Tag: خواتین پر تشدد

  • زمین کے تنازع پر ڈنڈوں، ہنٹروں سے خواتین پر بُری طرح تشدد، ویڈیو وائرل

    زمین کے تنازع پر ڈنڈوں، ہنٹروں سے خواتین پر بُری طرح تشدد، ویڈیو وائرل

    راولپنڈی کے علاقے پلینہ میرا میں زمین کے تنازع پر جھگڑا ہوا جس میں ڈنڈوں اور ہنٹروں سے خواتین کو بُری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق تھانہ گوجر خان کی حدود میں زمین کے تنازع پر جگھڑا ہوا، جہاں خواتین پر بہیمانہ تشدد کیا گیا، خواتین پر ڈنڈوں اور ہنٹروں سے تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    خواتین کو اس طرح ڈنڈوں اور ہنٹروں سے مارنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس کو ایکشن لینا پڑا، متاثرین کی درخواست پر باقاعدہ مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خواتین کو ڈنڈوں، سوٹوں اور تاروں کی مدد سے خواتین کو بری طرح مارا جارہا ہے۔

    تھانہ گوجر خان پولیس نے خواتین کو بری طرح زدوکوب کرنے کا مقدمہ درج کرلیا ہے، مقدمے میں تشدد کرنے والے کئی مردوں سمیت 3 خواتین کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔

  • 2024 میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    2024 میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    پاکستان میں خواتین پر تشدد اور قتل جیسے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے. خواتین اور بچوں پر کام کرنے والی نجی تنظیم ساحل کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں 5112 خواتین کو مختلف قسم کے تشدد کا سامنا رہا۔

    رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ واقعات خواتین کو قتل کرنے کے ہوئے، جن کی تعداد تقریباً 1300 تھی، 21 سے 30 سال تک عمر کی خواتین قتل اور تشدد کا سب سے زیادہ شکار ہوئیں۔ مقدمات میں قتل، اغوا، عصمت دری، ہراسمنٹ اور غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات شامل ہیں۔

    ملک بھر میں سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوئے، پنجاب کے بعد ان واقعات میں سندھ دوسرے نمبر پر رہا، جس کا تناسب 15 فی صد ہے۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • سال 2024 : پاکستان میں غیرت کے نام پر خواتین قتل، ہوشربا انکشاف

    سال 2024 : پاکستان میں غیرت کے نام پر خواتین قتل، ہوشربا انکشاف

    پاکستان میں خواتین پر بہیمانہ تشدد اور غیرت کے نام پر قتل جیسے جرائم کے مقدمات میں اضافے کی خبریں ذرائع ابلاغ میں تواتر سے رپورٹ ہو رہی ہیں۔

    بد قسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں خواتین پر تشدد کے بے شمار واقعات تو رونما ہوتے ہیں لیکن تھانوں میں ان کی رپورٹس کا تناسب اصل تعداد سے بہت کم ہے۔

    پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے متعدد واقعات سامنے آتے رہے ہیں اور ان کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پاکستان میں 2024 میں بھی خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم اور تشدد کی وارداتیں نہ رک سکیں۔

    تاہم کچھ تنظیموں کی جانب سے خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے سبب اب خواتین میں یہ شعور پیدا ہو رہا ہے اور وہ بھی اپنے حق کی آواز کسی نہ کسی حد تک بلند کررہی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن نے اس اہم مسئلے جانب ناظرین کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے اس کے اعداو شمار بیان کیے۔

    انہوں نے بتایا کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں جنوری سے نومبر تک 392 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔

    ان میں سے پنجاب میں 168، سندھ میں 151، خیبر پختونخوا میں 52، بلوچستان میں 19 جب کہ اسلام آباد سے دو کیسز رپورٹ ہوئے۔

    ملک میں گزشتہ برس ریپ کیسز کی تعداد 1970، گھریلو تشدد کے کیسز کی تعداد 299، جلائے جانے کے واقعات 30 اور تیزاب گردی کے 43 کیسز سامنے آئے۔

