن نہ ہوتی۔ ریاضی کی اس قابل اور ماہر خاتون نے اپنی لگن اور جستجو کی بدولت ہی نظامِ شمسی کی ایک بہت واضح تصویر پیش کی تھی جس کے ساتھ دریافت کا راستہ آسان ہو گیا۔

    ماہرِ فلکیات پرسیول لوئل نے 1905 میں سیارہ ایکس کی تلاش میں مدد کرنے کے لیے ولیمز کی خدمات حاصل کی تھیں۔ لوئل کا خیال تھا کہ سیارہ ایکس، یورینس اور نیپچون سے آگے کہیں مدار میں چکر لگا رہا ہے۔

    ایلزبتھ ولیمز نے 1903 میں میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے فزکس میں گریجوایشن کی۔ وہ ان چند اور جامعہ کے ابتدائی دور کی خواتین میں سے ایک ہیں‌ جنھوں‌ نے گریجوایشن کی سند حاصل کی تھی۔

    امریکا کی فلکیاتی سوسائٹی کے مطابق، ولیمز کا حساب کتاب ہماری کائنات کے اس سیارے یعنی پلوٹو کی تلاش میں "کلیدی اہمیت” رکھتا ہے۔ اس تلاش کے مکمل ہونے سے پہلے لوئل کی موت واقع ہوگئی جس کے بعد کلائڈ ٹومبوگ نے سیارے کی تلاش جاری رکھی اور 18 فروری 1930 کو پلوٹو ٹھیک اسی مقام پر دریافت ہوا جس کی نشان دہی ولیمز کی راہ نمائی میں لوئل نے کی تھی۔

    کہتے ہیں کہ سیارے ایکس کی تلاش کے لیے درکار پیچیدہ حساب کتاب کرتے وقت باصلاحیت ولیمز انگریزی حروف کو جوڑ کر دائیں ہاتھ سے جب کہ اعداد اور حروف کو علیحدہ علیحدہ اور خوش خطی سے بائیں ہاتھ سے لکھا کرتی تھیں۔

    لوئل فلکیاتی رصد گاہ کی دستاویزات کے مطابق ایلزبتھ ولیمز نے 1922 میں ماہرِ فلکیات، جارج ہیملٹن سے شادی کرلی جس کی وجہ سے لوئل رصد گاہ نے اس جوڑے کو ملازمت سے برخاست کر دیا۔ تب اس جوڑے نے جمیکا میں ہارورڈ کالج کی رصد گاہ میں کام شروع کر دیا۔

    شوہر کے انتقال کے بعد دنیا کی ذہین اور ماہر ریاضی داں ایلزبتھ ولیمز اپنی بہن کے ساتھ رہنے لگیں۔ اس دنیا کو اپنی آنکھوں‌ سے ایک صدی اور ایک سال تک دیکھنے کے بعد ایلزبتھ ولیمز نے 1981 میں ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

  • عقیلہ برلاس کیانی: سائنس اور تحقیق کے میدان کا ایک روشن حوالہ

    عقیلہ برلاس کیانی: سائنس اور تحقیق کے میدان کا ایک روشن حوالہ

    سائنس اور تحقیق کا شعبہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور فعال و سرگرم خواتین سے محروم ہی کہا جائے گا کہ ہمارے یہاں سماجی سائنس ہو یا اس کے دیگر شعبے خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ایسا نہیں ہے کہ ملک میں خواتین نے فزکس، کیمسٹری جیسے مضامین اور دوسرے سائنسی علوم میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد عملی میدان میں قدم نہیں رکھا، مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ہمارے ہاں تسنیم زہرا حسین کو پاکستان کی پہلی سائنس داں مانا جاتا ہے جب کہ عقیلہ برلاس کیانی، عذرا قریشی نے بھی مختلف سائنسی علوم اور تحقیقی شعبوں میں مقام بنایا۔

    ہم بات کر رہے ہیں عقیلہ برلاس کیانی کی جو جامعہ کراچی کی ایک محسن اور نہایت قابل خاتون تھیں۔ 1921 میںٰ پیدا ہونے والی عقیلہ کیانی کے والد کا نام مرزا شاکر حسین برلاس تھا جو وکالت کے پیسے سے وابستہ تھے۔ عقیلہ کیانی کی والدہ کا نام بی بی محمودہ بیگم تھا۔

    عقیلہ کیانی نے سوشیالوجی کے مضمون میں سند حاصل کر کے جامعہ کراچی میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا ۔ ان کا تعلیمی کیریر بہت متاثر کن ہے ۔ انھوں نے 1943 میں آگرہ یونیورسٹی سے بی ۔ اے اور بی۔ ٹی کی ڈگریاں حاصل کی تھیں، مگر مزید پڑھنے کا شوق اور سیکھنے کی لگن تھی اور 1949 میں لندن یونیورسٹی سے تعلیم کے مضمون میں ایم۔ اے کیا۔ یہ تعلیمی سلسلہ یہاں نہ رکا اور 1953 میں انھوں نے امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی سے عمرانیات میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی جس کے دو سال بعد امریکا ہی سے ڈاکٹریٹ کیا۔

    تدریس کے ساتھ خود کو تحقیقی کاموں میں مصروف رکھا اور پھر کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا سے سوشل ورک کے مضمون میں ایم۔ اے کیا۔ امریکا سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد عقیلہ کیانی پاکستان آکر جامعہ کراچی کے سوشیالوجی کے شعبے کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ انھوں نے نصاب کی تیاری اور تحقیقی سرگرمیوں کے حوالے سے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ان کا نام سوشیالوجی، خصوصا دیہاتی زندگی اور علم البشریات کے حوالے سے بھی متعبر جانا جاتا ہے۔

    کراچی یونیورسٹی میں عقیلہ کیانی سوشیالوجی کے شعبے میں چیئرپرسن رہیں۔ وہ صرف ایک استاد ہی نہیں تھیں بلکہ اپنے مضامین اور شعبوں کی فعال ترین شخصیت تھیں اور یہی وجہ ہے کہ مقامی اورغیر ملکی سطح پر سیمینارز اور لیکچرز میں شریک ہوتیں۔

    لندن میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار کلچرل ریسرچ نے سماجی تبدیلیوں اور ثقافت کے موضوع پر اُن کے کام کو نہ صرف سراہا بلکہ انھیں اپنا فیلو مقرر کیا۔ عقیلہ کیانی کا علمی اور تحقیقی کام معتبر اور نہایت وقیع جریدوں میں شایع ہوا۔ ان کا اہم کام سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں سے متعلق تھا جس میں انھوں نے خاص طور پر دیہات کے حوالے سے معاشرت کو سمجھنے کی کوشش کی۔

    انھوں نے عمرِ عزیز کے آخری ایّام کینیڈا میں گزارے۔ نہایت قابل، باصلاحیت استاد اور جامعہ کراچی کی محسن 2012 میں مارچ کے مہینے میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