    اس کے علاوہ سال 2024 میں جبری تبدیلی مذہب کے کیسز کی تعداد 11 جب کہ دیگر واقعات میں ملک بھر میں 980 خواتین کو قتل کیا گیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے کہ جہاں خواتین اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں۔

  • ’’ہمیں ہمارا مرد نہیں مارے گا تو کون مارے گا؟‘‘

    ’’ہمیں ہمارا مرد نہیں مارے گا تو کون مارے گا؟‘‘

    خواتین پر تشدد یا ہراسمنٹ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے، بہت سی خواتین اپنا گھر بچانے کیلئے اس ظلم کو تو برداشت کرتی ہیں لیکن آواز نہیں اٹھاتیں۔

    عورتوں کی اس خاموشی کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اس طرح کے تشدد کو معاشرے میں بڑی حد تک  نارمل سمجھا جاتا ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ملک میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے واقعات سے متعلق ایس ایس پی اے آئی جی جنرل کرائم شہلا قریشی نے تفصیلی گفتگو کی۔

    انہوں نے بتایا کہ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کی سروے رپورٹ کے مطابق 59 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ ہمیں ہمارا مرد نہیں مارے گا تو کون مارے گا؟ بدقسمتی سے ہماری شرح خواندگی کی وجہ سے ہراسمنٹ یا گھریلو تشدد ہونا معمول کی بات ہے پر آگاہی کی بہت ضرورت ہے۔

    اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اے آر وائی نیوز کے کرائم رپورٹر کامل عارف کا کہنا تھا کہ ہراسمنٹ کی بہت سی اقسام ہیں بدقسمتی سے اب صرف خواتین ہی ہراسمنٹ کا شکار نہیں ہوتی اس میں مرد اور بچے بھی شامل ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دماغی طور پر بیمار اور کند ذہن ہیں، جو بچوں کے ساتھ جنسی ذیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

    ہراسمنٹ کے جرم کی سزا کے حوالے سے سوال پر شہلا قریشی نے بتایا کہ عام طور پر ہراسمنٹ کے الزام کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ہراسمنٹ کے مجرم کیخلاف اگر کوئی ٹھوس ثبوت مل جائے تو اس پر پاکستان پینل کوڈ کے اندر سیکشن 509 کا اطلاق ہوتا ہے جس کی سزا 3 سال کی سزا اور 5لاکھ روپے جرمانہ ہے۔

    واضح رہے کہ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 47 فیصد پاکستانی خواتین گھریلو تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔

    این سی ایچ آر کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تشدد کا سلسلہ شادی کے بعد چلتا رہتا ہے، جس کا اکثر خاتمہ طلاق پر ہی ہوتا ہے۔

  • ’عراق، یوکرین، افغانستان میں خواتین متاثر، مقبوضہ کشمیر میں خواتین پر تشدد ہو رہا ہے‘

    ’عراق، یوکرین، افغانستان میں خواتین متاثر، مقبوضہ کشمیر میں خواتین پر تشدد ہو رہا ہے‘

    نیویارک: وزیر خارجہ پاکستان بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عراق، یوکرین اور افغانستان میں خواتین متاثر ہو رہی ہیں، جموں و کشمیر میں بھارت خواتین کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں امن، عورت اور سیکیورٹی کے موضوع پر مباحثے سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے خطاب کیا، انھوں نے کہا کہ خواتین اور بچیاں جنگوں سے براہ راست متاثر ہو رہی ہیں، ہم سب نے مل کر خواتین کے خلاف جرائم کو روکنا ہے۔

    وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ عالمی تنازعات اور جنگوں میں سویلین افراد ٹارگٹ بن رہے ہیں، دنیا کو اس وقت دہشت گردی، جنگ اور نفرت کا سامنا ہے، عام شہری دہشت گردی کا آسان ہدف ہے۔

    انھوں نے کہا خواتین کو ساتھ ملائے بغیر ترقی ممکن نہیں، خواتین کو تعلیم سے آراستہ کر کے معاشرے کا فعال رکن بنانے کی ضرورت ہے، عالمی برادری کو خواتین کے حقوق، تحفظ اور انصاف کی فراہمی کے لیے کام کرنا ہوگا۔

    وزیر خارجہ پاکستان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق خواتین کے حقوق کی قراردادوں پر عمل درآمد ضروری ہے۔

  • خواتین پر تشدد، وزیر اعلیٰ سندھ نے 7 افسران کو معطل کر دیا

    خواتین پر تشدد، وزیر اعلیٰ سندھ نے 7 افسران کو معطل کر دیا

    کراچی: شہر قائد میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران خواتین پر تشدد پر وزیر اعلیٰ سندھ نے 7 افسران کو معطل کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے غازی گوٹھ میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران خواتین پر تشدد کرنے پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 7 افسران کو معطل کر دیا ہے۔

    معطل افسران میں ڈی ایس پی، ایس ایچ او سچل، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہشام مظہر، اسسٹنٹ کمشنر گلزار ہجری ندیم قادر، مختیارکار گلزار ہجری جلیل بروہی، تپہ دار گلزار ہجری عاشق تنیو، انچارج اینٹی انکروچمنٹ ایسٹ محمد احمد شامل ہیں۔

    تشدد میں ملوث افسران کے خلاف ایکشن سچل غازی گوٹھ آپریشن کے بعد ڈپٹی کمشنر ایسٹ کی رپورٹ پر کیا گیا، شروع میں ڈی ایس پی اور ایس ایچ او سچل کو معطل کیا گیا تھا، اب پانچ مزید افسران کو معطل کیا گیا ہے۔

    چیف سیکریٹری سندھ سہیل راجپوت کی جانب سے معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا، سندھ حکومت نے کمشنر محمد اقبال میمن کو انکوائری افسر مقرر کر کے 3 دن میں رپورٹ طلب کر لی۔

    نوٹیفکیشن میں کمشنر کراچی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اینٹی انکروچمنٹ کے آپریشن اور افسران کے کردار پر تفتیش کریں، اور ملوث افسران کا کردار رپورٹ میں واضح کریں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ انکوائری رپورٹ کے بعد ملوث افسران کے خلاف مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی، کمشنر کراچی کی جانب سے تین روز میں انکوائری مکمل کر کے رپورٹ جمع کرائی جائے گی۔

  • وزیر قانون پنجاب کا صوبے بھر میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے واقعات پر سخت تشویش کا اظہار

    وزیر قانون پنجاب کا صوبے بھر میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے واقعات پر سخت تشویش کا اظہار

    لاہور : وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے صوبے میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی ،پراسیکیوشن گرفتاریوں،چالان ، تفتیش کی مکمل تفصیل دیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر قانون پنجاب کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی لااینڈآرڈر کا82 واں اجلاس ہوا ، جس میں پنجاب میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔

    راجہ بشارت نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سےلیکرنچلی سطح تک خواتین کیخلاف جرائم پرتشویش ہے، خواتین کیخلاف جرائم میں گرفتاریوں ،تفتیش سے مطمئن نہیں، رپورٹس کے مطابق خواتین کیخلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔

    ایف آئی آر کے اندراج میں انکار یا تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی، آئی جی ،پراسیکیوشن گرفتاریوں،چالان ،تفتیش کی مکمل تفصیل دیں، صدر راولپنڈی میں سنگین جرائم کی شرح میں خطرناک اضافہ دیکھا جا رہا ہے ، قصور میں بچوں سے زیادتی کے واقعات پرملزمان کاسخت محاسبہ کریں۔

    کابینہ کمیٹی لااینڈآرڈر کے اجلاس میں صوبہ بھر میں پرائس مجسٹریٹس کی تعیناتی کی منظور ی بھی دی۔

  • ‘اب خواتین پر تشدد کرنیوالے کو 5 سال تک قید کی سزا ہوگی’

    ‘اب خواتین پر تشدد کرنیوالے کو 5 سال تک قید کی سزا ہوگی’

    پشاور : خواتین پر گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل منظور کرلیا گیا ، جس کے تحت خواتین پر تشدد کرنیوالے کو پانچ سال تک قید کی سزا ہوگی
    جبکہ گھریلو تشدد واقعات کی رپورٹ کیلئے ہیلپ لائن قائم کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا اسمبلی میں خواتین پر گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل منظور کرلیا گیا ، جس کے تحت خواتین پر تشدد کرنیوالے کیخلاف پانچ سال تک قید کی سزا ہوگی۔

    بل میں کہا گیا ہے کہ معاشی، نفسیاتی و جنسی دباؤخواتین پر تشدد کے زمرے میں آئیں گے جبکہ بل کے تحت ضلعی تحفظاتی کمیٹی بنائی جائے گی، کمیٹی متاثرہ خاتون کو طبی امداد،پناہ گاہ، مقول معاونت فراہم کرے گی۔

    بل کے مطابق گھریلو تشدد واقعات کی رپورٹ کیلئے ہیلپ لائن قائم کیا جائے گا، تشدد پر15دن کے اندر عدالت میں درخواست جمع کرائی جائے گی اور عدالت کیس کا فیصلہ 2ماہ میں سنانے کی پابندہوگی۔

    بل میں کہا گیا عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی پر بھی 1سال قید اور 3لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔

    خیال رہے 2018 میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے صوبہ خیبر پختونخوا میں موبائل ایپلیکیشن متعارف کروائی گئی تھی ، موبائل ایپلیکیشن کا استعمال انٹرنیٹ کے ساتھ اور بغیر دونوں طریقے سے کیا جاسکتا ہے۔

    آسٹریلین ڈپٹی ہائی کمشنر برک بیٹلی نے بتایا تھا کہ موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے خواتین آسانی سے عورتوں کے صوبائی کمیشن سے رابطہ کر سکیں گی، اْمید کرتے ہیں کہ یہ موبائل ایپلیکیشن صوبہ خیبر پختونخوا میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرے گی اور جس سے خواتین کی حفاظت اور فلاح میں بہتری آئے گی۔

  • لاک ڈاؤن: گھریلو تشدد کی نئی کہانیاں‌ رقم ہونے لگیں

    لاک ڈاؤن: گھریلو تشدد کی نئی کہانیاں‌ رقم ہونے لگیں

    کرونا کی وبا نے دنیا کو  لاک ڈاؤن پر مجبور کیا تو جہاں سماجی اور تجارتی سرگرمیاں بندش کی نذر  ہوئیں وہیں روزگار سمیت کئی مسائل نے سَر اٹھا لیا، جس کے بعد گھروں میں بدسلوکی تشدد کے واقعات میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔

    چین سے لے کر فرانس اور اٹلی سے اسپین تک، جرمنی سے برازیل اور دنیا بھر میں یہ وبا تلخیوں، رنجشوں کی وجہ بھی بنی ہے جس کے ساتھ ساتھ گھروں میں تشدد اور بدسلوکی کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔

    اقوامِ متحدہ اور عالمی خبر رساں ادارو ں کی رپورٹوں کے مطابق ہر عمر کی خواتین اور بچے بھی تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بنے ہیں۔

    اگر بات کریں چین کی جہاں سے یہ وبا دنیا بھر میں پھیلی تو اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ  صرف صوبے ہوبئی میں لاک ڈاؤن کے دوران تشدد کے واقعات میں تین گنا اضافہ ہوا۔ 

    برازیل میں گھریلو تشدد کے واقعات میں 40 سے 50 فی صد اضافہ ہوا اور ریوڈی جنیرو جیسے شہر میں خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئیں۔ اسی طرح چلی میں لاک ڈاؤن کا پہلا ہفتہ تشدد کی شرح میں‌ 70 فی صد اضافے کے ساتھ تمام ہوا۔ جرائم کے حوالے سے بدنام میکسیکو کے اعداد و شمار بتاتے ہیں‌ کہ وبا کے دنوں‌ میں‌ تشدد کے واقعات میں پچھلے سال کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔ کولمبیا میں لاک ڈاؤن کے دوران ہیلپ لائن پر تشدد اور بدسلوکی کی شکایات میں 130 فی صد اضافہ بتایا جاتا ہے۔

    آسٹریلوی حکومت کے مطابق گھروں‌ میں تشدد اور بدسلوکی سے بچنے میں‌ مددگار مضامین اور مختلف طریقے انٹرنیٹ پر سرچ کیے جارہے ہیں اور اس میں‌ 75 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

    جنوبی افریقا میں لاک ڈاؤن کا پہلا ہفتہ گھریلو تشدد کی 90 ہزار رپورٹوں کے ساتھ تمام ہوا جو متعلقہ ادارے کو موصول ہوئیں۔ اسپین میں جہاں کرونا کے متاثرین کی تعداد بڑھتی رہی، وہیں گھریلو تشدد اور قتل کی رپورٹیں بھی درج ہوئیں۔ فرانس میں لاک ڈاؤن کے دوران مار پیٹ اور تشدد کے مختلف واقعات میں 33 فی صد اضافہ ہوا اور 18 سے 75 تک کی عورتیں اس کا نشانہ بنیں۔ برطانیہ میں گھریلو تشدد میں‌ 65 فی صد اضافہ ہوا جب کہ ارجنٹینا میں بدسلوکی اور تشدد کے حوالے سے اعداد و شمار میں‌ 67 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

     برطانوی اخبار کے مطابق لاطینی امریکا کے بڑے ممالک میکسیکو اور برازیل میں عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

  • کبیروالا میں ایک سال قبل اغوا ہونے والی شادی شدہ خاتون کو زندہ جلا دیا گیا

    کبیروالا میں ایک سال قبل اغوا ہونے والی شادی شدہ خاتون کو زندہ جلا دیا گیا

    کبیروالا: پنجاب کے ضلع خانیوال کے علاقے کبیر والا سے ایک سال قبل اغوا ہونے والی خاتون کو زندہ جلا دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ضلع خانیوال میں کبیروالا کے علاقے گوپال پور سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والی شادی شدہ خاتون حمیرا کو احمد پور سیال میں زندہ جلا دیا گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق شادی شدہ خاتون حمیرا کو ایک سال قبل پنجاب کے ضلع خانیوال میں کبیر والا کے علاقے گوپال پور سے اغوا کیا گیا تھا، گزشتہ روز خاتون کو ضلع جھنگ کے علاقے احمد پور سیال میں اغواکاروں نے پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ حمیرا نامی خاتون کے اغوا اور زندہ جلائے جانے کے واقعے کا مقدمہ مبینہ اغوا کاروں کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  اوکاڑہ: 70 سالہ خاتون پر بہیمانہ تشدد، ملزمان ویڈیو بھی بناتے رہے

    اطلاعات کے مطابق آگ لگنے کی وجہ سے حمیرا بری طرح جھلس کر جاں بحق ہو گئی تھی جس کے بعد حمیرا بی بی کو دفنایا جا رہا تھا تاہم پولیس احمد پور سیال نے اطلاع ملنے پر کارروائی کرتے ہوئے تدفین رکوا دی۔

    یاد رہے گزشتہ روز صوبہ پنجاب کے شہر ضلع اوکاڑہ کے ایک نواحی گاؤں میں 70 سال کی خاتون، ان کی بیٹی اور پوتے پر بہیمانہ تشدد کی ویڈیو وائرل ہو گئی تھی، شقی القلب ملزمان کو معمر خاتون پر بھی بہیمانہ تشدد سے کوئی چیز نہ روک سکی، بد بخت ملزمان تشدد کی ویڈیو بھی بناتے رہے۔